Roze Ki Halat Me Jima (intercourse) Karne Ka Kaffara Kya Hai?
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
❀ روزے کی حالت میں جماع کرنے کا کفارہ۔؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روزہ کی حالت میں یا روزہ توڑ کر جماع کرنے کا کیا کفارہ ہے اور کیا یہ کفارہ میاں بیوی دونوں پر لازم ہے یا صرف خاوند پر۔؟
رمضان میں روزے کی حالت سے بیوی کے ساتھ جماع کرنے پر کفارہ مغلظہ ہوگا جو کہ ایک غلام آزاد کرنا اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے اوراگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، اوراس کے ساتھ روزے کی قضاء بھی ہوگی ۔
اور عورت نے اگر یہ کام برضا و رغبت بلاجبر و اکراہ کیا ہے تو خاوند کے ساتھ ساتھ اس پر بھی یہی کفارہ ہے۔اور ساتھ اس دن کی قضاء بھی ہے۔
فتوی کمیٹی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
❀ اور اگر جماع کے علاوہ کسی اور صورت سے روزہ توڑے تو ؟؟؟
بغیر عذر شرعی کے روزہ توڑنے کا گناہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر روزہ توڑ دیتا ہے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ جلد از جلد اللہ تعالی سے توبہ کرے اور اپنے اس گناہ کی معافی مانگے اور کثرت کے ساتھ نیک اعمال کرے تا کہ اللہ تعالی اس کے اس گناہ کو معاف فرمادیں۔
جان بوجھ کر روزہ توڑنے والے پر راجح موقف کے مطابق توبہ اور اس دن کی قضاء ہے،کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے۔اگرچہ مالکیہ اس پر کفارہ بھی عائد کرتے ہیں۔
فتوی کمیٹی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی سے درج ذیل 👇 سوالات کیے جنکے جوابات ملاحظہ ہوں ۔
🌟 س➊: مجھے روزہ خراب کرنے کے کفارہ کے سلسلے ميں تھوڑی معلومات ہیں۔ ميں آنجناب سے رمضان کے دن ميں جماع کے سبب روزہ خراب کرنے کے کفارہ کے بارے ميں مزيد جانکاری چاہتا ہوں ، مجھے ايک عالم اور " المسلمون" نامی جريدہ سے معلوم ہوا کہ کفارہ ايک غلام کو آزاد کرنا ہے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ دن کا روزہ رکھنا ہے ، اور اگر اس کی طاقت نہ ہو توساٹھ مسکين کو کھانا کھلانا ہے۔ميں آنجناب سے رمضان کے دن ميں جماع کے سبب روزہ خراب کرنے کے کفارہ کے بارے ميں پوچھنا چاہتا ہوں، کيوںکہ اس بابت مجھے تفصيلی معرفت حاصل نہيں ہوسکی، لہذا آنجناب سے جواب مطلوب ہے۔ ہم آپ کے شکر گذار ہوں گے۔ اللہ آپ کو جزائے خير دے۔کيا شوہر و بيوی دونوں پر ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلانا ضروری ہوگا؟ اور اس طرح ٹوٹل ايک سو بيس مسکين ہوجائيں گے، اور حقیقت یہ تھی کہ شوہر کو جماع کی وجہ سے روزے کے خراب ہوجانے کا علم تھا، مگر اس پر شہوت غالب آگئی تھی، اور بيوی کو اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا، اور وہ رمضان کے دن ميں اپنے شوہر کے ساتھ جماع کرنے پر راضی ہوگئی۔
ج : جب آدمی رمضان کے دن ميں اپنی بيوی سے جماع کر بيٹھے تو ان ميں سے ہر ايک پر کفارہ واجب ہے ، اور اگر بيوی کو جماع پر مجبور کيا گيا ہو، تو اس پر کفارہ نہيں ہے [صرف قضاء ہے]۔اورکفارہ یہ ہے کہ ایک مومنہ لونڈی کو آزاد کیا جائے، اگرغلام نہ مل سکے تو مسلسل دو مہينے روزے رکھے جائیں، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلایا جائے، ہر مسکين کے ليے شہر کی عام خوراک ميں سے نصف صاع چاول يا گيہوں يا کجھور وغيرہ ديا جائے، وزن کے لحاظ سے اس کی مقدار تقريبا ڈيڑھ کلو ہوتی ہے، ساتھ ہی اس فعل پر اللہ سے توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔ اور بيوی جب رضامندی کا اظہار کی ہو، تو وہ شرعی حکم کے عدم علم کي وجہ سے معذور نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اسلامی ملک کی رہنے والی ہو، اس لئے کہ اس طرح کے حکم ميں جہل عذر نہيں بن سکتا؛ کيوںکہ يہ عام اور مشہور بات ہے، اور دين ميں اس کا بڑا اہم مقام ہے۔
🌟 س➋ : کيا کفارے کے ساتھ روزہ دہرانا واجب ہے؟
ج : شوہر وبيوی پر واجب ہے کہ جس روزے کو انہوں نے رمضان کے دن ميں جماع کرکے باطل کرديا ہے، اس کے کفارہ کے ساتھ اس فاسد روزے کی قضاء کريں، اگر ان درنوں نے ايک دن کے روزے کو فاسد کيا ہے تو ايک دن ، اگر دو دن کا روزہ باطل کيا ہے تو دو دن کے روزوں کی قضاء کريں گے، اور اسی طرح جتنے روزے توڑے گئے ہیں، اتنے روزوں کی قضاء ضروری ہے۔
🌟 س➌ : کیا یہ ممکن ہے کہ ہم کفارے کے طور پررمضان يا غير رمضان ميں روزے داروں کو افطار کرائيں، کيا يہ بطور کفارہ کافی ہوگا يا نہيں؟
ج : رمضان کے دن ميں جماع کا کفارہ ترتيب وار ہے جيسا کہ پہلے گذرچکا، مثلا روزوں کے ذریعے کفارہ اسی ادا کیا جائیگا، جب غلام آزاد کرنے سے انسان عاجز ہوجائے، اور مسکینوں کو کھلانے کے ذریعے کفارہ اسی وقت ادا کیا جائیگا، جب روزوں سے انسان عاجز ہو، اور جب وہ غلام آزاد کرنے اور روزہ رکھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو، تو اس کے لئے جائز ہے -جيسا کہ سوال ميں مذکور ہے- کہ وہ ساٹھ فقراء و مساکين روزے دار کو شہر کی عام غذاء سے اس طرح افطار کرائے جس سے وہ آسودہ ہوجائیں، اور یہ فدیہ ايک بار اپنی طرف سے اور ايک بار اپنی بيوی کی طرف سے ہوگا، يا اپنے اور اپنی بيوی كى طرف سے ساٹھ مسکين کو ساٹھ صاع غلہ دے ، ہر ايک کے لئے ايک صاع ہے جو تقريبا تين کیلو کے برابر ہے۔
🌟س➍ : کيا ساٹھ مسکين کو کھانا کھلانے کے بدلے ايک ہی مسکين کو نقدی رقم دينا جائز ہے ؟ اگر جائز ہے تو ايک مسکين کو کھانا کھلانے کے رقم کی مقدار سعودی ريال سے کتنی ہوگی؟
ج : کفارہ کی ادائيگی اسی صورت ميں واجب ہے جس طرح کہ شرعی دلائل ميں وارد ہے، اور ان دلائل ميں نقدی نکالنے کا ذکر نہيں ہے، لہذا شرعی حکم کے مطابق بجا آوری ضروری ہے، چنانچہ بخاری ومسلم نے أبو ہریرہ رضي الله عنه سے روايت کيا ہے کہ ایک شخص نے رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے مباشرت کرلیا ، اوراس نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی طلب کیا ، تو آپ نے فرمایا: کیا تم ایک غلام آزاد کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟ تو اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم دو ماہ پے درپے روزہ رکھنے کی قوت رکھتے ہو؟ تو اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تب تو تم ساٹھ غریبوں کو کھانا کھلاو
🌟 س ➎ : جب وہ شخص جس نے رمضان کے دن ميں اپنی بيوی سے جماع کيا ہے وہ فقير و مريض ہو، اور بيماری کے سبب کام کرنے پر قادر نہ ہو، ليکن اس کے پاس رہائشی گھر ہو، جس ميں وہ اور اس کا کنبہ رہتا ہو، وللہ الحمد- واضح رہے کہ وہ بسا اوقات اپنے اور اپنے اہل و عيال کے لئے خوراک بھی اس کے پاس میسر نہیں ہوتی ہے، ليکن اس سب کے باوجود وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اور اسکی حمد و ثناء کرتا ہے، اس بناء پر وہ نہ تو غلام آزاد کرنے، ، نہ ہی ساٹھ دن روزہ رکھنے ، اور نہ ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلانے پر قادر ہے، اس حالت ميں وہ کيا کرے ؟ کيا کوئی ايسی چيز ہے جس کی ادائیگی سے وہ اللہ کے سامنے اپنے ذمے سے بری ہوسکے؟ برائے کرم وضاحت فرمائیں، اللہ تعالی آپ کو قابلِ نفع بنائے، اللہ تعالى آپکو جزائے خیر عطا فرمائے، اور آپ پر اپنے انعامات کی بارش برسائے۔
ج : مذکورہ صورت ميں کفارہ کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے کفارہ ساقط ہوجائیگا، اس لئے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ و سلم نے اس شخص کو جو رمضان ميں جماع کے کفارہ سے عاجز تھا اسے قادر ہونے پر قضاء کا حکم نہيں ديا، اور اس صورت ميں خلوص دل سے توبہ کرنا کافی ہوگا۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
❀ روزے کی حالت میں جماع کرنے کا کفارہ۔؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روزہ کی حالت میں یا روزہ توڑ کر جماع کرنے کا کیا کفارہ ہے اور کیا یہ کفارہ میاں بیوی دونوں پر لازم ہے یا صرف خاوند پر۔؟
رمضان میں روزے کی حالت سے بیوی کے ساتھ جماع کرنے پر کفارہ مغلظہ ہوگا جو کہ ایک غلام آزاد کرنا اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے اوراگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، اوراس کے ساتھ روزے کی قضاء بھی ہوگی ۔
اور عورت نے اگر یہ کام برضا و رغبت بلاجبر و اکراہ کیا ہے تو خاوند کے ساتھ ساتھ اس پر بھی یہی کفارہ ہے۔اور ساتھ اس دن کی قضاء بھی ہے۔
فتوی کمیٹی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
❀ اور اگر جماع کے علاوہ کسی اور صورت سے روزہ توڑے تو ؟؟؟
بغیر عذر شرعی کے روزہ توڑنے کا گناہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر روزہ توڑ دیتا ہے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ جلد از جلد اللہ تعالی سے توبہ کرے اور اپنے اس گناہ کی معافی مانگے اور کثرت کے ساتھ نیک اعمال کرے تا کہ اللہ تعالی اس کے اس گناہ کو معاف فرمادیں۔
جان بوجھ کر روزہ توڑنے والے پر راجح موقف کے مطابق توبہ اور اس دن کی قضاء ہے،کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے۔اگرچہ مالکیہ اس پر کفارہ بھی عائد کرتے ہیں۔
فتوی کمیٹی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی سے درج ذیل 👇 سوالات کیے جنکے جوابات ملاحظہ ہوں ۔
🌟 س➊: مجھے روزہ خراب کرنے کے کفارہ کے سلسلے ميں تھوڑی معلومات ہیں۔ ميں آنجناب سے رمضان کے دن ميں جماع کے سبب روزہ خراب کرنے کے کفارہ کے بارے ميں مزيد جانکاری چاہتا ہوں ، مجھے ايک عالم اور " المسلمون" نامی جريدہ سے معلوم ہوا کہ کفارہ ايک غلام کو آزاد کرنا ہے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ دن کا روزہ رکھنا ہے ، اور اگر اس کی طاقت نہ ہو توساٹھ مسکين کو کھانا کھلانا ہے۔ميں آنجناب سے رمضان کے دن ميں جماع کے سبب روزہ خراب کرنے کے کفارہ کے بارے ميں پوچھنا چاہتا ہوں، کيوںکہ اس بابت مجھے تفصيلی معرفت حاصل نہيں ہوسکی، لہذا آنجناب سے جواب مطلوب ہے۔ ہم آپ کے شکر گذار ہوں گے۔ اللہ آپ کو جزائے خير دے۔کيا شوہر و بيوی دونوں پر ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلانا ضروری ہوگا؟ اور اس طرح ٹوٹل ايک سو بيس مسکين ہوجائيں گے، اور حقیقت یہ تھی کہ شوہر کو جماع کی وجہ سے روزے کے خراب ہوجانے کا علم تھا، مگر اس پر شہوت غالب آگئی تھی، اور بيوی کو اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا، اور وہ رمضان کے دن ميں اپنے شوہر کے ساتھ جماع کرنے پر راضی ہوگئی۔
ج : جب آدمی رمضان کے دن ميں اپنی بيوی سے جماع کر بيٹھے تو ان ميں سے ہر ايک پر کفارہ واجب ہے ، اور اگر بيوی کو جماع پر مجبور کيا گيا ہو، تو اس پر کفارہ نہيں ہے [صرف قضاء ہے]۔اورکفارہ یہ ہے کہ ایک مومنہ لونڈی کو آزاد کیا جائے، اگرغلام نہ مل سکے تو مسلسل دو مہينے روزے رکھے جائیں، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلایا جائے، ہر مسکين کے ليے شہر کی عام خوراک ميں سے نصف صاع چاول يا گيہوں يا کجھور وغيرہ ديا جائے، وزن کے لحاظ سے اس کی مقدار تقريبا ڈيڑھ کلو ہوتی ہے، ساتھ ہی اس فعل پر اللہ سے توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔ اور بيوی جب رضامندی کا اظہار کی ہو، تو وہ شرعی حکم کے عدم علم کي وجہ سے معذور نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اسلامی ملک کی رہنے والی ہو، اس لئے کہ اس طرح کے حکم ميں جہل عذر نہيں بن سکتا؛ کيوںکہ يہ عام اور مشہور بات ہے، اور دين ميں اس کا بڑا اہم مقام ہے۔
🌟 س➋ : کيا کفارے کے ساتھ روزہ دہرانا واجب ہے؟
ج : شوہر وبيوی پر واجب ہے کہ جس روزے کو انہوں نے رمضان کے دن ميں جماع کرکے باطل کرديا ہے، اس کے کفارہ کے ساتھ اس فاسد روزے کی قضاء کريں، اگر ان درنوں نے ايک دن کے روزے کو فاسد کيا ہے تو ايک دن ، اگر دو دن کا روزہ باطل کيا ہے تو دو دن کے روزوں کی قضاء کريں گے، اور اسی طرح جتنے روزے توڑے گئے ہیں، اتنے روزوں کی قضاء ضروری ہے۔
🌟 س➌ : کیا یہ ممکن ہے کہ ہم کفارے کے طور پررمضان يا غير رمضان ميں روزے داروں کو افطار کرائيں، کيا يہ بطور کفارہ کافی ہوگا يا نہيں؟
ج : رمضان کے دن ميں جماع کا کفارہ ترتيب وار ہے جيسا کہ پہلے گذرچکا، مثلا روزوں کے ذریعے کفارہ اسی ادا کیا جائیگا، جب غلام آزاد کرنے سے انسان عاجز ہوجائے، اور مسکینوں کو کھلانے کے ذریعے کفارہ اسی وقت ادا کیا جائیگا، جب روزوں سے انسان عاجز ہو، اور جب وہ غلام آزاد کرنے اور روزہ رکھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو، تو اس کے لئے جائز ہے -جيسا کہ سوال ميں مذکور ہے- کہ وہ ساٹھ فقراء و مساکين روزے دار کو شہر کی عام غذاء سے اس طرح افطار کرائے جس سے وہ آسودہ ہوجائیں، اور یہ فدیہ ايک بار اپنی طرف سے اور ايک بار اپنی بيوی کی طرف سے ہوگا، يا اپنے اور اپنی بيوی كى طرف سے ساٹھ مسکين کو ساٹھ صاع غلہ دے ، ہر ايک کے لئے ايک صاع ہے جو تقريبا تين کیلو کے برابر ہے۔
🌟س➍ : کيا ساٹھ مسکين کو کھانا کھلانے کے بدلے ايک ہی مسکين کو نقدی رقم دينا جائز ہے ؟ اگر جائز ہے تو ايک مسکين کو کھانا کھلانے کے رقم کی مقدار سعودی ريال سے کتنی ہوگی؟
ج : کفارہ کی ادائيگی اسی صورت ميں واجب ہے جس طرح کہ شرعی دلائل ميں وارد ہے، اور ان دلائل ميں نقدی نکالنے کا ذکر نہيں ہے، لہذا شرعی حکم کے مطابق بجا آوری ضروری ہے، چنانچہ بخاری ومسلم نے أبو ہریرہ رضي الله عنه سے روايت کيا ہے کہ ایک شخص نے رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے مباشرت کرلیا ، اوراس نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی طلب کیا ، تو آپ نے فرمایا: کیا تم ایک غلام آزاد کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟ تو اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم دو ماہ پے درپے روزہ رکھنے کی قوت رکھتے ہو؟ تو اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تب تو تم ساٹھ غریبوں کو کھانا کھلاو
🌟 س ➎ : جب وہ شخص جس نے رمضان کے دن ميں اپنی بيوی سے جماع کيا ہے وہ فقير و مريض ہو، اور بيماری کے سبب کام کرنے پر قادر نہ ہو، ليکن اس کے پاس رہائشی گھر ہو، جس ميں وہ اور اس کا کنبہ رہتا ہو، وللہ الحمد- واضح رہے کہ وہ بسا اوقات اپنے اور اپنے اہل و عيال کے لئے خوراک بھی اس کے پاس میسر نہیں ہوتی ہے، ليکن اس سب کے باوجود وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اور اسکی حمد و ثناء کرتا ہے، اس بناء پر وہ نہ تو غلام آزاد کرنے، ، نہ ہی ساٹھ دن روزہ رکھنے ، اور نہ ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلانے پر قادر ہے، اس حالت ميں وہ کيا کرے ؟ کيا کوئی ايسی چيز ہے جس کی ادائیگی سے وہ اللہ کے سامنے اپنے ذمے سے بری ہوسکے؟ برائے کرم وضاحت فرمائیں، اللہ تعالی آپ کو قابلِ نفع بنائے، اللہ تعالى آپکو جزائے خیر عطا فرمائے، اور آپ پر اپنے انعامات کی بارش برسائے۔
ج : مذکورہ صورت ميں کفارہ کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے کفارہ ساقط ہوجائیگا، اس لئے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ و سلم نے اس شخص کو جو رمضان ميں جماع کے کفارہ سے عاجز تھا اسے قادر ہونے پر قضاء کا حکم نہيں ديا، اور اس صورت ميں خلوص دل سے توبہ کرنا کافی ہوگا۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment