find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kisi Dusre Par Gunah Karne ka Iljaam Lgane ki Sza.

KISEE BE GUNAH KE UPAR GUNAH THOPNE KA ANJAM

*📕 وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ خَطِیۡٓئَۃً اَوۡ اِثۡمًا ثُمَّ یَرۡمِ بِہٖ بَرِیۡٓـئًا فَقَدِ احۡتَمَلَ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۲﴾٪*               

*♦اور جو شخص کوئی گناہ یا خطا کر کے کسی بے گناہ کے ذمہ تھوپ دے ، اس نے بڑا بہتان اٹھایا اور کھلا گناہ کیا* ۔

Aur jo shaks koi gunah ya khata ker kay kissi bey gunah kay zimmay thop dey uss ney boht bara bohtaan uthaya aur khula gunah kiya.
📕Surah An Nisa, Aayath no : 112.

Share:

Ager Talaq ho Jaye Aur Baccha Doodh Pita Rahe To Kya Kare?

Agar TALAQ ho jaye aur DOODH pita bachcha ho to kya kiya jaaye?
Ye ayat Surah Ab Baqrah ke pichhle 228-232 ayato ka sisila hai jisme Talaq tariqa zikr kiya gaya tha.

۞ وَٱلْوَٰلِدَٰتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَٰدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ ٱلرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى ٱلْمَوْلُودِ لَهُۥ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَٰلِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌۭ لَّهُۥ بِوَلَدِهِۦ ۚ وَعَلَى ٱلْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍۢ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍۢ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوٓا۟ أَوْلَٰدَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّآ ءَاتَيْتُم بِٱلْمَعْرُوفِ ۗ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ

*"Maaye apni awlaad ko do saal kaamil doodh pilaaye jinka iraada doodh pilaane ki muddat bilkul puri karne ka ho aur jinke bacche hai unke zimme un ka roti kapda hai jo mutaabiq dastoor ke ho, har shakhs utni hee takleef diya jaata hai jitni us ki taaqat ho, Maa ko uske bacche ki wajah se ya Baap ko uski awlaad ki wajah se koyi zarar na pahochaaya jaaye, waaris par bhi isi jaisi zimmedaari hai, phir agar dino (yani bachhe ke Maa Baap) apni raza mandi aur ba-hami mashwere se doodh chhudaana chaahe to dono par kuch gunaah nahi aur agar tumhaara iraada apni awlaad ko doodh pilwaane ka ho to bhi tum par koyi gunaah nahi, jab ke tum un ko mutaabiq dastoor ke jo dena ho wo un ke hawaale kardo, Allah Ta'ala se darte raho aur jaante raho ke Allah Ta'ala tumhaare amaal ki dekh bhaal kar raha hai".

📙(Surah 02 Al Baqrah: ayat 233).

Share:

Qyamat ke Din Log Kaise Honge?

*​​​​​​​​Qyamat Ke Din Ka Hasher
*_✒میــدان حشـــر میـں ننگے بدن💥_*

💎عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :

*💥’’ لوگ روزِ قیامت ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے ، وہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :*

*💥🔥’’ عائشہ ! وہ (قیامت کا) معاملہ اس سے بہت سنگین ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھیں ۔‘‘*

*✍🏻وضـاحت::*

⭕قیــامت کا دن اتنا زیادہ خوفناک ہوگا کہ سب برہنـہ ہونے کے باوجود کوئی کسی کی طرف نہیـں دیکھا گا نفسا نفسی کا عالم ہوگا-

📚مشکاة المصابیح:5536
✾ حکم: صحیح
*​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​ya Allah Tu hme Qyamat ke Din Apne Arsh Ke niche Jagah Dena.

Share:

Masjid Aur Eidgaah Me Auraton Ka Jana (Part 3)

Aurat ka Masjid aur Eidgaah me aana-jaana Shariyat ke Roshni me.
Part - 3
🔹Rasoolullah ﷺ ne Khawateen ko masjid aane ki ijazat di hai aur mardo ko hukum diya hai k wo apni biwiyon ko masjid janay se na roke. 

Farmane Rasool ﷺ hai:

⭕1. “Izas taazantim raata ahdikum falaa yamna’haa.” 
Tarjuma:
Ager tum may se kisi ki biwi is se masjid jane ki ijazat talab kare to wo use mat roke, ijazat de de.
📙SAHIH BUKHARI (Volume 1, Book #12, Hadith #824)

⭕2. Ibne Umar(R) se riwayat hi k Nabi kareem(S) ne farmaya “Izas Tazanakum Nisaawukum bil laili ilal Masjidi fazanoo lahunna.”
Tarjuma:
Ager tumhari auraten tum say raat ke waqt masjid me jane ki ijazat talab karen to tum log unhe uski ijazat de diya karo.
📙SAHIH BUKHARI (Volume 2, Book 13, Hadith 22)

⭕3. RasoolAllah ﷺ ka farman hai “Laa tamnawoo ima’a Allahi masajidAllahi.”
Tarjuma:
ALLAH ki bandiyon ko ALLAH K Gharon(Masajid) say mat roko.
📙MUSLIM (Book 4, Hadith 886)

⭕4. Umm-e-Atiya R.A. farmati hain ke “Hume namaz eid ke liye jany ka hukm diya jata tha, yahan tak ke hum kanwari bachiyon, perdah nasheen larkiyon aur haiza aurton ko bhi sath le jaya karte the taa-ke woh musalmano ke sath mil ke takribat parhain aur inki duaon mai shirkat karen aur is din ke fiyoz-o-barkaat ki umeed rakhen.
📙(Sahih Bukhari :324)
………………………….

Share:

Jama Hassan Bin Sabit Academy Mahej Ek Idara Nahi Maktab-E-Fikr Hai.

Jama Hassan Bin Sabit Academy Mahej Ek Idara Nahi Balke Ek Maktba Fikr Hai.

جامعہ حسان بن ثابت محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک مکتبہ فکر ہے.
(مکمل پڑھیں،ایک چشم کشا تحریر)
26 جنوری 2019 یہ وہ تاریخی دن ہے جس میں جامعہ حسان بن ثابت کا قیام عمل میں آیا، آج 29 جنوری ہے یعنی محض تین دن قبل ہی اس کی بنیاد پڑی ہے ان مختصر ایام میں ہی الحمدللہ تعالیٰ طلبہ و طالبات کی تعداد روز افزوں بڑھ رہی ہے اور ادارہ بحمدللہ ترقی کی جانب گامزن ہے ،لیکن ادارہ اور اس کے بانی کے لیے کوائنٹیٹی یعنی تعداد سے زیادہ اہم کوالٹی یعنی خصوصیت ہے یعنی محض سند یافتہ علماء کی بھیڑ عوام کے درمیان پہنچا دینا کافی نہیں بلکہ سند کے ساتھ وہ لیاقت اور قابلیت بھی ہونی ضروری ہے جس سے مستقبل میں قوم کی تعمیر کا کام انجام دینے کے قابل بن سکے،
اس وقت طلبہ و طالبات کی کل تعداد 40 ہے اور ان میں اکثر وہ ہیں جن کی بنیاد انتہائی کمزور ہے دراصل اکثرہندوستانی مکاتب کی تعلیم اس قدر سطحی ہوتی ہے کہ اس سے بچے عالم بننے کے بجائے پڑھے لکھے جاھل بن جاتے ہیں ،چنانچہ ازسرنو ان کی بنیاد کو پختہ اور پائیدار بنانا یہ ایک بڑا چیلنج ہے
ایک دوسرا چیلنج بہار کے دیہی علاقوں میں زبان کا ہے چونکہ ان طلباوطالبات کی پرداخت جس گھرانے میں ہوتی ہے وہ خود علاقائی زبانوں کا رسیا ہوتا ہے جس کی بنا پر ان کے لئے دوسری کسی زبان کے الفاظ کی صحیح طور سے ادائیگی کر پڑھنا بڑا مشکل امر ہوتا ہے،
ان دو چیلنجوں کو پورا کرنے کے لئے جمیعت السلام التعلیمیہ الخیریہ کے تحت ایک شعبہ حسان بن ثابت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے،
یہ تو تھی مبتدی طلباء کی بات
اب رہا مسئلہ فارغین مدارس کو حالات حاضرہ کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کا تواس سلسلے میں جمیعت السلام کی جانب سے فارغین مدارس کے لئے ایک ایسا شعبہ قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے وہ ہندوستان کا سب سے مشکل امتحان یعنی سول سروسز امتحان میں بیٹھنے کے قابل ہوسکےچونکہ ہمارے ملک میں ڈیموکریسی یعنی جمہوری حکومت کے ساتھ بیوروکریسی یعنی نوکرشاہی یا دفتری حکومت کا بڑے پیمانے پر عمل دخل ہے اور موجودہ حالات میں بیوروکریسی کو کرپٹ افسران سے محفوظ رکھنے کے لئے فارغین مدارس کو وہاں تک پہنچانا ازحد ضروری ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہم نے دو یا تین فیصد سے زیادہ بیوروکریٹس دیے ہی نہیں ہیں ،2013 ع میں 1122 آئی اے ایس افسران میں محض 34 مسلم تھے یعنی 3.03 فیصد جبکہ 2014 میں بارہ سو چھتیس میں 40، 2015 میں 1078 میں 37، 2016 میں 1099 میں 50، 2017 میں 990 میں 51 یعنی ۵.۵% اور یہ آزاد ہندوستان میں اب تک کا سب سے بہتر نتیجہ ہے ،
2011 عیسوی میں ہوئی آبادی کی شماری کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 17.22 کروڑ ہے جو ہندوستان کی کل آبادی کا14.2 فیصد ہے،
دی انڈین ایکسپریس کی ایک تحریر کے مطابق  5.73 لاکھ مسلمانوں پر ایک آئی اے ایس یا آئی پی ایس افسر ہے جبکہ غیر مسلموں میں 1.8لاکھ پر ایک آئی اےایس یا آئی پی ایس افسر ہے
یہ محض اوہام پر مبنی کوئی تحریر نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے جو کہ ہم سب کے رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے لیکن سکے کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اس خلیج کو پاٹنے کے لئے کئی سارے افراد نے کوششیں بھی کی ہے ،اس سلسلے میں سب سے موثر اور انقلابی قدم جس نے اٹھایا ہے وہ ہے زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا، جس کے چیئرمین جناب سید ظفر محمود صاحب ہیں،
گزشتہ سال یعنی 2018 عیسوی میں اس قابل فخر تنظیم نے ہندوستان کو 29 مسلم بیوروکریٹس دیا ہے جو کہ آزاد ہندوستان کا اب تک کا سب سے تاریخی عمل قرار دیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ اس میں فارغین مدارس نے حصہ نہیں لیا اس لئے ہماری تحریک ان سے مختلف ہو جاتی ہے اس لئے کہ مقصد محض مسلم افسران کی تعداد میں اضافہ نہیں ہے بلکہ ایسے مسلم افراد کو حکومت کی کرسی تک پہنچانا ہے جس نے اپنی تعلیم کی ابتداء اللہ کے نام سے کی ہو اور اس کے لئے علماء سے زیادہ موزوں دیگر نہیں ہو سکتے ،
ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ اس مشکل ترین امتحان کی تیاری کے لیے ماہر اساتذہ کی فراہمی کم پیسوں میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے پر اس کا خرچ ہمارے مسلم عوام برداشت کریں گے غریب طلباء نہیں آپ حضرات سے گزارش ہے کہ ہمیں آپ تعاون کرتے رہیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں اور اگر آپ تنظیم کی کسی طرح مدد کر سکتے ہیں تو نیچے دیے گئے ای میل آئی ڈی پر رابطہ کریں
تحریرـ عبدالسلام ندوی چیئرمین السلام ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ* Jamiyatussalamtrust@gmail.com
Share:

Modi Sarkar Ki Nayi DARKHWAST Supreme court Se Kya Hai?

Modi Hukumat Ki Nayi Darkhwast

مودی حکومت کی نئی درخواست.
*تحریر ۔حافظ عبدالسلام ندوی (جامعہ حسان بن ثابت ،ٹھکہاں کوٹھی ،موتی پور مظفرپور)*
رام جنم بھومی -بابری مسجد معاملہ میں حکومت نے ایک جدید نقطہ نکال لیا ہے ،اس نے ایک درخواست دائر کرکے عدالت عظمی سے کہاہے کہ وہ ایودھیا کی غیر متنازع اراضی پر سے اپنا سابق حکم اٹھالے۔
جسے ہم ایودھیا تنازع کہتے ہیں ،عدالت میں وہ بنیادی طور سے زمین کے مالکانہ حق کا تنازع ہے ،یہ تنازع صرف ۷۷.۲ ایکڑ زمین پر ہے ،اس سے متصل باقی ۶۷ایکڑ زمین پر تنازع تو نہیں ہے ،مگر عدالت کاسابق حکم اس پر نافذ ہے ،یعنی اسکے مالکانہ حق کو لے کر کوئی تنازع نہیں ہے ،لیکن جسکی وہ ملکیت ہے وہ اس پر کوئی تعمیر نہیں کرسکتا ،یہ حکم بابری مسجد کی عمارت کے انہدام کے بعد نافذ کیا گیا تھا،بعد میں حکومت نے اس زمین کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا،درخواست سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ اگر اس زمین سے عدالتی حکم ہٹتاہے تو حکومت اس زمین کا کیا کریگی ؟یہاں ایک اٹکل ضروری لگائی جاسکتی ہے کہ حکومت اسے ہندو قوم پرست تنظیم وشوہندو پریشد کے ذریعہ تشکیل دئے گئے ٹرسٹ رام مندر ٹرسٹ کے حوالے کردے گی ،تاکہ وہ اس پر اپنی طرف سے تعمیری کام کاآغاز کرسکے اور باقی تعمیر کے لئے وہ عدالت عظمی کے آخری حکم کا انتظارکرے،عدالت عظمی اس پر کیا رخ اختیار کرے گی یہ نہیں کہاجاسکتا لیکن یہ نئی درخواست بتاتی ہے کہ رام مندر کولیکے سیاست تیز ہوگئی ہے ،وزیر اعظم نریندر مودی رام مندر پر آرڈیننس لانے سے انکار کرچکے ہیں ،جسکا مطلب ہے کہ فی الحال آخری فیصلہ عدالت عظمی کو ہی کرنا ہے ،عام انتخابات کافی قریب ہے،اس وجہ سے اس معاملہ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ،بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس معاملہ کی فوری سنوائی ہو اور جلد فیصلہ دے دیاجائے ،وہاں یہ معاملہ اسی طرح سے لٹک رہا ہے جیسے ہماری عدالتوں میں اکثر معاملے اٹکتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے ہیں ،منگل کو ہی عدالت عظمی میں اس معاملہ کی سنوائی ہونی تھی ،لیکن ایک جج کی چھٹی پر ہونے کے سبب سنوائی مؤخر کردی گئی اسلئے یہ امید تو کم ہی ہے کہ عدالت عظمی اپنی باقی ترجیحات کو چھوڑ سب سے پہلے اس نئی درخواست کی سنوائی کریگی ،ظاہر ہے اگر یہی رفتار رہی تو انتخابات سے پہلے ہمیں کسی بھی فیصلہ کی امید نہیں کرنی چاہئے،ایک طرح سے شاید یہ بہتر بھی ہوگا ،کیونکہ عدالت میں جو بھی فیصلہ ہوگا ،اسکا سیاسی مفاد لینے کی کوشش اس یا اس فریق کے ذریعہ کی جائیگی ،
یہ صحیح ہے کہ رام مندر -بابری مسجد کا تنازع دہائیوں سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے ،اب جب یہ معاملہ عدالت عظمی میں پہنچ چکاہے تو امید بنی ہے کہ اب جو بھی فیصلہ آئیگا وہ آخری ہوگا،یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ملک کی بڑی آبادی کی نفسیات کو الگ -الگ طرح سے چھوتا ہے ،جہاں معاملہ سماج کی نفسیات کا ہو وہاں کسی بھی طرح کی جلد بازی شاید صحیح نہیں ہے،اسکے بجائے بہتر ہوگا کہ ہم اس معاملہ پر عوام میں ایک اتفاق رائے بنانے کی کوشش کریں ،اس پر اتفاق رائے بنانا بہت ضروری ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ سب کو قبول ہوگا ،اگر ہم ایسا کرسکے تو عوام نہ صرف اس فیصلہ کو نرمی اور امن سے قبول کریگی،بلکہ یہ ایک ایسی مثال بنے گی جو ہندوستانی معاشرہ کی پختگی کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرے گی.
Share:

Masjid Aur Eidgaah Me Auraton Ka Jana. (Part 2)

Aurat ka Masjid aur Eidgaah me aana-jaana Shariyat ke Roshni me.

      Part - 2
Kaha jata hai Aurat ka Masjid aur Eidgaah me aana FITNA ho sakta hai ….
lekin 
Aaj Aurat ka in muqamaat par Aana-Jana ya kaam karna FITNA nahi hai kya ❓
Jaisa ke Aurat ka ….
   Bazaar me
   Election me –Voting Booth, MLA,MP, Sarpanch, Mayor,Corporator.
   Job me –Doctor, Engineer, Pilot, Teacher, Lecturer,Professor, Conductor
   Bank me –Manager, Cashier
   Sports me –Cricket, Tennis
   Film Industry me –Model, Actress, Singer
   Film Theater  me
   Business me
   IT Industry me
 Aurato ko rokne wale kaun ❓
Aurat ko Masjid aur Eidgaah me aane se rokne wale Allah aur uske Rasoolullah SallallahuA’laihiWaSallam nahi hai balke…
Ulma
Walidain
Bhai- bahen
Rishtedar
Samaaj
hai.
 Nuqsaanaat:
Aurat ko Masjid me aane-aaje ko pabandi lagayi jaane se  Aurato me …
Manhaj aur Aqaeed me bigad paida huwa
Bedeeni
Duniya parsti
Madda parsti (materialism)
Rasm Riwaaj
Biddatein 
ye buraeeya ghar kar li.
Iska natija ye huwa ke ….
Zindagi ka maqsad bhul gayi
Aapne aulaad ki tarbiyat Nahi kar paa rahi hai
Ghar me jhagde – fasadaat
Qinaa’at pasandi chali gayi 
 Masjid ke Faydein:
Agar auratein Masjid se jud jaaye to  …
Ulmao ke bayanat me shirkat karegi
Islam ki buniyadi taalim milegi
Uske Manhaj aur Aqaeed ki islaah hogi
Ghar Wa Khandan ki islaah karegi
Deendaari paida hogi
Deendaar aurato se dosti hogi
Dil me se duniya ki Muhabbat chali jayegi.
 Ajib hal hai :
Jo log aurato ko Masjid aur Eidgaah me aane jaane pe pabandi lagate hai wahi log aaj kal Aurato ki Jamaat banakar gaon-gaon fira rahe hai.
 Allah aur Rasool ka Hukm:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا ٱسْمُهُۥ وَسَعَىٰ فِى خَرَابِهَآ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَآ إِلَّا خَآئِفِينَ ۚ لَهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا خِزْىٌۭ وَلَهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ
“Us shakhs se badh kar zalim kaun hai jo Allah ta’ala ki masjido mein Allah ta’ala ke zikr kiye jaane ko roke aur un ki barbaadi ki koshish kare, aise logo ko khauf khaate hoye hee us mein jaana chahiye, un ke liye dunya mein bhi ruswaayi hai aur aakhirat mein bhi bada azaab hai”.(Surah 2 Baqrah : 114)
*To Be Continued....
Share:

Masjid Aur Eidgaah Me Auraton Ka Aana Jana (Part 1)

Aurat ka Masjid aur Eidgaah me aana-jaana Shariyat ke Roshni me.
Part - 1

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا ٱسْمُهُۥ وَسَعَىٰ فِى خَرَابِهَآ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَآ إِلَّا خَآئِفِينَ ۚ لَهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا خِزْىٌۭ وَلَهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ
“Us shakhs se badh kar zalim kaun hai jo Allah ta’ala ki masjido mein Allah ta’ala ke zikr kiye jaane ko roke aur un ki barbaadi ki koshish kare, aise logo ko khauf khaate hoye hee us mein jaana chahiye, un ke liye dunya mein bhi ruswaayi hai aur aakhirat mein bhi bada azaab hai”.
(Surah 2 Baqrah : 114)
Indian Govt. nahi balke Aaj Muslim Aurato ko khud Musalmano ne 2 jagah aane-jaane ki pabandi lagayi hai :
1. Masjid
2. Eidgaah
Jab Indian Govornmnet yani Hukumat Islami Shariyat me dakhal andaaazi karti hai to saare Musalman Awaaz uthate hai lekin jab khud Musalman apne “Maslaq” ke gurur me Shariyat ko badal deta hai to tab kya kiya jaaye ?  Aise log Astin ke saanp hote hai. 
Jab “Fiqh”  aur “Maslaq” ko “SHARIYAT” se uncha muqam diya gaya to iska natija ye huwa ke Shariyat ko thukra kar aur Hadees-e-Rasool ko nazar andaaz karke Aurat ko har jagah jaane ki PERMISSION di gayi aur sirf MASJID aur Eidgaah me aane-jaane par PABANDI lagayi gayi.
Aaj Muslim Auratein Kaha Kaha nahi pahunch gayi.
Nauzubillah,
Lekin Masjid aur Eidgaah unki nazar me aisi jagah hai jaha saare BADMASH, GUNDE, aur AaWARA qism ke log aate hai  isliye Aurat ka waha ibaadat ke liye aana jana aisa SAKHT HARAAM hai jaisa kisi Sharab ke adde par jana aana.
To Be Continue....
Share:

Turkey Ke Khalifa Sultan Murad Ka Ek Dilchasp Waqya.

Gaib Ki Ilm Sirf Allah Ko Hai

غیب_کا_علم_صرف_اللہ_ھی_جانتا_ھے
ترکی کے خلیفہ سلطان مراد کی ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، اس نے ایک رات اپنے ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ کو کہا کہ ،
ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ _
ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ گرﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺩﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ . ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ .
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ،
ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺅ ﺑﮭﺎﺋﯽ _
ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﮱ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ . ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ؟_
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺁﺩﻣﯽ ﻣﺮﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ . ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ .
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ _
ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ . ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﭼﻠﯿﮟ _
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺖ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯼ _
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ .
ﻟﻮﮒ ﭼﻠﮯ ﮔﮱ _
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﻭﮨﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺳﻨﺘﮯ ﺭﮨﮯ .
ﻭﮦ کہہ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ،
ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ ، ﺑﯿﺸﮏ ﺗﻮ ﺍﻟﻠّﻪ ﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ .
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ _ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ . ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ .
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﺗﮭﯽ _ ﺍﺻﻞ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﺎ ، ﺟﺘﻨﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺮﯾﺪﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻻ ﮐﺮ ﮔﮍﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﺘﺎ . ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻮ .
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺮﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ، ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﮯ . ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ _
ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ ، ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠّﮧ ! ﺁﺝ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﺟﮫ ﮨﻠﮑﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ .
ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﺗﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ _
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫ ! ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﻓﻨﺎ ﻧﺎ ﮨﮯ _
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ، ﮔﮭﺒﺮﺍ ﻣﺖ _ ﺗﻮﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ .
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ : ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﻮﮞ . ﮐﻞ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ . ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ .
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﺎ .
ﺁﺝ ﮨﻢ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﯾﺎ ﻣﺤﺾ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﮨﻢ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﮔﻮﻧﮕﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔۔۔
Share:

Saudi Ke Bare Me Kuchh Dilchasp Jankariyan.

Saudi Ke Bare Me Kuchh Dilchasp Jankariyan

 سعودی عرب کے بارے 22 ایسی جانكارياں جو آپ نے
ابھی تک نہیں پڑھی ہوں گی: پڑھے اور شیئر کریں
1-: یہاں پانی مہنگا اور تیل سستا هے
2-: یہاں کے راستوں کی معلومات مردوں سے زیادہ عورتوں کو هے اور یہاں پر مکمل خریداری عورتیں ہی کرتی هیں مگر پردے میں رہ کر
3-: یہاں کی آبادی 4 کروڑ هے اور کاریں 9 کروڑ سے بھی زیادہ هے
4-: مکہ شہر کے کوڑا شہر سے 70km دور پہاڑیوں میں دبایا جاتا هے
5-: یہاں کا زم زم پورے سال اور پوری دنیا میں جاتا هے اور یہاں بھی پورے مکہ اور پورے سعودی میں استعمال ہوتا ه اور آج تک کبھی کم نہیں ہوا!
6-: صرف مکہ میں ایک دن میں 3 لاکھ مرغ کی کھپت ہوتی ہے!
7-: مکہ کے اندر کبھی باہمی جھگڑا نہیں ہوتا هے!
8- سعودی میں تقریبا 30 لاکھ بھارتی 18 لاکھ پاکستانی   16 لاکھ بنگلہ دیشی 4 لاکھ مصری 1 لاکھ یمنی اور 3 ملین دیگر ممالک کے لوگ کام کرتے ه سوچو اللہ یہاں سے کتنے لوگوں کے گھر چلا رہا هے!
9-: صرف مکہ میں 70 لاکھ AC استعمال ہوتی هے!
10-: یہاں کھجور کے سوا کوئی فصل نہیں نکلتی پھر بھی دنیا کی ہر چیز پھل سبزی وغیرہ ملتی هے اور  بے موسم یہاں پر بکتی هے!
11-: یہاں مکہ میں 200 کوالٹی کی کھجور بکتی هے اور ایک ایسی کھجور بھی هے جس میں ہڈی یا ہڑکِل ہی نہیں!
12: مکہ کے اندر کوئی بھی چیز لوکل یا ڈپلیکیٹ نہیں بکتی یہاں تک کے دوائی بھی!
13-: پورے سعودی عرب میں کوئی دریا یا تالاب نہیں هے پھر بھی یہاں پانی کی کوئی کمی نہیں هے!
14-: مکہ میں کوئی پاور لائن باہر نہیں تمام زمین کے اندر ہی هے!
15-: پورے مکہ میں کوئی نالہ یا نالی نہیں هے!
16-: دنیا کا بہترین کپڑا یہاں بکتا هے. جبکہ بنتا نہیں!
17: یہاں کی حکومت ہر پڑھنے والے بچے کو 600 سے 800 ریال ماہانہ دیتی هے!
18-: یہاں دھوکا نام کی کوئی چیز ہی نہیں!
19-: یہاں ترقیاتی کام کے لیے جو پیسہ حکومت سے ملتا هے وہ پورا کا پورا خرچ کیا جاتا هے!
20: یہاں سرسوں کے تیل کی کوئی اوقات نہیں پر بکتا تو هے یہاں سورج مکھی اور مکئی (مكي / ككڑي) کا تیل کھایا جاتا هے!
21-: یہاں هرايالي نہیں درخت پودے نہیں کے برابر ہیں پہاڑ خشک اور سیاہ ه مگر سانس لینے میں کوئی تکلیف ہی نہیں یہاں یہ سائنسی ریسرچ فیل هے!
22-: یہاں ہر چیز باہر سے منگائی جاتی هے پھر بھی مہنگائی نہیں ہوتی۔
دلچسپ تحریریں
Share:

Meri Ummat Ko Majburi Me Kiye Jane wale Kamo ko Maaf kar diya Gya.

Meri Ummat ke un kaamo ko maaf Kar diya hai jis par wo majbur Kar diye Jaye.
------
✦ Rasool-Allah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaya Allah Subhanahu ne meri Ummat se Jo unke dilo waswase aate hain maaf kar diya hai jab tak us par aamal na Karen ya bole aur esse tarha un kamo se bhi innhein maaf Kar diya hai jis par wo majbur Kar diye Jaye
Sunan ibn Maja jild 3, 2044-Sahih
-------
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سبحانه  نے میری امت سے جو ان کے دلوں میں وسوسے آتے ہیں معاف کر دیا ہے جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا نہ بولیں، اور اسی طرح ان کاموں سے بھی انہیں معاف کر دیا ہے جس پر وہ مجبور کر دیئے جائیں
سنن ابن ماجہ جلد ٣  حدیث ٢٠٤٤ صحیح
------
✦ Rasool-Allah Sallallahu Alaihi Wasallam said  Allah has forgiven my nation for the evil suggestions of their hearts,as long as they do not act upon it or speak of it, and for what they are forced to do
Sunan ibn Maja Volume 3, 2122-Sahih

       ☆▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬☆

*🌴Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo🌴

Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare !

  🌹JazakAllah  Khaira Kaseera🌹

Share:

Saff Durust Karte waqt Bich Me Pillar Aajaye to Kya Usse Namaj Nahi Hoti?

Namaj Ke Liye Saf Durust Karte Waqt Bich Pe Pillar Aa Jate Hai To Kya USSE Sawab Me Kami Aap Jayegi

سوال:مسجد میں نماز پڑھنے کے دوران جب صفیں درست کی جاتی ہیں کہی صفوں میں ستون (pillar) آتے ہیں جس کی وجہ سے صف مکمل نہیں ہو سکتا ہے کیا اس کی وجہ سے نماز کے ثواب پر کوئی اثر پڑتا ہے مہربانی کرکے مجھے جواب چاہیے دلیل کے ساتھ.
الجواب بعون رب العباد:
*******************
کتبہ:ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
تخصص:فقہ واصولہ۔
*****************************
حامدا ومصليا أمابعد:
ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے اور صف بندی  کی ممانعت احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
جسے واضح ہوا کہ ستون کے درمیان نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔
دلیل:معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول علیہ السلام ہمیں ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے سے سختی سے منع کیا کرتے تھے۔[رواه ابن ماجه رقم الحديث:10002 ، اس حدیث شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے دیکھئے صحیح ابن ماجہ ، والبيهقي في الكبرى نمبر:5205 ، وابن خزيمة في صحيحه نمبر: 1567 ، والحاكم في المستدرك نمبر:794 ،  والطبراني في الكبير 19/21].
دوسری دلیل:عبد الحمید بن محمود رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے کسی گورنر کے پیچھے نماز ادا کی اور لوگوں  نے ہمیں دو ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے کے لئے مجبور کردیا جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو صحابی رسول انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہمیں کہا کہ ہم  نبی علیہ السلام کے زمانے میں ایسی جگہوں میں ادا کرنے سے بچا کرتے تھے۔[سنن ترمذی رقم الحدیث 229 ، اس حدیث کو محدث عظیم شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ، دیکھئے:صحیح الترمذی ، 
وصححه ابن خزيمة والحاكم وابن حبان وغيرهم].
ابن مفلح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مقتدی کیلئے ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا مکروہ ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی وجہ بیان کی ہے کہ اسے صف میں انقطاع آجاتا ہے۔[الفروع39/2].
تیسری دلیل:عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ستونوں کے درمیان صف نہ بناو اور صفوں کو پورا کرو۔[عمدة القاري286/4]۔
یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جائے۔
البتہ اگر کوئی شخص اکیلے نماز ادا کرنا چاھئے تو اس صورت میں ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے یا جب مسجد مسجد میں جگہ کی تنگی ہو تو اس حالت میں اگر صف ستونوں کے درمیان بھی بنائی جائے تو حالت اضطراری میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حسن بصری اور ابن سیرین رحمهما الله نے اسکی اجازت دی ہے بلکہ سعید بن جبیر  ، ابراھیم تیمی اور سوید بن غفلہ رجمهم الله ستونوں کے درمیان لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور کوفیوں کی بھی یہی رائے ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسجد میں تنگی کی وجہ سے ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ابن حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسجد میں تنگی کی وجہ سے ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنا منع نہیں ہے۔[عمدة القاري286/4 ، المدونه].
سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں باب باندھا ہے۔(باب الصلاة بين السواري في غير جماعة)۔[صحیح البخاری]۔
اسے ثابت ہوا کہ جماعت کے علاوہ ستون کے درمیان نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ اس باب کے تحت فرماتے ہیں کہ اس باب سے ثابت ہوا کہ جماعت کی حالت میں ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنا اسلئے ممنوع ہے اسلئے کہ اسے صف کٹ جاتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث ابن عمر عن بلال سے احتجاج کیا ہے کہ جماعت کے بغیر ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[شرح المسند فتح الباري578/1].
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ستونوں کے درمیان امام کے لئے ناپسندیدہ عمل نہیں ہے بلکہ مقتدی کے لئے جماعت کی حالت میں ستونوں کے درمیان صف کرنا اور نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے اسلئے کہ اسے صف کے درمیان انقطاع واقع ہوجاتا ہے۔[المغني47/2]۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے کی ضرورت ہو تو اس صورت میں ان کے درمیان نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بغیر حاجت کے ایسا کرنا مکروہ عمل ہے اور اس پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے۔[مجموع فتاوى ورسائل ابن العثيمين السؤال نمبر:389].
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنا اسلئے منع ہے اسلئے کہ اسے صفوں میں انقطاع ہوجاتا ہے اگر دو یا تین اشخاص ستونوں کے درمیان جماعت ادا کریں تو ایسا کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔[فتح الباري لابن رجب 651/2]۔
فتوی لجنہ دائمہ میں ہے کہ ضرورت کے وقت درمیان ستون نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[فتوی لجنہ دائمہ295/5]۔
خلاصہ کلام:ستونوں کے درمیان جماعت کی حالت میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے اسلئے کہ اسے صفوف کے درمیان انقطاع ہوجاتا ہے اور صفوں کے درمیان انقطاع کرنا جائز نہیں ہے البتہ اگر مسجد میں جگہ کی تنگی ہو اس صورت میں ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنا اس صورت میں منع ہے جب جماعت چل رہی ہو اور مسجد میں جگہ کی وسعت بھی ہو۔
اسی طرح ستونوں کے درمیان اگر دو تین آدمی جماعت ادا کریں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے
ثابت ہوا کہ جماعت کی صورت میں ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر جگہ کی تنگی ہو تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله تعالى أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين ومن تبعهم باحسان إلى يوم الدين.
Share:

Biwi Aur Khawind ke Bich Kis Tarah ki Talluq Ho?

Shauhar Aur Biwi ke Darmiyan Hone wale Tnaza.
صبح ہی صبح میاں بیوی کا خوب جھگڑا ہو گیا*، بیگم صاحبہ غضبناک ہو کر بولیں... "بس، بہت کر لیا برداشت، اب میں مزید ایک منٹ بھی تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی"

میاں جی بھی طیش میں تھے... بولے...
"میں بھی تمہاری شکل دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکا ہوں... دفتر سے واپس آوُں تو مجھے نظر نہ آنا گھر میں... اٹھاوُ اپنا ٹین ڈبا اور نکلو یہاں سے"... میاں جی غصے میں ہی دفتر چلے گئے...

بیگم صاحبہ نے اپنی ماں کو فون کیا اور بتایا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بچوں سمیت میکے واپس آ رہی ہے... اب مزید نہیں رہ سکتی اس جہنم میں...

ماں نے کہا "بندے کی پتر بن کے آرام سے وہیں بیٹھ، تیری بڑی بہن بھی اپنے میاں سے لڑ کر آئی تھی، اور اسی ضد میں طلاق لے کر بیٹھی ہوئی ہے، اب تو نے وہی ڈرامہ شروع کر دیا ہے.. خبردار جو ادھر قدم بھی رکھا تو.... صلح کر لے میاں سے... اب وہ اتنا بُرا بھی نہیں ہے"...

ماں نے لال جھنڈی دکھائی تو بیگم صاحبہ کے ہوش ٹھکانے آئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں... جب رو کر تھکیں تو دل ہلکا ہو چکا تھا...
میاں کے ساتھ لڑائی کا سین سوچا تو اپنی بھی کافی غلطیاں نظر آئیں...
منہ ہاتھ دھو کر فریش ہوئی اور میاں کی پسند کی ڈش بنانی شروع کر دی... اور ساتھ سپیشل کھیر بھی بنا لی... سوچا شام کو میاں جی سے معافی مانگ لوں گی، اپنا گھر پھر بھی اپنا ہی ہوتا ہے...
شام کو میاں جی گھر آئے تو بیگم نے ان کا اچھے طریقے سے استقبال کیا... جیسے صبح کچھ بھی نہ ہوا ہو...
میاں جی کو بھی خوشگوار حیرت ہوئی...
کھانا کھانے کے بعد میاں جی جب کھیر کھا رہے تھے تو بولے
"بیگم، کبھی کبھار میں بھی زیادتی کر جاتا ہوں.. تم دل پر مت لیا کرو، بندہ بشر ہوں، غصہ آ ہی جاتا ہے"....

میاں جی بیگم کے شکر گزار ہو رہے تھے... اور بیگم صاحبہ دل ہی دل میں اپنی ماں کو دعائیں دے رہی تھیں... جس کی سختی نے اس کو یوٹرن لینے پر مجبور کیا تھا...ورنہ تو جذباتی فیصلے نے گھر تباہ کر دینا تھا...!!
۔
سبق: اگر والدین اپنی شادی شدہ اولاد کی ہر جائز ناجائز بات کو سپورٹ کرنا بند کر دیں تو رشتے بچ جاتے ہیں۔ آزما لیجئے۔💞💞💞

Share:

Achi biwi ki Pahchan.

Behtareen Biwi Ki Pehchan.. 

Ek acha Shauhar kaise bane? 

1. Jo Apne Shohar ki farmabardari aur khidmat guzari ko apna farz-e-azeem samjhe.

2. Jo Apne Shohar ke tamam huqooq ada karne me kotahi na karen.

3. Jo Apne Shohar ki khubiyon per Nazar rakhe aur uss ke Aib aur Khamiyon ko nazar-andaz karti rahe.

4. Jo Khud takleef utha kar Apne Shohar ko aaram pohchane ki humesha koshish karti rahe.

5. Jo Apne Shohar se uski Aamdani se zyada ka mutaliba na kare aur jo mil jaye uspar Sabr-O-Shukr ke sath zindagi basar kare.

6. Jo Apne Shohar ke siwa kisi Ajnabi Mard per nigah na dale na kisi ki nigah apne uper padhne de.

7. Jo Parde me rahe aur Apne Shohar ki Izzat-O-Namoos ki hifazat kare.

8. Jo Shohar ke Maal aur Makan-O-Saman aur khud Apni jaat ko Shohar ki amanat samajh ker har cheez ki hifazat-o-nigehbani karti rahe.

9. Jo Apne Shohar ki Musibat me Apni Jani-O-Maali Qurbani ke sath wafadari ka saboot de.

10. Jo Parhezgaari ki paband aur Deendaar ho, Huqooq Allah-O-Huqooq Ul Ibad ko ada karti ho.

11. Jo Padosiyon(Aurto) aur milne julne waali Aurton yaani saas, nanand, sasurali rishtedar ke sath Khush Akhlaqi aur sharaft ka bartao kare.

12. Jo Maika-O-Sasural dono Gharon me har dil Azeez aur Ba Izzat ho.

In’sha’Allah-Ul-Azeez ❗Allah Rabbul Izzat Hum tamam ko kehne sun’ne se jyada amal ki toufiq de. Ameen ❗❗❗
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

Share:

Zindagi Se Joori Kuchh Dilchasp Batein.

Insan Pe Ummed Karna.
ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ *ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ* ﮐﺮ
ﺑﮭﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ  ﺗﻮ  *ﻭﻗﺖ*
ﺍﻭﺭ  *ﺣﺎﻻﺕ*  ﭘﺮ  ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ- *ﻭﻗﺖ*
ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻻﺕ ﻭﮦ *ﭼﯿﺰﯾﮟ* ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﮨﺮ ﺟﺬﺑﮧ ﮨﺮ *ﺭﺷﺘﮧ* ﺑﺪﻝ
*ﺩﯾﺘﮯ* ﮨﯿﮟ
*اردو ادب
🌷🌹🌷🌹🌷🌹🌷۔
ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ *ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ* ﮐﺮ
ﺑﮭﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ  ﺗﻮ  *ﻭﻗﺖ*
ﺍﻭﺭ  *ﺣﺎﻻﺕ*  ﭘﺮ  ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ- *ﻭﻗﺖ*
ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻻﺕ ﻭﮦ *ﭼﯿﺰﯾﮟ* ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﮨﺮ ﺟﺬﺑﮧ ﮨﺮ *ﺭﺷﺘﮧ* ﺑﺪﻝ
*ﺩﯾﺘﮯ* ﮨﯿﮟ

🌷🌹🌷🌹🌷🌹🌷۔
کسی  نے *سچ*  ہی
کہا ہے *محبت* میں
ایک *شخص* کی ہار
کا  *خمیازہ*  دونوں
کو *بُھگتنا*  پڑتا ہے ..

🌸🌼🌸🌼🌸🌼۔
🌹🌸🌹🌸🌹🌸۔

🌷میرا خیال🌷

‏جن لوگوں کو " مان "
نہ رکھنا آتا ھو وہاں
الفاظ ضائع کرنے سے
بہتر ھے انسان مسکرا
کر خاموش ھو جائے...

🌹🌸🌹🌸🌹🌸۔

Share:

Jab Tum Mayus Ho Jao. (Najem)

خوبصورت دعا
*جو تم مایوس ہو جاو
*تو رب سے گفتگو کرنا*
وفا کی آرزو کرنا
سفر کی جستجو کرنا ......!!

یہ اکثر ہو بھی جاتا ہے
کہ کوئی کھو بھی جاتا ہے
مقدر کو برا جانو گےتو
یہ سو بھی جاتا ہے......!!

اگر تم حوصلہ رکهو
وفا کا سلسہ رکهو
جسے تم خالق سمجھتے ہو
تو اس سے رابطہ رکهو
میں یہ دعوے سے کہتا ہوں
کبھی ناکام نہ ہو گے .........!!

جو تم مایوس ہو جاو،
تو رب سے گفتگو کرنا ......!
کبھی مایوس مت ھونا.....

وہاں انصاف کی چکی......
ذرا دھیرے ھی چلتی ھے.....
مگر چکی کے پاٹوں میں.....
بہت باریک پستا ھے.....
تمہارے ایک کا بدلہ.....
وہاں ستر سے زیادہ ھے.....

نیت تلتی ھے پلڑوں میں...
عمل ناپے نہیں جاتے...
وہاں جو ہاتھ اٹھتے ہیں۔۔
کبھی خالی نہیں جاتے۔۔

ذراسی دیرلگتی ہے۔۔۔
مگر وہ دے کے رہتا ہے

*جو تم مایوس ہو جاو*،
*تو رب سے گفتگو کرنا

Share:

Namaj Me Surah Fatiha Padhna Kaisa Hai?

Namaj Me Surah Fatiha Padhna Kaisa Hai

مسأله قرآت  فاتحه خلف الامام۔۔
 حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب‏"‏‏. ‏{صحیح البخاری کتاب الصلاة}
Namaj Se Pahle Jubani Niyat Karna.
ترجمه :ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا محمود بن ربیع سے، انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔
تشریح : امام کے پیچھے جہری اور سری نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا اثبات بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ باوجود اس حقیقت کے پھر یہ ایک معرکہ آراءبحث چلی آرہی ہے۔ جس پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ جو حضرات اس کے قائل نہیں ہیں۔ ان میں بعض کا توغلویہاں تک بڑھاہواہے کہ وہ اسے حرام مطلق قراردیتے ہیں اورامام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے والوں کے بارے میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے منہ میں آگ کے انگارے بھرے جائیں گے۔ نعوذباللہ منہ۔ اسی لیے مناسب ہوا کہ اس مسئلہ کی کچھ وضاحت کردی جائے تاکہ قائلین اورمانعین کے درمیان نفاق کی خلیج کچھ نہ کچھ کم ہوسکے۔
یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو حدیث لائے ہیں اس کے ذیل میں حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وسمیت فاتحۃ الکتاب لانہ یبدا بکتابتہا فی المصاحف ویبدا بقراتہا فی الصلوٰۃ و فاتحۃ کل شئی مبداہ الذی یفتح بہ مابعد افتتح فلان کذا ابتدا بہ قال ابن جریر فی تفسیرہ۔ ( ج1، ص: 25 ) و سمیت فاتحۃ الکتاب لانہا یفتتح بکتابتہا المصاحف ویقرابہا فی الصلوٰۃ فہی فواتح لما یتلوہا من سورالقرآن فی الکتابۃ واالقراۃ وسمیت ام القرآن لتقدمہا علی سائرسورالقرآن غیرہا وتاخرماسواہا فی القراۃ والکتابۃ الخ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 583 ) خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ سورۃ الحمد شریف کا نام فاتحۃ الکتاب اس لیے رکھا گیاکہ قرآن مجید کی کتابت اسی سے شروع ہوتی ہے اورنماز میں قرات کی ابتدا بھی اسی سے کی جاتی ہے۔ علامہ ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں یہی لکھاہے۔ اس کو ام القرآن اس لیے کہا گیا کہ کتابت اورقرات میںیہ اس کی تمام سورتوں پر مقدم ہے۔ اورجملہ سورتیں اس کے بعد ہیں۔ یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ نمازمیں قرات سورۃ فاتحہ فرض ہے اوریہ نماز کے ارکان میں سے ہے۔ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنی مشہورکتاب حجۃ اللہ البالغۃ، جلد2، ص: 4 پر اسے نماز کا اہم رکن تسلیم کیاہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث عام ہے۔ نماز چاہے فرض ہو چاہے نفل، اوروہ شخص امام ہو یا مقتدی، یااکیلا۔ یعنی کسی شخص کی کوئی نماز بھی بغیرفاتحہ پڑھے نہیں ہوگی۔
چنانچہ مشہورشارح بخاری حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری، جلد2، ص: 439 میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ای فی کل رکعۃ منفردا اواماما اوماموما سواءاسرالامام اوجہر یعنی اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہرنماز کو خواہ اکیلا ہو یاامام ہو، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
نیز اسی طرح علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وفی الحدیث ( ای حدیث عبادۃ ) دلیل علی ان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الامام والمنفرد والماموم فی الصلوٰت کلہا۔ ( عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد3، ص: 63 ) یعنی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے۔ نیز حنفیوں کے مشہور شارح بخاری امام محمود احمدعینی المتوفی 855ھ, عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج3، ص: 84 ) میں لکھتے ہیں:
استدل بہذا الحدیث عبداللہ بن المبارک والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد واسحاق وابوثور وداؤد علی وجوب قراۃ الفاتحۃ خلف الامام فی جمیع الصلوٰت یعنی اس حدیث ( حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے ( مقتدی کے لیے ) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ المجموع شرح مہذب، جلد3، ص: 326 مصری میں فرماتے ہیں:
وقرا ۃ الفاتحۃ للقادر علیہا فرض من فروض الصلوٰۃ ورکن من ارکانہا ومتعینۃ لایقوم ترجمتہا بغیرالعربیۃ ولاقراۃ غیرہا من القرآن ویستوی فی تعینہا جمیع الصلوٰت فرضہا ونفلہا جہرہا و سرہا والرجل المراۃ والمسافر والصبی والقائم والقاعد والمضظجع وفی حال الخوف وغیرہا سواءفی تعینہا الامام والماموم والمنفرد یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتاہے ( یعنی اس کو یہ سورہ یاد ہے ) اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اورنماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اوریہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیرعربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے اورنہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اوراس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یاسری اور مردعورت، مسافر، لڑکا ( نابالغ ) اورکھڑا ہوکر نماز پڑھنے والااوربیٹھ کر یالیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس تعین فاتحہ میں امام، مقتدی اوراکیلا نماز پڑھنے والا ( سبھی ) برابر ہیں۔
حدیث اورشارحین حدیث کی اس قدر کھلی ہوئی وضاحت کے باوجود کچھ حضرات کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس حدیث میں امام یا مقتدی یامنفرد کا ذکر نہیں۔ اس لیے اس سے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کی فرضیت ثابت نہیں ہوگی۔ اس کے جواب کے لیے حدیث ذیل ملاحظہ ہو۔ جس میں صاف لفظوں میں مقتدیوں کا ذکر موجود ہے۔
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔ ( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن ) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔
اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔ ( ترمذی، ج1، ص:41 )
یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔
امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں: ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )
یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میںطعن کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس بارے میں دوسری دلیل یہ حدیث ہے۔
عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من صلی صلوٰۃ ولم یقرا فیہا بام القرآن فہی خداج ثلاثا غیرتمام فقیل لابی ہریرۃ انا نکون وراءالامام فقال اقرابہا فی نفسک فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول قال اللہ تعالیٰ قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین الحدیث۔ ( صحیح مسلم، ج1، ص:169 ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) پوری نہیں ہے۔ جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ( تب بھی پڑھیں ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ( ہاں ) اس کو آہستہ پڑھاکرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے نماز کو اپنے اوربندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔ ( آخر تک )
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ ہی کو نماز کہا گیاہے۔ کیونکہ نماز کی اصل روح سورۃ فاتحہ ہی ہے۔ دوحصوں میں بانٹنے کا مطلب یہ کہ شروع سورت سے ایاک نستعین تک مختلف طریقوں سے اللہ کی حمد وثناہے۔ پھر آخر سورت تک دعائیں ہیں جو بندہ خدا کے سامنے پیش کررہاہے۔ اس طرح یہ سورت شریفہ دوحصوں میں منقسم ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170میں لکھتے ہیں:
ففیہ وجوب قراۃ الفاتحۃ وانہا متعینۃ لایجزی غیرھا الالعاجزعنہا وہذا مذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءمن الصحابۃ والتابعین فمن بعدہم۔
یعنی اس حدیث ( ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے کا ثبوت ہے اورعاجز کے سوا سورۃ فاتحہ نماز میں متعین ہے۔ کوئی دوسری آیت اس کی جگہ کفایت نہیں کرسکتی اور یہی مذہب امام مالک اورامام شافعی اور جمہورصحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد علماءوائمہ عظام کاہے۔
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرنماز کے لیے لفظ خداج کا استعمال کیاگیاہے۔ چنانچہ امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، جلد1، ص: 203 پر فہی خداج کا معنی لکھتے ہیں: معناہ ناقصۃ نقص فساد وبطلان یقول العرب اخدجت الناقۃ اذا القت ولدہا وہو دم لم یستبن خلقہ فہی مخدج والخداج اسم مبنی عنہ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 588 )
حاصل اس کا یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ فاسداور باطل ہے۔ اہل عرب اخدجت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرادے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت وپیدائش ظاہر نہ ہوئی ہو۔ اوراسی سے لفظ خداج لیا گیاہے۔ ثابت ہوا کہ خداج وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچہ جیسی ہے۔
اقرابہا فی نفسک اس کا معنی دل میں تدبر وتفکر اورغورکرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان کے ساتھ آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھا کر۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والمراد بقولہ اقرابہا فی نفسک ان یتلفظ بہا سرا دون الجہر بہا ولایجوز حملہ علی ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لاجماع اہل اللسان علی ان ذلک لایسمی قراۃ ولاجماع اہل العلم علی ان ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لیس بشرط ولامسنون ولایجوز حمل الخبر علی مالا یقول بہ احد ولایساعدہ لسان العرب۔ ( کتاب القرات، ص: 17 )
یعنی اس قول ( اقرابہا فی نفسک ) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل لغت کا اس پراجماع ہے کہ اس کو قراۃ نہیں کہتے اوراہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ زبان سے تلفظ کئے بغیر صرف دل سے ذکر کرنا نماز کی صحت کے لیے نہ شرط ہے اورنہ ہی سنت۔ لہٰذا حدیث کو ایسے معنی پر حمل کرنا جس کا کوئی بھی قائل نہیں اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے جائز نہیں۔
تفسیرجلالین، جلد1، ص: 148مصری میں واذکر ربک فی نفسک کا معنی لکھاہے: ای سرا یعنی اللہ تعالیٰ کو زبان سے آہستہ یادکر۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170ںاقرابہا فی نفسک کا معنی لکھتے ہیں:
فمعناہ اقراہا سرا بحیث تسمع نفسک واما ماحملہ علیہ بعض المالکیۃ وغیرہم ان المراد تدبر ذلک فلایقبل لان القراۃ لاتطلق الاعلی حرکۃ اللسان بحیث یسمع نفسہ۔
اورحدیث میں قرات ( پڑھنے ) کا حکم ہے۔ لہٰذا جب تک مقتدی فاتحہ کو زبان سے نہیں پڑھے گا، اس وقت تک حدیث پر عمل نہیں ہوگا۔
ہدایہ، جلد1، ص: 98 میں ہے: لان القراۃ فعل اللسان کیونکہ قراۃ ( پڑھنا ) زبان کا کام ہے۔
کفایہ، جلد1، ص: 64 میں ہے: فیصلی السامع فی نفسہ ای یصلی بلسانہ خفیا یعنی جب خطیب آیت یآیہا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ( الاحزاب: 56 ) پڑھے توسامعین کو چاہئیے کہ اپنی زبان سے آہستہ درود پڑھ لیں۔ یعنی فی نفسہ کا معنی زبان سے آہستہ اورپوشیدہ پڑھنا ہے۔ ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ فی نفسک کا معنی دل میں تدبر اور غوروفکر کرنا، لغت اوراہل علم اور خودفقہاءکی تصریحات کے خلاف ہے اورصحیح معنی یہ ہے کہ زبان سے آہستہ پڑھا کراوریہی حدیث کا مقصود ہے۔
تیسری حدیث یہ ہے:
عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوٰۃ لم یقرافیہا بفاتحۃ الکتاب فہی خداج غیر تمام۔ ( جزءالقرات، ص: 8، دہلی، کتاب القرات، ص: 31 ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے پوری۔ ” خداج کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے۔
اس بارے میں چوتھی حدیث یہ ہے:
عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔ ( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 )
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔
اس حدیث سے امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت صاف ثابت ہے۔ اس بارے میں مزیدوضاحت کے لیے پانچویں حدیث یہ ہے:
عن ابی قلابۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لعل احدکم یقرا خلف الامام والامام یقرافقال رجل انالنفعل ذلک قال فلا تفعلوا ولکن لیقرا احدکم بفاتحۃ الکتاب۔ ( کتاب القراۃ، ص: 50 )
ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شایدجب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا ( امام کے پیچھے ) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔
ان احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ ضروری ہے۔ کیونکہ ان احادیث میں خاص لفظ فاتحہ اورخلف امام موجود ہے اورمزید وضاحت کے لیے چھٹی حدیث یہ ہے:
عن عبداللہ بن سوادۃ القشیری عن رجل من اہل البادیۃ عن ابیہ وکان ابوہ اسیرا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال سمعت محمدا صلی اللہ علیہ وسلم قال لاصحابہ تقرؤن خلفی القرآن فقالوا یارسول اللہ نہذہ ہذا قال لا تقروا الابفاتحۃ الکتاب۔ ( کتاب القراۃ، ص: 53 ) عبداللہ بن سوادۃ ایک دیہاتی سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور اس کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسیر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا۔ کیا تم نماز میں میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وتواترالخبرعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاصلوٰۃ الابقراۃ ام القرآن۔ ( جزءالقراۃ، ص: 4، دہلی )
یعنی اس بارے میں کہ بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر ( یعنی جم غفیر روایت کرتے ہیں ) کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔
امام عبدالوہاب شعرانی میزان کبریٰ، جلد1، ص: 166، طبع دہلی میں فرماتے ہیں:
من قال بتعین الفاتحۃ وانہ لایجزی قراۃ غیرہا قددار مع ظاہرالاحادیث التی کادت تبلغ حدالتواتر مع تائید ذلک بعمل السلف والخلف۔
یعنی جن علماءنے سورۃ فاتحہ کو نماز میںمتعین کیاہے اورکہاکہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اورپڑھنا کفایت نہیں کرسکتا۔ اولاً توان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں۔ ثانیاً سلف وخلف ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام ) کا عمل بھی تعین فاتحہ درنماز کی تائید کرتاہے۔
مسک الختام شرح بلوغ المرام، جلد1، ص: 219 مطبع نظامی میں ہے۔ “ وایں حدیث راشواہد بسیاراست۔ ” یعنی قراۃ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔
تفسیر ابن کثیر، ص: 12 میں ہے: والاحادیث فی ہذا الباب کثیرۃ یعنی قراۃ فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں۔
ان ہی احادیث کثیرہ کی بناپر بہت سے محققین علمائے احناف بھی قراۃ خلف الامام کے قائل ہیں، جس کی تفصیل کے سلسلہ میں المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں:
امام ابو حنیفہ کے نزدیک فاتحہ خلف الامام مستحب ہے :
علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں:
لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔
خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔
لواب بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا بلکہ مستحسن ومستحب۔
اے ناظرین:
جس حدیث کو علامہ شعرانی نے ذکرکیاہے اورجس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے قول سے رجوع کرنا لکھاہے۔ اسی حدیث اوراس کے مثل اوراحادیث صحیحہ کو دیکھ کرخود مذہب حنفی کے بڑے بڑے فقہاءوعلماءامام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول قدیم کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل وفاعل ہوگئے۔ بعض تونماز سری اور جہری دونوں میں اور بعض فقط نماز سری میں۔
علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں: بعض اصحابنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلوات وبعضہم فی السریۃ فقط وعلیہ فقہاءالحجاز والشام ( کذا فی غیث الغمام، ص: 156 ) یعنی بعض فقہائے حنفیہ ہرنماز میں خواہ سری ہو خواہ جہری امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کواحتیاطاً مستحسن بتاتے ہیں اوربعض فقہاءفقط نماز سری میں اورمکہ اورمدینہ اورملک شام کے فقہاءکا اسی پر عمل ہے۔
عمدۃ القاری، ص: 173میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھتے ہیں:
وروی عن محمدانہ استحسن قراءۃ الفاتحۃ خلف الامام فی السریۃ و روی مثلہ عن ابی حنیفۃ صریح بہ فی الہدایۃ والمجتبیٰ شرح مختصر القدروی وغیرہما وہذا ہو مختار کثیرمن مشائخنا یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ انھوں نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو نماز سری میں مستحسن بتایاہے اوراسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیاگیاہے۔ اوراسی کو ہمارے بہت سے مشائخ نے اختیارکیاہے۔
ہدایہ میں ہے
ویستحسن علی سبیل الاحتیاط فی مایروی عن محمد یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا احتیاطاً مستحسن ہے۔
مولوی عبدالحی صاحب امام الکلام میں لکھتے ہیں: وہو وان کان ضعیفاً روایۃ لکنہ قوی درایۃ ومن المعلوم المصرح فی غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی وغیرہ انہ لایعدل عن الروایۃ اذا وافقتہا درایۃ یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ ” امام کے پیچھے الحمد پڑھنا مستحسن ہے “ اگرچہ روایتاً ضعیف ہے لیکن دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔ اور غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جب روایت دلیل کے موافق ہو تواس سے عدول نہیں کرناچاہئیے اورعلامہ شعرانی کے کلام سے اوپر معلوم ہوچکاہے کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نیز امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کابھی اخیرقول ہے۔ اور ان دونوں اماموں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیاہے۔
اورشیخ الاسلام نظام الملۃ والدین مولانا عبدالرحیم جوشیخ التسلیم کے لقب سے مشہور ہیں اوررئیس اہل تحقیق کے نام سے بھی آپ یادکئے گئے ہیں اورباتفاق علماءماوراءالنہر وخراسان مذہب حنفی کے ایک مجتہد ہیں۔ آپ باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک قدیم کو چھوڑکر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب کہتے ہیں اورخود بھی پڑھتے اور فرماتے تھے: لوکان فی فمی یوم القیامۃ جمرۃ احب الی من ان یقال لاصلوٰۃ لک یعنی اگرقیامت کے روز میرے منہ میں انگارا ہو تومیرے نزدیک یہ بہتر ہے اس سے کہ کہا جائے کہ تیری تونماز ہی نہیں ہوئی۔ ( امام الکلام، ص: 20 )
اے ناظرین!
یہ حدیث کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی نہایت صحیح ہے اوریہ حدیث جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کے منہ میں قیامت کے روز انگارا ہوگا موضوع اورجھوٹی ہے۔ شیخ التسلیم نے اپنے قول میں پہلی حدیث کے صحیح ہونے اوردوسری حدیث کے موضوع اورجھوٹی ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔
اورامام ابوحفص کبیر رحمۃ اللہ علیہ جومذہب حنفی کے ایک بہت بڑے مشہور فقیہ ہیں اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کبار میں سے ہیں۔ آپ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ بھی نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے اوران کے سوا اور بہت سے فقہاءنے بھی اسی مسلک کو اختیار کیاہے۔ جیسا کہ گزر چکاہے اورمشائخ حنفیہ اورجماعت صوفیہ کے نزدیک بھی یہی مسلک مختار ہے۔
ملاجیون نے تفسیراحمدی میں لکھاہے:
فان رایت الطائفۃ الصوفیۃ والمشائخین تراہم یستحسنون قراۃ الفاتحۃ للموتم کما استحسنہ محمد ایضا احتیاطاً فیماروی عنہ انتہیٰ یعنی اگرجماعت صوفیہ اورمشائخین حنفیہ کو دیکھوگے توتمھیں معلوم ہوگا کہ یہ لوگ امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن بتاتے تھے۔ جیساکہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ احتیاطاً استحسان کے قائل تھے۔
اورمولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دہلوی نے بھی باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اولیٰ الاقوال بتایاہے۔ دیکھو حجۃ اللہ البالغۃ اور جناب شاہ صاحب کے والدماجد مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب ” انفاس العارفین “ میں اپنے والد ماجد کے حال میں لکھتے ہیں کہ وہ ( یعنی مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) اکثرمسائل فروعیہ میں مذہب حنفی کے موافق تھے۔ لیکن کسی مسئلہ میں حدیث سے یاوجدان سے مذہب حنفی کے سوا کسی اورمذہب کی ترجیح اورقوت ظاہر ہوتی تو اس صورت میں حنفی مذہب کا مسئلہ چھوڑدیتے۔ ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھتے تھے اورنماز جنازہ میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔ ( غیث الغمام، ص: 174 )
اورمولانا شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی فرضیت کوترجیح دی ہے۔ چنانچہ آپ ایک استفتا کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے الحمد پڑھنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منع ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس وقت امام آہستہ پڑھے جائز ہے۔ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بغیر پڑھے الحمد کے نماز جائز نہیں۔ اورنزدیک اس فقیر کے بھی قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجیح رکھتاہے اور بہترہے کیونکہ اس حدیث کے لحاظ سے نہیں نماز ہوتی مگر سورۃ فاتحہ سے نماز کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اورقول امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی جابجا وارد ہے کہ جس جگہ حدیث صحیح وارد ہو اورمیرا قول اس کے خلاف پڑے تومیرے قول کو چھوڑدینا چاہئیے اورحدیث پر عمل کرناچاہئیے۔ انتہیٰ مترجماً بقدرالحاجۃ۔
اورمولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی نے اس مسئلہ میں خاص ایک رسالہ تصنیف کیاہے جس کا نام امام الکلام ہے اس رسالہ میں آپ نے باوجود حنفی ہونے کے یہ فیصلہ کیاہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ومستحب ہے اور نماز جہری میں بھی سکتات امام کے وقت۔ چنانچہ رسالہ مذکورہ ص: 156میں لکھتے ہیں: فاذن ظہرحق الظہور ان اقوی المسالک سلک علیہا اصحابنا ہومسلک استحسان القراۃ فی السریۃ کما ہو روایۃ عن محمد بن الحسن واختارہا جمع من فقہاءالزمن وارجورجاءموثقا ان محمدالما جوز القراۃ فی السریۃ واستحسنہا لابد ان یجوز القراۃ فی الجہریۃ فی السکتات عند وجدانہا لعدم الفرق بینہ و بینہ انتہیٰ مختصرا یعنی اب نہایت اچھی طرح ظاہرہوگیا کہ جن مسلکوں کو ہمارے فقہائے حنفیہ نے اختیارکیاہے، ان سب میں زیادہ قوی یہی مسلک ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ہے۔ جیسا کہ روایت ہے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے اوراسی مسلک کو فقہائے زمانہ کی ایک جماعت نے اختیار کیاہے اورمیں ( یعنی مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) امید واثق رکھتاہوں کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے جب نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن کہا ہے توضرور جہری میں بھی سکتات امام کے وقت مستحسن ہونے کے قائل ہوں گے۔ کیونکہ نماز جہری میں سکتات امام کی حالت میں اورنماز سری میں کچھ فرق نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف نے اپنا یہی فیصلہ سعایہ شرح وقایہ میں بھی لکھاہے۔
ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ لکھاہے کہ
نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہے، اورنماز جہری میں منع ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے ملاصاحب کے اس قول کورد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ میں لکھتے ہیں کہ ملاعلی قاری کا یہ قول ضعیف ہے، کیاملا علی قاری کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نماز جہری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کا جواز صراحتاً ثابت ہے۔
فتح القدیر وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے کہ
منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے اس کو بھی رد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ، ص: 304 میں لکھتے ہیں: وکذا ضعف ما فی فتح القدیر وغیرہ ان الاخذ بالمنع احوط فانہ لامنع ہہنا عند تدقیق النظر یعنی فتح القدیر وغیرہ میں جو یہ لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے، سویہ ضعیف ہے۔ کیونکہ دقیق نظر سے دیکھا جائے تویہاں منع کی کوئی روایت ہی نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف تعلیق الممجد، ص: 101 میں لکھتے ہیں: لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ مرفوعا فیہ اما لااصل لہ واما لا یصح انتہی۔ یعنی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی ممانعت کسی حدیث مرفوع صحیح میں وارد نہیں ہوئی اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جس قدر مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو ان کی کچھ اصل ہی نہیں ہے یاوہ صحیح نہیں ہیں۔
اے ناظرین!
دیکھو اورتو اورخودمذہب حنفی کے بڑے فقہاءوعلماءنے قرات فاتحہ خلف الامام کی حدیثوں کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک مشہور کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن ومستحب بتایاہے اورخود بھی پڑھاہے۔ بعض فقہاءنے ہرنماز میں سری ہو یا جہری اور بعض نے فقط سری میں۔ اوربقول علامہ شعرانی خودامام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان ہی حدیثوں کی وجہ سے اپنے پہلے قول سے رجوع کرکے نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب ومستحسن بتایاہے اور مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی حنفی نے اس مسئلہ میں جو کچھ فیصلہ کیااور لکھاہے۔ آپ لوگوں نے اس کو بھی سن لیا۔
مگربااین ہمہ ابھی تک بعض حنفیہ کا یہی خیال ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہرنماز میں سری ہو خواہ جہری ناجائز وحرام ہے۔ اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اسی مسلک مشہور کو ( جس کی کیفیت مذکورہوچکی ہے ) شاہ راہ سمجھ کر اسی پر چلے جاتے ہیں۔ خیراگر اسی مسلک کو شاہ راہ سمجھتے تھے اور اسی پر چپ چاپ چلے جاتے۔ لیکن حیرت تویہ ہے کہ ساتھ اس کے قرات فاتحہ خلف الامام کی ان حدیثوں کا بھی صاف انکار کیاجاتاہے ۔ جن کی وجہ سے اورتو اورخودمذہب حنفی کے ائمہ وفقہاءوعلماءنے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اختیار کرلیا۔ یااگر انکارنہیں کیاجاتاہے توان کی مہمل اورناجائز تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اورزیادہ حیرت تو ان علمائے حنفیہ سے ہے جوروایات موضوعہ وکاذبہ اورآثار مختلفہ وباطلہ کو اپنی تصنیفات میں درج کرکے اوربیان کرکے اپنے عوام اورجاہل لوگوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اوران کی زبان سے اورتواور خود اپنے ائمہ وفقہاءکی شان میں کلمات ناشائستہ اورالفاظ ناگفتہ بہ نکلواتے ہیں۔ کوئی جاہل بکتاہے کہ امام کے پیچھے جوالحمد پڑھے گا وہ گنہگار ہے۔ والعیاذ باللہ۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ( الکہف: 5 ) ۔
اگرچہ غور سے دیکھاجائے تو ان جاہلوں کا یہ قصورنمبردوم میں ہے اور نمبراول کا قصور انھیں علماءحنفیہ کا ہے، جو روایات کاذبہ و موضوعہ کو ذکرکرکے ان جاہلوں کو فتنے میں ڈالتے اوران کی زبان سے اپنے بزرگان دین کے منہ میں آگ وپتھر بھرواتے ہیں اورجو چاہتے ہیں ان سے کہلواتے ہیں۔ اگریہ روایات کاذبہ وموضوعہ کو بیان نہ کرتے یابیان کرتے مگران کا کذب وموضوع ہونا بھی صاف صاف ظاہر کرتے اورساتھ اس کے اس ضمن کو بھی واضح طور پر بیان کرتے جو اوپر ہم نے بیان کیا ہے توان جاہلوں کی زبان سے ایسے ناگفتہ بہ کلمات نہ نکلتے۔
آنچہ مے پرسی کہ خسرو را کہ کشت
غمزئہ تو چشم تو ابروئے تو
( تحقیق الکلام، حصہ اول، ص: 7 )
ہمارے محترم علمائے احناف کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جن کی تفصیلی حقیقت معلوم کرنے کے لیے محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری کی مشہور کتاب تحقیق الکلام کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں ہم اجمالی طور پر ان دلائل کی حقیقت حضرت مولاناعبدالحئی حنفی لکھنوی مرحوم کے لفظوں میں پیش کردینا چاہتے ہیں۔ موصوف علمائے احناف کے چوٹی کے عالم ہیں۔ مگراللہ پاک نے آپ کوجو بصیرت عطا فرمائی وہ قابل صدتعریف ہے۔ چنانچہ آپ نے مندرجہ ذیل بیان میں اس بحث کا بالکل خاتمہ کردیاہے۔ آپ فرماتے ہیں : لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ فیہ امالااصل لہ واما لایصح۔ ( تعلیق الممجد علی موطا امام مالک، ص: 101، طبع یوسفی ) یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔
فظہر انہ لایوجد معارض لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام مرفوعا۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 طبع یوسفی ) یعنی امام کے پیچھے ( سورہ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے معارض ومخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں پائی جاتی۔
حنفیہ کے دلائل کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وبالجملۃ لایظہر لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام معارض یساویہا فی الدرجۃ ویدل علی المنع۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 ) یعنی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے درجہ کی کوئی معارض ومخالف حدیث نہیں ہے اورنہ ہی ( امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ) منع پر کوئی حدیث دلالت کرتی ہے۔
امید ہے کہ ناظرین کرام کے اطمینان خاطرکے لیے اسی قدرکافی ہوگا۔ اپنا مقصد صرف یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں سے حسد بغض رکھنا، ان کو غیرمقلد، لامذہب کہنا یہ کسی طرح بھی زیبانہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے فروعی مباحث میں وسعت قلبی سے کام لے کر باہمی اتفاق کے لیے کوشش کی جائے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق۔
مسأله فاتحه خلف الامام
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب‏"‏‏. ‏{صحیح البخاری کتاب الصلاة}
ترجمه :ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا محمود بن ربیع سے، انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔
تشریح : امام کے پیچھے جہری اور سری نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا اثبات بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ باوجود اس حقیقت کے پھر یہ ایک معرکہ آراءبحث چلی آرہی ہے۔ جس پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ جو حضرات اس کے قائل نہیں ہیں۔ ان میں بعض کا توغلویہاں تک بڑھاہواہے کہ وہ اسے حرام مطلق قراردیتے ہیں اورامام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے والوں کے بارے میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے منہ میں آگ کے انگارے بھرے جائیں گے۔ نعوذباللہ منہ۔ اسی لیے مناسب ہوا کہ اس مسئلہ کی کچھ وضاحت کردی جائے تاکہ قائلین اورمانعین کے درمیان نفاق کی خلیج کچھ نہ کچھ کم ہوسکے۔
یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو حدیث لائے ہیں اس کے ذیل میں حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وسمیت فاتحۃ الکتاب لانہ یبدا بکتابتہا فی المصاحف ویبدا بقراتہا فی الصلوٰۃ و فاتحۃ کل شئی مبداہ الذی یفتح بہ مابعد افتتح فلان کذا ابتدا بہ قال ابن جریر فی تفسیرہ۔ ( ج1، ص: 25 ) و سمیت فاتحۃ الکتاب لانہا یفتتح بکتابتہا المصاحف ویقرابہا فی الصلوٰۃ فہی فواتح لما یتلوہا من سورالقرآن فی الکتابۃ واالقراۃ وسمیت ام القرآن لتقدمہا علی سائرسورالقرآن غیرہا وتاخرماسواہا فی القراۃ والکتابۃ الخ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 583 ) خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ سورۃ الحمد شریف کا نام فاتحۃ الکتاب اس لیے رکھا گیاکہ قرآن مجید کی کتابت اسی سے شروع ہوتی ہے اورنماز میں قرات کی ابتدا بھی اسی سے کی جاتی ہے۔ علامہ ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں یہی لکھاہے۔ اس کو ام القرآن اس لیے کہا گیا کہ کتابت اورقرات میںیہ اس کی تمام سورتوں پر مقدم ہے۔ اورجملہ سورتیں اس کے بعد ہیں۔ یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ نمازمیں قرات سورۃ فاتحہ فرض ہے اوریہ نماز کے ارکان میں سے ہے۔ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنی مشہورکتاب حجۃ اللہ البالغۃ، جلد2، ص: 4 پر اسے نماز کا اہم رکن تسلیم کیاہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث عام ہے۔ نماز چاہے فرض ہو چاہے نفل، اوروہ شخص امام ہو یا مقتدی، یااکیلا۔ یعنی کسی شخص کی کوئی نماز بھی بغیرفاتحہ پڑھے نہیں ہوگی۔
چنانچہ مشہورشارح بخاری حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری، جلد2، ص: 439 میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ای فی کل رکعۃ منفردا اواماما اوماموما سواءاسرالامام اوجہر یعنی اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہرنماز کو خواہ اکیلا ہو یاامام ہو، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
نیز اسی طرح علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وفی الحدیث ( ای حدیث عبادۃ ) دلیل علی ان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الامام والمنفرد والماموم فی الصلوٰت کلہا۔ ( عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد3، ص: 63 ) یعنی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے۔ نیز حنفیوں کے مشہور شارح بخاری امام محمود احمدعینی المتوفی 855ھ, عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج3، ص: 84 ) میں لکھتے ہیں:
استدل بہذا الحدیث عبداللہ بن المبارک والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد واسحاق وابوثور وداؤد علی وجوب قراۃ الفاتحۃ خلف الامام فی جمیع الصلوٰت یعنی اس حدیث ( حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے ( مقتدی کے لیے ) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ المجموع شرح مہذب، جلد3، ص: 326 مصری میں فرماتے ہیں:
وقرا ۃ الفاتحۃ للقادر علیہا فرض من فروض الصلوٰۃ ورکن من ارکانہا ومتعینۃ لایقوم ترجمتہا بغیرالعربیۃ ولاقراۃ غیرہا من القرآن ویستوی فی تعینہا جمیع الصلوٰت فرضہا ونفلہا جہرہا و سرہا والرجل المراۃ والمسافر والصبی والقائم والقاعد والمضظجع وفی حال الخوف وغیرہا سواءفی تعینہا الامام والماموم والمنفرد یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتاہے ( یعنی اس کو یہ سورہ یاد ہے ) اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اورنماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اوریہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیرعربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے اورنہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اوراس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یاسری اور مردعورت، مسافر، لڑکا ( نابالغ ) اورکھڑا ہوکر نماز پڑھنے والااوربیٹھ کر یالیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس تعین فاتحہ میں امام، مقتدی اوراکیلا نماز پڑھنے والا ( سبھی ) برابر ہیں۔
حدیث اورشارحین حدیث کی اس قدر کھلی ہوئی وضاحت کے باوجود کچھ حضرات کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس حدیث میں امام یا مقتدی یامنفرد کا ذکر نہیں۔ اس لیے اس سے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کی فرضیت ثابت نہیں ہوگی۔ اس کے جواب کے لیے حدیث ذیل ملاحظہ ہو۔ جس میں صاف لفظوں میں مقتدیوں کا ذکر موجود ہے۔
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔ ( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن ) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔
اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔ ( ترمذی، ج1، ص:41 )
یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔
امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں: ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )
یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میںطعن کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس بارے میں دوسری دلیل یہ حدیث ہے۔
عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من صلی صلوٰۃ ولم یقرا فیہا بام القرآن فہی خداج ثلاثا غیرتمام فقیل لابی ہریرۃ انا نکون وراءالامام فقال اقرابہا فی نفسک فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول قال اللہ تعالیٰ قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین الحدیث۔ ( صحیح مسلم، ج1، ص:169 ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) پوری نہیں ہے۔ جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ( تب بھی پڑھیں ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ( ہاں ) اس کو آہستہ پڑھاکرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے نماز کو اپنے اوربندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔ ( آخر تک )
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ ہی کو نماز کہا گیاہے۔ کیونکہ نماز کی اصل روح سورۃ فاتحہ ہی ہے۔ دوحصوں میں بانٹنے کا مطلب یہ کہ شروع سورت سے ایاک نستعین تک مختلف طریقوں سے اللہ کی حمد وثناہے۔ پھر آخر سورت تک دعائیں ہیں جو بندہ خدا کے سامنے پیش کررہاہے۔ اس طرح یہ سورت شریفہ دوحصوں میں منقسم ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170میں لکھتے ہیں:
ففیہ وجوب قراۃ الفاتحۃ وانہا متعینۃ لایجزی غیرھا الالعاجزعنہا وہذا مذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءمن الصحابۃ والتابعین فمن بعدہم۔
یعنی اس حدیث ( ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے کا ثبوت ہے اورعاجز کے سوا سورۃ فاتحہ نماز میں متعین ہے۔ کوئی دوسری آیت اس کی جگہ کفایت نہیں کرسکتی اور یہی مذہب امام مالک اورامام شافعی اور جمہورصحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد علماءوائمہ عظام کاہے۔
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرنماز کے لیے لفظ خداج کا استعمال کیاگیاہے۔ چنانچہ امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، جلد1، ص: 203 پر فہی خداج کا معنی لکھتے ہیں: معناہ ناقصۃ نقص فساد وبطلان یقول العرب اخدجت الناقۃ اذا القت ولدہا وہو دم لم یستبن خلقہ فہی مخدج والخداج اسم مبنی عنہ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 588 )
حاصل اس کا یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ فاسداور باطل ہے۔ اہل عرب اخدجت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرادے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت وپیدائش ظاہر نہ ہوئی ہو۔ اوراسی سے لفظ خداج لیا گیاہے۔ ثابت ہوا کہ خداج وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچہ جیسی ہے۔
اقرابہا فی نفسک اس کا معنی دل میں تدبر وتفکر اورغورکرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان کے ساتھ آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھا کر۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والمراد بقولہ اقرابہا فی نفسک ان یتلفظ بہا سرا دون الجہر بہا ولایجوز حملہ علی ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لاجماع اہل اللسان علی ان ذلک لایسمی قراۃ ولاجماع اہل العلم علی ان ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لیس بشرط ولامسنون ولایجوز حمل الخبر علی مالا یقول بہ احد ولایساعدہ لسان العرب۔ ( کتاب القرات، ص: 17 )
یعنی اس قول ( اقرابہا فی نفسک ) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل لغت کا اس پراجماع ہے کہ اس کو قراۃ نہیں کہتے اوراہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ زبان سے تلفظ کئے بغیر صرف دل سے ذکر کرنا نماز کی صحت کے لیے نہ شرط ہے اورنہ ہی سنت۔ لہٰذا حدیث کو ایسے معنی پر حمل کرنا جس کا کوئی بھی قائل نہیں اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے جائز نہیں۔
تفسیرجلالین، جلد1، ص: 148مصری میں واذکر ربک فی نفسک کا معنی لکھاہے: ای سرا یعنی اللہ تعالیٰ کو زبان سے آہستہ یادکر۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170ںاقرابہا فی نفسک کا معنی لکھتے ہیں:
فمعناہ اقراہا سرا بحیث تسمع نفسک واما ماحملہ علیہ بعض المالکیۃ وغیرہم ان المراد تدبر ذلک فلایقبل لان القراۃ لاتطلق الاعلی حرکۃ اللسان بحیث یسمع نفسہ۔
اورحدیث میں قرات ( پڑھنے ) کا حکم ہے۔ لہٰذا جب تک مقتدی فاتحہ کو زبان سے نہیں پڑھے گا، اس وقت تک حدیث پر عمل نہیں ہوگا۔
ہدایہ، جلد1، ص: 98 میں ہے: لان القراۃ فعل اللسان کیونکہ قراۃ ( پڑھنا ) زبان کا کام ہے۔
کفایہ، جلد1، ص: 64 میں ہے: فیصلی السامع فی نفسہ ای یصلی بلسانہ خفیا یعنی جب خطیب آیت یآیہا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ( الاحزاب: 56 ) پڑھے توسامعین کو چاہئیے کہ اپنی زبان سے آہستہ درود پڑھ لیں۔ یعنی فی نفسہ کا معنی زبان سے آہستہ اورپوشیدہ پڑھنا ہے۔ ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ فی نفسک کا معنی دل میں تدبر اور غوروفکر کرنا، لغت اوراہل علم اور خودفقہاءکی تصریحات کے خلاف ہے اورصحیح معنی یہ ہے کہ زبان سے آہستہ پڑھا کراوریہی حدیث کا مقصود ہے۔
تیسری حدیث یہ ہے:
عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوٰۃ لم یقرافیہا بفاتحۃ الکتاب فہی خداج غیر تمام۔ ( جزءالقرات، ص: 8، دہلی، کتاب القرات، ص: 31 ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے پوری۔ ” خداج کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے۔
اس بارے میں چوتھی حدیث یہ ہے:
عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔ ( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 )
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔
اس حدیث سے امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت صاف ثابت ہے۔ اس بارے میں مزیدوضاحت کے لیے پانچویں حدیث یہ ہے:
عن ابی قلابۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لعل احدکم یقرا خلف الامام والامام یقرافقال رجل انالنفعل ذلک قال فلا تفعلوا ولکن لیقرا احدکم بفاتحۃ الکتاب۔ ( کتاب القراۃ، ص: 50 )
ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شایدجب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا ( امام کے پیچھے ) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔
ان احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ ضروری ہے۔ کیونکہ ان احادیث میں خاص لفظ فاتحہ اورخلف امام موجود ہے اورمزید وضاحت کے لیے چھٹی حدیث یہ ہے:
عن عبداللہ بن سوادۃ القشیری عن رجل من اہل البادیۃ عن ابیہ وکان ابوہ اسیرا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال سمعت محمدا صلی اللہ علیہ وسلم قال لاصحابہ تقرؤن خلفی القرآن فقالوا یارسول اللہ نہذہ ہذا قال لا تقروا الابفاتحۃ الکتاب۔ ( کتاب القراۃ، ص: 53 ) عبداللہ بن سوادۃ ایک دیہاتی سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور اس کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسیر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا۔ کیا تم نماز میں میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وتواترالخبرعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاصلوٰۃ الابقراۃ ام القرآن۔ ( جزءالقراۃ، ص: 4، دہلی )
یعنی اس بارے میں کہ بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر ( یعنی جم غفیر روایت کرتے ہیں ) کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔
امام عبدالوہاب شعرانی میزان کبریٰ، جلد1، ص: 166، طبع دہلی میں فرماتے ہیں:
من قال بتعین الفاتحۃ وانہ لایجزی قراۃ غیرہا قددار مع ظاہرالاحادیث التی کادت تبلغ حدالتواتر مع تائید ذلک بعمل السلف والخلف۔
یعنی جن علماءنے سورۃ فاتحہ کو نماز میںمتعین کیاہے اورکہاکہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اورپڑھنا کفایت نہیں کرسکتا۔ اولاً توان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں۔ ثانیاً سلف وخلف ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام ) کا عمل بھی تعین فاتحہ درنماز کی تائید کرتاہے۔
مسک الختام شرح بلوغ المرام، جلد1، ص: 219 مطبع نظامی میں ہے۔ “ وایں حدیث راشواہد بسیاراست۔ ” یعنی قراۃ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔
تفسیر ابن کثیر، ص: 12 میں ہے: والاحادیث فی ہذا الباب کثیرۃ یعنی قراۃ فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں۔
ان ہی احادیث کثیرہ کی بناپر بہت سے محققین علمائے احناف بھی قراۃ خلف الامام کے قائل ہیں، جس کی تفصیل کے سلسلہ میں المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں:
امام ابو حنیفہ کے نزدیک فاتحہ خلف الامام مستحب ہے :
یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔

 
علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں:

لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔

خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔
لواب بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا بلکہ مستحسن ومستحب۔
اے ناظرین:
جس حدیث کو علامہ شعرانی نے ذکرکیاہے اورجس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے قول سے رجوع کرنا لکھاہے۔ اسی حدیث اوراس کے مثل اوراحادیث صحیحہ کو دیکھ کرخود مذہب حنفی کے بڑے ۔
ویستحسن علی سبیل الاحتیاط فی مایروی عن محمد یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا احتیاطاً مستحسن ہے۔
مولوی عبدالحی صاحب امام الکلام میں لکھتے ہیں: وہو وان کان ضعیفاً روایۃ لکنہ قوی درایۃ ومن المعلوم المصرح فی غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی وغیرہ انہ لایعدل عن الروایۃ اذا وافقتہا درایۃ یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ ” امام کے پیچھے الحمد پڑھنا مستحسن ہے “ اگرچہ روایتاً ضعیف ہے لیکن دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔ اور غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جب روایت دلیل کے موافق ہو تواس سے عدول نہیں کرناچاہئیے اورعلامہ شعرانی کے کلام سے اوپر معلوم ہوچکاہے کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نیز امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کابھی اخیرقول ہے۔ اور ان دونوں اماموں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیاہے۔
اورشیخ الاسلام نظام الملۃ والدین مولانا عبدالرحیم جوشیخ التسلیم کے لقب سے مشہور ہیں اوررئیس اہل تحقیق کے نام سے بھی آپ یادکئے گئے ہیں اورباتفاق علماءماوراءالنہر وخراسان مذہب حنفی کے ایک مجتہد ہیں۔ آپ باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک قدیم کو چھوڑکر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب کہتے ہیں اورخود بھی پڑھتے اور فرماتے تھے: لوکان فی فمی یوم القیامۃ جمرۃ احب الی من ان یقال لاصلوٰۃ لک یعنی اگرقیامت کے روز میرے منہ میں انگارا ہو تومیرے نزدیک یہ بہتر ہے اس سے کہ کہا جائے کہ تیری تونماز ہی نہیں ہوئی۔ ( امام الکلام، ص: 20 )
اے ناظرین!
یہ حدیث کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی نہایت صحیح ہے اوریہ حدیث جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کے منہ میں قیامت کے روز انگارا ہوگا موضوع اورجھوٹی ہے۔ شیخ التسلیم نے اپنے قول میں پہلی حدیث کے صحیح ہونے اوردوسری حدیث کے موضوع اورجھوٹی ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔
اورامام ابوحفص کبیر رحمۃ اللہ علیہ جومذہب حنفی کے ایک بہت بڑے مشہور فقیہ ہیں اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کبار میں سے ہیں۔ آپ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ بھی نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے اوران کے سوا اور بہت سے فقہاءنے بھی اسی مسلک کو اختیار کیاہے۔ جیسا کہ گزر چکاہے اورمشائخ حنفیہ اورجماعت صوفیہ کے نزدیک بھی یہی مسلک مختار ہے۔
ملاجیون نے تفسیراحمدی میں لکھاہے:
فان رایت الطائفۃ الصوفیۃ والمشائخین تراہم یستحسنون قراۃ الفاتحۃ للموتم کما استحسنہ محمد ایضا احتیاطاً فیماروی عنہ انتہیٰ یعنی اگرجماعت صوفیہ اورمشائخین حنفیہ کو دیکھوگے توتمھیں معلوم ہوگا کہ یہ لوگ امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن بتاتے تھے۔ جیساکہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ احتیاطاً استحسان کے قائل تھے۔
اورمولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دہلوی نے بھی باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اولیٰ الاقوال بتایاہے۔ دیکھو حجۃ اللہ البالغۃ اور جناب شاہ صاحب کے والدماجد مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب ” انفاس العارفین “ میں اپنے والد ماجد کے حال میں لکھتے ہیں کہ وہ ( یعنی مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) اکثرمسائل فروعیہ میں مذہب حنفی کے موافق تھے۔ لیکن کسی مسئلہ میں حدیث سے یاوجدان سے مذہب حنفی کے سوا کسی اورمذہب کی ترجیح اورقوت ظاہر ہوتی تو اس صورت میں حنفی مذہب کا مسئلہ چھوڑدیتے۔ ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھتے تھے اورنماز جنازہ میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔ ( غیث الغمام، ص: 174 )
اورمولانا شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی فرضیت کوترجیح دی ہے۔ چنانچہ آپ ایک استفتا کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے الحمد پڑھنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منع ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس وقت امام آہستہ پڑھے جائز ہے۔ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بغیر پڑھے الحمد کے نماز جائز نہیں۔ اورنزدیک اس فقیر کے بھی قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجیح رکھتاہے اور بہترہے کیونکہ اس حدیث کے لحاظ سے نہیں نماز ہوتی مگر سورۃ فاتحہ سے نماز کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اورقول امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی جابجا وارد ہے کہ جس جگہ حدیث صحیح وارد ہو اورمیرا قول اس کے خلاف پڑے تومیرے قول کو چھوڑدینا چاہئیے اورحدیث پر عمل کرناچاہئیے۔ انتہیٰ مترجماً بقدرالحاجۃ۔
اورمولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی نے اس مسئلہ میں خاص ایک رسالہ تصنیف کیاہے جس کا نام امام الکلام ہے اس رسالہ میں آپ نے باوجود حنفی ہونے کے یہ فیصلہ کیاہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ومستحب ہے اور نماز جہری میں بھی سکتات امام کے وقت۔ چنانچہ رسالہ مذکورہ ص: 156میں لکھتے ہیں: فاذن ظہرحق الظہور ان اقوی المسالک سلک علیہا اصحابنا ہومسلک استحسان القراۃ فی السریۃ کما ہو روایۃ عن محمد بن الحسن واختارہا جمع من فقہاءالزمن وارجورجاءموثقا ان محمدالما جوز القراۃ فی السریۃ واستحسنہا لابد ان یجوز القراۃ فی الجہریۃ فی السکتات عند وجدانہا لعدم الفرق بینہ و بینہ انتہیٰ مختصرا یعنی اب نہایت اچھی طرح ظاہرہوگیا کہ جن مسلکوں کو ہمارے فقہائے حنفیہ نے اختیارکیاہے، ان سب میں زیادہ قوی یہی مسلک ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ہے۔ جیسا کہ روایت ہے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے اوراسی مسلک کو فقہائے زمانہ کی ایک جماعت نے اختیار کیاہے اورمیں ( یعنی مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) امید واثق رکھتاہوں کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے جب نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن کہا ہے توضرور جہری میں بھی سکتات امام کے وقت مستحسن ہونے کے قائل ہوں گے۔ کیونکہ نماز جہری میں سکتات امام کی حالت میں اورنماز سری میں کچھ فرق نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف نے اپنا یہی فیصلہ سعایہ شرح وقایہ میں بھی لکھاہے۔
ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ لکھاہے کہ
نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہے، اورنماز جہری میں منع ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے ملاصاحب کے اس قول کورد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ میں لکھتے ہیں کہ ملاعلی قاری کا یہ قول ضعیف ہے، کیاملا علی قاری کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نماز جہری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کا جواز صراحتاً ثابت ہے۔
فتح القدیر وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے کہ
منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے اس کو بھی رد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ، ص: 304 میں لکھتے ہیں: وکذا ضعف ما فی فتح القدیر وغیرہ ان الاخذ بالمنع احوط فانہ لامنع ہہنا عند تدقیق النظر یعنی فتح القدیر وغیرہ میں جو یہ لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے، سویہ ضعیف ہے۔ کیونکہ دقیق نظر سے دیکھا جائے تویہاں منع کی کوئی روایت ہی نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف تعلیق الممجد، ص: 101 میں لکھتے ہیں: لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ مرفوعا فیہ اما لااصل لہ واما لا یصح انتہی۔ یعنی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی ممانعت کسی حدیث مرفوع صحیح میں وارد نہیں ہوئی اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جس قدر مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو ان کی کچھ اصل ہی نہیں ہے یاوہ صحیح نہیں ہیں۔
اے ناظرین!
دیکھو اورتو اورخودمذہب حنفی کے بڑے فقہاءوعلماءنے قرات فاتحہ خلف الامام کی حدیثوں کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک مشہور کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن ومستحب بتایاہے اورخود بھی پڑھاہے۔ بعض فقہاءنے ہرنماز میں سری ہو یا جہری اور بعض نے فقط سری میں۔ اوربقول علامہ شعرانی خودامام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان ہی حدیثوں کی وجہ سے اپنے پہلے قول سے رجوع کرکے نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب ومستحسن بتایاہے اور مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی حنفی نے اس مسئلہ میں جو کچھ فیصلہ کیااور لکھاہے۔ آپ لوگوں نے اس کو بھی سن لیا۔
مگربااین ہمہ ابھی تک بعض حنفیہ کا یہی خیال ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہرنماز میں سری ہو خواہ جہری ناجائز وحرام ہے۔ اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اسی مسلک مشہور کو ( جس کی کیفیت مذکورہوچکی ہے ) شاہ راہ سمجھ کر اسی پر چلے جاتے ہیں۔ خیراگر اسی مسلک کو شاہ راہ سمجھتے تھے اور اسی پر چپ چاپ چلے جاتے۔ لیکن حیرت تویہ ہے کہ ساتھ اس کے قرات فاتحہ خلف الامام کی ان حدیثوں کا بھی صاف انکار کیاجاتاہے ۔ جن کی وجہ سے اورتو اورخودمذہب حنفی کے ائمہ وفقہاءوعلماءنے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اختیار کرلیا۔ یااگر انکارنہیں کیاجاتاہے توان کی مہمل اورناجائز تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اورزیادہ حیرت تو ان علمائے حنفیہ سے ہے جوروایات موضوعہ وکاذبہ اورآثار مختلفہ وباطلہ کو اپنی تصنیفات میں درج کرکے اوربیان کرکے اپنے عوام اورجاہل لوگوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اوران کی زبان سے اورتواور خود اپنے ائمہ وفقہاءکی شان میں کلمات ناشائستہ اورالفاظ ناگفتہ بہ نکلواتے ہیں۔ کوئی جاہل بکتاہے کہ امام کے پیچھے جوالحمد پڑھے گا وہ گنہگار ہے۔ والعیاذ باللہ۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ( الکہف: 5 ) ۔
اگرچہ غور سے دیکھاجائے تو ان جاہلوں کا یہ قصورنمبردوم میں ہے اور نمبراول کا قصور انھیں علماءحنفیہ کا ہے، جو روایات کاذبہ و موضوعہ کو ذکرکرکے ان جاہلوں کو فتنے میں ڈالتے اوران کی زبان سے اپنے بزرگان دین کے منہ میں آگ وپتھر بھرواتے ہیں اورجو چاہتے ہیں ان سے کہلواتے ہیں۔ اگریہ روایات کاذبہ وموضوعہ کو بیان نہ کرتے یابیان کرتے مگران کا کذب وموضوع ہونا بھی صاف صاف ظاہر کرتے اورساتھ اس کے اس ضمن کو بھی واضح طور پر بیان کرتے جو اوپر ہم نے بیان کیا ہے توان جاہلوں کی زبان سے ایسے ناگفتہ بہ کلمات نہ نکلتے۔
آنچہ مے پرسی کہ خسرو را کہ کشت
غمزئہ تو چشم تو ابروئے تو
( تحقیق الکلام، حصہ اول، ص: 7 )
ہمارے محترم علمائے احناف کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جن کی تفصیلی حقیقت معلوم کرنے کے لیے محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری کی مشہور کتاب تحقیق الکلام کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں ہم اجمالی طور پر ان دلائل کی حقیقت حضرت مولاناعبدالحئی حنفی لکھنوی مرحوم کے لفظوں میں پیش کردینا چاہتے ہیں۔ موصوف علمائے احناف کے چوٹی کے عالم ہیں۔ مگراللہ پاک نے آپ کوجو بصیرت عطا فرمائی وہ قابل صدتعریف ہے۔ چنانچہ آپ نے مندرجہ ذیل بیان میں اس بحث کا بالکل خاتمہ کردیاہے۔ آپ فرماتے ہیں : لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ فیہ امالااصل لہ واما لایصح۔ ( تعلیق الممجد علی موطا امام مالک، ص: 101، طبع یوسفی )) یعنی امام کے پیچھے ( سورہ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے معارض ومخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں پائی جاتی۔
حنفیہ کے دلائل کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وبالجملۃ لایظہر لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام معارض یساویہا فی الدرجۃ ویدل علی المنع۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 ) یعنی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے درجہ کی کوئی معارض ومخالف حدیث نہیں ہے اورنہ ہی ( امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ) منع پر کوئی حدیث دلالت کرتی ہے۔
امید ہے کہ ناظرین کرام کے اطمینان خاطرکے لیے اسی قدرکافی ہوگا۔ اپنا مقصد صرف یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں سے حسد بغض رکھنا، ان کو غیرمقلد، لامذہب کہنا یہ کسی طرح بھی زیبانہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے فروعی مباحث میں وسعت قلبی سے کام لے کر باہمی اتفاق کے لیے کوشش کی جائے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔
وباللہ التوفیق۔ کی آج اشد ضرورت ہے۔
وباللہ التوفیق
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS