find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

12 Rabiwwal (Eid Milad) Mnane ke Dalail aur unka Jawab.

Eid Miladunnabi Mnane wale ke Dalail aur unko Jawab.
میلاد النبی ﷺ منانے والوں کے دلائل اور ان کا جائزہ – باران توحید
و لَقَد ارسلنَا مُوسَیٰ بِاَیَاتِنَآ ان اخرج قَومَکَ مَن الظُّلمَتِ اِلیٰ النُّورِ وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ج اِنَّ فی ذَلِکَ لَا یٰاتٍ لَکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ
اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو ، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں )) سورت ابراہیم ، آیت ٥
اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑہا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟
اور اگر یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ تفسیر کی معتبر ترین کتابوں میں اِسکی کیا تفسیر بیان ہوئی ہے تو اِن لوگوں کا یہ فلسفہ ہوا ہوجاتا ہے
::::: اِمام محمد بن احمد جو اِمام القُرطبی کے نام سے مشہور ہیں اپنی شہرہ آفاق تفسیر ”’ الجامع لِاحکام القُرآن ”’ میں اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ”” نعمتوں کو کبھی ایام بھی کہا جاتا ہے ، اور ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) اور مقاتل ( بن حیان ) نے کہا :: اللہ کی طرف سے سابقہ اُمتوں میں جو واقعات ہوئے ::: اور سعید بن جبیر نے عبداللہ بن عباس سے اور اُنہوں نے اُبي بن کعب ( رضی اللہ عنہم ) سے روایت کِیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ایک دفعہ موسی اپنی قوم کو اللہ کے دِن یاد کروا رہے تھے ، اور اللہ کے دِن اُسکی طرف سے مصبتیں اور اُسکی نعمتیں ہیں ) ( یہ صحیح مسلم کی حدیث ١٧٢ ، اور ٢٣٨٠ کا حصہ ہے ) اور اِس میں دِل کو نرم کرنے والے اور یقین کو مضبوط کرنے والے واعظ کی دلیل ہے ، ایسا واعظ جو ہر قِسم کی بدعت سے خالی ہو ، اور ہر گمراہی اور شک سے صاف ہو ””
اِمام ابن کثیر رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کی تفسیر میں اِمام مجاہد اور اِمام قتادہ کا قول نقل کِیا کہ اُنہوں نے کہا ”” ( وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہ ) یعنی اِن کو اللہ کی مدد ا ور نعمتیں یاد کرواؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو فرعون کے ظلم سے نجات دِی ، اور اُن کے دشمن سے اُنہیں محفوظ کِیا ، اور سمندر کو اُن کے لیئے پھاڑ کر اُس میں سے راستہ بنایا اور اُن پر بادلوں کا سایہ کِیا ، اور اُن پر من و سلویٰ نازل کِیا ، اور اِسی طرح کی دیگر نعمتیں ”’
::::: غور فرمائیے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِس آیت میں اللہ کے دِنوں کی کیا تفسیر فرماتے ہیں ، کیا کہیں اُنہوں نے جشن میلاد منانے کا فرمایا یا خود منایا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میلاد کے حق میں دلیل بنانے والے صاحبان کو اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین یاد کیوں نہیں آتے کہ (((یا ایھا الذین ءَ امَنُوا لا تَقدِّمُوا بین یدی اللہِ و رسولَہِ و اَتَقُوا اللہَ اِِن اللہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ُ، یا ایھا الذین ءَ امَنُوا لا ترفعُوۤا اصواتَکُم فوق َ صوتِ النبي ، و لا تَجھَرُوا لَہ ُ بِالقُولِ کَجَھرِ بَعضُکُم لِبَعض ٍ ان تَحبطَ اعمالُکُم و انتُم لا تشعُرُون ))) (((اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، اللہ اور اُسکے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے آگے مت بڑہو اور اللہ ( کی ناراضگی ) سے بچو بے شک اللہ سُننے اور عِلم رکھنے والا ہے اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، نبی کی آواز سے آواز بلند مت کرو اور نہ ہی اُسکے ساتھ اُونچی آواز میں بات کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ))) ،
پھر یہ لوگ اِس آیت کے ساتھ دس محرم کے روزے کو منسلک کرتے ہوئے کہتے ہیں ”’ وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ یعنی اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے

  اَلم تَرَ اِلیٰ الَّذِینَ بَدَّلُوا نَعمَتَ اللَّہِ کُفراً وَ اَحَلُوا قَومَھُم دَارَ البَوَارِ
اے رسول ) کیا تُم نے نہیں ا ُن کو نہیں دیکھا جِنہوں نے اللہ کی نعمت کا اِنکار کِیا اور ( اِس اِنکار کی وجہ سے ) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لا اُتارا (سورۃ ابراھیم 28)  
سورت اِبراہیم کی آیت ٢٨ کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کا قول نقل کیا گیا ہے کہ ”” نعمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ”” ، اور پھر عبداللہ ابِ عباس رضی اللہ عنہُما کے اِس قول کو بنیاد بنا کر اِن لوگوں نے یہ فلسفہ گھڑ لیا کہ ”’ نعمت کا اظہار کرنا شکر ہے اور شکر نہ کرنا کفر ہے اور جب شکر کیا جائے گا تو خوشین ہو گی لہذا ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ خوشی اظہارِ نعمت کی خوشی ہے۔
اللہ جانے اِن لوگوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کا یہ قول کہاں سے لیا ہے کیونکہ تفسیر ، حدیث ، تاریخ و سیرت اور فقہ کی کم از کم سو ڈیڑھ سو معروف کتابوں میں مجھے کہیں بھی یہ قول نظر نہیں آیا ، جی ہاں تفسیر ابن کثیر میں اِمام ابن کثیر نے یہ کہا ہے کہ ”’ یہ بات ہر کافر کےلیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام اِنسانوں کے لیے نعمت بنا کر بھیجا ، پس جِس نے اِسکو قبول کِیا اور اِس پر شکر ادا کیا وہ جنّت میں داخل ہو گا ، اور جِس نے اِس کو قُبُول نہ کِیا اور اِس کا اِنکار کِیا وہ جہنم میں داخل ہو گا ”’
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِمام ابن کثیر کے اِس مندرجہ بالا قول کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی طرف سے بیان کردہ تفسیر قرار دینا میرے اِن کلمہ گو بھائیوں کی جہالت ہے یا تعصب ، اگر بالفرض یہ درست مان بھی لیا جائے کہ مذکورہ قول عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما کا کہا ہوا ہے ، تو کہیں تو یہ دِکھائی کہ دیتا عبداللہ ابن عباس یا اُنکے والد یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہُ یا کِسی بھی اور صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دِن کِسی بھی طور پر ”’ منایا ”’ ہو ، اِس طرح تو اِنکے ابھی ابھی اُوپر بیان کردہ فلسفے کے مُطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کُفرانِ نعمت کیا کرتے تھے ؟
قَالَ عِیسَی ابنُ مَریَمَ اللَّھُمَّ رَبَّنَا اَنزِل عَلِینَا مآئِدۃً مِنَ السَّمَآءِ تَکُونُ لَنَا عِیداً لِّاَوَّلِنَا وَ اَخِرِنَا وَ اَیَۃً مِنکَ وَ ارزُقنَا وَ اَنتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ (المائدہ 114)
مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے اللہ ہمارے رب ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر ، ( اُسکا نازل ہونا ) ہمارے لیےاور ہمارے آگے پیچھے والوں کے لیے عید ہو جائے ، اور تمہاری طرف سے ایک نشانی بھی ، اور ہمیں رزق عطاء فرما تو ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہےاِس آیت میں عیسائیوں کے لیے تو مائدہ نازل ہونے والے دِن کو خوشی منانے کی کوئی دلیل ہو سکتی ہے ، مسلمانوں کے لیے ”’ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ”’ منانے کی نہیں ،
انتہائی حیرت بلکہ دُکھ کی بات ہے کہ اِن لوگوں کو اِس بنیادی اصول کا بھی پتہ نہیں کہ شریعت کا کوئی حُکم سابقہ اُمتوں کے کاموں کو بُنیاد بنا کر نہیں لیا جاتا سوائے اُس کام کے جو کام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے برقرار رکھا گیا ہو ،
اورشاید یہ بھی نہیں جانتے کہ اہل سُنّت و الجماعت یعنی سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے مُطابق عمل کرنے والوں میں سے کبھی کِسی نے بھی گزری ہوئی اُمتوں یا سابقہ شریعتوں کو اِسلامی کاموں کے لیے دلیل نہیں جانا ، سوائے اُس کے جِس کی اِجازت اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہو ، اور جِس کام کی اِجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ یہ بات”’ علم الاصول الفقہ ”’میں طے ہے کہ ”’ باب العِبادات و الدیّانات و التقرُبات متلقاۃ ٌ عن اللہِ و رَسُولِہِ صَلی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسلمَ فلیس لِاَحدٍ اَن یَجعلَ شَیئاً عِبادۃً اَو قُربۃً اِلّا بِدلیلٍ شرعيٍّ یعنی عبادات ، عقائد ، اور(اللہ کا) قُرب حاصل کرنے کے ذریعے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملتے ہیں لہذا کِسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کِسی ایسی چیز کو عبادت یا اللہ کا قُرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے جِس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو ”’ یہ قانون اُن لوگوں کی اُن تمام باتوں کا جواب ہے کہ جِن میں اُنہوں نے سابقہ اُمتوں یا رسولوں علیھِم السلام کے اعمال کو اپنی ”’ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ”’ کی دلیل بنایا ہے ،
اور ہمارے یہ کلمہ گو بھائی اِس بنیادی اصول کو جانتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے آپ اور اپنے پیرو کاروں کو دھوکہ دیتے ہیں تو یہ نہ جاننے سے بڑی مُصبیت ہے ، ، اِن کُنتَ لا تدری فتلک المصیبۃ ، و اِن کُنتَ تدری فالمُصیبۃُ اَعظم ،
تیسری کوئی صورت اِن کے لیے نہیں ہے کوئی اِن کو بتائے کہ عیسائی تو کسی مائدہ کے نزول کو خوشی کا سبب نہیں بناتے اور اگر بناتے بھی ہوتے تو ہمارے لیے اُن کی نقالی حرام ہے ، جیسا کہ ہمارے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا سب کچھ اُن پر فدا ہو ،نے فرمایا ہے ::: (مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم ) ( جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی ( یعنی اُسی قوم ) میں سے ہے ) سُنن ابو داؤد /حدیث ٤٠٢٥ /کتاب اللباس /باب ٤ لبس الشھرۃ ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ صادر فرما دیا ہے لہذا جو لوگ جِن کی نقالی کرتے ہیں
اُن میں سے ہی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں غیر مسلموں کی ہر قِسم کی نقالی سے محفوظ رکھے.

یایھا النَّاسُ قَد جَاء َتکُم مَّوعِظَۃٌ مِن رَّبکُم و شِفآءٌ لِّمَا فِی الصَّدُورِ و ھُدًی و رحمۃٌ لِّلمُؤمِنینَ قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خیرٌ مِّمَا یَجمَعُونَ۔(یونس۔57۔58)
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔۔آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔ وه اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وه جمع کر رہے ہیں
اِس میں کوئی شک نہیں کہ آیت نمبر 58 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت پر خوش ہونے کا حُکم دِیا ہے ، لیکن ! ! ! سوال پھر وہی ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین یا تبع تابعین رحمہم اللہ اور اُنکے بعد صدیوں تک اُمت کے اِماموں میں سے کِسی نے بھی اِس آیت میں دیے گئے حُکم پر ”’ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ”’ منائی ؟ یا منانے کی ترغیب ہی دی ؟؟؟

آئیے دیکھتے ہیں کہ اِس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا ملتی ہے ؟ اگر میلاد منانے اور منوانے والے ہمارے کلمہ گو بھائیوں نے اِس آیت کی تفسیر ، کِسی معتبر تفسیر میں دیکھی ہوتی تو پھر یہ لوگ اِس فلسفہ زدہ من گھڑت تفسیر کا شکار نہ ہوتے ، جِس کو اپنی کاروائی کی دلیل بناتے ہیں،
اِمام البیہقی نے”’ شعب الایمان”’ میں مختلف اَسناد کے ساتھ عبداللہ ابن عباس اور اَبو سعید الخُدری رضی اللہ عنہم سے روایت کیا کہ ( اللہ کا فضل قُرآن ہے اوراللہ کی رحمت اِسلام ہے ) اور دوسری روایت میں ہے کہ ( فضل اللہ اِسلام ہے اور رحمت یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں قُرآن والوں ( یعنی مسلمانوں ) میں بنایا ) اور ایک روایت ہے کہ ( کتاب اللہ اور اِسلام اُس سے کہیں بہتر ہے جِس کو یہ جمع کرتے ہیں ) یعنی دُنیا کے مال و متاع سے یہ چیزیں کہیں بہتر ہیں لہذا دُنیا کی سختی یا غربت پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اِن دو نعمتوں کے ملنے پر خوش رہنا چاہیئے ،

اِمام ابن کثیر نے اِس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ اَمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ نقل کیا کہ ”’ جب عمر رضی اللہ عنہ ُ کو عراق سے خراج وصول ہوا تو وہ اپنے ایک غُلام کے ساتھ اُس مال کی طرف نکلے اور اونٹ گننے لگے ، اونٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو عمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا الحمد للہ تعالیٰ ، تو اُن کے غلام نے کہا ،، یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ::: تُم نے جھوٹ کہا ہے ، یہ وہ چیز نہیں جِس کا اللہ نے (قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خیرٌ مَِّا یَجمَعُونَ ) ( ( اے رسول ) کہیئے ( یہ ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت ( سے ہے ) لہذا اِس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا ) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے ) سے بہتر ہے )میں ذِکر کیا ہے بلکہ یہ ( مِّمَا یَجمَعُون ) ( جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ) ہے ”’
محترم قارئین ، غور فرمائیے اگر اِس آیت میں اللہ کے فضل اور رحمت سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے اور خوش ہونے سے مراد اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی عید منانا ہوتی تو خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِسکا حکم دیتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ کام ہمیں قولاً و فعلاً ملتا ، عُمر رضی اللہ عنہُ اپنے غُلام کو مندرجہ بالا تفسیر بتانے کی بجائے یہ بتاتے کہ فَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ سے مراد یہ مالِ غنیمت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اُن کی پیدائش کی خوشی یا عند منانا ہے
اِس آیت میں “”” فَلیَفرَحُوا “””کو دلیل بنانے کے لیے ہمارے یہ کلمہ گو بھائی کچھ بات لُغت کی بھی لاتے ہوئے “”” فَلیَفرَحُوا “”” میں استعمال کیئے گئے اَمر یعنی حُکم کے صیغے کی جو بات کرتے ہیں، آئیے اُس کا بھی لُغتاً کچھ جائزہ لیں ، آیت میں خوش ہونے کا حکم دِیا گیا ہے خوشی منانے کا نہیں ، اور دونوں کاموں کی کیفیت میں فرق ہے ، اگر بات خوشی منانے کی ہوتی تو “”” فَلیَفرَحُوا “””کی بجائے “”” فَلیَحتَفِلُوا “”” ہوتا ، پس خوش ہونے کا حُکم ہے نہ کہ خوشی منانے کا ،
اور کِسی طور بھی کِسی معاملے پر اللہ کی اجازت کے بغیر خوامخواہ خوش ہونے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا ، چہ جائیکہ خوشی منانا اور وہ بھی اسطرح کی جِس کی کتاب اللہ اور سنّت میں کوئی صحیح دلیل نہیں ملتی ،

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS