Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*حسن بن صباح*اور اسکی*مصنوعی جنت*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀۔
*قسط نمبر/15*
🌴🌴🌴🌴🌴🌴۔
کیا حسن بن صباح پریشان ہو گیا تھا کہ فرح لاپتہ ہوگئی ہے؟
کیا اس نے اپنے بالکوں کو حکم دیا تھا کہ صالح نمیری کے پیچھے جاؤ ،فرح اس کے ساتھ چلی گئی ہو گئی ؟
کیا وہ فرح کے فراق میں دیوانہ ہوا جارہا تھا؟
نہیں ،،،،،اس نے فرح کے تعاقب میں اپنے آدمی بھیجنے کے بجائے انہیں شاہ در احمد بن عطاش کے نام یہ پیغام دے کر بھیج دیا کہ میں نے خلجان کا شہر لے لیا ہے فوراً یہاں آ جائیں، اس کی نگاہ میں ایک لڑکی کوئی ایسی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ اس کے جذبات میں ہلچل بپا ہو جاتی، وہ ایک حسین لڑکی کو دوسروں کے جذبات میں ہلچل بپا کرنے اور دوسروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا ذریعہ سمجھتا تھا ۔
اس کی دنیا کی سرحدیں صرف ایک فرح کی محبت پر ختم نہیں ہو جاتی تھیں، وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا انسان تھا۔
حسن بن صباح تھا تو انسان ہی، لیکن اس کی تاریخ کے واقعات گواہی دیتے ہیں کہ وہ انسانیت کی سرحدوں سے نکل کر ابلیسیت کی سرحدوں میں داخل ہو گیا تھا ۔
اس کی نگاہیں افق کے اس لامحدود گول دائرے تک دیکھ رہی تھیں جہاں آسمان جھک کر زمین کو چومتا ہے، ایک فرح اسکی نگاہوں کے آگے رکاوٹ نہیں بن سکتی تھی۔
حسن بن صباح، ایک آتش فشاں پہاڑ تھا ،اور وہ اپنے ابلیسی وجود میں ایسا لاوا پکا رہا تھا جس نے بڑی ہی اہم تاریخی شخصیت کو صفحہ ہستی سے غائب کردینا تھا، اور بستیاں اجاڑ دینی تھیں۔
حسن بن صباح نے وہ مقام حاصل کیا کہ اس نے کسی بادشاہ کے قتل کا حکم دیا تو اس کے فدائین نے اسے قتل کر دیا، اس نے جو فدائین تیار کیے تھے وہ پاگل پن کی حد تک جنونی تھے۔
داستان گو آگے چل کر سنائے گا کہ حسن بن صباح نے ان پر یہ جنون کس طرح طاری کیا تھا کہ ان میں سے بعض خود بھی قتل ہو جاتے تھے لیکن اپنے شکار کو قتل کرکے قتل ہوتے تھے۔
داستان گو حسن بن صباح کے حکم سے قتل ہونے والی جن اہم شخصیتوں اور حکمرانوں کے نام فوری طور پر یاد آئے ہیں وہ یہ ہیں۔
1092/ عیسوی میں حسن بن صباح نے جو سب سے پہلی نہایت اہم شخصیت قتل کروائی، وہ سلجوقی سلطان ملک شاہ کا وزیر خواجہ حسن طوسی تھا ،جسے غیر معمولی قابلیت اور حُسن کارکردگی کی بدولت نظام الملک کا خطاب دیا گیا تھا، نظام الملک حسن بن صباح کا محسن تھا۔
1092/عیسوی میں ہی حسن بن صباح نے نظام الملک کے دو بیٹوں کو قتل کروایا تھا۔
1102/عیسوی میں حمس کے ایک شہزادے کو اس وقت قتل کروایا جب وہ جامع مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔
1113/عیسوی میں موصل کے شہزادہ مودود کو جامع مسجد میں نماز پڑھتے قتل کروایا۔
1114/ عیسوی میں سلجوقی سلطان سنجر شاہ کے وزیر عبدالمظفر علی اور اس کے دادا چکر بیگ کو قتل کروایا۔
1121/ عیسوی میں فارس کے ایک سلطان کی موجودگی میں مرغ کے ایک شہزادے کا کام بغداد میں تمام کروایا ۔
1121/ عیسوی میں ہی قاہرہ میں ایک مصری وزیر کو حسن بن صباح کے فدائی نے قتل کیا۔
1126/ عیسوی میں حلب اور موصل کے ایک شہزادے کو مسجد میں قتل کیا گیا۔
1127/ عیسوی میں سنجر شاہ کے وزیر معین الدین کو فدائین نے قتل کیا۔
1129/ عیسوی میں مصر کا خلیفہ حسن بن صباح کے فدائین کا شکار ہوا ۔
1134/ عیسوی میں دمشق کا ایک شہزادہ فدائین کے ہاتھوں مارا گیا۔
1135 سے 1138/عیسوی کے عرصے میں خلیفہ موسترشید، خلیفہ رشید اور آذربائیجان کا سلجوقی شہزادہ داؤد قتل ہوئے۔
1149/ عیسوی میں طرابلس کا حکمران ریمانڈ فدائین کے ہاتھوں قتل ہوا ۔
1174/عیسوی سے 1176/عیسوی کے عرصے میں حسن بن صباح کے فدائین نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر چار قاتلانہ حملے کئے اور سلطان ایوبی ہر بار بچ نکلا۔
یہ تمام قتل حسن بن صباح کی زندگی میں نہیں ہوئے تھے، اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے فدائین نے جو حشیشین کے نام سے مشہور ہوئے اہم شخصیتوں کے قتل کا سلسلہ جاری رکھا تھا ،پھر آہستہ آہستہ یہ لوگ کرائے کے قاتل بن گئے، انہیں عیسائی بادشاہوں اور جرنیلوں نے بھی ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ بہت بعد کی باتیں ہیں،،،،،، بہت بعد کے واقعات ہیں، جب حسن بن صباح بے تاج بادشاہ اور ایک ہیبت کی علامت بن گیا تھا، قتل کے یہ تمام واقعات اپنے اپنے مناسب اور موزوں موقع پر سنائے جائیں گے۔
داستان گو ابھی داستان کے اس انتہائی مرحلے میں ہے جہاں حسن بن صباح اپنے ابلیسی عزائم کی تکمیل کے لئے زمین ہموار کر رہا تھا ،اس نے اس خطے کا ایک اور قلعہ بند شہر خلجان لے لیا تھا۔
اس کی نظر اب قلعہ المُوت پر تھی جسے اس نے اپنا مرکز اور مستقر بنانا تھا، اتنے بڑے عزائم اور اتنے بڑے منصوبے میں فرح کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
یا مرشد!،،،،، حسن بن صباح کے ایک خاص آدمی نے اسے آ کر کہا ۔۔۔۔یہ تو معلوم کر لینا چاہئے وہ گئی کہاں ؟ اگر وہ صالح نمیری کے ساتھ چلی گئی ہے تو خطرہ ہے کہ اسے بخیروعافیت واپس لے آئے گی۔
وہ اسی کے ساتھ گئی ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔اور اسی کے ساتھ مرے گی، صالح نمیری کے دماغ پر جس طرح خزانہ سوار ہوا ہے وہ واپس نہیں آئے گا ۔
اس وقت صالح نمیری اس جنگل میں داخل ہو چکا تھا جس کے اندر کہیں کہیں کچھ حصہ دلدلی تھا۔
فرح تابوت میں بند تھی ،تابوت میں ہوا کے لیے سوراخ رکھے گئے تھے، تابوت ایک اونٹ پر لدا ہوا تھا، فرح کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا ،صالح نمیری نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ہم بہت دور آ گئے ہیں اگر اس لڑکی کو واپس لے جانے کے لیے ہمارے پیچھے کوئی آتا تو وہ اب تک یہاں پہنچ چکا ہوتا ،اب اس لڑکی کو تابوت سے نکال لیا جائے تو کوئی خطرہ نہیں۔
ہاں امیر خلجان!،،،،، اس کے ایک آدمی نے کہا۔۔۔ خطرہ کیسا؟،، یہ بھاگ کر جائے گی کہاں؟
تابوت کھول کر فرح کو نکال لیا گیا ،ایک تو وہ تابوت میں گزشتہ رات سے بند تھی اس کے ساتھ اونٹ کے ہچکولے اس کی ہڈیاں بھی دکھ رہی تھیں، تابوت سے نکل کر کچھ دیر تو وہ بول ہی نہ سکی، صالح نمیری کے آدمی ان دونوں سے دور ایک اوٹ میں بیٹھ گئے تھے۔ مجھے اپنے ساتھ کیوں لے آئے ہو؟،،،،، فرح نے ایسی آواز میں کہا جو روندھی ہوئی تھی اور غصیلیی بھی تھی۔
محبت کی خاطر۔۔۔ صالح نمیری نے کہا۔
اگر تمہیں میرے ساتھ اتنی ہی محبت ہے تو مجھے اتنی خطرناک مہم میں اپنے ساتھ نہ لے جاؤ ۔۔۔فرح نے کہا ۔۔۔کیا میں اتنی مشکلات اور اتنی زیادہ دشواریاں برداشت کر سکونگی؟
محبت کی ابتدا تو تم نے کی تھی فرح!،،،صالح نمیری نے کہا ۔۔۔کیا تم میرے پاس محبت کا پیغام لے کر نہیں آئی تھی؟،،، تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو۔
فرح کی محبت کی جوحقیقت تھی وہ فرح جانتی تھی، اسے تو جال میں دانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ،وہ صالح نمیری کو جال میں لے آئی تھی، وہی جانتی تھی کہ اس خزانے کا وجود ہے ہی نہیں جس کی تلاش میں صالح نمیری جا رہا ہے، وہ یہ بھی جانتی تھی کہ حسن بن صباح نے صالح نمیری کو موت کے منہ میں ڈال دیا ہے اور اس کا زندہ واپس آ جانا کسی صورت ممکن نہیں ،لیکن اس کے اپنے زندہ واپس آ جانے کے امکانات بھی ختم ہوچکے تھے۔
وہ تو اب یہ سوچ رہی تھی کہ حسن بن صباح سے وفا کرے یا اپنی زندگی سے، یہ عمر مرنے کی نہیں تھی جب اس کا شباب عروج پر تھا، صالح نمیری کے ساتھ اس نے بات کر کے دیکھ لی تھی ،یہ شخص تو ایک چٹان تھا جسے اپنی جگہ سے سرکانا فرح کے بس کی بات نہیں تھی۔
اس کے سامنے ایک راستہ یہ تھا کہ صالح نمیری کو بتا دے کہ وہ ایسے دھوکے کا شکار ہو رہا ہے جس کا انجام موت ہے اور وہ وہیں سے واپس چلا جائے اور اگر وہ واپس نہ گیا تو وہ صرف مرے گا ہی نہیں بلکہ اس کا اتنا بڑا شہر خلجان اور قلعہ ہاتھ سے نکل جائے گا، اور اس کا خاندان بھکاری بن جائے گا۔
اس نے اس پر غور کیا تو اسے صاف نظر آنے لگا کے اسے حسن بن صباح غداری کے جرم میں قتل کرادے گا، اسے معلوم تھا کہ حسن بن صباح کا دل رحم اور بخشش کے جذبات سے خالی ہے، کسی کو قتل کرا دینے سے اسے روحانی تسکین ملتی تھی۔
فرح کے لیے ادھر بھی موت تھی ادھر بھی موت، اسے یہ دیکھنا تھا کہ کون سی موت آسان ہے۔
اگر وہ حسن بن صباح سے وفا کرتی ہے تو وہ آگے آنے والے صحرا میں جھلس کر پیاس سے تڑپ تڑپ کر بڑی ہی اذیت ناک موت مرے گی، جل جل کر مرے گی ایسی موت کے تصور سے ہی اس نے اپنے وجود میں لرزہ محسوس کیا ۔
پھر اسے دوسرا خیال آیا وہ صالح نمیری کو واپس لے جاتی ہے اور حسن بن صباح کو اس کی غداری کا پتہ چل جاتا ہے ،تو وہ اپنے ہاتھوں یا اپنے کسی آدمی کے ہاتھوں اس کا سر تن سے جدا کر دے گا ، یہ موت سہل ہوگی۔
وہ تو زندہ رہنا چاہتی تھی ،حسن بن صباح نے اسے آلہ کار بنایا تھا، اور اسے شہزادی بنا کے رکھا ہوا تھا ،وہ نہیں چاہتی تھی کہ حسن بن صباح اس کے ہاتھ سے نکل جائے، وہ دیکھ رہی تھی کہ حسن بن صباح بادشاہوں کا بادشاہ بنتا جا رہا تھا ،لیکن زندگی بڑی پیاری ہوتی ہے وہ تو سوچ سوچ کر بے حال ہوئی جا رہی تھی۔
*÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷÷=÷=*
کسی گہری سوچ میں کھو گئی ہو فرح!،،،،،، صالح نمیری نے کہا ۔۔۔واپس جانے کا خیال دل سے نکال دو، دل میں اس خزانے کو رکھو جو ہم لینے جا رہے ہیں، میں واپس آ کر باقاعدہ فوج بناؤں گا اور اس علاقے کے تمام قلعے فتح کر لونگا ،میں بادشاہ ہونگا تم ملکہ ہوگی۔
اگر ہم زندہ واپس آئے تو۔۔۔ فرح نے کہا ۔
ہم زندہ واپس آئیں گے۔۔۔صالح نمیری نے کہا۔
اگر میں کہوں کہ آپ جہاں جا رہے ہیں وہاں کوئی خزانہ نہیں تو کیا آپ مان لیں گے؟،،،، فرح نے پوچھا ۔
بالکل نہیں۔۔۔صالح نمیری نے کہا۔
فرح نے دیکھا کہ صالح نمیری کے دماغ پر خزانہ ایسا سوار ہوا ہے کہ اس کا دماغی توازن صحیح نہیں رہا، اس نے ایک اور دلیل سوچ لی۔
آپ تو بڑے پکے مسلمان ہوا کرتے تھے۔۔۔ فرح نے کہا ۔۔۔پتہ چلا تھا کہ آپ زاہد اور پارسا ہیں اہل سنت ہیں، لیکن اس خزانے نے تو آپ کے دل سے خدا کو نکال دیا ہے، میں آپ کی کچھ نہیں لگتی لیکن آپ مجھے اپنے ساتھ لے آئے ہیں، صرف اس لئے کہ میں خوبصورت اور جوان لڑکی ہوں،،،،،،
میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔ صالح نمیری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ مجھے آگے جانے سے روکنے کے لیے تم یہ کہو گی کہ مسلمان اپنے دلوں میں خزانے کا لالچ نہیں رکھا کرتے، تم مجھے خلفاء راشدین کی سادگی کی باتیں سناؤ گی ،میری بات غور سے سن لوفرح!،،، وہ وقت اور تھا ،وہ مسلمان اور تھے، آج کے وقت کا تقاضا کچھ اور ہے، آج طاقت اس کے پاس ہے جس کے پاس خزانہ ہے، میں تو کہتا ہوں کہ آج خدا بھی اسی کا ہے جس کے پاس خزانہ ہے ،میں نے خدا کے آگے رکوع و سجود کرتے ایک عمر گزار دی ہے، لیکن خدا نے مجھے اس خزانے کا اشارہ نہیں دیا"----- اچانک اس کی آواز اونچی اور تحکمانہ ہوگئی اس نے کہا۔۔۔ تم میری ملکیت ہو، سفر کی صعوبتوں اور خطروں کے اور موت کے خوف سے مجھے آگے بڑھنے سے روک رہی ہو ،میں قلعہ خلجان کا والی اور امیر شہر ہوں، میرا حکم چلتا ہے یہ گیارہ آدمی جو میرے ساتھ جا رہے ہیں یہ میرے حکم کے غلام ہیں، تم بھی میرے حکم کی پابند ہو۔
خزانے کے تو اپنے اثرات تھے لیکن صالح نمیری کو فرح نے ایک پھول دیا تھا جس کی خوشبو کی اس نے بہت تعریف کی تھی، پھر فرح نے اسے روئی پر اسی خوشبو کا عطر لگا کر دیا جو اس نے اپنی مونچھوں پر مل لیا تھا ،وہ نہ جان سکا کہ یہ خوشبو حسن بن صباح کی ایجاد ہے اور یہ خوشبو انسان کے خیالات کو بدل دیتی ہے تصور کو انسان حقیقت اور حقیقت کو تصور سمجھنے لگتا ہے ۔
فرح خاموش ہوگئی۔
دن ابھی آدھا گزرا تھا صالح نمیری نے اپنے قافلے کو کوچ کا حکم دیا اور یہ حکم بھی کے تابوت کو توڑ دیا جائے ،انہوں نے چار گھوڑے فالتو ساتھ لے لیے تھے، سفر ایسا تھا کہ گھوڑے مر سکتے تھے، یہ چار گھوڑے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ساتھ لے جائے جارہے تھے، ایک گھوڑے پر فرح کو سوار کر دیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
جنگل زیادہ گھنا ہوتا جا رہا تھا ،اس میں اونچی نیچی ٹیکریاں اور سلّوں والی چٹانیں بھی تھیں، جگہ جگہ پانی جمع تھا ،چلنے کا راستہ مشکل سے ہی ملتا تھا، ہر آٹھ دس قدموں کے بعد دائیں یا بائیں مڑنا پڑتا تھا، اس طرح فاصلہ زیادہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔
سورج افق کے پیچھے چلا گیا ،جنگل اتنا گھنا تھا کہ شام بہت جلد تاریک ہوگئی ۔
صالح نمیری وہیں رک گیا اور اپنے آدمیوں سے کہا کہ رات گزارنے کے لیے جگہ دیکھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک جگہ دیکھ لیں گئی جو قدرے وسیع اور ہموار تھی، اس کے اردگرد ہری سرسبز ٹیکریاں تھیں گھنے درختوں نے شامیانے تان رکھے تھے ۔
دو مشعلیں جلا کر زمین میں گاڑ دیں گئیں۔
صالح نمیری کا خیمہ نصب ہونے لگا تو فرح بھڑک گئی۔
میں الگ خیمے میں سوؤں گی ۔۔۔اس نے کہا۔۔۔ اپنے ساتھ چھوٹے خیمے بھی ہیں ۔
آخر تم نے میری بیوی بننا ہے۔۔۔ صالح نمیری نے کہا۔۔۔ یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے اگر تم میرے خیمے میں سوگی تو یہ معیوب فعل نہیں ہوگا۔
بیوی بن جانے تک آپ میرے لیے غیر مرد ہیں۔۔۔ فرح نے کہا۔۔۔ میں مسلمان کی بیٹی ہوں، میں اسلام کی پوری پابندی کرونگی ۔
ایک چھوٹا خیمہ اور لگا دو ۔۔۔صالح نمیری نے حکم کے لہجے میں کہا۔
خیمہ گاہ میں دو چھوٹے اور دو بڑے خیمے کھڑے ہوگئے، بڑے خیمے گیارہ آدمیوں کے لیے تھے جو چھوٹے خیموں سے دور نصب کیے گئے تھے ،دونوں چھوٹے خیموں کے درمیان فرح نے خاصا فاصلہ رکھوایا تھا ۔
اس نے صالح نمیری کے ساتھ ایسی باتیں کی تھیں کہ یہ شخص اس سے متاثر ہو گیا اور وہ فرح کو شرم حجاب والی بااخلاق لڑکی سمجھ بیٹھا، اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ لڑکی حسن بن صباح کی شاگرد ہے اور زبان کا جادو چلانے میں مہارت رکھتی ہے، فرح نے اسے اپنی محبت کا بھی یقین دلایا تھا۔
کھانا کھا کر سب سو گئے دن بھر کی گھوڑ سواری نے ان کی ہڈیاں توڑ دی تھیں۔
انہیں بے ہوشی جیسی نیند نے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا ،صرف فرح تھی جو جاگ رہی تھی اور نیند پر غلبہ پانے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھی، وہ دوسروں کے سوجانے اور بہت سا وقت گزر جانے کی منتظر تھی، اس نے کچھ سوچ کر صالح نمیری کے ساتھ وہ باتیں کی تھیں جن سے وہ متاثر بلکہ مسحور ہو گیا تھا۔
چاند اوپر آ گیا تھا، مشعلیں سونے سے پہلے بجھا دی گئی تھیں، جنگل اور صحرا کی چاندنی بڑی ہی شفاف ہوا کرتی ہے، چاندنی کی کرنیں درختوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں، رات دبے پاؤں گزر تی جا رہی تھی۔
فرح اس دور کی لڑکی تھی جب عورتیں بھی اپنے مردوں کے دوش بدوش لڑنے کے لیے میدان جنگ میں پہنچ جایا کرتی تھیں، یہ الگ بات ہے کہ مرد انہیں پیچھے رکھتے لڑاتے نہیں تھے، اس وقت عورتیں بھی گھوڑ سواری تیغ زنی وغیرہ میں مہارت رکھتی تھیں، فرح تو خاص طور پر پھرتیلی اور چست و چالاک لڑکی تھی۔
نصف شب سے کچھ دیر پہلے فرح خیمے میں سے نکلی اور قریب کے ایک درخت کی اوٹ میں ہوگئ، خیموں کو باری باری دیکھا ہر خیمے کے پردے گرے ہوئے تھے ،وہ پیچھے ایک اور درخت کی اوٹ میں چلی گئی ،وہاں اونچی گھاس تھی وہ اس گھاس کے پیچھے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چل پڑی۔
گھوڑے اور اونٹ خیموں سے کچھ دور ایک ٹیکری کے پیچھے باندھے گئے تھے، فرح خیموں سے دور چلی گئی تھی، گھاس جھاڑیوں اور درختوں کی اوٹ میں وہ چکر کاٹ کر گھوڑوں تک پہنچی، زینیں وغیرہ گھوڑوں کے قریب پڑی تھیں ،فرح نے ایک زین بغیر آواز پیدا کیے اٹھائی اور ایک گھوڑے کی پیٹھ پر رکھ کر کس دی ،پھر گھوڑے کے منہ پر لگام بھی چڑھا دیا ،رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہو گئی۔
اس نے گھوڑے کو فوراً ایڑ نہ لگائی تاکہ قدموں کی آہٹ نہ ہو ، لیکن وہ زمین پتھریلی تھی آواز پیدا ہو رہی تھی، رات کے سناٹے میں ہلکی سی یہ آواز اتنی اونچی سنائی دی کہ ایک آدمی کی آنکھ کھل گئی، اسے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دینے لگی جو دور ہٹتے جا رہے تھی۔
وہ اپنے کسی ساتھی کو جگائے بغیر خیمے سے نکلا اور گھوڑوں کی طرف گیا ایک گھوڑا کم تھا ،زینیں دیکھی ایک زین کم تھی۔
ایک گھوڑا کوئی لے گیا ہے اوئے!،،،،، اس نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ اس کے ساتھی ہڑبڑا کر اٹھے اور باہر کو دوڑے، ادھر کچھ دور گھوڑے کے سرپٹ دوڑتے ٹاپ سنائی دیے، فرح نے اس خیال سے گھوڑے کو ایڑ لگا دی تھی کہ وہ خاصی دور نکل آئی ہے، اسے واپسی کے راستے کا اندازہ تھا۔
ان سب کی آوازوں پر صالح نمیری بھی جاگ اٹھا ،خیمے سے نکل کر اس نے وہیں سے پوچھا یہ کیا شور ہے ؟
ایک گھوڑا چوری ہو گیا ہے۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔
صالح نمیری یہ سنتے ہی فرح کے خیمے کی طرف دوڑا ،خیمے میں دیکھا فرح وہاں نہیں تھی۔
بدبختو!،،،،، صالح نمیری نے کہا۔۔۔ وہ بھاگ گئی ہے ،دو آدمی فوراً اس کے پیچھے جاؤ وہ موت کے ڈر سے میرا ساتھ چھوڑ گئی ہے، اسے پکڑ کر لے آؤ، میں اسے یہیں درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کر آگے چلا جاؤں گا ،دو آدمیوں نے بہت تیزی سے گھوڑے پر زین کسی اور سوار ہوکر ایڑ لگا دی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
فرح دور نکل گئی تھی اور وہ صحیح راستے پر جا رہی تھی، گھوڑا اس کا خوب ساتھ دے رہا تھا ،شفاف چاندنی اسے راستہ دکھا رہی تھی، وہ تین میل سے زیادہ فاصلہ طے کر گئی، ایک جگہ درخت کم ہو گئے تھے اور ایک دوسرے سے دور دور تھے۔
اس نے بڑی زور سے باگ کھینچی ،طاقتور گھوڑا فوراً رک گیا ،فرح کو بیس پچیس گھوڑسوار دکھائی دیئے جو دائیں سے بائیں طرف جا رہے تھے ،یعنی فرح کا راستہ کاٹ رہے تھے ،فاصلہ ایک سو گز سے کچھ کم ہی تھا ،فرح ان کے گزر جانے کا انتظار کرنے لگی، اس کا راستہ یہی تھا فرح اگر مرد ہوتی تو اسے رکنے کی ضرورت نہیں تھی ،رات کو مسافر چلتے ہی رہتے ہیں، لیکن فرح جوان اور بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی، اور اس جنگل میں تنہا تھی، اسے کسی آدمی نے بخشنا نہیں تھا۔
ان سواروں میں سے کسی نے فرح کو دیکھ لیا اور ایک آدمی کو بتایا جو اس قافلے کے آگے آگے جا رہا تھا ،اس نے حکم دیا کے جاؤ دیکھو کون ہے مجھے تو عورت لگتی ہے۔
ایک سوار نے فرح کی طرف گھوڑا دوڑا دیا، فرح نے اپنا گھوڑا ایک اور طرف دوڑا دیا، حکم دینے والے آدمی نے کہا کہ دو تین اور آدمی جاؤ ،تین اور سواروں نے گھوڑے دوڑا دیے، فرح نے ان سے بچنے کی بہت کوشش کی گھوڑے کو بہت موڑا اور گھمایا لیکن وہ چار سواروں کے گھیرے میں آ گئی اور پکڑی گئی۔
ادھر سے صالحہ نمیری کے دو سوار آ گئے انہوں نے فرح کو دیکھا تو رک گئے۔
یہ ہمارے امیر کی لڑکی ہے۔۔۔ ایک سوار نے کہا ۔۔۔اس سے بھاگ آئی ہے، اسے ہمارے حوالے کر دو۔
نہیں !،،،،،فرح نے کہا ۔۔۔یہ جھوٹ کہتے ہیں ان کے امیر کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں، یہ مجھے اغوا کرکے لے جا رہے تھے اور میں بھاگ آئی، مجھے خلجان پہنچا دو۔
تم بھائیوں جاؤ،،،،، صالح نمیری کے ایک سوار نے کہا ۔۔۔یہ جس کی لڑکی ہے وہ خلجان کا امیر اور والی قلعہ ہے، ہم اسے اس کے حوالے کریں گے۔
فرح نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا ۔
چاروں سواروں نے صالح نمیری کے سواروں سے کہا کہ وہ واپس چلے جائیں اور اس لڑکی کو بھول جائیں، دونوں سواروں نے ان چار سواروں کو عام مسافر سمجھ کر تلواریں نکال لیں، ان چاروں نے بھی تلوار نکالی پھر تلواروں سے تلواریں ٹکرا نے لگیں ،تب ان کو پتہ چلا کہ یہ بڑے ماہر تیغ زن ہیں، انہوں نے مقابلہ تو کیا لیکن وہ چار تھے ،ان کی تلواروں نے ان دونوں کو بری طرح کاٹ پھینکا۔
ان سواروں نے صالح نمیری کے سواروں کی تلواریں اٹھائیں، نیامیں اتار کر تلواریں ان میں ڈالیں، ان کے گھوڑے پکڑے اور فرح کو ساتھ لے کر چل پڑے۔
تم کون لوگ ہو؟،،،،،،، فرح نے ان سے پوچھا۔۔۔ کہاں جا رہے ہو ؟
غلط فہمی میں نہ رہنا لڑکی !،،،،،ایک نے کہا۔۔۔ ہم کسی کو دھوکے میں نہیں رکھا کرتے ،ہم صحرائی قزاق ہیں، اپنے سردار کے پاس جا رہے ہیں۔
کیا تم لوگ مجھے خلجان پہنچا دو گے؟،،،، فرح نے کہا ۔۔۔مجھے خلجان کے راستے پر ڈال دینا میں اکیلی چلی جاؤں گی ۔
تمہارے اس سوال کا جواب ہمارا سردار ہی دے سکتا ہے۔۔۔ ایک سوار نے کہا۔
جواب مجھ سے سن لو ۔۔۔ایک اور سوار بولا ۔۔۔تم بہت حسین لڑکی ہو ،ہیروں کی قدر صرف ہمارا سردار ہی کر سکتا ہے، وہ تمہیں نہیں جانے دے گا۔
فرح کے لیے یہ خبر بہت ہی بری تھی ،وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ چلی جاتی ،اس نے کیا بھی یہی، مزاحمت تو دور کی بات ہے اس نے زبان بھی نہ ہلائی ،اور اس طرح ان کے ساتھ چل پڑی جیسے وہ اپنی خوشی اور مرضی سے جا رہی ہو، لیکن اس کا دماغ بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا۔
اس کے دل و دماغ پر حسن بن صباح طاری رہتا تھا ،اس لیے اس کے سوچنے کا انداز حسن بن صباح جیسا ہی تھا، اور یہ انداز ابلیسی تھا۔ ایسے انداز فکر میں یہ پابندی نہیں ہوا کرتی کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور اپنا مفاد حاصل کرتے کرتے کسی اور کی حق تلفی نہ ہو جائے، اس لڑکی کے سوچنے کا انداز یہ تھا کہ باپ بیٹے کو ذبح کر دے ،بھائی بہن کا گلا کاٹ دے، بیٹا ماں کا پیٹ چاک کر دے، میرا بھلا ہو جائے۔
قزاقوں کے سردار تک پہنچتے فرح کے دماغ نے اسے راہ نجات دکھا دی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اوہ۔۔۔۔ سردار نے چاندنی میں فرح کا چہرہ دیکھ کر حیرت زدگی کے عالم میں کہا۔۔۔ کیسے مان لوں کہ تو نسل انسانی سے ہے، اور تو جہان دگر کی پر اسرار مخلوق میں سے نہیں؟
سردار لب و لہجے اور انداز تکلم سے عربی لگتا تھا، عرب یوں بات کیا کرتے تھے جیسے انداز نظم سنا رہے ہوں۔
یہ کہتی ہے اسے امیر خلجان اغوا کرکے لے جا رہا تھا ۔۔۔ایک سوار نے کہا ۔۔۔دو سوار اس کے پیچھے آئے تھے،،،،، ایک اور سوار بولا ،،،ہم نے دونوں کو مار ڈالا ہے۔
امیر خلجان !،،،،،سردار نے سوالیہ انداز سے پوچھا؟،،،،، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ یہ چاند نہیں سورج ہے، امیر خلجان کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک لڑکی کو اغوا کر کے لے جا رہا ہو، کیا وہ تجھے کہیں سے زبردستی اٹھوا کر خلجان لے جا رہا تھا ؟،،،،،،گھوڑے سے اترو ،آؤ ہمارے پاس بیٹھو، اور گلاب کی پنکھڑیوں کو ذرا حرکت دو کہ ہم تمہاری اصلیت جان سکیں۔
پہلے ان پنکھڑیوں کی قدروقیمت پہچانو۔۔۔ فرح نے سردار کا انداز تکلم بھانپ کر کہا ۔۔۔تم پتھروں کے سوداگر ہو ہیروں کی قدر کیا جانو ،پہلے میں ایک امیر شہر کی داشتہ تھی اب ایک قزاق کی لونڈی بن گئی ہوں، میری اصلیت کو قزاق کا سردار نہیں سمجھ سکتا۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔سردار نے فرمائشی قہقہہ لگا کر کہا۔۔۔ میں چاندنی میں ہیروں کی طرح چمکتی ہوئی تیری آنکھوں کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ انسان کے نطفے سے پیدا ہونے والی کسی عورت کی آنکھیں اس قدر مخمور اور سحر انگیز ہو سکتی ہیں؟،،، لیکن تیری زبان کا حسن ان نشیلی آنکھوں کے سحر سے زیادہ اثر انگیز ہے۔
میرے حسن کو ہی نہ دیکھ ائے سردار !،،،،،فرح نے کہا ۔۔۔میں تجھے ہفت اقلیم کا شہنشاہ بنا سکتی ہوں، تیری ذرا سی ہمت کی ضرورت ہے، اب اپنی حالت دیکھ اپنے آپ کو پہچان، کیا تو شکار کی تلاش میں جنگل جنگل، صحرا صحرا، مارا مارا، نہیں پھر رہا ،کسی بڑے قافلے کو لوٹ کر تو بہت بڑا خزانہ حاصل کرلیتا ہے لیکن رہتا قزاق کا قزاق ہی ہے ،میں تجھے ایک خزانے کا راستہ دکھاتی ہوں ،وہ تیرے ہاتھ آ جائے تو تو ایک فوج تیار کرکے سلطنت پر قبضہ کر سکتا ہے، عرب اور مصر کو اپنی سلطنت میں شامل کر سکتا ہے۔
کیا تو اپنے ہوش و حواس میں ہے لڑکی!،،،،،، سردار نے کہا۔۔۔ اگر تو دہشت زدگی سے دماغی توازن کھو نہیں بیٹھی تو یوں بول کہ میں کچھ سمجھ سکوں ۔
فرح نے ایک پتھر سے دو پرندے مارنے کی جو ترکیب سوچی تھی وہ ان قزاقوں کے سردار کو سنا دی۔
امیر خلجان ایک بڑا خزانہ نکال لانے کے لئے جا رہا ہے۔۔۔ فرح نے کہا ۔۔۔
کہاں سے ؟
نقشہ اس کے پاس ہے۔۔۔ فرح نے کہا۔۔۔ اس پر راستہ دکھایا گیا ہے، واضح نشانیاں بھی موجود ہیں، اور جن خطروں کا امکان ہے وہ بھی نقشے میں دکھائے گئے ہیں ،اور اس جگہ کی نشانیاں صاف دکھائی ہوئی ہے جہاں خزانہ ایک غار میں رکھا ہوا ہے۔
خزانے کی نشاندہی کس نے کی ہے؟
ایک درویش نے ۔۔۔فرح نے جھوٹ بولا ۔۔۔امیر خلجان صالح نمیری نے اس کی بہت خدمت کی تھی، میں نے سنا تھا کہ اس درویش کی کوئی خواہش تھی یا ضرورت تھی جو امیر خلجان نے بسروچشم پوری کر دی تھی ۔
اور یہ بتا؟،،،،، سردار نے پوچھا ۔۔۔تو مجھ پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہے کہ اتنا بڑا راز مجھے دے رہی ہے؟
اس کی وجہ بھی سن لے۔۔۔ فرح نے کہا۔۔۔ میرے دل میں خزانے کی ذرا سی بھی محبت نہیں، اس دل میں ایک آدمی کی محبت ہے، میری مجبوری یہ تھی کہ میں امیر خلجان کی داشتہ تھی ،کچھ وقت ملتا تو اس آدمی سے مل لیتی تھی، امیر خلجان درویش کے بتاۓ ہوئے خزانے کی تلاش میں چلا تو میں بہت خوش ہوئی کہ یہ جا رہا ہے تو میں اپنے محبوب کے پاس چلی جاؤں گی اور ہماری شادی ہو جائے گی، لیکن امیر خلجان مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے آیا، سفر میں آج ہماری پہلی رات ہے میں نے موقع غنیمت جانا اور بھاگ نکلی ،اگر تیرے آدمی مجھے پکڑ نہ لیتے تو میں کل اس کے پاس ہوتی جو مجھے چاہتا ہے۔
کیا تو یہ چاہتی ہے کہ میں تجھے چھوڑ دوں؟،،،،، سردار نے پوچھا ۔
ہاں !،،،،،فرح نے کہا ،،،،،تو خزانوں کا متلاشی ہے، میں محبت کی پیاسی ہوں۔
لیکن تجھے امیر خلجان تک چلنا پڑے گا ۔۔۔سردار نے کہا۔۔۔ تیری یہ بات دھوکا بھی تو ہوسکتی ہے، مجھے نقشہ مل جائے گا تو تجھے آزاد کردوں گا۔
تو تو مجھے آزاد کردے۔۔۔ فرح نے کہا۔۔۔ امیر خلجان کو تو نے زندہ چھوڑ دیا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا ۔
وہ زندہ نہیں رہے گا ۔۔۔سردار نے کہا ۔۔۔اٹھو اپنے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
وہ ابھی تک نہیں آئے"،،،،،،صالح نمیری کئی بار کہہ چکا تھا ۔
وہ اسے جانے نہیں دیں گے۔۔۔ ہر بار اس کا کوئی نہ کوئی آدمی اسے کہتا، یا یہ جنگل میں بھٹک گئی ہو گی،،،،،،،یا یہ،،،،، جا نہیں سکتی،،، وہ اسے لے کے ہی آئیں گے۔
پھر انہیں گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دینے لگی۔
وہ آرہے ہیں۔۔۔ دو تین آدمیوں نے کہا ۔
اب میں اسے ہر رات باندھ کے رکھا کروں گا۔۔۔ صالح نمیری نے کہا ۔
نہیں امیر محترم!،،،،، ایک آدمی نے کہا ۔۔۔ہم اور آگے نکل جائیں گے تو یہ بھاگنے کی جرات نہیں کرے گی، میں جانتا ہوں کل کے سفر میں یہ جنگل ختم ہو جائے گا، اور بے آب و گیاہ پہاڑی علاقہ شروع ہو جائے گا۔
ٹھہرو !،،،،،،صالح نمیری نے کہا۔۔۔ سنو گھوڑے دو یا تین نہیں لگتے، کیا یہ بہت سے گھوڑے نہیں۔
ہاں امیر محترم !،،،،،ایک آدمی نے کہا۔
وہ ابھی سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ آنے والے گھوڑے دو ہیں یا تین ہیں، یا زیادہ ہیں کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کا طوفان آگیا اور اس کے ساتھ یہ للکار،،،،،،،جو جہاں ہے وہیں کھڑا رہے۔
وہ تقریباً پچیس قزاق تھے جنہوں نے صالح نمیری کی اس چھوٹی سی خیمہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا ۔
امیر خلجان!،،،،، نقشہ میرے حوالے کر دے۔۔۔ سردار نے کہا۔۔۔ وہ خزانہ ہمارا ہے۔ صالح نمیری چپ چاپ اپنے خیمے میں چلا گیا، باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں تلوار تھی ۔
دیکھتے کیا ہو۔۔۔ اس نے اپنے آدمیوں سے کہا ۔۔۔ہتھیار اٹھاؤ وہ خزانہ ہمارا ہے ۔
ایک بار پھر سوچ لے صالح نمیری !،،،،سردار نے کہا ۔۔۔ہم قزاق ہیں، اور ہم زیادہ ہیں، نقشہ میرے حوالے کر دو اور زندہ واپس چلے جاؤ۔
صالح نمیری کچھ جواب دیے بغیر سردار کی طرف تیزی سے بڑھا ،سردار کا گھوڑا اس کی طرف بڑھا ،صالح نمیری تیزی سے بیٹھ گیا اور سردار کے گھوڑے کے پیٹ میں تلوار اتاردی، گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا اور اچھلنے کودنے لگا، سردار گھوڑے سے کود آیا۔
صالح نمیری کے ساتھ اب نو آدمی رہ گئے تھے ، ان میں سے بعض نے تلواریں اٹھا لی تھیں، اور بعض کے پاس برچھیاں تھیں ،ان سب نے جانوں کی بازی لگا دی لیکن نو پیادے پچیس سواروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا، فرح کھڑی دیکھ رہی تھی اور اپنی چال کی کامیابی پر بہت ہی خوش تھی، وہ اب بھاگ نکلنے کا موقع دیکھ رہی تھی، اس نے صرف یہ دیکھنا تھا کہ صالح نمیری مارا جاتا ہے یا نکل بھاگتا ہے، اسے اتنے گھمسان کے معرکے اور ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے گھومتے مڑتے گھوڑوں میں صالح نمیری اور قزاقوں کا سردار نظر نہیں آرہے تھے۔
لڑکی ادھر آ جا،،،،،، فرح کو آواز سنائی دی۔۔۔ اپنے امیر کے خیمے تک آجا لڑکی!
فرح گھوڑے سے اتری اور صالح نمیری کے خیمے تک دوڑتی گئی، چاند سر پر آیا ہوا تھا، چاندنی بہت ہی صاف ہو گئی تھی، اس نے خیمے کے قریب صالح نمیری کی لاش پڑی دیکھی۔
میرے ساتھ خیمے میں آ۔۔۔سردار نے فرح سے کہا۔۔۔ اور بتاؤ وہ نقشہ کہاں ہے؟
سردار اور فرح اندر چلے گئے، فرح نے چمڑے کا ایک تھیلا اٹھا کر سردار کے حوالے کیا اور بتایا کہ نقشہ اس میں ہے، سردار تھیلا اٹھائے خیمے سے باہر آگیا ،تھیلے میں کچھ اور چیزیں پڑی تھیں جو سردار نے باہر پھینک دیں، پھر اس میں سے نقشہ نکالا، فرح نے کہا یہی ہے اور وہ وہاں سے چل پڑی، کہاں جارہی ہے تو؟،،،، سردار نے اس سے پوچھا۔
تجھے خزانے کا نقشہ مل گیا ہے۔۔۔ فرح نے چند قدم دور رہ کر کہا ۔۔۔سمجھ لے کے تجھے خزانہ مل گیا ہے، اور مجھے آزادی مل گئی ہے۔
ٹھہر جا !،،،،،سردار نے کہا ۔۔۔میں اتنی جلدی تجھے آزادی نہیں دوں گا ،تو مرجھایا ہوا پھول تو نہیں کہ بغیر سونگھے پھینک دوں۔
وہ قزاقوں کا سردار تھا کوئی شریف اور معزز آدمی نہیں تھا کہ اپنے وعدے کا پاس کرتا، اتنی خوبصورت لڑکی کو وہ کیوں کر چھوڑ دیتا ،فرح اپنے گھوڑے کی طرف دوڑی تو سردار اس کے راستے میں آگیا، فرح دوسری طرف دوڑ پڑی، لڑائی لڑی جارہی تھی صالح نمیری کے آدمی مارے جا رہے تھے۔ انہوں نے مرنے سے پہلے کچھ قزاقوں کو بھی مار ڈالا تھا۔
فرح دوسری طرف دوڑی تو سردار اس کے پیچھے گیا ،فرح اس کوشش میں تھی کہ وہ مرے ہوئے کسی آدمی کے گھوڑے تک پہنچ جائے ،سواروں کے بغیر گھوڑے ادھر ادھر بکھر گئے تھے، لیکن سردار فرح کو کسی گھوڑے کے قریب نہیں جانے دے رہا تھا ۔
فرح پھرتیلی تھی، وہ تیز دوڑتی خیمے گاہ سے کچھ دور چلی گئی، سردار بھی تیز دوڑا
آگے اونچی اور گھنی جھاڑیاں تھیں جو باڑ کی طرح ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں فرح ان میں سے گزر گئی ،لیکن آگے دلدل تھی وہ راستہ بدلنے ہی لگی تھی کہ سردار پہنچ گیا۔ فرح دلدل میں چلتی آگے چلی، چند ہی قدم آگے گئی ہوگی کہ اسے ایسا لگا جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو، وہ نیچے جانے لگی۔
سردار چیتے کی طرح اس پر جھپٹا اور وہ بھی نیچے ہی نیچے جانے لگا، یہ دلدل تھی جو ہر چیز کو اپنے اندر غائب کر دیا کرتی ہے۔ فرح اور سردار نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا، فرح چیخ اور چلا رہی تھی، سردار اپنے آدمیوں کو نام لے لے کر پکار رہا تھا اور وہ دونوں دلدل میں دھنستے چلے جارہے تھے۔ سردار کے ہاتھ سے خزانے کا نقشہ چھوٹ گیا یہ نقشہ بے بنیاد تھا اور خزانہ ایک فریب اور ایک مفروضہ تھا۔
سردار کے تین چار آدمی پہنچ گئے، انہیں اپنے سردار اور فرح کے سر نظر آئے، اور یہ بھی دلدل میں غائب ہوگئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
تیسرے یا چوتھے روز احمد بن عطاش شاہ در سے خلجان پہنچ گیا ۔
خلجان کا قلعہ مبارک ہو پیرومرشد!،،،، حسن بن صباح نے اس کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔
کیا صالح نمیری کی واپسی کا کوئی امکان نہیں؟،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،حسن بن صباح نے جواب دیا ۔۔۔خزانہ وہ اژدہا ہے جو آج تک نہ جانے کتنے انسانوں کو نگل چکا ہے، اس نے بڑے جابر بادشاہوں کو بھی نگلا ہے ،اور اس نے مومنین کو زاہدوں اور پارساؤں کو بھی نگلا ہے، وہ صالح نمیری جو مجھ پر لعن طعن کرنے آیا تھا کہ تم خدا کے ایلچی کیسے بن گئے ،اور وہ صالح نمیری جو دعوی کرتا تھا کہ اللہ کے واحد عقیدے کے پیروکار صرف اہل سنت ہیں اور وہی اللہ کے قریب ہیں، وہ صالح نمیری خدا اور اپنے عقیدے کو فراموش کر کے خزانے کی تلاش میں چلا گیا، فرح بھی اس کے ساتھ چلی گئی ہے۔
کیا تمہیں اس کا افسوس ہے؟،،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا۔
نہیں مرشد!،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں حیران ہوں کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہم صالح نمیری کو خزانے کا دھوکا دے کر غائب کر رہے ہیں وہ اس کے ساتھ کیوں چلی گئی ؟
اتنے میں دربان نے اندر آ کر بتایا کہ والی خلجان صالح نمیری کا ایک آدمی بہت بری حالت میں آیا ہے، حسن بن صباح نے کہا اسے فوراً اندر لے آؤ۔
ایک آدمی دربان کے سہارے اندر آیا ،اس کے کپڑے خون سے لال تھے اور خون خشک ہو چکا تھا، اس کے سر پر بازوؤں پر اور ران پر کپڑے لپٹے ہوئے تھے، احمد بن عطاش کے کہنے پر اسے پانی پلایا گیا وہ تو جیسے آخری سانسیں لے رہا تھا ۔
کون ہو تم ؟،،،،،،احمد بن عطاش نے پوچھا۔۔۔ کہاں سے آئے ہو؟
ایک دن کی مسافت چار دنوں میں طے کی ہے۔۔۔ اس نے ہانپتی سانسوں کو سنبھال سنبھال کر بڑی ہی مشکل سے کہا۔
وہ ان گیارہ آدمیوں میں سے تھا جو صالح نمیری کے ساتھ گئے تھے، یہ آدمی قزاقوں کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہوا اور اسے وہاں سے نکل آنے کا موقع مل گیا تھا، وہ صالح نمیری کے نمک حلال اور وفادار ملازموں میں سے تھا، وہ صرف اطلاع دینے کے لئے خلجان آ گیا تھا، راستے میں کئی بار بےہوش ہوا، گھوڑے سے گرا، اٹھا اور چوتھے روز خلجان پہنچ گیا۔
اس نے بتایا کہ صالح نمیری مارا گیا ہے، اور خزانے کا نقشہ قزاقوں کے سردار نے لے لیا ہوگا ،فرح کے متعلق اس نے بتایا کہ وہ قزاقوں کے قبضے میں تھی، اس نے فرح اور سردار کو دلدل میں ڈوبتے نہیں دیکھا تھا۔
یہ وفادار شخص باتیں کرتے کرتے خاموش ہو گیا، اور اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا ،وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا تھا ۔
حسن بن صباح نے کہا کہ اس کی لاش لے جاؤ اور دفن کر دو۔
اب یہ قلعہ ہمارا ہوگیا ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔اب بتاؤ حسن !،،،اس کامیابی سے تم نے کیا سبق حاصل کیا ہے؟
یہ کہ انسان نفسانی خواہشات کا غلام ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ کسی بھی انسان کی ان خواہشات کو ابھار دو اور اسے یقین دلا دو کہ اس کی یہ خواہشات پوری ہو جائیں گی تو اسے جس راستے پر ڈال دو وہ اسی راستے پر چل پڑے گا۔
میں تمہیں یہ سبق پہلے دے چکا ہوں ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ ہر انسان کی ذات میں ابلیس موجود ہے، اور ہر انسان کی ذات میں خدا بھی موجود ہے، یوں کہہ لو کہ انسان بیک وقت نیک بھی ہے بد بھی ہے، عبادت کیا ہے؟
بدی پر غلبہ پائے رکھنے کا ایک ذریعہ۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک وسیلہ۔
ہم نے ہر انسان میں ابلیس کو بیدار کرنا ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ صالح نمیری پکا مومن تھا، زاہد اور پارسا تھا ،تم نے اسے ایسے خزانے کا راستہ دکھایا جس کا وجود ہی نہ تھا، اس دھوکے میں فرح جیسی حسین لڑکی شامل تھی، تم نے دیکھا کہ اس شخص کی پارسائی اس طرح اڑ گئی جس طرح سورج کی تمازت سے شبنم اُڑ جاتی ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷-*
"تلبیس ابلیس" آئمہ تلبیس" اور تاریخ ابن خلدون" میں تفصیل سے لکھا ہے کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے راتوں کو آئینوں کی چمک دکھا کر جس طرح لوگوں کو دکھایا تھا کہ خدا کا ایلچی زمین پر اترا ہے اس کا اس وسیع و عریض علاقے کے لوگوں پر وہی اثر ہوا تھا جو پیدا کرنا مقصود تھا۔
حسن بن صباح نے لوگوں کو اپنی زیارت بھی کرائی تھی اور ایک خاص جڑی بوٹی کی دھونی اتنے بڑے مجمعے کو دے کر لوگوں کے ذہنوں پر غلبہ حاصل کرلیا تھا یہ تاریخ کی پہلی اجتماعی ہپنا ٹائزم تھی۔
اگر یہ ڈھنگ اختیار نہ کیا جاتا تو بھی لوگ اس کے قائل ہو جاتے ،کیونکہ لوگوں میں توہم پرستی اور افواہ پسندی جیسی کمزوریاں موجود تھیں، حسن بن صباح نے قبیلوں کے سرداروں کو خصوصی اہمیت دی تھی ،حسن بن صباح کے مبلغوں یعنی پروپیگنڈا کرنے والوں کا بھی ایک گروہ پیدا ہوگیا ،اس گروہ کے آدمی فقیروں اور درویشوں کے بھیس میں بستی بستی پھرتے اور خدا کے ایلچی کے نزول اور اس کے برحق ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے تھے۔
خلجان کا قلعہ بھی حسن بن صباح کے قبضے میں آگیا تو یہ مشہور کردیا گیا کہ امیر شہر صالح نمیری خدا کے ایلچی سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے قلعہ خدا کے ایلچی کی نذر کر دی ہے، اور خود تارک الدنیا ہو کر کہیں چلا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ حسن بن صباح اور احمد بن عطاش نے باطنی نظریات اور اپنے عقیدے لانے کے لئے زمین کا خاصا خطہ حاصل کرلیا، اور فضا اور ماحول کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔
اب داستان گو اس داستان کو واپس اس مقام پر لے جا رہا ہے جہاں حسن بن صباح خواجہ طوسی نظام الملک کے پاس اسے ایک وعدہ یاد دلانے گیا تھا، اس وقت نظام الملک نیشاپور میں سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم مقرر کیا جا چکا تھا ،داستان گو یاد دہانی کی خاطر ایک بار پھر مختصراً بتا دیتا ہے کہ یہ وعدہ کیا تھا اور یہ کس طرح پورا ہوا۔
خواجہ حسن طوسی جو بعد میں نظام الملک کے نام سے مشہور ہوا تاریخ کی ایک اور مشہور شخصیت عمر خیام اور حسن بن صباح ایک مشہور عالم امام مؤافق کے مدرسے میں پڑھے تھے، مدرسے میں ایک روز حسن بن صباح نے اپنے ان دونوں ہم جماعتوں سے کہا کہ امام مؤافق کے شاگرد بڑے اونچے مقام پر پہنچا کرتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم تینوں یہاں سے فارغ ہو کر اونچے مقام پر پہنچیں گے، آؤ وعدہ کریں کہ ہم میں سے جو کوئی کسی اونچے مقام پر پہنچ گیا وہ دوسرے دو دوستوں کی مدد کرے گا۔
تینوں دوستوں نے ہاتھ ملا کر یہ وعدہ کیا۔ نظام الملک اور عمر خیام کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حسن بن صباح نے بڑے ہی مذموم مقاصد کی خاطر یہ وعدہ یا معاہدہ کیا ہے، پھر ایسا ہوا کہ تینوں تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی اپنی راہ لگ گئے، کچھ عرصے بعد نظام الملک سلطان ملک شاہ کے یہاں گیا اور ملازمت مانگی اس کی قابلیت اور فہم و فراست کو دیکھتے ہوئے سلطان ملک شاہ نے اسے اپنا وزیر بنا لیا اور کچھ ہی عرصے بعد اسے وزیراعظم بنا دیا ،اور اس کے ساتھ ہی اسے نظام الملک کا خطاب دے دیا۔
عمر خیام کو پتہ چلا کہ اس کا ہم جماعت اور دوست وزیراعظم بن گیا ہے تو وہ اس سے جا ملا اور مدرسے کے زمانے کا وعدہ یاد دلایا، نظام الملک نے عمر خیام کو ملازمت دلانی چاہی لیکن عمر خیام نے کہا کہ وہ تحقیق کے میدان میں جانا چاہتا ہے، پھر وہ کتابیں لکھےگا۔
نظام الملک نے اسے سلطان سے اچھی خاصی رقم دلوادی، عمر خیام نے حکمت میں نام پیدا کیا اور ایسی کتابیں لکھیں جو آج تک سند کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
اس کے بعد حسن بن صباح نظام الملک کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ تلاش روزگار میں مارا مارا پھر رہا ہے اور ذلیل و خوار ہو رہا ہے، آخر مجبور ہو کر اس کے پاس آیا ہے۔ کیا تم اتنے لمبے سال بے روزگار پھرتے رہے ہو؟،،،، نظام الملک نے پوچھا تھا۔
اگر کہیں روزی کا ذریعہ ملا بھی تو کچھ دنوں بعد ختم ہو گیا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا تھا ۔۔۔مجھے تاجر بننے کا مشورہ دیا گیا لیکن تجارت کے لیے سرمایہ کہاں سے لاتا۔ دکانداری مجھ سے ہوتی نہیں ،میں تو روزگار کی تلاش میں مصر تک چلا گیا تھا لیکن قسمت نے کہیں بھی ساتھ نہ دیا ،لوگ کہتے ہیں کہ تم نے اتنا زیادہ علم حاصل کر لیا ہے کہ تم سرکاری عہدے پر ہی کام کر سکتے ہو۔
نظام الملک شریف النفس اور مخلص انسان تھا اس نے اپنے دوست اور ہم جماعت کو اس افسردگی مایوسی اور تنگدستی کے عالم میں دیکھا تو اس نے سلطان ملک شاہ کو بتایا کہ اس کا ایک دوست آیا ہے جو غیر معمولی فہم و فراست کا مالک ہے اور اس کی تعلیمی سند یہ ہے کہ امام مؤافق کے مدرسے کا پڑھا ہوا ہے۔
ہمارے لئے صرف آپ کی رائے سند ہے۔۔۔ سلطان نے کہا تھا۔۔۔ اسے آپ جس عہدے کے لیے مناسب سمجھتے ہیں رکھ لیں۔
نظام الملک کو صرف سلطان کی منظوری درکار تھی، وہ مل گئی تو نظام الملک نے اسے ایک اونچے عہدے پر فائز کر دیا ،یہ شک تو اس کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا تھا کہ حسن بن صباح کچھ اور ہی مقاصد دل میں لے کر حکومت کی انتظامی مشینری میں شامل ہوا ہے۔
*<========۔=========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔16۔میں پڑھیں*
*<========۔=========>*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹
Home »
Batil Aqeeda
» Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 15)
No comments:
Post a Comment