Kya Kisi Se Is Garz Se Nikah kiya ja Sakta Hai Jise Kuchh Dino Ke Bad Use Chhor Diya Jaye, ya fir usse bache hone ke bad Use Talaq De de.
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بلا شبہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے لیے اپنی زندگی کے لیے یہاں تک کہ اپنی ازدواجی زندگی کے لیے کچھ تحفظات چاہتاہے، خاص طور پر معاملات میں شرط کی شکل میں وہ اپنے حقوق کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتاہے، اور اسلام میں اس جذبہ کی مکمل رعایت رکھی گئی ہے اور شریعت کے دائرہ میں رہ کر شرط لگانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
الناس علی شروطھم ما وافقت الحق
لوگوں پر ان شرطوں کی تکمیل لازم ہے جوحق کے موافق ہوں
اور شرط کسی معاملہ میں ایسی چیز کو لازم کرلینا ہے جو نفس معاملہ کی وجہ سے لازم نہ ہو، مخصوص الفاظ کے ذریعہ۔
غرض یہ کہ شرط کی وجہ سے دو سرے فریق پر کچھ ایسی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں جواس پر واجب و ضروری نہ تھیں لیکن حالات اور فریق جانب کی وجہ سے عائد ہوئیں، تاہم شریعت نے اس سلسلہ میں بھی فریقین کو بالکل آزاد نہیں چھوڑا ہے کہ وہ معاملہ کو جس طرح سے چاہیں طے کرلیں بلکہ معاملہ کی روح اور مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، نیز کسی کے نفسِ امارہ اور جذبات کا مکمل خیال کرتے ہوئے جائز قرار دیا
عقد نکاح کو جائز راستے سے مشروط کرنا جائز ہے ۔ مثلاً عورت یہ شرط لگائے کہ شوہر رکھ رکھاؤ اوربرتاؤ میں اس کے ساتھ عمدہ سلوک کرے گا، اس قسم کی شرط بالاتفاق معتبرہے۔لیکن ایسی شرطیں جن کا مقصد نکاح سے پیدا ہونے والی کسی ذمہ داری سے گریز ہو یا نکاح کے واجب احکام میں تبدیلی کو مستلزم ہوں‘‘ مثلاً یہ شرط لگانا کہ شوہر نفقہ کا ذمہ دار نہ ہوگا یا مہر ادا نہیں کرے گایا عورت کی طرف سے یہ شرط کہ شوہر اس سے ہم بستری نہیں کرے گا یا اس کی سوکن کی بہ نسبت اس کے یہاں زیادہ رہے گا،ایسی شرط بالاتفاق نامعتبرہے ۔
صورت مسئولہ میں پائی جانے والی شرط سراسر حرام ہے ۔ یہ متعہ کی ہی ایک شکل ہے جسے نبی کریمﷺ نے جنگ خیبر کے بعد حرام قرار دے دیا تھا ۔
متعہ یا مؤقت شادی یہ ہے کہ کوئي شخص کسی عورت سے کچھ معین وقت کے لیے کچھ مال کے عوض شادی کرے ، جبکہ شادی میں اصل تویہ ہے کہ اس میں استمرار اورہمیشگی ہو، نکاح متعہ نبی کریمﷺ نے جنگ خیبر کے بعد حرام قرار دے دیا تھا اورقیامت تک یہ حرام ہی رہے گا ۔ علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ اور گھریلو گدھے کے گوشت کوخیبر کے دور میں منع فرمایا تھا ۔
اورایک ورایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے روز عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھے کے گوشت سے روک دیا ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 3979 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1407 ) ۔
چونکہ نکاح متعہ بھی کسی فائدے کے عوض مشروط ہوتا ہے ۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں پائی جانے والی شرط سراسر حرام ہے ۔ یہ متعہ کی ہی ایک ثابت شکل ہے جسے نبی کریمﷺ نے جنگ خیبر کے بعد حرام قرار دے دیا تھا ۔ لہٰذا اس قسم کا مشروط نکاح جو سائلہ نے بیان کیا ، کرنے والے اور کرانے والے دونوں پر وبال ہوگا ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
فضیلةالشیخ جرجیس انصاری حفظہ اللہ مسزانصاری
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بلا شبہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے لیے اپنی زندگی کے لیے یہاں تک کہ اپنی ازدواجی زندگی کے لیے کچھ تحفظات چاہتاہے، خاص طور پر معاملات میں شرط کی شکل میں وہ اپنے حقوق کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتاہے، اور اسلام میں اس جذبہ کی مکمل رعایت رکھی گئی ہے اور شریعت کے دائرہ میں رہ کر شرط لگانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
الناس علی شروطھم ما وافقت الحق
لوگوں پر ان شرطوں کی تکمیل لازم ہے جوحق کے موافق ہوں
اور شرط کسی معاملہ میں ایسی چیز کو لازم کرلینا ہے جو نفس معاملہ کی وجہ سے لازم نہ ہو، مخصوص الفاظ کے ذریعہ۔
غرض یہ کہ شرط کی وجہ سے دو سرے فریق پر کچھ ایسی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں جواس پر واجب و ضروری نہ تھیں لیکن حالات اور فریق جانب کی وجہ سے عائد ہوئیں، تاہم شریعت نے اس سلسلہ میں بھی فریقین کو بالکل آزاد نہیں چھوڑا ہے کہ وہ معاملہ کو جس طرح سے چاہیں طے کرلیں بلکہ معاملہ کی روح اور مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، نیز کسی کے نفسِ امارہ اور جذبات کا مکمل خیال کرتے ہوئے جائز قرار دیا
عقد نکاح کو جائز راستے سے مشروط کرنا جائز ہے ۔ مثلاً عورت یہ شرط لگائے کہ شوہر رکھ رکھاؤ اوربرتاؤ میں اس کے ساتھ عمدہ سلوک کرے گا، اس قسم کی شرط بالاتفاق معتبرہے۔لیکن ایسی شرطیں جن کا مقصد نکاح سے پیدا ہونے والی کسی ذمہ داری سے گریز ہو یا نکاح کے واجب احکام میں تبدیلی کو مستلزم ہوں‘‘ مثلاً یہ شرط لگانا کہ شوہر نفقہ کا ذمہ دار نہ ہوگا یا مہر ادا نہیں کرے گایا عورت کی طرف سے یہ شرط کہ شوہر اس سے ہم بستری نہیں کرے گا یا اس کی سوکن کی بہ نسبت اس کے یہاں زیادہ رہے گا،ایسی شرط بالاتفاق نامعتبرہے ۔
صورت مسئولہ میں پائی جانے والی شرط سراسر حرام ہے ۔ یہ متعہ کی ہی ایک شکل ہے جسے نبی کریمﷺ نے جنگ خیبر کے بعد حرام قرار دے دیا تھا ۔
متعہ یا مؤقت شادی یہ ہے کہ کوئي شخص کسی عورت سے کچھ معین وقت کے لیے کچھ مال کے عوض شادی کرے ، جبکہ شادی میں اصل تویہ ہے کہ اس میں استمرار اورہمیشگی ہو، نکاح متعہ نبی کریمﷺ نے جنگ خیبر کے بعد حرام قرار دے دیا تھا اورقیامت تک یہ حرام ہی رہے گا ۔ علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ اور گھریلو گدھے کے گوشت کوخیبر کے دور میں منع فرمایا تھا ۔
اورایک ورایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے روز عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھے کے گوشت سے روک دیا ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 3979 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1407 ) ۔
چونکہ نکاح متعہ بھی کسی فائدے کے عوض مشروط ہوتا ہے ۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں پائی جانے والی شرط سراسر حرام ہے ۔ یہ متعہ کی ہی ایک ثابت شکل ہے جسے نبی کریمﷺ نے جنگ خیبر کے بعد حرام قرار دے دیا تھا ۔ لہٰذا اس قسم کا مشروط نکاح جو سائلہ نے بیان کیا ، کرنے والے اور کرانے والے دونوں پر وبال ہوگا ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
فضیلةالشیخ جرجیس انصاری حفظہ اللہ مسزانصاری
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
No comments:
Post a Comment