Bar-E-Sageer me Parhayi Jane wali Taraweeh Aur Tilawat-E-Quran.
برصغیر ہندو پاک بنگلہ دیش میں پڑھائی جانے والی ایکسپریس تراویح اور تلاوت قرآن کویت میں ایک پاکستانی مولوی کیساتھ پیش آنیوالا ایک دلچسپ واقعہ
کویت میں کچھ رہائشی مکانات کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا جہاں بھارت ، جنوبی کوریا کی تعمیراتی کمپنیوں کوکام کے لیے ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ان کے ساتھ پاکستان کی بھی ایک تعمیراتی کمپنی N-C کو بھی چند سو مکانات کا ٹھیکہ دیا گیا۔وہاں کام کرنے والے پاکستانی ملازمین نے اپنے رہائشی کیمپ میں اپنے لیے ایک عارضی مسجد بنا لی اور باجماعت نماز کا اہتمام کیا گیا۔چار پانچ ماہ بعد رمضان المبارک آگیا اور وہاں تراویح پڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اگرچہ وہاں ان پاکستانیوں کے ساتھ ایک پاکستانی حافظ قرآن موجود تھا مگر وہاں قانون کے مطابق تراویح پڑھانے والا مولوی حکومت سے طلب کیا گیا۔ *حکومت کا بھیجا ہوا مولوی تین چار رو ز کی تاخیر سے وہاں پہنچا۔اور پہنچا بھی عین اس وقت جب پاکستانی حافظ تراویح پڑھا رہا تھاتراویح ختم ہوئی اور لوگ باہر نکلنے لگے تو عرب مولوی نے پاکستانی مولوی کو قریب بلایا اور کہا کہ* ’’من اعطاک صلاحیۃ تلعب مع کتابنا قران الکریم‘‘؟
یعنی *تمہیں کس نے یہ اختیار دیا کہ تم ہماری کتاب قرآن سے کھیل کھیلو؟* ھل ترید تخلص المصحف فی لیلۃ الواحدہ‘‘؟
*کیا تم اسے ایک ہی رات میں ختم کرنا چاہتے تھے؟*
پاکستانی مولوی حیران و پریشان ہوکر ادھر ادھر تکنے لگا۔ایک پاکستانی جو تھوڑی بہت عربی جانتا تھا،پاس آیا اور اس نے ترجمہ کر کے پاکستانی حافظ کو بتایا کہ عربی مولوی کیا پوچھ رہا ہے؟ *پاکستانی مولوی نے جواب دیا کہ آخر مجھ سے کہاں غلطی ہوئی ہے؟عرب مولوی جواب میں بولا* کہ ’’ھل تقرون القران بھٰذا شکل مثل دراجہ الناریہ فت فت فت فت فت۔‘‘ *یہ تم لوگ قرآن کو اس طرح پڑھتے ہو جیسے موٹر سائیکل کی طرح پھٹ پھٹ پھٹ پھٹ۔‘‘اور مجھے ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم تو میری باتیں(عربی زبان میں) بھی نہیں سمجھ پارہے تو تم نے قرآن کیسے یاد کر لیا؟بولو۔ کیا تم نے قرآن میں قرآن پڑھنے کے اصول نہیں دیکھے کہ قرآن کیسے پڑھا جاتا ہے؟کیا تم نے یہ آیت نہیں دیکھی کہ:*
وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا (سورہ الاسرا۔آیت106)
: : *اور ہم نے قرآن کو وقتاً فوقتاً اس لیے اتارا کہ تم مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سناؤ اور اس کے مطالب انہیں ذہن نشین کراؤ۔اسی مقصد کے لیے ہم نے قرآن کو یکبارگی اتارنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا تاکہ تم اسے لوگوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھاؤ اور ذہن نشین کراتے جاؤ۔ ’’*
*اور پھر ایک اور آیت نہیں دیکھی تم نے؟ کہ*
’’ورتل القراٰن ترتیلاً‘‘ (سورہ المزمل۔آیت 4)
*اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔*
*پھر تم کیسے بگٹٹ بھاگے چلے جارہے ہو؟تم نے قرآن کو مقتدیوں کو ذہن نشین تو کرایا ہی نہیں۔تم تو اسے ایک ہی رات میں ختم کرنے پر تلے ہوئے نظر آئے۔*
پاکستانی مولوی اب بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔اس نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ ’’واللہ یا شیخ انا ما عرب ایش تقول‘‘ *قسم ہے یا شیخ میں کچھ نہیں سمجھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہو۔*
*عرب مولوی نے جواب دیا کہ جب تم کچھ سمجھتے ہی نہیں تو پھر لوگوں کے آگے کیوں کھڑے ہوتے ہو؟* (لماذا واقف امام الناس؟‘‘)۔انت تقراء بالسرعۃ۔ *تم بہت تیزرفتاری سے قرآن پڑھتے ہو۔* ’’ ھدو لاک مساکین لوراک یمکن یسمعون ولاکن لا یفھمون *‘‘یہ جو لوگ تیرے پیچھے کھڑے ہیں ،یہ سنتے ہونگے، مگر سمجھ کچھ نہیں رہے ہونگے۔* پاکستانی مولوی نے اپنے ترجمان ساتھی کی طرف دیکھا اور اردو میں اس سے بولا کہ *اب اس عربی بدو کو کون سمجھائے؟ سمجھتا تو میں بھی نہیں ہوں کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔*
*عربی مولوی نے کہا کہ اگر آئندہ تم نے قرآن کے ساتھ یہ کھیل کھیلا تو میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔*
ساتھیو یہ تو صرف ایک حقیقی واقعہ ہے ،مگر دیکھا جائےتو *یہ مسلمانوں کے ہاں گھر گھر کی کہانی ہے۔عہد رسالت میں جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو سننے والوں کی کیا کیفیت ہوتی تھی؟اللہ بیان فرماتا ہے :*
وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْن۔(سورہ المائدہ۔آیت 83)
*اور جب یہ لوگ وہ کتاب سنتے ہیں جو ہم نے نازل کی اپنے پیغمبر پر تو ان کی آنکھوں کی طرف دیکھو کہ کیسے آنسو رواں دواں ہیں۔اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی ہے۔*
*اور یہاں ہمارے ہاں جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو سننے والوں پر غنودگی طاری ہورہی ہوتی ہے اور دل ہی دل میں دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ جلدی جان چھوٹے تو گھروں کو پہنچیں کیونکہ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ کیا پڑھا جارہا ہے اور کیا کہا جارہا ہے۔اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ*
لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (سورہ الحشر۔آیت 21)
*اور (اس قرآن کی اثر انگیزی کا یہ عالم ہے کہ ) اگر ہم (مثال کے طور پر) اسے کسی پہاڑ پر نازل کر دیتے تو تم دیکھتے کہ اس کی خلاف ورزی کے احساس سے اس پر لرزہ طاری ہوجاتا اور ذمہ داری کے خیال سے وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔*
*اس قسم کی مثالیں اس لیے دیں کہ لوگ سمجھیں۔عقل و فکر سے کام لیں اور سوچیں کہ قرآن کن کن عظمتوں کا مالک ہے،اس میں کیا عظیم انسانی فلاحی نظام پیش کیا گیا ہے ؟اس پر عمل کرنے میں کون کونسی کامیابیاں بیان کی گئی ہیں اور اس کی خلاف ورزی سے کیا نتائج برآمد ہونگے؟*
نقل چسپاں ترسیل✍✍✍✍✍✍
No comments:
Post a Comment