Koi Gair Muslim Islam Qabool kare Aur use Arabic Juban Nahi Aati Ho To Wah Kaise Namaj Padhega.
نماز میں سجدہ میں دعا مانگتے ہیں۔ کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ کہ عربی کے علاوہ کسی زبان میں دعا مانگ سکیں؟ اور حالت سجدہ مین نماز کے اندر کوئی بھی دعا مانگ سکتے ہیں؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سسٹر میرا سوال ہے کہ کیا نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا کرنا جائز ہے
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ اپنے رب سے سجدہ میں قریب ہوتا ہے اس وقت رب سے کثرت سے مانگو
اب اگر کسی کو دعائیں عربی میں یاد نا ہوں تو وہ اپنی ربان میں دعا مانگ سکتا ہے ۔
اگر نہیں مانگ سکتا تو بھی وضاحت کریں
اگر مانگنے کا جواز ہے تو کیا فرض میں بھی یا نوافل میں ۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ معزز سسٹر اینڈ برادر
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ کے قریب ترین ہوتا ہے اور یہ موطن الاجابہ بھی ہے یعنی ایسی حالت ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے، ارشاد نبوی ہے:
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: ''اقرب ما یکون العبد من ربہ و ھو ساجدفاکثروا الدعاء ''
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''بندہ اپنے رب کے قریب ترین اسوقت ہوتا ہے جسوقت وہ سجدے کی حالت میں ہولہذا سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو''
صحیح مسلم، کتاب الصلاة باب ما یقال فی الرکوع و السجود رقم الحدیث :١١١١
ایک دوسری راویت میں ان الفاظ کی زیادتی بھی ہے:
''و اما السجود فاجتھدوا فی الدعاء فقمن ان یستجاب لکم''
ترجمہ: ''سجدے میں زیادہ سے زیادہ دعا کی کوشش کرو عین ممکن ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو جائے''
صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب النھی عن قراء ة القرآن فی الرکوع و السجود ، رقم الحدیث:١١٠٢
باقی رہا یہ مسئلہ کہ اپنی زبان میں دعا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس ضمن میں الشیخ مقبول احمدسلفی حفظہ اللہ کہتے ہیں
سجدۂ نماز میں عربی کے علاوہ کسی بھی زبان میں دعاء بھی نہیں کرسکتا۔عربی زبان میں دعا کیلئے بہتر اور افضل عمل یہی ہے کہ نماز میں بھی اپنی حاجات کو انہی دعاوں کی صورت میں اللہ کے حضور پیش کیاجائےجو سنت میں موجود ہوں۔بعض اہل علم نے کہا کہ جنہیں دعائیں وغیرہ یاد نہ ہو وہ فرض نماز کے سجدوں میں بھی اپنی زبان میں دعا مانگ سکتے مگر افضل یہی ہے کہ فرض نماز میں عربی کےعلاوہ غیر زبان میں دعا نہ مانگے جنہیں دعا یاد نہ ہو وہ یاد کرے اور یاد ہونے تک مندرجہ ذیل حدیث کے اذکار پڑھے
ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا: ميں قرآن مجيد سے كچھ ياد نہيں كرسكتا، لہذا آپ مجھے كوئى ايسى چيز ياد كرائيں جو ميرے ليے اس سے كفائت كر جائے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر، لاحول ولاقوۃ الا باللہ .. كہو"(ابوداؤد)
لیکن اگر نفل نماز ہو تو سجدے کی حالت میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگ سکتے ہیں اور سجدے کی حالت میں دعا کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فأما الركوع فعظموا فيه الرب واما السجود فاجتهدوا في الدعاء فقمن أن يستجاب لكم۔
جہاں تک رکوع کا معاملہ ہے تو اس میں اپنے رب کی تعظیم بیان کرو اور جہاں تک سجدے کی بات ہے تو اس میں دعا میں اہتمام کرو پس قریب و لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کی جائے گی۔
٭ اس روایت کو شیخ البانی نے صحیح الجامع :2746 میں ذکر کیا ہے
❖ • ─┅━━━━┅┄ • ❖
✍نماز کے اذکار و دعائیں مسنون پڑھنا افضل ہے ۔ لیکن اگر عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں دعاء کی جائے، تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی ہے، اور انسان کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کی جانے والی جو دعائیں منقول ہیں ان کو تلاش کرے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ان دعاؤں کو ان کے اپنے اپنے مقام پر پڑھے
بہرحال وہ شخص جو عربی پڑھنے پر قدرت نہ رکھے تو وہ مذکورہ چیزیں سوائے فاتحہ کو اپنی زبان میں کہتا ہے کیونکہ فاتحہ اور قرآن کو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں پڑھنا صحیح نہیں ہے، لہذا ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اس کی جگہ ( فاتحہ) سبحان اللہ الحمد للہ اور اللہ اکبر کہتا ہے؛ حديث عبد اللہ بن ابو اوفى رضی الله عنه کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ:
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا یا رسول اللہ! میں کچھـ بھی قرآن یاد نہیں کر سکتا اس لئے مجھـ کو کوئی ایسی چیز بتا دیجئے جو اس کے بدلہ میں میرے لئے کافی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پڑھو سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة الا بالله العلی العظيم۔
سنن نسائی،الافتتاح (924) ، سنن أبو داود،الصلاة (832) ، مسند أحمد بن حنبل (4/353)
اس حدیث کو احمد اور ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو ابن حبان اور دارقطنی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے،
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی/ فتاوی نمبر 5782/ 4211
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب لوگوں کو چاہیے کہ کتاب و سنت میں آنے والی دعاؤں کو اپنی دعا کا حصہ بنائیں؛ کیونکہ ان دعاؤں کی فضیلت، خوبصورتی اور ان کے صراطِ مستقیم پر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، علمائے کرام نے اور ائمہ دین نے شرعی دعائیں تفصیل سے بیان کرتے ہوئے بدعتی الفاظ والی دعاؤں کو مسترد کر دیا ہے اس لیے ان کی بتلائی ہوئی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شامل کرنا چاہیے"
" مجموع الفتاوى " ( 1 / 346 - 348 )
لیکن خارج از نماز کسی بھی زبان میں دعا مانگی جا سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ اپنی مادری زبان میں دعا مانگنے پر دل و دماغ بھی دعا میں حاضر ہوں گے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دعا عربی یا غیر عربی زبان میں مانگنا جائز ہے، اللہ تعالی دعا مانگنے والے کے ارادے اور مقصد کو جانتا ہے، اگر دعا مانگنے والے کی زبان ہی سیدھی نہیں ہے تو اللہ تعالی آوازوں کے شور وغل میں مختلف زبانوں والوں کی الگ الگ ضروریات مانگنے کو بھی جانتا ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 22 / 488 – 489 )
اس سلسلہ میں الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ کہتے ہیں
اگر کوئی شخص قدرت نہ ركھے، يا پھر وقت نكل جانے كا خدشہ ہو اور اسے سورۃ فاتحہ كى ايك ہى آيت آتى ہو تو وہ اسے سات بار دھرائے كر نماز ادا كرلے.
اور اسى طرح اگر اسے اس سے زيادہ آيات ياد ہوں تو اس كى مقدار ميں دھرائے، اور يہ بھى محتمل ہے كہ وہ اس سورۃ كے علاوہ كسى اور سورۃ كى آيات پڑھ لے.
ليكن اگر اسے آيت كا كچھ حصہ ياد ہو تو اسے بار بار اور تكرار سے پڑھنا لازم نہيں، بلكہ وہ اسے چھوڑ كر كسى اور كو پڑھ لے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص كو جسے نماز صحيح طرح پڑھنى نہيں آتى تھى كو فرمايا كہ وہ " الحمد للہ " وغيرہ كہے، اور يہ آيت كا كچھ حصہ ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے يہ تكرار كے ساتھ پڑھنے كا حكم نہيں ديا.
اور اگر اسے سورۃ فاتحہ ميں سے كچھ بھى ياد نہ ہو، بلكہ قرآن كى كوئى اور سورۃ آتى ہو اگر طاقت ركھے تو اسى كو سورۃ فاتحہ كے حساب سے پڑھ لے، اس كے علاوہ كسى اور كو كافى نہيں ہوگا.
اس كى دليل ابو داود رحمہ اللہ تعالى كى درج ذيل حديث ہے:
رفاعہ بن رافع بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تو نماز كھڑا ہو، اگر كچھ قرآن ياد ہو تو وہ پڑھ لو، وگرنہ اللہ كى حمد بيان كرو، الحمد للہ، اور اس كى وحدانيت بيان كرتے ہوئے لا الہ الا اللہ كہو، اور اس كى تكبير بيان كرتے ہوئے اللہ اكبر كہو "
اور اس ليے بھى كہ يہ اس كى جنس سے ہے، تو يہ بالاولى پڑھا جا سكتا ہے، اور سورۃ فاتحہ كى آيات كى تعداد كے برابر پڑھنا واجب ہے...
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سسٹر میرا سوال ہے کہ کیا نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا کرنا جائز ہے
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ اپنے رب سے سجدہ میں قریب ہوتا ہے اس وقت رب سے کثرت سے مانگو
اب اگر کسی کو دعائیں عربی میں یاد نا ہوں تو وہ اپنی ربان میں دعا مانگ سکتا ہے ۔
اگر نہیں مانگ سکتا تو بھی وضاحت کریں
اگر مانگنے کا جواز ہے تو کیا فرض میں بھی یا نوافل میں ۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ معزز سسٹر اینڈ برادر
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ کے قریب ترین ہوتا ہے اور یہ موطن الاجابہ بھی ہے یعنی ایسی حالت ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے، ارشاد نبوی ہے:
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: ''اقرب ما یکون العبد من ربہ و ھو ساجدفاکثروا الدعاء ''
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''بندہ اپنے رب کے قریب ترین اسوقت ہوتا ہے جسوقت وہ سجدے کی حالت میں ہولہذا سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو''
صحیح مسلم، کتاب الصلاة باب ما یقال فی الرکوع و السجود رقم الحدیث :١١١١
ایک دوسری راویت میں ان الفاظ کی زیادتی بھی ہے:
''و اما السجود فاجتھدوا فی الدعاء فقمن ان یستجاب لکم''
ترجمہ: ''سجدے میں زیادہ سے زیادہ دعا کی کوشش کرو عین ممکن ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو جائے''
صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب النھی عن قراء ة القرآن فی الرکوع و السجود ، رقم الحدیث:١١٠٢
باقی رہا یہ مسئلہ کہ اپنی زبان میں دعا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس ضمن میں الشیخ مقبول احمدسلفی حفظہ اللہ کہتے ہیں
سجدۂ نماز میں عربی کے علاوہ کسی بھی زبان میں دعاء بھی نہیں کرسکتا۔عربی زبان میں دعا کیلئے بہتر اور افضل عمل یہی ہے کہ نماز میں بھی اپنی حاجات کو انہی دعاوں کی صورت میں اللہ کے حضور پیش کیاجائےجو سنت میں موجود ہوں۔بعض اہل علم نے کہا کہ جنہیں دعائیں وغیرہ یاد نہ ہو وہ فرض نماز کے سجدوں میں بھی اپنی زبان میں دعا مانگ سکتے مگر افضل یہی ہے کہ فرض نماز میں عربی کےعلاوہ غیر زبان میں دعا نہ مانگے جنہیں دعا یاد نہ ہو وہ یاد کرے اور یاد ہونے تک مندرجہ ذیل حدیث کے اذکار پڑھے
ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا: ميں قرآن مجيد سے كچھ ياد نہيں كرسكتا، لہذا آپ مجھے كوئى ايسى چيز ياد كرائيں جو ميرے ليے اس سے كفائت كر جائے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر، لاحول ولاقوۃ الا باللہ .. كہو"(ابوداؤد)
لیکن اگر نفل نماز ہو تو سجدے کی حالت میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگ سکتے ہیں اور سجدے کی حالت میں دعا کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فأما الركوع فعظموا فيه الرب واما السجود فاجتهدوا في الدعاء فقمن أن يستجاب لكم۔
جہاں تک رکوع کا معاملہ ہے تو اس میں اپنے رب کی تعظیم بیان کرو اور جہاں تک سجدے کی بات ہے تو اس میں دعا میں اہتمام کرو پس قریب و لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کی جائے گی۔
٭ اس روایت کو شیخ البانی نے صحیح الجامع :2746 میں ذکر کیا ہے
❖ • ─┅━━━━┅┄ • ❖
✍نماز کے اذکار و دعائیں مسنون پڑھنا افضل ہے ۔ لیکن اگر عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں دعاء کی جائے، تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی ہے، اور انسان کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کی جانے والی جو دعائیں منقول ہیں ان کو تلاش کرے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ان دعاؤں کو ان کے اپنے اپنے مقام پر پڑھے
بہرحال وہ شخص جو عربی پڑھنے پر قدرت نہ رکھے تو وہ مذکورہ چیزیں سوائے فاتحہ کو اپنی زبان میں کہتا ہے کیونکہ فاتحہ اور قرآن کو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں پڑھنا صحیح نہیں ہے، لہذا ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اس کی جگہ ( فاتحہ) سبحان اللہ الحمد للہ اور اللہ اکبر کہتا ہے؛ حديث عبد اللہ بن ابو اوفى رضی الله عنه کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ:
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا یا رسول اللہ! میں کچھـ بھی قرآن یاد نہیں کر سکتا اس لئے مجھـ کو کوئی ایسی چیز بتا دیجئے جو اس کے بدلہ میں میرے لئے کافی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پڑھو سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة الا بالله العلی العظيم۔
سنن نسائی،الافتتاح (924) ، سنن أبو داود،الصلاة (832) ، مسند أحمد بن حنبل (4/353)
اس حدیث کو احمد اور ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو ابن حبان اور دارقطنی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے،
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی/ فتاوی نمبر 5782/ 4211
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب لوگوں کو چاہیے کہ کتاب و سنت میں آنے والی دعاؤں کو اپنی دعا کا حصہ بنائیں؛ کیونکہ ان دعاؤں کی فضیلت، خوبصورتی اور ان کے صراطِ مستقیم پر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، علمائے کرام نے اور ائمہ دین نے شرعی دعائیں تفصیل سے بیان کرتے ہوئے بدعتی الفاظ والی دعاؤں کو مسترد کر دیا ہے اس لیے ان کی بتلائی ہوئی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شامل کرنا چاہیے"
" مجموع الفتاوى " ( 1 / 346 - 348 )
لیکن خارج از نماز کسی بھی زبان میں دعا مانگی جا سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ اپنی مادری زبان میں دعا مانگنے پر دل و دماغ بھی دعا میں حاضر ہوں گے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دعا عربی یا غیر عربی زبان میں مانگنا جائز ہے، اللہ تعالی دعا مانگنے والے کے ارادے اور مقصد کو جانتا ہے، اگر دعا مانگنے والے کی زبان ہی سیدھی نہیں ہے تو اللہ تعالی آوازوں کے شور وغل میں مختلف زبانوں والوں کی الگ الگ ضروریات مانگنے کو بھی جانتا ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 22 / 488 – 489 )
اس سلسلہ میں الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ کہتے ہیں
اگر کوئی شخص قدرت نہ ركھے، يا پھر وقت نكل جانے كا خدشہ ہو اور اسے سورۃ فاتحہ كى ايك ہى آيت آتى ہو تو وہ اسے سات بار دھرائے كر نماز ادا كرلے.
اور اسى طرح اگر اسے اس سے زيادہ آيات ياد ہوں تو اس كى مقدار ميں دھرائے، اور يہ بھى محتمل ہے كہ وہ اس سورۃ كے علاوہ كسى اور سورۃ كى آيات پڑھ لے.
ليكن اگر اسے آيت كا كچھ حصہ ياد ہو تو اسے بار بار اور تكرار سے پڑھنا لازم نہيں، بلكہ وہ اسے چھوڑ كر كسى اور كو پڑھ لے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص كو جسے نماز صحيح طرح پڑھنى نہيں آتى تھى كو فرمايا كہ وہ " الحمد للہ " وغيرہ كہے، اور يہ آيت كا كچھ حصہ ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے يہ تكرار كے ساتھ پڑھنے كا حكم نہيں ديا.
اور اگر اسے سورۃ فاتحہ ميں سے كچھ بھى ياد نہ ہو، بلكہ قرآن كى كوئى اور سورۃ آتى ہو اگر طاقت ركھے تو اسى كو سورۃ فاتحہ كے حساب سے پڑھ لے، اس كے علاوہ كسى اور كو كافى نہيں ہوگا.
اس كى دليل ابو داود رحمہ اللہ تعالى كى درج ذيل حديث ہے:
رفاعہ بن رافع بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تو نماز كھڑا ہو، اگر كچھ قرآن ياد ہو تو وہ پڑھ لو، وگرنہ اللہ كى حمد بيان كرو، الحمد للہ، اور اس كى وحدانيت بيان كرتے ہوئے لا الہ الا اللہ كہو، اور اس كى تكبير بيان كرتے ہوئے اللہ اكبر كہو "
اور اس ليے بھى كہ يہ اس كى جنس سے ہے، تو يہ بالاولى پڑھا جا سكتا ہے، اور سورۃ فاتحہ كى آيات كى تعداد كے برابر پڑھنا واجب ہے...
نو مسلم خاتون کیلئے سورہ فاتحہ پڑھنا مشکل ہے، کیا کرے؟
سوال: میں انگلش زبان بولتی ہوں اور یہی میری مادری زبان ہے، میں عربی زبان سیکھ رہی ہوں اور میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد سورہ فاتحہ بھی سیکھ لی ہے ، لیکن پھر بھی کچھ حروف کی ادائیگی مجھے سے نہیں ہوتی، اور کچھ کا تلفظ غلط ہے، میں نے کسی فقہی کتاب میں پڑھا ہے کہ جو نماز کے کسی ایک حرف میں غلطی کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے، میں اپنی تلاوت درست کرنے کیلئے ریکارڈ شدہ تلاوت سنتی ہوں، لیکن اس کے باوجود میں غلطی کرتی ہوں، اب یہاں تک بات پہنچ چکی ہے کہ میں بہت پریشان ہوں، نماز میں کئی بار رک کر صحیح تلفظ ادا کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ میں سورہ فاتحہ کو ایک سے زائد بار پڑھتی ہوں، مجھے کیا کرنا چاہے؟
جواب کا متن
الحمد للہ:
1- علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق سورہ فاتحہ کی تلاوت نماز کا رکن ہے، اور سورہ فاتحہ کی تلاوت امام، مقتدی، اور منفرد سب پر واجب ہے۔
چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص نماز پڑھتے ہوئے ام القرآن[سورہ فاتحہ کا نام] نہ پڑھے تو اسکی نماز ناقص ہے-آپ نے یہ بات تین بار فرمائی –ناقص ہے مکمل نہیں ہے)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں[تو کیا کریں؟] تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اپنے دل میں سورہ فاتحہ پڑھو"؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں نے نماز اپنے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے، اور میرے بندے کیلئے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے ، چنانچہ جب بندہ کہتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری حمد بیان کی"، اور جب بندہ کہتا ہے: اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"، اور جب بندہ کہتا ہے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی -راوی کہتا ہے کہ(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ) ایک بار یہ بھی کہا:" میرے بندے نے سب معاملے میرے سپرد کر دیے"-، اور جس وقت بندہ کہتا ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے، اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو یہ مانگے گا"، پھر جب بندہ کہتا ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 8* صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ میرے بندے کی [فریاد ]ہے، اور میرے بندے کیلئے وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا)مسلم: (395)
خداج کے معنی ناتمام کے ہیں اور نمازی کیلئے عربی زبان میں صحیح انداز سے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے؛ کیونکہ ہمیں قرآن مجید ایسے ہی پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے نازل ہوا ہے۔
2- جس کیلئے زبان میں کسی مسئلہ کی وجہ سے یا عجمی ہونے کی وجہ سے صحیح تلفظ ادا کرنا مشکل ہو تو ایسا شخص اپنی استطاعت کے مطابق عربی زبان سیکھے، اور تلفظ درست کرے۔
اور جو شخص ایسا کرنے کی استطاعت نہ رکھے تو اس سے یہ عمل ساقط ہو جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ کسی کام کا حکم نہیں دیتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں بناتا[البقرة : 286]
3- اور جو شخص بالکل سورہ فاتحہ نہیں پڑھ سکتا، یا سیکھنا اس کیلئے مشکل ہے، یا پھر ابھی اسلام قبول کیا اور نماز کا وقت ہوگیا ، اور اتنا وقت نہیں ہے کہ سورہ فاتحہ سیکھ لے، تو ایسے شخص کیلئے وضاحت حدیث کی روشنی میں درج ذیل ہے:
عبد اللہ بن ابو اوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:"اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دیں جو میرے لئے قرآن کے بدلے میں کافی ہو، کیونکہ مجھے پڑھنا نہیں آتا"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ) [ترجمہ: اللہ پاک ہے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، نیکی کرنے کی طاقت ، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر بالکل نہیں ہے]تو اس پر اس آدمی نے ہاتھ پکڑ کر کہا: "یہ تو سب میرے رب کیلئے ہے! میرے لئےکیا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم کہو: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي،وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِيْ) [یا اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق عطا فرما، اور عافیت سے نواز]تو اس پر اس شخص نے دوسرے ہاتھ کیساتھ سہارا لیا اور کھڑا ہوکر چل دیا۔
نسائی: (924) ، ابو داود :(832)، اس حدیث کو منذری نے "الترغيب والترهيب" ( 2 /430 ) میں جید کہا ہے، اور "التلخيص الحبير" ( 1/236 ) میں حافظ ابن حجر نے اس کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر قرآن مجید صحیح طرح نہیں پڑھ سکتا ، اور نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے اسے سیکھانا بھی ممکن نہیں ، تو ایسے شخص پر " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ " کہنا لازمی ہے ؛ کیونکہ ابو داود نے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:"اللہ کے رسول! میں قرآن مجید یاد نہیں کر سکتا، مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دیں جو میرے لئے قرآن کے بدلے میں کافی ہو"، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ) تو اس پر اس آدمی نے کہا: "یہ تو اللہ کیلئے ہے! میرے لئےکیا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم کہو: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي، وَاهْدِنِي ، وَعَافِنِيْ)
پہلے پانچ کلمات سے زیادہ پڑھنا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی پانچ کلمات پر اکتفا کیا تھا، اور مزید کلمات اسے تب سیکھائے جب اس نے مزید سیکھانے کا مطالبہ کیا" انتہی
اوراگرسورہ فاتحہ کا کچھ حصہ پڑھ سکتا ہو، اور کچھ نہ پڑھ سکے تو جتنی سورہ فاتحہ آتی ہے، اتنی پڑھنا ضروری ہے، اور جتنی سورہ فاتحہ آتی ہے اسے اتنی بار دہرائے کہ سورہ فاتحہ کی سات آیات کے برابر ہوجائے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات کا بھی احتمال ہے کہ صرف " اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " کہنا ہی کافی ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اگر تمہیں قرآن یاد ہو تو اسے پڑھ لو، وگرنہ " اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " ہی کہہ دو) ابو داود"
" المغنی " ( 1 / 289 ، 290 )
اگر سورةالفاتحہ پڑھنے سے عاجز ہو تو کیا کرے ؟
آپ نے سورہ فاتحہ کے کسی حرف میں غلطی پر نماز کے باطل ہوجانے کے بارے میں پڑھا ہے، تو اس کے بارے میں شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ کی وضاحت یہ ہےکہ سورہ فاتحہ کی ہر غلطی سے نماز باطل نہیں ہوتی، چنانچہ نماز اسی وقت باطل ہوگی جب سورہ فاتحہ کا کوئی لفظ چھوڑ دیا، یا اعراب تبدیل کردیا جس سے معنی بدل جائے، مزید برآں نماز کے باطل ہونے کا حکم ایسے شخص کے بارے میں جو سورہ فاتحہ کی صحیح تلاوت کرسکتا ہو، یا صحیح تلاوت سیکھ سکتا ہو، لیکن پھر بھی وہ نہ سیکھے تو اسکی نماز باطل ہوگی۔
تاہم اپنی تلاوت کو درست کرنے سے عاجز شخص اپنی استطاعت کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھے ، چنانچہ کسی غلطی کی صورت میں اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں دیتا، اور اہل علم کے ہاں یہ اصول مشہور و معروف ہے کہ عاجز شخص سے واجب ساقط ہو جاتا ہے"
دیکھیں: "المغنی": (2/154)
چنانچہ ایسی حالت میں اپنی استطاعت کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھے، اورپھر اس کے بعد " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " کہے تا کہ سورہ فاتحہ کا جو حصہ رہ گیا ہے اسکا عوض ہوجائے۔ دیکھیں: المجموع (3/375)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جو شخص سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے غلطیاں کرے تو کیا اس کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسی غلطی کرنا جس سے معنی تبدیل نہ ہو تو ایسے شخص کی نماز چاہے وہ امام ہویا منفرد درست ہوگی۔۔۔ اور اگر ایسی غلطی ہو جس سے معنی تبدیل ہوجائے، اور غلطی کرنے والے شخص کو غلطی کا علم بھی ہو، مثلاً: صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتُ عَلَيْهِمْ [انعمت کی ت پر پیش پڑھے، اس سے معنی یہ ہوگا کہ: جن پر میں تلاوت کرنے والے نے انعام کیا] اور غلطی کرنے والے شخص کو معلوم ہو کہ [ت پر پیش پڑھنے سے ضمیر متکلم بن جاتی ہے] ، تو ایسی صورت میں اسکی نماز درست نہیں ہوگی، اور اگر غلطی کرنے والے کو علم نہیں ہے کہ اس سے معنی تبدیل ہو رہا ہے، اور اسکا نظریہ یہی ہے کہ "ت" پر زبر کیساتھ ضمیر مخاطب کی ہے، تو ایسے شخص کی نماز کے بارےمیں اختلاف ہے، واللہ اعلم"انتہی
مجموع الفتاوى (22/443)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
سوال: میں انگلش زبان بولتی ہوں اور یہی میری مادری زبان ہے، میں عربی زبان سیکھ رہی ہوں اور میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد سورہ فاتحہ بھی سیکھ لی ہے ، لیکن پھر بھی کچھ حروف کی ادائیگی مجھے سے نہیں ہوتی، اور کچھ کا تلفظ غلط ہے، میں نے کسی فقہی کتاب میں پڑھا ہے کہ جو نماز کے کسی ایک حرف میں غلطی کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے، میں اپنی تلاوت درست کرنے کیلئے ریکارڈ شدہ تلاوت سنتی ہوں، لیکن اس کے باوجود میں غلطی کرتی ہوں، اب یہاں تک بات پہنچ چکی ہے کہ میں بہت پریشان ہوں، نماز میں کئی بار رک کر صحیح تلفظ ادا کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ میں سورہ فاتحہ کو ایک سے زائد بار پڑھتی ہوں، مجھے کیا کرنا چاہے؟
جواب کا متن
الحمد للہ:
1- علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق سورہ فاتحہ کی تلاوت نماز کا رکن ہے، اور سورہ فاتحہ کی تلاوت امام، مقتدی، اور منفرد سب پر واجب ہے۔
چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص نماز پڑھتے ہوئے ام القرآن[سورہ فاتحہ کا نام] نہ پڑھے تو اسکی نماز ناقص ہے-آپ نے یہ بات تین بار فرمائی –ناقص ہے مکمل نہیں ہے)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں[تو کیا کریں؟] تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اپنے دل میں سورہ فاتحہ پڑھو"؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں نے نماز اپنے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے، اور میرے بندے کیلئے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے ، چنانچہ جب بندہ کہتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری حمد بیان کی"، اور جب بندہ کہتا ہے: اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"، اور جب بندہ کہتا ہے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی -راوی کہتا ہے کہ(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ) ایک بار یہ بھی کہا:" میرے بندے نے سب معاملے میرے سپرد کر دیے"-، اور جس وقت بندہ کہتا ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے، اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو یہ مانگے گا"، پھر جب بندہ کہتا ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 8* صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ میرے بندے کی [فریاد ]ہے، اور میرے بندے کیلئے وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا)مسلم: (395)
خداج کے معنی ناتمام کے ہیں اور نمازی کیلئے عربی زبان میں صحیح انداز سے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے؛ کیونکہ ہمیں قرآن مجید ایسے ہی پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے نازل ہوا ہے۔
2- جس کیلئے زبان میں کسی مسئلہ کی وجہ سے یا عجمی ہونے کی وجہ سے صحیح تلفظ ادا کرنا مشکل ہو تو ایسا شخص اپنی استطاعت کے مطابق عربی زبان سیکھے، اور تلفظ درست کرے۔
اور جو شخص ایسا کرنے کی استطاعت نہ رکھے تو اس سے یہ عمل ساقط ہو جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ کسی کام کا حکم نہیں دیتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں بناتا[البقرة : 286]
3- اور جو شخص بالکل سورہ فاتحہ نہیں پڑھ سکتا، یا سیکھنا اس کیلئے مشکل ہے، یا پھر ابھی اسلام قبول کیا اور نماز کا وقت ہوگیا ، اور اتنا وقت نہیں ہے کہ سورہ فاتحہ سیکھ لے، تو ایسے شخص کیلئے وضاحت حدیث کی روشنی میں درج ذیل ہے:
عبد اللہ بن ابو اوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:"اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دیں جو میرے لئے قرآن کے بدلے میں کافی ہو، کیونکہ مجھے پڑھنا نہیں آتا"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ) [ترجمہ: اللہ پاک ہے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، نیکی کرنے کی طاقت ، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر بالکل نہیں ہے]تو اس پر اس آدمی نے ہاتھ پکڑ کر کہا: "یہ تو سب میرے رب کیلئے ہے! میرے لئےکیا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم کہو: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي،وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِيْ) [یا اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق عطا فرما، اور عافیت سے نواز]تو اس پر اس شخص نے دوسرے ہاتھ کیساتھ سہارا لیا اور کھڑا ہوکر چل دیا۔
نسائی: (924) ، ابو داود :(832)، اس حدیث کو منذری نے "الترغيب والترهيب" ( 2 /430 ) میں جید کہا ہے، اور "التلخيص الحبير" ( 1/236 ) میں حافظ ابن حجر نے اس کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر قرآن مجید صحیح طرح نہیں پڑھ سکتا ، اور نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے اسے سیکھانا بھی ممکن نہیں ، تو ایسے شخص پر " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ " کہنا لازمی ہے ؛ کیونکہ ابو داود نے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:"اللہ کے رسول! میں قرآن مجید یاد نہیں کر سکتا، مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دیں جو میرے لئے قرآن کے بدلے میں کافی ہو"، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ) تو اس پر اس آدمی نے کہا: "یہ تو اللہ کیلئے ہے! میرے لئےکیا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم کہو: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي، وَاهْدِنِي ، وَعَافِنِيْ)
پہلے پانچ کلمات سے زیادہ پڑھنا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی پانچ کلمات پر اکتفا کیا تھا، اور مزید کلمات اسے تب سیکھائے جب اس نے مزید سیکھانے کا مطالبہ کیا" انتہی
اوراگرسورہ فاتحہ کا کچھ حصہ پڑھ سکتا ہو، اور کچھ نہ پڑھ سکے تو جتنی سورہ فاتحہ آتی ہے، اتنی پڑھنا ضروری ہے، اور جتنی سورہ فاتحہ آتی ہے اسے اتنی بار دہرائے کہ سورہ فاتحہ کی سات آیات کے برابر ہوجائے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات کا بھی احتمال ہے کہ صرف " اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " کہنا ہی کافی ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اگر تمہیں قرآن یاد ہو تو اسے پڑھ لو، وگرنہ " اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " ہی کہہ دو) ابو داود"
" المغنی " ( 1 / 289 ، 290 )
اگر سورةالفاتحہ پڑھنے سے عاجز ہو تو کیا کرے ؟
آپ نے سورہ فاتحہ کے کسی حرف میں غلطی پر نماز کے باطل ہوجانے کے بارے میں پڑھا ہے، تو اس کے بارے میں شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ کی وضاحت یہ ہےکہ سورہ فاتحہ کی ہر غلطی سے نماز باطل نہیں ہوتی، چنانچہ نماز اسی وقت باطل ہوگی جب سورہ فاتحہ کا کوئی لفظ چھوڑ دیا، یا اعراب تبدیل کردیا جس سے معنی بدل جائے، مزید برآں نماز کے باطل ہونے کا حکم ایسے شخص کے بارے میں جو سورہ فاتحہ کی صحیح تلاوت کرسکتا ہو، یا صحیح تلاوت سیکھ سکتا ہو، لیکن پھر بھی وہ نہ سیکھے تو اسکی نماز باطل ہوگی۔
تاہم اپنی تلاوت کو درست کرنے سے عاجز شخص اپنی استطاعت کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھے ، چنانچہ کسی غلطی کی صورت میں اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں دیتا، اور اہل علم کے ہاں یہ اصول مشہور و معروف ہے کہ عاجز شخص سے واجب ساقط ہو جاتا ہے"
دیکھیں: "المغنی": (2/154)
چنانچہ ایسی حالت میں اپنی استطاعت کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھے، اورپھر اس کے بعد " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " کہے تا کہ سورہ فاتحہ کا جو حصہ رہ گیا ہے اسکا عوض ہوجائے۔ دیکھیں: المجموع (3/375)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جو شخص سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے غلطیاں کرے تو کیا اس کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسی غلطی کرنا جس سے معنی تبدیل نہ ہو تو ایسے شخص کی نماز چاہے وہ امام ہویا منفرد درست ہوگی۔۔۔ اور اگر ایسی غلطی ہو جس سے معنی تبدیل ہوجائے، اور غلطی کرنے والے شخص کو غلطی کا علم بھی ہو، مثلاً: صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتُ عَلَيْهِمْ [انعمت کی ت پر پیش پڑھے، اس سے معنی یہ ہوگا کہ: جن پر میں تلاوت کرنے والے نے انعام کیا] اور غلطی کرنے والے شخص کو معلوم ہو کہ [ت پر پیش پڑھنے سے ضمیر متکلم بن جاتی ہے] ، تو ایسی صورت میں اسکی نماز درست نہیں ہوگی، اور اگر غلطی کرنے والے کو علم نہیں ہے کہ اس سے معنی تبدیل ہو رہا ہے، اور اسکا نظریہ یہی ہے کہ "ت" پر زبر کیساتھ ضمیر مخاطب کی ہے، تو ایسے شخص کی نماز کے بارےمیں اختلاف ہے، واللہ اعلم"انتہی
مجموع الفتاوى (22/443)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
No comments:
Post a Comment