find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

SamiAllahu Laman hamida (سمع اللّہ لمن حمدہ) Ke Jawab me Muqtadi Ko Kya kahna Chahiye?

Emam Jab SamiAllahu laman Hamida kahe to Muqtadi ko kya Kahna Chahiye?
امام جب سمع اللّہ لمن حمدہ کہتا ہے ہم کو بھی یہی پڑھنا چاہیے پیچھے ؟

جواب تحریری
لحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محدثین کی اصطلاح میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کو تسمیع اور ربنا ولک الحمد کو تحمید کہا جاتا ہے۔ عام طور پر نمازی کی تین حالتیں ہوتی ہیں: امام، مقتدی اور منفرد، محدثین کا موقف ہے کہ امام، مقتدی اور منفرد تینوں حضرات تسمیع اور تحمید میں شریک ہوں۔ احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ علامہ شوکانی نے امام شافعی، امام مالک، عطاء بن ابی رباح، ابوداؤد، ابوبردہ، محمد بن سیرین، اسحاق بن راھویہ اور امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم کا یہی موقف بیان کیا ہے۔ (نیل الاوطار،ص276،ج2) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: امام اور مقتدی جب رکوع سے سر اٹھائیں تو کیا کہیں۔ (بخاری،الاذان،باب 124)

پھر آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو اللهم ربنا ولك الحمد بھی کہتے۔ (صحیح بخاری،الاذان:795)

ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے پھر جب رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو جب سیدھے کھڑے ہو جاتے تو ربنا ولک الحمد کہتے۔ (بخاری،الاذان:789) البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو۔ (صحیح بخاری،الاذان:732) اس حدیث سے بعض حضرات نے استنباط کیا ہے کہ مقتدی کو سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہئے، لیکن یہ استنباط کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے۔

اولا: اس استنباط کا مطلب یہ ہے کہ امام کو ربنا ولک الحمد نہیں کہنا چاہئے، حالانکہ ایسا کرنا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔

ثانیا: اس حدیث کا قطعا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس موقع پر امام اور مقتدی کو کیا کہنا چاہئے بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مقتدی ربنا ولک الحمد کب کہے یعنی وہ امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ربنا ولک الحمد کہے تاکہ یہ کلمات اس وقت کہنے سے گناہوں سے معافی کا اعزاز مل جائے کیونکہ اس وقت فرشتے بھی نمازیوں کے ساتھ یہ کلمات کہتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے "جس کے یہ کلمات فرشتوں کے قول کے موافق ہو گئے اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری،الاذان:796)

ثالثا: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں بیان شدہ معاملہ درج ذیل حدیث کی طرح ہے جب غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے سابقہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (بخاری،الاذان،782)

اس حدیث کا قطعا یہ مقصد نہیں ہے کہ مقتدی ولا الضالین نہ پڑھے بلکہ صرف آمین کہے یا ولا الضالین پڑھے اور آمین نہ کہے، بلکہ اس حدیث میں آمین کہنے کا وقت اور محل متعین کیا گیا ہے۔ اس طرح درج بالا حدیث انس رضی اللہ عنہ کا مطلب ہے کہ مقتدی کو ربنا ولک الحمد اس وقت کہنا چاہئے جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہنے سے فارغ ہو جائے۔ اگرچہ امام ابوداؤد نے جناب عامر بن شرجیل کا موقف بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ لوگوں کو امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہئے بلکہ وہ صرف ربنا ولک الحمد کہیں (ابوداؤد،الصلوٰۃ:849) لیکن ان شاءاللہ پہلی بات ہی راجح اور عموم احادیث کے مطابق ہے۔ چنانچہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں کہ مقتدی، امام کے ساتھ سمع اللہ لمن حمدہ کہنے میں شریک نہ ہو، جیسا کہ اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ امام، مقتدی کے ساتھ ربنا ولک الحمد نہ کہے، کیونکہ یہ حدیث اس بات کو بیان کرنے کے لیے نہیں لائی گئی کہ اس موقع پر امام اور مقتدی کیا پڑھیں بلکہ حدیث کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مقتدی کا ربنا ولک الحمد کہنا امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد ہونا چاہئے۔ اس بات کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام ہونے کے حالت میں بھی ربنا ولک الحمد کہتے تھے۔ اس طرح حدیث "صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی" کا بھی تقاضا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح سمع اللہ لمن حمدہ کہے۔ (حاشیہ صفۃ الصلوٰۃ،ص141) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید لکھا ہے کہ جو اس مسئلہ میں زیادہ معلومات چاہتا ہے اسے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ "دفع التشنیع فی حکم التسمیع" کا مطالعہ کرنا چاہئے جو الحاوی للفتاویٰ ص 529، ج 1 میں ہے۔ (واللہ اعلم)

ہم بطور تائید یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو مقتدی بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہتے، اگرچہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ ثابت نہیں ہیں۔ (سنن دار قطنی،ص339،ج1) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف "صفۃ الصلوٰۃ" میں اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ (ص677،ج2)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS