سوال:کیا حمام میں ننگا ہوکر نہانہ جائز ہے؟
الجواب نعون رب العباد:
ننگا ہوکر نھانے میں کوئی حرج نہیں خاص کر جب حمام یعنی غسل خانے میں اسکی ضرورت پڑے لیکن افضل یہی ہے کہ کوئی تھبند وغیرہ پہن کر ہی غسل کیا جائے۔
دلیل:حدیث ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ موسی علیہ السلام بہت باحیا شخص تھے اس میں ہے کہ وہ دور جاکر کہیں خلوت میں نھاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [بخاری حدیث نمبر:3404 ، ومسلم ، 339]۔
اس حدیث سےاکثر علماء نے استدلال کیا ہے کہ برہنہ ہوکر نہانے میں جواز ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں باب:باب من اغتسل عريانا وحده في الخلوة ومن تستر فالستر أفضل]۔
اس باب سے بھی ثابت ہوا کہ خلوت میں برہنہ ہوکر نہانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن افضل ہے کہ نہاتے وقت بھی ستر کا خیال رکھا جائے۔
ایوب علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ وہ برہنہ ہویر غسل کیا کرتے تھے۔[بخاری حدیث نمبر:275]۔
اس حدیث سے بھی محدثین نے استدلال کیا ہے کہ برہنہ نھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ضرورت کے وقت انسان برہنہ غسل وغیرہ کرسکتا ہے یعنی غسل خانہ وغیرہ میں البتہ جہاں لوگوں کی امدرفت ہو ان جگہوں پر برہنہ نھانہ حرام ہے۔[شرح مسلم 32/4].
علامہ ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ برہنہ ہوکر غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی علیہ السلام ، موسی علیہ السلام ، اور ایوب علیہ السلام برہنہ ہوکر نہانے تھے جیساکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔[مجموع فتاوی]۔
خلاصہ کلام:اسے ثابت ہوا کہ غسل خانہ میں ننگا ہوکر نہانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
كتبه/حافظ ابو زھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
www.youtube.com/realtube51
www.facebook.com/ahlehadeethmuzaffarpur
No comments:
Post a Comment