Shab-E-Meraj Ki Haqeeqat Kya Hai?
Kya Is Raat Ko Mahfilein Aarasta Karni Chahiye?
شب معراج کی حقحقیق
الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد
بیشک اسراء ومعراج اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نشانیوں میں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور اللہ کے نزدیک ان کے بلند مرتبے کی دلیل ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کی واضح قدرت اور تمام مخلوقات پر اس کی بڑائی کی بھی دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَا مِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ ئٰ ایٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ)) [الاسرائ:۱]
’’پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیاجس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے،اس لئے کہ ہم اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں ،یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔‘‘
نبی کریمﷺسے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ ان کو معراج کروایا گیا اور ان کے لئے سارے آسمانوں کے دروازے کھول دئیے گئے حتی رسول اللہ ﷺ ساتویں آسمان کو بھی کراس کر گئے ۔جہاں اللہ تعالیٰ نے ان سے جو چاہا گفتگو کی اور ان پر پچاس نمازیں فرض کیں ۔نبی کریمﷺ مسلسل مراجعہ کرتے رہے اوراللہ تعالیٰ سے تخفیف کا سوال کرتے رہے حتی کہ پانچ نمازیں کر دی گئیں۔اب ادائیگی میں پانچ نمازیں فرض ہیں لیکن اجر پچاس نمازوں کا ہی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دس گنا زیادہ کر کے دیتے ہیں جو ہم پر اللہ کا احسان اور کرم ہے۔فللّٰہ الحمد۔
جس رات نبی کریمﷺ کو معراج کروایا گیا اس رات کی تعیین کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔اور اس رات کی تعیین کے سلسلے میں جو کچھ بھی وارد ہے اہل علم بالحدیث کے نزدیک وہ نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے۔اس رات کو بھلا دینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت ہے۔
اور اگر اس رات کی تعیین ثابت بھی ہو جائے تو تب بھی مسلمانوں کے لئے اس رات میں کوئی خاص عبادت کرنا یا محافل منعقد کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ محافل منعقد کرنا اگر کوئی شرعی امر ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی امت کے لئے قول یا فعل سے ضرور اس کو بیان فرما دیتے اور صحابہ کرام اس عمل کو ہم تک ضرور نقل کرتے۔کیونکہ صحابہ کرام نے نبی کریمﷺ سے ہر اس چیز کو بحفظ وامان ہم تک پہنچا دیا ہے جس کی امت محتاج تھی اور اس سلسلے میں انہوں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔بلکہ وہ خیر میں سبقت لے جانیوالے تھے اگر اس رات کو محافل منعقد کرنا مشروع ہوتا تو صحابہ کرام سب سے پہلے اس کام کو کرتے۔
نبی کریمﷺ لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ خیر خواہ تھے اور انہوں نے رسالت کوکامل واکمل حالت میں ہم تک پہنچا دیا اور اپنی امانت ادا کر دی۔اگر اس رات کی تعظیم کرنا یا اس رات میں محافل منعقد کرنا دین ہوتا تو نبی کریمﷺ اس رات سے ہرگز غفلت نہ برتتے اور اس کو ہرگز نہ چھپاتے ۔جب اس رات کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے کچھ ثابت ہی نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ اس رات کی تعظیم کرنا یا محافل منعقد کرنااسلام میں سے نہیں ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے اپنے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت اسلام پوری کر دی ہے۔اور اس دینمیں نئی چیز گھڑنے والے پر رد کیا ہے،جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلٰمَ دِیْناً))[المائدۃ:۳]
’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیااور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((أَمْ لَھُمْ شُرَکَآئُ شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَأْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ وَلَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ))[الشوری:۲۱]
’’کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے)شریک (مقرر کر رکھے)ہیں جنہوں نے ایسے (احکام )دین مقرر کر دئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی)ان میں فیصلہ کر دیا جاتا ۔یقینا ان ظالموں کے لئے ہی درد ناک عذاب ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ سے صحیح أحادیث میں ثابت ہے کہ بدعت سے بچو کیونکہ بدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھاسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد))[متفق علیہ]
’’جس نے ہمارے دین میں نئی چیز گھڑ لی وہ مردود ہے‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھو رد))[مسلم]
’’جس شخص نے ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے ، وہ مردود ہے۔‘‘
حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے ہر خطبہ جمعۃ المبارک میں کہا کرتے تھے:
((أما بعد:فان خیر الحدیث کتاب اللّٰہ ،وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ،وشر الامور محدثاتھا ،وکل بدعۃ ضلالۃ))[مسلم]
’’بے شک بہترین بات اللہ کی کتاب ہے،اور بہترین ہدایت نبی کریمﷺ کی ہدایت ہے،اور بد ترین امور بدعات ہیں،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے ہمیں فصیح وبلیغ وعظ کیا جس سے دل کانپ اٹھے اور آنکھیں بہنے لگیں۔پس ہم نے کہا: یا رسول اللہ ! گویا کہ یہ الوداع کرنے والے کاوعظ ہے،پس آپ ہمیں کوئی وصیت کیجئیے!تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((أوصیکم بتقوی اللّٰہ ، والسمع والطاعۃ، وان تأمر علیکم عبد فانہ من یعش منکم فسیری اختلافا کثیرا ،فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی ،تمسکوا بھا،وعضوا علیھا بالنواجذ ،وایاکم ومحدثات الأمور،فان کل محدثۃ بدعۃ،وکل بدعۃ ضلالۃ))[رواہ اہل السنن]
’’میں تمہیں اطاعت و فرمانبرداری اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں،اگرچہ تم پر کسی غلام کو ہی امیر مقرر کر دیاگیا ہو،تم میں سے جوشخص بھی زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت زیادہ اختلاف کو دیکھے گا ،میرے بعد میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لینا،اور اس کو مضبوطی سے تھلینا،دین میں نئی نئی چیزیں گھڑنے سے بچو! بیشک ہر نئی گھڑی ہوئی چیز بدعت ہے ،اور ہر بدعت گاممراہی ہے۔‘‘
اس معنی کی اور بہت ساری احادیث موجود ہیں۔
صحابہ کرامث اور سلف صالحین سے ثابت ہے کہ بدعت سے بچنا اور دور رہنا چاہئیے جو در حقیقت دین میں اضافہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔اور اللہ کے دشمن یہود ونصاری کی مشابہت ہے جنہوں نے اپنے دین میں اضافہ کر لیا اور اپنے پاس سے نئی نئی چیزیں گھڑ لیں۔بدعت سے یہ لازم آتا ہے کہ دین اسلام ناقص اور نا مکمل ہے ،
حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے:
((اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ))[المائدۃ:۳]’’
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ بدعت قرآن اور سنت دونوں کے صریح مخالف اور متضاد ہے۔
امید ہے کہ متلاشیان حق کے لئے یہی دلائل کافی وشافی ہوں گے اور بدعات کی حقیقت واضح ہو جائے گی ۔جن میں سے ایک بدعت ’’شب معراج کو محافل منعقد کرنا‘‘بھی ہے۔جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔مسلمانوں کی خیر خواہی کے وجوب اور کتمان علم کی حرمت کی وجہ سے میں نے ضروری سمجھا کہ اس بدعت کی وضاحت کر دی جائے ،جس کو ہمارے بعض بھائیوں نے دین سمجھ لیا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ لوگوں کے احوال کی اصلاح فرمائے اور تفقہ فی الدین کی توفیق دے۔اور ہم سب کو حق پر عمل کرنے والا اور حق کے خلاف کو چھوڑنے والا بنائے۔آمین
ماخوذ از فتاوی سماحۃ الشیخ/ عبد العزیز بن عبد اللّٰہ بن باز ؒ
No comments:
Post a Comment