Burai ki Pahchan kaise Kare? kaise pahchane kaun Bura Kam Hai Aur KAun Nek Kam Hai, Bure kamo ki Sza Kya Hai?
رسول حکیم اور نبی صادق وامین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
[[والإثم ما حاك في نفسك وكرهت أن يطلع عليه الناس]]
"۔۔۔اور گناہ وہ ہے جو تمہارے نفس (دل) میں کھٹکے اور تم ناپسند کرو کہ لوگ اس پر مطلع ہو جائیں۔"(صحیح مسلم:2553)
اس حدیث میں ہر اس عمل کے گناہ ہونے کی پہچان بتائی گئی ہے جس کے نیک یا برا ہونے کا حکم اس کے کرنے والے کو واضح طور پر معلوم نہ ہو۔
اور اس مجہول الحکم عمل کے برا ہونے کی دو پہچان بتائی گئی ہے:
باطنی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ اس عمل کے تعلق سے نفس مطئن نہ ہو اور دل میں کچھ کھٹکے، یا کسی قسم کا شک، تردد، یا اضطراب وقلق محسوس ہو۔
اور ظاہری پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اس بات کو نا پسند کرے کہ نیک اور شریف لوگوں کو اس عمل کی خبر اور اطلاع ہو۔
جس عمل کی بابت دل میں یہ تردد اور تذبذب واقع ہو کہ وہ گناہ ہے یا نہیں؟ اس عمل سے بچنے میں ہی انسان کے دین اور عزت نفس کی حفاظت ہے یہاں تک کہ اس کا حکم واضح ہو جائے۔
جس عمل کے بارے میں انسان کا ضمیر دینی طور پر یہ گوارا نہ کرے کہ نیک اور شریف لوگوں کو اس کا علم ہو اس عمل کو چھوڑ دینے میں ہی خیر وبھلائی ہے۔
اگر دین کے اصول، محکمات ومسلمات اور فرائض وواجبات کے تئیں دل میں کوئی شک وشبہ پیدا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
اسی طرح اگر کسی کے دل میں نیکی کے گناہ، معروف کے منکر اور حلال کے حرام ہونے کا وسوسہ یا وہم پیدا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
گناہوں کا احساس ہونا اور ان سے اچھے لوگوں کے با خبر ہونے کو نا پسند کرنا ایمان صریح اور فطرت سلیمہ کی نشانی ہے۔
احساس گناہ کا ختم ہوجانا، منکرات کا پسند آنا اور برائیوں کو علی الاعلان انجام دینا سنگین قسم کی بے حیائی، قساوت قلبی اور ایمان کی کمزوری ہے۔
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر جبیل سعودی عرب
[[والإثم ما حاك في نفسك وكرهت أن يطلع عليه الناس]]
"۔۔۔اور گناہ وہ ہے جو تمہارے نفس (دل) میں کھٹکے اور تم ناپسند کرو کہ لوگ اس پر مطلع ہو جائیں۔"(صحیح مسلم:2553)
اس حدیث میں ہر اس عمل کے گناہ ہونے کی پہچان بتائی گئی ہے جس کے نیک یا برا ہونے کا حکم اس کے کرنے والے کو واضح طور پر معلوم نہ ہو۔
اور اس مجہول الحکم عمل کے برا ہونے کی دو پہچان بتائی گئی ہے:
باطنی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ اس عمل کے تعلق سے نفس مطئن نہ ہو اور دل میں کچھ کھٹکے، یا کسی قسم کا شک، تردد، یا اضطراب وقلق محسوس ہو۔
اور ظاہری پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اس بات کو نا پسند کرے کہ نیک اور شریف لوگوں کو اس عمل کی خبر اور اطلاع ہو۔
جس عمل کی بابت دل میں یہ تردد اور تذبذب واقع ہو کہ وہ گناہ ہے یا نہیں؟ اس عمل سے بچنے میں ہی انسان کے دین اور عزت نفس کی حفاظت ہے یہاں تک کہ اس کا حکم واضح ہو جائے۔
جس عمل کے بارے میں انسان کا ضمیر دینی طور پر یہ گوارا نہ کرے کہ نیک اور شریف لوگوں کو اس کا علم ہو اس عمل کو چھوڑ دینے میں ہی خیر وبھلائی ہے۔
اگر دین کے اصول، محکمات ومسلمات اور فرائض وواجبات کے تئیں دل میں کوئی شک وشبہ پیدا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
اسی طرح اگر کسی کے دل میں نیکی کے گناہ، معروف کے منکر اور حلال کے حرام ہونے کا وسوسہ یا وہم پیدا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
گناہوں کا احساس ہونا اور ان سے اچھے لوگوں کے با خبر ہونے کو نا پسند کرنا ایمان صریح اور فطرت سلیمہ کی نشانی ہے۔
احساس گناہ کا ختم ہوجانا، منکرات کا پسند آنا اور برائیوں کو علی الاعلان انجام دینا سنگین قسم کی بے حیائی، قساوت قلبی اور ایمان کی کمزوری ہے۔
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر جبیل سعودی عرب
No comments:
Post a Comment