find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Ek Kamyab Ustad ke Ander Kaunsi Khubiya Jarur Honi Chahiye?

Ek Kamyab Ustad (Teacher) Banne Ke 20 Principal.
Twenty tips for be a Good and Successful Teacher.
کامیاب استاد بننے کے 20 رہنما اصول

بہترین استاد وہ ہے جو بیک وقت نفسیات ، اخلاقیات اور روحانیت
میں مہارت رکھتا ہو ۔ ان میں سے ہر مہارت کی خصوصیات دوسری
مہارت سے گہرا تعلق رکھتی ہیں ۔ اس لئے ہم ان تینوں مہارتوں کے لئے
کچھ مشترکہ اصول ذکر کریں گے ۔

       1-اخلاص
اچھا استاد اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتا ہے ۔ وہ اپنے پیشے کے ساتھ جس قدر بے لوث ہوگا ، اس کی دلچسپی اس قدر بڑھتی جائے گی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں اتنی ہی کم ہوتی چلی جائیں گی ۔ اخلاص وہ جوہر ہے جس سے عمل میں لذت پیدا ہو جاتی ہے ۔

       2-تقوی
علم اور تقوی کا باہم گہرا تعلق ہے ، اسی وجہ سے قرآن کریم میں خشیت الہی کا مدار “ علم “ کو قرار دیا گیا ہے ۔ نیز یہ بات ہم ہر مخفی نہیں کہ استاذ کے دل میں جتنی خدا خوفی ہوتی ہے اس کی زبان میں اسی قدر تاثیر ہوتی ہے ۔

   3- بہترین عملی کردار
شاگرد اپنے استاذ کو بہت باریک بینی سے دیکھتا ہے ، یوں استاذ کی چال ڈھال ، عادات و اطوار اور اخلاق و کردار لاشعوری طور پر بھی اس میں اترنے لگتے ہیں ۔ شاگرد کی دقتِ نظری کیسی ہوتی ہے ، اس ضمن میں ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھوں گا ۔ ہوا یوں کہ ایک دن میری گھڑی
خراب تھی تو میں گھر والوں کی گھڑی پہن کر کلاس میں چلا گیا ، دوران درس میری پوری کوشش رہی کہ گھڑی کپڑوں میں چھپی رہے ، دن گزر گیا
بات آئی گئی ہوگئی ، کچھ مدت کے بعد ایک طالب علم سے گفتگو ہورہی تھی ، وہ درسگاہ میں میری کسی بات کا حوالہ دے رہا تھا مگر مجھے یاد نہیں آرہا تھا ، میں نے مزید استفسار کیا تو اس نے کہا : استاد جی ! جس دن آپ لیڈیز گھڑی پہن کر آئے تھے ۔ “ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ طلبہ کتنی گہرائی سے استاد کو پڑھتے ہیں ، بلکہ پڑھنے کے بعد اسے یاد رکھتے ہیں اور دوسروں سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

  4- تلاوت کا معمول
تلاوت کا معمول روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاھئے ۔ تلاوت کم ازکم اتنی اونچی آواز سے کرنی چاھئے کہ اسے خود سن سکے ، انشاء اللہ اس عمل کی تاثیر وہ خود محسوس کریگا ۔

    5- ذکر اللہ
بہتر ہوگا کہ تلاوت کے علاوہ ذکر الہی کے لئے کچھ وقت الگ سے نکالے ۔ قلب کے احیا کے لئے یہ عمل انتہائی موثر ہے ۔

   6-شکر
اچھا مدرس وہ ہوتا ہے جس کی طبیعت میں شکر کا وصف موجود ہو ،  شکر سے مراد اس کی تینوں قسمیں ہیں : قلبی ، لسانی اور عملی  ۔ قلبی شکر کا مطلب ہے کہ دل میں منعم ( محسن ) کا احترام اور اس سے محبت ہو ۔ جس ادارے سے اسکا روزگار وابسطہ ہے وہاں کے منتظمین کا قلبی شکر بے حد ضروری ہے ۔ جو مدرس اپنے طلبہ کے سامنے اپنے منعم کی برائیاں بیان کرتا ہے اور اس پر تنقید کرتا ہے وہ ناکام ترین مدرس ہے ۔ شکر لسانی دو طریقوں سے ہوتا ہے ، ایک وہ جس کی سورہ الضحی میں تعلیم دی گئی ہے ، کہ اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کیجئے ، جسے تحدیث بلنعمت کہا جاتا ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے محسن کا شکر زبان سے بھی ادا کرے جسے اللہ تعالی نے فرمایا ، ترجمہ :” میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی” اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسمل کا ارشاد ہے کہ من لم یشکر الناس لم یشکر الل( جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا) تشکر سے مراد ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو ڈھنگ سے استعمال کرے ، جو استاذ نعمتوں کا درست استعمال نہیں کرتا وہ ناشکرا اور ناکام مدرس ہے ۔

   7- حیا
استاد کے لئے حیا ایک ناگزیر وصف ہے ۔ حیا کا مطلب ہے انقباض النفس عن القبیح  یعنی اللہ کی طرف سے ناپسندیدہ قرار دی گئی باتوں اور چیزوں سے اس کا جی تنگ پڑے ، ایسی باتوں کی طرف جانا اس کے لئے گرانی کا باعث ہو ۔ استاذ میں حیا ہوگی تو آگے بھی یہ وصف ضرور متعدی ہوگا ، مگر افسوس ہے کہ موبائل نے ہم اساتذہ کی حیا اگر ختم نہیں کی تو کم ضرور کردی ہے ۔

   8- ذمہ داری کا احساس
یہ بات مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے کہ طلبہ کا غیر ذمہ دارانہ رویے کا ایک باعث استاد کا غیر ذمہ دارانہ مزاج ہے ۔ کامیاب مدرس بننے کے لئے اپنے ذمہ داری کا احساس جگانے کی ضرورت ہے ۔

  9- اچھی صحبت
اچھا استاد وہ ہوتا ہے جس کا مزاج اچھا ہو ، اس کی بیٹھک  اچھے لوگوں کے ساتھ ہو ، اس کی پہچان اچھی سوسائٹی ہو ۔ حدیث کے مطابق اسے عطار  کے مانند ہونا چاھئے جس کے پاس سے گزرنے والا کم از کم معطر ضرور ہوسکے ، نہ کہ لوہار کی طرح جس کی صحبت اختیار کرنے والے کو بھٹی کی تہپش بھی گوارا کرنا پڑتی ہے ۔ برے لوگوں سے خیر خواہی اور اصطلاح کا تعلق تو رکھے مگر دوستی کا نہیں ۔

10-تحمل اور برداشت
تعلیم اور تزکیہ کے میدان میں صبروتحمل کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے ۔ انبیاء علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بار بار اسکی تلقین فرمائی ہے ۔ استاذ میں جس قدر یہ خوبی ہوگی وہ اتنا ہی کامیاب مدرس ثابت ہوگا ۔

11- زہد اور بے رغبتی
ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جس میں کمال درجے کا زہد ہو ، شاگرد کے مال پر اگر استاذ کی رال ٹپک رہی ہو تو شاگرد کی نظر میں ایسا استاد ٹکے کا نہیں رہتا ۔ حدیث میں جو ارشاد ہے ، ترجمہ :دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو اللہ تم سے سے محبت کریگا اور لوگوں کے مال ومتاع سے نظریں پھیر لو لوگ تمہارے دیوانے بن جائیں گے ۔

12-عفو در گزر اور وسعت قلبی
ہر معمولی بات پر پکڑ کرنے والا کبھی کامیاب مدرس نہیں بن سکتا ، استاد کو اپنے اندر وسعت قلبی پیدا کرنی چاھئے ۔ اللہ کی بھی یہی سنت ہے ۔

13-خدمت خلق کا جزبہ
افسوس ہے اس اہم ترین عبادت کو ہم نے شعبوں میں تقسیم کر دیا ہے ، روز مرہ زندگی میں بطور عبادت اس اصول کا اطلاق ہمارے ہاں نادر ہے ۔ استاد اگر اپنے طلبہ کے سامنے خدمت خلق کا عملی نمونہ پیش کریگا تو ان کے دل میں عظمت بڑھے گی ۔ اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ بیان کروں گا کہ ضعف اور نقاہت کی وجہ سے چونکہ طبیعت مستعد نہیں رہی ، ایک مرتبہ میں نے کھانا تناول کرنے کے بعد بچوں سے کہا بیٹا دتسرخوان اٹھالو ، اتنے میں کیا سنتا ہوں کہ میرا چھوٹا نواسا دروزاے سے نکلتے ہوئے کہ رہا ہے “ خود تو بڑے بنے بیٹھے ہیں اور ہمیں کام پر لگایا ہوا ہے “ ایسے موقعوں پر اگر بچوں کو ڈانٹ دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ فرق پڑے گا کہ وہ یہی بات آپ کے سامنے کہنے سے باز رہیں گے مگر ان کے ذہنوں کو آپ صرف اور صرف اپنے کردار سے کھرج سکتے ہیں ۔

14-قوت اور امانت
اچھا پیشہ ور وہ ہوتا ہے جس میں قوت اور امانت کا وصف بخوبی موجود ہو  ۔ قرآن پاک میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کا تبصرہ ذہنوں میں اوجھل نہیں رہنا چاھئے ،: بہترین اجیر وہ ہے جو قوی بھی ہو امین بھی - استاد کی قوت اس کا وسعت مطالبہ ، علمی رسوخ اور اپنے فن یا مضمون ہر دسترس ہے ۔ نالائق سے نالائق طالب علم بھی اپنے استاذ کی علمی قابلیت کو اچھی طرح بھانپ لیتا ہے ۔ استاذ کی “ امانت “ کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ علم کو آگے منتقل کرنے میں کس قدر محتاط اور سخی ہے ۔

  15-رجائیت
اچھا استاد کبھی مایوس نہیں ہوتا ، اس کی مثال اس پھل بیچنے والے کی سی ہے جو اپنے گاہگ کے سامنے پھل کی ایسی تعریف کرے کہ وہ تھوڑے کے بجائے زیادہ لینے پر مجبور ہوجائے اور اگر خدانخواستہ وہ اس طرح کے جملے دھرانے لگے کہ “ جناب بس کیلے کا موسم ہی نہیں رہا ، اس کا گاہک بھی آج کل ڈھونڈنے نہیں ملتا ، یہ دیکھئے پڑے پڑے کیلے کالے ہونے لگے ہیں ، شکر ہے کوئی تو آیا ، یہ سن کر بے وقوف ہی اس سے سودا خریدے گا ۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا ہڑتا ہے کہ ہم جس علم کو “ بیچ “ رہے ہیں اس کی قدر خود ہمارے دل میں بھی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ استاد کے ذریعے شاگردوں میں مایوسی منتقل ہورہی ہے ۔

  16-اخلاقی جرات

ایک اچھا استاذ اپنے اندر اخلاقی جرات رکھتا ہے ۔ یاد رہے کہ اخلاقی جرات کا تعلق استاذ سے ہے ، آپ کے اندر جتنی بھی بری باتیں ہوں جب تک ان سے جان نہیں چھڑا لیتے اخلاقی فقدان رہے گا ۔

17-قول وفعل میں مطابقت

جس استاد کے قول وفعل میں تضاد ہو وہ ایک بد نام اور ناکام مدرس ہے ۔

18-وضع قطع

استاذ کو چاھئے کہ اپنے باطن کی طرح ظاہر کو بھی اللہ کے رنگ میں رنگ دے ۔ شریعت کے مطابق وضع قطع نہ صرف سنت نبوی کی اتباع ہے بلکہ اس سے آپ باوقار تشخص کی تعمیر کرسکیں گے ۔

19-للّھیت

دینی خدمات محض تنخواہ کے لئے سر انجام نہ دے ۔ اس سے چاشنی اور لزت جاتی رہتی ہے ۔ اپنے کسے قول وفعل کے ذریعے شاگردوں کے سامنے بھی ایسا تاثر دینے سے باز رہے ۔

20- شاگردوں کے حقوق میں دعا گو

استاد کو چاھئے کہ اپنے شاگردوں کے لئے ہیمشہ دعا گو رہے ۔ یہ عمل اجرا اور اخلاص بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS