Hajj Ki Adayegi Me Jaldi Kare
فریضہ حج کی ادائیگی میں جلدی کریں:
صاحب استطاعت یعنی جس پر حج فرض ہو جائے اس کو چاہئے کہ جتنا جلد ممکن ہو حج ادا کر لے اور بلا وجہ دیر نہ کرے، کیونکہ:
✍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
تعجلوا إلى الحج -يعني الفريضة- فإن أحدكم لا يدري ما ما يعرض له* (مسند أحمد:2867 وحسنه الألباني في إرواء الغليل:990)
"حج (کی ادائیگی) میں جلدی کرو -یعنی فریضہ حج (کی ادائیگی) میں- کیونکہ تم سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا پیش آجائے۔"
من أراد الحج فليتعجل فإنه قد يمرض المريض وتضل الضالة وتعرض الحاجة* (سنن ابن ماجه:2883)
"جو حج کا ارادہ رکھتا ہو اس کو (حج فرض ہو جانے کے بعد اس کی ادائیگی میں) جلدی کرنا چاہئے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بیماری لاحق ہو جائے، یا سواری گم ہو جائے یا کوئی اور ضروت پیش آ جائے۔"
✍ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
لقد هممت أن أبعث رجالا إلى هذه الأمصار فينظروا كل من كان له جدة ولم يحج فيضربوا عليهم الجزية ما هم بمسلمين ما هم بمسلمين* (سنن البيهقي:4/334) مصنف ابن أبي شيبة:2/206)
"میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کو ان شہروں میں بھیجوں تاکہ وہ ان لوگوں کی تحقیق کریں جنہوں نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا، پھر وہ ان پر ٹیکس لاگو کر دیں، کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔"
✍ راحج قول کے مطابق حج کا حکم واجب "علی الفور" ہے یعنی حج فوری طور پر ادا کیا جانے والا حکم و عمل ہے، اور اسے بلا عذر ٹالنا یا مؤخر کرنا گناہ کا باعث ہو سکتا ہے۔
✍ حج ایک عظیم الشان نیکی ہے اور نیکی میں سبقت سے کام لینا اور اسے پہلی فرصت میں انجام دینا شریعت میں مطلوب ہے۔
✍ جان، مال، تندرستی، فراغت اور امن وامان وغیرہ کی کوئی ضمانت نہیں کہ کب ختم ہو جائے، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ خواہ مخواہ دیر کرنے یا ٹال مٹول کرنے پر سوائے حسرت وافسوس کہ کچھ حاصل نہ ہو۔
*تنبیہات:
✍ یہ بات غلط ہے کہ جس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے اس کا حج درست نہیں ہوگا۔
✍ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ غیر شادی شدہ پر حج فرض نہیں ہوتا۔
✍ یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ والدین کو حج کرانے سے پہلے حج کرنا درست نہیں ہے۔
✍ یہ بھی بے بنیاد بات ہے کہ جب تک تمام بچے بڑے نہ ہو جائیں یا ان سب کی شادی نہ ہو جائے اس وقت تک حج نہیں کرنا چاہئے۔
✍ حج کے لئے کوئی خاص عمر مقرر نہیں ہے، بلکہ وہ بشرط استطاعت بلوغت کے بعد ہی فرض ہو جاتا ہے، لہذا یہ سمجھنا غلط ہے کہ حج بڑھاپے میں یا کم از کم چالیس پچاس سال کی عمر میں کرنے کا کام ہے۔
✍ یہ بھی غلط سوچ ہے کہ جوانی میں حج کرنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے بعد کی زندگی میں جو گناہ صادر ہوں گے وہ کیسے معاف ہوں گے، لہذا زندگی کے آخری پڑاؤ میں جا کر حج کرنا چاہئے تاکہ زندگی بھر کے تمام گناہ معاف ہو جائیں اور جب مرے تو اس حال میں کہ گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو۔
صاحب استطاعت یعنی جس پر حج فرض ہو جائے اس کو چاہئے کہ جتنا جلد ممکن ہو حج ادا کر لے اور بلا وجہ دیر نہ کرے، کیونکہ:
✍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
تعجلوا إلى الحج -يعني الفريضة- فإن أحدكم لا يدري ما ما يعرض له* (مسند أحمد:2867 وحسنه الألباني في إرواء الغليل:990)
"حج (کی ادائیگی) میں جلدی کرو -یعنی فریضہ حج (کی ادائیگی) میں- کیونکہ تم سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا پیش آجائے۔"
من أراد الحج فليتعجل فإنه قد يمرض المريض وتضل الضالة وتعرض الحاجة* (سنن ابن ماجه:2883)
"جو حج کا ارادہ رکھتا ہو اس کو (حج فرض ہو جانے کے بعد اس کی ادائیگی میں) جلدی کرنا چاہئے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بیماری لاحق ہو جائے، یا سواری گم ہو جائے یا کوئی اور ضروت پیش آ جائے۔"
✍ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
لقد هممت أن أبعث رجالا إلى هذه الأمصار فينظروا كل من كان له جدة ولم يحج فيضربوا عليهم الجزية ما هم بمسلمين ما هم بمسلمين* (سنن البيهقي:4/334) مصنف ابن أبي شيبة:2/206)
"میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کو ان شہروں میں بھیجوں تاکہ وہ ان لوگوں کی تحقیق کریں جنہوں نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا، پھر وہ ان پر ٹیکس لاگو کر دیں، کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔"
✍ راحج قول کے مطابق حج کا حکم واجب "علی الفور" ہے یعنی حج فوری طور پر ادا کیا جانے والا حکم و عمل ہے، اور اسے بلا عذر ٹالنا یا مؤخر کرنا گناہ کا باعث ہو سکتا ہے۔
✍ حج ایک عظیم الشان نیکی ہے اور نیکی میں سبقت سے کام لینا اور اسے پہلی فرصت میں انجام دینا شریعت میں مطلوب ہے۔
✍ جان، مال، تندرستی، فراغت اور امن وامان وغیرہ کی کوئی ضمانت نہیں کہ کب ختم ہو جائے، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ خواہ مخواہ دیر کرنے یا ٹال مٹول کرنے پر سوائے حسرت وافسوس کہ کچھ حاصل نہ ہو۔
*تنبیہات:
✍ یہ بات غلط ہے کہ جس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے اس کا حج درست نہیں ہوگا۔
✍ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ غیر شادی شدہ پر حج فرض نہیں ہوتا۔
✍ یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ والدین کو حج کرانے سے پہلے حج کرنا درست نہیں ہے۔
✍ یہ بھی بے بنیاد بات ہے کہ جب تک تمام بچے بڑے نہ ہو جائیں یا ان سب کی شادی نہ ہو جائے اس وقت تک حج نہیں کرنا چاہئے۔
✍ حج کے لئے کوئی خاص عمر مقرر نہیں ہے، بلکہ وہ بشرط استطاعت بلوغت کے بعد ہی فرض ہو جاتا ہے، لہذا یہ سمجھنا غلط ہے کہ حج بڑھاپے میں یا کم از کم چالیس پچاس سال کی عمر میں کرنے کا کام ہے۔
✍ یہ بھی غلط سوچ ہے کہ جوانی میں حج کرنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے بعد کی زندگی میں جو گناہ صادر ہوں گے وہ کیسے معاف ہوں گے، لہذا زندگی کے آخری پڑاؤ میں جا کر حج کرنا چاہئے تاکہ زندگی بھر کے تمام گناہ معاف ہو جائیں اور جب مرے تو اس حال میں کہ گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو۔
Hindi Me Padhne Ke Liye Click Kijiye (Hajj Karne Me Jaldi KAre)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *جاری* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر "جبیل سعودی عرب"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *جاری* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر "جبیل سعودی عرب"
No comments:
Post a Comment