Zindagi Me Apni Zaruriyat Ko Pura Karne Ke Liye Koshish Karna
رزق میں کشادگی کے شرعی اسباب (Part 16)
16- کسب معاش کے لئے جد وجہد کرنا:
✍ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے اپنے ماننے والوں کی دنیاوی مصلحت کا بھی بھر پور خیال رکھا ہے۔ اور چونکہ کھانا پینا انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے اور اس کے لئے روزی کمانا عقل اور فطرت کے عین مطابق ہے، لہذا دین اسلام نے اس کے لئے شرعی اور قانونی طریقے سے جد و جہد کرنے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ با ضابطہ اس کا حکم دیا اور اس پر ابھارا ہے۔
✍ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
*"فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله..."*(سورة الجمعة:10)
"پس جب نماز ادا ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔۔۔"
*"ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم..."*(سورة البقرة:198)
"تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔"
اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مراد رزق حلال تلاش کرنا ہے۔
*"هو الذي جعل لكم الأرض ذلولا فامشوا في مناكبها وكلوا من رزقه..."*(سورة الملك:15)
"وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم (آسان اور مسخر) کر دیا، لہذا تم اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اس کے رزق میں سے کھائو (پیو)۔"
زمین کی راہوں میں چلنے پھرنے سے مراد ہے حصول رزق کے لئے سیر و سفر کرنا۔
*"أحل الله البيع..."*(سورة البقرة:275)
"اللہ نے خرید وفروخت کو حلال قرار دیا ہے۔"
اور خرید وفروخت یعنی تجارت حصول رزق کا بہترین اور بابرکت ذریعہ ہے۔
*"وأن ليس للإنسان إلا ما سعى."*(سورة سورة النجم:39)
"اور یہ کہ انسان کے لئے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔"
اس میں رزق اور اس کے لئے جد و جہد کرنا بھی شامل ہے، لہذا جو جتنی محنت کرےگا وہ اتنا رزق پائے گا۔
✍ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
*"أيها الناس اتقوا الله وأجملوا في الطلب فإن نفسا لن تموت حتى تستوفي رزقها وإن أبطأ عنها فاتقوا الله وأجملوا في الطلب، خذوا ما حل ودعوا ما حرم"*(سنن ابن ماجه:2144)
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے کمائو، کیونکہ کوئی نفس اپنا رزق پورا کئے بغیر نہیں مرےگا اگرچہ اس میں دیر ہو جائے، اس لئے اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے روزی کمائو، جو حلال ہے اسے لے لو اور جو حرام ہے اسے چھوڑ دو۔"
*"إحرص على ما ينفعك واستعن بالله ولا تعجز."*(صحيح مسلم:2664)
"نفع بخش چیزوں میں حرص رکھو اور اللہ سے مدد مانگو اور عجز اختیار نہ کرو۔"
بے شک رزق حلال نفع بخش چیز ہے، لہذا اس میں حرص رکھنا چاہئے۔
*"لأن يحتزم أحدكم حزمة حطب على ظهره فيبيعها خير من أن يسأل رجلا فيعطيه أو يمنعه"* (سنن النسائي:2584)
تم میں سے کوئی لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے اور اسے بیچ کر گذر بسر کرے یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ کسی سے بھیک مانگے اور وہ اسے دے یا انکار کر دے۔"
*"ما كسب الرجل كسبا أطيب من عمل يده..."*(سنن ابن ماجه:2138)
"کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے اچھی اور پاکیزہ کوئی کمائی نہیں کی۔۔۔"
✍ حصول رزق کے لئے جد و جہد کرنا انبیاء ورسل علیہم السلام کی سنت ہے:
چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
*"وما أرسلنا قبلك من المرسلين إلا أنهم ليأكلون الطعام ويمشون في الأسواق"*(سورة الفرقان:20)
"اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔" یعنی وہ رزق کی فراہمی کے لئے تجارت وغیرہ کرتے تھے۔
اور حدیث میں ہے کہ:
*"ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم..."*(صحيح البخاري:2262)
"یعنی ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔"
✍ چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام بکریاں چراتے تھے(سورہ طہ:28) اور آپ نے مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کے یہاں آٹھ یا دس سالوں تک اجرت پر کام بھی کیا۔(سورہ قصص:27)۔ حضرت زکریا علیہ السلام ایک اچھے بڑھئی یعنی کار پینٹر تھے۔(صحیح مسلم:2379)۔ حضرت داود علیہ السلام لوہار تھے اور زرہ بناتے تھے (سورہ انبیاء:80 ) اور اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔(صحیح بخاری:2072)۔ حضرت یوسف علیہ السلام وزیر خزانہ تھے۔(سورہ یوسف:55)۔ اور بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کسان، حضرت نوح علیہ السلام برھئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام معمار، حضرت ادریس علیہ السلام درزی، حضرت الیاس علیہ السلام بنکر اور حضرت عیسی علیہ السلام طب میں ماہر تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
✍ خود ہمارے رسول جناب محمد صلی اللہ ہمارے علیہ وسلم نے اہل مکہ کے لئے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں۔(صحیح البخاری:2262)۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت بھی کی ہے اور تجارت کے لئے سفر بھی کیا ہے۔
✍ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی حصول رزق کے مختلف اسباب و ذرائع اختیار کرنا ثابت ہے:
چنانچہ اہل مکہ تجارت کے عادی تھے اور اہل مدینہ زراعت میں ماہر تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کا قریش کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتا تھا۔
✍ کسب معاش کے لئے پرندوں کو بھی اپنے گھونسلوں سے نکل کر زمین کی سیر کرنا پڑتا ہے یعنی جد
✍ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے اپنے ماننے والوں کی دنیاوی مصلحت کا بھی بھر پور خیال رکھا ہے۔ اور چونکہ کھانا پینا انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے اور اس کے لئے روزی کمانا عقل اور فطرت کے عین مطابق ہے، لہذا دین اسلام نے اس کے لئے شرعی اور قانونی طریقے سے جد و جہد کرنے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ با ضابطہ اس کا حکم دیا اور اس پر ابھارا ہے۔
✍ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
*"فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله..."*(سورة الجمعة:10)
"پس جب نماز ادا ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔۔۔"
*"ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم..."*(سورة البقرة:198)
"تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔"
اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مراد رزق حلال تلاش کرنا ہے۔
*"هو الذي جعل لكم الأرض ذلولا فامشوا في مناكبها وكلوا من رزقه..."*(سورة الملك:15)
"وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم (آسان اور مسخر) کر دیا، لہذا تم اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اس کے رزق میں سے کھائو (پیو)۔"
زمین کی راہوں میں چلنے پھرنے سے مراد ہے حصول رزق کے لئے سیر و سفر کرنا۔
*"أحل الله البيع..."*(سورة البقرة:275)
"اللہ نے خرید وفروخت کو حلال قرار دیا ہے۔"
اور خرید وفروخت یعنی تجارت حصول رزق کا بہترین اور بابرکت ذریعہ ہے۔
*"وأن ليس للإنسان إلا ما سعى."*(سورة سورة النجم:39)
"اور یہ کہ انسان کے لئے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔"
اس میں رزق اور اس کے لئے جد و جہد کرنا بھی شامل ہے، لہذا جو جتنی محنت کرےگا وہ اتنا رزق پائے گا۔
✍ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
*"أيها الناس اتقوا الله وأجملوا في الطلب فإن نفسا لن تموت حتى تستوفي رزقها وإن أبطأ عنها فاتقوا الله وأجملوا في الطلب، خذوا ما حل ودعوا ما حرم"*(سنن ابن ماجه:2144)
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے کمائو، کیونکہ کوئی نفس اپنا رزق پورا کئے بغیر نہیں مرےگا اگرچہ اس میں دیر ہو جائے، اس لئے اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے روزی کمائو، جو حلال ہے اسے لے لو اور جو حرام ہے اسے چھوڑ دو۔"
*"إحرص على ما ينفعك واستعن بالله ولا تعجز."*(صحيح مسلم:2664)
"نفع بخش چیزوں میں حرص رکھو اور اللہ سے مدد مانگو اور عجز اختیار نہ کرو۔"
بے شک رزق حلال نفع بخش چیز ہے، لہذا اس میں حرص رکھنا چاہئے۔
*"لأن يحتزم أحدكم حزمة حطب على ظهره فيبيعها خير من أن يسأل رجلا فيعطيه أو يمنعه"* (سنن النسائي:2584)
تم میں سے کوئی لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے اور اسے بیچ کر گذر بسر کرے یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ کسی سے بھیک مانگے اور وہ اسے دے یا انکار کر دے۔"
*"ما كسب الرجل كسبا أطيب من عمل يده..."*(سنن ابن ماجه:2138)
"کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے اچھی اور پاکیزہ کوئی کمائی نہیں کی۔۔۔"
✍ حصول رزق کے لئے جد و جہد کرنا انبیاء ورسل علیہم السلام کی سنت ہے:
چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
*"وما أرسلنا قبلك من المرسلين إلا أنهم ليأكلون الطعام ويمشون في الأسواق"*(سورة الفرقان:20)
"اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔" یعنی وہ رزق کی فراہمی کے لئے تجارت وغیرہ کرتے تھے۔
اور حدیث میں ہے کہ:
*"ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم..."*(صحيح البخاري:2262)
"یعنی ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔"
✍ چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام بکریاں چراتے تھے(سورہ طہ:28) اور آپ نے مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کے یہاں آٹھ یا دس سالوں تک اجرت پر کام بھی کیا۔(سورہ قصص:27)۔ حضرت زکریا علیہ السلام ایک اچھے بڑھئی یعنی کار پینٹر تھے۔(صحیح مسلم:2379)۔ حضرت داود علیہ السلام لوہار تھے اور زرہ بناتے تھے (سورہ انبیاء:80 ) اور اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔(صحیح بخاری:2072)۔ حضرت یوسف علیہ السلام وزیر خزانہ تھے۔(سورہ یوسف:55)۔ اور بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کسان، حضرت نوح علیہ السلام برھئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام معمار، حضرت ادریس علیہ السلام درزی، حضرت الیاس علیہ السلام بنکر اور حضرت عیسی علیہ السلام طب میں ماہر تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
✍ خود ہمارے رسول جناب محمد صلی اللہ ہمارے علیہ وسلم نے اہل مکہ کے لئے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں۔(صحیح البخاری:2262)۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت بھی کی ہے اور تجارت کے لئے سفر بھی کیا ہے۔
✍ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی حصول رزق کے مختلف اسباب و ذرائع اختیار کرنا ثابت ہے:
چنانچہ اہل مکہ تجارت کے عادی تھے اور اہل مدینہ زراعت میں ماہر تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کا قریش کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتا تھا۔
✍ کسب معاش کے لئے پرندوں کو بھی اپنے گھونسلوں سے نکل کر زمین کی سیر کرنا پڑتا ہے یعنی جد
و جہد کرنا پڑتا ہے۔
✍ حضرت مریم کو حصول رزق کے لئے درد زہ میں بھی کھجور کے تنے کو ہلانا پڑا یعنی جد و جہد کرنا پڑا۔(سورہ:25)
✍ معلوم ہوا کہ کسب معاش کے لئے جد و جہد کرنا شرعا بھی مطلوب ہے اور عقلا بھی ضروری ہے اور یہ کہ وہ رزق کی فراہمی اور اس میں برکت و کشادگی کا بنیادی سبب اور اہم ترین ذریعہ ہے۔
نوٹ:
✍ تجارت، زراعت، ملازمت اور صنعت وحرفت وغیرہ رزق کی فراہمی اور کمائی کے عام اور مشہور ومعروف اسباب وذرائع میں سے ہیں۔
✍ سستی، کاہلی، لا پرواہی، نکما پن اور بے روزگاری اختیار کرنا بہت ہی نا پسندیدہ اور معیوب عادت ہے۔
✍ بلا مجبوری اور عذر شرعی کے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا اور بھیک مانگنا نہایت گھٹیا اور مذموم عمل ہے۔
✍ رزق حلال کے لئے شرعی طریقے سے جد و جہد کرنا توکل علی اللہ کے منافی نہیں ہے۔
✍ حرام رزق کے لئے جد و جہد کرنا یا رزق حلال کے لئے حرام طریقہ اپنانا توکل علی اللہ کے منافی ہے۔
✍ طلب معاش کی خاطر ذکر و عبادت سے غفلت برتنا یا فرائض وواجبات میں کوتاہی سے کام لینا بھی توکل علی اللہ کے منافی ہے۔
✍ اللہ کا ولی یا دین کا امام یا قوم کا خادم بننے کے لئے حصول رزق کے عمل سے بے نیاز ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی یہ شرعی طور پر مطلوب ہے۔
✍ اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو کسب معاش کے لئے جائز اسباب وذرائع اختیار کرنے اور اس کے لئے شرعی طریقے سے جد و جہد کرنے کی توفیق دے اور ہماری کمائی اور رزق میں برکت اور فراوانی عطا فرمائے۔
✍ حضرت مریم کو حصول رزق کے لئے درد زہ میں بھی کھجور کے تنے کو ہلانا پڑا یعنی جد و جہد کرنا پڑا۔(سورہ:25)
✍ معلوم ہوا کہ کسب معاش کے لئے جد و جہد کرنا شرعا بھی مطلوب ہے اور عقلا بھی ضروری ہے اور یہ کہ وہ رزق کی فراہمی اور اس میں برکت و کشادگی کا بنیادی سبب اور اہم ترین ذریعہ ہے۔
نوٹ:
✍ تجارت، زراعت، ملازمت اور صنعت وحرفت وغیرہ رزق کی فراہمی اور کمائی کے عام اور مشہور ومعروف اسباب وذرائع میں سے ہیں۔
✍ سستی، کاہلی، لا پرواہی، نکما پن اور بے روزگاری اختیار کرنا بہت ہی نا پسندیدہ اور معیوب عادت ہے۔
✍ بلا مجبوری اور عذر شرعی کے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا اور بھیک مانگنا نہایت گھٹیا اور مذموم عمل ہے۔
✍ رزق حلال کے لئے شرعی طریقے سے جد و جہد کرنا توکل علی اللہ کے منافی نہیں ہے۔
✍ حرام رزق کے لئے جد و جہد کرنا یا رزق حلال کے لئے حرام طریقہ اپنانا توکل علی اللہ کے منافی ہے۔
✍ طلب معاش کی خاطر ذکر و عبادت سے غفلت برتنا یا فرائض وواجبات میں کوتاہی سے کام لینا بھی توکل علی اللہ کے منافی ہے۔
✍ اللہ کا ولی یا دین کا امام یا قوم کا خادم بننے کے لئے حصول رزق کے عمل سے بے نیاز ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی یہ شرعی طور پر مطلوب ہے۔
✍ اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو کسب معاش کے لئے جائز اسباب وذرائع اختیار کرنے اور اس کے لئے شرعی طریقے سے جد و جہد کرنے کی توفیق دے اور ہماری کمائی اور رزق میں برکت اور فراوانی عطا فرمائے۔
Siyasat Ke Liye MAsoom Ko Zulm Ki Sja Dena
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر "جبیل سعودی عرب"
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر "جبیل سعودی عرب"
No comments:
Post a Comment