Madarse Ke Bacche Ki Eid Kaise Gujarti Hai?
مدارس پر ایک آنکھیں کھول دینے والی تحریر
علامہ اقبال نےکہا تھا : ”ان مدارس کو اپنی حالت پر رہنے دو ، اگر یہ مدارس اور اس کی ٹوٹی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھ کر پڑھنے والے یہ درویش نہ رہے ، تو یاد رکھنا تمہارا وہی حال ہوگا جو میں اندلس اور غرناطہ میں مسلمانوں کا دیکھ کر آیا ہوں“۔
چند دن پہلے عیدالاضحی گزری ہے ، میں عید سےاگلےدن بائیک پرجا رہا تھا کہ ایک مدرسہ کےسامنے سے میرا گزر ہوا میں نےدیکھا کہ اس کےگیٹ پر چند چھوٹے چھوٹے معصوم سے بچے کھڑے ہیں ، ان کے چہرے نورانیت سے بھرپور تھے، میں ان کے پاس چلا گیا ، سلام کیا انہوں نے بہت احترام کے ساتھ سلام کا جواب دیا، میں نےکہا بیٹا آپ کیا کرتے ہو یہاں؟ انہوں نےکہا بھائی ہم یہاں حفظ کرتےہیں ، میں نےکہا عید پر آپ گھر نہیں گئے؟ ان میں سے ایک دو تو آنکھوں میں آنسو بھر کر اندر چلے گئے اور باقیوں نے سہمے ہوئے آواز میں کہا ہمیں کوئی لینے نہیں آیا ہم بہت دور چترال سے آئے ہیں بابا کہتے تھے کرایہ نہیں ہے تم وہیں رہو ، میرا دل بھی ایسے بوجھل سا ہو گیا ، میں نے کہا آپ کو آئے ہوئے یہاں کتنا عرصہ بیت گیا ہے؟ انہوں نےکہا ہم پچھلی عید پر بھی یہیں تھے ۔
میں نے اپنی پاکٹ سے روپئے نکالے اور ان کو سو سو روپیہ دینا چاہا ، پر آفرین ان کی تربیت پر کسی نے بھی ہاتھ بڑھا کرنہیں لیے ، بلکہ سب اندر چلے گئے ، میں بوجھل سی طبیعت کےساتھ آگے بڑھ گیا کہ یہ ہیں وہ مدارس کےطلباء جن کو لوگ حقارت کی نگاہ سےدیکھتےہیں ۔
میں بھی انہی مدارس سے ہوتا ہوا آیا ہوں اس جگہ پر۔ میں نے ان مدارس کے اندر کے معاملات کو دیکھا ہے ، جب مدارس کےشیوخ مہینے کے آخری ایام میں بہت پریشان دکھتے تھے کہ اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر بل کیسےادا کیےجائیں؟ یار سوچو کون سا ایسا پرائیویٹ یا سرکاری ادارہ ہےجو اس قدر سکالرشپ دیتا ہے؟ ملک کےطول و عرض میں سینکڑوں ایسے مدارس ہیں جن میں رہاشی طلباء کی تعداد ہزاروں تک جاتی ہے لیکن ان کےکھانے رہائش کتابیں میڈیسن مکمل اخراجات مدرسہ کے ذمہ ہوتے ہیں ، کیا ہےکوئی ایسی یونیورسٹی جس کا ہاسٹل اور میس فری ہو؟
یہ دین کےادارے دین کےقلعہ ہیں ، انہیں اداروں سےاسلام علماء اور اسکالر پیدا ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہونے والے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں ۔
بات کہاں نکل گئی ... میں بات مدارس کےاندر پڑھنے والے ان درویشوں کی کررہا تھا ۔ جو دور دراز کے علاقوں سے اپنے گھربار ماں باپ بہن بھائیوں کی محبت کو چھوڑ کر آتے ہیں ، صرف اس لیےکہ ان کے ماں باپ کی ایک بہت معصوم سی خواہش ہوتی ہے کہ چلو کیا ہوا اگر گھر کی دیواروں پرغربت اور افلاس ناچتا ہے؟ ہمارے بچے حافظ قرآن بن جائیں ! عالم دین بن جائیں ! روز قیامت عزت والا تاج تو ہمیں نصیب ہو جائےگا نا !
مجھے یاد ہےکہ جب کبھی کسی عید وغیرہ کے موقعہ پر چھٹیاں ہوتیں تو سب اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے ، ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے تھے جو خود جا نہیں سکتے تھےاور لینے والے اس لیے نہیں آسکتے تھےکہ ان کے پاس آنےکے لیےکرایہ نہیں بن پاتا تھا ۔ اور پھر وہ اسی مدرسہ کے اندر ہی اپنی خوشیوں کی قربانی اپنے ماں باپ کی معصوم خواہش پر قربان کیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل لیتے ۔
ان مدارس کےطلباء کو کبھی حقیر نہ جانو! آپ نہیں جانتےان کےمقام کو ، یہ جب چلتے ہیں ان کےقدموں کےنیچےاللہ کےفرشتےاپنے پروں کو بچھانا اپنے لیے باعثِ فخر محسوس کرتے ہیں ۔ سمندر کی مچھلیاں ، فضاؤں میں پرندے زمین کے اندر حشرات ان کی کامیابی کی دعا اللہ رب العزت سے مانگتے ہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدرسوں میں داخل وہی ہوتے ہیں جو ہر طرف سے ریجیکٹ کر دیے جائیں ، اگر ایسا بھی ہےتو بھی لوگوں کو ان مدارس کا شکرگزار ہونا چاہیے ، جنہوں نےایسے بچوں کو گلیوں میں آوارہ نہیں ہونے دیا بلکہ ان کو داخلہ دےکر قرآن وحدیث کی تعلیم دی۔ وہی بچہ صوم و صلوة کا پابند، ماں باپ کا فرمان بردار اور ایک عالم دین بن کر لوگوں کےایمان کی فکر کرنےلگا۔
ان مساجد و مدارس کےساتھ محبت کریں! دینی تعلیم کے لیے اپنے بچوں کا رخ ان کی طرف کریں! اور ہر لحاظ سےان مدارس کے معاون بن جائیں... شکریہ
علامہ اقبال نےکہا تھا : ”ان مدارس کو اپنی حالت پر رہنے دو ، اگر یہ مدارس اور اس کی ٹوٹی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھ کر پڑھنے والے یہ درویش نہ رہے ، تو یاد رکھنا تمہارا وہی حال ہوگا جو میں اندلس اور غرناطہ میں مسلمانوں کا دیکھ کر آیا ہوں“۔
چند دن پہلے عیدالاضحی گزری ہے ، میں عید سےاگلےدن بائیک پرجا رہا تھا کہ ایک مدرسہ کےسامنے سے میرا گزر ہوا میں نےدیکھا کہ اس کےگیٹ پر چند چھوٹے چھوٹے معصوم سے بچے کھڑے ہیں ، ان کے چہرے نورانیت سے بھرپور تھے، میں ان کے پاس چلا گیا ، سلام کیا انہوں نے بہت احترام کے ساتھ سلام کا جواب دیا، میں نےکہا بیٹا آپ کیا کرتے ہو یہاں؟ انہوں نےکہا بھائی ہم یہاں حفظ کرتےہیں ، میں نےکہا عید پر آپ گھر نہیں گئے؟ ان میں سے ایک دو تو آنکھوں میں آنسو بھر کر اندر چلے گئے اور باقیوں نے سہمے ہوئے آواز میں کہا ہمیں کوئی لینے نہیں آیا ہم بہت دور چترال سے آئے ہیں بابا کہتے تھے کرایہ نہیں ہے تم وہیں رہو ، میرا دل بھی ایسے بوجھل سا ہو گیا ، میں نے کہا آپ کو آئے ہوئے یہاں کتنا عرصہ بیت گیا ہے؟ انہوں نےکہا ہم پچھلی عید پر بھی یہیں تھے ۔
میں نے اپنی پاکٹ سے روپئے نکالے اور ان کو سو سو روپیہ دینا چاہا ، پر آفرین ان کی تربیت پر کسی نے بھی ہاتھ بڑھا کرنہیں لیے ، بلکہ سب اندر چلے گئے ، میں بوجھل سی طبیعت کےساتھ آگے بڑھ گیا کہ یہ ہیں وہ مدارس کےطلباء جن کو لوگ حقارت کی نگاہ سےدیکھتےہیں ۔
میں بھی انہی مدارس سے ہوتا ہوا آیا ہوں اس جگہ پر۔ میں نے ان مدارس کے اندر کے معاملات کو دیکھا ہے ، جب مدارس کےشیوخ مہینے کے آخری ایام میں بہت پریشان دکھتے تھے کہ اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر بل کیسےادا کیےجائیں؟ یار سوچو کون سا ایسا پرائیویٹ یا سرکاری ادارہ ہےجو اس قدر سکالرشپ دیتا ہے؟ ملک کےطول و عرض میں سینکڑوں ایسے مدارس ہیں جن میں رہاشی طلباء کی تعداد ہزاروں تک جاتی ہے لیکن ان کےکھانے رہائش کتابیں میڈیسن مکمل اخراجات مدرسہ کے ذمہ ہوتے ہیں ، کیا ہےکوئی ایسی یونیورسٹی جس کا ہاسٹل اور میس فری ہو؟
یہ دین کےادارے دین کےقلعہ ہیں ، انہیں اداروں سےاسلام علماء اور اسکالر پیدا ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہونے والے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں ۔
بات کہاں نکل گئی ... میں بات مدارس کےاندر پڑھنے والے ان درویشوں کی کررہا تھا ۔ جو دور دراز کے علاقوں سے اپنے گھربار ماں باپ بہن بھائیوں کی محبت کو چھوڑ کر آتے ہیں ، صرف اس لیےکہ ان کے ماں باپ کی ایک بہت معصوم سی خواہش ہوتی ہے کہ چلو کیا ہوا اگر گھر کی دیواروں پرغربت اور افلاس ناچتا ہے؟ ہمارے بچے حافظ قرآن بن جائیں ! عالم دین بن جائیں ! روز قیامت عزت والا تاج تو ہمیں نصیب ہو جائےگا نا !
مجھے یاد ہےکہ جب کبھی کسی عید وغیرہ کے موقعہ پر چھٹیاں ہوتیں تو سب اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے ، ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے تھے جو خود جا نہیں سکتے تھےاور لینے والے اس لیے نہیں آسکتے تھےکہ ان کے پاس آنےکے لیےکرایہ نہیں بن پاتا تھا ۔ اور پھر وہ اسی مدرسہ کے اندر ہی اپنی خوشیوں کی قربانی اپنے ماں باپ کی معصوم خواہش پر قربان کیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل لیتے ۔
ان مدارس کےطلباء کو کبھی حقیر نہ جانو! آپ نہیں جانتےان کےمقام کو ، یہ جب چلتے ہیں ان کےقدموں کےنیچےاللہ کےفرشتےاپنے پروں کو بچھانا اپنے لیے باعثِ فخر محسوس کرتے ہیں ۔ سمندر کی مچھلیاں ، فضاؤں میں پرندے زمین کے اندر حشرات ان کی کامیابی کی دعا اللہ رب العزت سے مانگتے ہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدرسوں میں داخل وہی ہوتے ہیں جو ہر طرف سے ریجیکٹ کر دیے جائیں ، اگر ایسا بھی ہےتو بھی لوگوں کو ان مدارس کا شکرگزار ہونا چاہیے ، جنہوں نےایسے بچوں کو گلیوں میں آوارہ نہیں ہونے دیا بلکہ ان کو داخلہ دےکر قرآن وحدیث کی تعلیم دی۔ وہی بچہ صوم و صلوة کا پابند، ماں باپ کا فرمان بردار اور ایک عالم دین بن کر لوگوں کےایمان کی فکر کرنےلگا۔
ان مساجد و مدارس کےساتھ محبت کریں! دینی تعلیم کے لیے اپنے بچوں کا رخ ان کی طرف کریں! اور ہر لحاظ سےان مدارس کے معاون بن جائیں... شکریہ
No comments:
Post a Comment