find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 13)

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 13)
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*حسن بن صباح*اور اسکی*مصنوعی جنت*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀۔
*قسط نمبر/13*
🌴🌴🌴🌴🌴🌴۔
اب داستان گو کے ساتھ آئیں وہ آپ کو اس ٹیکری پر لے چلتا ہے جہاں بارہ چودہ سرکردہ افراد حسن بن صباح کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، لوگوں کے ہجوم کو حکم دے دیا گیا تھا کہ وہ بہت دور چلے جائیں، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ سرکردہ افراد مرعوبیت کی کیفیت میں تھے اور ان پر دھونی کا اور حسن بن صباح کی نظروں کا بھی اثر تھا ،ان پر مجموعی طور پر ایسی کیفیت طاری تھی جیسے وہ اس لیے سانس لے رہے ہیں کہ حسن بن صباح سانس لے رہا تھا، اگر حسن بن صباح کے سانسوں کا سلسلہ رک جاتا تو یہ لوگ بھی اپنی سانسیں روک لیتے۔
تم ان لوگوں کے سردار ہو۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔یہ گھوڑے ہیں، اور یہ مویشی ہیں تم جدھر چاہو انہیں ہانک کر لے جا سکتے ہو، میں تمہارے لئے اور مخلوق خدا کے لیے خوش بختی اور خوشحالی لے کر آیا ہوں، آج تک جتنے مذہب آئے ہیں انہوں نے انسانوں کو نظریے عقیدے اور پابندیاں دی ہیں ،لیکن خوش بختی اور خوشحالی کوئی مذہب نہیں دے سکا، مذہب صرف اسلام ہے لیکن اسلام بھی تم تک صحیح شکل میں نہیں پہنچا ،میں تمہیں اس عظیم مذہب کی صحیح شکل دکھاتا ہوں، تم نے صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے اپنے قبیلے کو لگام ڈال کر اس راستے پر چلانا ہے جو راستہ خدا نے مجھے دکھا کر زمین پر اتارا ہے۔
حسن بن صباح نے اسماعیلی مسلک کی تبلیغ شروع کردی اور ان سرداروں کو ایسے سبز باغ دکھائے کہ وہ اس کے قائل ہوگئے ۔
اب تمہارے پاس میرے مبلغ آئیں گے ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔تمہارا فرض ہے ان مبلغوں کی مدد کرنا اور لوگوں کو اس مسئلہ پر متحد کرنا،،،،،، کیا تم یہ کام کرو گے؟
ہاں اے قابل احترام ہستی!،،،،، ایک معمر سردار نے کہا۔۔۔ ہم یہ کام کریں گے۔
ہم تمہارے حکم پر جان قربان کردیں گے۔
ہمیں آزما کے دیکھ۔
ایسی ہی آوازیں تھیں جو ان بارہ چودہ سرداروں کے سینوں سے پرجوش طریقے سے نکلیں، حسن بن صباح پہلی ہی بار بغیر کسی دقت کے کامیاب ہوگیا، یہ صرف اس علاقے اور چند ایک بستیوں کا معاملہ تھا ،اگلے ہی روز اس نے چند ایک مبلغ جنہیں احمد بن عطاش نے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا ان بستیوں میں پھیلا دیے اور ایک نئے فرقے کی تبلیغ شروع ہو گئی۔
لوگ یہ مطالبہ کرنے لگے کہ حسن بن صباح ان کے علاقے میں آئے، اپنی زیارت کرائے اور انہیں خدا کی باتیں سنائے، حسن بن صباح ایک اور علاقے میں اسی شان و شوکت سے جس شان و شوکت سے اس نے پہلی بار زیارت کروائی تھی ایک اور علاقے میں بڑے ہی ڈرامائی اور پراسرار طریقے سے اپنی زیارت کروائی، اس کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی، لوگوں نے حسب عادت اسکے متعلق ایسی ایسی باتیں مشہور کر دی تھیں جو محض زیب داستان تھیں۔
بھولے بھالے لوگوں نے جب بھی دھوکا کھایا ہے وہ اپنی اسی فطری عادت کی وجہ سے کھایا ہے کہ جس سے متاثر ہوئے اسے پیغمبری کا درجہ دے دیا، اور اس کی عام سی باتوں کو اس طرح پھیلایا جیسے یہ باتیں ان سے براہ راست خدا نے کی ہوں۔ لوگ ان کے من گھڑت معجزے بھی بیان کرتے ہیں ، یہ پسماندگی کے اس دور میں بھی ہوا اور یہ آج بھی ہو رہا ہے جب انسان ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷==÷=÷*
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ قلعہ شاہ در پر احمد بن عطاش نے کس طرح قبضہ کیا تھا، اب آگے ایک اور قلعہ تھا جس کا نام خلجان تھا۔اس قلعے کے امیر کا نام صالح نمیری تھا، اس وقت اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی ،وہ بہت دنوں سے سن رہا تھا کہ اس علاقے میں ایک شخصیت کا ظہور ہوا ہے، شاہ بلوط کے درخت میں چمکنے والے ستارے کے متعلق بھی خبریں صالح نمیری تک پہنچی تھیں۔
یہ ساری باتیں خلجان کے لوگوں تک بھی پہنچی تھیں، اور کئی لوگ اس جگہ آئے بھی تھے جہاں ستارہ دیکھنے کے لیے لوگ جو موجود رہتے تھے، حسن بن صباح جب لوگوں کے سامنے آیا تو خلجان کے کچھ لوگ اس کی زیارت کو آئے تھے، وہ بھی وہی مرعوبیت لے کر گئے تھے جو ہر کسی پر طاری ہو گئی تھی، انہوں نے خلجان میں جا کر لوگوں کو ایسے دلفریب انداز میں حسن بن صباح کا ظہور اور اسکی باتیں سنائی کہ لوگ حسن بن صباح کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہونے لگے، کچھ اور لوگ حسن بن صباح کی زیارت کو چل پڑے۔
صالح نمیری اپنے دوستوں اور مشیروں سے پوچھتا رہتا تھا کہ یہ سب کیا ہے، ابتدا میں اسے یہی بتایا جاتا رہا کہ یہ کوئی ویسا ہی آدمی معلوم ہوتا ہے جیسے پہلے بھی نبی اور پیغمبر بن کر آچکے ہیں، یہ کوئی نیا نبی ہوگا، لیکن شہر میں حسن بن صباح کے چرچے ہونے لگے یہ آوازیں صالح نمیری کے کانوں تک پہنچی اس نے اپنے مشیروں کو بلایا۔
یہ میں کیا سن رہا ہوں ؟،،،،،صالح نمیری نے کہا ۔۔۔مجھے اطلاع ملی ہے کہ شہر کے بچے بچے کی زبان پر اس کا نام ہے جو آسمان سے اترا ہے، اور اس کی روح میں ستارے کی روشنی ہے۔
ہاں آقا!،،،،، ایک مشیر نے کہا ۔۔۔آپ کو جو خبریں ملی ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے،لوگ اسے دیکھ بھی آئے ہیں، بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ زمین کی نہیں آسمان کی مخلوق ہے۔
ایک خبر میں نے بھی سنی ہے ۔۔۔محفل میں بیٹھے ہوئے ایک اور آدمی نے کہا ۔۔۔میں نے سنا ہے کہ اس کے مبلغ اس سارے علاقے میں پھیل گئے ہیں، اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اس کے دو تین مبلغ کل یہاں بھی پہنچ رہے ہیں۔
خیال رکھو!،،،،،، صالح نمیری نے حکم کے لہجے میں کہا ۔۔۔یہ مبلغ آئیں تو انہیں سیدھا میرے پاس لے آؤ ،شہر کا کوئی شخص ان مبلغوں کو اپنے گھر میں جگہ نہ دے، بہتر ہے اعلان کردو کہ مبلغ سب سے پہلے والئ قلعہ سے ملے بغیر کسی کے ساتھ بات نہ کرے۔
حکم کی تعمیل ہوگی آقا!،،،،،، اس آدمی نے کہا ۔۔۔ہم خود بھی ان مبلغوں کو لوگوں سے دور رکھنا چاہیں گے، پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ یہ ہیں کون اور یہ کس عقیدے اور کس مسلک کی تبلیغ کر رہے ہیں؟
یہ اسلام کا ہی کوئی اور فرقہ پیدا ہوگیا ہوگا۔۔۔ صالح نمیری نے کہا۔۔۔ میں تمہیں سختی سے کہتا ہوں کے کسی اور فرقے کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی، اسلام چھوٹے چھوٹے فرقوں میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے، اور سلطنت اسلامیہ چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے، مجھے جانتے ہو کہ میں بڑی سختی سے اہلسنت ہوں، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ سلجوقیوں نے اسلام کی گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دے دیا ہے، ان کی سلطنت میں کوئی شخص سنی عقیدے کے خلاف بات بھی نہیں کرسکتا ،مجھے ایک شک یہ بھی ہے کہ اسماعیلی درپردہ اپنے فرقے کی تبلیغ کر رہے ہیں، یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس تبلیغ کو روکیں۔
ہاں آقا !،،،،،،مشیر نے کہا ۔۔۔ہم اسلام کی صداقت اور اسلام کی اصل روح کو قائم رکھنے کے لئے اپنی جان ومال قربان کر دیں گے، ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہمارے پاس فوج نہیں ۔
ہم فوج کیسے رکھ سکتے ہیں۔۔۔۔ صالح نمیری نے کہا ۔۔۔فوج کو کھلائیں گے کہاں سے، اور اسے تنخواہ کہاں سے دیں گے، ہم نے کسی سے لڑنا نہیں، اگر ہم پر حملہ ہوگیا تو سلجوقی ہماری مدد کو پہنچیں گے، یہ بھی ذہن میں رکھو کہ کسی نئے عقیدے یا باطل نظریے کو تلواروں اور برچھیوں سے نہیں روکا جاسکتا ،باطل کی تبلیغ کا جواب حق کی تبلیغ سے ہی دیا جا سکتا ہے، اگر بہت سے لوگ سچ بولنے کے عادی ہوں تو ایک جھوٹا آدمی فوراً پکڑا جاتا ہے اور اس کا جھوٹ نہیں چل سکتا، ان مبلغوں کو آنے دو اور انہیں سیدھا میرے پاس لے آؤ۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
دوسرے ہی دن صالح نمیری کو اطلاع ملی کہ دو مبلغ آگئے ہیں ،اس نے انہیں اسی وقت اندر بلا لیا، ان کے ساتھ صالح نمیری کا اپنا ایک اہلکار تھا ،مبلغوں کی وضع قطع شریفانہ اور پروقار تھی، چال ڈھال اور بات چیت سے وہ خاصے معزز لگتے تھے، صالح نمیری نے انھیں بڑے احترام سے بٹھایا اور ان سے پوچھا کہ وہ کس عقیدے کی تبلیغ کر رہے ہیں ؟
اس کا نام حسن بن صباح ہے۔۔۔ ایک مبلغ نے بتایا۔۔۔ وہ اسلام کا علمبردار ہے ۔
کیا وہ نبوت کا دعوی کرتا ہے؟،،،، صالح نمیری نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،،،مبلغ نے جواب دیا ۔۔۔وہ اللہ کا ایلچی بن کر آیا ہے، وہ پہلے ایک ستارے کے ساتھ شاہ بلوط کے درخت میں چمکتا رہا پھر آسمان کی ایک روشنی میں اس کا ظہور ہوا، اور ایک روز وہ زمین پر اتر آیا۔
میری ایک بات غور سے سن لو ۔۔۔صالح نمیری نے کہا۔۔۔ جس علاقے میں تم تبلیغ کرتے پھر رہے ہو اور جس علاقے میں تمہارے خدا کے اس ایلچی کا ظہور ہوا ہے اس علاقے پر میرا کوئی عمل دخل نہیں، لیکن ایک اہلسنت مسلمان کی حیثیت سے میں خدا کے اس ایلچی کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کروں گا، اس وقت تم دونوں کے لئے میرا حکم یہ ہے کہ اس شہر میں جس طرح داخل ہوئے تھے اسی طرح اس شہر سے نکل جاؤ، کبھی کوئی نبی یا خدا کا کوئی ایلچی شاہ بلوط کے درخت کے ذریعے آسمان سے نہیں اترا ،نبوت کا سلسلہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر ختم ہوچکا ہے، اگر تم یہ کہو کہ یہ حسن بن صباح کوئی درویش دانشور یا عالم ہے تو میں آگے بڑھ کر اس کا استقبال کروں گا ۔
امیر قلعہ !،،،،،،ایک مبلغ نے کہا ۔۔۔اگر آپ صرف ایک بار تھوڑی سی دیر کے لئے اسے مل لیں تو آپ کا شک رفع ہوجائے گا، یہ تو ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ خدا کا ایلچی ہے ،ہم اس کے اس پیغام سے متاثر ہوئے ہیں جو اس نے ہمیں دیا ہے، وہ مسلمان ہے اور اہل سنت ہے، ہوسکتا ہے آپ انہیں ملیں تو آپ کو صحیح اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کوئی دانہ عالم ہے یا اس کے دل و دماغ میں کوئی باطل نظریہ ہے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ دوسرا مبلغ بولا۔۔۔ آپ جیسا عالم اور دانشمند امیر قلعہ اس کے ساتھ گفتگو کرے تو ہمیں بھی اس کی اصلیت معلوم ہوجائے گی، ہو سکتا ہے ہم ہی غلطی پر ہوں، اور ویسے ہی اس کی شخصیت سے متاثر ہو گئے ہوں۔
کیا وہ یہاں آئے گا ؟،،،،،صالح نمیری نے پوچھا۔
شاید نہیں۔۔۔ ایک مبلغ نے جواب دیا۔۔۔ ہم ابھی چلے جاتے ہیں اور ان سے بات کرکے آپ کو بتائیں گے کہ وہ آپ کے پاس آئیں گے یا آپ کو ان کے پاس جانا پڑے گا ،اگر وہ آپ کو کسی جگہ بلائیں تو کیا آپ وہاں آ جائیں گے؟
ہاں !،،،،،صالح نمیری نے کہا۔۔۔ میں آؤں گا۔
دونوں مبلغ چلے گئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اُن دنوں حسن بن صباح قلعہ شاہ در میں تھا، شاہ در میں بھی وہ لوگوں کے سامنے خدا کے ایلچی کے روپ میں آ گیا تھا ،دونوں مبلغ ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرکے شاہ در پہنچے اور حسن بن صباح سے ملے۔ یہ مبلغ اس کے اپنے گروہ کے آدمی تھے، انھیں خصوصی تربیت دی گئی تھی، انہوں نے حسن بن صباح کو خلجان کے آمیر قلعہ صالح نمیری کی باتیں سنائی اور بتایا کہ وہ اسے ملنا چاہتا ہے۔
میں اسے ملوں گا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔
میں صالح نمیری کو کچھ کچھ جانتا ہوں۔۔۔ پاس بیٹھے ہوئے احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ اکھڑ سا آدمی ہے، اور بڑا پکا اہل سنت ہے، وہ ذرا مشکل سے ہی مانے گا۔
استاد محترم !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اس کے اکھڑ پن کو توڑ نہیں سکوں گا؟ میں تمہاری حوصلہ شکنی نہیں کررہا حسن!،،،،،، احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ شخص ایک پتھر ہے جسے ذرا طریقے سے ہی توڑنا پڑے گا ۔
آپ نے اچھا کیا کہہ دیا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔مجھے یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے،،،،، ہمیں اس شخص کی نہیں بلکہ اس کے قلعے کی ضرورت ہے، مجھے پوری امید ہے کہ میں خلجان کا قلعہ اور یہ پورے کا پورا شہر آپ کی جھولی میں ڈال دوں گا۔
اسے ملو گے کہاں؟،،،،، احمد بن عطاش نے کہا۔
نہ میں اسے یہاں ملوں گا نہ اس کے پاس جاؤں گا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں اسے چشمے پر ملوں گا ،جہاں میں دوسری بار لوگوں سے ملا تھا۔
وہ علاقہ بہت ہی سرسبز اور روح افزا تھا ،وہاں ایک چشمہ تھا اور چھوٹی سی ایک جھیل تھی ،پانی اتنا شفاف کے تہہ میں پڑی ہوئی کنکریاں بھی نظر آتی تھیں، چشمے کے اردگرد تھوڑا سا کھلا میدان تھا ،جس میں مخمل جیسی قدرتی گھاس تھی، چشمے کی نمی کی وجہ سے وہاں پھول دار پودوں کی بہتات تھی، بعض پھول بھینی بھینی خوشبو دیتے تھے، ذرا پیچھے ہٹ کر چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں تھیں، جو اونچی نیچی گھاس سے ڈھکی ہوئی تھیں، ان ٹکریوں پر بڑے خوبصورت درخت تھے، بڑے خوش نما درخت چشمے کے اردگرد بھی تھے، یہ چھوٹا سا خطہ اس قدر دلنشین اور عطربیز تھا کہ جاں بلب مریض بھی وہاں جاکر اپنے وجود میں روحانی تازگی محسوس کرتا تھا۔
حسن بن صباح اس جگہ آ چکا تھا ،اور اسے یہ جگہ بہت ہی اچھی لگی تھی، اس نے احمد بن عطاش سے کہا کہ اس جگہ وہ بڑے خیمے لگا دے، اور کھانا پکانے کا انتظام بھی وہیں کر دے، اس نے بتایا کہ خیمے کس ترتیب میں گاڑے جائیں۔
یہ جگہ شاہ در سے کم و بیش تین میل دور تھی، وہاں سے خلجان بھی کچھ اتنا ہی دور تھا۔
احمد بن عطاش نے اسی وقت خیمے اور دیگر سازوسامان وہاں تک پہنچانے کا انتظام کردیا۔ تمام سامان اونٹ پر لاد کر بھیج دیا گیا ،رات کے وقت حسن بن صباح گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا۔
وہ اکیلا نہیں گیا تھا اس کے ساتھ اپنے گروہ کے چند ایک آدمی تھے، یہ سب اس کے بالکے اور چیلے چانٹے تھے، انہیں مختلف رول دیے گئے تھے، کچھ علمائے دین کے روپ میں تھے، کچھ خاص مرید اور حاشیہ بردار تھے، اور باقی ایسے معتقد تھے جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ حسن بن صباح کی خدمت میں حاضر رہنے کو اپنی روح کی ضرورت سمجھتے ہیں،،، ‏تین لڑکیاں بھی ساتھ تھیں، جن میں ایک فرح تھی، یہ وہ لڑکی تھی جو حسن بن صباح کی محبت میں دیوانی ہوگئی تھی، محبت بھی ایسی کہ جب حسن بن صباح شاہ در کے لیے روانہ ہوا تھا وہ حسن بن صباح کے راستے میں کھڑی ہو گئی تھی، اس نے حسن بن صباح کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ جہاں بھی جا رہا ہے اسے ساتھ لے چلے۔
فرح بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی ،جسمانی اور ذہنی لحاظ سے چست اور تیز تھی، احمد بن عطاش نے اسے دیکھا تو اس نے اس کی خصوصی تربیت شروع کردی تھی۔
حسن بن صباح تو جیسے اسے دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔
چشمے پر پہنچ کر حسن بن صباح نے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق خیمے نصب کرائے، یہ عام سی قسم کے خیمے نہیں تھے، یہ بڑے سائز کے چوکور خیمے تھے، اندر سے یہ خیمے لگتے ہی نہیں تھے، خوش نما سجے سجائے کمرے لگتے تھے، اندر کی طرف ریشمی کپڑے لگائے گئے تھے، ان کی بلندی بھی کمروں جیسی تھی۔
حسن بن صباح نے اپنے اور صالح نمیری کے خیموں کے درمیان فاصلہ زیادہ رکھا تھا ،ان کے درمیان لڑکیوں کا خیمہ اور تین چار خیمے ان کے چیلے چانٹوں کے تھے، ایک ٹیکری کے پیچھے باورچی خانہ بنا دیا گیا تھا ۔
حسن بن صباح نے انہیں دو مبلغوں کو جو پہلے خلجان گئے تھے صالح نمیری کے نام ایک پیغام دے کر بھیجا کہ وہ تین چار دنوں کے لئے اس کے ساتھ رہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اگلی ہی شام صالح نمیری ان دو مبلغوں کے ساتھ آگیا، حسن بن صباح نے آگے جا کر اس کا استقبال کیا اور پورے احترام سے اسے خیموں تک لایا۔
صالح نمیری کے ساتھ اس کے چار محافظ تھے جو اس کے پیچھے چلے آ رہے تھے، صالح نمیری جب چشمے کے قریب پہنچا تو تینوں لڑکیوں نے اس کے آگے پھول پھینکنے شروع کر دیئے جو انہوں نے چھوٹی چھوٹی ٹوکریوں میں اٹھا رکھے تھے۔
نہیں !،،،،،صالح نمیری نے آگے بڑھ کر لڑکیوں سے کہا ۔۔۔میں اتنا بڑا آدمی نہیں ہوں، مجھے پھولوں کو روندنے کا گنہگار نہ کرو۔
آپ کے یہاں رواج کچھ اور ہوگا۔۔۔ فرح نے جانفزا مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ ہمارے یہاں کوئی معزز مہمان آتا ہے تو ہم اس کے راستے میں پھول بچھاتے ہیں ۔
ہمارا بھی ایک رواج ہے۔۔۔ صالح نمیری نے کہا۔۔۔ ہمارے یہاں آپ جیسا کوئی مہمان آتا ہے تو ہم اس کے راستے میں آنکھیں بچھاتے ہیں۔
حسن بن صباح نے زور دار قہقہہ لگایا ۔
صالح نمیری لڑکیوں کے قریب سے گزرتے انہیں دیکھتا رہا اور اس کی ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
صالح نمیری کی خاطر تواضع کی گئی، جیسے وہ کسی ملک کا بادشاہ ہو، وہ بادشاہ تو نہیں تھا لیکن وہ لگتا بادشاہ ہی تھا ،خوبرو آدمی تھا، چہرے کا رنگ سرخی مائل سفید تھا ،اور اس کے انداز اور چال ڈھال میں تمکنت تھی ۔
رات کھانے کے بعد وہ اور حسن بن صباح اکیلے بیٹھ گئے ۔
کیا آپ نے نبوت کا دعوی کیا ہے؟،،،،صالح نمیری نے پوچھا۔
نہیں تو ۔۔۔حسن بن صباح نے جواب دیا ۔۔۔مجھے کچھ حاصل ضرور ہوا ہے ،لیکن یہ نبوت نہیں، میں کچھ سمجھ نہیں سکا یہ کیا ہے ،میں یہ پورے یقین سے کہتا ہوں کہ میرا درجہ عام انسانوں سے ذرا اوپر ہو گیا ہے، یہ مجھے آپ بتائیں گے کہ میں کیا ہوں اور خدا نے مجھے کیوں یہ درجہ بخشا ہے۔
پہلے تو مجھے یہ بتائیں ۔۔۔۔صالح نمیری نے کہا۔۔۔ آپ آسمان سے کس طرح اترے ہیں، اور آپ کی روح میں ستاروں کا نور کہاں سے آگیا ہے ؟،،،لوگ شاہ بلوط کے درخت میں جو ستارہ دیکھتے رہے ہیں یہ کیا تھا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟
میں کچھ نہیں بتا سکتا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں بھی سنا کرتا تھا کہ ایک درخت میں دوسری تیسری رات ایک ستارہ نظر آتا ہے، میری بھی خواہش تھی کہ یہ ستارہ دیکھوں، لیکن ستارے کے ظہور کے وقت مجھ پر غشی طاری ہوجاتی تھی، میں یہ ستارہ دیکھنے گیا تو لوگوں کے ہجوم کے ساتھ میں بھی انتظار ہی کرتا رہا ،ستارہ نظر نہ آیا۔
یہ غشی کیسی ہوتی تھی؟،،،، صالح نمیری نے پوچھا۔
اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے جواب دیا۔۔۔ غشی میں یہ ہوتا تھا کہ ایک بڑی ہی نورانی صورت والا بزرگ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتا اور بتاتا تھا کہ لوگوں کی رہنمائی کی سعادت خدا نے مجھے دی ہے،
یہ بزرگ کون تھے جو مجھے سبق دیا کرتے تھے کہ میں لوگوں کی رہنمائی کس طرح کروں گا ،پھر ایک روز کسی غیبی طاقت نے مجھے،،،،
حسن بن صباح !،،،،،،صالح نمیری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ کوئی نئی کہانی سناؤ، تم سے پہلے بھی ایسے ہی نبی ہو گزرے ہیں جنہیں غشی میں ایک بزرگ آکر بتایا کرتے تھے کہ خدا نے تمہیں اپنا ایلچی منتخب کر لیا ہے،،،،،،، دیکھو حسن خدا نے اپنے ایلچی بھیجنے کا سلسلہ غار حرا سے اپنا آخری ایلچی بھیج کر بند کر دیا ہے۔
حسن بن صباح نے صالح نمیری کے ساتھ بحث نہ کی، بلکہ وہ اس طرح کی باتیں کرتارہا جیسے وہ تذبذب میں ہو کہ وہ کیا محسوس کر رہا ہے، اور اس تبلیغ کا سلسلہ کیوں شروع کر دیا ہے۔
اگر میں غلط راستے پر چل نکلا ہوں تو مجھے راہ راست پر لائیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ آپ کچھ دن میرے پاس ٹھہریں، میں اپنے متعلق یہ بتا سکتا ہوں کہ میں سحر کی طاقت رکھتا ہوں، اور زمین میں دبے ہوئے راز بتا سکتا ہوں، مجھ میں کوئی مافوق الفطرت طاقت موجود ہے، احمد بن عطاش میرا پیر و مرشد ہے، اس نے مجھے ایک پراسرار علم دیا ہے۔
شاہ در کا والی احمد بن عطاش؟،،،،،صالح نمیری نے پوچھا۔
ہاں !،،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ وہی احمد بن عطاش۔
میں نے پہلے بھی سنا ہے ۔۔۔صالح نمیری نے کہا ۔۔۔ہاں حسن !،،،میں نے پہلے بھی سنا ہے کہ وہ سحر کا یا کسی اور پراسرار علم کا ماہر ہے، اور وہ مستقبل کے پردوں میں جھانک سکتا ہے، کیا تم نے اس سے کچھ سیکھا ہے؟
بہت کچھ ۔۔۔حسن بن صباح نے جواب دیا۔۔۔ ستاروں کی چال بھانپ سکتا ہوں، ہاتھوں کی لکیریں پڑھ سکتا ہوں۔
صالح نمیری نے کچھ کہے بغیر اپنا ہاتھ پھیلا کر حسن کے آگے کر دیا ۔
تمہارا امتحان ہے۔۔۔ صالح نمیری نے کہا۔
صالح نمیری سمجھ نہ سکا کے حسن بن صباح نے بات کا رخ پھیر دیا ہے، وہ اس بات کو گول کر گیا کہ وہ خدا کا ایلچی ہے ،اور اس نے وسیع پیمانے پر اپنے عقیدے کی تبلیغ شروع کردی ہے، وہ کمال استادی سے گفتگو کو سحر نجوم اور دست شناسی کی بھول بھلیوں میں لے گیا تھا ،اس نے دیکھ لیا تھا کہ صالح نمیری واقعی پتھر ہے جسے توڑنا آسان کام نہیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
حسن بن صباح نے صالح نمیری کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی ہتھیلی کو پھیلایا اور ہاتھ کی لکیریں دیکھتا رہا ،کچھ دیر بعد اس نے ہتھیلی پر اپنا سر اس طرح جھکا لیا جیسے لکیروں کو اور زیادہ غور سے دیکھ رہا ہو۔
اس نے یوں تیزی سے اپنا سر اوپر کرلیا جیسے صالح نمیری کی ہتھیلی سے سانپ نے اس پر حملہ کر دیا ہو، پھر اس نے اپنے چہرے پر حیرت کا تاثر پیدا کرکے صالح نمیری کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔
کیا نظر آیا ہے؟،،،،، صالح نمیری نے پوچھا۔
حسن چپ رہا اس نے قلم دوات منگوا کر کپڑے کی طرح کے ایک کاغذ پر خانے بنائے، کسی خانے میں ایک دو ہندسے اور کسی میں ایک دو حروف لکھے، بعض خانوں میں ٹیڑھی میڑھی لکیریں ڈالیں اور بہت دیر انہیں دیکھتا رہا اور سوچتا رہا ۔
کچھ بتاؤ گے ؟،،،،،صالح نمیری نے پوچھا ۔
چار دن یہیں انتظار کریں۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ بات ابھی دھندلکے میں ہے ۔
بات اچھی ہے یا بری؟
اچھی بھی ہوسکتی ہے بری بھی۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔۔ اچھی ہے یا بری، بات معمولی نہیں، شاہی بھی ہوسکتی ہے گدائی بھی ، چار دن دیکھوں گا، پانچویں دن لکیروں اور ستاروں کا بھید آپ کے سامنے آجائے گا۔
صالح نمیری اذیت ناک تذبذب میں مبتلا ہو گیا ۔
حسن بن صباح کے کہنے پر وہ اپنے خیمے میں جا کر سو گیا۔
علی الصبح فرح اس کے خیمے میں ناشتہ لے کر گئی، اسے ناشتہ رکھ کر واپس آ جانا چاہیے تھا لیکن وہیں کھڑی رہی۔
کچھ اور چاہیے؟،،،،، فرح نے پوچھا۔
میں تو یہ ناشتہ دیکھ کر حیران ہو گیا ہوں۔۔۔ صالح نمیری نے کہا ۔۔۔اور تم پوچھتی ہو کچھ اور چاہیے۔
میں کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ جاؤں؟،،،،،فرح نے شرمیلی سی آواز میں پوچھا۔
پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ صالح نمیری نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ یہاں میرے پاس بیٹھو، تم کون ہو؟،،، حسن بن صباح کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟
میں والئی شاہ در احمد بن عطاش کی بھانجی ہوں ۔۔۔فرح نے جھوٹ بولا ۔۔۔انہوں نے مجھے ان کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے بھیجا ہے۔
شادی ہوچکی ہے؟
نہیں!،،،،، فرح نے جواب دیا۔
اب تک تو تمہاری شادی ہو جانی چاہیے تھی۔۔۔ صالح نے کہا ۔
میرے والدین فوت ہوگئے ہیں۔۔۔ فرح نے دوسرا جھوٹ بولا ۔۔۔ماموں احمد بن عطاش نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ میں جس کسی کو پسند کروں انھیں بتا دوں اور وہ اس کے ساتھ میری شادی کر دیں گے، انہوں نے شرط صرف یہ رکھی ہے کہ وہ آدمی اچھی حیثیت والا ہونا چاہیے ۔
تو کیا ابھی تک تمہیں اپنی پسند کا آدمی نہیں ملا ؟
اب ملا ہے۔۔۔۔فرح نے جواب دیا ۔
وہ خوش نصیب کون ہے ؟
فرح نے صالح نمیری کی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔
اتنا زیادہ شرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟،،،،،صالح نمیری نے کہا ۔۔۔اور پوچھا،،،، کیا اس آدمی کو معلوم ہے کہ تم نے اسے پسند کیا ہے۔
نہیں۔
اسے بتا دینا تھا۔۔۔ صالح نمیری نے کہا ۔
ڈرتی ہوں ۔۔۔فرح نے کہا ۔۔۔وہ یہ نہ کہہ دے کہ میں اسے پسند نہیں۔
وہ کوئی جنگلی جانور ہوگا جو تمھیں پسند نہیں کرے گا۔۔۔ صالح نے کہا ۔
کیا آپ مجھے پسند کریں گے ؟،،،،فرح نے جھپتے شرماتے پوچھا۔
کیا تم مجھے قبول کرو گی؟،،،، صالح نمیری نے سوال کے جواب میں سوال کیا۔
فرح نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ صالح نمیری کی طرف سرکایا ،دوسرے لمحے اس کی انگلیاں صالح نمیری کی انگلیوں میں الجھی ہوئی تھی، پھر صالح نمیری کو یاد ہی نہ رہا کہ اس کے آگے ناشتہ پڑا ٹھنڈا ہو رہا ہے ،اس روز فرح کو ذرا سا بھی موقع ملتا وہ صالح نمیری کے خیمے میں چلی جاتی اور ہنس کھیل کر واپس آجاتی۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اگلی رات حسن بن صباح اور صالح نمیری کھانے کے بعد الگ بیٹھے اس موضوع پر باتیں کرتے رہے کہ حسن بن صباح سہی ہے یا غلط، یا اسے وہم ہو گیا ہے کہ وہ خدا کا ایلچی ہے، حسن بن صباح کا انداز گفتگو یہ تھا کہ وہ بحث میں نہیں الجھتا تھا ،اور اس کی کوشش یہ تھی کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ بیٹھے جس سے صالح نمیری خفا ہوجائے ،صالح نمیری کا گزشتہ رات کا انداز بڑا جارحانہ تھا ،لیکن اگلی رات اس کے مزاج میں وہ برہمی نہیں تھی، اس کی بجائے وہ خاصا نرم تھا، اور کسی وقت یوں پتہ چلتا تھا جیسے وہ حسن بن صباح کا قائل ہوتا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صالح نمیری کے مزاج کی یہ تبدیلی اس وجہ سے نہیں تھی کہ حسن بن صباح نے اسے متاثر کرلیا تھا ،بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ فرح کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ حسن بن صباح نے اس کا ہاتھ دیکھا اور ستاروں کی گردش کا کچھ حساب لگایا تھا اور وہ یوں چپ ہو گیا تھا جیسے اس نے کوئی بڑی ھی خاص بات چھپا لی ہو، قدرتی امر ہے کہ وہ یہ راز معلوم کرنے کو بیتاب تھا۔
اس رات صالح اور حسن خاصی دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے، پھر صالح اپنے خیمے میں جا کر سو گیا، آدھی رات کا وقت ہوگا صالح نے اپنے چہرے پر کوئی نرم اور ملائم سی چیز رینگتی ہوئی محسوس کی، وہ بڑی گہری نیند سویا ہوا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، خیمے میں تاریکی تھی ،صالح نے اپنے منہ پر ہاتھ مارا توایک نرم و ملائم ہاتھ اس کے ہاتھ میں آیا، اس نے اندھیرے میں بھی اس ہاتھ کو پہچان لیا، اس نے اس ہاتھ کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور دوسرا ھاتھ اسکی کمر پر ڈال دیا جس کا یہ ہاتھ تھا۔
فرح اس کے اوپر گری اور اس کی ہنسی نکل گئی۔
صالح نمیری کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی، اور فرح پچیس چھبیس سال کی تھی، لیکن جسمانی صحت کے لحاظ سے صالح نمیری فرح جیسا ہی جوان لگتا تھا ،اس کا انداز بھی پر شباب تھا، اس نے فرح کو اس طرح اپنے بازوؤں میں لے کر بھینچا جیسے اسے اپنے وجود میں سمیٹ لینا چاہتا ہو۔
ابھی نہیں!،،،،، کچھ دیر بعد فرح نے کہا۔۔۔ پہلے شادی،،،،، ابھی بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، سب سوئے ہوئے ہیں۔
صالح اٹھ کر بیٹھ گیا اور فرح کو اپنے پاس اس طرح بٹھائے رکھا کہ فرح اس کے ایک بازو میں تھی ،اور فرح کا سر صالح کے سینے پر تھا، وہ کچھ دیر اسی حالت میں پیار و محبت کی باتیں کرتے رہے، وہ دلی اور زبانی طور پر ایک دوسرے میں جیسے تحلیل ہو گئے تھے ۔
ایک کام کرو فرح !،،،،صالح نے فرح کو پلنگ پر اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔حسن بن صباح نے میرا ہاتھ دیکھا تھا، اور اس نے ستاروں کی گردش بھی دیکھی تھی، پھر وہ یوں چپ ہو گیا تھا جیسے اس نے میری قسمت میں کوئی ایسی بات دیکھ لی ہو جو وہ مجھے نہیں بتانا چاہتا، میں نے اس کے چہرے پر کچھ اور ہی تاثر دیکھا تھا،،،،، وہ مجھے کچھ نہیں بتا رہا ،کہتا ہے چار روز انتظار کرو، میں یہاں اتنا رکنے کے لیے نہیں آیا تھا ،میں اس شخص سے متاثر نہیں ہوا نہ میں اسکے اس دعوے کو مانتا ہوں کہ یہ خدا کا ایلچی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ میں یہ راز معلوم کرنے کے لئے رکا ہوں کہ اس نے میرے ہاتھ کی لکیروں میں کیا دیکھا ہے؟،،،،،، کیا تم اس سے معلوم کر سکتی ہو؟
ہاں !،،،،،فرح نے جواب دیا ۔۔۔اگر کوئی بہت ہی خطرناک بات نہ ہوئی تو وہ مجھے بتا دے گا۔
کبھی خیال آتا ہے کہ میں چلا جاؤں۔۔۔صالح نمیری نے کہا۔۔۔ میں کٹر اہلسنت ہوں ،قسمت میں جو لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، لیکن تم میرے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہو۔
اب آپ جہاں بھی جائیں گے یہ زنجیر آپ کے ساتھ رہے گی۔۔۔ فرح نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں کہا۔۔۔ اور اس طرح بولی جیسے اسے اچانک یاد آگیا ہو۔
اوہ !،،،،،میں آپ کے لیے پھول لائی تھی۔
اس نے پلنگ پر ہاتھوں سے ٹٹولا اور پھول اس کے ہاتھ آ گئے، یہ بڑے بڑے تین پھول تھے جنہیں اس نے گلدستے کی طرح ایک دھاگا لپیٹ کر باندھ رکھا تھا ،اس نے پھول صالح نمیری کی ناک کے ساتھ لگا دئیے۔
اتنی پیاری خوشبو ۔۔۔صالح نے کہا ۔۔۔میں نے اس علاقے کے وہ پھول بھی سونگھے ہیں جو دور دراز جنگلوں میں کھلتے ہیں، لیکن اس پھول کی خوشبو میرے لیے بالکل نئی ہے۔
اس نے بار بار ان پھولوں کو سونگھا اور جوں جوں لمحے گزرتے گئے صالح پر ایسی کیفیت طاری ہوتی گئی کے وہ محسوس کرنے لگا کے وہ فرح کے لئے پیدا ہوا تھا اور باقی عمر اس کی غلامی میں گزارے گا۔
میرا ایک مشورہ مانیں۔۔۔ فرح نے کہا ۔۔۔حسن بن صباح کو یہ دعوت دیں کہ وہ کچھ دن خلجان میں آپ کا مہمان رہے، اگر یہ یہیں سے واپس چلا گیا تو پھر یہ آپ کے ہاتھ کی لکیریں اور ستاروں کا راز اپنے ساتھ لے جائے گا ،دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ یہاں سے واپس گیا تو مجھے بھی ساتھ لے جائے گا ،ہم خلجان چلے گئے تو میں اسے کہہ سکتی ہوں کہ میں واپس نہیں جاؤں گی،،،،،،، میں نے اب باقی عمر آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے۔
میں ایسے ہی کرتا ہوں۔۔۔ صالح نے کہا۔۔۔ میں اسے کہوں گا میرے ساتھ خلجان چلو اور مجھے قائل کرو کہ تم خدا کی بھیجی ہوئی برگزیدہ شخصیت ہو، اور میں تمہیں صرف مان ہی نہیں لوں گا بلکہ تمہارے عقیدے کی اتنی تبلیغ کروں گا کہ تم حیران رہ جاؤ گے۔
فرح بہت دیر بعد اس کے خیمے سے نکلی،صالح نمیری کو وہ اس جذباتی کیفیت میں چھوڑ آئی کی اس نے باقی رات کروٹیں بدلتے گزار دیں، وہ رہ رہ کر یہی چاہتا تھا کہ فرح کے پاس چلا جائے یا اسے اپنے خیمے میں لے آئے۔
*<=======۔==========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔14۔میں پڑھیں*
*<=========۔========>*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS