Sona Ya chandi par kitna Zakat Hai, Zakat Ka Masla, Zakat ka Tariqa
سوال_ *سونے،چاندی اور نقدی پر کب، اور کتنی زکوٰۃ واجب ہے؟*
جواب..!
*الحمدللہ...*
*الحمدللہ...*
*سونے چاندی اور نقدی کا نصاب*
اگرپانچ اوقیہ(تقریباًدو سو درہم)چاندی یا 20 مثقال (تقریباً 20 دینار) سونا سال بھر موجود رہے ہوں تو ان پر چالیسواں حصہ (یعنی چاندی کے پانچ درہم اور سونے کا آدھا دینار) بطورِ زکوٰۃ دیا جائے گا۔
اسی طرح اگر کسی کے پاس اتنی رقم نقد ہو کہ وہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کے برابر ہو جائے اور اس پر سال گزر جائے، تو پھر اس رقم میں سے بھی اڑھائی فیصد زکوٰۃ نکالی جائے گی،
اسی طرح اگر کسی کے پاس اتنی رقم نقد ہو کہ وہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کے برابر ہو جائے اور اس پر سال گزر جائے، تو پھر اس رقم میں سے بھی اڑھائی فیصد زکوٰۃ نکالی جائے گی،
جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :
حضرت جابرؓ سے روایت کہ آنحضرتﷺ نے
فرمایا:
لیس فیما دون خمس أواق من الورق صدقة
''پانچ اوقیہ (مساوی دو سو درہم) سے کم ورق ؍چاندی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔'
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_980)
(مسند احمد،حدیث نمبر_14162)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1794)
فرمایا:
لیس فیما دون خمس أواق من الورق صدقة
''پانچ اوقیہ (مساوی دو سو درہم) سے کم ورق ؍چاندی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔'
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_980)
(مسند احمد،حدیث نمبر_14162)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1794)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ
نے ان سے فرمایا:
''جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پرایک سال کا عرصہ گزر جائے تو ان میں سے پانچ درہم بطورِ زکوٰۃ دو اور اسی طرح اگر تمہارے پاس بیس دینار سونا سال بھر رہا ہو تو اس میں نصف دینار زکوٰۃ ہے، اگر ایسا (یعنی یہ دونوں شرائط یا ان میں سے کوئی ایک شرط پوری) نہ ہو تو پھر زکوٰۃ فرض نہیں۔''
(سنن ابوداود ،حدیث نمبر:1573) صحیح )
واضح رہے کہ اس حدیث کی سند میں اگرچہ ضعف ہے لیکن شواہد کہ بنا پر صحیح ہے، اور یہی مسئلہ اجماعِ امت سے بھی ثابت ہے ۔
(دیکھئے الاجماع لابن المنذر: ص ۴۴، موسوعۃ الاجماع:۱؍۴۸۳)
نے ان سے فرمایا:
''جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پرایک سال کا عرصہ گزر جائے تو ان میں سے پانچ درہم بطورِ زکوٰۃ دو اور اسی طرح اگر تمہارے پاس بیس دینار سونا سال بھر رہا ہو تو اس میں نصف دینار زکوٰۃ ہے، اگر ایسا (یعنی یہ دونوں شرائط یا ان میں سے کوئی ایک شرط پوری) نہ ہو تو پھر زکوٰۃ فرض نہیں۔''
(سنن ابوداود ،حدیث نمبر:1573) صحیح )
واضح رہے کہ اس حدیث کی سند میں اگرچہ ضعف ہے لیکن شواہد کہ بنا پر صحیح ہے، اور یہی مسئلہ اجماعِ امت سے بھی ثابت ہے ۔
(دیکھئے الاجماع لابن المنذر: ص ۴۴، موسوعۃ الاجماع:۱؍۴۸۳)
احادیث مبارکہ سے یہ بات سمجھ آئی کہ،
سونے ،چاندی اور نقدی میں زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے دو شرائط کا ہونا ضروری ہے،
سونے ،چاندی اور نقدی میں زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے دو شرائط کا ہونا ضروری ہے،
1_ *جب چاندی کی مقدار 200 درہم (یعنی ساڑھے باون تولے) یا اتنی نقد رقم ہو یا اس سے زیادہ ہو،
اور سونا بیس دینار (ساڑھے سات تولے ) یا اتنی نقد رقم یا اس سے زیادہ ہو*
اور سونا بیس دینار (ساڑھے سات تولے ) یا اتنی نقد رقم یا اس سے زیادہ ہو*
2_ *اور پھر ان پر پورا سال گزر جائے*
تب جا کر ان مین زکوٰۃ فرض ہو گی، اور اس مال کا
اڑھائی فیصد زکوٰۃ کی مد میں نکالا جائے گا،
اڑھائی فیصد زکوٰۃ کی مد میں نکالا جائے گا،
یعنی ایک سو روپے میں ڈھائی روپے زکوٰۃ،
ایک ہزار میں ڈھائی سو زکوٰۃ،
ایک لاکھ میں ڈھائی ہزار،
ایک ہزار میں ڈھائی سو زکوٰۃ،
ایک لاکھ میں ڈھائی ہزار،
زکوٰۃ کے لیے سونے چاندی کو اکٹھا کرنا:
زکوٰۃ کے لیے سونے اور چاندی کو ملا کر زکوٰۃ کا نصاب بنانے میں اہل علم کا اختلاف ہے،
بہرحال سونا الگ چیز ہے اور چاندی الگ،
دونوں کا نصاب بھی الگ ہے اور دونوں کی الگ الگ ہی زکوٰۃ نکالی جائیگی،
لیکن اگر کسی کے پاس اتنی چاندی ہے کہ وہ نصاب کو نہیں پہنچتی اور اتنی نقدی ہے کہ دونوں کو ملائیں تو زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جاتے، تو بہتر ہے کہ وہ دونوں کو ملا کر زکوٰۃ نکال دے ، اسی میں غرباء و مساکین کی بھلائی ہے،
بہرحال سونا الگ چیز ہے اور چاندی الگ،
دونوں کا نصاب بھی الگ ہے اور دونوں کی الگ الگ ہی زکوٰۃ نکالی جائیگی،
لیکن اگر کسی کے پاس اتنی چاندی ہے کہ وہ نصاب کو نہیں پہنچتی اور اتنی نقدی ہے کہ دونوں کو ملائیں تو زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جاتے، تو بہتر ہے کہ وہ دونوں کو ملا کر زکوٰۃ نکال دے ، اسی میں غرباء و مساکین کی بھلائی ہے،
اور اگر اتنا سونا ہے کہ وہ نصاب کو نہیں پہنچتا اور ساتھ اتنی نقدی ہے کہ دونوں کو ملا دیں تو زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جاتے تو پھر ضروری ہے کہ وہ دونوں کو ملا کر نصاب کے مطابق زکوٰۃ نکال دے، کیونکہ نقدی کی اصل تو سونا ہی ہے،
( واللہ تعالیٰ اعلم )
( واللہ تعالیٰ اعلم )
اب رہا مسئلہ نقدی کے نصاب کا،
کہ نقدی پیسوں کے لیے نصاب کس کو مقرر کیا جائے ،؟ سونے کو یا چاندی کو؟
کیونکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ چاندی کے نصاب کو تو پہنچتے ہیں، مگر سونے کے نصاب کو نہیں پہنچتے تو وہ کیا کرے؟؟
کہ نقدی پیسوں کے لیے نصاب کس کو مقرر کیا جائے ،؟ سونے کو یا چاندی کو؟
کیونکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ چاندی کے نصاب کو تو پہنچتے ہیں، مگر سونے کے نصاب کو نہیں پہنچتے تو وہ کیا کرے؟؟
*اس بارے علماء کے دو مؤقف ہیں*
پہلا مؤقف..!
اصل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ساڑھے باون تولے چاندی اور ساڑھے سات تولے سونے کی مالیت برابر تھی،
مگر چونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سونا اوپر اور چاندی کا بھاؤ نیچے آ گیا،
تو اب یہ مشکل آ گئی کہ کہ ہم نصاب کے لیے معیار کس کو بنائیں؟
اگر مذکورہ اموالِ زکوٰۃ کا موازنہ کرکے دیکھا جائے کہ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، چالیس بکریوں پر زکوٰۃ ہے، پانچ وسق کھجور یاکشمش پر زکوٰۃ ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس عہدمیں زکوٰۃ کے تمام نصابوں کی مالیت کے قریب ترین سونا ہے،
چاندی نہیں،
یعنی پانچ اونٹوں اور چالیس بکریوں کی قیمت تقریباً (کم و بیش)چار سو دینار کے مساوی ہوگی،
تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شریعت کی نظر میں
چار اونٹوں یا اُنتالیس بکریوں کا مالک توفقیر ہو،اور اس پر زکوٰۃ واجب نا ہو،
(کیونکہ 39 بکریوں پر زکوٰۃ نہیں)
اصل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ساڑھے باون تولے چاندی اور ساڑھے سات تولے سونے کی مالیت برابر تھی،
مگر چونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سونا اوپر اور چاندی کا بھاؤ نیچے آ گیا،
تو اب یہ مشکل آ گئی کہ کہ ہم نصاب کے لیے معیار کس کو بنائیں؟
اگر مذکورہ اموالِ زکوٰۃ کا موازنہ کرکے دیکھا جائے کہ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، چالیس بکریوں پر زکوٰۃ ہے، پانچ وسق کھجور یاکشمش پر زکوٰۃ ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس عہدمیں زکوٰۃ کے تمام نصابوں کی مالیت کے قریب ترین سونا ہے،
چاندی نہیں،
یعنی پانچ اونٹوں اور چالیس بکریوں کی قیمت تقریباً (کم و بیش)چار سو دینار کے مساوی ہوگی،
تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شریعت کی نظر میں
چار اونٹوں یا اُنتالیس بکریوں کا مالک توفقیر ہو،اور اس پر زکوٰۃ واجب نا ہو،
(کیونکہ 39 بکریوں پر زکوٰۃ نہیں)
لیکن جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر نقدی ہو جس سے وہ پانچ ںکریاں بھی نہ خرید سکتا ہو تو اس پر زکوٰۃ کیسے واجب ہو گی؟
اور کس طرح اس حقیر مالیت کو غنی تصور کیا جاسکتا ہے؟
شاہ ولی اللہ ؒ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں :
پانچ اوقیہ چاندی کو نصابِ زکوٰۃ اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ یہ مقدار ایک گھرانے کی سال بھر کی ضرورت کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اکثر علاقوں میں قیمتیں معتدل ہوں اور اگر آپ قیمتوں میں معتدل علاقوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اس حقیقت کا اِدراک ہوجائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی کسی اسلامی ملک میں پچاس یا (اس سے) کم و بیش مصری(کرنسی)اور سعودی ریال یا پاکستانی اور ہندوستانی روپے٭ میں ایک گھرانے کا پورے سال کا گزر ہوسکتا ہے؟
بلکہ کیا ایک ماہ یا ایک ہفتہ کا بھی ہوسکتا ہے؟
بلکہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں جہاں کا معیارِ زندگی کافی بلند ہوچکا ہے، یہ رقم ایک متوسط گھرانے کی ایک دن کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہے، تو اس رقم کا مالک شریعت کی نظر میں کیوں کر غنی متصور ہوسکتا ہے؟
یہ بہت ہی بعید از قیاس بات ہے!
اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم اپنے اس عہد میں نصابِ زکوٰۃ کی پیمائش کے لئے سونے کو اصل قرار دیں۔ اگرچہ چاندی سے نصابِ زکوٰۃ کے تقرر میں فقرا اور مستحقین کا مفاد ہے مگر اس میں مال کے مالکین پر بار بھی پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کے دہندگان صرف بڑے بڑے سرمایہ دار اور اغنیا ہی نہیں ہوتے بلکہ اُمت ِمسلمہ کے عام افراد زکوٰۃ دہندگان ہیں''۔
اور ویسے بھی ہمارے ہاں روپیہ تو ایک رسید ہے، سونے کی، اصل تو سونا ہی ہے!
(فقہ الزکوٰۃ: ج۱؍ ص۳۵۲ تا۳۵۴)
شاہ ولی اللہ ؒ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں :
پانچ اوقیہ چاندی کو نصابِ زکوٰۃ اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ یہ مقدار ایک گھرانے کی سال بھر کی ضرورت کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اکثر علاقوں میں قیمتیں معتدل ہوں اور اگر آپ قیمتوں میں معتدل علاقوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اس حقیقت کا اِدراک ہوجائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی کسی اسلامی ملک میں پچاس یا (اس سے) کم و بیش مصری(کرنسی)اور سعودی ریال یا پاکستانی اور ہندوستانی روپے٭ میں ایک گھرانے کا پورے سال کا گزر ہوسکتا ہے؟
بلکہ کیا ایک ماہ یا ایک ہفتہ کا بھی ہوسکتا ہے؟
بلکہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں جہاں کا معیارِ زندگی کافی بلند ہوچکا ہے، یہ رقم ایک متوسط گھرانے کی ایک دن کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہے، تو اس رقم کا مالک شریعت کی نظر میں کیوں کر غنی متصور ہوسکتا ہے؟
یہ بہت ہی بعید از قیاس بات ہے!
اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم اپنے اس عہد میں نصابِ زکوٰۃ کی پیمائش کے لئے سونے کو اصل قرار دیں۔ اگرچہ چاندی سے نصابِ زکوٰۃ کے تقرر میں فقرا اور مستحقین کا مفاد ہے مگر اس میں مال کے مالکین پر بار بھی پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کے دہندگان صرف بڑے بڑے سرمایہ دار اور اغنیا ہی نہیں ہوتے بلکہ اُمت ِمسلمہ کے عام افراد زکوٰۃ دہندگان ہیں''۔
اور ویسے بھی ہمارے ہاں روپیہ تو ایک رسید ہے، سونے کی، اصل تو سونا ہی ہے!
(فقہ الزکوٰۃ: ج۱؍ ص۳۵۲ تا۳۵۴)
دوسرا مؤقف
جبکہ دوسری طرف بعض بلکہ اکثر و بیشتر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین چاندی کے حساب سے کیا جائے گا،
اکثر علما کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں نوٹوں کے اجرا سے پہلے چونکہ چاندی کا روپیہ رائج تھا لہٰذا چاندی کو بنیاد قرار دے کر چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت نکال لی جائے، یہ حد نصاب ہوگا اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں آج کل بھی کاغذی زر (نوٹوں) کو ورقہ کہتے ہیں اور یہی لفظ چاندی کے لئے استعمال ہوتا ہے، نیز چاندی کوہی نقد روپیہ کے لئے نصاب قرار دینا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ کہیں اللہ کا حق ہمارے ذمہ نہ رہ جائے لہٰذا اس اہم دینی فریضہ میں ہرممکن احتیاط لازم ہے۔''
(تجارت اور لین دین کے مسائل: ص۳۱۸،۳۱۹)
جبکہ دوسری طرف بعض بلکہ اکثر و بیشتر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین چاندی کے حساب سے کیا جائے گا،
اکثر علما کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں نوٹوں کے اجرا سے پہلے چونکہ چاندی کا روپیہ رائج تھا لہٰذا چاندی کو بنیاد قرار دے کر چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت نکال لی جائے، یہ حد نصاب ہوگا اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں آج کل بھی کاغذی زر (نوٹوں) کو ورقہ کہتے ہیں اور یہی لفظ چاندی کے لئے استعمال ہوتا ہے، نیز چاندی کوہی نقد روپیہ کے لئے نصاب قرار دینا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ کہیں اللہ کا حق ہمارے ذمہ نہ رہ جائے لہٰذا اس اہم دینی فریضہ میں ہرممکن احتیاط لازم ہے۔''
(تجارت اور لین دین کے مسائل: ص۳۱۸،۳۱۹)
اس سب کا مفہوم یہ ہے کہ،
1. اوّل تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نقدی پیسوں کی چاندی کے حساب سے زکوٰۃ نکال دیں، تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے۔
اور ظاہر سی بات ہے جس کے پاس اس قدر ضروریات کے باوجود بھی اتنی رقم جمع ہے کہ اس پر سال گزر گیا تو وہ اس میں سے کچھ زکوٰۃ کی مد میں خرچ بھی کر سکتا ہے،
اور ظاہر سی بات ہے جس کے پاس اس قدر ضروریات کے باوجود بھی اتنی رقم جمع ہے کہ اس پر سال گزر گیا تو وہ اس میں سے کچھ زکوٰۃ کی مد میں خرچ بھی کر سکتا ہے،
2. دوسرا یہ کہ فقراء و مساکین کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔
3. کہ لوگ بلاوجہ ضرورتوں پر بھی تو خرچ کرتے ہیں ، اگر کچھ اللہ کی راہ میں زکوٰۃ کی صورت ادا کر دیں گے تو کونسا فرق پڑ جائے گا؟
4 ۔لیکن اسکے باوجود بھی اگر کوئی شخص سونے کو نصاب بناتا ہے تو ہم اس پر قدغن نہیں لگا سکتے،
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
No comments:
Post a Comment