*مشاجرات الصحابة اور عوام الناس*
☆☆☆☆☆☆☆
تحرير: سيف الله عبد الرحيم بلتستاني مدرس جامعة العلوم الأثرية جهلم ____________
"مشاجرات الصحابة" ایسا موضوع ھے جس میں کوئی عام شخص تو دور کی بات ایک غير مدقق و غير محقق عالم بھی بحث و مباحثہ اور تحقیق کے نام پر داخل ھوگا اور اس میں وہ جتنا آگے بڑھتا جائے گا، اتنا ہی شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنستا چلا جائے گا یہ ایک ایسی بحث ھے "جس میں فائدہ اور اجر کی توقع تو نہیں رکھی جا سکتی البتہ حد درجہ احتیاط کر کے گناہ سے بچا جا سکتا ھے" (1) یہی وجہ ھے کہ سلف صالحین نے ھمیشہ یہ نصیحت کی ھے کہ اس معاملہ میں زبان کی حفاظت کی جائے اور صحابہ کرام کے بارے میں کلمہ خیر کے علاوہ کوئی اور بات نہ کی جائے کیونکہ جو کچھ انہوں نے کیا ھے وہ حصول حق اور دفاع حق کے لئے تھا یہ اختلافات اجتھاد کے نتیجے میں تھے اس لئے جن صحابہ کرام سے اجتھادی غلطی ھوئی ھے ان کے لئے عذر ڈھونڈھا جائے اور ان کی نیت میں شک نہ کیا جائے۔
چونکہ ان باتوں کا تعلق نہ تو اشیاء کی حلت و حرمت اور نہ ہی معاملات کے جواز و عدم جواز سے ھے اور نہ ہی ان بنیادی عقائد کے ساتھ تعلق رکھتی ھے جن کے بارے روز محشر سوال ھوگا بلکہ عوام الناس میں ان مسائل کے بیان سے افتراق و انتشار اور دلوں میں نفرت و عداوت اور دوریاں پیدا ھوتی ھیں اس لئے ان باتوں کا عوام الناس میں بیان نہ کرنا، نہ صرف عین حکمت و دانائی ھے بلکہ نصوص شریعت کے مقتضی کے بھی عین مطابق ھے
امام احمد بن حنبل رحمه الله سے کہا گیا بعض لوگ ان احادیث کو جمع کرتے ھیں جن میں بعض صحابہ کرام کے بارے میں طعن ھوتا ھے آپ نے سخت ناراضگی اور غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا : "اگر یہ باتیں عام لوگوں کے بارے میں ھوتیں تب بھی میں اس کو ناپسند کرتا چہ جائیکہ وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ھو میں ایسی حدیثں نہیں لکھتا"۔ امام مروزی نے آپ سے پوچھا: اگر کسی ایسے شخص کے بارے میں مجھے علم ھو جائے کہ وہ ایسی آحادیث جمع کرتا ھے تو کیا میں اس سے تعلق توڑ دوں فرمایا: "ھاں بلکہ ایسا شخص قابل رجم ھے"۔ (2)
آپ فرماتے ھیں: "مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ کوئی شخص ان حادیث کو جمع کرے جن میں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہمی اختلافات کا ذکر ھے جن کا تعلق نہ حلت و حرمت سے ھے اور نہ ہی سنن ومستحبات سے کیوں لکھتے ھو ایسی باتیں کونسا علم ھے ان میں"؟؟!! (3)
شھاب بن حراش کبار اتباع التابعين میں سے ھیں وہ فرماتے ھیں: "سلف صالحین آپس میں یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ دلوں کو جوڑنے اور ان میں محبت اور الفت بڑھانے کےلئے صحابہ کرام کے محاسن بیان کیاکرو اور دلوں کو کدورت اور نفرت سے بچانے کے لئے ان کے مابین ھوئے اختلافات کو بیان کرنے سے بچو"(4)
لیکن کچھ فتنہ پرور "داعیان دین" جو درحقیقت دعاة البدعة و الفتنة ھیں وہ صحابہ کرام کے ان اختلافات کو "علم نافع" قرار دے کر عوام الناس میں بیان کرتے ھیں یہ علم نافع نہیں بلکہ حقیقت میں یہ سادہ لوح مسلمانوں کو فتنہ میں مبتلا کر رھے ھوتے ھیں《ياليت قومي يعلمون》.........
اپنی گمراہی اور ضلالت کو "عین سنت" جبکہ اھل حق جو اس مسئلہ میں سلف صالحین کے منہج کے مطابق سکوت اور خاموشی کا درس دیتے ھیں ان کو "خائن" اور کتاب و سنت کے نصوص چھپانے والے "مجرم" قرار دیتے ھیں
اس قسم کے فتنہ پرور علماء سوء کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمه الله سے پوچھا گیا: ان لوگوں کے بارے میں کیا فرماتے ھو جو یہ کہتے ھیں کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلطیاں بیان کرنا جائز ھے تو فرمایا: بہت بری بات ھے ایسے لوگوں کو سننے سے اور ان کی مجالس سے میں بیٹھنے سے بچا جائے، اور لوگوں کو ان کے شر سے آگاہ کیا جائے"۔ (5)
صورتحال یہ ھے کہ ان ظالموں نے جاھل اور اوباش لوگوں کی ایک ایسی جماعت تیار کی ھے (لا كثر الله أمثالهم في الأمة) جو عقیدہ ، اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اور عاقبت کی پرواہ کئے بغیر صحابہ کرام کی شان میں گستاخانہ انداز اور سوء أدب کے ساتھ زبان درازی کرتی ھے 《و إنهم ليقولون منكرا من القول و زورا》ان کو تیار کرنے والے "مربیین" اور ان کو اس کام کےلئے امادہ اور برآنگیختہ کرنے والے مجرموں کے لئے ھلاکت و بربادی ھو 《ليحملوا أوزارهم كاملة يوم القيامة و من أوزار الذين يضلونهم بغير علم ألا ساء ما يزرون》 حقیقت میں یہ لوگ ابن سبا کے منہج پر عمل پیرا ھیں کہ قرآن و سنت کو غیر معتبر ٹھہرانے اور لوگوں کو دین اسلام سے دور کرنے کے لئے صحابہ کرام پر خوب طعن وتشنیع کی جائے اور ان کو ھدف تنقید بنایا جائے ، اور دوسری طرف اپنے آپ کو صحیح مسلمان ثابت کرنے اور اپنی بات منوانے کے لئے اھل بیت النبی صلى الله عليه وسلم کی محبت کا سہارا لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھمارے اسلاف اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ صحابہ کرام کی تنقیص سے کتاب و سنت اور دین پر کیا زد پڑتا ھے اسی لئے انہوں نے اس قسم کے فتنوں اور شیطانی چالوں سے ھمیں آگاہ کیا ھے
امام ابو ذرعة الرازی رحمه الله فرماتے ھیں:
" جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو صحابہ کرام میں سے کسی ایک کی بھی تنقیص کر رھا ھے تو یقین جانو وہ شخص زندیق ھے کیونکہ قرآن و سنت کو ھم تک پہنچانے والے صحابہ کرام ھیں یہ لوگ ھمارے دین کے گواہ اور رجال السند (صحابہ کرام) پر طعن و تنقید کر کے کتاب وسنت کو بے وقعت اور غیر معتبر ثابت کرنا چاہتے ھیں جرح و تنقید کے مستحق تو یہ زندیق لوگ خود ھیں" (6)
امام مالك رحمه الله فرماتے ھیں: " حقیقت میں ان لوگوں کا ھدف رسول الله صلى الله عليه و سلم کی ذات مبارکہ تھی لیکن وہ یہ جرات نہ کر سکے اس لئے انہوں نے صحابہ کرام کو ھدف تنقید بنایا تاکہ یہ کہنا ممکن ھو سکے کہ نعوذ باللہ محمد صلی اللہ عليه وسلم اچھے انسان نہیں تھے اگر آپ اچھے ھوتے تو آپ کے ساتھی ہرگز برے نہ ھوتے۔" (7)
ان "محققین" کی جہالت اور صحابه کرام خصوصا امیر معاویہ رضی سللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کا یہ حال ھے۔۔۔۔۔۔۔۔
☆معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنهما کو منافقین کی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کر تے ھیں
(آپ علیه السلام نے فرمایا: "میرے صحابہ میں بارہ منافق ھیں ان میں سے آٹھ "دبیله" نامی پھوڑے سے مریں گے" صحیح مسلم کی روایت ھے اس حدیث سے متعلق "حضرت صاحب" کہتا ھے اپنے اپنے علماء سے پوچھو کہ کون کون دبیلہ بیماری سے فوت ھوا ھے آپ کے علماء جیسے ہی یہ حدیث سنیں گے ان کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ھو جائے گی یہاں وہ یہ مغالطہ دینے کی کوشش کر رھا ھے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ھے کہ وہ اس بیماری سے فوت ھوئے تھے لھذا وہ بھی اس حدیث کی زد میں آتے ھیں)۔۔۔۔۔۔ نعوذباللہ
یہ ان کا دجل اور فریب ھے حالانکہ صحیح مسلم کی اگلی روایت میں ھے یہ وہ منافقین تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبوک سے واپسی کے موقع پر گزند پہنچانے کی کوشش کی تھی یہ کل چودہ لوگ تھے ان میں سے دو نے توبہ کر لی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
نور بصیرت سے محروم ایسے لوگوں کا کیا علاج ھو سکتا ھے《ومن لم يجعل الله له نورا فما له من نور》
☆کہتے ھیں کاتب وحی ھونا اگر کوئی اعزاز ھوتا تو اس شخص کو زمین باہر نہ نکال پھینکتی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وحی لکھا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔
(ایک عیسائی شخص مسلمان ھوا تھا لیکن دوبارہ مرتد ھوکر مرا۔ اسے دفنایا گیا اگلی صبح اس کی لاش قبر سے باہر پڑی ھوئی تھی۔۔۔۔۔"
یہاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طنز کیا جا رھا ھے کہ تم یہ کہتے ھوئے نہیں تھکتے ھو کہ امیر معاویہ کاتب وحی تھے اگر تھے بھی تو اس میں اس کے لئے کیا فضیلت ھے ایک کاتب وحی کا تو یہ حال ھوا ھے کہ زمیں نے اسے اپنے دامن میں جگہ دینے سے انکار کیا )
حضرت صاحب !! گویا آپ زبان حال سے یہ بھی کہہ رھے ھیں: کہ شرف صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی اعزاز نہیں کیونکہ یہ شرف بھی اس شخص کا کوئی کام نہ آیا۔۔۔۔ 《إنكم لتقولون قولا عظيما》
ھمارا ایمان ھے شرف صحبت رسول اور کاتب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھونا اتنا بڑا اعزاز ھے کہ دنیا جہاں کا کوئی شرف اور مقام ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا
جہاں تک اس شخص کا تعلق ھے وہ تو مرتد ھوکر مرا تھا اور ارتداد کی وجہ سے دونوں اعزازات (شرف صحبت+کاتب وحی) سے محروم ھو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
☆ ھماری یہ تحقیق شیعہ اور سنی کو ایک دوسرے کے قریب کرے گی اس طرح امت سے بہت حد تک اختلافات کا خاتمہ ھوگا ۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی اس تحریک سے اختلافات بہت حد تک کم ہی نہیں بلکہ بالکل ختم ھو گئے ھیں اب شیعہ اور سنی آپس میں شیر و شکر ھوگئے ھیں ایک دوسرے کی امامت میں نمازیں بھی ادا کرنے لگے ھیں
آپ کی اس "علمی تحقیق" اور "علم نافع" سے اھل السنة والجماعة کو فائدہ ھو یا نہ ھو البتہ دشمنان صحابہ ضرور فائدہ اٹھا رھے ھیں ان کی مجالس میں باقاعدہ آپ کی تقریروں کا حوالہ دیا جاتا ھے کہ سنو صحابہ کے بارے میں اھل سنت کے اپنے "علماء" کیا کہتے ھیں۔۔۔۔۔۔
یہ کچھ باتیں بطور مثال لکھی ھیں جو اس "تحقیق" (در حقیقت تنقید) کا نتیجہ ھے جو مشاجرات صحابہ کے بارے میں انہوں نے کی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعوی ان کا یہ تھا کہ ھم تعصب اور بغض و عناد سے بالا ھوکر تحقیق کریں گے لیکن نہ تو وہ تعصب سے اپنے دامن بچا سکے اور نہ ہی بغض اور عداوت سے اپنے آپ کو دور رکھ سکے 《ألا في الفتنة سقطوا》
شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی آڑ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید و اعتراض ان کے لئے گویا ایک عام شخص پر تنقید کے برابر ھے لیکن ان عقل کے اندھوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ امیرمعاویہ پر تنقید حقیقت میں سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما پر براہ راست تنقید ھے
☆کہتے ھیں حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت یزید کے دور خلافت میں ھوئی اور یزید کو خلیفہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بنایا تھا لھذا امیر معاویہ بھی اس جرم میں برابر شریک ھیں۔۔۔۔۔۔۔
بات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک نہیں رکتی بلکہ اس سے بھی پیچھے چلی جاتی ھے کیونکہ امیر معاویہ کو شام کا راستہ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما نے دیکھایا تھا وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے مسلسل شام میں بحیثیت گورنر رھے تھے اب یہ سوال سیدنا عمر اور سیدنا عثمان سے کیا جائے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا راستہ کیوں دیکھایا انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا خلیفہ بنایا اور نتیجتا نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ھوئی۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ھوگا
نہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام میں جانے دیا جاتا اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ھوتی۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے سلف صالحین رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے یہ فرمایا ھے: معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک پردہ ھیں جو کوئی اس پردہ کو چاک کرے گا وہ جرآت کر کے آگے بھی بڑھے گا ( یعنی جو ان کو برا بھلا کہے گا تو اس کے شر سے دوسرے صحابہ کرام محفوظ نہیں رھیں گے) (8) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی وہ بنیادی سبب ھے جس کی وجہ سے علماء ربانیین اس مسئلہ میں بات کرنے سے روکتے ھیں کہ کوئی شخص جب اس موضوع پر لب کشائی کرے گا یا قلم اٹھائے گا تو اس کا جھکاؤ ایک طرف ضرور ھو کر رھے گا انصاف کا دامن ھاتھ سے چھوٹ جائے گا شیطان کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملے گا اور نتیجتا وہ ایسے لوگوں سے بغض رکھے گا اور انہیں لعن طعن کرے گا جن سے محبت رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عوام الناس میں "مشاجرات الصحابة" بیان نہ کرنے میں کون کون سی حکمتیں کار فرما ھیں۔۔۔۔(جاری ھے)
_______________________
(1) شرح العقيدة الواسطية لاين عثيمين
ص 618/617
(3-2) السنة للخلال 507-506/3
(4) الجامع لأحكام القرآن للقرطبي 33/18
(5) السنة للخلال
(6) الإصابة في تمييز الصحابة لاين الحجر 11/1
(7) منهاج السنة للأمام ابن تيمية 123/4
(8) یہ قول ربیع بن نافع کا ھے لیکن مختلف الفاظ کے ساتھ امام نسائی ، وکیع بن جراح اور عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ سے بھی مروی ھیں
✍✍✍✍✍✍। ✍✍✍✍✍ ✍✍✍✍✍✍✍
www.youtube.com/realtube51
www.facebook.com/ahlehadeethmuzaffarpur
No comments:
Post a Comment