find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam Part 2

Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam Part 2

Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam 
Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam, Namaz Me Haiz Ke Msail, Hazz Me Periods Ka Byan, Rmzan Aur Periods

Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam

 بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
سوال  ⏪ 30 - 60
◆ نماز،روزہ اورحج سےمتعلق حیض کے 60 احکام
۔┄┅═════════════════┅┄
سوال (31) : ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ نماز کا وقت ہو جانے کے بعد عورت کو حیض آجائے تو اسکا کیا حکم ہے ؟اور کیا پاک ہونے کے بعد اس عورت پر اس نماز کی قضا واجب ہے.؟ اور اسی طرح اگر وہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پاک ہو جائے تو اسکا کیا حکم ہے؟
جواب: اولاً: نماز کا وقت ہوجانے کے بعد عورت کو حیض آجائے تو اگراس نے اب تک وہ نماز نہیں پڑھی تھی توپاک ہونے کے بعد اسے اس نماز کی قضا کرنی ہوگی جسکے وقت میں وہ حائضہ ہوئی تھی ,کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"جس نے نماز کی ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی "لہذا اگرعورت کو کسی نماز کی ایک رکعت کا بھی وقت مل جائے اور اس نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی وہ حائضہ ہو جائے تو پاک ہونے کے بعد اسے اس کی قضا کرنی ہوگی .
ثانیاً: نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگرعورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس پر نماز کی قضا واجب ہے , مثلاً: اگر طلوع آفتاب سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سےپاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر نماز فجرکی قضا واجب ہے ,اسی طرح اگروہ غروب آفتاب سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سے پاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر عصر کی قضا واجب ہے , اور اسی طرح اگر نصف رات مکمل ہونے سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سے پاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر نماز عشاء کی قضا واجب ہے , اوراگر نصف رات کے بعد پاک ہو تو اس پر عشاءکی نماز واجب نہیں , البتہ وقت ہوجانے پر فجرکی نماز پڑھنا واجب ھے ,
اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد ہے :
﴿فإذا اطمأننتم فأقيمو الصلاة إن الصلوة كانت على المؤمنين كتاباً مو قُوتا ﴾النساء: 103-
جب اطمینان پالو تو نماز قائم کرو ,یقیناً نماز مومنوں پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے -
یعنی نماز, متعین اوقات میں فرض ہے , اورانسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نماز کو اس کے متعینہ وقت سے نکال دے , یا وقت ہونے سے پہلے پڑھ لے .
سوال (32): (ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ ) مجھے نماز کے دوران ہی حیض آگیا ,میں کیا کروں ؟اورکیا مجھے ایام حیض کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا ہوگی ؟
جواب : نماز کا وقت ہو جانے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے, مثلاً زوال آفتاب کے آدھا گھنٹہ بعد اسے حیض آجائے , تو حیض سے پاک ہونے کے بعد اسے نماز کی قضا کرنی ہوگی جسکا وقت داخل ہوا اوروہ پاک تھی , کیونکہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
﴿إن الصلاة كانت على المؤمنين كتاباً موقوتا ﴾النساء 103-
يقينا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں میں فرض ہے-
اور عورت پر حیض کے ایام میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں ,کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"کیا ایسا نہیں کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تونہ نماز پڑھتی ہےاورنہ روزہ رکھتی ہے "
نیز اہل علم کا اس پراتفاق ہے کہ عورت حیض کے ایام میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں کرے گی ,لیکن اگروہ حیض سے اسوقت پاک ہو کہ ایک رکعت یا اس سے زیادہ کا وقت باقی تھا ,توجس نماز کے وقت میں پاک ہوئی تھی اس کی قضا کرنی ہوگی ,
کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"جس نے غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت پالی تواس نے عصرکی نماز(وقت)پرپالی "
لہذا اگرحائضہ عورت عصر کے وقت میں غروب آفتاب سے اتنا پہلے پاک ہوجائے کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے ,یا طلوع آفتاب سے اتنا پہلے پاک ہوجائے کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے , تو اسے پہلی صورت میں عصرکی نماز اوردوسری صورت میں فجر کی نماز پڑھنی ہو گی –
سوال (33): ایک صاحب دریافت کرتے ہیں کہ میری والدہ (65) پینسٹہ سا ل کی ہو چکی ہیں اورانیس (19) سال سے انہیں بچہ نہیں ہوا ہے , ادہرکوئی تین سال سے انہیں خون جاری رہنے کی شکایت ہے ,جو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی مرض ہے جو انہیں اسوقت لاحق ہو گیا ہے ,اورچونکہ ادہررمضان المبارک کا مہینہ قریب ہے اسلئے براہ مہربانی انہیں کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟ نیزازراہ کرم یہ واضح فرمائیں کہ اس طرح کی عورت کیا کرے؟
جواب:اس قسم کی عورت ,جسے خون جاری رہنے کی شکایت ہے, اسکا حکم یہ ہے کہ مذکورہ شکایت لاحق ہونے سے پہلے اس کے حیض کی جومعروف مدت تھی اتنے دنوں کے لئے نمازاورروزہ ترک کردے ,اگراسکی عادت یہ تھی کہ ہرماہ کےشروع میں مثلاً 6 دن اسے حیض آتا تھا تو وہ ہر ماہ کے شروع میں6 دن تک وہ نماز اورروزہ چھوڑدے ,اورجب 6 دن کی مدت پوری ہوجائے تو غسل کرکے نماز پڑھے اورروزہ رکھے ,اوراس قسم کی عورتوں کیلئے نماز پڑھنے کی صورت یہ ھےکہ وہ اپنی شرمگاہ کو خوب اچھی طرح دہوکراس پر پٹی باندہ لے اورپھر وضوکرے , یہ کام وہ فرض نماز کا وقت ہوجانے کے بعد کرے ,اسی طرح اگر فرض نمازوں کے علاوہ اوقات میں وہ نوافل پڑھنا چاہے تو بھی اسے ایسا ہی کرنا ہوگا –
مذکورہ حالت میں مشقت وپریشانی کے سبب ایسی عورت کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ ظہر کو عصر کے ساتھ اورمغرب کو عشاء کے ساتہ ملا کر پڑھے ,تاکہ اسکا (وضواورطہارت کا ) ایک ہی عمل دونمازوں کے لئے کا فی ہوجائے ,یعنی ایک طہارت ظہراورعصر کے لئے , ایک طہارت مغرب اور عشاء کیلئے اور ایک طہارت فجرکیلئے ,اسطرح پانچ مرتبہ طہارت حاصل کرنے کے بجائے صرف تین مرتبہ طہارت حاصل کرنا کافی ہوگا .
