Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*حسن بن صباح*اور اسکی *مصنوعی جنت*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀۔
*قسط نمبر/12*
🌴🌴🌴🌴🌴🌴۔
یہودیوں کا ربی اور عیسائیوں کا پادری جس بستی کے رہنے والے تھے اس بستی میں ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھے۔
ربی کہاں گیا؟
فادر کہاں گیا؟
اسحاق اور آسر کہاں گئے؟
میرا کہاں گئی؟
چند گھروں کی یہ بستی تھی ربی اور پادری تو مذہبی پیشوا تھے کوئی نہایت معمولی سا فرد بستی سے تھوڑی سی دیر کے لیے غیر حاضر ہوتا تو ساری بستی اس کی غیر حاضری کو محسوس کر لیتی تھی، ربی اور فادر کا لاپتہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اسحاق، آسر اور میرا بھی اس بستی کے اہم نوجوان تھے، لوگ ان کے متعلق کچھ پریشان ہونے لگے۔
ایک صبح ایک مجذوب سا آدمی جس نے سبز چغہ پہن رکھا تھا اور سر پر سبز پگڑی لپٹی ہوئی تھی بستی میں داخل ہوا، وہ "حق ہو حق ہو" کے دھماکہ خیز نعرے لگا رہا تھا ،اس کی داڑھی بڑی لمبی تھی سر کے بال بھی اتنے لمبے کے شانوں سے نیچے چلے گئے تھے، اور اس کی آنکھیں گوشت کی طرح سرخ تھیں، وہ بستی کے وسط میں جا کر رک گیا۔ پہلے بچے اس کے اردگرد اکٹھے ہوگئے پھر دوسرے لوگ بھی اس کے قریب آنے لگے۔
کچھ نہیں رہے گا۔۔۔ اس نے دایاں ہاتھ آسمان کی طرف کرکے کہا۔۔۔ سب گم ہو جائیں گے، کچھ نہیں رہے گا، نام و نشان مٹ جائے گا، مانو اسے جو روشنی دکھاتاہے،،،،حق ہو حق ہو۔
وہ توہم پرستی اور ذہنی پسماندگی کا زمانہ تھا ،داستان گو نے پہلے سنایا ہے کہ لوگ ہر اس چیز کے پیچھے دوڑ پڑتے تھے جو اسراریت کی سیاہ پردوں میں ڈھکی ہوئی ہوتی تھی، اور لوگ اسے مانتے تھے جس کی زبان میں چاشنی اور کشش ہوتی تھی، مانا اسے جاتا تھا جو الفاظ اور اداکاری کا ماہر ہوتا تھا ۔
اس کے الفاظ اور اس کا انداز ایسا تھا کہ ساری بستی اس کے اردگرد اکٹھی ہو گئی، وہ اور زیادہ اونچی آواز میں نعرے لگانے لگا، ایک بوڑھا آدمی آگے بڑھا۔
کیا بتائے گا نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟۔۔۔ بوڑھے نے اس سے پوچھا۔
جو مطلب نہیں سمجھے گا وہ نہیں رہے گا۔۔۔ مجذوب نے کہا ۔۔۔سمجھے، لوگوں سمجھو!
کیا تو ہمارے پاس بیٹھے گا نہیں ؟،،،،بوڑھے نے پوچھا۔
ہم سمجھنا چاہتے ہیں۔۔۔ ایک اور بولا ۔
بیٹھ جا !،،،،بوڑھے نے کہا ۔۔۔ہمیں اپنی کچھ خدمت کرنے دے۔
مجذوب وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اس نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ سب بیٹھ جائیں، سب اس کے سامنے بیٹھ گئے۔
حق ہو حق ہو"۔۔۔۔مجذوب نے آسمان کی طرف منہ کرکے ہوک لگانے کے انداز سے نعرے لگائے، اور بولا ۔۔۔جو نہیں مانے وہ گم ہو گئے۔
تو کس کی کہہ رہا ہے کہ وہ گم ہو گئے؟،،،،، بوڑھے نے پوچھا۔
اس بستی کے باپ گم ہو گئے ہیں۔۔۔ مجذوب نے کہا ۔۔۔بچے بھی گم ہو گئے ہیں۔
کیا تو ہمارے پادری کی بات کرتا ہے ؟،،،،ایک عیسائی نے پوچھا۔۔ مجذوب چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھتا رہا ۔
کیا تو ہمارے ربی کی بات کرتا ہے؟،،،، ایک یہودی نے پوچھا ۔۔۔وہ پھر بھی چپ رہا ۔
کیا تیرا اشارہ میرے بیٹے اسحاق کی طرف ہے؟،،،، ایک آدمی نے پوچھا ۔۔مجذوب کچھ بھی نہ بولا۔
کیا تو میرے بیٹے آسر کی بات کررہا ہے؟،،، ایک اور آدمی نے پوچھا ۔
میری بیٹی میرا بھی تو لاپتہ ہے۔
ان سب کی بات ایک ہے۔۔۔ مجذوب بولا ۔۔۔وہ نہیں مانتے تھے، اور وہ جو تمہارے مذہبی باپ تھے وہ بھی نہیں مانتے تھے، سب گم ہو گئے ہیں۔
کیا نہیں مانتے تھے؟،،،، بوڑھے نے پوچھا۔
اسے نہیں مانتے تھے جو روشنی میں سے ظاہر ہوتا ہے، وہ اس روشنی کو بھی نہیں مانتے تھے جو خدا اپنے بندوں کو دکھاتا ہے۔ وہ یک لخت اٹھ کھڑا ہوا اور پھر "حق ہو حق ہو" کے دھماکا نما نعرے لگاتا ایک طرف چل پڑا۔
وہ آ رہا ہے۔۔۔۔ وہ کہتا جارہا تھا ۔۔۔وہ اتر رہا ہے،،، جو نہیں مانے گا وہ گم ہو جائے گا۔
لوگ کچھ دور تک اس کے پیچھے گئے وہ چلتا گیا، آگے ایک گھاٹی آگئی جو ندی میں اترتی تھی ،مجذوب گھاٹی اتر کر ندی میں چلا گیا، اور پانی میں یوں چلتا گیا جیسے میدان میں جا رہا ہو، درمیان میں پہنچا تو پانی اس کے سینے تک گہرا ہو گیا ،پھر بھی وہ اس طرح چلتا گیا جیسے میدان میں چل رہا ہو، لوگ اوپر کھڑے اسے دیکھتے رہے اور وہ ندی پار کر کے چلا گیا ،اپنے پیچھے وہ ایک دہشت اور تذبذب کی کیفیت چھوڑ گیا۔
وہ جب نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لوگ واپس ہونے لگے، ان پر خاموشی طاری تھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے سے ڈر رہے تھے۔
اگر ان کے دونوں مذہبی پیشوا موجود ہوتے تو وہ ان سے پوچھتے کہ یہ سب کیا ہے، لیکن مذہبی پیشوا ہی تو لاپتہ ہوگئے تھے۔
ربی اور فادر کہتے تھے کہ یہ جو روشنی نظر آتی ہے یہ سب ایک پراسرار ڈھونگ ہے ۔۔۔بستی میں آ کر بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں تو کہتا ہوں کہ انہیں اسی کی سزا ملی ہے۔
میں راز کی ایک بات بتاتا ہوں ۔۔۔ایک جواں سال آدمی بولا ۔۔۔اسحاق میرا گہرا دوست تھا، اس نے مجھے کہا تھا کہ میں کسی کو نہ بتاؤں ،اسے اور آسر کو ربی اور فادر نے کہا تھا کہ وہ اس پہاڑی کے پیچھے جائیں جس پر یہ روشنی اور پھر روشنی میں ایک سفید پوش نظر آتا ہے ،میرا بھی ان کے ساتھ گئی تھی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس پہاڑی کے پیچھے؟۔۔۔ ایک اور معمر آدمی نے کہا۔۔۔ کیا کبھی کسی سے سنا ہے کہ کوئی اس پہاڑی کے پیچھے گیا ہے؟،،، کبھی کوئی گیا ہے تو اسے کسی نے واپس آتا نہیں دیکھا، وہ موت کی وادی ہے وہاں خونخوار اور آدم خور مگرمچھ ہیں ،وہاں اتنے زہریلے سانپ ہیں کہ ڈستے ہیں تو پلک جھپکتے آدمی مر جاتا ہے، زمین پر سانپ ،درختوں پر سانپ، پانی میں سانپ، وہاں تو کوئی جنگلی جانور اور کوئی درندہ بھی نہیں جاتا۔
ایک بات سمجھ میں آتی ہے۔۔۔ دوسرے بوڑھے نے کہا ۔۔۔اگر روشنی انسان دکھاتے ہیں اور روشنی میں ظاہر ہونے والا سفید پوش بھی انسان ہے تو وہ اس پہاڑی پر جاتے کدھر سے ہیں، نہیں وہ انسان نہیں ہو سکتے۔
میں مانتا ہوں۔۔۔ ایک اور آدمی بولا ۔۔۔وہ انسان نہیں ہوسکتے، کیا تم نے سنا نہیں کہ جس سانپ کی عمر سو سال ہوجاتی ہے وہ انسان کے روپ میں آ جاتا ہے، میں کہتا ہوں یہ انسان کے روپ میں سانپ ہیں، اور روشنی میں وہ جو سفید پوش نظر آتا ہے وہ شیش ناگ ہوگا۔
کچھ لوگوں نے اس آدمی کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں تائید تھی اور خوف بھی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں یہ ایک اور نبی ہے۔۔۔ معمر آدمی نے کہا۔۔۔ اسے صرف ہم ہی نہیں دیکھ رہے، یہ ہزارہا لوگ اتنی دور دور سے آکر اسے دیکھ رہے ہیں، وہ ظاہر ہوتا ہے تو سب سجدے میں چلے جاتے ہیں ،تم نے وہاں درویش صورت انسان دیکھے ہوں گے، وہ بھی سجدہ ریز ہو جاتے ہیں یہ سمجھ لو کہ یہ کوئی نیا عقیدہ یا نیا پیغام آرہا ہے، اس کی کوئی مخالفت نہ کرے ورنہ پوری بستی کو نقصان ہوگا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ کیفیت صرف اس بستی میں ہی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ لوگ خوفزدہ بھی تھے، اور آنے والے کے منتظر بھی، اس علاقے میں جتنی بستیاں تھیں ان سب میں یہی کیفیت تھی، یہ مجذوب جو اس بستی میں گیا تھا کئی اور بستیوں میں گیا اور اپنے مخصوص مجذوبانہ انداز میں یہ خبر سناتا گیا کہ ایک عیسائی اور ایک یہودی مذہبی پیشوا نے روشنی والے کے خلاف بات کی تھی اور دونوں کو آسمان کی غیر مرئی مخلوق اٹھاکر لے گئی ہے ۔
*اور ایک روز وہ زمین پر اتر آیا*
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ جس پہاڑی پر شاہ بلوط کا درخت تھا اس کے سامنے وسیع و عریض میدان میں جو سرسبز تھا اور جہاں درختوں کی بہتات تھی خیموں کی ایک بستی آباد ہو گئی تھی، یہ قبیلوں کے سرکردہ افراد اور سرداروں کے خیمے تھے، ہزاروں لوگ کھلے آسمان کے نیچے وہاں موجود رہتے تھے۔
ایک صبح لوگ جاگے تو انہوں نے دیکھا کہ پہاڑی کے دامن میں جو ٹیکری تھی اس پر پلنگ کی طرح کا ایک تخت رکھا تھا ،اس کے پائے رنگین اور خوش نما تھے ،اس پر بڑا قیمتی قالین بچھا ہوا تھا ،ٹیکری ہری بھری تھی، تخت کے دائیں بائیں اور پیچھے درخت تھے، ان درختوں کے ساتھ پھولدار بیلیں باندھ کر خوشنما چھت بنا دی گئی تھی۔
لوگوں نے دیکھا تو وہ آہستہ آہستہ اس طرف چل پڑے، وہاں ابھی کوئی آدمی نظر نہیں آرہا تھا، لوگ جب قریب پہنچے تو ٹیکری پر ایک آدمی نمودار ہوا ،وہ عقب سے اوپر چڑھتا آرہا تھا ،اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے ہاتھ میں سبز جھنڈا تھا ،اس کا لباس شاہی چوبداروں جیسا تھا ،تخت کے ایک طرف سے گزرتا وہ تخت سے آگے آکر لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا ،اس نے جھنڈا ٹیکری پر گاڑ دیا۔
وہ جو مسجود برحق ہے"،،، آرہا ہے۔۔۔ چوبدار نے بڑی ہی بلند آواز میں اعلان کیا ۔
خوش نصیب ہو تم کہ وہ تمہارے سامنے آ رہا ہے ،،،،وہ آئے تو سجدے میں چلے جاؤ، لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا۔
قبیلوں کے سردار آگے آ جاؤ ۔۔۔چوبدار نے اعلان کیا ۔۔۔سرکردہ آدمی سب سے آگے آکر بیٹھ جاؤ۔
لوگوں میں سے کئی ایک آدمی آگے چلے گئے اور بیٹھ گئے، ان کے لباس اور رنگ ڈھنگ بتا رہے تھے کہ وہ سرکردہ افراد ہیں۔
ہوا کچھ تیز چل رہی تھی، ٹیکری پر چھ آدمی نمودار ہوئے ان کے لباس معمولی سے تھے، وہ ملازم لگتے تھے، ہر ایک نے ایک ایک دیگچہ نما برتن اٹھا رکھا تھا، وہ ٹیکری سے اتر آئے اور ہجوم کے اس پہلو کو چلے گئے جدھر سے ہوا آرہی تھی، انہوں نے یہ برتن تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھ دئیے، یہ لوگوں سے دور رکھے گئے تھے ،پھر ان میں آگ لگا دی گئی ،لیکن شعلہ کسی میں بھی نہ نکلا ،ہر برتن میں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھنے لگا ،ہوا کا رخ لوگوں کی طرف تھا اس لئے یہ دھنواں ہجوم میں سے گزرنے لگا ،وہ آدمی وہیں کھڑا رہے۔
خدا کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں۔۔۔ ٹیکری سے چوبدار کی آواز آئی۔
لوگوں نے ایسی خوشبو محسوس کرنی شروع کردیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی، پرکیف اور روح پرور خوشبو تھی، یہ اس دھوئیں کی خوشبو تھی جو برتنوں سے اٹھ رہا تھا۔
نقارہ بجنے لگا اور اس کے ساتھ تین چار شہنائیوں کی لے ابھرے، یہ صحرائی نغمے کی لے تھی جس میں وجد طاری کر دینے والا سوز تھا ،تخت کے عقب سے ایک آدمی ابھرنے لگا جو ایک شہانہ کرسی پر بیٹھا تھا ،کرسی اس آدمی کو اٹھائے اوپر ہی اوپر اٹھتی آئی، پھر چار آدمیوں کے سر ابھرے اور فوراً ہی یہ چاروں آدمی پورے اوپر آ گئے، کرسی بڑی تھی اور چوڑی تھی، ان چاروں آدمیوں نے کرسی کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا، چاروں آدمی عربی لباس میں ملبوس تھے، اور جو کرسی پر بیٹھا تھا لباس اس کا بھی عربی نما لیکن کپڑا ریشمی اور چمکدار تھا۔
سجدہ ۔۔۔ایک آواز گرجی۔۔۔ سجدہ۔
وہاں جتنے لوگ تھے سب سجدہ ریز ہو گئے۔ چار آدمیوں نے بڑے آرام سے کرسی تخت پر رکھ دی جس پر قالین بچھا ہوا تھا ،کرسی پر جو بیٹھا ہوا تھا وہ بادشاہ لگتا تھا، داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی ،اس کے چہرے کا رنگ سفیدی مائل گندمی تھا ،نقش و نگار میں مردانہ حسن آنکھوں میں چمک اور ایسا تاثر کے کوئی بڑی مضبوط شخصیت والا ہی ان آنکھوں کا سامنا کر سکتا تھا، زیرِ لب تبسم چہرے کی جاذبیت میں اضافہ کرتا تھا۔
اس نے سجدہ ریز ہجوم پر نگاہ دوڑائی ،اس کا زیر لب تبسم مسکراہٹ کی صورت میں کھل گیا ،اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ لوگ سجدے سے اٹھیں۔
اللہ اکبر"۔۔۔۔۔ ایک آواز گرجی۔
ہجوم نے سجدے سے سر اٹھائے، ہجوم میں عیسائی بھی، یہودی بھی، اور مسلمان بھی تھے، اور چند ایک بے دین بھی تھے، اللہ اکبر کا مطلب یہ تھا کہ یہ جو شہانہ مسند پر بیٹھا ہے مسلمان ہے، پھر بھی سب لوگ اسے دیکھنے اور اسے سننے کو بے تاب ہوئے جارہے تھے، اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے، لیکن اللہ اکبر کی صدا پر ان کے دلوں میں تعصب نے سر نہیں اٹھایا تھا۔
لوگ اپنے آپ میں ایک پرلطف سی تبدیلی محسوس کر رہے تھے ،ان کے دلوں سے خوف نکل گیا تھا، وہ ہلکے پھلکے ہو گئے تھے ،ان کے دلوں میں پیار اور محبت کی لہریں اٹھنے لگی تھیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
وہ جو شاہانہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا وہ حسن بن صباح تھا، وہ اٹھا اور اپنے دونوں بازو پھیلا دئیے۔
میں تم میں سے ہوں۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ میری روح اس نور سے پیدا ہوئی ہے جو تم شاہ بلوط کے درخت میں دیکھتے رہے ہو ،میں تم میں سے ہوں،مجھے خدا نے اپنا ایلچی منتخب کیا ہے، میں تمہارے لئے خدا کا پیغام لے کر آیا ہوں، لیکن ابھی پورا پیغام سنانے کا وقت نہیں آیا، ابھی اتنی سی بات بتاؤں گا کہ خدا کا منشا ہے کہ اس کی زمین پر اس کے بندوں کی حکومت ہو، جس طرح خدا نے فرعونوں کا خاتمہ کردیا تھا اسی طرح خدا بادشاہوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے، اللہ کی رضا اب اس میں ہے کہ کھیتی کا پورا حق اسے ملے جو اس میں ہل چلاتا اور بیج پھینکتا ہے،،،،،،خدا نے مجھے اپنی رضا کی تکمیل کے لئے تمہارے درمیان اتارا ہے،،،،، کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے جیسے بندوں کی غلامی سے آزاد ہو جاؤ۔
ہاں ۔۔۔ہاں۔۔۔ ہجوم سے بے شمار آوازیں اٹھیں۔۔۔۔ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
لیکن یہ کام آسان نہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔۔ تمہیں متحد ہو کر میرے پیچھے چلنا پڑے گا ۔
ہم تمھارے پیچھے چلیں گے۔۔۔ ہجوم سے پرجوش آوازیں اٹھیں۔
یاد رکھو!،،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔تم یہ وعدہ میرے ساتھ نہیں اس خدا کے ساتھ کررہے ہو جس نے مجھے ایلچی بنا کر تمھارے پاس بھیجا ہے، تم وعدے سے پھر گئے تو تم پر خدا کا عذاب نازل ہوگا ،اگر تم نے خدا سے وعدہ نبھایا تو تم دنیا میں جنت دیکھ لو گے۔
ہم خدا کو ناراض نہیں کریں گے۔۔۔ ہجوم میں سے آوازیں اٹھیں۔
یہ حسن بن صباح کی رونمائی تھی اس روپ میں وہ پہلی بار لوگوں کے سامنے آیا تھا ،اس نے دیکھا کہ اتنا بڑا ہجوم اس کا ہمنوا ہو گیا ہے تو اس نے نہایت پراثر الفاظ میں وعظ شروع کردیا۔
مورخوں کا بیان ہے کہ حسن بن صباح کی اس تقریر میں زبان کا جادو اور خطابت کا کمال تھا، علم وفضل کا نام و نشان نہ تھا ،وہ لوگوں کے دلوں کی بات کر رہا تھا۔
لوگوں کو اس کے انداز خطابت نے تو متاثر کرنا ہی تھا، کیونکہ اس فن میں اس نے کمال حاصل کیا تھا، لوگوں کے ذہنوں کو اس نے اس دھوئیں کے ذریعے بھی اپنے قابو میں کر لیا تھا جو دیگچہ نما برتنوں سے اٹھ رہا تھا، یہ ایک یا ایک سے زیادہ جڑی بوٹیوں کی دھونی تھی، جن کے اثرات ویسے ہی تھے جیسے آج کل مسکّن گولیوں کے ہوتے ہیں، حسن بن صباح نے آگے چل کر قلعہ المُوت میں جو جنت بنائی تھی اس میں ان جڑی بوٹیوں کا بے دریغ استعمال ہوا تھا۔
بعض مورخوں نے یہی لکھا ہے کہ اس نے ہجوم پر اس دھونی کا نشہ طاری کر دیا تھا، لیکن دو مورخوں نے لکھا ہے کہ وہاں پانی کے بہت سے مٹکے رکھ دیے گئے تھے، جن میں تھوڑا سا سرور پیدا کرنے والی دوائی ملا دی گئی تھی اور لوگوں سے کہا گیا تھا کہ اس پانی میں آب کوثر ملا ہوا ہے، سب یہ پانی پیئں، لوگوں پر اس پانی نے ایسا نشہ طاری کر دیا تھا کہ ان کے ذہن حسن بن صباح کے ایک ایک لفظ کو دل و جان سے قبول کرتے جا رہے تھے۔
البتہ تاریخوں میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ حسن بن صباح نے قبیلوں اور بستیوں کے سرکردہ افراد اور سرداروں کو پہلے ہی الگ کر لیا تھا، اس نے لوگوں کے ہجوم کو وہاں سے چلتا کیا، اور سردار وغیرہ کو اوپر ٹیکری پر بلا لیا ،ٹیکری کے اوپر جگہ اتنی سرسبز اور خوشنما تھی جیسے انسانوں نے اپنے بادشاہ کے بیٹھنے کے لئے یہ جگہ بڑی محنت سے تیار کی ہو۔
ان سرکردہ افراد کی تعداد کوئی زیادہ نہیں تھی بارہ چودہ ہی تھی، انہوں نے حسن بن صباح کے سامنے جاکر اس طرح تعظیم دی کہ رکوع کی حالت میں چلے گئے، ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ یہ کوئی انسان ہے یا آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہے، یا یہ کوئی فریب کار ہی تو نہیں، یہ سب اس سے مرعوب ہو گئے۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جڑی بوٹیوں کی دھونی کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا گیا تھا، لیکن حسن بن صباح کے پاس لوگوں پر چھا جانے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا، یہ تھا سحر یعنی جادو ،اس کے استاد اور پیرومرشد نے اسے سحر کاری کی خصوصی تربیت دی تھی، بعض مورخوں نے وثوق سے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے لوگوں کے ہجوم پر نظر ڈالیں تو تمام کا تمام ہجوم ہپنا ٹائز ہو گیا تھا، سردار وغیرہ اوپر گئے تو وہ بھی ہپنا ٹائز کردیئے گئے تھے، اسے اجتماعی ہپناٹائز کہا جاتا ہے۔
حسن بن صباح کی ابلیسیت کی داستان کو بعض لوگ محض افسانہ سمجھتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ انھیں یقین نہیں آتا کہ ایک انسان کی ایسی فریب کاری جو لاکھوں انسان کو اپنی زد میں لے لے اور لوگ اسے پیغمبر تسلیم کر لیں من گھڑت قصہ ہی ہوسکتی ہے ،یہ ہے بھی سہی لیکن حسن بن صباح اور اس کے گروہ کے بعض کارنامے اور کمالات ایسے ہیں جو قابل یقین نہیں لگتے ،لیکن حسن بن صباح نے جو ذرائع استعمال کیے تھے وہ حیران کن کمالات دکھا سکتے تھے ،سحر کاری اس دور میں کوئی نئی چیز نہیں تھی ،اتنا ضرور ہے کہ اس دور میں سحر یا کسی بھی قسم کا جادو ہر کسی کے ہاتھ میں نہیں آ سکتا تھا، مثال کے طور پر فرعونوں کے پاس جادوگر موجود تھے یہودیوں نے اس فن میں کمال حاصل کیا، لیکن یہ فن ایسہ عام اور سہل نہیں تھا کہ ہر کوئی سیکھ لیتا۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حسن بن صباح کے ہاتھ کوئی ایسی جڑی بوٹی لگ گئی تھی جس کی بو یا دھونی انسان کو بڑے دلکش تصورات میں لے جاتی تھی، مثلا اس بوٹی کی بو کے زیر اثر کوئی آدمی کنکریاں اور مٹی کھا رہا ہوتا تو وہ پورے یقین کے ساتھ یہ سمجھتا تھا کہ وہ من و سلویٰ کھا رہا ہے، پتھروں پر لیٹ کر اسے نرم و گداز بستر کا لطف آتا تھا۔
آگے چل کر جب داستان گو آپ کو حسن بن صباح کی جنت میں لے جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ وہ جنت کس طرح آباد کی گئی تھی، وہ ایک جہنم تھا جسے لوگ جنت سمجھتے تھے۔
یہ بھی انسانی فطرت کی ایک حقیقت ہے کہ انسانی ذہن نیکی کو سوچ سوچ کر اور خاصا وقت لگا کر قبول کرتا ہے، لیکن بدی کی دلکشی کو وہ فورا قبول کرلیتا ہے، کوئی بھی انسان اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کرنے شروع کر دے اور ذرا سی بھی اچھائی کو قبول نہ کرے تو تھوڑے سے وقت میں وہ مکمل ابلیس بن جاتا ہے ،اس کی زبان میں ایسی چاشنی پیدا ہو جاتی ہے جو پتھروں سے بھی دودھ نکال لیتی ہے ،ایسا شخص جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، اور اتنی خوبصورتی سے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگ دل و جان سے اس کے جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں، مختصر بات یہ ہے کہ انسان انسانیت کے درجے سے دستبردار ہو جائے اور یہ ذہن میں بٹھا لے کے وہ اشرف المخلوقات نہیں تو وہ شخص شیطانیت کے میدان میں معجزہ کر کے دکھا سکتا ہے ،جو شخص اپنی ماں بہن بہو بیٹی کی عزت اور آبرو سے دستبردار ہوجائے وہ حیران کن کارنامہ کر کے دکھا سکتا ہے۔
اگر بات حسن بن صباح کی نفسیات کی لے بیٹھیں تو اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن بات سمجھانے کے لئے بہتر یہ ہے کہ واقعات بیان کر دیے جائیں اور یہ پڑھنے والے پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ سب کیا تھا ،سمجھنے والی اصل بات یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے استادوں اور اس کے گروہ کا وجود ان کی یہ طلسماتی کارستانی یہ اسلام کی سچائی پر بڑا ہی شدید حملہ تھا اور اسلام کے لیے اتنا بڑا چیلنج جو صلیبیوں کے چیلنج سے بھی بڑا اور خطرناک تھا۔
صلیبی تو میدان میں آکر لڑے تھے ،انہوں نے زمین دوز کاروائیاں اگر کی تھی تو وہ اتنی سی تھی کہ انہوں نے اپنی اور یہودیوں کی انتہائی خوبصورت لڑکیاں جاسوسی اور اخلاقی تخریب کاری کے لئے مسلمان امراء اور سالاروں کے درمیان مسلمان لڑکیوں کے روپ میں چھوڑی گئی تھیں، اس کے برعکس حسن بن صباح جو اسماعیلی مسلک کا علمبردار تھا اس لیے خطرناک تھا کہ وہ میدان میں لڑنے والا نہیں تھا ،اس کے حربے اتنے حسین تھے جنہیں صرف عام لوگ بلکہ ذمہ دار لوگ بھی قبول کر لیتے تھے۔
*<=======۔==========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔13۔میں پڑھیں*
*<==========۔=======>*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
Home »
Batil Aqeeda
» Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 12)
No comments:
Post a Comment