20 Rakaat Taraweeh Padhne wale Ka Dawa Kitna Shahi Aur Kitna Jhoot Hai?
Kya Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe Wasallam Isha Ke Bad 20 Rakaat Namaj Padhte They ya 11 Rakat Ka Jayeza.
تحریر: علامہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی
بسم الله الرحمٰن الرحيم
الحمد لله و حده و الصلوة والسلام على من لانبي بعده أما بعد
ہمارے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
تحریر: علامہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی
بسم الله الرحمٰن الرحيم
الحمد لله و حده و الصلوة والسلام على من لانبي بعده أما بعد
ہمارے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
دلیل نمبر ➊
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔“ الخ [صحيح مسلم : 254/1 ح 736]
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔“ الخ [صحيح مسلم : 254/1 ح 736]
دلیل نمبر ➋
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمض ان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ۔ [صحيح بخاري : 229/1 ح 2013، عمدة القاري : 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمض ان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ۔ [صحيح بخاري : 229/1 ح 2013، عمدة القاري : 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
ایک اعتراض :
اس حدیث کا تعلق تہجد کے ساتھ ہے ؟
جواب : تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً :
● صحیح بخاری، كتاب الصوم (روزے کی کتاب) كتاب صلوة التراويح (تراویح کی کتاب) باب فضل من قام رمضان (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی : [ص 141] ، باب قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے :
قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح
یعنی : قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان۔
دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً :
◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه : 153/2]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه : 203/1]
◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير : 467/1، طبع دار الفكر]
◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري : 128/11]
◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف : ص 64 باختلاف يسير]
دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ :
جواب : تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً :
● صحیح بخاری، كتاب الصوم (روزے کی کتاب) كتاب صلوة التراويح (تراویح کی کتاب) باب فضل من قام رمضان (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی : [ص 141] ، باب قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے :
قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح
یعنی : قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان۔
دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً :
◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه : 153/2]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه : 203/1]
◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير : 467/1، طبع دار الفكر]
◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري : 128/11]
◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف : ص 64 باختلاف يسير]
دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ :
تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں، ان کا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 رکعات تراویح [3، 20] پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد [3، 8] پڑھی۔ (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے)
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا وتران فى ليلة ”ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔“ [ترمذي : 107/1 ح 470، ابوداود : 1439، نسائي : 1678، صحيح ابن خزيمه : 1101، صحيح ابن حبان : 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا :
هذا حديث حسن غريب
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے : [فیض الباری 420/2] ، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کے لئے دیکھئے : [فیض الباری 420/2]
دلیل ⑨ متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نماز تراویح پڑھ لی ہو۔ [قيام الليل للمروزي : بحواله فيض الباري : 420/2]
↰ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔
دلیل ⑩ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی روایت : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات والوتر الخ بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آ رہا ہے، لہٰذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔
وتلك عشرة كاملة۔
——————
دلیل نمبر ➌
❀ سیدنا جابر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نماز پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے الخ۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070، صحيح ابن حبان [الاحسان] 62، 64/4 ح : 2401، 2406]
ایک اعتراض :
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا وتران فى ليلة ”ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔“ [ترمذي : 107/1 ح 470، ابوداود : 1439، نسائي : 1678، صحيح ابن خزيمه : 1101، صحيح ابن حبان : 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا :
هذا حديث حسن غريب
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے : [فیض الباری 420/2] ، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کے لئے دیکھئے : [فیض الباری 420/2]
دلیل ⑨ متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نماز تراویح پڑھ لی ہو۔ [قيام الليل للمروزي : بحواله فيض الباري : 420/2]
↰ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔
دلیل ⑩ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی روایت : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات والوتر الخ بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آ رہا ہے، لہٰذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔
وتلك عشرة كاملة۔
——————
دلیل نمبر ➌
❀ سیدنا جابر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نماز پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے الخ۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070، صحيح ابن حبان [الاحسان] 62، 64/4 ح : 2401، 2406]
ایک اعتراض :
اس کی سند میں محمد بن حمید الرازی کذاب ہے۔ [مختصر قيام الليل للمروزي ص 197]
جواب : اس حدیث کو یعقوب بن عبداللہ القمی سے محمد بن حمید کے علاوہ اور بھی بہت سے راویوں نے بیان کیا ہے، مثلاً :
① جعفر بن حمید الکوفی۔ [الكامل لابن عدي : 1889/5، المعجم الصغير للطبراني : 190/1]
② ابوالربیع۔ [الزهراني /مسند ابي يعلي الموصلي : 336/3، 337 ح : 1801، صحيح ابن حبان ح : 2401، 2406]
③ عبدالاعلی بن حماد۔ [مسند ابي يعلي : 336/3 ح 1801، الكامل لابن عدي : 1888/5]
④ مالک بن اسماعیل۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070]
⑤ عبید اللہ یعنی ابن موسی۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070]
↰ یہ سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں، لہٰذا محمد بن حمید پر اعتراض غلط اور مردود ہے۔
جواب : اس حدیث کو یعقوب بن عبداللہ القمی سے محمد بن حمید کے علاوہ اور بھی بہت سے راویوں نے بیان کیا ہے، مثلاً :
① جعفر بن حمید الکوفی۔ [الكامل لابن عدي : 1889/5، المعجم الصغير للطبراني : 190/1]
② ابوالربیع۔ [الزهراني /مسند ابي يعلي الموصلي : 336/3، 337 ح : 1801، صحيح ابن حبان ح : 2401، 2406]
③ عبدالاعلی بن حماد۔ [مسند ابي يعلي : 336/3 ح 1801، الكامل لابن عدي : 1888/5]
④ مالک بن اسماعیل۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070]
⑤ عبید اللہ یعنی ابن موسی۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070]
↰ یہ سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں، لہٰذا محمد بن حمید پر اعتراض غلط اور مردود ہے۔
دوسرا اعتراض :
اس کی سند میں یعقوب القمی ضعیف ہے، اس کے بارے میں امام دارقطنی نے کہا ليس بالقوي
جواب : یعقوب القمی ثقہ ہے، اسے جمہور علماء نے ثقہ قرار دیا ہے۔
① نسائی نے کہا: لیس بہ باس
② ابوالقاسم الطبرانی نے کہا: ثقه
③ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (اور اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ )
④ جریر بن عبدالحمید اسے مومن آل فرعون کہتے تھے۔
⑤ ابن مہدی نے اس سے روایت بیان کی ہے۔ [تهذيب التهذيب : 342/11، 343] ◈ اور ابن مہدی صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں . [تدريب الراوي : 317/1 وغيره]
⑥ حافظ ذہبی نے کہا: صدوق۔ [الكاشف : 255/3]
⑦ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
⑧ نور الدین الہیثمی نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
⑨ امام بخاری رحمه الله نے تعلیقات میں اس سے روایت لی ہے اور اپنی ”التاریخ الکبیر“ [391/8 ح : 3443] میں اس پر طعن نہیں کیا لہٰذا وہ ان کے نزدیک بقول تھانوی ثقہ ہے۔ دیکھئے : قواعد فی علوم الحدیث [ص 136، ظفر احمد تهانوي]
⑩ حافظ ابن حجر نے فتح الباری [12/3 تحت ح : 1129] میں اس کی منفرد حدیث پر سکوت کیا ہے اور یہ سکوت (دیوبندیوں کے نزدیک) اس کی تحسین حدیث کی دلیل ہے۔ [قواعد فى علوم الحديث ص 55 وغيرهم]
وتلك عشرة كامله
جواب : یعقوب القمی ثقہ ہے، اسے جمہور علماء نے ثقہ قرار دیا ہے۔
① نسائی نے کہا: لیس بہ باس
② ابوالقاسم الطبرانی نے کہا: ثقه
③ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (اور اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ )
④ جریر بن عبدالحمید اسے مومن آل فرعون کہتے تھے۔
⑤ ابن مہدی نے اس سے روایت بیان کی ہے۔ [تهذيب التهذيب : 342/11، 343] ◈ اور ابن مہدی صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں . [تدريب الراوي : 317/1 وغيره]
⑥ حافظ ذہبی نے کہا: صدوق۔ [الكاشف : 255/3]
⑦ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
⑧ نور الدین الہیثمی نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
⑨ امام بخاری رحمه الله نے تعلیقات میں اس سے روایت لی ہے اور اپنی ”التاریخ الکبیر“ [391/8 ح : 3443] میں اس پر طعن نہیں کیا لہٰذا وہ ان کے نزدیک بقول تھانوی ثقہ ہے۔ دیکھئے : قواعد فی علوم الحدیث [ص 136، ظفر احمد تهانوي]
⑩ حافظ ابن حجر نے فتح الباری [12/3 تحت ح : 1129] میں اس کی منفرد حدیث پر سکوت کیا ہے اور یہ سکوت (دیوبندیوں کے نزدیک) اس کی تحسین حدیث کی دلیل ہے۔ [قواعد فى علوم الحديث ص 55 وغيرهم]
وتلك عشرة كامله
تیسرا اعتراض :
اس روایت کی سند میں عیسی بن جاریہ ضعیف ہے، اس پر ابن معین، الساجی، العقیلی، ابن عدی اور ابوداود نے جرح کی ہے، بعض نے منکر الحدیث بھی لکھا ہے۔
جواب : عیسی بن جاریہ جمہور علماء کے نزدیک ثقہ، صدوق یا حسن الحدیث ہیں۔
① ابوزرعہ نے کہا: لا باس به
② ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔
③ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔
④ الہیثمی نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔ [مجمع الزوائد : 72/2] ◈ اور اسے ثقہ کہا۔ [مجمع الزوائد : 185/2]
⑤ البوصیری نے زوائد سنن ابن ماجہ میں اس کی حدیث کی تحسین کی ہے۔ [ديكهئے حديث : 4241]
⑥ الذہبی نے اس کی منفرد حدیث کے بارے میں اسناده وسط کہا۔
⑦ بخاری نے التاریخ الکبیر [385/6] میں اسے ذکر کیا ہے اور اس پر طعن نہیں کیا۔
⑧ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی حدیث پر سکوت کیا۔ [10/3 تحت ح : 1129]
⑨ حافظ منذری نے اس کی ایک حدیث کو باسناد جيد کہا۔ [الترغيب و الترهيب : 507/1]
⑩ ابوحاتم الراز ی نے اسے ذکر کیا اور اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ [ديكهئے الجرح و التعديل : 273/6]
↰ ابوحاتم کا سکوت (دیوبندیوں کے نزدیک) راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ [قواعد فى علوم الحديث : ص 247]
لہٰذا یہ سند حسن ہے۔
تلك عشرة كاملة
——————
دلیل نمبر ➍
❀ جناب ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :
میں نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے، رمضان میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ (رد) بھی نہیں فرمایا فكانت سنة الرضا ”پس یہ رضامندی والی سنت بن گئی۔“ [مسند ابي يعلي : 236/3، ح 1801]
◈ علامہ ہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا :
رواه أبو يعلي و الطبراني بنحوه فى الأوسط وإسناده حسن
”اسے ابویعلی نے روایت کیا اور اسے طرح طبرانی نے اوسط میں روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے۔“ [مجمع الزوائد : 74/2]
↰ اس حدیث کی سند وہی ہے جو کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ہے، دیکھئے ص : 5، جناب مولوی سرفراز صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : ”اپنے وقت میں اگر علامہ ہیثمی کو صحت اور سقم کی پرکھ نہیں، تو اور کس کو تھی ؟“ [احسن الكلام : 233/1، توضيح الكلام : 279/1]
——————
دلیل نمبر ➎
❀ سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں رات کے وقت) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ [مؤطا امام مالك : 114/1، ح : 249، السنن الكبري للبيهقي : 496/2] یہ حدیث بہت سی کتابوں میں موجود ہے، مثلاً :
① شرح معانی الآثار [293/1 واحتج به]
② المختارہ للحافظ ضیاء المقدسی [بحواله كنزالعمال : 407/8 ح 23465]
③ معرفۃ السنن والآثار للبیہقی [ق 367/2، 368 مطبوع : 305/2 ح 1366 ب]
④ قیام اللیل للمروزی [ص200]
⑤ مصنف عبدالرزاق [بحواله كنز العمال : ح23465]
⑥ مشکوۃ المصابیح [ص115 ح : 1302]
⑦ شرح السنہ للبغوی [120/4 تحت ح : 990]
⑧ المہذب فی اختصار السنن الکبیر للذہبی [461/2]
⑨ کنزالعمال [407/8 ح 23465]
⑩ السنن الکبری للنسائی [113/3 ح 4687] وغیرہم۔
اس فاروقی حکم کی سند بالکل صحیح ہے۔
دلیل ① اس کے تمام راوی زبردست قسم کے ثقہ ہیں۔
دلیل ② اس سند کے کسی راوی پر کوئی جرح نہیں ہے۔
دلیل ③ اسی سند کے ساتھ ایک روایت صحیح بخاری کتاب الحج میں بھی موجود ہے۔ [ح 1858]
دلیل ④ شاہ ولی اللہ الدہلوی نے ”اہل الحدیث“ سے نقل کیا ہے کہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ [حجة الله البالغه : 241/2 اردو]
دلیل ⑤ جناب طحاوی حنفی نے لهذا يدل کہہ کہ یہ اثر بطور حجت پیش کیا ہے۔ [معاني الاثار : 193/1]
دلیل ⑥ ضیاء المقدسی نے المختارہ میں یہ اثر لا کر اس کا صحیح ہونا ثابت کر دیا ہے۔ دیکھئے : [اختصار علوم الحدیث ص : 77]
دلیل ⑦ امام ترمذ ی نے اس جیسی ایک سند کے بارے میں کہا: حسن صحيح [ح926]
دلیل ⑧ اس روایت کو متقدمین میں سے کسی ایک محدث نے بھی ضعیف نہیں کہا۔
دلیل ⑨ علامہ باجی رحمہ اللہ نے اس اثر کو تسلیم کیا ہے۔ [موطا بشرح الزرقاني : 238/1 ح 249]
دلیل ⑩ مشہور غیر اہل حدیث محمد بن علی النیموی [متوفی 322ھ] نے اس روایت کے بارے میں کہا:
واسناده صحيح [آثار السنن ص 250] اور اس کی سند صحیح ہے۔
(لہذا بعض متعصب لوگوں کا پندرہویں صدی میں اسے مضطرب کہنا باطل اور بے بنیاد ہے۔ )
جواب : عیسی بن جاریہ جمہور علماء کے نزدیک ثقہ، صدوق یا حسن الحدیث ہیں۔
① ابوزرعہ نے کہا: لا باس به
② ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔
③ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔
④ الہیثمی نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔ [مجمع الزوائد : 72/2] ◈ اور اسے ثقہ کہا۔ [مجمع الزوائد : 185/2]
⑤ البوصیری نے زوائد سنن ابن ماجہ میں اس کی حدیث کی تحسین کی ہے۔ [ديكهئے حديث : 4241]
⑥ الذہبی نے اس کی منفرد حدیث کے بارے میں اسناده وسط کہا۔
⑦ بخاری نے التاریخ الکبیر [385/6] میں اسے ذکر کیا ہے اور اس پر طعن نہیں کیا۔
⑧ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی حدیث پر سکوت کیا۔ [10/3 تحت ح : 1129]
⑨ حافظ منذری نے اس کی ایک حدیث کو باسناد جيد کہا۔ [الترغيب و الترهيب : 507/1]
⑩ ابوحاتم الراز ی نے اسے ذکر کیا اور اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ [ديكهئے الجرح و التعديل : 273/6]
↰ ابوحاتم کا سکوت (دیوبندیوں کے نزدیک) راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ [قواعد فى علوم الحديث : ص 247]
لہٰذا یہ سند حسن ہے۔
تلك عشرة كاملة
——————
دلیل نمبر ➍
❀ جناب ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :
میں نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے، رمضان میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ (رد) بھی نہیں فرمایا فكانت سنة الرضا ”پس یہ رضامندی والی سنت بن گئی۔“ [مسند ابي يعلي : 236/3، ح 1801]
◈ علامہ ہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا :
رواه أبو يعلي و الطبراني بنحوه فى الأوسط وإسناده حسن
”اسے ابویعلی نے روایت کیا اور اسے طرح طبرانی نے اوسط میں روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے۔“ [مجمع الزوائد : 74/2]
↰ اس حدیث کی سند وہی ہے جو کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ہے، دیکھئے ص : 5، جناب مولوی سرفراز صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : ”اپنے وقت میں اگر علامہ ہیثمی کو صحت اور سقم کی پرکھ نہیں، تو اور کس کو تھی ؟“ [احسن الكلام : 233/1، توضيح الكلام : 279/1]
——————
دلیل نمبر ➎
❀ سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں رات کے وقت) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ [مؤطا امام مالك : 114/1، ح : 249، السنن الكبري للبيهقي : 496/2] یہ حدیث بہت سی کتابوں میں موجود ہے، مثلاً :
① شرح معانی الآثار [293/1 واحتج به]
② المختارہ للحافظ ضیاء المقدسی [بحواله كنزالعمال : 407/8 ح 23465]
③ معرفۃ السنن والآثار للبیہقی [ق 367/2، 368 مطبوع : 305/2 ح 1366 ب]
④ قیام اللیل للمروزی [ص200]
⑤ مصنف عبدالرزاق [بحواله كنز العمال : ح23465]
⑥ مشکوۃ المصابیح [ص115 ح : 1302]
⑦ شرح السنہ للبغوی [120/4 تحت ح : 990]
⑧ المہذب فی اختصار السنن الکبیر للذہبی [461/2]
⑨ کنزالعمال [407/8 ح 23465]
⑩ السنن الکبری للنسائی [113/3 ح 4687] وغیرہم۔
اس فاروقی حکم کی سند بالکل صحیح ہے۔
دلیل ① اس کے تمام راوی زبردست قسم کے ثقہ ہیں۔
دلیل ② اس سند کے کسی راوی پر کوئی جرح نہیں ہے۔
دلیل ③ اسی سند کے ساتھ ایک روایت صحیح بخاری کتاب الحج میں بھی موجود ہے۔ [ح 1858]
دلیل ④ شاہ ولی اللہ الدہلوی نے ”اہل الحدیث“ سے نقل کیا ہے کہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ [حجة الله البالغه : 241/2 اردو]
دلیل ⑤ جناب طحاوی حنفی نے لهذا يدل کہہ کہ یہ اثر بطور حجت پیش کیا ہے۔ [معاني الاثار : 193/1]
دلیل ⑥ ضیاء المقدسی نے المختارہ میں یہ اثر لا کر اس کا صحیح ہونا ثابت کر دیا ہے۔ دیکھئے : [اختصار علوم الحدیث ص : 77]
دلیل ⑦ امام ترمذ ی نے اس جیسی ایک سند کے بارے میں کہا: حسن صحيح [ح926]
دلیل ⑧ اس روایت کو متقدمین میں سے کسی ایک محدث نے بھی ضعیف نہیں کہا۔
دلیل ⑨ علامہ باجی رحمہ اللہ نے اس اثر کو تسلیم کیا ہے۔ [موطا بشرح الزرقاني : 238/1 ح 249]
دلیل ⑩ مشہور غیر اہل حدیث محمد بن علی النیموی [متوفی 322ھ] نے اس روایت کے بارے میں کہا:
واسناده صحيح [آثار السنن ص 250] اور اس کی سند صحیح ہے۔
(لہذا بعض متعصب لوگوں کا پندرہویں صدی میں اسے مضطرب کہنا باطل اور بے بنیاد ہے۔ )
سنت خلفائے راشدین
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فمن أدرك منكم فعليه بسنتي و سنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجد
پس تم میں سے جو یہ (اختلاف) پائے تو اس پر (لازم) ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین مھدیین کی سنت کو لازم پکڑ لے، اسے اپنے دانتوں کے ساتھ (مضبوط) پکڑ لو۔ [سنن ترمذي : 96/2 ح 2676]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا : هذا حديث حسن صحيح
↰ یاد رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ راشد ہونا نص صحیح سے ثابت ہے اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فمن أدرك منكم فعليه بسنتي و سنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجد
پس تم میں سے جو یہ (اختلاف) پائے تو اس پر (لازم) ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین مھدیین کی سنت کو لازم پکڑ لے، اسے اپنے دانتوں کے ساتھ (مضبوط) پکڑ لو۔ [سنن ترمذي : 96/2 ح 2676]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا : هذا حديث حسن صحيح
↰ یاد رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ راشد ہونا نص صحیح سے ثابت ہے اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اقتدوا بالذين من بعدي أبى بكر و عمر
میرے بعد ان دو شخصوں ابوبکر اور عمر کی اقتداء (اطاعت) کرنا۔ [سنن ترمذي : 207/2 ح 3662، ابن ماجه : 97]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا : ھذا حدیث حسن
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ فاروقی حکم بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہے، جبکہ مرفوع احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہیں اور ایک بھی صحیح مرفوع حدیث اس کے مخالف نہیں ہے۔
——————
دلیل نمبر ➏
❀ جناب السائب بن یزید (صحابی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يا حدي عشرة ركعة۔۔۔ إلخ
ہم (یعنی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے، الخ۔ [سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي : 349/1 وحاشيه آثار السنن ص 250]
↰ اس روایت کے تمام راوی جمہو رکے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔
جناب جلال الدین سیوطی رحمه الله [متوفی911ھ] اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
وفي مصنف سعيد بن منصور بسند فى غاية الصحة
اور یہ (گیارہ رکعات والی روایت) مصنف سعید بن منصور میں بہت صحیح سند کے ساتھ ہے۔ [المصابيح فى صلوة التراويح للسيوطي : ص 15، الحاوي للفتاوي : 350/1]
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔
——————
دلیل نمبر ➐
❀ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
إن عمر جمع الناس على أبى و تميم فكانا يصليان إحدي عشرة ركعة الخ
بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی (بن کعب) اور تمیم (الداری) رضی اللہ عنہما پر جمع کیا، پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ [392/2 ح 7670]
↰ اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور اس کے سار ے راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ہیں اور بالاجماع ثقہ ہیں۔
——————
دلیل نمبر ➑
❀ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیس رکعات تراویح قطعا ثابت نہیں ہے۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ :
وأما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه إتفاق
اور بیس رکعات والی جو روایت ہے، وہ ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ [العرف الشذي : 166/1]
↰ لہٰذا بیس رکعات والی روایت کو امت مسلمہ کا ”تلقی بالرد“ حاصل ہے یعنی امت نے اسے بالاتفاق رد کر دیا ہے۔
◈ طحطاوی حنفی اور محمد احسن نانوتوی کہتے ہیں کہ :
لأن النبى عليه الصلوة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني
”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔“ [حاشيه الطحطاوي على الدر المختار : 295/1 واللفظ له، حاشيه كنزالدقائق : ص36 حاشيه : 4]
◈ خلیل احمد سہارنپوری نے کہا:
”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعات ہونا تو باتفاق ہے۔“ [براهين قاطعه : ص195]
◈ عبدالشکور لکھنوی نے کہا:
”اگر چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت سی رکعت بھی۔۔۔۔“ [علم الفقه : ص198]
↰ یہ حوالے بطور الزام پیش کئے گئے ہیں۔
——————
دلیل نمبر ➒
❀ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے باسند صحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہے۔ یحیی بن سعید الانصاری اور یزید بن رومان کی روایتیں منقطع ہیں (اس بات کا اعتراف حنفی و تقلیدی علماء نے بھی کیا ہے۔ ) اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ نہ تو خلیفہ کا حکم ہے اور نہ خلیفہ کا عمل اور نہ خلیفہ کے سامنے لوگوں کا عمل، ضعیف و منقطع روایات کو وہی شخص پیش کرتا ہے جو خود ضعیف اور منقطع ہوتا ہے۔
——————
دلیل نمبر ➓
❀ کسی ایک صحابی سے باسند صحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
وتلك عشرة كاملة
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سنت خلفائے راشدین اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہ ہے۔
◈ امام ابوبکر بن العربی (متوفی 543ھ) نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :
والصحيح أن يصلي إحدي عشرة ركعة صلاة النبى صلى الله عليه وسلم و قيامه فأما غير ذلك من الأعداد فلا أصل له
”اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہیے (یہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قیام ہے، اور اس کے علاوہ جو اعداد ہیں تو ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔“ [عارضة الاحوذي شرح الترمذي : 19/4]
◈ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الذى آخذ لنفسي فى قيام رمضان، هو الذى جمع به عمر بن الخطاب الناس إحدي عشرة ركعة وهى صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أدري من أحدث هذا الركوع الكثير
”میں تو اپنے لئے گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) کا قائل ہوں اور اسی پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتہ نہیں کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں ؟“ [كتاب التهجد : ص 176 ح 890، دوسرا نسخه : ص287]
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اقتدوا بالذين من بعدي أبى بكر و عمر
میرے بعد ان دو شخصوں ابوبکر اور عمر کی اقتداء (اطاعت) کرنا۔ [سنن ترمذي : 207/2 ح 3662، ابن ماجه : 97]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا : ھذا حدیث حسن
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ فاروقی حکم بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہے، جبکہ مرفوع احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہیں اور ایک بھی صحیح مرفوع حدیث اس کے مخالف نہیں ہے۔
——————
دلیل نمبر ➏
❀ جناب السائب بن یزید (صحابی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يا حدي عشرة ركعة۔۔۔ إلخ
ہم (یعنی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے، الخ۔ [سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي : 349/1 وحاشيه آثار السنن ص 250]
↰ اس روایت کے تمام راوی جمہو رکے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔
جناب جلال الدین سیوطی رحمه الله [متوفی911ھ] اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
وفي مصنف سعيد بن منصور بسند فى غاية الصحة
اور یہ (گیارہ رکعات والی روایت) مصنف سعید بن منصور میں بہت صحیح سند کے ساتھ ہے۔ [المصابيح فى صلوة التراويح للسيوطي : ص 15، الحاوي للفتاوي : 350/1]
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔
——————
دلیل نمبر ➐
❀ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
إن عمر جمع الناس على أبى و تميم فكانا يصليان إحدي عشرة ركعة الخ
بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی (بن کعب) اور تمیم (الداری) رضی اللہ عنہما پر جمع کیا، پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ [392/2 ح 7670]
↰ اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور اس کے سار ے راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ہیں اور بالاجماع ثقہ ہیں۔
——————
دلیل نمبر ➑
❀ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیس رکعات تراویح قطعا ثابت نہیں ہے۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ :
وأما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه إتفاق
اور بیس رکعات والی جو روایت ہے، وہ ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ [العرف الشذي : 166/1]
↰ لہٰذا بیس رکعات والی روایت کو امت مسلمہ کا ”تلقی بالرد“ حاصل ہے یعنی امت نے اسے بالاتفاق رد کر دیا ہے۔
◈ طحطاوی حنفی اور محمد احسن نانوتوی کہتے ہیں کہ :
لأن النبى عليه الصلوة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني
”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔“ [حاشيه الطحطاوي على الدر المختار : 295/1 واللفظ له، حاشيه كنزالدقائق : ص36 حاشيه : 4]
◈ خلیل احمد سہارنپوری نے کہا:
”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعات ہونا تو باتفاق ہے۔“ [براهين قاطعه : ص195]
◈ عبدالشکور لکھنوی نے کہا:
”اگر چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت سی رکعت بھی۔۔۔۔“ [علم الفقه : ص198]
↰ یہ حوالے بطور الزام پیش کئے گئے ہیں۔
——————
دلیل نمبر ➒
❀ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے باسند صحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہے۔ یحیی بن سعید الانصاری اور یزید بن رومان کی روایتیں منقطع ہیں (اس بات کا اعتراف حنفی و تقلیدی علماء نے بھی کیا ہے۔ ) اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ نہ تو خلیفہ کا حکم ہے اور نہ خلیفہ کا عمل اور نہ خلیفہ کے سامنے لوگوں کا عمل، ضعیف و منقطع روایات کو وہی شخص پیش کرتا ہے جو خود ضعیف اور منقطع ہوتا ہے۔
——————
دلیل نمبر ➓
❀ کسی ایک صحابی سے باسند صحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
وتلك عشرة كاملة
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سنت خلفائے راشدین اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہ ہے۔
◈ امام ابوبکر بن العربی (متوفی 543ھ) نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :
والصحيح أن يصلي إحدي عشرة ركعة صلاة النبى صلى الله عليه وسلم و قيامه فأما غير ذلك من الأعداد فلا أصل له
”اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہیے (یہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قیام ہے، اور اس کے علاوہ جو اعداد ہیں تو ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔“ [عارضة الاحوذي شرح الترمذي : 19/4]
◈ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الذى آخذ لنفسي فى قيام رمضان، هو الذى جمع به عمر بن الخطاب الناس إحدي عشرة ركعة وهى صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أدري من أحدث هذا الركوع الكثير
”میں تو اپنے لئے گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) کا قائل ہوں اور اسی پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتہ نہیں کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں ؟“ [كتاب التهجد : ص 176 ح 890، دوسرا نسخه : ص287]
قارئین کرام ! متعدد علماء (بشمول علماء احناف) سے گیارہ رکعات (تراویح) کا سنت ہونا ثابت ہے، چونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے گیارہ رکعات ثابت ہیں۔ جیسا کہ اوپر گزرا ہے لہٰذا ہمیں کسی عالم کا حوالہ دینے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ وفيه كفاية لمن له دراية
بیس تروایح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔
اب آپ کی خدمت میں بعض حوالے پیش خدمت ہیں، جن میں سے ہر حوالہ کی روشنی میں اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔
اب آپ کی خدمت میں بعض حوالے پیش خدمت ہیں، جن میں سے ہر حوالہ کی روشنی میں اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔
➊ امام مالک رحمہ اللہ (متوفی 179ھ) فرماتے ہیں :
الذى آخذ به لنفسي فى قيام رمضان هو الذى جمع به عمر بن الخطاب الناس إحدي عشرة ركعة وهى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أدريمن أحدث هذا الركوع الكثير، ذكره ابن مغيث
”میں اپنے لئے قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعتیں اختیار کرتا ہوں، اسی پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتہ نہیں لوگوں نے بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں ؟ اسے ابن مغیث مالکی نے ذکر کیا ہے۔“ [كتاب التهجد : ص 76ا فقره : 890، دوسرا نسخه ص : 287تصنيف عبدالحق اشبيلي متوفي 581ه]
تنبیہ ① امام مالک رحمہ اللہ سے ابن القاسم کی نقل قول مردود ہے دیکھئے : [كتاب الضعفاء لابي زرعة الرازي : ص534]
تنبیہ ② یونس بن عبداللہ بن محمد بن مغیث المالک کی کتاب ”المتھجدین“ کا ذکر سیر اعلام النبلاء [570/17] پر بھی ہے۔
◈ عینی حنفی فرماتے ہیں کہ :
وقيل إحدي عشرة ركعة وهو اختيار مالك لنفسه و اختاره أبوبكر العربي
”اور کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں، اسے امام مالک رحمہ اللہ اور ابوبکر العربی نے اپنے اپنے لئے اختیار کیا ہے۔“ [عمدة القاري : 126/11، ح2010]
الذى آخذ به لنفسي فى قيام رمضان هو الذى جمع به عمر بن الخطاب الناس إحدي عشرة ركعة وهى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أدريمن أحدث هذا الركوع الكثير، ذكره ابن مغيث
”میں اپنے لئے قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعتیں اختیار کرتا ہوں، اسی پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتہ نہیں لوگوں نے بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں ؟ اسے ابن مغیث مالکی نے ذکر کیا ہے۔“ [كتاب التهجد : ص 76ا فقره : 890، دوسرا نسخه ص : 287تصنيف عبدالحق اشبيلي متوفي 581ه]
تنبیہ ① امام مالک رحمہ اللہ سے ابن القاسم کی نقل قول مردود ہے دیکھئے : [كتاب الضعفاء لابي زرعة الرازي : ص534]
تنبیہ ② یونس بن عبداللہ بن محمد بن مغیث المالک کی کتاب ”المتھجدین“ کا ذکر سیر اعلام النبلاء [570/17] پر بھی ہے۔
◈ عینی حنفی فرماتے ہیں کہ :
وقيل إحدي عشرة ركعة وهو اختيار مالك لنفسه و اختاره أبوبكر العربي
”اور کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں، اسے امام مالک رحمہ اللہ اور ابوبکر العربی نے اپنے اپنے لئے اختیار کیا ہے۔“ [عمدة القاري : 126/11، ح2010]
➋ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بیس رکعات تراویح باسند صحیح ثابت نہیں ہیں، اس کے برعکس حنفیوں کے ممدوح محمد بن الحسن الشیبانی کی المؤطا سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گیارہ رکعات کے قائل تھے۔
➌ امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس رکعات تروایح کو پسند کرنے کے بعد فرمایا کہ :
وليس فى شيء من هذا ضيق ولا حد ينتهي إليه لأنه نافلة فإن أطالوا القيام وأقلوا السجود فحسن وهو أحب إلى و إن أكثر والركوع و السجود فحسن
اس چیز (تراویح) میں ذرہ برابر تنگی نہیں ہے اور نہ کوئی حد ہے، کیونکہ یہ نقل نماز ہے، اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے اور اگر رکعتیں زیادہ ہوں تو بھی بہتر ہے۔ [مختصر قيام الليل للمروزي : ص202، 203]
↰ معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس کو زیادہ پسند کرنے سے رجوع کر لیا تھا اور وہ آٹھ اور بیس دونوں کو پسند کرتے تھے اور آٹھ کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے، واللہ اعلم
وليس فى شيء من هذا ضيق ولا حد ينتهي إليه لأنه نافلة فإن أطالوا القيام وأقلوا السجود فحسن وهو أحب إلى و إن أكثر والركوع و السجود فحسن
اس چیز (تراویح) میں ذرہ برابر تنگی نہیں ہے اور نہ کوئی حد ہے، کیونکہ یہ نقل نماز ہے، اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے اور اگر رکعتیں زیادہ ہوں تو بھی بہتر ہے۔ [مختصر قيام الليل للمروزي : ص202، 203]
↰ معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس کو زیادہ پسند کرنے سے رجوع کر لیا تھا اور وہ آٹھ اور بیس دونوں کو پسند کرتے تھے اور آٹھ کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے، واللہ اعلم
➍ امام احمد رحمہ اللہ سے اسحاق بن منصور نے پوچھا کہ رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئیں ؟ تو انہوں نے فرمایا :
قد قيل فيه ألوان نحوا من أربعين، إنما هو تطوع
”اس پر چالیس تک رکعتیں روایت کی گئی ہیں، یہ صرف نفلی نماز ہے۔“ [مختصر قيام الليل : ص202]
◈ راوی کہتے ہیں کہ ولم يقض فيه بشيء ”امام احمد نے اس میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔“ (کہ کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئیں ؟) [سنن الترمذي : ح 806]
↰ معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ بیس رکعات تراویح سنت موکدہ ہیں اور ان سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہیں۔
قد قيل فيه ألوان نحوا من أربعين، إنما هو تطوع
”اس پر چالیس تک رکعتیں روایت کی گئی ہیں، یہ صرف نفلی نماز ہے۔“ [مختصر قيام الليل : ص202]
◈ راوی کہتے ہیں کہ ولم يقض فيه بشيء ”امام احمد نے اس میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔“ (کہ کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئیں ؟) [سنن الترمذي : ح 806]
↰ معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ بیس رکعات تراویح سنت موکدہ ہیں اور ان سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہیں۔
➎ امام قرطبی (متوفی 656ھ) نے فرمایا :
ثم اختلف فى المختار من عدد القيام فعند مالك : أن المختار من ذلك ست و ثلاثون۔۔۔ وقال كثير من أهل العلم : إحدي عشرة ركعة أخذا بحديث عائشة المتقدم
تراویح کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک نے (ایک روایت میں) چھتیس رکعتیں اختیار کی ہیں۔۔۔ اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سابق حدیث سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم : 389، 390/2]
تنبیہ : حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا : المفہم للقرطبی میں [374/2] پر ماكان يزيد فى رمضان ولا فى غير على إحدي عشرة ركعة ”کے الفاظ سے موجود ہے، امام قرطبی رحمه الله کے اس قول سے معلوم ہوا کہ جمہور علماء گیارہ رکعات کے قائل و فاعل ہیں۔
ثم اختلف فى المختار من عدد القيام فعند مالك : أن المختار من ذلك ست و ثلاثون۔۔۔ وقال كثير من أهل العلم : إحدي عشرة ركعة أخذا بحديث عائشة المتقدم
تراویح کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک نے (ایک روایت میں) چھتیس رکعتیں اختیار کی ہیں۔۔۔ اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سابق حدیث سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم : 389، 390/2]
تنبیہ : حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا : المفہم للقرطبی میں [374/2] پر ماكان يزيد فى رمضان ولا فى غير على إحدي عشرة ركعة ”کے الفاظ سے موجود ہے، امام قرطبی رحمه الله کے اس قول سے معلوم ہوا کہ جمہور علماء گیارہ رکعات کے قائل و فاعل ہیں۔
➏ قاضی ابوبکر العربی المالکی (متوفی 543ھ) نے کہا:
والصحيح أن يصلي احد عشر ركعة صلوة النبى صلى الله عليه وسلم وقيامه فأما غير ذلك من الأعداد، فلا أصل له ولا حدفيه ”
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں، یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور یہی قیام (تراویح) ہے، اس کے علاوہ جتنی رکعتیں مروی ہیں ان کی (سنت میں) کوئی اصل نہیں ہے۔ (اور نفلی نماز ہونے کی وجہ سے) اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ [عارضة الاحوذي : 19/4 ح 806]
والصحيح أن يصلي احد عشر ركعة صلوة النبى صلى الله عليه وسلم وقيامه فأما غير ذلك من الأعداد، فلا أصل له ولا حدفيه ”
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں، یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور یہی قیام (تراویح) ہے، اس کے علاوہ جتنی رکعتیں مروی ہیں ان کی (سنت میں) کوئی اصل نہیں ہے۔ (اور نفلی نماز ہونے کی وجہ سے) اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ [عارضة الاحوذي : 19/4 ح 806]
➐ عینی حنفی (متوفی 855ھ) نے کہا:
وقد اختلف العلماء فى العدد المستحب فى قيام رمضان على أقوال كثيرة، وقيل إحدي عشرة ركعة
”تراویح کی مستحب تعداد کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، وہ بہت سے اقوال رکھتے ہیں۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں۔“ [عمدة القاري : 127، 126/11]
وقد اختلف العلماء فى العدد المستحب فى قيام رمضان على أقوال كثيرة، وقيل إحدي عشرة ركعة
”تراویح کی مستحب تعداد کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، وہ بہت سے اقوال رکھتے ہیں۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں۔“ [عمدة القاري : 127، 126/11]
➑ علامہ سیوطی رحمہ اللہ (متوفی 911ھ) نے کہا:
أن العلماء اختلفوا فى عددها
”بے شک تراویح کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے۔“ [الحاوي للفتاوي : 348/1]
أن العلماء اختلفوا فى عددها
”بے شک تراویح کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے۔“ [الحاوي للفتاوي : 348/1]
➒ ابن ھمام (متوفی 681ھ) نے کہا:
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحدي عشرة ركعة بالوتر فى جماعة فعله صلى الله عليه وسلم
”اس ساری بحث سے یہ نتیجہ حاصل ہو اکہ وتر کے ساتھ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔“ [فتح القدير شرح الهدايه : 407/1]
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحدي عشرة ركعة بالوتر فى جماعة فعله صلى الله عليه وسلم
”اس ساری بحث سے یہ نتیجہ حاصل ہو اکہ وتر کے ساتھ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔“ [فتح القدير شرح الهدايه : 407/1]
➓ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
واختلف أهل العلم فى قيام رمضان
”اور علماء کا قیام رمضان (کی تعداد) میں اختلاف ہے۔“ [سنن الترمذي : ح806]
واختلف أهل العلم فى قيام رمضان
”اور علماء کا قیام رمضان (کی تعداد) میں اختلاف ہے۔“ [سنن الترمذي : ح806]
↰ ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ دیوبندیوں اور بریلیوں کا یہ دعویٰ کہ ”بیس رکعات ہی سنت موکدہ ہیں، ان سے زیادہ یا کم جائز نہیں ہیں“ غلط اور باطل ہے۔ یہ تمام حوالے انگریزوں کے دور سے پہلے کے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ بیس رکعات پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔
دعاؤں کاطالب
*گروپ ایڈمن نیک بنو نیکی پھیلاؤ*تحریر: علامہ محدث العصر *حافظ زبیر علی زئی*
*گروپ ایڈمن نیک بنو نیکی پھیلاؤ*تحریر: علامہ محدث العصر *حافظ زبیر علی زئی*
بسم الله الرحمٰن الرحيم
*الحمد لله و حده و الصلوة والسلام على من لانبي بعده أما بعد*
ہمارے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
*الحمد لله و حده و الصلوة والسلام على من لانبي بعده أما بعد*
ہمارے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
دلیل نمبر ➊
❀ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔“ الخ [صحيح مسلم : 254/1 ح 736]
❀ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔“ الخ [صحيح مسلم : 254/1 ح 736]
دلیل نمبر ➋
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمض ان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ۔ [صحيح بخاري : 229/1 ح 2013، عمدة القاري : 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمض ان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ۔ [صحيح بخاري : 229/1 ح 2013، عمدة القاري : 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
ایک اعتراض :
اس حدیث کا تعلق تہجد کے ساتھ ہے ؟
جواب : تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً :
● صحیح بخاری، كتاب الصوم (روزے کی کتاب) كتاب صلوة التراويح (تراویح کی کتاب) باب فضل من قام رمضان (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی : [ص 141] ، باب قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے :
قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح
یعنی : قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان۔
دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً :
◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه : 153/2]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه : 203/1]
◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير : 467/1، طبع دار الفكر]
◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري : 128/11]
◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف : ص 64 باختلاف يسير]
دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ :
جواب : تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً :
● صحیح بخاری، كتاب الصوم (روزے کی کتاب) كتاب صلوة التراويح (تراویح کی کتاب) باب فضل من قام رمضان (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی : [ص 141] ، باب قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے :
قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح
یعنی : قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان۔
دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً :
◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه : 153/2]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه : 203/1]
◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير : 467/1، طبع دار الفكر]
◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري : 128/11]
◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف : ص 64 باختلاف يسير]
دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ :
تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں، ان کا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 رکعات تراویح [3، 20] پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد [3، 8] پڑھی۔ (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے)
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا وتران فى ليلة ”ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔“ [ترمذي : 107/1 ح 470، ابوداود : 1439، نسائي : 1678، صحيح ابن خزيمه : 1101، صحيح ابن حبان : 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا :
هذا حديث حسن غريب
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے : [فیض الباری 420/2] ، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کے لئے دیکھئے : [فیض الباری 420/2]
دلیل ⑨ متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نماز تراویح پڑھ لی ہو۔ [قيام الليل للمروزي : بحواله فيض الباري : 420/2]
↰ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔
دلیل ⑩ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی روایت : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات والوتر الخ بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آ رہا ہے، لہٰذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔
وتلك عشرة كاملة۔
——————
دلیل نمبر ➌
❀ سیدنا جابر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نماز پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے الخ۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070، صحيح ابن حبان [الاحسان] 62، 64/4 ح : 2401، 2406]
ایک اعتراض :
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا وتران فى ليلة ”ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔“ [ترمذي : 107/1 ح 470، ابوداود : 1439، نسائي : 1678، صحيح ابن خزيمه : 1101، صحيح ابن حبان : 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا :
هذا حديث حسن غريب
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے : [فیض الباری 420/2] ، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کے لئے دیکھئے : [فیض الباری 420/2]
دلیل ⑨ متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نماز تراویح پڑھ لی ہو۔ [قيام الليل للمروزي : بحواله فيض الباري : 420/2]
↰ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔
دلیل ⑩ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی روایت : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات والوتر الخ بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آ رہا ہے، لہٰذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔
وتلك عشرة كاملة۔
——————
دلیل نمبر ➌
❀ سیدنا جابر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نماز پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے الخ۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070، صحيح ابن حبان [الاحسان] 62، 64/4 ح : 2401، 2406]
ایک اعتراض :
اس کی سند میں محمد بن حمید الرازی کذاب ہے۔ [مختصر قيام الليل للمروزي ص 197]
جواب : اس حدیث کو یعقوب بن عبداللہ القمی سے محمد بن حمید کے علاوہ اور بھی بہت سے راویوں نے بیان کیا ہے، مثلاً :
① جعفر بن حمید الکوفی۔ [الكامل لابن عدي : 1889/5، المعجم الصغير للطبراني : 190/1]
② ابوالربیع۔ [الزهراني /مسند ابي يعلي الموصلي : 336/3، 337 ح : 1801، صحيح ابن حبان ح : 2401، 2406]
③ عبدالاعلی بن حماد۔ [مسند ابي يعلي : 336/3 ح 1801، الكامل لابن عدي : 1888/5]
④ مالک بن اسماعیل۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070]
⑤ عبید اللہ یعنی ابن موسی۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070]
↰ یہ سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں، لہٰذا محمد بن حمید پر اعتراض غلط اور مردود ہے۔
جواب : اس حدیث کو یعقوب بن عبداللہ القمی سے محمد بن حمید کے علاوہ اور بھی بہت سے راویوں نے بیان کیا ہے، مثلاً :
① جعفر بن حمید الکوفی۔ [الكامل لابن عدي : 1889/5، المعجم الصغير للطبراني : 190/1]
② ابوالربیع۔ [الزهراني /مسند ابي يعلي الموصلي : 336/3، 337 ح : 1801، صحيح ابن حبان ح : 2401، 2406]
③ عبدالاعلی بن حماد۔ [مسند ابي يعلي : 336/3 ح 1801، الكامل لابن عدي : 1888/5]
④ مالک بن اسماعیل۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070]
⑤ عبید اللہ یعنی ابن موسی۔ [صحيح ابن خزيمه : 138/2 ح : 1070]
↰ یہ سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں، لہٰذا محمد بن حمید پر اعتراض غلط اور مردود ہے۔
دوسرا اعتراض :
اس کی سند میں یعقوب القمی ضعیف ہے، اس کے بارے میں امام دارقطنی نے کہا ليس بالقوي
جواب : یعقوب القمی ثقہ ہے، اسے جمہور علماء نے ثقہ قرار دیا ہے۔
① نسائی نے کہا: لیس بہ باس
② ابوالقاسم الطبرانی نے کہا: ثقه
③ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (اور اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ )
④ جریر بن عبدالحمید اسے مومن آل فرعون کہتے تھے۔
⑤ ابن مہدی نے اس سے روایت بیان کی ہے۔ [تهذيب التهذيب : 342/11، 343] ◈ اور ابن مہدی صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں . [تدريب الراوي : 317/1 وغيره]
⑥ حافظ ذہبی نے کہا: صدوق۔ [الكاشف : 255/3]
⑦ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
⑧ نور الدین الہیثمی نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
⑨ امام بخاری رحمه الله نے تعلیقات میں اس سے روایت لی ہے اور اپنی ”التاریخ الکبیر“ [391/8 ح : 3443] میں اس پر طعن نہیں کیا لہٰذا وہ ان کے نزدیک بقول تھانوی ثقہ ہے۔ دیکھئے : قواعد فی علوم الحدیث [ص 136، ظفر احمد تهانوي]
⑩ حافظ ابن حجر نے فتح الباری [12/3 تحت ح : 1129] میں اس کی منفرد حدیث پر سکوت کیا ہے اور یہ سکوت (دیوبندیوں کے نزدیک) اس کی تحسین حدیث کی دلیل ہے۔ [قواعد فى علوم الحديث ص 55 وغيرهم]
وتلك عشرة كامله
جواب : یعقوب القمی ثقہ ہے، اسے جمہور علماء نے ثقہ قرار دیا ہے۔
① نسائی نے کہا: لیس بہ باس
② ابوالقاسم الطبرانی نے کہا: ثقه
③ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (اور اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ )
④ جریر بن عبدالحمید اسے مومن آل فرعون کہتے تھے۔
⑤ ابن مہدی نے اس سے روایت بیان کی ہے۔ [تهذيب التهذيب : 342/11، 343] ◈ اور ابن مہدی صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں . [تدريب الراوي : 317/1 وغيره]
⑥ حافظ ذہبی نے کہا: صدوق۔ [الكاشف : 255/3]
⑦ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
⑧ نور الدین الہیثمی نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
⑨ امام بخاری رحمه الله نے تعلیقات میں اس سے روایت لی ہے اور اپنی ”التاریخ الکبیر“ [391/8 ح : 3443] میں اس پر طعن نہیں کیا لہٰذا وہ ان کے نزدیک بقول تھانوی ثقہ ہے۔ دیکھئے : قواعد فی علوم الحدیث [ص 136، ظفر احمد تهانوي]
⑩ حافظ ابن حجر نے فتح الباری [12/3 تحت ح : 1129] میں اس کی منفرد حدیث پر سکوت کیا ہے اور یہ سکوت (دیوبندیوں کے نزدیک) اس کی تحسین حدیث کی دلیل ہے۔ [قواعد فى علوم الحديث ص 55 وغيرهم]
وتلك عشرة كامله
تیسرا اعتراض :
اس روایت کی سند میں عیسی بن جاریہ ضعیف ہے، اس پر ابن معین، الساجی، العقیلی، ابن عدی اور ابوداود نے جرح کی ہے، بعض نے منکر الحدیث بھی لکھا ہے۔
جواب : عیسی بن جاریہ جمہور علماء کے نزدیک ثقہ، صدوق یا حسن الحدیث ہیں۔
① ابوزرعہ نے کہا: لا باس به
② ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔
③ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔
④ الہیثمی نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔ [مجمع الزوائد : 72/2] ◈ اور اسے ثقہ کہا۔ [مجمع الزوائد : 185/2]
⑤ البوصیری نے زوائد سنن ابن ماجہ میں اس کی حدیث کی تحسین کی ہے۔ [ديكهئے حديث : 4241]
⑥ الذہبی نے اس کی منفرد حدیث کے بارے میں اسناده وسط کہا۔
⑦ بخاری نے التاریخ الکبیر [385/6] میں اسے ذکر کیا ہے اور اس پر طعن نہیں کیا۔
⑧ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی حدیث پر سکوت کیا۔ [10/3 تحت ح : 1129]
⑨ حافظ منذری نے اس کی ایک حدیث کو باسناد جيد کہا۔ [الترغيب و الترهيب : 507/1]
⑩ ابوحاتم الراز ی نے اسے ذکر کیا اور اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ [ديكهئے الجرح و التعديل : 273/6]
↰ ابوحاتم کا سکوت (دیوبندیوں کے نزدیک) راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ [قواعد فى علوم الحديث : ص 247]
لہٰذا یہ سند حسن ہے۔
تلك عشرة كاملة
——————
دلیل نمبر ➍
❀ جناب ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :
میں نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے، رمضان میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ (رد) بھی نہیں فرمایا فكانت سنة الرضا ”پس یہ رضامندی والی سنت بن گئی۔“ [مسند ابي يعلي : 236/3، ح 1801]
◈ علامہ ہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا :
رواه أبو يعلي و الطبراني بنحوه فى الأوسط وإسناده حسن
”اسے ابویعلی نے روایت کیا اور اسے طرح طبرانی نے اوسط میں روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے۔“ [مجمع الزوائد : 74/2]
↰ اس حدیث کی سند وہی ہے جو کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ہے، دیکھئے ص : 5، جناب مولوی سرفراز صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : ”اپنے وقت میں اگر علامہ ہیثمی کو صحت اور سقم کی پرکھ نہیں، تو اور کس کو تھی ؟“ [احسن الكلام : 233/1، توضيح الكلام : 279/1]
——————
دلیل نمبر ➎
❀ سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں رات کے وقت) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ [مؤطا امام مالك : 114/1، ح : 249، السنن الكبري للبيهقي : 496/2] یہ حدیث بہت سی کتابوں میں موجود ہے، مثلاً :
① شرح معانی الآثار [293/1 واحتج به]
② المختارہ للحافظ ضیاء المقدسی [بحواله كنزالعمال : 407/8 ح 23465]
③ معرفۃ السنن والآثار للبیہقی [ق 367/2، 368 مطبوع : 305/2 ح 1366 ب]
④ قیام اللیل للمروزی [ص200]
⑤ مصنف عبدالرزاق [بحواله كنز العمال : ح23465]
⑥ مشکوۃ المصابیح [ص115 ح : 1302]
⑦ شرح السنہ للبغوی [120/4 تحت ح : 990]
⑧ المہذب فی اختصار السنن الکبیر للذہبی [461/2]
⑨ کنزالعمال [407/8 ح 23465]
⑩ السنن الکبری للنسائی [113/3 ح 4687] وغیرہم۔
اس فاروقی حکم کی سند بالکل صحیح ہے۔
دلیل ① اس کے تمام راوی زبردست قسم کے ثقہ ہیں۔
دلیل ② اس سند کے کسی راوی پر کوئی جرح نہیں ہے۔
دلیل ③ اسی سند کے ساتھ ایک روایت صحیح بخاری کتاب الحج میں بھی موجود ہے۔ [ح 1858]
دلیل ④ شاہ ولی اللہ الدہلوی نے ”اہل الحدیث“ سے نقل کیا ہے کہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ [حجة الله البالغه : 241/2 اردو]
دلیل ⑤ جناب طحاوی حنفی نے لهذا يدل کہہ کہ یہ اثر بطور حجت پیش کیا ہے۔ [معاني الاثار : 193/1]
دلیل ⑥ ضیاء المقدسی نے المختارہ میں یہ اثر لا کر اس کا صحیح ہونا ثابت کر دیا ہے۔ دیکھئے : [اختصار علوم الحدیث ص : 77]
دلیل ⑦ امام ترمذ ی نے اس جیسی ایک سند کے بارے میں کہا: حسن صحيح [ح926]
دلیل ⑧ اس روایت کو متقدمین میں سے کسی ایک محدث نے بھی ضعیف نہیں کہا۔
دلیل ⑨ علامہ باجی رحمہ اللہ نے اس اثر کو تسلیم کیا ہے۔ [موطا بشرح الزرقاني : 238/1 ح 249]
دلیل ⑩ مشہور غیر اہل حدیث محمد بن علی النیموی [متوفی 322ھ] نے اس روایت کے بارے میں کہا:
واسناده صحيح [آثار السنن ص 250] اور اس کی سند صحیح ہے۔
(لہذا بعض متعصب لوگوں کا پندرہویں صدی میں اسے مضطرب کہنا باطل اور بے بنیاد ہے۔ )
جواب : عیسی بن جاریہ جمہور علماء کے نزدیک ثقہ، صدوق یا حسن الحدیث ہیں۔
① ابوزرعہ نے کہا: لا باس به
② ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔
③ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔
④ الہیثمی نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔ [مجمع الزوائد : 72/2] ◈ اور اسے ثقہ کہا۔ [مجمع الزوائد : 185/2]
⑤ البوصیری نے زوائد سنن ابن ماجہ میں اس کی حدیث کی تحسین کی ہے۔ [ديكهئے حديث : 4241]
⑥ الذہبی نے اس کی منفرد حدیث کے بارے میں اسناده وسط کہا۔
⑦ بخاری نے التاریخ الکبیر [385/6] میں اسے ذکر کیا ہے اور اس پر طعن نہیں کیا۔
⑧ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی حدیث پر سکوت کیا۔ [10/3 تحت ح : 1129]
⑨ حافظ منذری نے اس کی ایک حدیث کو باسناد جيد کہا۔ [الترغيب و الترهيب : 507/1]
⑩ ابوحاتم الراز ی نے اسے ذکر کیا اور اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ [ديكهئے الجرح و التعديل : 273/6]
↰ ابوحاتم کا سکوت (دیوبندیوں کے نزدیک) راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ [قواعد فى علوم الحديث : ص 247]
لہٰذا یہ سند حسن ہے۔
تلك عشرة كاملة
——————
دلیل نمبر ➍
❀ جناب ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :
میں نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے، رمضان میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ (رد) بھی نہیں فرمایا فكانت سنة الرضا ”پس یہ رضامندی والی سنت بن گئی۔“ [مسند ابي يعلي : 236/3، ح 1801]
◈ علامہ ہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا :
رواه أبو يعلي و الطبراني بنحوه فى الأوسط وإسناده حسن
”اسے ابویعلی نے روایت کیا اور اسے طرح طبرانی نے اوسط میں روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے۔“ [مجمع الزوائد : 74/2]
↰ اس حدیث کی سند وہی ہے جو کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ہے، دیکھئے ص : 5، جناب مولوی سرفراز صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : ”اپنے وقت میں اگر علامہ ہیثمی کو صحت اور سقم کی پرکھ نہیں، تو اور کس کو تھی ؟“ [احسن الكلام : 233/1، توضيح الكلام : 279/1]
——————
دلیل نمبر ➎
❀ سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں رات کے وقت) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ [مؤطا امام مالك : 114/1، ح : 249، السنن الكبري للبيهقي : 496/2] یہ حدیث بہت سی کتابوں میں موجود ہے، مثلاً :
① شرح معانی الآثار [293/1 واحتج به]
② المختارہ للحافظ ضیاء المقدسی [بحواله كنزالعمال : 407/8 ح 23465]
③ معرفۃ السنن والآثار للبیہقی [ق 367/2، 368 مطبوع : 305/2 ح 1366 ب]
④ قیام اللیل للمروزی [ص200]
⑤ مصنف عبدالرزاق [بحواله كنز العمال : ح23465]
⑥ مشکوۃ المصابیح [ص115 ح : 1302]
⑦ شرح السنہ للبغوی [120/4 تحت ح : 990]
⑧ المہذب فی اختصار السنن الکبیر للذہبی [461/2]
⑨ کنزالعمال [407/8 ح 23465]
⑩ السنن الکبری للنسائی [113/3 ح 4687] وغیرہم۔
اس فاروقی حکم کی سند بالکل صحیح ہے۔
دلیل ① اس کے تمام راوی زبردست قسم کے ثقہ ہیں۔
دلیل ② اس سند کے کسی راوی پر کوئی جرح نہیں ہے۔
دلیل ③ اسی سند کے ساتھ ایک روایت صحیح بخاری کتاب الحج میں بھی موجود ہے۔ [ح 1858]
دلیل ④ شاہ ولی اللہ الدہلوی نے ”اہل الحدیث“ سے نقل کیا ہے کہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ [حجة الله البالغه : 241/2 اردو]
دلیل ⑤ جناب طحاوی حنفی نے لهذا يدل کہہ کہ یہ اثر بطور حجت پیش کیا ہے۔ [معاني الاثار : 193/1]
دلیل ⑥ ضیاء المقدسی نے المختارہ میں یہ اثر لا کر اس کا صحیح ہونا ثابت کر دیا ہے۔ دیکھئے : [اختصار علوم الحدیث ص : 77]
دلیل ⑦ امام ترمذ ی نے اس جیسی ایک سند کے بارے میں کہا: حسن صحيح [ح926]
دلیل ⑧ اس روایت کو متقدمین میں سے کسی ایک محدث نے بھی ضعیف نہیں کہا۔
دلیل ⑨ علامہ باجی رحمہ اللہ نے اس اثر کو تسلیم کیا ہے۔ [موطا بشرح الزرقاني : 238/1 ح 249]
دلیل ⑩ مشہور غیر اہل حدیث محمد بن علی النیموی [متوفی 322ھ] نے اس روایت کے بارے میں کہا:
واسناده صحيح [آثار السنن ص 250] اور اس کی سند صحیح ہے۔
(لہذا بعض متعصب لوگوں کا پندرہویں صدی میں اسے مضطرب کہنا باطل اور بے بنیاد ہے۔ )
سنت خلفائے راشدین
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فمن أدرك منكم فعليه بسنتي و سنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجد
پس تم میں سے جو یہ (اختلاف) پائے تو اس پر (لازم) ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین مھدیین کی سنت کو لازم پکڑ لے، اسے اپنے دانتوں کے ساتھ (مضبوط) پکڑ لو۔ [سنن ترمذي : 96/2 ح 2676]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا : هذا حديث حسن صحيح
↰ یاد رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ راشد ہونا نص صحیح سے ثابت ہے اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فمن أدرك منكم فعليه بسنتي و سنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجد
پس تم میں سے جو یہ (اختلاف) پائے تو اس پر (لازم) ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین مھدیین کی سنت کو لازم پکڑ لے، اسے اپنے دانتوں کے ساتھ (مضبوط) پکڑ لو۔ [سنن ترمذي : 96/2 ح 2676]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا : هذا حديث حسن صحيح
↰ یاد رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ راشد ہونا نص صحیح سے ثابت ہے اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اقتدوا بالذين من بعدي أبى بكر و عمر
میرے بعد ان دو شخصوں ابوبکر اور عمر کی اقتداء (اطاعت) کرنا۔ [سنن ترمذي : 207/2 ح 3662، ابن ماجه : 97]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا : ھذا حدیث حسن
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ فاروقی حکم بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہے، جبکہ مرفوع احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہیں اور ایک بھی صحیح مرفوع حدیث اس کے مخالف نہیں ہے۔
——————
دلیل نمبر ➏
❀ جناب السائب بن یزید (صحابی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يا حدي عشرة ركعة۔۔۔ إلخ
ہم (یعنی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے، الخ۔ [سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي : 349/1 وحاشيه آثار السنن ص 250]
↰ اس روایت کے تمام راوی جمہو رکے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔
جناب جلال الدین سیوطی رحمه الله [متوفی911ھ] اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
وفي مصنف سعيد بن منصور بسند فى غاية الصحة
اور یہ (گیارہ رکعات والی روایت) مصنف سعید بن منصور میں بہت صحیح سند کے ساتھ ہے۔ [المصابيح فى صلوة التراويح للسيوطي : ص 15، الحاوي للفتاوي : 350/1]
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔
——————
دلیل نمبر ➐
❀ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
إن عمر جمع الناس على أبى و تميم فكانا يصليان إحدي عشرة ركعة الخ
بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی (بن کعب) اور تمیم (الداری) رضی اللہ عنہما پر جمع کیا، پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ [392/2 ح 7670]
↰ اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور اس کے سار ے راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ہیں اور بالاجماع ثقہ ہیں۔
——————
دلیل نمبر ➑
❀ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیس رکعات تراویح قطعا ثابت نہیں ہے۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ :
وأما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه إتفاق
اور بیس رکعات والی جو روایت ہے، وہ ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ [العرف الشذي : 166/1]
↰ لہٰذا بیس رکعات والی روایت کو امت مسلمہ کا ”تلقی بالرد“ حاصل ہے یعنی امت نے اسے بالاتفاق رد کر دیا ہے۔
◈ طحطاوی حنفی اور محمد احسن نانوتوی کہتے ہیں کہ :
لأن النبى عليه الصلوة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني
”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔“ [حاشيه الطحطاوي على الدر المختار : 295/1 واللفظ له، حاشيه كنزالدقائق : ص36 حاشيه : 4]
◈ خلیل احمد سہارنپوری نے کہا:
”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعات ہونا تو باتفاق ہے۔“ [براهين قاطعه : ص195]
◈ عبدالشکور لکھنوی نے کہا:
”اگر چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت سی رکعت بھی۔۔۔۔“ [علم الفقه : ص198]
↰ یہ حوالے بطور الزام پیش کئے گئے ہیں۔
——————
دلیل نمبر ➒
❀ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے باسند صحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہے۔ یحیی بن سعید الانصاری اور یزید بن رومان کی روایتیں منقطع ہیں (اس بات کا اعتراف حنفی و تقلیدی علماء نے بھی کیا ہے۔ ) اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ نہ تو خلیفہ کا حکم ہے اور نہ خلیفہ کا عمل اور نہ خلیفہ کے سامنے لوگوں کا عمل، ضعیف و منقطع روایات کو وہی شخص پیش کرتا ہے جو خود ضعیف اور منقطع ہوتا ہے۔
——————
دلیل نمبر ➓
❀ کسی ایک صحابی سے باسند صحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
وتلك عشرة كاملة
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سنت خلفائے راشدین اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہ ہے۔
◈ امام ابوبکر بن العربی (متوفی 543ھ) نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :
والصحيح أن يصلي إحدي عشرة ركعة صلاة النبى صلى الله عليه وسلم و قيامه فأما غير ذلك من الأعداد فلا أصل له
”اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہیے (یہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قیام ہے، اور اس کے علاوہ جو اعداد ہیں تو ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔“ [عارضة الاحوذي شرح الترمذي : 19/4]
◈ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الذى آخذ لنفسي فى قيام رمضان، هو الذى جمع به عمر بن الخطاب الناس إحدي عشرة ركعة وهى صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أدري من أحدث هذا الركوع الكثير
”میں تو اپنے لئے گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) کا قائل ہوں اور اسی پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتہ نہیں کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں ؟“ [كتاب التهجد : ص 176 ح 890، دوسرا نسخه : ص287]
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اقتدوا بالذين من بعدي أبى بكر و عمر
میرے بعد ان دو شخصوں ابوبکر اور عمر کی اقتداء (اطاعت) کرنا۔ [سنن ترمذي : 207/2 ح 3662، ابن ماجه : 97]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا : ھذا حدیث حسن
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ فاروقی حکم بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہے، جبکہ مرفوع احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہیں اور ایک بھی صحیح مرفوع حدیث اس کے مخالف نہیں ہے۔
——————
دلیل نمبر ➏
❀ جناب السائب بن یزید (صحابی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يا حدي عشرة ركعة۔۔۔ إلخ
ہم (یعنی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے، الخ۔ [سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي : 349/1 وحاشيه آثار السنن ص 250]
↰ اس روایت کے تمام راوی جمہو رکے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔
جناب جلال الدین سیوطی رحمه الله [متوفی911ھ] اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
وفي مصنف سعيد بن منصور بسند فى غاية الصحة
اور یہ (گیارہ رکعات والی روایت) مصنف سعید بن منصور میں بہت صحیح سند کے ساتھ ہے۔ [المصابيح فى صلوة التراويح للسيوطي : ص 15، الحاوي للفتاوي : 350/1]
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔
——————
دلیل نمبر ➐
❀ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
إن عمر جمع الناس على أبى و تميم فكانا يصليان إحدي عشرة ركعة الخ
بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی (بن کعب) اور تمیم (الداری) رضی اللہ عنہما پر جمع کیا، پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ [392/2 ح 7670]
↰ اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور اس کے سار ے راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ہیں اور بالاجماع ثقہ ہیں۔
——————
دلیل نمبر ➑
❀ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیس رکعات تراویح قطعا ثابت نہیں ہے۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ :
وأما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه إتفاق
اور بیس رکعات والی جو روایت ہے، وہ ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ [العرف الشذي : 166/1]
↰ لہٰذا بیس رکعات والی روایت کو امت مسلمہ کا ”تلقی بالرد“ حاصل ہے یعنی امت نے اسے بالاتفاق رد کر دیا ہے۔
◈ طحطاوی حنفی اور محمد احسن نانوتوی کہتے ہیں کہ :
لأن النبى عليه الصلوة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني
”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔“ [حاشيه الطحطاوي على الدر المختار : 295/1 واللفظ له، حاشيه كنزالدقائق : ص36 حاشيه : 4]
◈ خلیل احمد سہارنپوری نے کہا:
”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعات ہونا تو باتفاق ہے۔“ [براهين قاطعه : ص195]
◈ عبدالشکور لکھنوی نے کہا:
”اگر چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت سی رکعت بھی۔۔۔۔“ [علم الفقه : ص198]
↰ یہ حوالے بطور الزام پیش کئے گئے ہیں۔
——————
دلیل نمبر ➒
❀ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے باسند صحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہے۔ یحیی بن سعید الانصاری اور یزید بن رومان کی روایتیں منقطع ہیں (اس بات کا اعتراف حنفی و تقلیدی علماء نے بھی کیا ہے۔ ) اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ نہ تو خلیفہ کا حکم ہے اور نہ خلیفہ کا عمل اور نہ خلیفہ کے سامنے لوگوں کا عمل، ضعیف و منقطع روایات کو وہی شخص پیش کرتا ہے جو خود ضعیف اور منقطع ہوتا ہے۔
——————
دلیل نمبر ➓
❀ کسی ایک صحابی سے باسند صحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
وتلك عشرة كاملة
↰ لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سنت خلفائے راشدین اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہ ہے۔
◈ امام ابوبکر بن العربی (متوفی 543ھ) نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :
والصحيح أن يصلي إحدي عشرة ركعة صلاة النبى صلى الله عليه وسلم و قيامه فأما غير ذلك من الأعداد فلا أصل له
”اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہیے (یہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قیام ہے، اور اس کے علاوہ جو اعداد ہیں تو ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔“ [عارضة الاحوذي شرح الترمذي : 19/4]
◈ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الذى آخذ لنفسي فى قيام رمضان، هو الذى جمع به عمر بن الخطاب الناس إحدي عشرة ركعة وهى صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أدري من أحدث هذا الركوع الكثير
”میں تو اپنے لئے گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) کا قائل ہوں اور اسی پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتہ نہیں کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں ؟“ [كتاب التهجد : ص 176 ح 890، دوسرا نسخه : ص287]
قارئین کرام ! متعدد علماء (بشمول علماء احناف) سے گیارہ رکعات (تراویح) کا سنت ہونا ثابت ہے، چونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے گیارہ رکعات ثابت ہیں۔ جیسا کہ اوپر گزرا ہے لہٰذا ہمیں کسی عالم کا حوالہ دینے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ وفيه كفاية لمن له دراية
بیس تروایح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔
اب آپ کی خدمت میں بعض حوالے پیش خدمت ہیں، جن میں سے ہر حوالہ کی روشنی میں اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔
اب آپ کی خدمت میں بعض حوالے پیش خدمت ہیں، جن میں سے ہر حوالہ کی روشنی میں اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔
➊ امام مالک رحمہ اللہ (متوفی 179ھ) فرماتے ہیں :
الذى آخذ به لنفسي فى قيام رمضان هو الذى جمع به عمر بن الخطاب الناس إحدي عشرة ركعة وهى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أدريمن أحدث هذا الركوع الكثير، ذكره ابن مغيث
”میں اپنے لئے قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعتیں اختیار کرتا ہوں، اسی پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتہ نہیں لوگوں نے بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں ؟ اسے ابن مغیث مالکی نے ذکر کیا ہے۔“ [كتاب التهجد : ص 76ا فقره : 890، دوسرا نسخه ص : 287تصنيف عبدالحق اشبيلي متوفي 581ه]
تنبیہ ① امام مالک رحمہ اللہ سے ابن القاسم کی نقل قول مردود ہے دیکھئے : [كتاب الضعفاء لابي زرعة الرازي : ص534]
تنبیہ ② یونس بن عبداللہ بن محمد بن مغیث المالک کی کتاب ”المتھجدین“ کا ذکر سیر اعلام النبلاء [570/17] پر بھی ہے۔
◈ عینی حنفی فرماتے ہیں کہ :
وقيل إحدي عشرة ركعة وهو اختيار مالك لنفسه و اختاره أبوبكر العربي
”اور کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں، اسے امام مالک رحمہ اللہ اور ابوبکر العربی نے اپنے اپنے لئے اختیار کیا ہے۔“ [عمدة القاري : 126/11، ح2010]
الذى آخذ به لنفسي فى قيام رمضان هو الذى جمع به عمر بن الخطاب الناس إحدي عشرة ركعة وهى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أدريمن أحدث هذا الركوع الكثير، ذكره ابن مغيث
”میں اپنے لئے قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعتیں اختیار کرتا ہوں، اسی پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتہ نہیں لوگوں نے بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں ؟ اسے ابن مغیث مالکی نے ذکر کیا ہے۔“ [كتاب التهجد : ص 76ا فقره : 890، دوسرا نسخه ص : 287تصنيف عبدالحق اشبيلي متوفي 581ه]
تنبیہ ① امام مالک رحمہ اللہ سے ابن القاسم کی نقل قول مردود ہے دیکھئے : [كتاب الضعفاء لابي زرعة الرازي : ص534]
تنبیہ ② یونس بن عبداللہ بن محمد بن مغیث المالک کی کتاب ”المتھجدین“ کا ذکر سیر اعلام النبلاء [570/17] پر بھی ہے۔
◈ عینی حنفی فرماتے ہیں کہ :
وقيل إحدي عشرة ركعة وهو اختيار مالك لنفسه و اختاره أبوبكر العربي
”اور کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں، اسے امام مالک رحمہ اللہ اور ابوبکر العربی نے اپنے اپنے لئے اختیار کیا ہے۔“ [عمدة القاري : 126/11، ح2010]
➋ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بیس رکعات تراویح باسند صحیح ثابت نہیں ہیں، اس کے برعکس حنفیوں کے ممدوح محمد بن الحسن الشیبانی کی المؤطا سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گیارہ رکعات کے قائل تھے۔
➌ امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس رکعات تروایح کو پسند کرنے کے بعد فرمایا کہ :
وليس فى شيء من هذا ضيق ولا حد ينتهي إليه لأنه نافلة فإن أطالوا القيام وأقلوا السجود فحسن وهو أحب إلى و إن أكثر والركوع و السجود فحسن
اس چیز (تراویح) میں ذرہ برابر تنگی نہیں ہے اور نہ کوئی حد ہے، کیونکہ یہ نقل نماز ہے، اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے اور اگر رکعتیں زیادہ ہوں تو بھی بہتر ہے۔ [مختصر قيام الليل للمروزي : ص202، 203]
↰ معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس کو زیادہ پسند کرنے سے رجوع کر لیا تھا اور وہ آٹھ اور بیس دونوں کو پسند کرتے تھے اور آٹھ کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے، واللہ اعلم
وليس فى شيء من هذا ضيق ولا حد ينتهي إليه لأنه نافلة فإن أطالوا القيام وأقلوا السجود فحسن وهو أحب إلى و إن أكثر والركوع و السجود فحسن
اس چیز (تراویح) میں ذرہ برابر تنگی نہیں ہے اور نہ کوئی حد ہے، کیونکہ یہ نقل نماز ہے، اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے اور اگر رکعتیں زیادہ ہوں تو بھی بہتر ہے۔ [مختصر قيام الليل للمروزي : ص202، 203]
↰ معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس کو زیادہ پسند کرنے سے رجوع کر لیا تھا اور وہ آٹھ اور بیس دونوں کو پسند کرتے تھے اور آٹھ کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے، واللہ اعلم
➍ امام احمد رحمہ اللہ سے اسحاق بن منصور نے پوچھا کہ رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئیں ؟ تو انہوں نے فرمایا :
قد قيل فيه ألوان نحوا من أربعين، إنما هو تطوع
”اس پر چالیس تک رکعتیں روایت کی گئی ہیں، یہ صرف نفلی نماز ہے۔“ [مختصر قيام الليل : ص202]
◈ راوی کہتے ہیں کہ ولم يقض فيه بشيء ”امام احمد نے اس میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔“ (کہ کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئیں ؟) [سنن الترمذي : ح 806]
↰ معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ بیس رکعات تراویح سنت موکدہ ہیں اور ان سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہیں۔
قد قيل فيه ألوان نحوا من أربعين، إنما هو تطوع
”اس پر چالیس تک رکعتیں روایت کی گئی ہیں، یہ صرف نفلی نماز ہے۔“ [مختصر قيام الليل : ص202]
◈ راوی کہتے ہیں کہ ولم يقض فيه بشيء ”امام احمد نے اس میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔“ (کہ کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئیں ؟) [سنن الترمذي : ح 806]
↰ معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ بیس رکعات تراویح سنت موکدہ ہیں اور ان سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہیں۔
➎ امام قرطبی (متوفی 656ھ) نے فرمایا :
ثم اختلف فى المختار من عدد القيام فعند مالك : أن المختار من ذلك ست و ثلاثون۔۔۔ وقال كثير من أهل العلم : إحدي عشرة ركعة أخذا بحديث عائشة المتقدم
تراویح کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک نے (ایک روایت میں) چھتیس رکعتیں اختیار کی ہیں۔۔۔ اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سابق حدیث سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم : 389، 390/2]
تنبیہ : حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا : المفہم للقرطبی میں [374/2] پر ماكان يزيد فى رمضان ولا فى غير على إحدي عشرة ركعة ”کے الفاظ سے موجود ہے، امام قرطبی رحمه الله کے اس قول سے معلوم ہوا کہ جمہور علماء گیارہ رکعات کے قائل و فاعل ہیں۔
ثم اختلف فى المختار من عدد القيام فعند مالك : أن المختار من ذلك ست و ثلاثون۔۔۔ وقال كثير من أهل العلم : إحدي عشرة ركعة أخذا بحديث عائشة المتقدم
تراویح کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک نے (ایک روایت میں) چھتیس رکعتیں اختیار کی ہیں۔۔۔ اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سابق حدیث سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم : 389، 390/2]
تنبیہ : حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا : المفہم للقرطبی میں [374/2] پر ماكان يزيد فى رمضان ولا فى غير على إحدي عشرة ركعة ”کے الفاظ سے موجود ہے، امام قرطبی رحمه الله کے اس قول سے معلوم ہوا کہ جمہور علماء گیارہ رکعات کے قائل و فاعل ہیں۔
➏ قاضی ابوبکر العربی المالکی (متوفی 543ھ) نے کہا:
والصحيح أن يصلي احد عشر ركعة صلوة النبى صلى الله عليه وسلم وقيامه فأما غير ذلك من الأعداد، فلا أصل له ولا حدفيه ”
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں، یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور یہی قیام (تراویح) ہے، اس کے علاوہ جتنی رکعتیں مروی ہیں ان کی (سنت میں) کوئی اصل نہیں ہے۔ (اور نفلی نماز ہونے کی وجہ سے) اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ [عارضة الاحوذي : 19/4 ح 806]
والصحيح أن يصلي احد عشر ركعة صلوة النبى صلى الله عليه وسلم وقيامه فأما غير ذلك من الأعداد، فلا أصل له ولا حدفيه ”
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں، یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور یہی قیام (تراویح) ہے، اس کے علاوہ جتنی رکعتیں مروی ہیں ان کی (سنت میں) کوئی اصل نہیں ہے۔ (اور نفلی نماز ہونے کی وجہ سے) اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ [عارضة الاحوذي : 19/4 ح 806]
➐ عینی حنفی (متوفی 855ھ) نے کہا:
وقد اختلف العلماء فى العدد المستحب فى قيام رمضان على أقوال كثيرة، وقيل إحدي عشرة ركعة
”تراویح کی مستحب تعداد کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، وہ بہت سے اقوال رکھتے ہیں۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں۔“ [عمدة القاري : 127، 126/11]
وقد اختلف العلماء فى العدد المستحب فى قيام رمضان على أقوال كثيرة، وقيل إحدي عشرة ركعة
”تراویح کی مستحب تعداد کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، وہ بہت سے اقوال رکھتے ہیں۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں۔“ [عمدة القاري : 127، 126/11]
➑ علامہ سیوطی رحمہ اللہ (متوفی 911ھ) نے کہا:
أن العلماء اختلفوا فى عددها
”بے شک تراویح کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے۔“ [الحاوي للفتاوي : 348/1]
أن العلماء اختلفوا فى عددها
”بے شک تراویح کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے۔“ [الحاوي للفتاوي : 348/1]
➒ ابن ھمام (متوفی 681ھ) نے کہا:
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحدي عشرة ركعة بالوتر فى جماعة فعله صلى الله عليه وسلم
”اس ساری بحث سے یہ نتیجہ حاصل ہو اکہ وتر کے ساتھ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔“ [فتح القدير شرح الهدايه : 407/1]
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحدي عشرة ركعة بالوتر فى جماعة فعله صلى الله عليه وسلم
”اس ساری بحث سے یہ نتیجہ حاصل ہو اکہ وتر کے ساتھ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔“ [فتح القدير شرح الهدايه : 407/1]
➓ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
واختلف أهل العلم فى قيام رمضان
”اور علماء کا قیام رمضان (کی تعداد) میں اختلاف ہے۔“ [سنن الترمذي : ح806]
واختلف أهل العلم فى قيام رمضان
”اور علماء کا قیام رمضان (کی تعداد) میں اختلاف ہے۔“ [سنن الترمذي : ح806]
↰ ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ دیوبندیوں اور بریلیوں کا یہ دعویٰ کہ ”بیس رکعات ہی سنت موکدہ ہیں، ان سے زیادہ یا کم جائز نہیں ہیں“ غلط اور باطل ہے۔ یہ تمام حوالے انگریزوں کے دور سے پہلے کے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ بیس رکعات پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے.
- Bachon Ki Achi Tarbiyat Kaise KAre?
- Hmare Husn-E-Suluk Pe Sabse Jyada Kiska Haque HAi?
- Maa-Baap, Saas Sasur Ka Haque Kya HAi?
- Shauahr Ke Huqooq Kya HAi?
- biwi Ke nafil Roze Rakhne Se Pahle Shauhar se Ejajat Lena.
- Biwi ke Gharwalo Se KAisa Suluk Kiya Jaye?
- Nek Biwi Ghar Ki Khusiyo Ki wajah Hoti Hai?
- islam Me Auraton ne KAun KAun Se Karname Anjaam Diye HAI?
- Biwi Ke Huqooq Kya Hai? wives Right In Islam (Part 03)
- Kya Maa-Baap Ke Kahne Pe Biwi Ko Talaq De Sakte Hai?
- Aap Ki Biwi Aap ki Jannat.
- Dahej Ki Tabaah Kari (Part 01)
- Jahaiz Ki Tabah Kariyaan. (Part 02)
- Jahaiz Ki tabaah Kariyaan. (Part 03)
- Jahaiz Ki Tabaah Kariyan. (Part 04)
No comments:
Post a Comment