find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Amir Muawiya R.z kaun they unki Halat-E-Zindagi

Amir Muawiya R.Z Ki Ta'aruf

امیر معاویہ کے حالات زندگی
نام ونسب
ابو عبد الرحمن معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابو سفیان رضی اللہ رعنہ بن صخر بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہءنسب پانچویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتا تھا ۔
حليه مبارك
سروقد ، لحیم وشحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی ،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شا ن وشوکت اورتمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد وتواضع، فرونتی، حلم برد باری اور چہرہ سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔
پیدائش
حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے تقریباً ۵ سال قبل پیدا ہوئے ۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سردار قریش ابوسفیان کے صاحبزادے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان 17 ِافرا دمیں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔
اسلام کے دامن رحمت میں:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کااعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، لیکن اس سے بہت عرصے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام داخل ہوچکا تھا ،جس کا ایک اہم اور واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں لاحصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہرتھے
قبول اسلام ظاهر نه كرنے كي وجه
” میں عمرةالقضا سے بھی پہلے اسلام لاچکا تھا ، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا ، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم مسلمان ہوکرمدینہ چلے گئے تو ہم تمہارے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے “ (طبقات ابن سعد ؒ)
خدمت نبوی ﷺ میں
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی ﷺ میں بسر ہونے لگے آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو امیہ کےتعلقات قبول اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دوستانہ تھے ۔
دار الامن
یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے دار ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دارالامن قراردے دیا تھا ،
آپ ﷺسے رشته داري
نیز حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اورحضرت معاویہؓ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے حرم میں داخل تھیں ۔
كاتب وحي
حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کاتبین وحی صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل فرمالیا تھا بلکہ دربار رسالت ﷺ سے جو فرامین اور خطوط جاری ہوتے تھے ، ان کو بھی آپ رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے ۔
”حضور اکرم ﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حاضر باش حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ شب وروزکتابت وحی کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی شغل نہ تھا “ (علامه ابن حزم، جامع السیر )
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ” کاتب وحی ” تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ حدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا۔۔۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتےتھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا(”ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اللہ”)*دور خلافت راشدہ ؓمیں آپؓ کے جہادی کارنامے*
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کی طرف جو لشکر بھیجےگئے آپ رضی اللہ عنہ اس کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں گورنر شام کی حیثیت سے آپ رضی اللہ عنہ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کئے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے عموریہ تک اسلام کا پرچم لہرا یا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا ایک اہم جہادی کارمانہ قبرص کی فتح ہے ۔ شام کے قریب واقع یہ حسین وزرخیز جزیرہ اس حیثیت سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ یورپ اور روم کی جانب سے یہی جزیزہ مصر وشام کی فتح کا دروازہ تھا ۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سمندری مشکلات کے پیش نظر آپ رضی اللہ عنہ کو لشکر کشی کی اجازت نہیں دی تھی ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے عزم کامل اور شدید اصرار کو دیکھتے ہوئے اجازت مرحمت فرمادی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہاں حملہ کرنے کی غرض سے 500 جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ تیار فرمایا ۔ جب اہل قبرص نے اتنے عظیم بحری بیڑے کو قبرص میں لنگر انداز دیکھاتو ابتدا میں کچھ شرائط پر مسلمانوں سے صلح کرلی، لیکن موقع پاکر عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف رومیوں کومدد فراہم کی چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نےدوبارہ حملہ کردیا اور اس اہم جزیرے کو مسخر کرلیا ۔
یہ اسلام کا پہلا بحری بیڑہ تھا اور باتفاق محدثین آپ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے اس بیڑے میں شامل مجاہدین ہی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں حضور اکرم ﷺ نے بحری جہاد کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے ، علاوہ ازیں افرنطیہ ،ملطیہ ،روم کے متعدد قلعے بھی آپ رضی اللہ عنہ نے فتح کئے ۔
*عہدے ومناصب اور خلافت:*
آپ رضی اللہ عنہ 18 ھ سے 41 ھ تک تقریباً 22 سال گورنری کے منصب پر فائز رہے ۔ آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کیزاس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ 18 ھ میں آپ رضی اللہ عنہ کے برادراکبر حضرت یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ طاعون کے باعث شہید ہوگئے ،چنانچہ ان کی جگہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دمشق کا گورنر مقرر فرمایا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فلسطین ،اردن اور لبنان بھی آپ رضی اللہ عنہ کی گورنری میں دےدئیے ۔ اس طرح شام کا صوبہ اور اس کے مضافات کے تمام علاقے آپ رضی اللہ عنہ کی عملداری میں آگئے*حضرت حسن اور امير معاويه*
41 ھ میں حضر ت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری پر آپ رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین بنے ، تمام مسلمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے دست حق پر ست پر بیعت کی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تقریباً 20 سال پر محیط ہے ۔
*بطور خلیفہ خدمات جلیلہ:*
1) آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔
2) آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔
3) مردم شماری کےلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔
4) بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔
5) تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔
6) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
7) نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔
8) نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔
9) خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورتمیں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
10) ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔
11) احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
12) عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں اور اس کو مزیدترقی دی ۔
13) آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
14) آپ نے بیت المال سےتجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔
15) سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
16) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق
17) کا استعمال کیا گیا۔
18) مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔
19) بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج ( نیوی ) کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔
20) جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔
21) قلعے بنائے ، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور ” دارالضرب “ کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔
22) امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔
دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔
ابو اسحق السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بلاشبہ وہ مہد ی زماں تھے *حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ احادیث وآثار کے آئینے میں : *
1) میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین) کے لئے(جنگ) واجب ہے (صحیح بخاری ٢٩٢٤)۔۔۔یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا (دیکھئے صحیح البخاری ٦٢٨٢۔٦٢٨٣)۔۔۔ اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شامل تھے (دیکھئے صحیح بخاری ٢٧٩٩۔٢٨٠٠)۔۔۔
2) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا۔۔۔جاؤ اور معاویہ کو بُلا لاؤ وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے۔۔۔ الخ(دلائل النبوۃ للبہیقی ٢\٢٤٣ و سند حسن)۔۔۔
3) جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رحمہ اللہ سے روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ!۔ انہوں نے صحیح کیا ہے وہ فقیہ ہیں (صحیح بخاری ٣٧٦٥)۔۔۔
4) صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ!۔۔۔ اے اللہ!۔۔۔ اسے ہادی مہدی بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے (سنن الترمذی۔٣٨٤٢ وقال؛ {ھذا حدیث حسن غریب} التاریخ الکبیر للبخاری ٥\٢٤٠، طبقات ابن سعد ٧\٤٨٧، الآحادوالمثانی لابن ابی عاصم ٢\٣٥٨ ح ١١٢٩، مسند احمد ٤\٢١٦ ح ١١٢٩ مسند احمد ٤\٢١٦ ح ١٧٨٩٥ وھوحدیث صحیح}۔۔۔ یہ روایت مروان بن محمد وغیرہ نے سعید بن عبدالعزیز سے بیان کر رکھی ہے اور مروان سعید سے روایت صحیح مسلم میں ہے۔{ دیکھئے ١٠٨\١٠٤٣ وترقیم دارلسلام ٢٠٤٣}۔۔۔
5) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ!۔مارایت رجلا کان اخلق یعنی للملک من معاویہ۔
6) میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا... (تاریخ دمشق ٦٢\١٢١ وسند صحیح، مصنف عبدالرزاق ١١\٤٥٣ ح٢٠٩٨٥)۔۔۔
7) عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!۔اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب، وقد العذاب۔اے میرے اللہ!۔ معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا۔(مسند احمد ٤\١٢٧ ح ١٧١٥٢ وسند حسن، صحیح ابن خزیمہ ١٩٣٨)۔۔۔
8) ابراہیم بن میسر الطائفی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی تھیں انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے۔ { تاریخ دمشق ٦٤\١٤٥ وسند صحیح}۔۔۔
9) 1۔اے اللہ ! اسے ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ اوروں کو ہدایت دے (
10) *حدیث مبارکہ* )
11) اے اللہ ! معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب وحساب کا علم دے اور اسے عذاب سےمحفوظ رکھ ( *حدیث مبارکہ* )
12) اے اللہ ! اس کے سینے کو علم سے بھر دے ۔ ( *حدیث مبارکہ* )
13) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)
14) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔(تطہیرالجنان)۔
15) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور”مرحبا۔۔۔۔۔۔” فرمایا”(البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)
16) معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلائی کےساتھ کرو۔ ( اسے حدیث سمجھنا غلط فہمی ہے ) ( *حضرت عمر فاروق ؓ*)
17) لوگو ! فرقہ بندی سے بچو ۔ اگر تم نے فرقہ بندی اختیار کی تو یاد رکھو معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں موجود ہیں ۔ ( *حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ* )
18) معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو برا نہ سمجھو کیونکہ جب وہ نہیں ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا دیکھو گے ( *حضر ت علی رضی اللہ عنہ* )
19) میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امو ر سلطنت وبادشاہت کے لائق کسی کو نہیں پایا۔ ( *حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ* )
20) میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والانہیں پایا ۔ ( *حضرت سعدؓبن ابی وقاص*)
21) میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر برد بار ،سیادت کے لائق ، باوقاراور نرم دل کسی کو نہیں پایا ۔( *حضرت قبیصہؓ بن جابر* )
22) اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پاتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ عدل وانصاف کیا ہے؟( *امام اعمش* ؒ)
مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ
احادیث موجود ہیں دیکھئے سیراعلام النبلاء (٣\١٦٢)۔۔۔
22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔
Share:

Shafia Jamat wale Fajer ki Dusri Rakat Ke Bad Qunoot Karte Hai Iski Kya Haqeeqat hai?

Shafai Mazhab me Fajar ki namaz me dusri rakat bad qunoot kiya jata hai uski kya haqiqat hai.Kya ye hadis se sabit Hai?
_________________________
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
تحریر  میسز اے انصاری
علماء كرام كے صحيح اقوال كے مطابق نماز وتر ميں ركوع كے بعد دعا قنوت مشروع ہے.
اور جب مسلمانوں پر مصائب كا شكار ہوں تو مسلمانوں كے ليے مشروع ہے كہ وہ نماز پنجگانہ ميں سے ہر فرضى نماز كى آخرى ركعت ميں ركوع كے بعد دعا قنوت كريں حتى كہ اللہ تعالى ان سے وہ مصيبت دور كر دے اور مسلمانوں سے نجات دے دے.
ديكھيں: كتاب تصحيح الدعاء تاليف الشيخ ابو بكر ابو زيد ( 460 ).
اور ہر قسم كے حالات ميں نماز فجر ميں دعاء قنوت كرنا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز فجر كو دعاء قنوت كے ليے خاص كيا ہو، اور نہ ہى يہ ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز فجر ميں دعاء قنوت ہميشہ اور اس پر مداومت كى ہو.
اور أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہاس بارے میں کہتے ہیں :
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے پانچوں فرض نمازوں میں قنوت نازلہ کرنا ثابت ہے۔
امام ابو داود فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا مُتَتَابِعًا فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ، يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، عَلَى رِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَعُصَيَّةَ، وَيُؤَمِّنُ مَنْ خَلْفَهُ "
سنن أبی داود: 1443
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ظہر عصر مغرب عشاء اور فجر کی نماز میں پورا مہینہ مسلسل ہر نماز کے آخر میں آخری رکعت کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد قنوت نازلہ فرمائی۔ وہ بنی سلیم کے قبیلوں رعل زکون اور عصیہ کے خلاف بد دعا فرماتے اور آپ کے پیچھے جو لوگ ہوتے وہ آمین کہتے۔
ان فرض نمازوں میں قنوت نماز کا حصہ نہیں البتہ نوازل یعنی پیش آمدہ حالات ومصائب کی بناء پر ان میں قنوت کی جاسکتی ہے۔ جبکہ وتر میں تو قنوت نماز کا حصہ ہے۔ جسے قنوت وتر کہا جاتا ہے۔ جب ان نمازوں میں قنوت نازلہ کرنا جائز ہے جن میں قنوت نماز کا مستقل حصہ نہیں تو جس نماز میں قنوت نماز کا مستقل حصہ ہے اس میں بطریق اولی قنوت کرنا جائز ہوا۔ اسے استدلال بالالویہ کہتے ہیں۔
ھذا, واللہ تعالى أعلم

Share:

Imam Ibne Taimiya Ka Apne Walda Se Doori Ka Izhar Karna.

