Roze Me Haiz O Nafaas Ke Aham Tareen Masail
Roze Me Haiz O Nafaas Ke Aham Tareen Masail
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Roze Me Haiz O Nafaas Ke Aham Tareen Masail |
◆ حیض و نفاس اور روزہ :
جب عورت کو روزہ کی حالت میں ماہواری شروع ہوجائے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، اگرچہ غروب شمس سے چندلمحہ قبل ہی ماہواری کاخون آنا شروع ہوجائے ، اگراس کا روزہ واجب ہوتواس پر قضاء واجب ہوگي ، حالت حیض میں عورت کا روزہ جاری رکھنا حرام ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حائضہ اورنفاس والی عورت کے روزہ کی حرمت میں امت کا اجماع ہے ، لھذا اس بنا پر اس کا روزہ صحیح نہیں ۔۔۔۔ امت کا اس پربھی اجماع ہے کہ اسے اس روزہ کی قضاء میں روزہ رکھنا ہوگا ، امام ترمذی ، ابن مندر ، اورابن جریر اورہماے اصحاب وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے ۔ باختصار
دیکھیں المجموع للنووی ( 2 / 386 )
اور ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اہل علم کا اجماع ہے کہ حائضہ اورنفاس والی عورت کا روزہ رکھنا حلال نہیں ، بلکہ وہ رمضان کے روزے نہیں رکھیں گي بلکہ وہ بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراگر وہ روزہ رکھ بھی لیں تو ان کا روزہ صحیح نہیں ہوگا ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہمیں حیض آتا توہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم روزے قضاء کریں اورنماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ) متفق علیہ ۔
اس میں حکم تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے ، ابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( کیا تم میں سے جب کسی ایک حیض آتا ہے وہ نہ تو نماز ادا کرتی ہے اورنہ ہی روزہ رکھتی ہے ، یہ اس کے دین میں کمی ہے ) صحیح بخاری ۔
حائضہ اورنفاس والی عورت برابر ہے کیونکہ نفاس کا خون ہی حیض کا خون ہے اوراس کا حکم بھی وہی ہے ، جب دن کے کسی بھی حصہ میں حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجائےگا ، چاہے دن کی ابتداء میں حیض آئے یا پھر شام کے وقت ، اورحائضہ عورت نے جب حالت حیض میں روزہ رکھنے کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود روزہ کی نیت کی اورکچھ نہ کھایا پیا تووہ گنہگار ہوگی ، اوراس کا یہ روزہ رکھنا کافی نہیں ہوگا ۔ اھـ
شیخ ابن عثیمین اللہ تعالی کا کہنا ہے :
روزہ کی حالت میں حیض آنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ، چاہے غروب شمس سے ایک لمحہ قبل ہی کیوں نہ آئے ، اگر توفرضی روزہ ہوتواس دن کی قضاء واجب ہوگي ۔
لیکن اگر اس نے مغرب سے قبل حیض کے خون کے انتقال کومحسوس کیا اورخون آنا شروع نہیں ہوا بلکہ مغرب کے بعد خون آنا شروع ہوا تواس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اورصحیح قول یہی ہے کہ باطل نہيں ہوگا ۔ ا ھـ
دیکھیں : الدماء الطبیعیۃ للنساء صفحہ نمبر ( 28 ) ۔
مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے مندرجہ ذیل سوال کیاگيا :
ایک عورت نے روزہ رکھا لیکن غروب شمس اور اذان سے کچھ دیر قبل حیض آنا شروع ہوجائے تو کیا اس کا روزہ باطل ہوجائے گا ؟
کمیٹی کا جواب تھا :
اگرتو حیض مغرب سے قبل آئے توروزہ باطل ہوگا اوراس کی قضاء کرے گي لیکن اگر مغرب سے بعد حیض آنے کی صورت میں اس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اس پر کوئي قضاء نہيں ۔ ا ھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 155 ) ۔
◆ نفاس والی عورت کے کئی احوال ہیں:
1۔ اس کا خون چالیس دن پورے ہونے سے پہلے ہی رک جائے اور پھر دوبارہ نہ آئے، تو ایسی عورت خون رک جانے پر غسل کرے اور نماز روزہ شروع کر دے۔
2۔ اس کا خون چالیس دن پورے ہونے سے پہلے ہی رک جائے مگر چالیس دن پورے ہونے پر پھر دوبارہ شروع ہو جائے تو اس صورت میں جب خون رک جائے تو غسل کرے اور نماز روزہ ادا کرے اور جب دوبارہ شروع ہو تو بھی یہ نفاس ہی کا خون ہے لہذا نماز روزے سے رک جائے اور ان دنوں کے پورے ہونے کے بعد روزوں کی قضا دے، نماز کی نہیں۔
3۔ چالیس دن پورے ہونے تک خون جاری رہے تو اس ساری مدت میں یہ ناز روزے سے توقف کرے، اور خون رکنے پر غسل کرے اور نماز روزے میں مشغول ہو۔
4۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ خون چالیس دن سے زیادہ تک جاری رہے تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
☜ 1۔ یہ مزید دن اس کے حیض کی تاریخوں میں آ جائیں ۔۔
☜ 2۔ یا یہ زائد دن حیض کی تاریخوں کے علاوہ ہوں۔
اگر یہ زائد دن حیض کی تاریخوں کے ہوں تو اسے حیض کے دن پورے ہونے تک رکنا ہو گا۔ اگر یہ زائد دن حیض کی تاریخوں کے نہیں ہیں تو اسے غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دینا چاہئے۔ اس کے بعد اگر تین بار ایسا ہو تو یہ اس کی عادت سمجھی جائے گی اور پھر اس کے مطابق کرنا ہو گا، اور ان دنوں میں اگر اس نے روزے رکھے ہوں تو ان کی قضا دینی ہو گی، نماز کی قضا کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ اضافہ دن پھر دوبارہ نہ ہوں تو اسے استحاضہ سمجھا جائے گا۔
(محمد بن ابراہیم آل الشیخ)
احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا /صفحہ نمبر 216
◆ نفاس والی عورت پر حائضہ کی طرح روزہ رکھنا یا نماز ادا کرنا یا بیت اللہ کا حج کرنا حرام ہے لیکن اس پر حائضہ کی طرح ہی نفاس میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا واجب ہے۔
(فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان )
دیکھیے : عورتوں کےلیے صرف/صفحہ نمبر 191
◆ جب نفاس والی عورت پاک ہو جائے اور طہارت کی علامت یعنی پانی کی سفیدی یا مکمل صفائی کو دیکھ لے تو وہ نماز روزہ شروع کر دے خواہ وہ ولادت کے ایک دن یا ایک ہفتہ بعد ہی پاک ہو جائے کیونکہ نفاس کم از کم کوئی حد نہیں ہے بلکہ بعض عورتوں کو تو ولادت کے بعد بالکل خون نہیں آتا لہذا اس سلسلہ میں چالیس دن کی کوئی شرط نہیں ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ / جلد 2
◆ حائضہ عورت کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے اور نہ اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے ایام میں روزے رکھے بلکہ جوں ہی ایام شروع ہوں، اسے روزے چھوڑ دینے چاہئیں اور پھر رمضان کے بعد اتنے دنوں کے روزے رکھنے چاہئیں جتنے دن وہ حیض کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکی۔
فتاویٰ اسلامیہ / جلد 2
◆ رمضان سے ایک ہفتہ پہلے میرے ہاں بچے کی ولادت ہو اور میں چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جاؤن تو کیا رمضان کے ان باقی دنوں کے روزے رکھنا مجھ پر واجب ہے؟
جواب ⤵
ہاں جب نفاس والی عورت پاک ہو جائے اور طہارت کی علامت یعنی پانی کی سفیدی یا مکمل صفائی کو دیکھ لے تو وہ نماز روزہ شروع کر دے خواہ وہ ولادت کے ایک دن یا ایک ہفتہ بعد ہی پاک ہو جائے کیونکہ نفاس کم از کم کوئی حد نہیں ہے بلکہ بعض عورتوں کو تو ولادت کے بعد بالکل خون نہیں آتا لہذا اس سلسلہ میں چالیس دن کی کوئی شرط نہیں ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد : 2
◆ اگرنفاس والی عورت چالیس دنوں سے پہلے پاک ہوجائے توکیا وہ روزہ ،نماز اورحج اداکرسکتی ہے؟
جواب ⤵
ہاں نفاس والی عورت اگرچالیس دنوں سے پہلے پاک ہوجائے تو وہ روزہ ،نماز، حج اورعمرہ اداکرسکتی ہےاوراس کے شوہر کے لئے اس سے مباشرت کرنا بھی جائز ہے مثلا اگر وہ بیس دنوں کے بعد پاک ہوجائے تو وہ غسل کرکے نماز،روزہ اداکرسکتی ہے اوراپنے شوہر کے لئے بھی حلال ہوگی اورجوعثمان بن ابی العاص سے مروی ہے کہ انہوں نے اسے مکروہ سمجھا ہے تویہ کراہت تنزیہہ پر محمول ہوگی اوریہ ان کا اجتہاد ہے لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔صحیح بات یہی ہے کہ اگر وہ چالیس دنوں سے پہلے پاک ہوجائے تو اس میں کوئی حر ج نہیں،اس کی طہارت صحیح ہوگی اوراگر وہ چالیس دنوں کے اندر دوبارہ خون آجائے تو صحیح قول کے مطابق یہ نفاس کا خون شمارہوگا اورحالت طہارت میں اداکیا ہوا روزہ ،نماز اورحج صحیح ہوگا اورحالت طہارت میں اداکی ہوئی کسی عبادت کو دہرانے کی ضرورت نہ ہوگی۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد :1/صفحہ:323
◆ روزہ دا ر خاتون کو عصر کے بعد ما ہو ار ی آگئی اب وہ اپنے روزے کو مکمل کر ے یا ترک کر دے ؟
جواب ⤵
خو ن حیض یا نفاس ایسا خو ن ہے جو روزے کو ختم کر دیتا ہے اس خو ن کے آجا نے سے روزہ خو د بخو د ختم ہو جا تا لہذا جس روزہ دار خاتون کو عصر کے بعد یا مغرب سے چند منٹ پہلے حیض آگیا اس روزہ ٹوٹ گیا اسے چا ہیے کہ مخصوص ایا م میں رہ جا نے والے روزوں کی رمضا ن کے بعد قضا دے ان ایا م میں رہ جا نے والی نمازوں کی قضا نہیں ان ایا م میں جو روزے رہ گئے ہو ں آیندہ رمضا ن سے پہلے پہلے انہیں رکھ لینا چا ہیے دانستہ دیر کر نا شر عاً نا پسندیدہ عمل ہے نیز اگر طلوع فجر سے پہلے خو ن حیض کی بندش کا یقین ہو گیا تو اس دن کا روزہ رکھنا چاہیے اس حا لت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے اگر چہ غسل نہ کیا ہو غسل وغیرہ روزہ رکھنے کے بعد نماز سے پہلے کر لینا چا ہیے روزہ کے لیے خو ن کا بندہ ہو نا ضروری ہے غسل کر نا روزے کے لیے شرط نہیں ہے
فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:1 /صفحہ:211
◆ روزے رکھنے کے لیے مانع ادویا ت حیض کا استعما ل شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟
جواب ⤵
خو ن حیض ایک فا سد ما دہ ہے جسے روکنا اچھا نہیں ہے اگر کسی عورت کا صرف ارادہ ہو کہ میں رمضا ن میں ہی اپنے روزے مکمل کر لوں تا کہ میر ے ذمے ان کا قرض با قی نہ رہے تو یہ کو ئی مستحسن اقدام نہیں ہے اس کے علا وہ اطبا کی رپو رٹ ہے کہ ما نع حیض ادویا ت کا استعما ل عورت کے رحم اعصاب اور نظا م خو ن کے لیے انتہا ئی نقصان دہ ہے ان کے استعما ل سے مہینے کی عا دت بھی بگڑ جا تی ہے اور جسم نحیف اور کمزور پڑ جا تا ہے لہذا ہما را مشو رہ یہ ہے کہ عورتوں کو ان کے استعما ل سے اجتناب کر نا چا ہیے اگر چہ ان کے استعما ل کے بعد روزے رکھے جا ئیں گے ان کا فرض تو بہر حا ل ادا ہو جا ئے گا البتہ علما نے ایسی ادویا ت کے استعما ل کو چند شرا ئط کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔
(1)ان کے استعمال سے نقصا ن کا اندیشہ نہ ہو اگر نقصان کا خطرہ ہے تو پرہیز کیا جا ئے ارشاد با ر ی تعا لیٰ ہے کہ "اپنے آپ کو ہلا کت میں مت ڈا لو ۔2/(البقرۃ:195)
نیز فر ما یا :"کہ اپنے آپ کو ہلا ک نہ کرو یقیناً اللہ تعا لیٰ تم پر بہت مہر با ن ہے ۔(4/النسا ء :29)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر غیر ضروری چیز کے استعما ل سے منع فر ما یا حدیث میں ہے کہ نقصا ن اٹھا نا اور نقصان پہنچا نا دو نو ں کسی صورت میں جا ئز نہیں ہیں ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :1/313)
(2)خا وند سے اجا زت لی جا ئے اگر خا وند مو جو د ہو کیو نکہ بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ عورت عدت کے ایا م میں ہو تی ہے وہ ما نع حیض ادویات کے استعما ل سے ایام عدت کو طویل کر نا چاہتی ہے تا کہ دیر تک اس سے نان و نفقہ وصول کیا جا ئے ایسے حا لا ت میں اس سے اجازت لینا ضروری ہے اسی طرح اگر ثا بت ہو جا ئے کہ ایسی ادویا ت کے استعمال سے حمل مین رکا وٹ ہو سکتی ہے ایسی حا لت میں بھی عورت خا وند سے اجازت لینا ضروری ہے ایسی ادویا ت کا استعما ل اگر چہ جا ئز ہے تا ہم بہتر ہے کہ فطرت سے چھیڑ چھا ڑ نہ کی جا ئے البتہ اگر کو ئی مجبو ری ہو تو الگ با ت ہے ہما رے نز دیک رمضا ن میں اپنے روزے مکمل کر نے کی نیت سے ایسی ادویا ت استعما ل کر نا کو ئی معقو ل عذر نہیں ہے (واللہ اعلم)
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:1 /صفحہ:214
◆ ایک عورت جو ایام حیض میں تھی پاک ہو گئی اور صبح کو روزہ رکھ لیا مگر غسل طلوع فجر کے بعد کیا اور پھر نماز پڑھی اور اس دن کا روزہ پورا کر لیا، کیا اسے اس دن کے روزے کی قضا دینی ہو گی؟
جواب ⤵
اگر کوئی حائضہ عورت طلوع فجر سے پہلے پاک ہو گئی ہو، خواہ ایک منٹ پہلے ہی پاک ہو، اور اسے یقین ہو کہ وہ اب پاک ہو گئی ہے، اور رمضان کے دن ہوں، تو اسے واجب ہے کہ روزہ رکھے، اور اس کا اس دن کا روزہ بالکل صحیح ہو گا، اور اس دن کی کوئی قضا اس کے ذمے نہیں ہے، کیونکہ اس نے بحالت طہارت روزہ رکھا ہے، غسل خواہ طلوع فجر کے بعد کرے، اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے کہ اگر کوئی مرد فجر کے وقت میں جنبی ہو، مباشرت سے یا احتلام وغیرہ سے، تو اس کو چاہئے کہ سحری کھائے اور روزہ رکھے، غسل خواہ طلوع فجر کے بعد کرے، اس کا روزہ بالکل صحیح ہو گا۔
اس مناسبت سے میں ایک اور مسئلہ سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ کئی عورتیں سمجھتی ہیں کہ اگر انہیں افطار کے بعد عشاء سے پہلے حیض آ جائے، تو ان کا اس دن کا روزہ باطل ہو جاتا ہے، اس بات کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اگر حیض غروب آفتاب کے بعد آئے، خواہ ایک منٹ بعد ہی آ جائے تو اس دن کا روزہ بالکل درست اور صحیح ہو گا۔ (محمد بن صالح عثیمین)
دیکھیے : احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا/صفحہ:380
◆ فجر یا ظہر کے بعد ماہواری سے پاک ہوجائے، تو کيا کھانے پینے سے رکے رہنا ضروری ہے؟
جواب ⤵
جب عورت روزے کے وقت کے داخل ہونے کے بعد اپنے حیض سے پاک ہوجائے - خواہ دن کا پہلا وقت ہو یا درمیانہ یا آخری- تو اس پر واجب ہے کہ وہ دن کے باقی حصہ میں کھانے پینے سے رک جائے؛ الله تعالى كا فرمان ہے :" فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ " ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﻛﻮ ﭘﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﻛﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ آيت ۔ ايسا وہ روزہ دار کے حق میں روزہ کے اوقات کی حرمت کی خاطر کرے گی، کیونکہ مانع کے زائل ہونے کی وجہ سے اب وہ بھی روزہ داروں کے ساتھ شامل ہوگئي ہے، اور اس پر واجب ہے کہ اس دن کا روزہ قضاء کرے، کیونکہ اس نے مکمل دن روزہ نہیں رکھا، دن کے ايک حصہ کا روزہ کُل کے لئے کافی نہیں ہوسکتا، اور اس بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
" وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ "
ﺗﻢ ﻛﮭﺎﺗﮯ ﭘﯿﺘﮯ ﺭﮨﻮ ﯾﮩﺎﮞتک ﻛﮧ ﺻﺒﺢ ﰷ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﺳﯿﺎﮦ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ۔ ﭘﮭﺮ ﺭﺍﺕ ﺗﻚ ﺭﻭﺯﮮ ﻛﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﻛﺮﻭ
علاوہ ازیں اس پر واجب ہے کہ وہ غسل کرکے فرض نماز ادا کرے ۔
◆ لاعلمی کی وجہ سے ماضی میں حیض و نفاس کے روزوں کی قضا نہیں دی ۔ اور اب کئی وجوہات کی بناء پر روزے نہیں رکھ سکتی :
☜ پہلی وجہ : نہیں معلوم کہ وہ کتنے دن تھے [ جن کی قضاء نہیں کی ہے ]
☜ دوسری وجہ : عمر اور جسمانی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی ہے ۔
جواب : ⤵
پہلی بات:
حیض و نفاس کی حالت میں جتنے روزے چھوٹے ہیں، ان تمام دنوں کی قضاء کرنا آپ پر واجب ہے، اسلئے کہ حالتِ حیض و نفاس میں روزہ رکھنا درست نہیں ہے۔
دوسری بات :
آپ نے جتنے دنوں کا روزہ ترک کيا ہے، ان دنوں کی گنتی اپنے گمان ہی سے سہی جاننے کی کوشش ضرور کریں۔
تيسری بات :
آپ پر لگاتار قضاء کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ آپ اپنی طاقت کے مطابق جب چاہیں روزہ رکھ لیں۔
چوتهی بات :
آپ نے جتنے دن حالتِ حیض یا نفاس کے وجہ سے روزہ چھوڑا ہے، ان میں سے ہر دن کے بدلے آپ کسی محتاج کو کھانا کھلائیں، اسلئے کہ آپ نے ان روزوں کی قضاء میں تاخیر کردی ہے، اور یہ کھانا اگر ایک ہی مرتبہ میں دیا جائے، چاہے ایک ہی فقیر کو دیا گیا ہو، تو بھی کافی ہے۔
پانچويں بات:
اگر آپ خود محتاج ہوں، اور کھانا کھلانے کی استطاعت نہيں ہے تو آپ پر کوئی اور چیز نہیں ہے۔ اور آپ کا روزوں کی قضاء کرلینا کافی ہے۔
چھٹی بات :
اگر آپ اپنی پیرانہ سالی یا کسی دائمی مرض کی وجہ سے قضاء نہ کرسکتی ہوں، البتہ آپ کھانا کھلا سکتی ہوں، تو اپنے علاقے کی عام غذاء سے ہر دن کے بدلے آدھا صاع کھلانا کافی ہے، اور اس آدھے صاع کی مقدار علاقے کی عام غذاء سے کھجور یا چاول یا اس کے علاوہ کسی اور چیز سے ڈيڑھـ کیلو ہے ۔ اور اگر آپ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے سے بھی عاجز ہوں، تو آپ سے قضاء معاف ہوجائیگی؛
اسلئے کہ الله عز وجل کا فرمان ہے :
" فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ "
ﭘﺲ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻚ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﻮﺳﻜﮯ ﺍﹴ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨﻮ ۔
نیز الله سبحانه و تعالى كا فرمان ہے :
"لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا"
ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﺴﯽ ﺟﺎﻥ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ تکلیف ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
◆ لا علمی اور جہالت کے باعث بلوغت سے لیکر حيض بند ہونے کی عمر تک حیض کی وجہ سے چھوڑے ہوئے رمضان کے روزوں کی قضاء نہیں کی ہے، اور اب حيض کے بند ہوجانے کی عمر ميں ہے۔ چونکہ سالوں گذر چکے ہیں، اسلئے نہیں معلوم ہے کہ کتنے دنوں کی قضاء ہے؟ عورت کو کیا کرنا چاہئے؟
جواب ⤵
اس مذکورہ عورت پر یہ واجب ہے کہ بالغ ہونے سے لیکر سن ياس تک جتنے رمضان کے روزے اس سے چھوٹے ہیں، وہ اس کی قضاء کرے، اور اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ سالوں میں چھوٹے ہوئے رمضان کے روزوں کی تعداد جاننے کی حتی الامکان کوشش کرے، اور اس کی قضاء کرے، نیز ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے، اسلئے کہ اس نے قضاء کرنے تاخیر کی ہے، اور کھانے کی مقدار اپنےعلاقے کی عام غذاء سے آدھا صاع ہے، جو لگ بھگ دیڑھ کیلو کا ہوتا ہے، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ وہ کھانا کھلانے کی قدرت رکھتی ہو، اور اگر یہ عورت غریب ہے، تو اس کیلئے صرف روزوں کی قضاء کرلینا کافی ہے، اور ان روزوں کو لگاتار یا الگ الگ دنوں ميں قضاء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
◆ رمضان کے پہلے دن حيض سے طہارت کا غسل کیا،اور غسل سے پہلے روزہ رکھہ چکی تھی۔ تو کیا اس کے حق میں اس دن کا روزہ درست ہوگا ؟
جواب ⤵
عورت پر یہ واجب ہے کہ جب خون مکمل طور پر بند ہوجائے، تو اس وقت غسل کرے، اس طور پر کہ وہ مکمل پاکی دیکھ لے، اور جب تک خون آتا رہے، چاہے کم ہی کیوں نہ، تو اس عورت کو حیض والی ہی کہا جائیگا، بشرطیکہ یہ خون حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت 15 دن کے اندر ہی آرہا ہو، اسلئے کہ ام المؤمنين حضرت عائشہ رضي الله عنها کا قول ہے کہ تم جلدی نہ کرو یہاں تک کہ تم قصۂ بيضاء يعنی اچھی طرح سفیدی دیکھ لو، اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ اور جس عورت سے خون بند ہوگیا ہو، اور اس نے غسل کرنے سے پہلے روزہ رکھ لیا ہو، تو اس کا یہ روزہ درست ہے، اسلئے کہ روزے کی درستگی کیلئے پاکی شرط نہیں ہے، اور اسلئے کہ حضوراکرم صلى الله عليه وسلم حالتِ جنابت میں روزہ رکھ لیا کرتے تھے، اور پھر اس کے بعد آپ غسل فرماتے تھے۔
◆ روزے سے چند منٹ پہلے حیض آنا
ایک عورت نے روزہ رکھا ہوا ہے اور صرف دن غروب ہونے میں دس منٹ باقی ہیں یا اس سے بھی اس کو حیض آجاتا ہے ۔ کیا وہ اس وقت اپنا روزہ افطار کردے یا دس منٹ انتظار کرکے بعد کھولے اور یہ روزہ اس عورت کا شمار ہوگا یاکہ نہیں؟نیز ایام حیض کے قضاء شدہ روزے کی قضائی کیا عید کے بعد متصل دے یا سال بھر کے اندر اندر جب چاہے رکھ سکتی ہے؟
اس کا روزہ ٹوٹ چکا ہے باقی اب کھانے پینے میں اس کو اختیار ہے۔ جس طرح چاہے کرے جب روزہ ٹوٹ چکا ہے تو قضا ضروری ہے۔ یہاں منٹوں کا کوئی حساب نہیں۔ حیض روزے کی ضد ہے۔ دونوں جمع نہیں ہوسکتے حضرت عائشہؓ ماہ شعبان میں قضائی دیا کرتی تھیں۔ (مشکوٰۃ وغیرہ)
اس سے معلوم ہوا کہ دیر سے بھی قضائی دے سکتی ہے او رجتنی جلدی دی جائے بہتر ہے کیونکہ خطرہ ہے موت آجائے اور روزے ذمہ رہ جائیں۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/حج کے مسائل
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
فتاوی کتب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
- Kya Napaki Ki Halat Me Sehri Kha Sakte Hai?
- Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat
- Ramzan ke Mahine Me Shaitan Ko Kaid Kar Liya Jata Hai.
- Taraweeh Ki Namaj 8 ya 20 rakaat Sunnat HAi?
- Ramzan Ke Mahine Me Kya Aurat Haiz ko rokne ke liye Dawa Le Sakti hai?
- Iftar ke Waqt Padhi Jane wali Dua.
- Kiske Nam Se Mannat Mangna Chahiye?
Ramzan Ka Mahina Kaisa Mahina Hai? - ramzan Ke mahine me Jhoot nahi bolne walo ko khush khabri.
- Quran Padhne Walo Ki Azmat
- Roza Farz Hone Ke Sharayet, Kis Par Ramzan Ke Roze Farz Hain
- Rozedar Ke Liye Jayez Kaam
- Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga
- Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail~ Iftar Ki Dua, Iftar Ka Sahih Waqt
- Musaafir Ke Roze Ke Ahkaam Aur Masail
- Roza Ke Fazail Wa Masail,Ramzan Ka Chaand Aur Dua
- Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat
- Kya Bhook Lagne Par Roza Tod Sakte Hain, Kya Roza Ke Badle Miskeen Ko Khana Khila Sakte Hain
- Roza Jaldi Kholne Ka Azab, Roza Na Rakhne Ka Azab
No comments:
Post a Comment