Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 20)
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*حسن بن صباح*اور اسکی*مصنوعی جنت*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀۔
*قسط نمبر/20*
🌴🌴🌴🌴🌴🌴۔
آج نوراللہ اسی مکان میں بیٹھا تھا جو اسے ابومسلم رازی نے دیا تھا، لیکن اس پر جو کیفیت طاری تھی وہ کوئی اجنبی دیکھتا تو یہ تسلیم نہ کرتا کہ یہ شخص عالم فاضل ہے، وہ اسے ذہنی مریض سمجھتا، اسے اپنا ماضی یاد آرہا تھا شمونہ اپنے کمرے میں گہری نیند سو گئی تھی، اسے احساس ہی نہیں تھا کہ نور اللہ کے وجود میں اور جذبات میں وہ کیسے زلزلے برپا کر آئی ہے۔
اسی نور اللہ نے جس نے ہمیشہ یہ سبق دیے تھے کہ عورت سے دور رہو ،شمونہ سے کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن شمونہ جو گناہ گاروں کی پروردہ تھی گناہوں کی دنیا سے نکل کر پارسائی میں داخل ہو گئی تھی، اس شمونہ نے نوراللہ سے کہہ دیا تھا۔۔۔۔میں آپ کے تقدس کو اپنے ناپاک وجود سے پامال نہیں کرونگی،،،،، شمونہ نے یہ بھی کہا تھا،،،،، میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا۔
نوراللہ کی آنکھوں کے آگے سے اس کا پورا ماضی تیز رفتار گھوڑا گاڑیوں کی قطار کی مانند گزر گیا ،وہ اپنے وجود میں پیاس کی تلخی محسوس کر رہا تھا، ایک تشنگی تھی، کچھ محرومیاں تھیں جو کانٹوں کی طرح اس کے حلق میں چبھ رہی تھی، تلخی بڑھتی چلی گئی ۔
دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ذات سے ایک شعلہ اٹھا جس نے اس کے علم و فضل کو جلا ڈالا ۔
وہ اپنے لئے اجنبی بن گیا۔
وہ بڑی تیزی سے اٹھا اور اس کمرے میں داخل ہو گیا جس میں شمونہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی، اس رات شمونہ نے دروازہ بند نہیں کیا تھا کیونکہ اسے توقع تھی کہ نوراللہ اسے بلائے گا ،وہ لیٹی اور نیند نے اسے دبوچ لیا ۔
نوراللہ اس کے پلنگ پر جا بیٹھا ،کمرہ تاریک تھا ،برآمدے میں جلتے ہوئے دیے کی ہلکی ہلکی روشنی دروازے سے اندر آ رہی تھی، جس میں سوئی ہوئی شمونہ کا سراپا دھندلا سا نظر آ رہا تھا۔
شمونہ گہری سانسیں لے رہی تھی، نوراللہ کی سانسیں بے قابو سی ہو گئی اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، اس نے ہاتھ شمونہ کی طرف بڑھایا یہ ہاتھ کچھ لرزتا ہوا آہستہ آہستہ شمونہ کے پر شباب جسم کی طرف بڑھ رہا تھا ،ہاتھ جب شمونہ کے جسم کے قریب گیا تو آسمان پر اچانک گھٹاؤں کی گرج سنائی دی، نور اللہ نے یکلخت ہاتھ پیچھے کھینچ لیا جیسے چوری کرتے عین موقعے پر پکڑا گیا ہو، جب اسے احساس ہوا کہ یہ گھٹاؤں کی گرج تھی تو اس کے دل کو حوصلہ ملا۔
آپ!،،،،، شمونہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔۔۔ یہاں کیوں؟
مت گھبراو شمونہ !،،،،نوراللہ نے شمونہ کا ہاتھ چھوڑے بغیر کہا ۔۔۔آج وہ پیاس مجھے جلا کر راکھ کر رہی ہے جسے میں نے پہلے کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا،،،،، میری ایک بات سن لو۔
شمونہ کچھ ایسی ڈری کے وہ پلنگ پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کو سرکنے لگی، نور اللہ نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف بڑے آرام سے کھینچا۔
مجھے ماں کا پیار نہیں ملا ،،،،،نور اللہ نے ایسی آواز میں کہا جو اس کی قدرتی آواز لگتی ہی نہیں تھی،،،، مجھے بہن کا پیار نہیں ملا،،،، میں بیٹی کے پیار سے محروم رہا ،،،،میں نے کبھی کسی عورت کو ہاتھ لگا کر بھی نہیں دیکھا ،،،،لیکن تم میرے قریب آئی تو مجھ پر یہ راز کھلا کہ جس عورت کو میں نفرت کی علامت سمجھتا رہا ہوں وہ پیار کا سرچشمہ ہے،،،، تم ہو وہ سرچشمہ،،،، مجھ سے دور نہ ہٹو،،،، اس نے شمونہ کو ذرا زور سے اپنی طرف کھینچا۔
نہیں میرے مرشد !،،،،،شمونہ نے روندھی ہوئی سی آواز میں کہا۔۔۔ میں بدی سے نیکی کی طرف، شر سے خیر کی طرف آئی ہوں، مجھے اس راستے پر آپ نے ہی ڈالا تھا ،آپ اس طرف نہ جائیں جدھر سے میں واپس آئی ہوں ،مجھے اللہ اور ابلیس کے درمیان بھٹکتا نہ چھوڑیں۔
میری بات سمجھنے کی کوشش کرو شمونہ!،،،،،، نوراللہ نے ایسی ڈگمگائی ہوئی آواز میں کہا جیسے وہ نشے میں ہو ،،،،تھوڑی سی دیر کے لئے مجھے بھٹک جانے دو ،مجھے پیاسا نہ لوٹاؤ۔
آسمان پر بجلی بڑی زور سے کڑکی، پھر گھٹا گرجی اور اس کے ساتھ ہی طوفان باد باراں شروع ہو گیا، دروازے کے کھلے کواڑ زور زور سے بجنے لگے ،برآمدے میں دیا بجھ گیا، نور اللہ نے شمونہ کو اپنی طرف کھینچا شمونہ کاسینہ بڑی زور سے نوراللہ کے سینے سے ٹکرایا ،نوراللہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسے اپنے بازوؤں میں لینے لگا تو شمونہ اچھل کر پیچھے ہٹی اور بڑی زور سے ایک تھپڑ نور اللہ کے منہ پر مارا ۔
تم لوگوں کو جس ابلیس سے ڈراتے ہو۔۔۔ شمونہ نے بڑے ہی غضب ناک لہجے میں کہا۔۔۔ وہ ابلیس تم خود ہو۔
شمونہ اچھل کر پلنگ سے اٹھی اور فرش پر کھڑی ہو گئی، اسے توقع ہوگی کہ نوراللہ اس پر جھپٹے گا ،لیکن اندھیرے میں نوراللہ کے قدموں کی آہٹ ابھری جو شمونہ کی طرف بڑھنے کی بجائے دروازے کی طرف جا رہی تھی ،شمونہ وہیں دبکی کھڑی رہی ،نوراللہ باہر نکل گیا ،شمونہ کو اب یہ خوف محسوس ہونے لگاکہ نوراللہ رسی لینے گیا ہے ،اور وہ اسے باندھ لے گا، یا چھری چاکو لا کر اسے قتل کر دے گا ،ڈر کے مارے وہ پلنگ کے نیچے چھپ گئی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
نوراللہ صحن میں چلا گیا ،بارش بہت ہی تیز تھی اور اس کے ساتھ جھکڑ اور زیادہ تیز و تند تھا۔
مجھے سکون دو ،،،،،،نور اللہ نے بڑی بلند آواز میں کہا،،،،، مجھے انسان کامل بنا دو ۔
شمونہ نے یہ آواز سنی اور پلنگ کے نیچے دبکی رہی۔
نوراللہ پر دیوانگی طاری ہو چکی تھی، وہ اسی حالت میں باہر نکل گیا شہر کے لوگوں نے طوفان باد باراں کی بھیانک شور و غل میں بڑی بلند آوازیں سنیں ۔۔۔۔مجھے سکون دو،،،،، میں جل رہا ہوں،،،،، میرے اللہ !،،، بادباراں کو اور تیز کردے،،،،،میری روح کو تلخیوں سے نجات دلادے۔
شہر کے لوگوں نے یہ آوازیں مسلسل سنیں اور یہ دور ہٹتی گئیں، اور پھر طوفان کے شوروغل میں تحلیل ہو گئی، اور لوگ یہ سمجھ کر ڈر گئے کہ یہ کسی کی بھٹکی ہوئی مظلوم بد روح ہے ،جو فضا میں چیختی چلاتی جا رہی ہے ۔
شمونہ پلنگ کے نیچے چھپی کانپ رہی تھی۔
نوراللہ شہر سے نکل کر جنگل میں چلا گیا اور وہ بازو پھیلائے چلاتا چلا جا رہا تھا کہ مجھے سکون دو ،شہر سے کچھ دور چھوٹی سی ایک ندی تھی جس میں بچے بھی گزر جایا کرتے تھے، لیکن اوپر اتنی زور کا مینہ برسا تھا کہ ندی میں طغیانی آ گئی تھی، ہر طرف پانی ہی پانی تھا ندی پانی میں ہی کہیں چھپ گئی تھی، نوراللہ کچھ اور آگے گیا تو ایک ٹہن درخت سے ٹوٹ کر اس طرح گرا کے نوراللہ کے سر پر لگا، وہ تو پہلے ہی دیوانگی کے حالت میں تھا اسے یہ احساس بھی نہ تھا کہ جا کہاں رہا ہے، سر پر ٹہن گرا تو اس پر غشی طاری ہونے لگی، وہ گرا تو چند قدم آگے ندی کے کنارے پر گرا ،کنارہ سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا سیلاب نوراللہ کو اپنے ساتھ ہی بہا لے گیا۔
اسے اللہ نے سیلاب میں نئی زندگی دی تھی، اور یہ زندگی سیلاب نے ہی واپس لے لی۔ شمونہ صبح تک پلنگ کے نیچے چھپی رہی، صبح ڈرتے ڈرتے باہر نکلی تو نوراللہ وہاں نہیں تھا ،طوفان تھم چکا تھا ،شمونہ گھر سے نکلی اور ابو مسلم رازی کے یہاں چلی گئی، اور اسے رات کی ورادات سنائی۔
ابلیس ہر انسان کی ذات میں موجود ہوتا ہے۔۔۔ ابو مسلم رازی نے شمونہ سے کہا۔۔۔ ایک خوبصورت عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی کے بھی ایمان کو سُلا کر ابلیس کو بیدار کر سکتی ہے ،لیکن جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ابلیس انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا،،،،،، تمہارا اب کیا ارادہ ہے؟
میں آپ کی پناہ میں آئی تھی۔۔۔ شمونہ نے التجا کی ۔۔۔مجھے اپنی پناہ میں رکھیں،،،،، یہ تو میرا ایک ارادہ ہے، میرا ایک ارادہ اور بھی ہے، آپ نے کہا ہے کہ ایک خوبصورت عورت کسی کے بھی ایمان کو سُلا کر ابلیس کو بیدار کر سکتی ہے یہ آپ نے ٹھیک کہا ہے، حسن بن صباح لوگوں کو اور امراء وزراء کو اپنا مرید بنانے کے لیے عورت کی یہی طاقت استعمال کر رہا ہے ،میں اس کی اس طاقت کو زائل کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں، اس ارادے کی تکمیل کے لئے میں آپ کے زیر سایہ رہنا چاہتی ہوں۔
اسی روز شہر میں مشہور ہو گیا کہ رات کو ایک بے چین بدروح طوفان باد باراں میں چلاتی گزر گئی تھی، مجھے سکون دو ،،،،،مجھے سکون دو ،،،،یہ باتیں امیر شہر تک پہنچی تو شمونہ نے بھی سنی اس نے بتایا کہ یہ الفاظ نوراللہ نے اپنے گھر کے صحن میں کہے تھے۔ پھر وہ باہر نکل گیا تھا ،وہی باہر بھی یہی نعرہ لگا کے گیا ہوگا۔
تیسرے چوتھےدن شہر میں کچھ دور آگے ایک جگہ نوراللہ کی لاش مل گئی۔
تو کڑیاں ملاتے یہ کہانی سامنے آئی جو داستان گو نے سنائی ہے، یہ تاریخ کا ایک حصہ بن گیا، یہ آگے چل کر سنایا جائے گا کہ شمونہ نے اس داستان میں کیا رول ادا کیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷÷*
حسن بن صباح اپنی گرفتاری کی اطلاع قبل از وقت مل جانے سے رے سے فرار ہوگیا تھا، اس نے خلجان پہنچنا تھا ،وہ اپنے خاص آدمیوں کو کہہ گیا تھا کہ شمونہ کو بھی خلجان پہنچا دینا، وہاں وہ اسے سزائے موت دینا چاہتا تھا۔ وہ خود بھی خلجان نہ پہنچ سکا ،تاریخ میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خلجان کی طرف اونٹ پر جا رہا تھا ،وہ شتر بانوں کے بھیس میں تھا، اس کی رفتار معمول کے مطابق تھی تاکہ کسی کو شک نہ ہو، اس نے ابھی آدھا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ پیچھے سے ایک تیز رفتار گھوڑسوار گیا اور اسے جالیا، وہ حسن بن صباح کے اپنے گروہ کا آدمی تھا۔
کیا خبر لائے ہو ؟،،،،،حسن نے اس سے پوچھا۔
خلجان نہ جائیں ۔۔۔گھوڑ سوار نے کہا ۔۔۔ہمارا خیال ہے سلجوقی امیر کو شک ہو گیا ہے کہ آپ خلجان جا رہے ہیں، شاید وہ لوگ آپ کے تعاقب میں آئیں گے، کسی اور طرف کا رخ کرلیں۔
حسن رک گیا کچھ دیر سوچا۔
میں اصفہان چلا جاتا ہوں۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔تم خلجان چلے جاؤ وہاں کے امیر احمد بن عطاش کو ساری بات سنا کر بتانا کے میں اصفہان جا رہا ہوں ،وہاں میرا ایک پرانا دوست رہتا ہے نام ابوالفضل ہے، ہم امام موافق کے مدرسے میں اکٹھے پڑے تھے، اب اس کا شمار شہر کے رئیسوں میں ہوتا ہے، وہ مجھے پناہ دے گا اور مدد بھی کرے گا۔
احمد بن عطاش سے کہنا کہ میں کچھ دنوں بعد خلجان پہنچ جاؤں گا، اور یہ بھی کہنا کہ شہر میں کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اس کے پیچھے اپنے جاسوس ڈال دو، وہ سلجوقیوں کا جاسوس ہو سکتا ہے، اسے زندہ نہیں چھوڑنا۔
میں آپکی بات سمجھ گیا ہوں۔۔۔ گھوڑ سوار نے کہا ۔۔۔ہمیں یہاں زیادہ دیر رکنا نہیں چاہیئے۔
گھوڑسوار خلجان کی طرف اور حسن بن صباح اصفہان کی طرف چلا گیا۔
تاریخ سے پتہ نہیں چلتا وہ کتنے دنوں بعد اصفہان پہنچا، ابوالفضل اصفہانی کے گھر کا راستہ پوچھا اور اس کے گھر جاپہنچا۔ ابوالفضل کو ملازم نے اندر جا کر اسے بتایا کہ ایک شتربان آیا ہے ۔
ابوالفضل نے کہا کہ اس نے کسی شتربان کو نہیں بلایا ،نہ کسی شتربانون کی اجرت اس کے ذمے ہے۔
اس سے پوچھو کیوں آیا ہے؟ ،،،،،ابوالفضل نے ملازم سے کہا۔
آقا پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟،،،، ملازم نے باہر جاکر حسن سے پوچھا۔۔۔ ان کا کسی شتربان سے کوئی کام نہیں ہو سکتا۔
آقا سے کہو یہ شتربان آپ سے ملے بغیر نہیں جائے گا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔
ملازم اندر گیا اور واپس آکر وہ حسن کو اندر لے گیا ،معمولی سے ایک کمرے میں بٹھایا۔ ایک تو وہ شتر بانوں کے لباس میں تھا دوسرے وہ بڑی مسافت طے کر کے آیا تھا، چہرے پر تھکن کے آثار بھی تھے، ابوالفضل اصفہانی اس کمرے میں گیا تو وہ حسن کو پہچان نہ سکا ،حسن نے قہقہہ لگایا تو ابوالفضل نے اسے پہچانا اور اسے اس کمرے میں لے گیا جس میں اعلی رتبہ کے مہمانوں کو بٹھایا جاتا تھا۔
وہ کچھ دیر مدرسے کے زمانے کی باتیں کرتے رہے، پھر ابوالفضل نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے، اور کہا جا رہا ہے؟
یوں سمجھو آسمان سے گرا ہوں،،،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں مرو سے آیا ہوں ،سلطان ملک شاہ نے مجھے اپنا معتمد خاص بنا لیا تھا، یہ تو تم جانتے ہو کہ ہمارا پرانا دوست نظام الملک سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم ہے،،،، حسن بن صباح نے جھوٹ بولا۔۔۔ سلطان مجھے اپنا وزیراعظم بنا رہا تھا لیکن نظام الملک نے خفیہ طریقے سے سلطان کو میرا دشمن بنا دیا، اور پھر مجھے عہدے سے معزول کرا کے شہر بدر کروا دیا۔
دبستان مذاہب" کے حوالے سے "آئمہ تلبیس" میں لکھا ہے کہ ابو الفضل نے حسن بن صباح سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟
میں سلجوقی سلطنت کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ مجھے تم جیسے دو دوست مل جائیں تو میں اس ترک ملک شاہ اور خواجہ حسن طوسی کا جو نظام الملک بنا پھرتا ہے پہلے خاتمہ کر دوں۔
ابوالفضل چپ رہا اتنے میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا۔
ابوالفضل نے ایک الماری سے ایک شیشی نکالی اور اس میں جو سفوف پڑا ہوا تھا اس میں ذرا سا سفوف ایک پیالے میں پانی ڈال کر گھولا ۔
لو حسن!،،،،، اس نے پیالا حسن کو دیتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ پی لو۔
یہ کیا ہے ؟،،،،اس نے پوچھا۔
یہ دماغی تقویت کے لئے ایک دوائی ہے۔۔۔ ابوالفضل نے کہا۔۔۔ تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے کہ تھکان نے تمہارا دماغ شل کر دیا ہے، ورنہ تم ایسی بہکی بہکی باتیں نہ کرتے کہ تم سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک کا خاتمہ کر دو گے، حالانکہ تمہیں پوری طرح احساس ہے کہ سلجوقی نہ آتے تو اسلام کی بنیادیں جو کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی تھیں پوری عمارت کو لے بیٹھتیں، مسلمان بہتر فرقوں میں بٹ چکے ہیں ،اور ان فرقوں کے اندر فرقے بن رہے ہیں، اسلام کی توڑ پھوڑ شروع ہوچکی ہے، سلجوقیوں نے اسلام کی بنیادیں مضبوط کر دی ہیں اور قرآن کے اس فرمان کے مطابق کے امت ایک جماعت ہے ایک جماعت کی حکومت قائم کردی ہے،،،،،،،، تم جیسا مسلمان یہ کہے کہ وہ سلطنت سلجوق کا خاتمہ کر دے گا تو یہ ثبوت ہے کہ وہ دماغی توازن کھو بیٹھا ہے، یا کسی وجہ سے اس کے دماغ پر عارضی اثر ہوگیا ہے۔۔۔۔۔ تمہارے دماغ پر سفر کی تھکان کا اثر ہے، یہ دوائی پی لو دماغ تروتازہ ہو جائے گا۔
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو ہر مؤرخ نے لکھا ہے ،حسن بن صباح اپنے پرانے دوست ابوالفضل اصفہانی کے ہاں پناہ اور مدد کے لیے گیا تھا، لیکن اس کے دوست نے اسے دماغی خرابی کا مریض قرار دے دیا۔
حسن کو ایک مایوسی تو یہ ہوئی کہ اس کا دوست سلجوقیوں کا حامی ہی نہیں بلکہ پیروکار نکلا، اس کے ساتھ ہی اسے خطرہ محسوس ہوا کہ ابو الفضل کو اس کی اصلیت اور گرفتاری سے فرار کا پتہ چل گیا تو وہ اسے گرفتار کرا دے گا۔
حسن بن صباح نے اپنے متعلق یہ مشہور کر رکھا تھا کہ وہ اہل سنت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدائی ہے۔ اسماعیلیوں میں جاتا تو اپنے آپ کو اسماعیلی بتاتا تھا ،حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنا ہی ایک فرقہ بنا رہا تھا ،اور اس نے نبوت کا دعوی کرنا تھا۔ اس نے ابو الفضل کے ہاتھ سے پیالہ لے کر دو آئی پی لی ،کھانا کھایا اور باتوں میں محتاط ہوگیا، ابوالفضل نے اسے جلدی سلا دیا۔
وہ صبح بہت جلدی جاگ اٹھا، اپنے میزبان سے کہا کہ وہ اس سے رخصت چاہتا ہے، وہ وہاں سے بھاگنے کی فکر میں تھا ،ابوالفضل کے گھر سے نکل کر وہ خلجان کی طرف روانہ ہو گیا، وہاں گرفتاری کا خطرہ تو تھا لیکن وہ احمد بن عطاش سے مل کر آئندہ پروگرام بنانا چاہتا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دو تین دنوں کی مسافت طے کر کے وہ خلجان پہنچ گیا, اس کا بہروپ اتنا کامیاب تھا کہ احمد بن عطاش بھی اسے نہ پہچان سکا، اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ گرفتاری کا خطرہ ابھی ہے یا ٹل گیا ہے، دوسری بات یہ پوچھی کہ شمونہ آئی ہے یا نہیں؟
شمونہ کے متعلق اسے بتایا گیا کہ نہیں آئی، البتہ یہ اطلاع آئی ہے کہ وہ فرار ہو گئی ہے۔
اس صورت میں اسے قتل کرنا ضروری ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اسے یہاں لاکر قتل کرنا تھا، لیکن اب وہ ہمارے لیے زیادہ خطرناک ہوگئی ہے، اگر وہ سلجوقیوں کے پاس چلی گئی تو ہمارا سارا کھیل بے نقاب ہو جائے گا۔
تمہیں یہاں سے نکالنے کی ایک بڑی اچھی صورت پیدا ہوگئی ہے ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔مصر کے دو عالم آئے ہیں، تم جانتے ہو کہ مصر پر اسماعیلیوں کی حکومت ہے، وہ میرے مہمان اس طرح ہوئے کہ ہمیں وہ اسماعیلی سمجھتے ہیں، میں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہم اسماعیلی فرقے کے لوگ ہیں، یہ دونوں تبلیغ کے لیے آئے ہیں ان میں ایک داعی الکبیر کہلاتا ہے، اس نے مجھے کہا ہے کہ اسے ایسے ذہین اور پراثر گفتار والے آدمی دیے جائیں جو اسماعیلی عقائد اور مسلک کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو اس فرقے میں لائیں۔
میں ان میں شامل ہو جاتا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔مصر جانے کے ارادے سے، یہ تو میں پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ مصر جاؤں اور وہاں کے حکمرانوں کو قائل کروں کہ وہ سلجوقیوں پر حملہ کریں، اور ہم انہیں نفری اور دیگر ضروریات کی مدد دیں گے، ہمارا پہلا شکار سلجوقی سلطنت ہے ،اس کا ہم نے خاتمہ کر دیا تو اس پر قابض ہونے والوں کے ہم پاؤں نہیں لگنے دیں گے۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مصر پر عبیدیوں کی حکمرانی تھی، جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اسماعیلی ہیں، لیکن وہ باطنی تھی، یہ جو دو عالم خلجان گئے اور احمد بن عطاش سے ملے اسماعیلی ہی تھے، جو اپنے فرقے کے مبلغ تھے، معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھی معلوم نہیں تھا کہ مصر کے حکمران اسماعیلی نہیں بلکہ باطنی ہے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ دونوں عالم دراصل باطنی تھے اور اسماعیلیت کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھرتے تھے، داستان گو کے لیے یہ عالم کوئی ایسے اہم نہیں کہ ان کے متعلق حتمی طور پر کہیں کہ وہ کس فرقے کے لوگ تھے ،اہم بات یہ ہے کہ حسن بن صباح مصر جانا چاہتا تھا اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان عالموں سے ملا اور تبلیغ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں ،دوسروں پر اپنا طلسم طاری کرنے کا ڈھنگ اسے آتا تھا، اس کی زبان میں جادو کا اثر تھا، اس نے عالموں کو متاثر کر لیا اور انہوں نے اسے تبلیغ کے لیے رکھ لیا۔
حسن نے انہیں کہا کہ وہ اپنے علاقے میں تبلیغ کرنے کی بجائے مصر چلا جائے تو زیادہ بہتر ہے، اس نے ایسے دلائل دیے جن سے یہ عالم متاثر ہو گئے اور اسے مصر جانے کے لیے تمام سہولتیں اور رقم وغیرہ دے دیں۔ حسن مصر کو روانہ ہو گیا، اپنے دو آدمیوں کو ساتھ لے گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دو مہینوں کے سفر کے بعد حسن بن صباح مصر پہنچ گیا، اور سیدھا اس وقت کے حکمران کے پاس گیا، اس نے حکمران کو بھی متاثر کر لیا ،لیکن اسے یہ نہ بتایا کہ وہ اسماعیلی عقائد کی تبلیغ کرنے کے لیے آیا ہے ،اس نے حکمران پر دھاک بٹھانا شروع کر دی کہ وہ بہت بڑا عالم ہے، اور وہ وزارت کے رتبے کا آدمی ہے ،اس نے اپنے متعلق یہ بھی بتایا کہ وہ غیب دان بھی ہے اور آنے والے وقت کی پیشنگوئی بھی کر سکتا ہے۔
عبیدی حکمران اتنے کچے نہیں تھے کہ فوراً ہی ایک اجنبی کی باتوں میں آ جاتے، انہوں نے ظاہر یہ کیا کہ وہ اس سے متاثر ہوگئے ہیں، لیکن اس کے ساتھ اپنے جاسوس لگا دیے، ان میں ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی جس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ پہلی نظر میں ہی حسن کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے۔
حسن جان نہ سکا کہ وہ خود جو حربہ دوسروں کو ہاتھ میں لینے کے لیے استعمال کیا کرتا ہے وہی حربہ اس پر استعمال ہو رہا ہے۔
حسن بن صباح کی حکمرانوں نے ایسی پذیرائی کی جیسے وہ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ ہو، اس نے وہاں درپردہ اپنا ایک گروہ بنانا شروع کر دیا ،اور اس لڑکی کو بھی اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے استعمال کیا۔
اس کے ساتھ ہی اس نے حکمرانوں کو یہ مشورہ دینے شروع کر دیے کہ وہ سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں، انہیں وہ اس قسم کی پیشنگوئیاں سناتا تھا کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے، اور وہ خود ایک فرشتہ بن کر مصر میں آیا ہے۔
عبیدی حکمران یہی تو دیکھ رہے تھے کہ یہ شخص کیا کرنے آیا ہے، وہ دو عالم جنہوں نے اسے مصر بھیجا تھا وہ بھی واپس مصر آ گئے، وہ اسماعیلی مبلغ تھے جن کا عبیدی حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، کیونکہ وہ اسماعیلی نہیں تھے، ایک روز حسن بن صباح ان عالموں کے بلاوے پر ان سے ملنے چلا گیا، جاسوسوں نے حکمرانوں کو بتایا، اس دوران جاسوسوں نے حکمرانوں کو یہ بھی اطلاع دی تھی کہ اس شخص کی کارروائی صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی معلوم ہوتی ہیں۔
حسن بن صباح کے متعلق صحیح اطلاعیں تو اس لڑکی نے دیں جسے اس کے ساتھ لگایا گیا تھا، اور جس نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے۔
حکمرانوں کے لئے یہی کافی تھا اور وہ یہی معلوم کرنا چاہتے تھے ،ایک رات حسن اس لڑکی کو پاس بٹھاۓ شراب پی رہا تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور دو آدمی اندر آئے ،ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں انہوں نے حسن بن صباح کو ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے، اور پھر اسے پیادہ چلاتے قید خانے تک لے گئے، تب اسے بتایا گیا کہ سلطان وقت کے حکم سے اسے قید خانے میں ڈالا جا رہا ہے، اور یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اسے کب رہائی ملے گی، یا رہائی ملے گی بھی یا نہیں۔
مورخ لکھتے ہیں کہ اس نے قید خانے کے دروازے پر کھڑے ہوکر نعرہ لگایا۔۔۔ مجھے قید کرنے والوں تمہاری تباہی اور بربادی کا وقت آ گیا ہے ۔
اسے قید خانے میں تو دھکیل دیا گیا اور پھر ایک کوٹھری میں بند کر دیا گیا ،لیکن جس طرح اس نے تباہی کا نعرہ لگایا تھا وہ ایسا تھا کہ سننے والوں پر خوف طاری ہو گیا تھا ،یہ خبر حکمران تک پہنچ گئی۔
وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ شیطان کو بڑی ڈھیل دیتا ہے، وہ حسن بن صباح کے معاملے میں بالکل صحیح ثابت ہوا ،اسے جس قید خانے میں بند کیا گیا تھا اس کا نام قلعہ دمیاط تھا، یہ ایک قدیم قلعہ تھا، ہوا یوں کہ جس رات حسن بن صباح کو اس قید خانے میں پھینکا گیا اسی رات اس قلعے کا سب سے بڑا برج گر پڑا، یہ تو کسی نے بھی نہ دیکھا کہ برج کے گرنے کی وجہ کیا ہے ،سب پر یہ خوف طاری ہوگیا کہ یہ حسن بن صباح کی بد دعا کا نتیجہ ہے، سلطان مصر کو اطلاع ملی تو اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو مصر سے نکال دیا جائے۔
اتفاق سے ایک بحری جہاز کسی دور کے سفر پر روانہ ہو رہا تھا، تاریخ کے مطابق اس کے تمام مسافر عیسائی تھے ،حسن بن صباح کے ساتھ اس کے دو آدمی بھی تھے جو اس کے ساتھ ہی آئے تھے، جہاز ساحل سے بہت دور سمندر کے درمیان پہنچا تو بڑا ہی تیز و تند طوفان آگیا ،بادبان اڑنے لگے پانی جہاز کے اندر آنے لگا، اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ جہاز ڈوب جائے گا۔
جہاز کے عملے اور مسافروں میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی ،ہر کوئی جہاز میں سے پانی باہر نکالنے میں مصروف تھا ،کچھ لوگ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے جہاز اور مسافروں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے، صرف حسن بن صباح تھا جو ایک جگہ بڑے آرام سے بیٹھا مسکرا رہا تھا ،جہاز کے کپتان نے اسے دیکھ لیا۔
کون ہو تم ؟،،،،کپتان نے حسن بن صباح کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔۔سب لوگ مصیبت میں گرفتار ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہنس رہے ہو، اٹھو اور کوئی کام کرو ۔
طوفان گزر جائے گا،،،، نہ جہاز کو کوئی نقصان پہنچے گا نہ کوئی مسافر زخمی یا ہلاک ہوگا،،،، مجھے خدا نے بتا دیا ہے۔
کچھ ہی دیر بعد طوفان تھم گیا، جہاز کو کوئی نقصان نہ پہنچا ،تمام مسافر زندہ اور سلامت تھے ،جہاز کے کپتان کے لیے یہ ایک معجزہ تھا۔
تم کون ہو؟،،،، کپتان نے حسن بن صباح سے پوچھا ۔
میں طوفان لا بھی سکتا ہوں روک بھی سکتا ہوں ۔۔۔حسن بن صباح نے جواب دیا ۔
میں جہاز رانی میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔۔۔ کپتان نے کہا ۔۔۔میں نے ایسے شدید طوفان میں سے کبھی کوئی جہاز ٹھیک ٹھاک نکلتے نہیں دیکھا ،یہ ایک معجزہ ہے کہ میرا جہاز اس طوفان سے نکل آیا ہے۔
یہ معجزہ میرا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
میں تمہیں کچھ انعام دینا چاہتا ہوں۔۔۔ کپتان نے کہا ۔۔۔کہو کیا انعام دوں؟
اگر انعام دینا ہے تو ایک کام کرو ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔جہاز کا رخ موڑو اور مجھے حلب پہنچا دو، ایسا ہو سکتا ہے کہ میں جہاز میں موجود رہا تو ایک بار پھر طوفان آجائے۔ کپتان بہت ہی خوف زدہ تھا اس نے جہاز کا رخ موڑا اور حلب کا رخ کرلیا، حلب پہنچ کر حسن بن صباح اور اس کے دو ساتھیوں کو اتار دیا۔
یہ بتاؤ حسن!،،،،،، اس کے ساتھی نے پوچھا۔۔۔ تمہیں کس طرح پتہ چل گیا تھا کہ جہاز طوفان سے خیریت سے نکل آئے گا۔؟
بے وقوفوں !،،،،،عقل سے کام لو ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اگر جہاز ڈوب جاتا تو مجھے یہ کہنے کے لئے کوئی بھی زندہ نہ رہتا کہ میری پیشن گوئی غلط نکلی ہے، میں نے سوچ لیا تھا کہ طوفان گزر جائے گا تو سب پر میری دھاک بیٹھ جائے گی، اور پھر میں کپتان سے اپنی یہ بات منوا لونگا کہ مجھے ملک شام کی بندرگاہ حلب پہنچا دے، ایسا ہی ہوا ہمارا کام ہوگیا ۔
حسن بن صباح حلب سے بغداد گیا، اور ایک بار پھر اصفہان جا پہنچا ،وہاں سے اس کا جو سفر شروع ہوا وہ ایسے پراسرار واقعات کا تسلسل ہے جس پر تاریخ آج تک محو حیرت ہے۔
*<==========۔=======>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔21۔میں پڑھیں*
*<==========۔=======>*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
Home »
Batil Aqeeda
» Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 20)
No comments:
Post a Comment