Imam Ibn-E-Taimiya Rahimahullah Ka Apne Maa Ko Khat Likhna.
سونے کے حروف سے لکھے جانے لائق کلام
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی والدہ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنی ماں سے  اس بات کے لیے معذرت ظاہر کی کہ وہ ان سے دور ہیں اور بعض دینی مصروفیات کے سبب مصر میں قیام پذیر ہیں .  جب ان کی والدہ کو یہ خط ملا تو انہوں نے جواباً لکھا :
میرے محبوب اور لاڈلے بیٹے احمد بن تیمیہ!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ و رضوانہ
اللہ کی قسم! میں نے تمہیں اسی مقصد کے لیے پالا ہے، میں نے تمہیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے وقف کیا ہے ، میں نے اسلامی اصولوں پر تمہاری تربیت کی ہے. میرے بیٹے!  تم کبھی یہ خیال مت کرنا کہ تم مجھ سے قریب رہو یہ مجھے  اس کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہے کہ تم دین سے قریب رہو اور مختلف شہروں میں رہ کر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں لگے رہو، بلکہ میرے بیٹے تمہاری ذات سے میری خوشی کی انتہا اسی میں ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ اپنے دین اور مسلمانوں کی خدمت میں لگے رہو.  میرے بیٹے!  میں کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے تم سے ہرگز یہ نہیں پوچھوں گی کہ تم کیوں مجھ سے دور رہتے تھے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ تم کن کاموں میں لگے رہتے ہو اور کہاں رہتے ہو، البتہ اے احمد!  میں اللہ کے سامنے اس وقت ضرور تم سے سوال کروں گی اور تمہارا حساب لوں گی جب تم اللہ کے دین کی خدمت میں اور اس دین پر چلنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں کوئی کوتاہی کروگے. 
اللہ تم سے راضی ہو، تمہارے مسکن کو خیر و برکت سے منور کرے، تمہیں لغزشوں سے بچائے، اور اللہ مجھے اور تمہیں رحمان کے عرش کے سایے میں جمع کرے اس دن جس دن کوئی اور سایہ نہ ہوگا. 
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(مجموع الفتاوی :28/48)
(اردو ترجمانی: عبدالغفار سلفی، بنارس)

Share:

Sunnat Kise Kahte Hai Sunnat Kya Hai?

Sunnat Kya Hai? Iski wazahat
ترميم
لغت میں سنت کا لفظ طریقہ اور عادت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ امام کسائی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے معنی میں دوام کی کیفیت ہے:"یقال سنت الماء اذاوالیت فی صبہ" امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب مطلق طور پر سنت کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے طریقہ محمود مراد ہوتا ہے اور کبھی سنت سے غیر محمود طریقہ بھی مراد ہوتا ہے،

جیسے قرآن مجید میں ہے: اچھے طریقے کے بارے میں:

ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرِينَ 
تم سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے ان کی سنت (یعنی ان کا قابل_پیروی طریقہ رہ_حق پر ثابت قدمی ہے)
برے طریقے میں استعمال:

فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ 
وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ 
اسی طرح ہم اس (تکذیب وضلال) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ سو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے .

جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بھی فرمایا ہے:
"من سن سنۃ حسنۃ فلہ اج رہا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ومن سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ"۔[1]
جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تواس کا اجر اورقیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا اجروثواب ملے گا اور جس نے غلط رواج قائم کیا تو اسے اس عمل کا گناہ اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ اسے ہوگا۔
لیکن محدثین اور فقہا جب سنت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب قول وفعل مراد ہوتا ہے؛ چنانچہ محدثین سنت کی یہ تعریف کرتے ہیں "ہی ماصدر عن النبیﷺ قول اوفعل أوتقریر" (مقدمہ شیخ عبد الحق دہلویؒ:3) مگرفقہاء سنت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں توان کے یہاں قول وفعل اور تقریر کے علاوہ صحابہ کرام کے اقوال اور افعال بھی مراد ہوتے ہیں، امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "والمراد بھا شرعاً ماسنہ رسول اللہﷺ والصحابۃ بعدہ عندنا"۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:47)

قولِ رسول
قولِ رسول سے مراد ہروہ لفظ ہے جورسول اللہﷺ کی زبان سے بیداری کی حالت میں نبوت کے بعد قرآن کے علاوہ ادا ہوا ہو، اس کی مثال حضورﷺ کا ارشاد ہے: انماالاعمال بالنیات، البیّعان بالخیار مالم یتفرقا۔[2]

فعلِ رسول
سنت میں افعالِ رسول بھی داخل ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمﷺ کو امام ومقتدیٰ بناکر ان کی اتباع کا حکم دیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِـي وَيُمِيتُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ   " (نبی) کا اتباع کرو؛ تاکہ تم راہِ راست پر  آجاؤ۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا 
تم لوگوں کے لیے رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔
اس لیے علما اصول نے سنت قولیہ کے ساتھ سنت فعلیہ کو بھی بیان کیا ہے؛البتہ سنت قولیہ مقدم ہے اور سنت فعلیہ مؤخر ،یہی وجہ ہے کہ علما اصول اسے ملحق بالسنۃ کہتے ہیں۔[2]

تقریرِ رسول
حضورﷺ نے کسی چیز کو کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر سکوت فرمایا تو یہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہوگی اور یہ اس بات پر دلالت کرے گا کہ بیان وضاحت کے موقع پر سکوت حقیقۃ بیان ہی ہے، علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے سنت سکوتی کے بارے میں لکھا ہے: "وصورته أن يسكت النبيﷺ عن إنكار قول قيل بين يديه أوفي عصره وعلم به، أويسكت عن إنكار فعل فعل بين يديه أوفي عصره وعلم به، فإن ذلك يدل على الجواز"۔[3] سنت سکوتی کی صورت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے سامنے کچھ کہا گیا، یاآپﷺ کے زمانے میں کہا گیا اور آپﷺ کومعلوم ہوا مگراس پر نکیر کرنے سے آپ خاموش رہے؛ اسی طرح آپﷺ کے سامنے یاآپﷺ کے عہد میں کوئی عمل ہوا اور آپﷺتک اس کی خبر پہنچی مگرآپﷺ نے اس پر نکیر نہیں کی تو یہ جواز پر محمول ہوگا۔ مثلاً غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپﷺ کا حکم تھا "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ" [4] تم میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے  مگربنی قریظہ میں جاکر؛ چنانچہ بعض صحابہ نے اس کو حقیقت پر محمول کیا اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی، جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی، جب حضورﷺ کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چلا توآپ ﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔
نفل کی تعریف
نَفْلٌ
[ن ف ل]. (مص. نَفَلَ). : مَا شُرِعَ زِيَادَةً عَلَى الْفَرَائِضِ وَالْوَاجِبَاتِ، مَا هُوَ مَنْدُوبٌ وَمُسْتَحَبٌّ.

Share:

Kya Islam Talwar Se Failaya Gya? (Part 06)

Kya Islam Aman wala Deen Hai?
क्या इस्लाम  तलवार से फैला? (Part 06)
सवाल : इस्लाम को शान्ति का धर्म कैसे कहा जा सकता है जबकि यह तलवार से फैला है?
तो (ऐ नबी) तुम नसीहत करो कि तुम्हारा काम तो बस नसी करना है, इनको मजबूर करना नहीं है। (अल राशिया: 21- अपने नबी को सम्बोधित ऊपर बयान की गई आयत में अल्लाह ने अपने नबी को सम्भोधित करके कहा है कि आप इन लोगों को नसीहत की बाते बतलाओ क्योंकि मजबुर करना आपका काम नहीं है। जो लोग तलवार व जार पर इस्लाम को फैलाने का इल्जाम लगाते हैं वे क़ुरआन मजीद की नीचे लिखी इस आयत को से पढ़े जिसमें अल्लाह तआला ने गैर-मुस्लिम के देवताओं को गाली देने से मना । किया है,
‘और ये लोग अल्लाह के सिवा  जिनको पुकारते हैं, उनको बुरा भला न कहो कि फिर वे भी हद से आगे बढ़कर अल्लाह को बुरा-भला कहने लगें।'
(अल अन्आर्म : 108)
इस्लाम वो दीन (धर्म) है जिसके कुबूल कराने के लिये ज़बरदस्ती करने का कोई हुक्म नहीं है। जो कोई शख्स इस्लाम कुबूल करता है और अपनी ज़िन्दगी अल्लाह और उसके रसूल (सल्लल लाहु अलैहि व सल्लम) के बताए हुए तरीकों के मुताबिक़ गुज़ारता है तो हक़ीक़त में वो अपना ही भला करता है। उसे दुनिया में भी भलाई हासिल होती है और आख़िरत में हमेशा रहने वाली जन्नत मिलेगी।
जो दोनों जहान की कामयाबी चाहे वो इस्लाम कुबूल करता है और जिसे दोज़ख़ के अज़ाब से डर नहीं लगता तो वह इन्कार कर देता है।
एक मुस्लिम की ज़िम्मेदारी क्या है?
अब सवाल यह उठता है कि दीन-इस्लाम के बाबत एक मुस्लिम की ज़िम्मेदारी क्या है? इसका जवाब कुरआन मजीद में अनेक जगहों पर दिया गया है। चन्द आयतें मुलाहिजा फ़र्माएं,
‘और इसी तरह मैंने तुम्हें उम्मते-वस्त बनाया ताकि तुम लोगों पर गवाह बनो और रसूल तुम्हारी गवाही दें।' (अल बक़र: 143)
मुस्लिम कौम एक मध्यमार्गी समुदाय है जिसका काम यह है कि वे दुनिया के सारे लोगों के सामने दीन-हक इस्लाम की गवाही दें।
'तुम में से एक गिरोह ऐसा होना ही चाहिये जो खैर की तरफ़ बुलाए, नेकी का हुक्म करे और बुराई से रोके। ऐसे ही लोग फलाह पाने वाले है'
| (आले इमरानः 104)
TO BE CONTINUE Insha'Allah
-------------------------------------------------

Share:

Kya Islam Talwar Se Failaya Gya? (Part 05)

Kya Islam Aman (Peace) Wala Deen Hai?
सवाल : इस्लाम को शान्ति का धर्म कैसे कहा जा सकता है जबकि यह तलवार से फैला है? (part 05)
तुम सबसे बेहतरीन उम्मत हो जिसे इन्सानों (की रहनुमाई) के लिये बरपा किया गया है। तुम भलाई का हुक्म करते हो, बुराई से रोकते हो और अल्लाह पर ईमान रखते हो।' (आले इमरान : 110)
'उससे बेहतर बात और किसकी हो सकती है जो लोगों को अल्लाह के दीन की तरफ़ बुलाए और अच्छे काम करे और कहे कि बेशक मैं मुस्लिम हूं।'
(हा-मीम अस्सज्दाः33)
मुस्लिम क़ौम की ज़िम्मेदारी है कि वे अल्लाह पर ईमान और मुकम्मल। भरोसा रखते हुए दुनिया के लोगों को नेक कामों की तरफ़ बुलाए और बुरे कामों से रोकें। यानी हर मुस्लिम की यह ज़िम्मेदारी है कि वह सबसे पहले खुद इस्लाम की तालीमात पर अमल करे और खुद को सही व सच्चा मुस्लिम षावित करे।
उसके बाद उसकी ज़िम्मेदारी यह है कि वह दूसरे लोगों तक अल्लाह के दीन का पैग़ाम अच्छे अन्दाज़ में पहुंचा दे। जंग की इजाज़त किन हालात (परिस्थितियों) में? यह भी सच है कि कुछ ख़ास सूरतों में मुस्लिमों को तलवार उठाने और जंग करने की इजाजत दी गई हैं।
बात को वाजेह करने और सही तरीके से समझ लेने के। लिये उनकी जानकारी होना भी जरूरी है। कुरआन मजीद में है,
‘और अल्लाह की राह में उन ₹ लोगों से लड़ो जो तुम से लड़ते हैं, मगर ज़्यादती न करो। अल्लाह ज़्यादती करने वालों को पसन्द नहीं करता' (अल बक़रः 190)
इस आयत में उन लोगों से युद्ध करने की इजाजत दी गई है जो मुस्लिमों से जंग करते हैं। यह उचित भी है क्योंकि जुल्म सहन करना भी एक तरह का जुल्म ही है। लेकिन यहाँ यह बात ग़ौर करने की है कि इस्लाम ने दिफ़ाई जंग (प्रतिरक्षात्मक युद्ध) में भी ज़्यादती न करने का हुक्म दिया है।
उनसे न लड़ो जो तुमसे न लड़े। हाँ! अगर वे तुमसे लड़े तो उन्हें क़त्ल करो कि ऐसे काफ़िरों की यही सज़ा है। फिर अगर वे बाज़ आ जाएं तो अल्लाह माफ़ कर देने वाला और रहम फर्माने वाला है।
। (अल बर: 191-192)
इस आयत में मुस्लिमों को उन लोगों से लड़ने की इजाजत दी गई है जो मुस्लिमों पर हमला करते हैं और जुल्म करते हैं। अगर हमलावर लोग अपनी हरकत से रूक जाएं तो मुस्लिमों को भी जंग रोक देने का हुक्म है।
TO BE CONTINUE Insha'Allah
-------------------------------------------------------

Share:

Rab Aur Bande Ka Darmiyani Wasta. (Part 07)

Quran Me Ambiya Rasool ki Duayein Jo Byan Ki Gayi Hai kya usse hm Tarika Nahi Sikh Sakte Hai?

بندے اور رب کے درمیان واسطہ:
قرآن مجید میں جا بجا اور بکثرت انبیاء و رسول اور مومنین کی جو دعائیں بیان کی گئی ہیں کیا وہ اس لئے نہیں کہ ہمیں بھی دعا کرنے کا طریقہ معلوم ہو جائے؟
اگر ہاں اور یقینا ہاں تو کیا ان میں سے کسی بھی دعا میں کسی نبی، رسول، ولی یا امام کے واسطے، وسیلے، طفیل یا صدقے وغیرہ کا کوئی ذکر ملتا ہے؟
اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا اس سے اس حقیقت کی عکاسی نہیں ہوتی ہے کہ بندوں کو اپنے رب سے دعا کرنے میں کسی شخصیت کا واسطہ یا وسیلہ لینے کی قطعا ضرورت نہیں؟
نوٹ: قرآن مجید میں مذکور نبیوں، رسولوں اور مومنوں کی دعائوں کے لئے بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
(سورہ فاتحہ:6-7سورہ بقرہ:126-129،201،286سورہ آل عمران:193-194سورہ مائدہ:114سورہ اعراف:23 سورہ یونس:87 سورہ ہود:45 سورہ کہف:10سورہ طہ:25 سورہ انبیاء:83،87،89سورہ فرقان:65-74سورہ حشر:10سورہ فلق:1-5سورہ ناس:1-6)
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب
Share:

Rab Aur Bande Ka Darmiyani Wasta. (Part 06)

Kya Duniya Ke Badshah Aur Allah Subhanahu Tala Ko ek dusre Se Compare kar sakte Hai?

رب اور بندے کے درمیان واسطہ:
توسل کے باب میں اللہ سبحانہ وتعالی کو انسانی بادشاہ پر قیاس کرنا کسی بھی طرح جائز ودرست یا موزوں ومناسب نہیں ہو سکتا، کیونکہ دونوں میں بے انتہا فرق ہے۔
ایک کل کائنات، تمام مخلوقات اور سارے جہان کا بادشاہ ہے دوسرا کسی خاص ملک یا قوم کا بادشاہ، ایک بادشاہوں کا بادشاہ ہے دوسرا ایک معمولی قسم کا بادشاہ، ایک کی باشاہت حقیقی ودائمی ہے دوسرے کی بادشاہت وقتی وعارضی، ایک خالق عظیم ہے دوسرا اس کی ایک مخلوق، ایک رب ذو الجلال ہے دوسرا اس کا بندہ، ایک مالک ہے دوسرا اس کا غلام، ایک حاکم ہے دوسرا اس کا محکوم، ایک معبود برحق ہے دوسرا اس کا عابد، ایک مسجود حقیقی ہے دوسرا اس کا ساجد، ایک کی رضا مقصود ہے دوسرا اس رضا کا قاصد، ایک کی رحمت مطلوب ہے دوسرا اس رحمت کا طالب، ایک قادر مطلق ہے دوسرا اس کے سامنے بے بس وعاجز، ایک مختار کل ہے دوسرا اس کے بالمقابل بےکس ومجبور، ایک عالم الغیب والشہادہ ہے دوسرا قلیل العلم وناقص العقل، ایک کے پاس علم وخبر کا خزانہ ہے دوسرے کے پاس غفلت وجہالت کا پٹارہ، ایک عدل وحکمت والا ہے دوسرا ظلم وجہل والا، ایک غنی وبے نیاز ہے دوسرا فقیر ومحتاج، ایک قوی وطاقتور ہے دوسرا ضعیف وکمزور، ایک پاک وبے عیب ہے دوسرا خطاکار وباعیب، ایک ذات عالی وقار ہے دوسرا کمتر ترین انسان، ایک عظیم الشان ہے دوسرا حقیر جان، ایک عرش پر ہے دوسرا فرش پر، ایک کی ذات لازوال وباکمال ہے دوسرے کی فانی وبے کمال، ایک ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہےگا دوسرا آج آیا ہے کل چلا جائےگا، ایک یکتا و بے نظیر ہے دوسرا ہم جنس وہم مثل۔۔۔
سچ فرمایا اللہ سبحانہ وتعالی نے:
{ولم يكن له كفوا أحد}
"اور نہیں ہے کوئی اس کا ہمسر وبرابر۔"سورہ اخلاص:4)
اور فرمایا:
{ليس كمثله شئ وهو السميع البصير}
"اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔"(سورہ شوری:11)
معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے ہرگز کوئی ایسی مثال نہیں پیش کرنی چاہئے جو اس کی شان عظمت کے خلاف یا اس کی پاکیزگی وبے نیازی کے منافی ہو۔ اللہ عز وجل نے خود بھی اس سے منع فرمایا ہے:
{فلا تضربوا لله الأمثال إن الله يعلم وأنتم لا تعلمون}
"تو تم اللہ کے لئے مثالیں نہ بیان کرو، بے شک اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔"(سورہ نحل:74)
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب
Share:

Rab Aur Bande Ka Darmiyani Wasta. (Part 05)

Ager koi Badshah apne awam ko Free Kar de to kya o usse fir dubara Ijajat lega?

رب اور بندے کے درمیان واسطہ:
اگر کوئی بادشاہ یا وزیر اعلان عام کر دے کہ اس کا دربار عام و خاص سب کے لئے کھلا ہوا ہے، اور ہر کوئی اس تک رسائی پا کر اپنی درخواست پیش بھی کر سکتا ہے اور قبول بھی کروا سکتا ہے، تو کیا تب بھی کوئی عقلمند شخص اس تک پہنچنے اور اس سے اپنی مانگ پوری کروانے کے لئے کسی کا واسطہ لینے کی زحمت کرےگا؟
اللہ عز وجل نے خود ہی اپنی کتاب قرآن مجید میں اعلان عام کر رکھا ہے کہ وہ ہر عام وخاص کے قریب ہے اور اس کا دربار سب کے لئے ہر وقت کھلا ہوا ہے، اور اس کا بندہ جب بھی اس سے دعا کرےگا وہ اس کی دعا یقینا قبول فرمائےگا، تو کیا اب بھی کسی سمجھدار بندے کو اپنے رب تک رسائی یا اس سے حاجت روائی کے لئے کسی کا واسطہ لینے کی ضرورت ہے؟؟؟
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب
Share:

Rab Aur Bande Ka Darmiyani Wasta. (Part 04)

Badshah Ke Yaha uske Secratery Se Kyu Milna Hota Hai?

رب اور بندے کے درمیان واسطہ:
دنیا کے بادشاہ سے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے تو اس کے وزیر یا مشیر کا واسطہ لیا جاتا ہے کیونکہ وہ ہر کسی کو نہیں دے سکتا ورنہ اس کا خزانہ خالی ہو جائے گا۔  لیکن بادشاہوں کا بادشاہ اللہ رب العالمین ہر کسی کو دے سکتا ہے اور دیتا بھی ہے اور اس کا خزانہ بھی ذرہ برابر کم نہیں ہوتا لہذا اس سے کچھ مانگنا ہو تو کسی نبی، ولی یا امام کا واسطہ لینے کی ضرورت نہیں۔
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر جبیل سعودی عرب
Share:

Rab Aur Bande Ka Darmiyani Wasta. (Part 03)

Jab Badahah (CM,PM) Se Milna Ho to secratery Se Milna Hota Hai To Kya Allah Se Bagair Waseele Ke Kaise Mil Sakte Hai?

رب اور بندے کے درمیان واسطہ:
بادشاہ کے یہاں وزیروں کا واسطہ اس لئے بھی چلتا ہے کہ اس کو اپنی رعایا کے ہر فرد کے بارے میں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ واقعی مستحق ہے یا نہیں۔ لیکن اللہ تعالی کو اپنے ہر ایک بندے کے بارے میں ہر ایک چیز کا مکمل علم ہے اس لئے اس کو کسی نبی، ولی یا امام کا واسطہ دینے کی قطعا ضرورت نہیں۔
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS