Apne Nam ke Sath kiska Nam Lgaya Ja Sakta HAi
Kya Biwi Apne Nam ke Sath Apne Shauher ka Nam Lga Sakti Hai
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سوال : جہاں میں امامت کراتا ہوں وہاں ایک شخص جس کی ایک بہن کا طلاق ہوگیا اس کی بہن کا ایک لڑکا ہے اس کے بعد جہاں بچہ پڑھتا ہے اس کے نام کے ساتھ اپنا نام اس کا بھائی لگایا ہے تو یہ کرنا کیسا ہے؟۔
سائل ۔ ۔ ۔ ۔
سائل ۔ ۔ ۔ ۔
الجواب بعون رب العباد.
تحرير:حافظ ابوزهير محمد يوسف يٹ ریاضی۔
******** مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو یا کوئی کسی کو اسکے اصل باپ کے بغیر کسی کی طرف نسبت کرے ایسا کرنا شریعت کی نظر میں حرام اور ناجائز ہے۔
اللہ کا ارشاد گرامی ہے۔ کہ ادعوھم لآباءهم )
یعنی انہیں اپنے آباء کی طرف نسبت کرکے بلاو۔
حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی نسبت کسی غیر اب کی طرف کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اھ۔[بخاری شریف حدیث نمبر:3508 ، صحیح مسلم حدیث نمبر:16]۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اپبے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے والا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔
خلاصہ کلام:اپنے اصل اور حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور شخص کی طرف نسبت کرنا حرام ہے قرآن وحدیث کی ادلہ قاطعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اسے اپنے اصل والد کی طرف نسبت کی جائے اور اسی کے نام سے بلایا جائے کسی اور کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے اور یہ عادت دور جاھلیت کے لوگوں تھی اسلئے اسے بچنا چاھئے۔
اور اگر کسی بچہ کے بارے میں ایسا کیا گیا ہے تو انہیں چاھئے کہ وہ فورا اس عمل سے باز آجائے اور اس بچہ کو اصل باپ کی طرف نسبت کریں اور اسی کے نام سے تمام دفاتر میں اسکا نام اندراز کریں۔ هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
******** مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو یا کوئی کسی کو اسکے اصل باپ کے بغیر کسی کی طرف نسبت کرے ایسا کرنا شریعت کی نظر میں حرام اور ناجائز ہے۔
اللہ کا ارشاد گرامی ہے۔ کہ ادعوھم لآباءهم )
یعنی انہیں اپنے آباء کی طرف نسبت کرکے بلاو۔
حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی نسبت کسی غیر اب کی طرف کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اھ۔[بخاری شریف حدیث نمبر:3508 ، صحیح مسلم حدیث نمبر:16]۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اپبے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے والا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔
خلاصہ کلام:اپنے اصل اور حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور شخص کی طرف نسبت کرنا حرام ہے قرآن وحدیث کی ادلہ قاطعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اسے اپنے اصل والد کی طرف نسبت کی جائے اور اسی کے نام سے بلایا جائے کسی اور کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے اور یہ عادت دور جاھلیت کے لوگوں تھی اسلئے اسے بچنا چاھئے۔
اور اگر کسی بچہ کے بارے میں ایسا کیا گیا ہے تو انہیں چاھئے کہ وہ فورا اس عمل سے باز آجائے اور اس بچہ کو اصل باپ کی طرف نسبت کریں اور اسی کے نام سے تمام دفاتر میں اسکا نام اندراز کریں۔ هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
No comments:
Post a Comment