Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*حسن بن صباح*اور اسکی*مصنوعی جنت*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀۔
*قسط نمبر/16*
🌴🌴🌴🌴🌴🌴۔
داستان گو نے ابتدا میں یہاں تک ہی سنایا تھا کہ حسن بن صباح سلجوقی سلطنت کی انتظامیہ میں کس طرح داخل ہوا تھا، وہ جو اس نے نظام الملک کو درد بھری داستان سنائی تھی وہ جھوٹ تھا، وہ مصر نہیں گیا تھا نہ اس نے ذریعہ معاش کی تلاش کی تھی، نہ وہ تنگدست رہا تھا ،یہ سنایا جاچکا ہے کہ وہ اپنے استاد عبد الملک بن عطاش کے یہاں چلا گیا تھا ،جس نے اس کی تربیت شروع کر دی تھی، پھر اسے احمد بن عطاش کے پاس بھیج دیا تھا ،فرح اس کے ساتھ گئی تھی۔
اس نے خلجان کا شہر لے لیا تھا، اور یہ کامیابی حاصل کی تھی کہ لوگوں نے اسے خدا کا ایلچی یا خدا کی بھیجی ہوئی برگزیدہ شخصیت مان لیا تھا ،اس کے بعد وہ نظام الملک کے پاس گیا اور اس کے آگے یہ رونا رویا تھا کہ وہ اتنا عرصہ بے روزگار اور تنگ دست رہا ہے ۔
حسن بن صباح کو نظام الملک کس طرح یاد آیا تھا؟
ہر مستند تاریخ میں اس سوال کا جواب موجود ہے، احمد بن عطاش نے شاہ در کا شہر اور قلعہ دھوکے میں لے لیا تھا، پھر حسن بن صباح نے فریب کاری سے خلجان کے امیر صالح نمیری سے تحریر لے کر اسے خزانے کا رستہ دکھا دیا اور وہ موت کے منہ میں چلا گیا، یہ شہر بھی ان باغیوں کے قبضے میں آ گیا ،اب یہ دونوں باتیں سوچنے لگے کہ اس سے آگے کیا کیا جائے؟
تم نے دیکھ لیا ہے حسن !،،،،،احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔لوگوں کو اپنے جال میں لانا کوئی مشکل نہیں ،لوگ افواہ ،سنسنی، اور پراسراریت سے متاثر ہوتے ہیں۔
اور وہ زبان کے ہیر پھیر کا اثر قبول کرتے ہیں۔۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
اور ان لوگوں کے امراء اور سردار وغیرہ کا معاملہ ذرا الگ ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ انہیں یہ تاثر دے دو کہ تم لوگوں کے روزی رساں ہو، اور انہیں دولت اور عورت کی جھلک دکھا دو، پھر یہ تمہارے غلام ہو جائیں گے ،لیکن لوگوں کو ساتھ لے کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ حکومت سلجوقیوں کی ہے اور سلجوقی اہل سنت ہیں۔
ہم لوگوں کو اپنے اثر میں لے کر انہیں سلجوقیوں کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔
نہیں حسن !،،،،احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ اس کے لیے کم از کم دو سال کا عرصہ چاہیے اور اس حقیقت کو کبھی نہ بھولنا کے سلجوقی ترک ہیں اور بڑے ظالم اور جنگجو ہیں، ان کے پاس فوج ہے اس وقت ضرورت یہ ہے کہ جس طرح ہم نے شاہ در اور خلجان لے لیا ہے اسی طرح سلجوقیوں کی سلطنت پر قبضہ کرلیں۔
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا حسن!،،،، احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔عزم پختہ، مقصد واضح ،اور دماغ حاضر ہونا چاہیے، ہمیں ان سلاطین کی انتظامیہ میں گھس جانا چاہیے، یہ کام تم کر سکتے ہو ،میں تمہیں ایک نیا محاذ دے رہا ہوں۔
میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں استاد محترم!،،،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ مجھے یہ بتائیں میں نے کرنا کیا ہے ۔
میرے جاسوسوں نے مجھے ایک اطلاع دی ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔خواجہ حسن طوسی سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم بن گیا ہے ،یہ تو مجھے کبھی کا معلوم تھا کہ اسے سلطان ملک شاہ نے اپنا وزیر بنا لیا ہے، لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں، وزیراعظم بن جانا بہت بڑی بات ہے، یہی نہیں مجھے اطلاع ملی ہے کہ سلطان ملک شاہ اس سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اسے نظام الملک کا خطاب دیا ہے۔
استاد محترم !،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔۔۔ وہ تو وزیراعظم بن گیا ہے، یہ بتائیں میں نے کیا کرنا ہے، کیا اسے قتل کرانا ہے؟
قتل بعد کی بات ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ ہمارے راستے میں جو آئے گا وہ قتل ہو گا ،ابھی یہ کرنا ہے کہ اس کی جگہ لینی ہے، کیا تمہیں یاد نہیں کہ خواجہ حسن طوسی تمہارا ہم جماعت تھا۔
ہاں میرے مرشد !،،،،،حسن بن صباح نے اچھل کر کہا ۔۔۔یہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔
میں یہ بھی جانتا ہوں تم کیوں بھول گئے تھے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔مدرسے سے نکلتے ہی تمہیں عبدالملک بن عطاش کے حوالے کر دیا گیا تھا ،پھر تمھاری سرگرمیاں ایسی رہی کہ تمہیں اور کچھ یاد آ ہی نہیں سکتا تھا۔
مجھے کچھ اور بھی یاد آ گیا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ مدرسے میں ہم تین دوست تھے، عمر ،خواجہ حسن اور میں، ہم نے معاہدہ کیا تھا کہ مدرسے سے فارغ ہو کر ہم میں سے کسی کو کہیں بڑا عہدہ مل گیا تو وہ دونوں کو کسی اچھے عہدے پر فائز کرائے گا ،میرا کام تو آسان ہوگیا ،کل صبح روانہ ہو جاؤں گا اور خواجہ حسن کو اس کا وعدہ یاد دلاؤں گا۔
دیکھا حسن !،،،،،احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔ہمارا ہر کام آسان ہوتا چلا جا رہا ہے، یہ ثبوت ہے کہ ہم حق پر ہیں ،اور خدا ہماری مدد کر رہا ہے، یہ بھی یاد رکھو کہ سلطان ملک شاہ اب نیشاپور میں نہیں اب اس کا دارالحکومت مَرو میں ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اگلی صبح کا دھندلکا ابھی خاصا گہرا تھا جب حسن بن صباح اپنے اعلیٰ عربی نسل کے گھوڑے کی بجائے معمولی سے ایک گھوڑے پر سوار ہوا ،اس کا لباس بھی ایک عام آدمی کا لباس تھا ،ایسے گھوڑے اور ایسے لباس میں وہ غریب آدمی لگتا تھا، اس کے ساتھ ایک گھوڑا اور تھا جس پر ایک جوان اور بڑی ہی دلکش لڑکی تھی، اس کا لباس بھی غریبانا تھا۔
یاد رکھنا حسن!،،،،، احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ اپنے آپ کو اہل سنت ظاہر کرنا ہے، اور جمعہ کے روز مسجد میں چلے جایا کرنا ،اگر تمہیں وہاں کوئی اچھا رتبہ مل گیا تو سلطان ملک شاہ کا منظور نظر بننے کی کوشش کرنا ،اور اس کے ساتھ یہ بھی دیکھتے رہنا کے نظام الملک کو تم سلطان کی نظروں سے کس طرح گرا سکتے ہو، ایک بار وزارت کا عہدہ لے لو پھر سلجوقی سلطنت میں ہماری زمین دوز کاروائیاں شروع ہوجائیں گی، جاسوس کے ذریعے میرا تمہارے ساتھ رابطہ قائم رہے گا، ایک بار پھر سوچ لو کہ اس لڑکی کو تم نے اپنی بیوہ بہن ظاہر کرنا ہے، یہ بات تو ہو چکی ہے کہ اس لڑکی کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی سازش یہ تھی کہ نظام الملک کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرکے اسے معزول کرانا اور اس کی جگہ حسن بن صباح نے لینی ہے، اور پھر بڑے عہدوں پر اپنے آدمی فائز کروانے ہیں، اور سلطنت کی جڑیں کھوکھلی کر کے عالم اسلام کو اپنے فرقے کے تابع کرنا ہے۔
یہاں ایک غلط فہمی کی وضاحت ہو جائے تو بہتر ہے، ایک مقام تک ان لوگوں کی تبلیغ سے پتہ چلتا تھا کہ یہ اسماعیلی عقیدے کے لوگ ہیں ،لیکن شاہ در سے نکل کر انہوں نے جب خلجان کا رخ کیا اور نئی سے نئی تخریب کاریاں کرنے لگے تو واضح ہو گیا کہ یہ لوگ فرقہ باطنیہ سے تعلق رکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا ہی ایک فرقہ بناتے چلے جا رہے تھے ،لہذا حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کو کسی فرقے سے منسوب کرنا صحیح نہیں۔
داستان گو ایک بات اور کہنا چاہتا ہے، اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ حسن بن صباح ایک افسانوی کردار ہے، اور قلعہ المُوت میں اس کی خود ساختہ جنت کا بھی حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اور یہ الف لیلی کی ایک داستان ہے۔
ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ داستان اگر خیالی ہوتی تو ابن خلدون جیسا مورخ اسے تاریخ کے دامن میں نہ ڈالتا، ابن اثیر اور ابن جوزی اس کا ذکر نہ کرتے۔ درجنوں مستند مورخوں نے حسن بن صباح اور اس کی جنت کا تفصیلی ذکر کیا ہے، یوروپی مورخوں نے تو اور زیادہ تحقیق کر کے یہ حالات قلم بند کیے ہیں۔
اس باب میں ان عظیم شخصیتوں کے نام دیے گئے ہیں جو حسن بن صباح کے پیروکاروں کے ہاتھوں قتل ہوئے ،اس فہرست کو دیکھ کر بتائیں کہ یہ شخصیات افسانوی ہیں؟
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
داستان گو آپ کو مرو لے چلتا ہے جہاں حسن بن صباح پہنچ چکا ہے اور نظام الملک کے پاس بیٹھا ہے ،وہ نظام الملک کو بتا چکا ہے کہ فاطمہ اس کی بہن ہے جو جوانی کی عمر میں ہی بیوہ ہو گئی ہے، نظام الملک نے اس کی بہن کو اپنی بیوی کے پاس بھیج دیا ہے۔
حسن بن صباح نے نظام الملک کو مدرسے کے زمانے کا وعدہ یاد دلادیا اور بڑی ہی دردناک اور اثر انگیز لہجے میں اپنی بے روزگاری اور بدحالی کا قصہ سنایا۔
میں تمہیں مجبور نہیں کرسکتا خواجہ !،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ تم وزیراعظم ہو اور میں تمہاری رعایا کا ایک نادار آدمی ہوں، میں یہ ضرور کہوں گا کہ تم ان مومنین میں سے ہوں جو زہد اور تقوی کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں، تم جیسے زاہد اور متقی اپنے وعدے پورے کیا کرتے ہیں،،،، وہ جانتے ہیں کہ وعدہ خلافی گناہ ہے،،،، یہ بھی سوچو کہ میں نے اتنا ہی علم حاصل کیا ہے جتنا تم نے کیا ہے، لیکن تم وزیراعظم ہو اور میں دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتا۔
اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہو حسن!،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔میں اپنا صرف وعدہ ہی پورا نہیں کروں گا بلکہ تمہیں اپنی ذاتی املاک کا بھی برابر کا حصہ سمجھوں گا ۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نظام الملک نے سلطان ملک شاہ کو حسن بن صباح کی شخصیت اور علمی قابلیت کی ایسی تصویر دکھائی کہ سلطان نے اسے معتمد خاص کا رتبہ دے دیا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ یہ عہدہ وزیر کے برابر تھا۔ لیکن حسن بن صباح ایسا رتبہ چاہتا تھا جس میں وہ آزادانہ فیصلے کر سکتا۔
*نظام الملک اپنے آستین میں ایک سانپ پالنے لگا*
تقریباً تمام تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے نظام الملک کو سلطان کی نظروں میں گرانے کے لیے یہ طریقہ سوچا کہ ان اہم رتبوں والے عہدےداروں کو ہاتھ میں لے لیا جائے جن کی بات سلطان توجہ اور دلچسپی سے سنتا ہے، ان میں ایک احتشام مدنی تھا جو سلطان کے تین مشیروں میں سے تھا، ادھیڑ عمر آدمی تھا، پابند صوم وصلاۃ بھی تھا۔ احتشام مدنی شام کے وقت شہر کے ایک باغ میں چہل قدمی کرنے کے لئے جایا کرتا تھا،
ایک شام وہ حسب معمول ٹہل رہا تھا کہ ایک جواں سال لڑکی اس کے سامنے اچانک آگئی، اور جھجک کر ایک طرف ہوگئی، باغ خاص قسم کے لوگوں کے لیے مخصوص تھا ،اس لڑکی کو احتشام مدنی نے پہلی بار دیکھا تھا لڑکی کسی عام سے گھرانے کی نہیں لگتی تھی۔ احتشام مدنی نے دیکھا کہ لڑکی اچانک سامنے آ جانے سے کچھ گھبرا گئی تھی اور اس پر حجاب طاری ہو گیا تھا، ویسے بھی یہ لڑکی اسے بہت اچھی لگی، اس نے لڑکی کو بلا کر پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیوں آئی ہے؟ میں حسن بن صباح کی بہن ہوں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔
حسن بن صباح ؟،،،،،احتشام مدنی نے پوچھا، اور خود ہی بولا ۔۔۔اچھا" اچھا" وہ حسن بن صباح جو چند دن پہلے سلطان کے معتمد خاص مقرر ہوئے ہیں۔
یہ احتشام مدنی اور اس لڑکی کی پہلی ملاقات تھی، بیان ہو چکا ہے کہ یہ لڑکی حسن بن صباح کی بہن نہیں تھی، نہ اس کا نام فاطمہ تھا، نہ ہی وہ بیوہ تھی، اس نے باتوں باتوں میں احتشام مدنی کو بتایا کہ وہ بیوہ ہے اس لئے بھائی اسے ساتھ لے آیا ہے، اس سے احتشام مدنی کے دل میں اس لڑکی کی ہمدردی پیدا ہوگئی، لڑکی نے ایسے انداز سے باتیں کیں جیسے وہ احتشام مدنی کی شخصیت سے متاثر ہو گئی ہو ،احتشام مدنی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ لڑکی حسن بن صباح اور احمد بن عطاش جیسے باطنیوں کی تربیت یافتہ ہے ،اور یہ انسان کے روپ میں آئی ہوئی زہریلی ناگن ہے۔
وہ جب وہاں سے چلی تو احتشام مدنی جیسے زاہد اور پارسا نے اپنے دل میں دھچکہ سا محسوس کیا ،اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ یہ لڑکی اسے ایک بار پھر ملے۔
لڑکی اسے پھر مل گئی، اور پہلے روز سے زیادہ بے تکلفی کی باتیں کیں، وہ ظاہر یہ کرتی تھی کہ بیوگی نے اسے مغموم اور رنجیدہ کر رکھا ہے، اس طرح اس نے احتشام مدنی کے دل میں اپنی ہمدردی پیدا کر لی۔
پھر اسی باغ میں شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد ان دونوں کی کئی بار ملاقات ہوئیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ لڑکی نے احتشام مدنی کو ایک روز اپنے گھر بلا لیا، لڑکی نے اسے کہا تھا کہ حسن بن صباح صبح چلا جاتا ہے اور شام کو واپس آتا ہے، یہ لڑکی تربیت کے مطابق احتشام مدنی پر ایک نشہ بن کر غالب آگئی تھی، اس حد تک کہ صوم و صلوۃ کا پابند یہ معزز شخص اپنا آپ فراموش کر بیٹھا۔
دن کے وقت وہ اس لڑکی کے گھر میں اس کے حسن و شباب سے مخمور اور مدہوش ہوا جارہا تھا کہ صحن میں کسی کے قدموں کی آہٹ نے اسے چونکا دیا ۔
یہ کون ہے؟،،،،،، احتشام مدنی نے گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا ۔
خادم ہوگا ۔۔۔لڑکی نے بڑے اطمینان سے کہا۔۔۔ میں دیکھتی ہوں۔
پیشتر اس کے کہ لڑکی باہر نکلتی حسن بن صباح کمرے میں داخل ہوا ،احتشام مدنی جیسے مومن آدمی کو اپنی بہن کے ساتھ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا ،احتشام مدنی اس کے سامنے کھڑا کانپ رہا تھا۔
میں تم دونوں کو سنگسار کراؤں گا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں باھر دروازہ بند کرکے سلطان کے پاس جا رہا ہوں،،، حسن بن صباح دروازے کی طرف بڑھا تو لڑکی اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی اور رو رو کر کہنے لگی کہ اس نے اس شخص کو نہیں بلایا تھا۔
پھر یہ میرے گھر میں کس طرح آ گیا؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
یہ خود ہی آیا تھا ۔۔۔لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ اور اس نے میرے ساتھ اور محبت کی باتیں شروع کردیں، اچھا ہوا کہ تم آگئے اور میں اس کی دست درازی سے بچ گئی ۔
احتشام مدنی نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس لڑکی نے اسے خود بلایا تھا ،کچھ دیر یہی جھگڑا چلتا رہا۔
حقیقت کچھ بھی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے گھر میں میری بہن کے پاس بری نیت سے آئے بیٹھے ہو ،میں سلطان کو ضرور بتاؤں گا۔
احتشام مدنی صرف معزز آدمی ہی نہیں تھا بلکہ وہ سلطان ملک شاہ کا پسندیدہ مشیر بھی تھا ،اس کی جان چلی جاتی تو وہ قبول کر لیتا، لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سلطان اسے معزول کر کے نکال دے اس صورت میں اس کی جو بےعزتی اور بدنامی ہونی تھی اس کے تصور سے ہی وہ کانپ اٹھا، اس نے حسن بن صباح کی منت سماجت شروع کر دی کہ وہ اسے معاف کردے ،لڑکی نے بھی حسن بن صباح سے کہا کہ یہ آخر معزز آدمی ہے اسے بخش دیا جائے۔
حسن بن صباح گہری سوچ میں چلا گیا جو دراصل اداکاری تھی، سوچ سے بیدار ہو کر اس نے احتشام مدنی کا بازو پکڑا اور اسے دوسرے کمرے میں لے گیا ،جب وہ دونوں باہر نکلے تو احتشام مدنی کے چہرے پر رونق عود کر آئی تھی، حسن بن صباح نے اس کے ساتھ سودا بازی کر لی تھی، جو مختصرا یہ تھی کہ احتشام مدنی نظام الملک کے خلاف حسن بن صباح کا ساتھ دے گا۔
یہ شخص حسن بن صباح کا پہلا شکار تھا جسے اس نے نظام الملک کو سلطان کی نظروں سے گرانے میں استعمال کرنا تھا۔
*<======۔===========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔17۔میں پڑھیں*
*<========۔=========>*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
No comments:
Post a Comment