Jadoo KI sharai haisiyat
جادو کی شرعئی حیثیت :جادو کرنا کروانا کفر ہے ۔ یہ اثر رکھتا ہے , اسکے ذریعہ میاں بیوی کے مابین جدائی پیدا کی جاسکتی ہے , کسی انسان کو بیمار کیا جاسکتا ہے اور بھی کچھ مقاصد اسکے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جادو برحق ہے تو اسکا یہی معنى ہوتا ہے کہ جادو اپنا اثر رکھتا ہے , نہ کہ جادو کرنا کروانا یا سیکھنا سکھانا ہم جائز قرار دیتے ہیں , ہم اس علم کو کفر ہی کہتے ہیں مقصود صرف اس کے اثر کا یقین رکھنا ہوتا ہے ۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جادو کے اثر کا انکار کرتے ہیں اور کچھ تو اس سے بھی چار ہاتھ آگے جادو کے وجود کا ہی انکار کر دیتے ہیں کہ جادو نام کی کوئی چیز نہیں صرف شعبدہ بازی ہے ۔ حالانکہ ان نادانوں کو جادو اور شعبدہ بازی کا فرق سمجھ نہیں آیا ہے ۔ اور پھر اپنی اس فہم کوتاہ کی تقلید میں وہ جادو سے متعلق قرآنی آیات کی تأویل اور احادیث کا انکار کر دیتے ہیں ۔ اس درس میں یہی مسئلہ واضح کیا گیا ہے کہ جادو میں اثر کا ہونا قرآن وسنت صحیحہ سے ثابت ہے ۔ اور اسکا انکار کتاب وسنت کا انکار ہے۔
نبى کرىم ﷺ نے فرماىا:
العین حق۔ نظر بد برحق ہے۔
[صحیح بخاری کتاب الطب باب العین حق (5740)]
برحق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حق ہوگیا ۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ برحق کہہ دیا تو اوہو یہ تو جائز ہوگیا۔ یہ جائز نہیں ہوا۔ برحق کہنے کا معنى یہ ہے کہ اس کے اندر اثر ہوتا ہے۔ نظر بد کے نتیجے میں جس آدمى کو نظر لگى ہے اس پر اثر ہوجاتا ہے۔ جادوگر کے جادو کے نتیجے میں جس آدمى پر جادو کیا گیا ہے اس پر اثر ہوجاتا ہے ، یہ معنى ہے برحق ہونے کا۔ یہ نہیں کہ جادو کرنا جائز ہوگیا۔ جادو کرنا کفر ہے۔ جادوکروانا بھى کفر ہے۔ جادو سیکھنا بھى کفر ہے ، جادو سکھانا بھى کفر ہے۔ نظر بد سے بھى نبى کرىم ﷺ نے منع کىا ہے۔ فرمایا: جو چیز اچھى لگے تو ماشاء اللہ کہو۔
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں جابجا جادو کی حقیقت کو کھول کھول کر بیان فرمایا۔ اور قرآن مجید فرقان حمید کے مطالعہ سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ جادو ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے جادوگر کسی قدر انسانوں کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور جادوگر کا یہ نفع یا نقصان پہنچانا اللہ تعالیٰ کے اذن کے ساتھ مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت، اللہ تعالیٰ کا اذن اور اجازت ہوگی تو جادوگر جادو کے ذریعے نقصان پہنچا سکے گا۔ جیسا کہ ماتحت الاسباب بھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اذن او ر اجازت کے بغیر کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
نبی کریم ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ
[ جامع الترمذي أبواب صفة القيامة والرقائق والورع حـ 2516]
اے معاذ! اگر امت ساری کی ساری تجھے نفع پہنچانے کےلیے جمع ہوجائے تو جو اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں لکھا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نفع یہ تجھے نہیں پہنچا سکتے۔ اور اگر یہ سارے کے سارے اکھٹے ہوجائیں کہ تجھے نقصان پہنچادیں تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تیرےمقدر میں لکھ دیا ہے۔
قرآن کی اس آیت پر غور کرتے ہیں :
وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ
[البقرة : 102]
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
"وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ "
لوگ سلیمان علیہ السلام کی باتوں کو چھوڑ کر ان کی باتوں کے پیچھے چل پڑے جو سلیمان علیہ السلام کی دورحکومت میں پڑھی جاتی تھیں۔جو جادو سیکھا سکھایا جاتا تھایہ اس جادو کے پیچھے لگ گئے۔
" وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ "
سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا ۔جادو سیکھنا، جادو سکھانا، جادو کرنا، جادوکرانا کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کو کفر قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں لوگ آج کے دور میں، ہمارے اس دور میں بھی یہ عقیدہ اور نظریہ رکھتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام جادو گروں کے بڑے ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں ہے فرمایا:
"وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ"
سلیمان علیہ السلام نے ایسا کوئی کفر نہیں کیا۔
"وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ "
لیکن شیطانوں نے کفر کیا۔وہ کفر کیا تھا؟
" يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ"
لوگوں کو جادو سکھا تے تھے۔ پھر لوگوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جادو نازل کیا ہے۔ جادو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اللہ نے اس کی بھی نفی فرمادی ۔ الہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ"
بابل شہر میں ہاروت اور ماروت پر کچھ بھی نازل نہیں کیا گیا۔ شیاطین کفر کرتے تھے، سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا۔یہ شیاطین لوگوں کو جادو سکھا تے تھے۔اور
"وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ "
ان دونوں ملکین ، دونوں فرشتوں، ہاروت اور ماروت کو جادو آتا تھا۔ شیاطین سے انہوں نے جادو سیکھا۔لوگ ان فرشتوں سے جادو سیکھنے لگ گئے۔ اور لوگ جاتے جادو سیکھنے کےلیے تو وہ کہتے:
"إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ "
ہم تو مبتلائے آزمائش ہوچکے ہیں ،
" فَلاَ تَكْفُرْ"
تو کفر نہ کر۔لیکن اس سب کے باوجود، تنبیہ ، نصیحت اور وعید کے باوجود۔
" فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ"
وہ ان دونوں سے کچھ ایسا کلام اور ایسا جادو سیکھتے کہ جس کے ذریعے وہ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کردیتے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
" وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ"
ان کو پتہ تھا کہ جو بھی یہ جادو سیکھے گا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ یعنی آخرت میں اس کےلیے نقصان ہی نقصان، عذاب ہی عذاب ہے۔ اور وہ ان سے ایسا کچھ سیکھتے کہ :
" مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ"
جو ان کو نقصان دیتا تھا ، نفع نہیں پہنچاتا تھا۔
" وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ [البقرة : 102]"
کاش کہ وہ ہوش کے ناخن لیتے ، وہ سمجھ لیتے ، جان لیتےکہ جس چیز کے بدلے وہ بیچ رہے ہیں اپنی زندگی کو ، اور اپنی آخرت کو داؤ پر لگا رہے ہیں وہ چیز بہت بری ہے۔
اس آیت سے ایک تو یہ پتہ چلا کہ جادو کوئی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لفظ "سحر"بولا ہے۔ جادو کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ کہ جادو کا وجود ہے۔ لفظ "سحر" کا معنی، لفظ جادو کا معنی مختلف لوگ مختلف کرتے ہیں لیکن بہرحال نفس جادو کو، نفس سحر کو ، جادو کے وجود کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات بینات کا کفر لازم آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ سحر سیکھتے اور سکھاتے تھے اور جادو تھی کیا چیز؟ آج کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جادو شعبدہ بازی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی وضاحت کردی کہ جادو ایسی چیز تھی کہ
"مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ"
جس کے ذریعے وہ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کردیتے تھے۔ جادو کچھ ایسی چیز ہے کہ جس کی بنا پر آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی کا دماغ خراب ہوجاتا ہے وہ بیوی کو طلاق دے بیٹھتا ہے۔ یابیوی خاوند سے لڑنا شروع کردیتی ہے۔ ان کے حالات بگڑ جاتے ہیں۔ جادو کچھ ایسی چیز ہے۔
" مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ"
جس کے ذریعے وہ لوگ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی اور تفریق ڈال دیتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ کے اس بیان اور وضاحت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ جادو شعبدہ بازی نہیں ۔ میاں بیوی اکھٹے مل کر جائیں دونوں شعبدہ دیکھنے کےلیے، تو پھر کیا شعبدہ دیکھ کر وہ آپس میں لڑنے لگیں گے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ جادو کوئی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے دلوں میں اختلاف پید ا ہوجاتا ہے۔ دماغ خراب ہوجاتا ہے۔ یہ جادو کی حقیقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیان فرمادی ہے۔
نبی کریم ﷺ کے تخیلات پر بھی جادو کا اثر ہوا۔ وہ سمجھتے کہ میں یہ کام کرچکا ہوں حالانکہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا ۔ نبی کے تخیلات پر جادو کا اثر ہوجانا قرآن سے ثابت ہے۔
فرعو ن کے جادوگروں نے اپنی رسیاں پھینکیں
فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى [طه : 66]
ان کی رسیاں اور ان کی چھوٹی چھوٹی لاٹھیاں جو جادوگروں نے پھینکی تھیں
"يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ"
موسیٰ علیہ السلام کو ان کے جادو کی وجہ سے یہ تخیل ہونے لگا
"أَنَّهَا تَسْعَى"
کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔سعی کہتے ہیں تیزی کے ساتھ چلنے کو۔ وہ تیزی کے ساتھ آگے کو بڑھتی ہوئیں، چلتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔ تو معلوم ہوا کہ نبی کے تخیلات پر جادو اثر کرجاتا ہے۔
جادو کے وجود کے متعلق علما کے اقوال :
ابو بکر جصاصؓ فرماتے ہیں :
’’النفقات سے مراد وہ جادوگرنیاں ہیں جو پھونکیں مارتی ہیں۔‘‘
{ احکام القرآن: 5؍378 }
امام بغوی فرماتے ہیں:
’’النفقات‘ سے مراد جادوگرنیاں ہیں جو بغیر تھوک کے نتکارتی طور پر پھونکیں مارتی ہیں۔‘‘
{ شرح السنہ: 12؍ 185 }
امام بخاری فرماتے ہیں:
’’النفقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو جادو کرتی ہیں۔‘‘
{ بخاری مع الفتح: 10؍ 221 }
مام بغوی فرماتے ہیں:
’’جب فلق الناس نازل ہوئی اور جب آپ نے پڑھی تو جادو گرہ کھل گئی اور اب ہشاش بشاش کھڑے ہو گئے۔‘‘
{ شرح السنہ: 7؍322 }
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’آپ ﷺ جادو کے مرض میں 8 ماہ رہے۔‘‘
{ فتح الباری: 10؍237 }
حافظ ابن حجر نے قرطبی کا قول نقل کیا ہے کہ حق اور سچ بات یہ ہے کہ جادو کی بعض صورتیں دل پر اثر انداز ہوتی ہیں جیسے دو لوگوں کے درمیان محبت ونفرت کا عمل جسمانی بیماریاں نفع ونقصان وغیرہ۔‘‘
{ فتح الباری: 10؍223 }
امام نووی فرماتے ہیں:
’’صحیح بات یہ ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے (جس کا انکار ممکن نہیں) اس پر جمہور اور عام اہل علم کا اتفاق ہے۔‘‘
{ فتح الباری: 10؍ 222 }
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
جادوئی عمل ایک ایسی حقیقت ہے جو مسحور شخص کے جسم، دل اورعقل پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘‘
{ المغنی: 10؍104 }
امام شوکانی فرماتے ہیں:
’’جادو آپس میں محبت وبغض، اتفاق واختلاف اور قربت ودوری پیدا کرنے میں ایک تاثیر رکھتا ہے۔‘‘
{ زبدۃ التفسیر: ص 10 }
عبد الرحمن بن ناصر فرماتے ہیں:
’’سورۃ فلق اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جادو ایک ایسی حقیقت ہے جس کے نقصان سے ڈرا جائے اور اس سے بچنے کےلیے اس کی پناہ لی جائے۔‘‘
{ تیسیر الکریم القرآن: 5؍473 }
شیخ ابن باز سے مسحور شخص کو پیش آنےوالی مختلف صورتوں کے متعلق پوچھا گیاتوآپ نے فرمایا:
’’جادو کئی اعتبار سے اثر انداز ہوتا ہے، مثلاً الخبل جادو بھائیوں اور میاں بیوی کےدرمیان بغض پیدا کرتا ہے، تخیلات کا شکار کرتا ہے وغیرہ۔‘‘
{ فتوی العلماء: ص 43 }
شیخ صالح بن فوزان فرماتے ہیں:
’’جادو ایک واقعی اور موثر چیز ہے جس کے ذریعے قتل ، مرض اور میاں بیوی کے درمیان تفریق اور لوگوں کے درمیان فساد پیدا کیا جاتا ہے۔‘‘
{ المنتقی من فتاوی الشیخ:2؍131 }
عبد السلام السکری مدرس کلیۃ الشرعیہ و قانون بدمنصور فرماتے ہیں::
’’شریعت اسلامیہ نے ثابت کیا ہے کہ جادو یقیناً ایک حقیقت ہے جس میں شک وشبہ نہیں بلکہ قرآن جو کہ قول فیصل ہے اس نے اس کی حقیقت کی صداقت کی ہے اور اس کو ثابت کیا ہے۔‘‘
{ السحر بين الحقيقة والوهم في التصور الإسلامي:ص18، نقل عن كتاب ؟؟ص 37 }
اتنے دلائل کے بعد بھی جو شخص جادوئی تاثیر وحقیقت کو نہ سمجھے تو پھر وہ دو عاؤں میں سے ایک دعا ضرور کرے :
1۔ اسے غیبی طریقے سے سمجھ بوجھ اور فہم وفراست عطا کر دے۔
2۔ اپنے اوپراس مرض کے تجربے کے لیے دعا کرے تاکہ میں دنیا میں ہی انسانوں اور کتابوں کے ذریعے مسئلہ سمجھ آ جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ فرشتوں کی ذمہ داری لگا دے کہ ان کو یہ مسئلہ عملی طور پر سمجھاؤ۔
✔ تنبیہ :
یہ تمام دلائل اہلسنت کے منہج وفکر سے منحرف لوگوں کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ ان صحیح العقیدہ اہل ایمان اور دینداروں کے لیے بھی ہیں۔ جو کہ توکل علے اللّٰہ کا غلط مفہوم سمجھتے ہوئے اپنے اہل خانہ کو کئی کئی سال جادوئی مرض کی ؟؟ میں رکھتے ہیں لیکن قرآن وسنت کے مطابق علاج ومعالجہ کو قرآن وسنت کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس غلط نظریہ پر فخر کرتے ہیں، مر جائیں گے لیکن توکل علی اللّٰہ نہیں چھوڑیں گے ایسے دینداروں کی عورتیں مجبوراً محرم کے بغیر اکیلی سفر بھی کرتی ہیں اور غیر محرم عاملین سے اکیلی چھپ چھپ کر باتیں بھی کرتی ہیں اور علاج ومعالجہ بھی کرتی ہیں اور خود ایسے افراد کو برگر شوارمے اور دیگر خوردونوش کی اشیاء میں تعویذ کھلاتی چلاتی بھی ہیں اور بسااوقات ایسے بھی اعمال کر گزرتی ہیں جو کہ شرعی طور پر تو کیا اخلاقی طور پر بھی غیر مناسب معیوب ترین اور شرمناک ہوتے ہیں۔
گویا کہ یہ سارا کمال متوکل علی اللّٰہ کا ہے اس کی ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ ہے۔
امام قرافی فرماتے ہیں:
’’جادو کی حقیقت وتاثیر کے متعلق فرقہ قدریہ کے ظہور سے پہلے تمام صحابہ کرام کا اجماع تھا۔‘‘
[46] { الفروق القرافی: 4؍15 }
بعض نام نہاد عقل مند لوگ معتزلہ کی فکر پر چلتے ہوئے اس کا سرے سے ہی انکار کرتے ہیں، ذیل میں جادو کی تاثیر کے مختصر اہل حق سے دلائل پیش کیے جا رہے ہیں:
1۔ جادو کا انکار حقیقت میں قرآن کا انکار ہے:﴿ البقرة: 101۔103؛ طہ: 69؛ الانبیاء: 3؛ طہ: 66؛ الفلق: ﴾
2۔حدیث عائشہ ؓ قالت سحر رسول ...
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
محترم جناب شفیق الرحمٰن زاہد صاحب
محترم جناب محمد نعیم یونس صاحب
العین حق۔ نظر بد برحق ہے۔
[صحیح بخاری کتاب الطب باب العین حق (5740)]
برحق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حق ہوگیا ۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ برحق کہہ دیا تو اوہو یہ تو جائز ہوگیا۔ یہ جائز نہیں ہوا۔ برحق کہنے کا معنى یہ ہے کہ اس کے اندر اثر ہوتا ہے۔ نظر بد کے نتیجے میں جس آدمى کو نظر لگى ہے اس پر اثر ہوجاتا ہے۔ جادوگر کے جادو کے نتیجے میں جس آدمى پر جادو کیا گیا ہے اس پر اثر ہوجاتا ہے ، یہ معنى ہے برحق ہونے کا۔ یہ نہیں کہ جادو کرنا جائز ہوگیا۔ جادو کرنا کفر ہے۔ جادوکروانا بھى کفر ہے۔ جادو سیکھنا بھى کفر ہے ، جادو سکھانا بھى کفر ہے۔ نظر بد سے بھى نبى کرىم ﷺ نے منع کىا ہے۔ فرمایا: جو چیز اچھى لگے تو ماشاء اللہ کہو۔
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں جابجا جادو کی حقیقت کو کھول کھول کر بیان فرمایا۔ اور قرآن مجید فرقان حمید کے مطالعہ سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ جادو ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے جادوگر کسی قدر انسانوں کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور جادوگر کا یہ نفع یا نقصان پہنچانا اللہ تعالیٰ کے اذن کے ساتھ مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت، اللہ تعالیٰ کا اذن اور اجازت ہوگی تو جادوگر جادو کے ذریعے نقصان پہنچا سکے گا۔ جیسا کہ ماتحت الاسباب بھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اذن او ر اجازت کے بغیر کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
نبی کریم ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ
[ جامع الترمذي أبواب صفة القيامة والرقائق والورع حـ 2516]
اے معاذ! اگر امت ساری کی ساری تجھے نفع پہنچانے کےلیے جمع ہوجائے تو جو اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں لکھا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نفع یہ تجھے نہیں پہنچا سکتے۔ اور اگر یہ سارے کے سارے اکھٹے ہوجائیں کہ تجھے نقصان پہنچادیں تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تیرےمقدر میں لکھ دیا ہے۔
قرآن کی اس آیت پر غور کرتے ہیں :
وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ
[البقرة : 102]
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
"وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ "
لوگ سلیمان علیہ السلام کی باتوں کو چھوڑ کر ان کی باتوں کے پیچھے چل پڑے جو سلیمان علیہ السلام کی دورحکومت میں پڑھی جاتی تھیں۔جو جادو سیکھا سکھایا جاتا تھایہ اس جادو کے پیچھے لگ گئے۔
" وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ "
سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا ۔جادو سیکھنا، جادو سکھانا، جادو کرنا، جادوکرانا کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کو کفر قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں لوگ آج کے دور میں، ہمارے اس دور میں بھی یہ عقیدہ اور نظریہ رکھتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام جادو گروں کے بڑے ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں ہے فرمایا:
"وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ"
سلیمان علیہ السلام نے ایسا کوئی کفر نہیں کیا۔
"وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ "
لیکن شیطانوں نے کفر کیا۔وہ کفر کیا تھا؟
" يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ"
لوگوں کو جادو سکھا تے تھے۔ پھر لوگوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جادو نازل کیا ہے۔ جادو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اللہ نے اس کی بھی نفی فرمادی ۔ الہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ"
بابل شہر میں ہاروت اور ماروت پر کچھ بھی نازل نہیں کیا گیا۔ شیاطین کفر کرتے تھے، سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا۔یہ شیاطین لوگوں کو جادو سکھا تے تھے۔اور
"وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ "
ان دونوں ملکین ، دونوں فرشتوں، ہاروت اور ماروت کو جادو آتا تھا۔ شیاطین سے انہوں نے جادو سیکھا۔لوگ ان فرشتوں سے جادو سیکھنے لگ گئے۔ اور لوگ جاتے جادو سیکھنے کےلیے تو وہ کہتے:
"إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ "
ہم تو مبتلائے آزمائش ہوچکے ہیں ،
" فَلاَ تَكْفُرْ"
تو کفر نہ کر۔لیکن اس سب کے باوجود، تنبیہ ، نصیحت اور وعید کے باوجود۔
" فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ"
وہ ان دونوں سے کچھ ایسا کلام اور ایسا جادو سیکھتے کہ جس کے ذریعے وہ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کردیتے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
" وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ"
ان کو پتہ تھا کہ جو بھی یہ جادو سیکھے گا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ یعنی آخرت میں اس کےلیے نقصان ہی نقصان، عذاب ہی عذاب ہے۔ اور وہ ان سے ایسا کچھ سیکھتے کہ :
" مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ"
جو ان کو نقصان دیتا تھا ، نفع نہیں پہنچاتا تھا۔
" وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ [البقرة : 102]"
کاش کہ وہ ہوش کے ناخن لیتے ، وہ سمجھ لیتے ، جان لیتےکہ جس چیز کے بدلے وہ بیچ رہے ہیں اپنی زندگی کو ، اور اپنی آخرت کو داؤ پر لگا رہے ہیں وہ چیز بہت بری ہے۔
اس آیت سے ایک تو یہ پتہ چلا کہ جادو کوئی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لفظ "سحر"بولا ہے۔ جادو کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ کہ جادو کا وجود ہے۔ لفظ "سحر" کا معنی، لفظ جادو کا معنی مختلف لوگ مختلف کرتے ہیں لیکن بہرحال نفس جادو کو، نفس سحر کو ، جادو کے وجود کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات بینات کا کفر لازم آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ سحر سیکھتے اور سکھاتے تھے اور جادو تھی کیا چیز؟ آج کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جادو شعبدہ بازی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی وضاحت کردی کہ جادو ایسی چیز تھی کہ
"مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ"
جس کے ذریعے وہ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کردیتے تھے۔ جادو کچھ ایسی چیز ہے کہ جس کی بنا پر آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی کا دماغ خراب ہوجاتا ہے وہ بیوی کو طلاق دے بیٹھتا ہے۔ یابیوی خاوند سے لڑنا شروع کردیتی ہے۔ ان کے حالات بگڑ جاتے ہیں۔ جادو کچھ ایسی چیز ہے۔
" مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ"
جس کے ذریعے وہ لوگ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی اور تفریق ڈال دیتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ کے اس بیان اور وضاحت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ جادو شعبدہ بازی نہیں ۔ میاں بیوی اکھٹے مل کر جائیں دونوں شعبدہ دیکھنے کےلیے، تو پھر کیا شعبدہ دیکھ کر وہ آپس میں لڑنے لگیں گے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ جادو کوئی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے دلوں میں اختلاف پید ا ہوجاتا ہے۔ دماغ خراب ہوجاتا ہے۔ یہ جادو کی حقیقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیان فرمادی ہے۔
نبی کریم ﷺ کے تخیلات پر بھی جادو کا اثر ہوا۔ وہ سمجھتے کہ میں یہ کام کرچکا ہوں حالانکہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا ۔ نبی کے تخیلات پر جادو کا اثر ہوجانا قرآن سے ثابت ہے۔
فرعو ن کے جادوگروں نے اپنی رسیاں پھینکیں
فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى [طه : 66]
ان کی رسیاں اور ان کی چھوٹی چھوٹی لاٹھیاں جو جادوگروں نے پھینکی تھیں
"يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ"
موسیٰ علیہ السلام کو ان کے جادو کی وجہ سے یہ تخیل ہونے لگا
"أَنَّهَا تَسْعَى"
کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔سعی کہتے ہیں تیزی کے ساتھ چلنے کو۔ وہ تیزی کے ساتھ آگے کو بڑھتی ہوئیں، چلتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔ تو معلوم ہوا کہ نبی کے تخیلات پر جادو اثر کرجاتا ہے۔
جادو کے وجود کے متعلق علما کے اقوال :
ابو بکر جصاصؓ فرماتے ہیں :
’’النفقات سے مراد وہ جادوگرنیاں ہیں جو پھونکیں مارتی ہیں۔‘‘
{ احکام القرآن: 5؍378 }
امام بغوی فرماتے ہیں:
’’النفقات‘ سے مراد جادوگرنیاں ہیں جو بغیر تھوک کے نتکارتی طور پر پھونکیں مارتی ہیں۔‘‘
{ شرح السنہ: 12؍ 185 }
امام بخاری فرماتے ہیں:
’’النفقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو جادو کرتی ہیں۔‘‘
{ بخاری مع الفتح: 10؍ 221 }
مام بغوی فرماتے ہیں:
’’جب فلق الناس نازل ہوئی اور جب آپ نے پڑھی تو جادو گرہ کھل گئی اور اب ہشاش بشاش کھڑے ہو گئے۔‘‘
{ شرح السنہ: 7؍322 }
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’آپ ﷺ جادو کے مرض میں 8 ماہ رہے۔‘‘
{ فتح الباری: 10؍237 }
حافظ ابن حجر نے قرطبی کا قول نقل کیا ہے کہ حق اور سچ بات یہ ہے کہ جادو کی بعض صورتیں دل پر اثر انداز ہوتی ہیں جیسے دو لوگوں کے درمیان محبت ونفرت کا عمل جسمانی بیماریاں نفع ونقصان وغیرہ۔‘‘
{ فتح الباری: 10؍223 }
امام نووی فرماتے ہیں:
’’صحیح بات یہ ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے (جس کا انکار ممکن نہیں) اس پر جمہور اور عام اہل علم کا اتفاق ہے۔‘‘
{ فتح الباری: 10؍ 222 }
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
جادوئی عمل ایک ایسی حقیقت ہے جو مسحور شخص کے جسم، دل اورعقل پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘‘
{ المغنی: 10؍104 }
امام شوکانی فرماتے ہیں:
’’جادو آپس میں محبت وبغض، اتفاق واختلاف اور قربت ودوری پیدا کرنے میں ایک تاثیر رکھتا ہے۔‘‘
{ زبدۃ التفسیر: ص 10 }
عبد الرحمن بن ناصر فرماتے ہیں:
’’سورۃ فلق اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جادو ایک ایسی حقیقت ہے جس کے نقصان سے ڈرا جائے اور اس سے بچنے کےلیے اس کی پناہ لی جائے۔‘‘
{ تیسیر الکریم القرآن: 5؍473 }
شیخ ابن باز سے مسحور شخص کو پیش آنےوالی مختلف صورتوں کے متعلق پوچھا گیاتوآپ نے فرمایا:
’’جادو کئی اعتبار سے اثر انداز ہوتا ہے، مثلاً الخبل جادو بھائیوں اور میاں بیوی کےدرمیان بغض پیدا کرتا ہے، تخیلات کا شکار کرتا ہے وغیرہ۔‘‘
{ فتوی العلماء: ص 43 }
شیخ صالح بن فوزان فرماتے ہیں:
’’جادو ایک واقعی اور موثر چیز ہے جس کے ذریعے قتل ، مرض اور میاں بیوی کے درمیان تفریق اور لوگوں کے درمیان فساد پیدا کیا جاتا ہے۔‘‘
{ المنتقی من فتاوی الشیخ:2؍131 }
عبد السلام السکری مدرس کلیۃ الشرعیہ و قانون بدمنصور فرماتے ہیں::
’’شریعت اسلامیہ نے ثابت کیا ہے کہ جادو یقیناً ایک حقیقت ہے جس میں شک وشبہ نہیں بلکہ قرآن جو کہ قول فیصل ہے اس نے اس کی حقیقت کی صداقت کی ہے اور اس کو ثابت کیا ہے۔‘‘
{ السحر بين الحقيقة والوهم في التصور الإسلامي:ص18، نقل عن كتاب ؟؟ص 37 }
اتنے دلائل کے بعد بھی جو شخص جادوئی تاثیر وحقیقت کو نہ سمجھے تو پھر وہ دو عاؤں میں سے ایک دعا ضرور کرے :
1۔ اسے غیبی طریقے سے سمجھ بوجھ اور فہم وفراست عطا کر دے۔
2۔ اپنے اوپراس مرض کے تجربے کے لیے دعا کرے تاکہ میں دنیا میں ہی انسانوں اور کتابوں کے ذریعے مسئلہ سمجھ آ جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ فرشتوں کی ذمہ داری لگا دے کہ ان کو یہ مسئلہ عملی طور پر سمجھاؤ۔
✔ تنبیہ :
یہ تمام دلائل اہلسنت کے منہج وفکر سے منحرف لوگوں کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ ان صحیح العقیدہ اہل ایمان اور دینداروں کے لیے بھی ہیں۔ جو کہ توکل علے اللّٰہ کا غلط مفہوم سمجھتے ہوئے اپنے اہل خانہ کو کئی کئی سال جادوئی مرض کی ؟؟ میں رکھتے ہیں لیکن قرآن وسنت کے مطابق علاج ومعالجہ کو قرآن وسنت کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس غلط نظریہ پر فخر کرتے ہیں، مر جائیں گے لیکن توکل علی اللّٰہ نہیں چھوڑیں گے ایسے دینداروں کی عورتیں مجبوراً محرم کے بغیر اکیلی سفر بھی کرتی ہیں اور غیر محرم عاملین سے اکیلی چھپ چھپ کر باتیں بھی کرتی ہیں اور علاج ومعالجہ بھی کرتی ہیں اور خود ایسے افراد کو برگر شوارمے اور دیگر خوردونوش کی اشیاء میں تعویذ کھلاتی چلاتی بھی ہیں اور بسااوقات ایسے بھی اعمال کر گزرتی ہیں جو کہ شرعی طور پر تو کیا اخلاقی طور پر بھی غیر مناسب معیوب ترین اور شرمناک ہوتے ہیں۔
گویا کہ یہ سارا کمال متوکل علی اللّٰہ کا ہے اس کی ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ ہے۔
امام قرافی فرماتے ہیں:
’’جادو کی حقیقت وتاثیر کے متعلق فرقہ قدریہ کے ظہور سے پہلے تمام صحابہ کرام کا اجماع تھا۔‘‘
[46] { الفروق القرافی: 4؍15 }
بعض نام نہاد عقل مند لوگ معتزلہ کی فکر پر چلتے ہوئے اس کا سرے سے ہی انکار کرتے ہیں، ذیل میں جادو کی تاثیر کے مختصر اہل حق سے دلائل پیش کیے جا رہے ہیں:
1۔ جادو کا انکار حقیقت میں قرآن کا انکار ہے:﴿ البقرة: 101۔103؛ طہ: 69؛ الانبیاء: 3؛ طہ: 66؛ الفلق: ﴾
2۔حدیث عائشہ ؓ قالت سحر رسول ...
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
محترم جناب شفیق الرحمٰن زاہد صاحب
محترم جناب محمد نعیم یونس صاحب
No comments:
Post a Comment