find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 23)

Husn Bin Sba ne kis Tarah Apne Ibleesi Taqat se Sultan Mulk Shah ke Saltnat pe Hukumat kiya?
Jhoota Nabi Hone ka Dawa karne wala Husn Bin Sba kaisa Shakhs Tha?
Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 23)
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀۔
قسط نمبر/23
🌴🌴🌴🌴🌴🌴۔
سلطان ملک شاہ نے سالار امیر ارسلان کو حکم تو دے دیا تھا کہ حسن بن صباح کو زندہ پکڑ لائے، لیکن حسن بن صباح کا سراغ نہیں مل رہا تھا کہ وہ ہے کہاں؟ سلطان نے امیر ارسلان سے یہ کہا تھا کہ حسن بن صباح کا سراغ لگاؤ اور اسے پکڑو ۔
کیا آپ کو معلوم ہے وہ ہے کہاں؟،،،،،، مزمل آفندی نے جو میمونہ اور شمونہ کے ساتھ تھا ابو مسلم رازی سے پوچھا۔
نہیں۔۔۔ ابومسلم رازی نے جواب دیا۔۔۔ یہی ایک سوال ہے جس کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں، ایک خبر ملی تھی کہ وہ مصر چلا گیا ہے اور یہ خبر بھی ملی ہے کہ مصر سے واپس آ گیا ہے۔
ہم اسے بغداد چھوڑ آئے ہیں ۔۔۔مزمل آفندی نے کہا ۔
اور یہ میں آپ کو بتا دیتی ہوں۔۔۔ میمونہ نے کہا ۔۔۔کہ وہ مصر سے واپس آ گیا ہے اور اصفہان جا رہا ہے، میں اسکندریہ سے اپنے خاوند کے ساتھ اس کی ہمسفر تھی، یہ میرا دوسرا خاوند تھا اسے حلب میں حسن بن صباح نے قتل کروا دیا تھا۔
قتل کروا دیا تھا؟،،،،، ابو مسلم رازی نے چونک کر پوچھا۔۔۔ وہ کیسے؟
میمونہ نے اسے سارا واقعہ سنا دیا۔
اور پھر اس نے مجھے اپنے اثر میں لے لیا۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔۔ اس نے ایسے انداز اور ایسے طریقے سے میرے ساتھ باتیں کیں کہ میں اسے خدا کی طرف سے زمین پر اترا ہوا فرشتہ سمجھنے لگی، میں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ میرے خاوند کی جان ایک بدروح نے لی ہے اور یہ بد روح میری بھی جان لے گی، اور اس بزرگ و برتر شخصیت حسن بن صباح نے مجھے اس روح سے محفوظ کرلیا ہے۔
کیا اس نے تمہیں اپنے ساتھ رکھ لیا تھا؟۔۔۔۔ابو مسلم رازی نے پوچھا۔
سرائے میں وہ الگ کمرے میں رہتا تھا ۔۔۔میمونہ نے جواب دیا ۔۔۔میں اس کے ساتھ اس کمرے میں رہنے لگی تھی ۔
میں حیران ہوں کہ تم اس کے چنگل سے نکل کس طرح آئی؟،،،، ابومسلم رازی نے کہا ۔
مزمل آفندی اور اس کے بڑے بھائی کی رہنمائی اور مدد سے وہاں سے نکلی ہوں۔۔۔ میمونہ نے کہا۔
میمونہ نے تفصیل سے سنایا کہ وہ کس طرح مزمل آفندی اور اس کے بڑے بھائی سے اتفاقیہ ملی تھی، اور بڑے بھائی نے اسے حسن بن صباح کی اصلیت بتائی تھی۔
امیر شہر!،،،،، مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ہم اصفہان کے رہنے والے ہیں، تجارت ہمارا پیشہ ہے، ہم شہر شہر قصبہ قصبہ جاتے ہیں لوگوں سے ملتے ملاتے ہیں اور ہم اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے والے مسلمان ہیں، اس لیے ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہاں غور سے دیکھتے ہیں کہ کہیں اسلام کی روح کو مسخ تو نہیں کیا جا رہا۔
ان قلعوں کے علاقوں میں تم نے کیا دیکھا ہے؟،،،، ابومسلم رازی نے پوچھا۔
ان علاقوں میں لوگ حسن بن صباح کو خدا کا ایلچی سمجھتے ہیں۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا۔۔۔۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ حسن بن صباح آسمان سے زمین پر اترا تھا اور پھر آسمان پر چلا گیا ہے، اور ایک بار پھر اس کا ظہور ہوگا۔
ہمیں معلوم ہوچکا ہے۔۔۔ ابو مسلم رازی نے کہا لیکن۔۔۔ ہم لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے، لوگ تو کھیتی کی مانند ہیں، کھیتی ہر بیج کو قبول کر لیتی ہے، حشیش کا پودا بھی کھیتی اگاتی ہے، اور حنا بھی کھیتی ہی دیتی ہے، ہم اسے پکڑیں گے جو حنا پیدا کرنے والی زمین میں حشیش کا بیج بوتا ہے۔
مجھے ایک شک ہے امیر شہر!،،،،، مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔ایسے لوگوں کو آپ فوج کہیں یا احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے جانباز پیروکار کہہ لہں، انہی حشیش پلائی جاتی ہے اور نشے کی حالت میں ان کے دماغوں میں وہ لوگ اپنے بے بنیاد عقیدے ڈالتے ہیں، دوسرے لوگوں کی تو انہوں نے کایا پلٹ دی ہے ،محصولات اور مالیہ اس قدر کم کر دیا گیا ہے جو انتہائی غریب کسان نہایت آسانی اور خوشی سے دیتا ہے۔
وہ محصولات بالکل معاف کر سکتے ہیں ۔۔۔ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ قافلے لوٹ لوٹ کر انہوں نے قارون کے خزانے اکٹھے کر لئے ہیں، اور ابھی تک ان کی لوٹ مار جاری ہے، قتل و غارت گری ان لوگوں کا دستور ہے، اس عورت کو دیکھو اس کی اس بیٹی شمونہ کو حسن بن صباح کے ڈاکوؤں نے چھوٹی سی عمر میں اغوا کر لیا تھا ،اس کی ماں کو دیکھو اس کے دو خاوند ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔
امیر محترم!،،،،، مزمل آفندی نے پوچھا ۔۔۔آپ کے سالار امیر ارسلان حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے کب روانہ ہو رہے ہیں؟
میں ضروری نہیں سمجھتا کہ تمہیں اس سوال کا جواب دوں۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔مجھے یہ بتاؤ کہ بغداد سے اس قافلے نے کب روانہ ہونا تھا ؟
ابھی اس کی روانگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔۔۔ مزمل آفندی نے جواب دیا ۔۔۔اگر روانہ ہو بھی چکا ہو تو ابھی راستے میں ہی ہوگا۔
تم یقیناً اپنے بھائی کے پاس جانا چاہو گے؟،،،، ابومسلم رازی نے پوچھا۔
یقیناً !،،،،مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔وہ میرے لئے پریشان بھی ہوں گے، مگر میں ایک خطرہ محسوس کر رہا ہوں، میں اس خاتون کو وہاں سے لایا ہوں یہ دراصل حسن بن صباح کے قبضے میں تھی، اسے میں اس کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لایا ہوں، ہوسکتا ہے حسن بن صباح پر یہ راز کھل جائے تو کیا وہ مجھے قتل نہیں کرا دے گا؟
تم اکیلے نہیں جاؤ گے۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔میں مرو جا رہا ہوں ،سلطان سے کہوں گا کہ سالار امیر ارسلان کو فوراً بغداد بھیج دیں، اگر قافلہ اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا ہو تو اس کا تعاقب کرے، اور حسن بن صباح کو پکڑ کر لے آئے، تمہیں اس کے ساتھ جانا پڑے گا، میرا خیال ہے امیر ارسلان اس کو نہیں پہچانتا، یہ تم اسے بتاؤ گے وہ تمہیں اپنی پناہ میں رکھے گا ،تمہیں یہاں تین یا چار دن رکنا پڑے گا، امیر ارسلان یہاں آ کر روانہ ہوگا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷-*
ابومسلم رازی اسی روز مرو کو روانہ ہوگیا، اس کے حکم سے مزمل آفندی کی رہائش کا انتظام کردیا گیا تھا ،شمونہ کو ابومسلم رازی نے اپنے مکان میں ٹھہرایا ہوا تھا ،میمونہ اس کے ساتھ چلی گئی۔
مزمل آفندی نے جس وقت شمونہ کو دیکھا تھا اس کی نظریں شمونہ سے ہٹ نہیں رہی تھی، شمونہ بہت ہی حسین لڑکی تھی لیکن اس کے چہرے پر ایک تاثر اور بھی تھا، مزمل آفندی محسوس کر رہا تھا کہ اس لڑکی کا حسن صرف جسمانی نہیں ،اس لڑکی میں اسے کوئی اور ہی پَر تو نظر آ رہا تھا۔
مزمل آفندی اپنے کمرے میں گیا تو وہ اپنے آپ میں ایسی ہلچل محسوس کر رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی، وہ بے قرار سا ہوتا گیا اور سوچنے لگا کے کس بہانے وہ ماں بیٹی کے کمرے میں جائے ،وہ تین چار بار اس توقع پر نکلا شاید ماں یا بیٹی باہر نکلے تو اس کے پاس آ جائے، یا اسے بلا لے، اس نے میمونہ پر بہت بڑا احسان کیا تھا،
شام گہری ہونے کے بعد مزمل آفندی کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ شمونہ اس کے کمرے میں آگئی، مزمل آفندی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ شمونہ اس کے کمرے میں آئی ہے۔
میں تمہارے چہرے پر حیرت کا تاثر دیکھ رہی ہوں ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ کیا تمہیں عجیب لگا ہے کہ میں رات کے وقت تمہارے کمرے میں آئی ہوں؟
ہاں شمونہ !،،،،،مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔مجھے تمہارا یہاں آنا عجیب لگا تھا ،لیکن جس بے باکی سے تم نے پوچھا ہے اسے میری حیرت ختم ہوگئی ہے ،میں تمہیں حرم کی ایک عام سی لڑکی سمجھا جو بچپن میں اغوا ہوکر یہاں تک پہنچی ہے۔
میں اغوا ہوئی تھی۔۔۔ شمونہ نے کہا ۔۔۔لیکن میں کسی کے حرم میں قید نہیں ہوئی، نہ مجھے جسمانی تفریح کا ذریعہ بنایا گیا تھا، بلکہ مجھے ایسی تربیت دی گئی کہ میں پتھر دل آدمی کو موم کی طرح پگھلا کر اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکتی ہوں ۔
تمہیں یہ تربیت کس نے دی تھی؟۔۔۔ مزمل آفندی نے پوچھا۔
حسن بن صباح کے ٹولے نے۔۔۔ شمونہ نے جواب دیا۔۔۔ لیکن مزمل میں تمہیں یہ داستان سنانے نہیں آئی کہ میں کیا تھی اور اب کیا ہوں۔
ساری داستان نہ سہی۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ میں کچھ نہ کچھ تو ضرور معلوم کرنا چاہوں گا، جس طرح تم نے میرے ساتھ بے باکی سے بات کی ہے اسی طرح میں بھی تھوڑی سی بے باکی کا حق رکھتا ہوں، اگر تمہیں اچھا نہ لگے تو مجھے روک دینا ۔
آفندی !،،،،،شمونہ نے کہا ۔۔۔مجھے وہ انسان اچھا لگتا ہے جس کی زبان پر وہی ہو جو اس کے دل میں ہے۔
شمونہ !،،،،،مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ میری زبان پر تمہارا نام ہے، اور میرے دل میں بھی تم ھی ہو ،میں نے تمہیں آج ہی دیکھا ہے اور میرے دل نے کہا ہے کہ اس لڑکی کا حسن جسمانی نہیں روحانی ہے اور خدا کی قسم میں نے یقین کی حد تک محسوس کیا کہ میں تمہیں بچپن سے جانتا ہوں اور بچپن سے تم میرے دل میں موجود ہو ،اگر تمہیں میری نیت پر شک ہو تو یہ سوچ لینا کہ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر تمہاری ماں کو یہاں لایا ہوں ،اور اسے میں اس لیے نہیں لایا کہ تم خوش ہو جاؤ گی، تمہیں تو میں جانتا تک نہ تھا، میں ایک مظلوم اور فریب خوردہ عورت کو ایک ابلیس کے جال سے نکال کر لایا ہوں ،یہ کہتی تھی کہ میری بیٹی سلجوقی سلطان یا کسی امیر کے پاس ہے ،میں اسے محض خواب اور خیال سمجھتا تھا ،میں تو یہ سوچ کر اسے لے آیا تھا کہ اسے ابومسلم رازی کی پناہ میں چھوڑ کر لوٹ جاؤنگا ۔
میں تمہاری بات سمجھ گئی ہوں آفندی!،،،،، شمونہ نے کہا۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ تم میری خاطر نہیں آئے۔
یہ تو اتفاق ہے۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ اسے معجزہ کہو تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ تم یہاں مل گئیں۔
یہ اللہ کا انعام ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ اللہ نے میری توبہ قبول کر لی ہے، میرے دماغ میں ابلیسیت ڈالی گئی تھی اور میرے خیالات اور میرے کردار کو ابلیسیت کے سانچے میں ڈھال دیا گیا تھا ،لیکن ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ میں ہوش میں آ گئی، مجھے امید نہیں تھی کہ اپنے آپ کو ابلیسی اوصاف سے پاک کرکے انسانیت کے دائرے میں داخل ہو سکوں گی ،لیکن مجھ پر یہ راز کھلا ہے کہ انسان آخر انسان ہے اور وہ اول آخر انسان رہتا ہے، کبھی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ انسان ابلیسیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے یا ایسے انسانوں کے نرغے اور اثر میں آجاتا ہے کہ اسے ابلیسیت میں لذت حاصل ہوتی ہے اور وہ ابلیس کا پجاری بن جاتا ہے، لیکن وہ رہتا انسان ہی ہے، وہ ابلیس نہیں بن جاتا، یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، وہ ارادہ کرلے اور یہ سمجھ لے کے اللہ نے اپنی نگاہ میں انسان کو کتنا اونچا مقام دیا ہے تو وہ ایک جھٹکے سے ابلیس کے چنگل سے نکل کر اللہ کے قریب ہو سکتا ہے، یہ میں نے کیا اور اللہ نے یہ انعام دیا کہ مجھے میری بچھڑی ہوئی ماں دے دی۔
یہ عمر ،،،،اور یہ حُسن ،،،،مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔اور یہ سنجیدگی،،،،
کیا تمہیں یہ سنجیدگی اچھی نہیں لگی؟۔۔۔شمونہ نے پوچھا۔
یہی تو مجھے اچھی لگی ہے۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔تم چاہتی ہو کہ جو دل میں ہو وہی زبان پر آئے، میرے دل کی آواز سن لو شمونہ!،،، میرے دل میں تمہاری وہ محبت پیدا ہو گئی ہے جس کا تعلق روح کے ساتھ ہے، اور تم نے ایسی محبت کے قصے سنے ہونگے۔
شمونہ چونک پڑی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا، جیسے وہ خوفزدہ ہوگئی ہو، وہ آنکھیں پھاڑے مزمل آفندی کو دیکھنے لگی ،جیسے اس جواں سال اور خوبرو آدمی نے اسے کہہ دیا ہو کہ میں تمہیں قتل کر دوں گا۔
کیوں شمونہ ؟،،،،،مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔کیا میں نے تمہارے دل کو تکلیف پہنچائی ہے۔
نہیں آفندی!،،،،،، شمونہ نے کہا ۔۔۔مجھے شک ہے کہ میری محبت اور موت میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔
مزمل آفندی سراپا سوال بن گیا؟
آج میں کچھ اور کہنے آئی تھی ۔۔۔شمونہ نے کہا ۔۔۔میں تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم میری ماں کو لے آئے ہو ،اور اس سے زیادہ اللہ کی شکر گزار ہوں کہ ماں نے مجھے انسان کے روپ میں دیکھا ہے، اس سے پہلے دیکھتی تو کہتی ،،،نہیں،،، یہ میری بیٹی نہیں ۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
تم جا رہی ہوں؟،،،، مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ میں کیا سمجھوں ناراض ہو کر جا رہی ہو؟
کل آؤنگی آفندی!،،،،، شمونہ نہ قدرے خوشگوار لہجے میں جواب دیا ۔۔۔میں ناراض نہیں ہوں، تمہاری نیت سمجھ گئی ہوں ،میں چہرے سے نیت معلوم کر لیا کرتی ہوں، میں نے تمہارے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنی ہے۔
شمونہ چلی گئی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
اگلے روز کا سورج طلوع ہوا ،مزمل آفندی ناشتے سے فارغ ہو چکا تھا، شمونہ اپنی ماں میمونہ کے ساتھ اس کے کمرے میں آگئی۔
مزمل !،،،،،میمونہ نے کہا۔۔۔ میری بیٹی نے بتایا ہے کہ تم نے اسے اپنے لیے پسند کیا ہے۔
نہیں !،،،،،مزمل نے کہا... اپنے لیے پسند کرنے کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے، شمونہ بازار کی کوئی چیز نہیں کہ یہ مجھے پسند آگئی ہے، اور میں یہ چیز خرید لوں گا ،صاف بات یہ ہے کہ میں اس کی محبت کا اسیر ہو گیا ہوں، اور یہ محبت میری روح میں اتر گئی ہے، اگر شمونہ مجھے قبول نہیں کرے گی تو میری روح سے اس کی محبت نکل نہیں سکے گی۔
تمہیں قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ شمونہ کرے گی۔۔۔ میمونہ نے کہا ۔۔۔اور پوچھا کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہو؟
شادی صرف اس صورت میں کروں گا کہ یہ میری محبت کو قبول کرلے۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔لیکن قابل احترام خاتون!،،، میں ابھی شادی کی بات ہی نہیں کروں گا ،پہلے وہ مہم سر کروں گا جس کے لیے میں یہاں رکا ہوں، حسن بن صباح کی گرفتاری سلطان نے حکم دیا ہے کہ حسن بن صباح کو زندہ اس کے سامنے لایا جائے، لیکن وہ میرے سامنے آگیا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا ،میری تلوار اس کے خون کی پیاسی ہے۔
اس لئے کہ اس نے میرے پہلے خاوند کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل کروایا تھا ؟۔۔۔میمونہ نے پوچھا۔۔۔ اور اس لیے کہ اس نے میرے دوسرے خاوند کو بھی قتل کروایا ہے، کیا تم ہم ماں بیٹی کو خوش کرنا چاہتے ہو؟
نہیں !،،،،،مزمل آفندی نے جواب دیا ۔۔۔میں اللہ کو اور اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو خوش کرنا چاہتا ہوں، حسن بن صباح نے بے شمار عورتوں کو بیوہ اور بے شمار بچوں کو یتیم کیا ہے، اور وہ اسلام کی روح کو قتل کر رہا ہے ۔
آفندی !،،،،،،شمونہ بے اختیار بولی۔۔۔ اگر تم اس ابلیس کو قتل کر دو تو خدا کی قسم اپنا جسم اور اپنی روح تمہارے قدموں میں ڈال دوں گی۔
میں نے اسے اپنے دو خاوندوں کے قتل کا انتقام لینا ہے۔۔۔۔ میمونہ نے کہا ۔۔۔اور اس نے میری بیٹی کو جو تربیت دی ہے، اور اس سے جو قابل نفرت کام کروائے ہیں، میں نے اس کا بھی انتقام لینا ہے۔
لیکن ماں شمونہ نے کہا ۔۔۔کیا آپ محسوس نہیں کر رہی ہیں کہ آپ بھی اور آفندی بھی جذباتی باتیں کر رہے ہیں، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنی آسانی سے آپ قتل کے ارادے کی باتیں کر رہی ہیں، میں اس کے ساتھ رہی ہوں ،کوئی شخص اس کے پاس اسے قتل کرنے کے ارادے سے جائے گا تو وہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ اس شخص کو قتل کروں یا نہ کروں ۔
میں اس کی یہ طاقت دیکھ چکی ہوں۔۔۔۔ میمونہ نے کہا ۔۔۔میں اسے طاقت نہیں جادو کہوں تو غلط نہیں ہوگا۔
طاقت کہوں یا جادو ۔۔۔شمونہ نے کہا ۔۔۔اسے جتنا میں جانتی ہوں اتنا آپ دونوں نہیں جانتے، میں کہہ رہی ہوں کہ اسے قتل کرنے کا کوئی اور طریقہ سوچنا پڑے گا، اسے پکڑنے کے لیے فوج بھیجی جا رہی ہے، میں آپ کو بتاتی ہوں وہ نہیں پکڑا جائے گا، اگر پکڑا گیا تو بڑا ہی خوبصورت دھوکہ دے کر نکل جائے گا اسے قتل کرانے کے لیے قرامطیوں کو استعمال کیا جائے تو کامیابی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔
یہ تم کیسے کہہ سکتی ہوں ؟،،،،مزمل آفندی نے پوچھا۔
یہ میں اس لیے کہہ سکتی ہوں کہ میں حسن بن صباح کے ساتھ رہی ہوں۔۔۔ شمونہ نے جواب دیا ۔۔۔اس نے تین چار بار یہ الفاظ کہے تھے کہ صرف قرامطی ہیں جن سے میں خطرہ محسوس کرتا ہوں ،میں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا تھا کہ قرامطی خونخوار لوگ ہیں، اور اس کی تاریخ قتل و غارت گری سے بھری پڑی ہے، حسن بن صباح نے مجھے بتایا تھا کہ قرامطیوں نے خانہ کعبہ میں بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔
لیکن اب قرامطیوں میں وہ بات نہیں رہی۔۔۔ میمونہ نے کہا۔
میں حسن بن صباح کی بات کر رہی ہوں۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتا، خدا سے بھی نہیں ڈرتا، لیکن اس کے دل میں قرامطیوں کا خطرہ موجود رہتا ہے، ایک بار اس نے مجھے ایک ماں بیٹے کا قصہ سنایا اور کہا تھا کہ یہ سچا واقعہ ہے ،اس کا راوی بغداد کا ایک مشہور طبیب ابولحسین ہے، جو عرصہ ہوا فوت ہوگیا ہے، اس کا سنایا ہوا یہ واقعہ کاتبوں نے تحریر کر لیا تھا،،،،،،
اس طبیب کے پاس ایک عورت گئی اس کے شانے پر تلوار کا گہرہ اور لمبا زخم تھا، وہ زخم کی مرہم پٹی کرنے گئی تھی، طبیب نے پوچھا کہ یہ زخم کیسے آیا ہے، عورت نے زارو قطار روتے ہوئے کہا کہ اس کا اکلوتا اور نوجوان بیٹا کچھ عرصے سے لاپتہ ہے، وہ شہروں اور قصبوں کی خاک چھانتی پھری مگر بیٹے کا کھوج نہ ملا،،،،،،،
وہ شہر رَقّہ میں تھی، بیٹا وہاں بھی نہیں تھا، کسی نے اسے کہا کہ وہ بغداد جائے شاید بیٹا وہاں مل جائے، ماں بغداد کو روانہ ہوگئی ،تھکی ہاری بغداد کے قریب پہنچی تو اسے اپنا بیٹا نظر آیا، وہ قرامطیوں کےایک لشکر کے ساتھ جا رہا تھا ،اسے دیکھ کر ماں کی تھکان ختم ہوگئی، اس نے بیٹے کو پکارا بیٹا اسے دیکھتے ہی لشکر سے نکل آیا، ماں نے اسے گلے لگا لیا، پھر اس سے خیر خیریت پوچھی اور گلے شکوے کرنے لگی کہ وہ ماں کو بھول گیا ہے۔
بیٹا بولا فضول باتیں بند کرو ماں!،،،،، یہ بتاؤ تمہارا دین کیا ہے ؟،،،ماں نے حیرت زدگی کے عالم میں کہا ،،،کیا باہر گھوم گھوم کر دیس سے پردیسی ہو کر تیرا دماغ صحیح نہیں رہا، میں اسی دین کو مانتی ہوں جسے پہلے مانتی تھی، میرا دین اسلام ہے سب مذہبوں میں سچا مذہب اسلام ہے،،،،،،، بیٹا پھٹ کر بولا مت غلط بات کہوں ماں!،،، وہ باطل ہے جس کو ہم سچا دین مانتے رہے ہیں ،سچا دین یہ ہے جس کا اب میں پجاری ہوں، یہ ہے قرامطی دین، اگر تم اسلام کو مانتی ہوں تو قرامطی اسلام کو مانو،،،،،،
ماں کے تو جیسے ہوش ہیں اڑ گئے، بیٹے نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے خلاف ایک بے ہودہ بات کہہ دی، ماں نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کانوں کو ہاتھ لگا توبہ کر، اور اللہ سے معافی مانگ، بیٹے نے ماں کو غصے سے گھورا اور اپنے لشکر سے جاملا، ماں کو جس بیٹے کی جدائی نے پاگل کر رکھا تھا اور جو بستی بستی قریہ قریہ بیٹے کو ڈھونڈتی پھرتی تھی بیٹے کو لشکر کے ساتھ جاتا دیکھتی رہ گئی،،،،،،
شہر بغداد قریب تھا ماں بغداد چلی گئی وہ روتی اور فریادیں کرتی تھی، اسے اپنے جیسی ایک عورت مل گئی اس نے اس مجبور ماں سے پوچھا کہ وہ کونسا دکھ ہے جو اسے اتنا رلا رہا ہے،،،، ماں نے حال دل کہہ سنایا، عورت نے اسے بتایا کہ وہ ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتی ہے ،اور قرامطیوں کی قید میں بھی رہ چکی ہے ،جس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ دین اسلام سے منحرف نہیں ہوئی،،،،،،،
ہاشمی خاندان کی یہ خاتون اس غمزدہ ماں کو اپنے گھر لے جا رہی تھی کہ قرامطی بیٹا پھر سامنے آگیا ،اس نے ماں سے پوچھا تو نے دین اسلام کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں؟،،،،،،ماں نے کہا۔۔۔ میں نے اپنے گمراہ بیٹے کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، بیٹے نے بڑی تیزی سے تلوار نیام سے نکالی اور للکار کر کہا ،،،میں اپنی ماں کو قرامطی دین پر قربان کرتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے ماں پر تلوار کا زوردار وار کیا، ماں وار بچا تو گئی لیکن تلوار اس کے شانے پر پڑی اور زخم گہرا آیا ،کچھ لوگوں نے دوڑ کر بیٹے کو پکڑ لیا ماں قتل ہونے سے بچ گئی، اور طبیب ابوالحسین کے یہاں جا پہنچی،،،،
یہ واقعہ ابن اثیر نے "تاریخ کامل" کی ساتویں جلد کے صفحہ 173 پر لکھا ہے، اس کی تحریر کے مطابق اس واقعے کا اختتام یوں ہوا تھا کہ قرامطی تعداد میں تو بہت زیادہ ہوگئے تھے، لیکن بغداد میں ابھی ان کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی، اپنی ماں پر قاتلانہ حملہ کرنے والا بیٹا پکڑا گیا ایک روز ماں طبیب سے مرہم پٹی کرا کے آ رہی تھی اس نے قیدیوں کی ایک ٹولی دیکھی ہر قیدی کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں، ان میں زخمی ماں کا بیٹا بھی تھا، ماں نے بیٹے کو دیکھا اور چلا کر بولی،،،،، اللہ تجھ سے بھلائی نہ کرے جس نے اپنے سچے دین کو باطل کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی توہین کی، اس قید سے تو کبھی آزاد نہ ہو،،،،
حسن بن صباح نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا۔۔۔۔شمونہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا ۔۔۔وہ کہتا تھا کہ میں اس قسم کے پیروکار چاہتا ہوں جو اپنے عقیدے پر خواہ یہ عقیدہ باطل ہی ہو اپنی ماں کو اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بھی ذبح کردے ۔
ہم قرامطیوں کو کہاں سے لائیں؟،،،، مزمل آفندی نے کہا۔
مل جائیں گے۔۔۔ شمونہ نے کہا ۔۔۔میں امیر شہر سے بات کروں گی، لیکن ابھی نہیں، ابھی وہ فوج بھیج رہے ہیں، خدا کرے وہ پکڑا جائے اگر نہ پکڑا گیا تو میں قرامطیوں کا انتظام کروں گی۔
شمونہ!،،،،،، مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔اگر میں وہی کام کر دوں جو تم سمجھتی ہو کہ قرامطیوں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا تو،،،،،،،
تو جو انعام مانگو گے امیر شہر سے دلواؤنگی۔۔۔ شمونہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
نہیں شمونہ !،،،،،مزمل آفندی نے جذباتی سے لہجے میں کہا۔۔۔ میں نے کسی امیر، کسی وزیر، اور کسی سلطان سے انعام نہیں لینا۔
اس نے شمونہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا، میمونہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ماں بیٹی کمرے سے نکل گئیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
امیر شہر کے محل نما مکان کے عقب میں کچھ دور بڑا ہی خوشنما باغ تھا، جس میں شہر کے لوگ داخل نہیں ہو سکتے تھے، اس میں گھنے پھول دار پودے تھے، گھنی بیلیں اور سارے باغ پر سائے کۓ ہوئے درخت بھی تھے، اور یہ درخت تعداد میں بہت زیادہ تھے ،بعض بیلیں اس طرح درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں کہ سبزے کے غار سے بنے ہوئے تھے۔
اسی دن کا پچھلا پہر تھا شمونہ مزمل آفندی کے کمرے میں آئی اور یہ کہہ کر چلی گئی میں باغ میں جا رہی ہوں، وہاں آ جاؤ۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ دونوں باغ کے ایک بہت ہی دل نشین اور ڈھکے چھپے گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
کیا میں یہ سمجھوں کہ تم نے میری محبت کو قبول کرلیا ہے شمونہ؟،،،،، مزمل آفندی نے پوچھا۔
میں نے تمہاری محبت کو ٹھکرایا تو نہیں۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ لیکن مزمل میں تمہیں خبردار کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ میری محبت تمہیں راس نہیں آئے گی، حسن بن صباح کے یہاں مجھے ایک بڑی ہی خوبصورت دھوکہ بنایا گیا تھا، اور مجھے یہ تربیت دی گئی تھی کہ جس آدمی کو جال میں لینا ہو اس پر نشہ بن کر طاری ہو جاؤ ،اور اسے ہوش ہی نہ آنے دوں کہ وہ ایک بڑے ہی خطرناک دھوکے میں آ گیا ہے، میں نے یہ کمال حاصل کیا اور مرو میں اپنے اس کمال کو آزمایا اور ایک ایسے آدمی کی عقل کو اپنی مٹھی میں لے لیا جو بلا شک و شبہ زاہد ، پارسا اور دانشمند تھا، میرا راز فاش ہونے کی وجہ کچھ اور تھی، میں نے حسن بن صباح کا راز بھی فاش کر دیا،،،،
یہاں آگئی اور امیر شہر ابومسلم رازی سے پناہ مانگی،  انہوں نے مجھے پناہ میں لے لیا، میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے اندر انسانیت زندہ ہے، میں نے اپنی فطرت کو ابلیسی اوصاف سے پاک کرنے کا عزم کرلیا، ابو مسلم نے مجھے ایک ایسے عالم دین کے حوالے کر دیا جو واقعی علم دین تھا ،میں نے اسے اپنا پیر و مرشد مان لیا ،وہ تو تارک الدنیا تھا ،میں نے اس کی بہت خدمت کی لیکن ہوا یہ کہ میری روح کی پیاس بجھتی گئی اور میرے پیرومرشد کی روح میں تشنگی پیدا ہوتی گئی، شمونہ نے مزمل آفندی کو نور اللہ کا سارا واقعہ سنایا۔
میں جانتی ہوں اس نے اپنے آپ کو سزائے موت دی تھی۔۔۔ شمونہ نے کہا۔ ۔ وہ تو مر گیا لیکن میری ذات میں یا میری روح میں عجیب سی بے چینی اور تلخی پیدا ہوگئی، مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوگئی، میرے دماغ پر یہ خیال غالب آگیا کہ ہر عورت یا ہر خوبصورت عورت کے ساتھ شیطان کا تعلق ضرور ہوتا ہے، ابومسلم رازی نے کہا تھا کہ ایک خوبصورت عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کے ایمان کو سلا کر اس میں ابلیسیت کو پیدا کر سکتی ہے، لیکن جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ان کا ابلیس کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔
تم نے مجھے یہ واقعہ کیوں سنایا ہے ؟،،،،مزمل آفندی نے پوچھا۔
اس لئے کہ میرے دل نے تمہاری محبت کو قبول کرلیا ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ تم عام سے امیر زادے ہوتے تو اور بات تھی، لیکن میں تم میں کوئی ایسا جذبہ دیکھ رہی ہوں جو ہر کسی میں نہیں ہوتا ،میں ڈرتی ہوں کہ تم نے مجھے خوبصورت لڑکی سمجھ کر میری محبت کا نشہ اپنے دل پر طاری کر لیا ہے تو میں اپنے آپ کو اس گناہ کی گنہگار سمجھوں گی ،کبھی تو خدا سے گلہ شکوہ بھی کرتی ہوں کہ مجھے عورت کیوں بنایا تھا؟،،،،،،  اگر میں یہ تفصیل سے سناؤں کہ میں بچپن میں اغوا ہوئی تھی تو اس عمر سے لے کر جوان ہونے تک مجھے کیسی تربیت ملی اور میں نے کیسی زندگی گزاری ہے تو تم آج بھی مجھ پر اعتبار نہ کرو، تم آج بھی مجھے ایک دلکش دھوکا کہو گے، لیکن میں تمہیں بتاتی ہوں کہ میری ذات میں جو انقلاب آیا ہے اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں، یہ ایک معجزہ ہے، میں نے یہ راز پا لیا ہے کہ خدا مجھ سے اپنے عظیم اور سچے دین کے لیے کوئی کام کروانا چاہتا ہے۔
معلوم نہیں تم نے یہ راز بھی پایا ہے یا نہیں؟،،،، مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ اللہ کی ذات باری نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں،،، اور میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ میری تمہارے ساتھ یہ ملاقات جو غیر متوقع طور پر اور انہونے طریقے سے ہوئی ہے اس کا کوئی خاص مقصد ہے، اور یہ مقصد اللہ کی ذات باری نے متعین کیا ہے، تم نے ٹھیک کہا ہے کہ میں اپنے دل پر تمہیں صرف خوبصورت لڑکی سمجھ کر محبت کا نشہ طاری نہ کروں ،نہیں شمونہ!،،،، میں ایسا نہیں کروں گا، میں نے تمہیں پہلے کہا تھا کہ میں نے تم میں کوئی خاص بات دیکھی ہے۔
میں تمہیں وہ خاص بات بتا دیتی ہوں۔۔۔ شمونہ نے کہا ۔۔۔میں حسن بن صباح کو قتل کرنا چاہتی ہوں، اس نے میرے دو باپ قتل کروائے ہیں ،ایک سگا، دوسرا سوتیلا ،اس نے میری ماں کو دوبارہ بیوہ کیا ہے ،یہ تو میرا ذاتی معاملہ ہے، دوسرا معاملہ اسلام کا ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان اور اسلام کا شیدائی ظاہر کر رہا ہے، لیکن وہ اسلام کی جڑیں کاٹ رہا ہے،،،، ایک بات اور بھی ہے اس نے میرے قتل کا حکم دے رکھا ہے، اس نے مجھے ایک شخص کے گھر میں قیدی کی حیثیت سے رکھا تھا، اس شخص کی بیوی کو پتہ چل گیا کہ مجھے قتل کیا جائے گا اس نے مجھے رات کو فرار کرا دیا اور میں امیر شہر ابومسلم رازی کے پاس آ گئی۔
یہی عزم میرا ہے ۔۔۔مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔یہ کام میں نے کرنا ہے، اگر میں اس مہم میں ناکام رہا اور مارا گیا تو یہ کام کرنے کی کوشش کرنا میں اپنی زندگی میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا، میں فوج کے ساتھ جا رہا ہوں، سالار امیر ارسلان حسن بن صباح کو سلطان کے حکم کے مطابق زندہ پکڑنے کی کوشش کرے گا اور پکڑ بھی لے گا، لیکن میں اسے وہیں قتل کر دوں گا۔
حسن بن صباح کے قتل کی باتیں کرتے کرتے  یہ ایک دوسرے میں گھل مل گئے، اور جذباتی باتوں پر آگئے ،شمونہ جب وہاں سے نکلی تو وہ مزمل آفندی کی محبت سے سرشار تھی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
تین چار دنوں بعد ابو مسلم رازی نے مزمل آفندی کو بلایا ،سالار امیر ارسلان آ گیا تھا۔
پانچ سو سواروں کا دستہ آگیا ہے۔۔۔ ابومسلم رازی نے مزمل آفندی کو بتایا۔۔۔ آج ہی جتنی جلدی ہو سکے روانہ ہونا ہے، اگر قافلہ بغداد سے نکل گیا ہو تو اس کے تعاقب میں جانا ہے، تم حسن بن صباح کو پہچانتے ہو، امیر ارسلان نے اسے کبھی نہیں دیکھا، تم ہمارے مہمان ہو اور ہمارے لشکری یا ملازم نہیں ہوں، اس لئے یہ فرض تم پر عائد نہیں ہوتا کہ وہاں اگر لڑائی ہو جائے تو تم بھی لڑو۔
کیا آپ کو توقع ہے کہ وہاں لڑائی ہوگئی؟،،،،، مزمل آفندی نے پوچھا۔
ہاں !،،،،،،ابومسلم رازی نے جواب دیا ۔۔۔تم شاید نہیں سمجھتے ،جسے تم قافلہ کہہ رہے ہو اس میں حسن بن صباح کے باقاعدہ لڑنے والے آدمی بھی ہونگے۔
میں ایک بات کہوں گا امیر شہر!،،،،، مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔اگر بات لڑائی تک آ گئی تو پھر میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ لڑنا میرا فرض ہے یا نہیں، مجھے بتایا گیا ہے کہ سلطان معظم نے حسن بن صباح کو زندہ پکڑنے کا حکم دیا ہے، لیکن امیر شہر!،،، حسن بن صباح میرے سامنے آگیا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اسے زندہ ہی پکڑوں گا۔
چاہتا تو میں بھی یہی ہوں۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔اس شخص کو میں بھی زندہ نہیں دیکھنا چاہتا ،بہرحال میری طرف سے تمہارے لیے کوئی حکم اور کوئی پابندی نہیں۔
دن کا پچھلا پہر تھا جب سالار امیر ارسلان کی قیادت میں پانچ سو سواروں کا دستہ رے سے کوچ کر گیا۔
انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ حسن بن صباح بغداد سے اس قافلے کو چھوڑ کر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اسی روز اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا تھا جس روز مزمل آفندی میمونہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکلا تھا ۔
یہ بتانا مشکل ہے کہ پانچ سو سواروں کا یہ دستہ کتنے پڑاؤ کر کے اور کتنے دنوں بعد بغداد پہنچا ،اس دستے کی رفتار بہت ہی تیز تھی، دستہ جب بغداد پہنچا تو پتہ چلا کہ قافلے کو یہاں سے روانہ ہوئے تین دن گزر گئے ہیں، امیر ارسلان نے دستے کو کچھ دیر آرام دیا اور کچھ کھایا پیا اور وہاں سے قافلے کے تعاقب میں کوچ کر گئے۔
جو قافلہ تین دن پہلے روانہ ہوا تھا اس تک سوار دستے کو پہنچنے کے لیے کم از کم دو دن تو ضرور ہی لگنے تھے، امیر ارسلان نے اپنے دستے کو صرف ایک پڑاؤ کرایا اور بڑی تیز رفتار سے قافلے کے تعاقب میں گیا۔
اس روز جس روز سواروں کا دستہ قافلے تک پہنچا سورج سر پر آ گیا تھا اور قافلہ ایک ہرے بھرے سرسبز علاقے میں سے گزر رہا تھا، دو اونچی پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان کشادہ وادی تھی۔
امیر ارسلان اور مزمل آفندی دستے کے آگے آگے جا رہے تھے، ان کا راستہ ایک پہاڑی کی ڈھلان پر تھا ،وہ ایک موڑ مڑے تو نیچے انہیں قافلہ جاتا نظر آیا، قافلے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ تھے، چند ایک گھوڑے اور کچھ اونٹ بھی تھے، بعض اونٹوں پر کجاوے تھے، ان میں بھی مسافر سوار تھے، یہ مسافر یقیناً مالدار خاندانوں کی عورتیں تھیں، سالار امیر ارسلان نے اپنے دستے کو روک لیا۔
تم بھی سوچو آفندی!،،،،، امیر ارسلان نے مزمل آفندی سے کہا ۔۔۔اگر ہم قافلے کے عقب سے گئے تو قافلے والے ہمیں ڈاکو سمجھ کر آگے کو بھاگ اٹھیں گے، مجھے بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے ساتھی اتنے ہوشیار اور چالاک ہیں کہ وہ پہاڑیوں میں بکھر کر غائب ہو جائیں گے۔
یہ تو میں بھی جانتا ہوں۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح لومڑی کی خصلت کا انسان ہے ،مجھے تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتا ہے۔
قافلے کو گھیرے میں لیا جائے۔
سالار امیر ارسلان تجربے کا سالار تھا، اس نے اپنے دستے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ،ایک حصے کے کمانڈر کو قافلہ دکھایا اور اسے کہا کہ وہ دور کا چکر کاٹ کر اس وادی کے اگلے حصے میں پہنچے، اور قافلے کو اس طرح روک لے کہ کسی کو ادھر ادھر بھاگنے یا چھپنے کا موقع نہ ملے۔
امیر ارسلان خود دوسرے حصے کے ساتھ رہا، اس نے ان سواروں کو اس وقت آگے لے جانا تھا جب دوسرے حصے نے قافلے کا راستہ روک لینا تھا، دوسرے حصے کے کمانڈر نے بلندی پر کھڑے ہوکر قافلے کے ارد گرد کے علاقے کو دیکھا، وہ اپنے لئے راستہ دیکھ رہا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
قافلے کو دیکھنے والے سوار پیچھے مڑے، اور جس پہاڑی کی ڈھلانی راستے پر وہ آ رہے تھے اس پہاڑی سے اترے، پہاڑیوں کے اندر اندر وہ دور تک چلے گئے، امیر ارسلان نے اپنے سواروں کو اس پہاڑی سے اتارا وہ بلند راستے پر اس خیال سے نہ چلے کہ قافلے میں سے کسی نے گھوم کے دیکھ لیا تو وہ سارے قافلے کو خبردار کر دے گا اور حسن بن صباح کو نکل بھاگنے کا موقع مل جائے گا، قافلہ اپنی رفتار سے جا رہا تھا۔
اس پہاڑی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے قافلے کے چار پانچ آدمیوں نے قافلے کو روک لیا تھا اور کہا تھا کہ اب ہم بڑی خطرناک جگہ پر آگئے ہیں، یہاں تین قافلے لُٹ چکے ہیں، ڈاکو مال و دولت کے ساتھ جوان عورتوں کو بھی لے گئے تھے۔
تمام جوان آدمی چوکس ہو جاؤ ۔۔۔ایک آدمی نے اعلان کیا ۔۔۔جس کے پاس جو بھی ہتھیار ہے وہ ہاتھ میں رکھے اور اگر ڈاکوؤں کا حملہ ہو گیا تو لڑنے والے تمام آدمی قافلے کے باہر باہر رہیں، اور عورتوں اور بچوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیں ،اور لوگ انہیں اپنے نرغے میں لے لیں،،،،، اپنے آپ پر ڈاکوؤں کا خوف طاری نہ کر لینا ،دیکھا گیا ہے کہ لوگوں پر ڈاکوؤں اور رہزنوں کی دہشت طاری ہوجاتی ہے اور یہ دہشت اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ دہشت زدہ لوگ ڈاکووں کے آگے بھاگ نکلتے ہیں یا ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے چار سو سے کچھ زیادہ نوجوان ،جواں سال اور ادھیڑ عمر آدمی قافلے سے الگ ہوگئے ،یہ سب لڑنے والے تھے، اس دور میں لوگ تلواریں اس طرح اپنے ساتھ رکھتے تھے جیسے عورتیں زیور پہنتی ہیں، ان میں زیادہ آدمیوں کے پاس تلواریں تھیں اور باقی جو تھے ان میں سے کچھ برچھیوں سے مسلح تھے اور بعض کے پاس خنجر تھے، یہ سب آدمی قافلے کے پہلوؤں کے ساتھ کچھ قافلے کے آگے اور باقی قافلے کے پیچھے ہو گئے ،اس طرح قافلے کو اپنے حفاظتی حصار میں لے کر انہوں نے کہا کہ اب چلو۔
دو پہاڑیوں کے درمیان کشادہ وادی سے گزرتے قافلے کی تربیت یہی تھی، قافلہ لڑنے والوں کے حصار میں تھا ۔
عصر کا وقت تھا جب اچانک قافلے کے سامنے سے چند ایک سوار نمودار ہوئے، قافلہ بہت ہی لمبا تھا۔
ھوشیار ہوجاؤ۔۔۔۔ یہ بڑا ہی بلند اعلان تھا جو قافلے میں سے ایک آدمی نے کیا۔۔۔ ڈاکو آگئے ہیں،،،، ڈرنا نہیں،،،، ہم لڑیں گے ۔
ہم ڈاکو نہیں !،،،،،سواروں کے کمانڈر نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا۔۔۔ بے خوف ہو کر رک جاؤ۔
بزدلو ،ڈاکوؤ!،،،،، قافلے میں سے للکار سنائی دی۔۔۔ آگے بڑھو ہم تیار ہیں۔
سواروں کے کمانڈر نے تمام سواروں کو سامنے لانے کی بجائے یہ عقلمندی کی کہ سواروں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں پہاڑوں کی ڈھلانوں پر چڑھا دیا اور ساتھ ساتھ اعلان کیا کہ کوئی لڑنے کی حماقت نہ کرے ہم سلطان کی فوج کے سپاہی ہیں، تمہیں حفاظت میں رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اتنے میں امیر ارسلان اپنے سواروں کو لے کر قافلے کے عقب میں پہنچ گیا، اس نے جب اپنے دوسرے کمانڈر کی یہ عقلمندی دیکھی کہ اس نے گھوڑے ڈھلانوں پر چڑھا دیے تھے تو امیر ارسلان نے بھی اپنے سواروں کو قافلے کے پہلوؤں پر لے جانے کی بجائے ڈھلانوں کی بلندی پر رکھا، قافلے میں قیامت برپا ہوگی ،عورتوں اور بچوں کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلانے لگی، سواروں کی طرف سے بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ وہ ڈاکو نہیں، لیکن قافلے میں جو لڑنے والے جوان تھے وہ سواروں کو للکار رہے تھے، سالار امیر ارسلان اور مزمل آفندی بلندی پر چلے گئے۔
میں سالار امیر ارسلان ہوں!،،،،، اس نے اعلان کیا ۔۔۔حسن بن صباح اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ میرے سامنے آجائے، حسن بن صباح تم خود میرے سامنے آ جاؤ گے تو زندہ رہو گے، اور اگر ہم نے تمہیں خود ڈھونڈ کر پکڑا تو پھرمیں تمہیں زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
اس اعلان کے جواب میں بھی دو تین جوشیلے جوانوں نے للکار کر کہا کہ وہ دھوکے میں نہیں آئیں گے، اور پورا مقابلہ کریں گے۔
قافلے والوں!،،،، مزمل آفندی نے بلندی سے اعلان کیا ۔۔۔مجھے دیکھو اور پہچانو ،میں نے تمہارے ساتھ بغداد تک سفر کیا ہے، میرا بڑا بھائی اس کی بیوی اور بچے اس قافلے میں شامل ہیں، کیا تم مجھے بھی ڈاکو سمجھتے ہو؟
مزمل آفندی کا بڑا بھائی ان میں سے نکلا اور دوڑتا ہوا ڈھلان پر چڑھ گیا، مزمل آفندی گھوڑے سے کود کر اترا اور اپنے بڑے بھائی سے بغلگیر ہو کر ملا ،اس نے بھائی کو بتایا کہ یہ سلطان ملک شاہ کے فوجی ہیں ،اور حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے آئے ہیں۔
وہ اس قافلے میں نہیں ہے۔۔۔ مزمل کے بڑے بھائی نے کہا۔۔۔ سالار محترم !،،،،میرا یہ بھائی ایک خاتون کو حسن بن صباح کے جال سے نکال کر بغداد سے نکلا تھا تو اس کے فوراً بعد حسن بن صباح بغداد سے نکل گیا تھا۔
کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کس طرف گیا تھا ؟،،،،امیر ارسلان نے پوچھا۔
اس قافلے کے بہت سے لوگ اس کے معتقد اور مرید ہو گئے تھے۔۔۔ مزمل کے بھائی نے جواب دیا ۔۔۔یہ مشہور ہو گیا تھا کہ وہ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہے اور غیب کی خبریں دینے کی طاقت رکھتا ہے، اس نے جہاز کو بڑے ہی تیز و تند سمندری طوفان سے نکال لیا تھا ،وہ جب بغداد سے روانہ ہونے لگا تو اس کے مریدوں نے اسے گھیر لیا اور پوچھا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے، کچھ لوگ تو اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئے تھے، لیکن اس نے سب کو روک دیا اور کہا تھا کہ اسے آسمان سے اشارہ ملا ہے کہ وہ فوراً اصفہان پہنچے، اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اصفہان جا کر اسے اللہ کی طرف سے ایک اور اشارہ ملے گا، پھر وہ چلا گیا تھا۔
سالار امیر ارسلان نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اور نیچے اتر آیا، وہ قافلے کے سامنے گیا ،مزمل آفندی اور اس کا بڑا بھائی اس کے ساتھ تھے، اس نے قافلے کے ہر ایک آدمی کو دیکھا اور قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا گیا ،قافلہ تقریباً ایک میل لمبا تھا۔
حسن بن صباح کو پہچاننے کے لئے مزمل اور اس کا بھائی ساتھ تھے، امیر ارسلان نے اونٹوں کے کجاوؤں اور پالکیوں کے پردے ہٹا کر دیکھا اور اس طرح دیکھتے دیکھتے قافلے کے دوسرے سرے تک چلا گیا، چند اور آدمیوں سے حسن بن صباح کے متعلق پوچھا ان سب نے بتایا کہ حسن بن صباح اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کرائے کے گھوڑوں اور ایک اونٹ کے ساتھ ان جانوروں کے مالکوں سمیت بغداد سے چلا گیا تھا ،اور اس کی منزل اصفہان تھی۔
سواروں نے قافلے کو ایسے گھیرے میں لے لیا تھا کہ کسی کو نکل بھاگنے کا موقع مل ہی نہیں سکتا تھا۔
سالار امیر ارسلان نے اعلان کروایا کہ قافلہ جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کروایا کہ قافلے پر ڈاکوؤں کا کوئی گروہ حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا، کیونکہ یہ پانچ سو سوار اسی علاقے میں اصفہان تک موجود رہیں گے۔
امیر ارسلان نے اپنے سواروں کو بلا کر کوچ کی ترتیب میں کر لیا اور اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا، ان کے پیچھے پیچھے قافلہ بھی چل پڑا۔
*<=========۔========>*
جاری ہے بقیہ قسط۔24۔میں پڑھیں
*========۔==========>*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS