Doodh Pilane wali Khawateen Ke Roze Rakhne Ke Masail.
شیخ، دودھ پلانے والی خواتین کے لیے کیا حکم ہے،؟
کیا وہ قضاء کرے گی یا فدیہ یا معاف؟ کیونکہ ان کو ڈھائی سال تک دودھ پلانا ضروری ہے۔ مہربانی کرکے رہنمائی فرمائیں.
الجواب بعون رب العباد:
دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ عورت اگر ان دونوں کو اپنے آپ یا اپنے بچے پر روزہ کی حالت میں کوئی خوف کا اندیشہ ہے کہ بچہ ہر روزہ کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچ سکتا ہے اس صورت میں انکے لئے جائز ہے کہ وہ رمضان میں افطار کریں اور پہر بعد میں اسکی قضاء کریں.
اس حالت میں وہ دونوں بیمار کے حکم میں ہے جیسا کہ بیمار کسی تکلیف کی وجہ سے روزہ رکھنے سے قاصر ہے اسلئے کہ اسکے پاس بیماری عذر شرعی ہے اسی عذر شرعی میں مرضع اور حاملہ عورت شامل ہے.
دلیل:فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر. البقرة.
جو تم میں سے مریض یا سفر میں یو وہ دوسرے دنوں اسکی قضاء کرے.
دوسری دلیل:انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے مسافر کو نصف نماز فرض کی ہے اور مرضع[دودھ پلانے والی] اور حاملہ عورت پر روزہ کی رخصت ہے.[ترمذی حدیث نمبر:715 ، نسائی 180/4 ، ابن ماجہ 1667 ، مسند احمد347/4 ، حدیث نمبر:19069 ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی سند کو جید کہا ہے بحوالہ مجموع رسائل ومسائل293/2 ، علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس سند کو جید کہا ہے بحوالہ ارشاد الفقیہ 983/1 ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے صحیح الترمذی ، علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے موافقة الخبر الخبر43/2 ، شيخ الوادعي رحمه الله نے اس حدیث کو الصحيح المسند میں ذکر کیا ہے74].
ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کو اگر اپنے آپ اور اپنے بچے پر روزہ کی وجہ سے کوئی ضرر کا اندیشہ ہے تو اسکے لئے جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے.[المبسوط للشيباني 245/2 ، الاستذكار لابن عبد البر223/10 ، المجموع للنووي 267/6 ، المغني لابن قدامه 149/3].
مرضع اور حاملہ عورت کو اگر روزہ کی وجہ سے اپنے آپ یا بچے پر کسی ضرر كا انديشه ہو اور وہ اس صورت میں روزہ نہ رکھے یہ عذر ختم ہونے کے بعد اس پر جمہور اہل علم کے نزدیک صرف قضاء ہے.[انظر:فتح القدیر للکمال ابن الھمام 355/2 ، المجموع للنووي 267/2 ، المغني 149/3].
بہت سلف صالحین کی یہی رائے ہے.
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے کہ حسن بصری ، عطاء بن ابی رباح ، امام ضحاک امام نخعی ، امام زھری ، ربیعہ اور اوزاعی وغیرہ کی یہ رائے ہے کہ دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت دونوں افطار کریں ان دونوں پر روزوں کی قضاء ہے انہیں مساکین کو کھانا کھلانا ذمہ نہیں ہے.
ابو عبید اور ثور کی یہی رائے ہے ابن منذر رحمہ اللہ نے اسی رائے جو اختیار کیا ہے. [تفسیر القرطبی 289/2].
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بات پر علماء کا منجملہ اتفاق ہے کہ دودھ پلانے اور حاملہ عورت کو اگر روزہ رکھنے سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ روزہ نہ رکھے گی اور عذر کے زائل ہونے کے بعد وہ قضاء کرے گی ، ہمیں نہیں معلوم کہ اس بارے میں علماء کا کوئی اختلاف ہے. [المغني 149/3].
جمہور اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اسکے بچے یا اس پر کسی ضرر کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھے گی بعد میں وہ ان دنوں کی قضاء کرے گی اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے.[الاستذكار لابن عبد البر366/3 ، المبسوط للسرخسي92/3].
امام ابن منذر نے اسی قول کو اختیار کیا ہے.[الاشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر151/3].
علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی یہی فتوی دیا ہے. [فتاوی نور علی الدرب لابن باز 158/16].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں.[مجموع فتاوی ورسائل ابن عثیمن242/20].
**********خلاصہ کلام:روزہ رکھنا اگر واقعی دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ خاتون کے لئے مشکل ہو تو اس صورت میں وہ روزہ نہ رکھے عذر ختم ہونے کے بعد وہ ان دنوں کی قضاء کرے گی اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے.
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلي آله واصحابه أجمعين.
كتبه:أبودهير محمد يوسف بٹ بزلوی ریاضی
کیا وہ قضاء کرے گی یا فدیہ یا معاف؟ کیونکہ ان کو ڈھائی سال تک دودھ پلانا ضروری ہے۔ مہربانی کرکے رہنمائی فرمائیں.
الجواب بعون رب العباد:
دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ عورت اگر ان دونوں کو اپنے آپ یا اپنے بچے پر روزہ کی حالت میں کوئی خوف کا اندیشہ ہے کہ بچہ ہر روزہ کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچ سکتا ہے اس صورت میں انکے لئے جائز ہے کہ وہ رمضان میں افطار کریں اور پہر بعد میں اسکی قضاء کریں.
اس حالت میں وہ دونوں بیمار کے حکم میں ہے جیسا کہ بیمار کسی تکلیف کی وجہ سے روزہ رکھنے سے قاصر ہے اسلئے کہ اسکے پاس بیماری عذر شرعی ہے اسی عذر شرعی میں مرضع اور حاملہ عورت شامل ہے.
دلیل:فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر. البقرة.
جو تم میں سے مریض یا سفر میں یو وہ دوسرے دنوں اسکی قضاء کرے.
دوسری دلیل:انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے مسافر کو نصف نماز فرض کی ہے اور مرضع[دودھ پلانے والی] اور حاملہ عورت پر روزہ کی رخصت ہے.[ترمذی حدیث نمبر:715 ، نسائی 180/4 ، ابن ماجہ 1667 ، مسند احمد347/4 ، حدیث نمبر:19069 ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی سند کو جید کہا ہے بحوالہ مجموع رسائل ومسائل293/2 ، علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس سند کو جید کہا ہے بحوالہ ارشاد الفقیہ 983/1 ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے صحیح الترمذی ، علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے موافقة الخبر الخبر43/2 ، شيخ الوادعي رحمه الله نے اس حدیث کو الصحيح المسند میں ذکر کیا ہے74].
ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کو اگر اپنے آپ اور اپنے بچے پر روزہ کی وجہ سے کوئی ضرر کا اندیشہ ہے تو اسکے لئے جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے.[المبسوط للشيباني 245/2 ، الاستذكار لابن عبد البر223/10 ، المجموع للنووي 267/6 ، المغني لابن قدامه 149/3].
مرضع اور حاملہ عورت کو اگر روزہ کی وجہ سے اپنے آپ یا بچے پر کسی ضرر كا انديشه ہو اور وہ اس صورت میں روزہ نہ رکھے یہ عذر ختم ہونے کے بعد اس پر جمہور اہل علم کے نزدیک صرف قضاء ہے.[انظر:فتح القدیر للکمال ابن الھمام 355/2 ، المجموع للنووي 267/2 ، المغني 149/3].
بہت سلف صالحین کی یہی رائے ہے.
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے کہ حسن بصری ، عطاء بن ابی رباح ، امام ضحاک امام نخعی ، امام زھری ، ربیعہ اور اوزاعی وغیرہ کی یہ رائے ہے کہ دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت دونوں افطار کریں ان دونوں پر روزوں کی قضاء ہے انہیں مساکین کو کھانا کھلانا ذمہ نہیں ہے.
ابو عبید اور ثور کی یہی رائے ہے ابن منذر رحمہ اللہ نے اسی رائے جو اختیار کیا ہے. [تفسیر القرطبی 289/2].
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بات پر علماء کا منجملہ اتفاق ہے کہ دودھ پلانے اور حاملہ عورت کو اگر روزہ رکھنے سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ روزہ نہ رکھے گی اور عذر کے زائل ہونے کے بعد وہ قضاء کرے گی ، ہمیں نہیں معلوم کہ اس بارے میں علماء کا کوئی اختلاف ہے. [المغني 149/3].
جمہور اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اسکے بچے یا اس پر کسی ضرر کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھے گی بعد میں وہ ان دنوں کی قضاء کرے گی اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے.[الاستذكار لابن عبد البر366/3 ، المبسوط للسرخسي92/3].
امام ابن منذر نے اسی قول کو اختیار کیا ہے.[الاشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر151/3].
علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی یہی فتوی دیا ہے. [فتاوی نور علی الدرب لابن باز 158/16].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں.[مجموع فتاوی ورسائل ابن عثیمن242/20].
**********خلاصہ کلام:روزہ رکھنا اگر واقعی دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ خاتون کے لئے مشکل ہو تو اس صورت میں وہ روزہ نہ رکھے عذر ختم ہونے کے بعد وہ ان دنوں کی قضاء کرے گی اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے.
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلي آله واصحابه أجمعين.
كتبه:أبودهير محمد يوسف بٹ بزلوی ریاضی
- Kya Napaki Ki Halat Me Sehri Kha Sakte Hai?
- Ramzan ke Mahine Me Shaitan Ko Kaid Kar Liya Jata Hai.
- Roze Rakhne Ki Niyat Kaise Kiya Jaye?
- Taraweeh Ki Namaj 8 ya 20 rakaat Sunnat HAi?
- Ramzan Ke Mahine Me Kya Aurat Haiz ko rokne ke liye Dawa Le Sakti hai?
- Iftar ke Waqt Padhi Jane wali Dua.
- Kiske Nam Se Mannat Mangna Chahiye?
Ramzan Ka Mahina Kaisa Mahina Hai? - ramzan Ke mahine me Jhoot nahi bolne walo ko khush khabri.
- Quran Padhne Walo Ki Azmat
No comments:
Post a Comment