اس مسئلہ کی میں پھرسے وضاحت کرتا ہوں , مذکورہ عورت جب طہارت حاصل کرنا چاہے تو اپنی شرمگاہ کو دہولے اوراس پرکپڑا وغیرہ کی پٹی باندہ لے تاکہ نکلنے والا خون ہلکا ہوجائے ,اورپھر وضو کرکے نمازپڑھے , چاررکعت ظہر پڑھے ,چار رکعت عصر , تین رکعت مغرب , چاررکعت عشاء اوردورکعت فجر, یعنی ان نمازوں میں وہ قصر نہیں کرے گی جیسا کہ بعض لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں , البتہ اس کے لئے یہ جائز ہے کہ ظہر اورعصر ایک ساتہ پڑھ لے اورمغرب اور عشاء ایک ساتہ , یعنی ظہر کو عصر کے ساتہ ,یا عصرکو ظہر کے ساتہ ,اور اسی طرح مغرب کو عشاء کے ساتہ , یا عشاء کو مغرب کے ساتہ , چاہے جمع تاخیر کرے یا جمع تقدیم , اسی طرح اگر وہ اس وضو سے نوافل پڑھنا چاہے تو اس میں بھی کو ئی حرج نہیں ہے.
سوال (34): وعظ وخطبہ سننے کے لئے حائضہ عورت کا مسجد حرام کے اندرٹھرنا کیسا ہے ؟
جواب : حائضہ عورت کے لئے مسجد حرام یا اسکے علاوہ کسی بھی مسجد میں ٹھرنا جائز نہیں , البتہ مسجد سے گزرنا اور اس سے ضرورت کا کوئی سامان لینا جائز ہے, جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب مصلى طلب فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ مصلى مسجد میں ہے اور وہ حائضہ ہیں ,تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا حیض تمہارے ہاتہ میں نہیں (لگا ہوا ) ہے –لہذا اگر حائضہ کو یہ ڈر نہ ہو کہ مسجد میں خون ٹپک سکتا ہے تو اس کے لئے مسجد سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں , لیکن بیٹھنے کے ارادہ سے اسکا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں , اوراسکی دلیل یہ ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے لئے عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ کنواری ,پردہ نشین اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ لے جائیں , لیکن حائضہ عورتوں کو عید گاہ سے دوررہنےکا حکم دیا ہے , جو اس بات کی دلیل ہے کہ خطبہ سننےیا درس اور وعظ سننے کیلئے حائضہ عورت کا مسجد میں ٹھرنا جائز نہیں .
نماز کیلئے طہا رت کے بعض احکام
سوال (35):عورت (کی شرمگاہ) سے جو سفید یا زرد رطوبت خارج ہوتی ہے وہ پاک ہے یا ناپاک ؟ اور اگروہ مسلسل خارج ہو تو کیا اس میں وضو واجب ہے ؟اور اگررک رک کر خارج ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ خاص کر اکثر پڑھی لکھی عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ فطری رطوبت ہے جس سے وضو ضروری نہیں ہوتا ؟
جواب: بحث وتحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ عورت (کی شرمگاہ ) سے خارج ہونے والی رطوبت اگرمثانہ سے نہیں بلکہ رحم سے آرہی ہے تو وہ پاک ہے ,لیکن پاک ہونے کے باوجود وہ ناقض وضو ہے , کیونکہ ناقض وضوہونے کے لئےیہ شرط نہیں کہ خارج ہونے والی چیز ناپاک بھی ہو ,مثلاً ہوا دبر(پیخانہ کے راستہ ) سے خارج ہوتی ہے ,اورہوا کا کوئی جسم بھی نہیں ,اسکے باوجود ناقض وضو ہے , بنابریں اگر عورت وضو سے ہو اور اسکی شرمگاہ سے کوئی چیز خارج ہو جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا اور اسے وضو کی تجدید کرنی ہوگی .
یہ رطوبت اگر مسلسل خارج ہو تو وہ ناقض وضو نہیں ’ لیکن اس صورت میں عورت یوں کرے کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو نماز کے لئےوضو کرے اوراس وضو سے فرائض ونوافل پڑھے, قرآن کریم کی تلاوت کرے اور اس کیلئے جو کام مباح ہیں ان میں سے جو چاہے کرے , جیسا کہ اہل علم نے سلسل البول (مسلسل پیشاب کے قطرے ٹپکنےکی بیماری)کے مریض کے متعلق اسی قسم کی بات کہی ہے, یہ ھے رحم سے خارج ہونے والی رطوبت کا حکم , یہ رطوبت پاک ہے ,لیکن رک رک کر آنے کی صورت میں ناقض وضو ہے , اوراگرمسلسل جاری ہو توناقض وضو نہیں , لیکن اس صورت میں عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کا وقت ہوجانے کے بعد وضو کرے اور اپنی شرمگاہ پر لنگوٹی باندہ لے .
اور اگر یہ رطوبت رک رک کرآرہی ہو اور عادتاً نماز کے اوقات میں بند رہتی ہو, تو عورت کو چاہئے کہ جس وقت یہ رطوبت آنا بند ہوجاتی ہو اس وقت تک کیلئے نماز کو مؤخر کردے ,بشرطیکہ نماز کا وقت نکل جانے کا خطرہ نہ ہو ,اور اگر وقت کے نکل جانے کا خطرہ ہو تو وضو کرکےلنگوٹی باندہ لے اورپھر نماز پڑھ لے .
خارج ہونے والی رطوبت تھوڑی ہو یا زیادہ , اس میں کوئی فرق نہیں , کیونکہ شرمگاہ سے خارج ہونے والی ہرچیزناقض وضو ہے خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ,اس کے برخلاف جسم کے دیگر کسی حصہ سے خارج ہونے والی چیز مثلاً خون یا قے ناقض وضو نہیں , خواہ وہ تھوڑی ہو یازیادہ ہو .
رہا بعض عورتوں کا یہ خیال کہ مذکورہ رطوبت ایک فطری رطوبت ہے جوناقض وضو نہیں,تو میرے علم کے مطابق اس کی کوئی اصل نہیں , البتہ ابن حزم رحمہ اللہ کا ایک قو ل ہے کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا,لیکن انہوں نے اس قول کی کوئی دلیل نہیں ذکر کی ہے ,اگر کتاب وسنت یااقوال صحابہ سے اس قول کی کوئی دلیل ہوتی تو وہ یقیناً حجت ہوتی.
عورت کیلئےضروری ہے کہ وہ اللہ تعالى کا تقوى اختیار کرے اور پاکی وطہارت کی حریص رہے , کیونکہ طہارت کے بغیر خواہ سو مرتبہ نماز پڑھی جائے وہ نا قابل قبول ہے ,بلکہ بعض علماء نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ جو شخص طہارت کے بغیر نماز پڑھےوہ کافر ہے , کیونکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالى کی آیات کے ساتہ مذاق کرنا ہے .
سوال (36 ) :جس عورت (کی شرمگاہ) سے یہ رطوبت مسلسل خارج ہو رہی ہو اگر وہ کسی فرض نماز کیلئے وضو کرے ,تو کیا اس وضو سے دوسری فرض نماز کا وقت آنے تک نوافل پڑھ سکتی اور قرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے؟
جواب: مذکورہ عورت کسی فرض نماز کیلئے اگراول وقت میں وضو کرلے تو دوسری فرض نماز کا وقت آنے تک وہ اس وضو سےجس قدر فرائض ونوافل پڑھنا چاہے پڑھ سکتی اورقرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے .
سوال (37): کیا مذکورہ عورت کیلئے فجرکے وضو سے چاشت کی نماز پڑھنا درست ہے؟
جواب: ایسا کرنا درست نہیں , کیونکہ چاشت کی نماز کا ایک متعین وقت ہے , اس لئے وقت ہو جانے کے بعد اس کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ,
کیونکہ مذکورہ عورت مستحاضہ کےحکم میں ہے ,اور مستحاضہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرنماز کیلئے وضو کرنے کا حکم دیا ہے .اورظہرکا وقت زوال آفتاب کےبعد سے عصر کا وقت آنے تک ہے ,اورعصر کا وقت , عصرکےداخل ہوجانے کے بعد سے سورج میں زردی آنے تک اور بوقت ضرورت غروب آفتاب تک ہے , اور مغرب کا وقت ,غروب آفتاب کے بعد سے شفق احمر (آسمان کی سرخ روشنی ) کے ختم ہونے تک ہے , اورعشاء کا وقت شفق احمر کے ختم ہونے کے بعد سے آدھی رات تک ہے .
سوال (38): کیا مذکورہ عورت کیلئے عشاء کے وضو سے آدھی رات گزرجانے کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا درست ہے ؟
جواب : نہیں پڑھ سکتی , ایک قول کے مطا بق آ دھی رات گزرجانے کےبعد اس عورت پرتجدید وضو واجب ہے , اور ایک قول یہ ہے کہ تجدید وضو واجب نہیں ( اس لئے پڑھ سکتی ہےٍ ) اور یہی دوسرا قو ل ہی راجح ہے.
سوال (39): عشاء کی نماز کا آخری وقت اوراسکےجاننے کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب :عشاء کا آخری وقت نصف رات ہے , اور اس کے جاننے کا طریقہ یہ ھے کہ غروب آفتاب اور طلوع فجر کے درمیان کا جو وقت ہے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے ,نصف اول کے ختم ہو نے کے ساتہ ہی عشاء کی نماز کا وقت ختم ہو جائے گا ,اور نصف آخر عشاء کا وقت نہیں ہے بلکہ عشاء اور فجر کے درمیان ایک حاجز وقت شمار ہے.
سوال (40): جس عورت کو مذکورہ رطوبت رک رک کرآرہی ہو تو اگر وہ وضو کرلے اوروضوسے فارغ ہونے کے بعد اور نمازپڑھنے سے پہلے پھر رطوبت آجائے تو کیا کرے؟
جواب: اگریہ رطوبت رک رک کرآرہی ہے تو وہ انتظار کرے تاوقتیکہ رطوبت آنا بند ہوجائے ’لیکن اگر کوئی واضح صورت حال نہیں ہے , کبھی رطوبت آتی ہے اور کبھی بند ہو جاتی ہے ,تو نماز کا وقت ہو جانے کےبعد وہ وضو کرکے نماز پڑھ لے ,اس صورت میں اس پر کوئی حرج نہیں ہے .
سوال (41): مذکورہ رطوبت جسم یا کپڑے میں لگ جائے تو اسکا کیا حکم ھے؟
جواب : یہ رطوبت پاک ہے تو ایسی صورت میں اسے کچہ نہیں کرنا ہے ,لیکن اگر ناپاک ہے, یعنی مثانہ سے آ رہی ہے , تو اس کا دہونا ضروری ہے.
سوال (42): مذکورہ رطوبت سے وضو کرنے کی صورت میں کیا صرف اعضائے وضو کے دھونے پر اکتفا کیا جائے گا ؟
جواب : ہاں ,اگر رطوبت پاک ہے ,یعنی مثانہ سے نہیں بلکہ رحم سے آرہا ہے ,تو صرف اعضائے وضو کے دہونے پر اکتفا کیا جائے گا .
سوال (43): اسکی کیا وجہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حدیث مروی نہیں جو مذکورہ رطوبت سے وضو کے ٹوٹنے پر دلالت کرتی ہو ,حا لانکہ صحابیات –رضی اللہ عنہن – دینی امورمیں فتوى دریافت کرنے کی بہت حریص تھیں؟
جواب:اسکی وجہ یہ ہےکہ یہ رطوبت ہر عورت کو نہیں آتی .
سوال ( 44):جو عورت مذکورہ مسئلہ میں شرعی حکم سے نا واقفیت کی بنا پروضو نہیں کرتی تھی اسے کیا کرنا چا ہئے ؟
جواب :اس پرواجب ہے کہ اللہ تعالى سے توبہ کرے اور اہل علم سے مسئلہ دریافت کرتی رہے .
سوال (45): بعض لوگ آپ کی طرف یہ قول منسوب کرتے ہیں کہ مذکورہ رطوبت سے وضو واجب نہیں ؟
جواب: جو شخص میری طرف یہ قول منسوب کرتا ہے وہ سچّا نہیں , اور بظاہر اس نے میرے اس قول سے کہ " مذکورہ رطوبت پاک ہے " یہ سمجھ لیا کہ وہ ناقض وضو بھی نہیں ہٍے .
سوال (46):عورت کو حیض سے کم وبیش ایک دن پہلے جو مٹ میلا پانی آتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟ یہ پانی کبھی کبھی باریک دہاگے کی شکل میں کالے یا سرخ سیاہی مائل رنگ کا ہو تا ہے , اوراگر یہ پانی حیض کے بعد آئے تو اسکا کیا حکم ہے ؟
جواب : یہ پانی اگرحیض کی ابتدائی علامات میں سے ہے تو وہ حیض شمار ہوگا ,اوریہ اس کی پہچان اس تکلیف اور مروڑ سے ہوگی جو حائضہ عورتوں کو عموماً پیش آتی ہے . حیض کے بعد مٹ میلا پانی آنے کی صورت میں عورت کو پاکی کا انتظار کر نا ہو گا , کیونکہ حیض سے متصل آنے والا مٹ میلا پانی بھی حیض ہی ہے ,عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں:" تم جلدي نه كرو ,يہا ں تک کہ سفیدی دیکھ لو " واللہ أعلم .
حج اور عمرہ سے متعلق حیض کے احکام
سوال (47): حائضہ عورت احرام کی دورکعت نماز کیسے پڑھے ؟ اورکیاحائضہ کیلئے آہستہ آہستہ قرآن کریم کی آیتوں کی تلاوت کرنا جائز ہے ؟
جواب: اولاً :سب سے پہلے ہم کو یہ جاننا چاہئے کہ احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے قول یا عمل یا تقریر کے ذریعہ اپنی امت کے لئے احرام کی کوئی نماز مشروع فرما ئی ہو-
ثانیاً: جو عورت احرام باند ھنے سے پہلے حائضہ ہو جائے وہ بحالت حیض احرام باندھ سکتی ہے , کیونکہ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء رضی اللہ عنہا مقام ذوالحلیفہ میں نفاس سے دو چار ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ غسل کریں اور اپنی شرمگاہ پرکپڑا لپیٹ لیں اوراحرام باندہ لیں , اور اسی طرح حائضہ کا بھی حکم ہے ,اور وہ اپنے احرام پر باقی رہیں ,یہاں تک کہ پا ک ہوجائیں , پھر بیت اللہ کا طواف اور (صفا ومروہ)کی سعی کریں .
رہا یہ سوال کہ کیا حائضہ قرآن کریم پڑھ سکتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ضرورت اورکسی مصلحت کے تحت وہ قرآن پڑھ سکتی ہی ,لیکن ضرورت یا کسی مصلحت کےبغیر ,محض عبادت اورتقرب الہی کی نیت سے قرآن کا نہ پڑھنا ہی بہتر ہے .
سوال (48) : ایک عورت نے حج کے لئے سفر کیا ,اور سفر کے پانچویں دن اسے حیض آگیا ,میقات پر پہنچ کر اسنے غسل کیا اور احرام باندھ لیا ,حالانکہ ابھی وہ حیض سے پاک نہیں ہوئی تھی ,مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد وہ حرم شریف سے باہر ہی رہی ,اورحج یا عمرہ کا کوئی بھی کام اس نے نہیں کیا , دو دن اس نے منی میں بھی گزارے ,پھر وہ حیض سے پاک ہو ئی ,غسل کیا اوربحالت طہر عمرہ کے سارے ارکان ادا کئے , پھر جبکہ وہ حج کے لئے طواف افاضہ کررہی تھی اسی دوران اسے دربارہ خون آگیا , مگر شرم کی وجہ سے اس نے اپنےٍ سرپرست کو نہیں بتایا , اور اسی حالت میں حج کے مناسک پورے کرلئے , پھر وطن پہنچنے کے بعد اس نے اپنے سرپرست کو اسکی اطلاع دی , اب اسکا کیا حکم ہے ؟
جواب : مذکورہ مسئلہ کا حکم یہ ہے کہ اس عورت کو طواف افاضہ کے دوران جو خون آیا اگروہ حیض کا خون تھا , جسے وہ خون کی کیفیت اورتکلیف سے جان سکتی ہے ,تو اسکا طواف افاضہ درست نہیں , اور اس پر لازم ہے کہ طواف افاضہ کےلئے وہ دوبارہ مکہ مکرمہ جائے اورمیقات سے عمرہ کا احرام باندہ کرطواف اور سعی کے ساتہ عمرہ ادا کرے اورقصر کرائے ,اوراسکے بعد طواف افاضہ کرے.
لیکن اگر طواف افاضہ کے دوران آنے والا خون حیض کا معروف فطری خون نہیں تھا , بلکہ بھیڑ کی شدت یا خوف یا اورکسی وجہ سے آگیا تھا , تو اسکا طواف افاضہ ان لوگوں کے مسلک کے مطابق درست ہے جن کےنزدیک طواف کے لئے طہارت شرط نہیں .پہلی صورت میں اگر اس کے لئے دوبارہ مکہ مکرمہ آنا ممکن نہ ہو , مثلاً دوردراز ملک کی باشندہ ہو ,تو اس صورت میں اسکا حج صحیح ہے ,کیونکہ اس نے جو کیا اس سے زیادہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا.
سوال (49): ایک عورت نے عمرہ کا احرام باندھا اور مکہ مکرمہ پہنچ کر اس کو حیض آگیا , اور اسکا محرم فوراً سفر کرنے پر مجبور ہے اور اس عورت کا مکہ میں کوئی قریبی بھی نہیں ہے , ایسی حالت میں وہ کیا کرے ؟
جواب : مذکورہ عورت اگر سعودی عرب میں ہے تو وہ اپنے محرم کے ساتھ واپس چلی جائے اوراحرام کی حالت میں باقی رہے , پھر پاک ہوجانے کے بعد دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آئے , کیونکہ اس کے لئے دوبارہ مکہ مکرمہ آنا آسان ہے , اس میں اس کے لئے کوئی مشقت نہیں , اورنہ ہی پاسپورٹ وغیرہ کی ضرورت ہے – لیکن اگر وہ عورت کسی دوسرے ملک سے آئی ہے اور سفر کرنے کے بعد دوبارہ واپس آنا مشکل ہے تو وہ لنگوٹی باندہ لے اورطواف وسعی کرکے اورقصر کراکر اسی سفر میں اپنا عمرہ پورا کرلے , کیونکہ ایسی حالت میں اس کا طواف ایک ناگزیر ضرورت کا حکم اختیار کر چکا ہے , اور ضرورت کے تحت بعض ممنوع چیزیں بھی مباح ہو جاتی ہیں .
سوال (50): جو عورت ایام حج میںحائضہ ہو جائے اسکا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ حج اس کے لئے کفایت کر جائیگا؟
جواب :جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ وہ عورت کب حائضہ ہوئی , اس سوال کا جواب دینا نا ممکن ہے ,کیونکہ حج کے بعض اعمال ایسے ہیں کہ حیض ان کی ادائیگی کے لئے مانع نہیں , اور بعض اعمال ایسے ہیں جو حالت حیض میں نہیں کئے جا سکتے , چنانچہ طواف طہارت کے بغیر ممکن نہیں , لیکن اس کے علاوہ دیگر اعمال حج , حالت حیض میں بھی ادا کئے جا سکتے ہیں.
سوال (51) : ایک خاتون کہتی ہیں کہ میں نے سال گزشتہ حج کیا اورحج کے تمام اعمال ادا کئے , البتہ شرعی عذر کی بنا پر طواف افاضہ اور طواف وداع نہیں کرسکی , اسکے بعد یہ سوچ کر اپنے گھر مدینہ منورہ واپس آگئی کہ کسی بھی دن مکہ مکرمہ آکر طواف افاضہ اورطواف وداع کرلوں گی , دینی امور سے ناواقفیت کی وجہ سے میں ہر چیز سے حلال بھی ہوگئی , اور دوران احرام جتنی چیزیں حرام ہوتی ہیں وہ سب کر لیں , پھر میں نے مکہ مکرمہ لوٹ کر آنے اورطواف کرنے کے بارے میں دریافت کیا , تو مجھےیہ بتایا گیا کہ تمہارا طواف کرنا درست نہیں , کیونکہ تم نے اپنا حج خراب کرلیا ہے , اب آئندہ سال تمہیں دوبارہ حج کرنا ہوگا , ساتہ ہی ایک گائے یا اونٹنی بھی فدیہ میں ذبح کرنی ہوگی ,سوال یہ ہےکہ کیا یہ بات صحیح ہے ؟اور کیا میرے معاملہ کا کوئی دوسرا حل بھی ہے ؟ اور کیا واقعی میرا حج خراب ہو گیا اور مجھ پر دوبارہ حج کرنا واجب ہے ؟ اب مجھے کیا کرنا ہوگا مستفید فرمائیں , اللہ تعالى آپ کو برکت سے نوازے.
جواب : یہ بھی ایک مصیبت ہےکہ بغیر علم کے لوگ فتوى دے دیتےہیں, مذکورہ صورت میں آپ پر یہ واجب ہے کہ مکہ مکرمہ جائیں اور صرف طواف افاضہ کریں , مکہ سے نکلتے وقت چونکہ آپ حیض سے تھیں اس لئے آپ پر طواف ودا ع واجب نہیں تھا ,کیونکہ حائضہ پر طواف وداع نہیں ہے ,جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ھے :"
لوگو ں کو یہ حکم دیا گیا ہےکہ بیت اللہ کا طواف ان کا آخری کام ہو البتہ حائضہ سے اس کی تخفیف کر دی گئی ہے "
اورابو داؤد کی ایک روایت میں ہے :" بيت الله ميں لوگوں کا آخری کام طواف ہو "
نیز جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع ملی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کرچکی ہیں (اس کے بعد انہیں حیض آیا ہے ) تو فرمایا "پھرتو کوچ کریں "
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حائضہ پر طواف وداع نہیں ہے , لیکن طواف افاضہ بہرحال ضروری ہے .
جہاں تک آپ کے ہر چیز سے حلال ہو جانے کی بات ہے ,تو چونکہ یہ تحلل اول ناواقفیت اور لاعلمی کی بنا پر ہوا ہے اس لئے یہ آپ کے لئے نقصان دہ نہیں , کیونکہ جو شخص لا علمی میں حالت احرام میں ممنوع کسی چیزکا ارتکاب کرلے اس پر کچہ نہیں ہے , اسکی دلیل اللہ تعالى کا ارشاد ہے :﴿ربنا لا تؤاخذناإن نسينا أو أخطأنا ﴾ البقرة: 286 –
"اے ہمارے رب !اگر ہم بھول گئے یا غلطی کر بیٹھے تو ہمارا مواخذہ نہ کر "
اور بندہ کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالى نے فرمایا :" میں نے تمہاری دعا قبول کرلی" .نیز اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به ولكن ما تعمّدت قلوبكم ﴾ الأحزاب :5-
"اور جس چیز میں چوک جاؤ یا غلطی سے کربیٹھو اس میں تم پر گناہ نہیں , لیکن وہ جس کا تم دل سے ارادہ کرو".
لہذا وہ تمام محظورات جن سے اللہ تعالى نے محرم کو منع فرمایا ہے , اگر ناواقفیت کی بنا پر یا بھول کر یا کسی کے مجبور کرنے پر وہ ان کا ارتکاب کر لے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے , لیکن جیسے ہی عذر ختم ہو جائے باز آجانا واجب ہے .
سوال (52): نغاس والی عورت کو اگر ترویہ( 8/ذی الحجہ) کے دن نفاس کا خون شروع ہوا اور اس نے طواف اور سعی کے علاوہ دیگر ارکان حج مکمل کرلئے ,لیکن دس ہی دن کے بعد اس نے محسوس کیا کہ وہ ابتدائی طور پرپاک ہو چکی ہے , تو کیا وہ اپنے آپ کو پاک سمجھ کر غسل کرے اور باقی رکن یعنی طواف افاضہ ادا کرے ؟
جواب : مذکورہ عورت کے لئے اس وقت تک غسل کرکے طواف کرنا جائز نہیں جب تک کہ اسے پاکی کا بالکل یقین نہ ہو جائے , سوال کے انداز سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ اس نے ابھی مکمل طور پرطہر (پاکی) نہیں دیکھی ہٍے , جیسا کہ لفظ ابتدائی سے معلوم ہورہا ہے , لہذا ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر پاکی دیکہ لے , اس کے بعد غسل کرکے طواف اور سعی کرے , اور اگر طواف سے پہلے سعی کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں , کیونکہ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےدریافت کیا گیا کہ جس نے طواف سےپہلے سعی کرلی اسکا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا: كوئي حرج نہیں .
سوال (53): ایک عورت نے حیض کی حالت میں مقام سیل سے حج کا احرام باندہا , لیکن مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد وہ کسی ضرورت سے جدہ گئی اور جدہ ہی میں حیض سے پاک ہوگئی ,غسل کیا ,بالوں کی کنگھی کی اور پھر اپنا حج پورا کرلیا ,تو کیا اسکا حج صحیح ہے ؟ اور کیا اس کے ذمہ کچہ ہے ؟
جواب : مذکورہ عورت کا حج درست ہے اور اس کے ذمہ کچہ نہیں ہے .
سوال (54): ايك خاتون سوال كرتي هيں کہ میں عمرہ کرنے جارہی تھی , میقات سے گزری تو میں حیض سے تھی اس لئے احرام نہیں باندھا , پاک ہونے تک مکہ مکرمہ میں ٹہری رہی ,پھر مکہ ہی سے احرام باندہ لیا ,تو کیا یہ جائز ہے ؟ اور مجھ پر کیا واجب ہے؟
جواب : مذكوره عمل جائز نہیں ,جو عورت عمرہ کا ارادہ رکھتی ہواسکے لئے احرام کے بغیر میقات سے آگے جانا جائز نہیں اگر چہ وہ حیض سے ہو , حیض ہی کی حالت میں وہ احرام باندھ لے, اوراس کا یہ احرام درست ہے,اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے ارادے سے جب مقام ذوالحلیفہ میں تھے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس –رضی اللہ عنہا –کو بچہ پیدا ہوا, حضرت اسماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرایا کہ ایسی حالت میں وہ کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا :"غسل کرکے (شرمگاہ پر) کپڑا باندھ لو اور پھر احرام باندھ لو"
حیض کا خون بھی نفاس کے خون کے حکم میں ہے , لہذا حائضہ عورت کےلئے ہم یہی کہیں گے کہ جب وہ حج یا عمرہ کی نیت سے میقات سے گزرے تو غسل کرکے شرمگاہ پر کپڑا باندہ لے اور پھر حج یا عمرہ کا احرام باندہے,البتہ جب احرام باندہ کر وہ مکہ مکرمہ پہنچے تو جب تک پاک نہ ہوجائے نہ تو مسجد حرام میں داخل ہو اور نہ ہی بیت اللہ کا طواف کرے , کیونکہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو عمرہ کے دوران ہی حیض آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا :
"حجاج جو کام کریں تم بھی کرو , البتہ پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہ کرنا "
یہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی روایت ہے , اورصحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب وہ پاک ہوگئیں تو انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کی .
ان روايات سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت حالت حیض میں حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے,یا طواف کرنے سے پہلے اسے حیض آجائے , تو جب تک پاک ہو کر غسل نہ کرلے اس وقت تک طواف اور سعی نہ کرے –
لیکن اگر اس نے بحالت طہر طواف کیا اوراس کے بعد اسے حیض آیا تو وہ اسی حالت میں اپنا عمرہ جاری رکھے گی , چنانچہ سعی کرے گی اور بال کٹائے گی اور اس طرح وہ اپنا عمرہ پورا کرے گی , کیونکہ صفا ومروہ کی سعی کے لئے طہارت شرط نہیں .
سوال (55): ایک صاحب دریافت کرتے ہیں کہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ینبع شہر سے عمرہ کے لئے آیا , جدہ پہنچا تو میری اہلیہ کو حیض آگیا, چنانچہ میں نے اکیلے ہی عمرہ کرلیا , اب میری اہلیہ کے لئے کیا حکم ہے ؟
جواب :ایسی صور ت میں آپ کی اہلیہ کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ پاک ہونے تک ٹہری رہے ,اور پھر اپنا عمرہ پورا کرے , کیونکہ جب ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو حیض آگیا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" كيا يه هم كو سفر سے روک دیں گی "؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !یہ طواف افاضہ کرچکی ھیں ,تو آپ نٍے فرمایا :" پھر تو کو چ کریں "
اس حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا :"کیا یہ ہم کو سفر سے روک دیں گی " اس بات پر دلا لت کرتا ہےکہ عورت کو اگر طواف افاضہ سے پہلے حیض آ جائے تو اس پر واجب ہے کہ پا ک ہونے تک ٹھری رہے , اس کے بعد طواف افاضہ کرے . اور طواف عمرہ بھی طواف افاضہ ہی کے حکم میں ہے ,کیونکہ وہ عمرہ کا رکن ہے,لہذا عمرہ کرنے والی عورت اگر طواف عمرہ سے پہلے حائضہ ہو جائے تو پاک ہونے تک رکی رہے اور اس کے بعد طواف کرے .
سوال (56): كيا مسعى ,حرم كا حصہ ہے ؟ اورکیا حائضہ عورت مسعى میں داخل ہو سکتی ہے ؟ اور کیا مسعی سے حرم میں داخل ہونے والے کے لئے تحیۃ المسجد پڑھنا واجب ہے ؟
جواب : ظاہر یہی ہے کہ مسعى , مسجد حرام کا حصہ نہیں ہے , یہی وجہ ہے کہ اس کے اور مسجد حرام کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار قائم کردی گئی ہے ,اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مسعى کے مسجد حرام سے باہر ہونے ہی میں لوگوں کی بھلائی ہے , کیونکہ اگر اسے حرم کا حصہ قراردے دیا جاتا ہے تو طواف اور سعی کے درمیان حائضہ ہونے والی عورت کے لئے سعی کرنا منع ہوتا , اس سلسلہ میں میر ا فتوى یہ ہے کہ اگر عورت طواف کے بعد اور سعی سے پہلے حائضہ ہوجائے تو وہ سعی کرلے , کیونکہ مسعى مسجد حرام سے الگ ہے .
جہاں تک تحیۃ المسجد کی بات ہے , تو اگر کسی نے طواف کے بعد سعی کی اور اس کے بعد مسجد حرام میں واپس جانا چاہے تو اسے تحیۃ المسجد پڑھنا ہوگی , اور اگر نہ بھی پڑھے تو کوئی حرج نہیں , لیکن افضل یہی ہے کہ موقع کو غنیمت جانے اور اس جگہ نماز پڑہنے کی جو فضیلت ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے دو رکعت (تحیۃ المسجد) پڑھ لے .
سوال (57): ایک خاتو ن کہتی ہیں کہ میں نے حج کیا اور دوران حج مجھے حیض آگیا ,شرم کی وجہ سے میں نے کسی کو نہیں بتایا , میں حرم میں بھی داخل ہوئی ,نماز پڑھی , طواف کیا اور سعی بھی کی , تو اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟ واضح رہے کہ یہ حیض ,نفاس کے بعدد آیا تھا .
جواب : حائضہ اورنفاس والی عورت کے لئے نماز پڑھنا جائز نہیں ,خواہ وہ مکہ مکرمہ میں ہو یا اپنے وطن میں ہو یا کہیں اور ہو , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے بارے میں فرمایا : "کیا ایسا نہیں کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے "
اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ حائضہ عورت کے لئے نماز پڑھنا اورروزہ رکھنا جائزنہیں , لہذا مذکورہ عورت کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالى سے توبہ کرے اور اس سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے اس پر استغفار کرے –
جہاں تک حالت حیض میں طواف کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ طواف درست نہیں ,البتہ سعی درست ہے , کیونکہ راجح قول کے مطابق حج میں طواف سے پہلے سعی کر لینا جائز ہے , لہذا اس پر دو بارہ طواف کرنا واجب ہے , کیونکہ طواف افاضہ حج کا ایک رکن ہے ,اور اس کے بغیر تحلل تام حاصل نہیں ہوتا , اس لئے وہ عورت اگر شادی شدہ ہے تو طواف کرلینے تک اسکا شوہر اس سے صحبت نہیں کرسکتا , اور اگر شادی شدہ نہیں ہے تو طواف کرلینے تک اسکا نکاح کرنا درست نہیں ,واللہ اعلم .
سوال (58): عورت کو عرفہ کے دن حیض آجائے تو وہ کیا کرے؟
جواب : عورت کو عرفہ کے دن حیض آجائے تو دیگر حجاج کی طرح وہ بھی حج کے اعمال انجام دے اور اپنا حج پورا کرلے , البتہ بیت اللہ کا طواف پاک ہونے تک مؤخر رکھے.
سوال ( 59): اگر عورت جمرہ عقبہ کی رمی کرنے کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے حائضہ ہوجائے , اوروہ اور اس کا شوہر کسی قافلہ (جماعت) کے ساتہ مرتبط بھی ہوں , تو اسے کیا کرنا چاہئے ؟ واضح رہے کہ سفر کر جانے کے بعد اس کے لئے دوبارہ مکہ مکرمہ آنا ممکن نہیں .
جواب : مذكوره عورت كے لئے اگر دوبارہ مکہ مکرمہ آنا ممکن نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ من باب الضرورہ اپنی شرمگاہ پر پٹی باندہ کر طواف کرلے , اور دیگر اعمال حج بھی پورے کرے , ایسی حالت میں اس پر کوئی فدیہ وغیرہ واجب نہیں .
سوال (60): نفاس والی عورت اگر چالیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو کیا اس کا حج درست ہے ؟اور اگر طہر نہ دیکھے تو کیا کرے ؟ واضح رہے کہ وہ حج کی نیت کرچکی ہے .
جواب:نفاس والی عورت اگر چا لیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو وہ غسل کرکے نماز پڑھے اوروہ سارے کام کرے جوپاک عورتیں کرتی ہیں , یہاں تک کہ وہ بیت اللہ کا طواف بھی کرے , کیونکہ نفاس کی اقل مدت کی کوئی حد نہیں .
مذکورہ عورت اگر طہر نہ دیکھے تو بھی اس کی حج درست ہے ,البتہ پاک ہونے تک وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرے , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے منع فرمایا ہے ,اوراس سلسلہ میں نفاس والی عورت بھی حائضہ ہی کے حکم میں ہے
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
تاليف : فضيلت مآب شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله
اردو ترجمة : ابو المكرم عبد الجليل رحمه الله
نظرثا ني : شفيق الرحمن ضياء الله
طباعت واشاعت : دفترتعاون برائےدعوت وارشاد سلطانہ-ریاض
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS