find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 17)

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 17)
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*حسن بن صباح*اور اسکی*مصنوعی جنت*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀۔
*قسط نمبر/17*
🌴🌴🌴🌴🌴🌴۔
ابلیس نے خدا کی حکم عدولی کی اور انسان کے آگے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس نے اللہ سے کہا تھا مٹی کا بنا ہوا یہ انسان زمین پر اپنے ہی بھائیوں کا خون بہائے گا، فتنہ اور فساد برپا کرے گا ،اورتیری عطاکی ہوئی اس عظمت کو بھول جائے گا کہ تیرے حکم سے فرشتوں نے اس کے آگے سجدہ کیا تھا۔
اسے ہم نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔۔۔ یہ اللہ کی آواز تھی ۔
یہ حشرات الارض سے بدتر ہوگا۔۔۔ یہ ابلیس کی آواز تھی۔
یہ میرے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا۔۔۔اللہ نے کہا ۔۔۔میں اس کی رہنمائی کے لئے نبی اور پیغمبر بھیجتا رہوں گا ۔
میں اسے اپنے راستے پر چلاؤں گا۔۔۔ ابلیس نے کہا ۔۔۔جو طاقت مجھ میں ہے وہ اس میں نہیں، میں آگ سے بنا ہوں، یہ مٹی کا پتلا ہے، میں اسے بڑی حسین اور دلفریب خواہشوں کا غلام بنا دوں گا ۔
یہ میری عبادت کرے گا۔
میں اسے دنیا کی چمک دمک کا شیدائی بنا دوں گا ۔۔۔ابلیس نے کہا۔۔۔ یہ تیری عبادت کرے گا لیکن اس کا دل دولت کا پجاری ہوگا، یہ ہر اس چیز کی پرستش کرے گا جس سے ذہنی اور جسمانی لذت حاصل ہو گی ،اور یہ ہر وہ کام کرے گا جس سے اسے روکا جائے گا، یہ بدی سے لطف اندوز ہو گا ۔
جا تو تاقیامت ملعون رہے گا۔۔۔ اللہ نے کہا اور ابلیس کو دھتکار دیا۔
پھر یوں ہوا کہ اللہ کا پہلا ہی بندہ جنت سے نکالا گیا، پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ عورت جو آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی وہ آدم کی جڑوں میں بیٹھتی چلی گئی اور آدم کی کمزوری بن گئی کہ وہ مجبور اور بے بس ہوگیا ۔
عورت آدمی کے لیے نشہ بن گیا۔
آدمی عورت کے دام میں آ کر ابلیس کا پجاری بن گیا۔
داستان گو اپنے آپ کو فن داستان گوئی تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے، ابلیس کے متعلق ایک پیر طریقت شیخ عربی کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرتا ہے۔
ابلیس اہل خلوت کو راہ راست سے منحرف کرنے میں ایسے ایسے کمال رکھتا ہے کہ انسان علم و عمل کے بڑے مضبوط قلعے اس کی ادنی فسوں طرازیوں سے آناً "فاناً "زیر و زبر ہو جاتے ہیں، اگر توفیق الہی اور ہدایت ازلی رفیق حال ہو تو انسان اس کی مغویانہ دست بُرد سے ہر وقت محفوظ ہے، ورنہ جو بخت خفتہ اور طالع گم گشتہ اپنی قسمت کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں، وہ ان کو ایسی بری طرح پٹختا ہے کہ اس کا جھٹکا مشرق و مغرب تک محسوس ہوتا ہے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
سلجوقی سلطان ملک شاہ کا مشیر خاص اور منظور نظر احتشام مدنی پابند صوم و صلوۃ تھا، زاہد و پارسا اور معزز انسان تھا کوئی ایسا جواں سال بھی نہ تھا کہ جوش شباب میں ایک حسین لڑکی کو دیکھ کر بے قابو ہوجاتا۔ مگر وہ فاطمہ کو دیکھ کر اپنے آپ کو اور اللہ کو بھی بھلا بیٹھا اور حسن بن صباح کے جال میں آ گیا۔
وہ اس کمرے سے جس میں حسن بن صباح اسے لے گیا تھا نکلا تو اس کے چہرے سے شرمساری اورگھبراہٹ دھل گئی تھی اور رونق عود کر آئی تھی ،یہ تو واضح ہے کہ حسن بن صباح نے اس کے ساتھ سودا بازی کرلی تھی کہ وہ وزیراعظم نظام الملک کو سلطان ملک شاہ کی نظروں میں گرانے میں اس کی مدد کرے گا، لیکن ان کے درمیان باتیں کیا ہوئی تھیں؟
تاریخوں میں جو اشارے ملتے ہیں ان سے یہ بات سامنے آتی ہیں کہ حسن بن صباح نے احتشام کو اندر لے جا کر یوں نہیں کہا تھا کہ احتشام اسے نظام الملک کی جگہ وزیراعظم بنوا دے۔
تم بے شک سلطان کے مشیر ہو احتشام!،،،،، حسن بن صباح نے کہا تھا،،،، لیکن میرا رتبہ بھی تم سے کم نہیں میں جو بات کرنا چاہوں گا وہ براہ راست سلطان کے ساتھ کرلوں گا، لیکن تمہاری اس حرکت سے مجھے مایوسی ہوئی ہے، فوری طور پر مجھے خیال آتا ہے وہ یہ ہے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں ،میں تو دل میں سلطنت سلجوق کی بھلائی لے کر آیا تھا، میں اہل سنت والجماعت ہوں مجھے کسی عہدے اور کسی رتبے کی ضرورت نہیں، قلعہ شاہ در سے قلعہ خلجان تک کے علاقے کے لوگ مجھے اپنا مرشد اور عالم دین مانتے ہیں، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ سلطنت سلجوق اور اسلام کے خلاف کچھ فتنے اٹھ رہے ہیں میں یہاں ان خطروں کے انسداد کے لیے یہاں آیا تھا ،لیکن میں نے یہاں کچھ اور ہی دیکھا ہے۔
میں اپنی اس حرکت پر نادم ہوں میرے بھائی!،،،، احتشام مدنی نے کہا ۔
صرف یہی ایک حرکت نہیں ہوئی۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں نے یہ عہدہ سنبھالا تو نظام الملک نے سلطان کے اور تمہارے خلاف کان بھرنے شروع کر دئیے، تمہیں شاید معلوم ہوگا کہ میں اور نظام الملک امام مؤافق کے مدرسے میں اکٹھے پڑھے ہیں۔
ہم گہرے دوست ہوا کرتے تھے اس نے خود مجھے یہاں بلایا اور اس عہدے پر یہاں لگوایا ہے ،یہ سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کر رہا ہے اور اس کے ارادے بڑے خطرناک ہیں، یہ خلیفہ سے مل کر ایک فوج تیار کرنے کی کوشش میں ہے، یہ سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
میں سلطان کو خبردار کرونگا ۔۔۔احتشام مدنی نے کہا۔۔۔ سلطان صرف میری بات سنتا ہے۔
ایسی حماقت نہ کر بیٹھنا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ نظام الملک پہلے ہی تمہیں یہاں سے ذلیل و خوار کرکے نکلوانا چاہتا ہے، یہ تو لڑکپن میں مدرسے میں اسی طرح جوڑ توڑ کرتا رہتا تھا اس کا ذہن سازشی ہے، سلطان اگر تمہاری سنتا ہے تو اس کی بھی سنتا اور مانتا ہے، اگر تم نے جلد بازی سے کام لیا تو یہ شخص تمہیں یہاں سے نکلوائے گا نہیں بلکہ قید خانے میں بھجوا دے گا،،،،،،،،،،،،، میں باہر کے خطروں کو تو بھول ہی گیا ہوں احتشام !،،،سب سے بڑا خطرہ تو یہ ہے، یہ بڑا ہی زہریلا سانپ ہے جو سلطان کی آستین میں پرورش پا رہا ہے .
مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟،،،،، احتشام نے پوچھا۔
پہلے میری بات پوری ہونے دو ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔۔ میں اس وزیراعظم کی سازشوں سے پریشان ہو رہا تھا اور یہی سوچا تھا کہ تمہارے ساتھ بات کروں، لیکن تم نے جو حرکت کی ہے اس سے میں بالکل ہی مایوس ہو گیا ہوں، اگر مشیر خاص اس طرح کرے کہ حاکموں کے گھروں میں داخل ہو کر ان کی عزت کے ساتھ کھیلے تو اس سلطنت کا اللہ ہی حافظ ہے، میں سلطان کو یہ تو ضرور بتاؤں گا کہ اس کی ناک کے عین نیچے کیا ہو رہا ہے۔
احتشام مدنی نے حسن بن صباح کے آگے ہاتھ جوڑے اور منت سماجت شروع کر دی کہ وہ اسے معاف کر دے اور یہ بات سلطان تک نہ پہنچائے۔
اگر میں نے تمہاری اس حرکت کی شکایت سلطان کو کر دی تو۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ تو تم نہیں جانتے کیا ہوگا، سلطان نظام الملک سے مشورہ لے گا نظام الملک جس موقع کی تلاش میں ہے وہ اسے مل جائے گا پھر تم سیدھے قید خانے میں جاؤ گے"،،،،،، حسن بن صباح سوچ میں پڑ گیا کچھ دیر بعد بولا ،،،،،اگر تم میرا ساتھ دو تو ہم دونوں نظام الملک کو سلطان کی نظروں سے گرانے کی کوشش کریں گے ۔
مجھے اپنے ساتھ سمجھو۔۔۔۔ احتشام نے کہا۔
لیکن نظام الملک کے ساتھ پہلے کی طرح دوستانہ رویہ رکھنا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اسے شک نہ ہو کہ ہم دونوں اس کے خلاف کچھ کر رہے ہیں۔
حسن بن صباح کے بولنے کا انداز ایسا تھا جو ایک خاص تاثر پیدا کرتا تھا ،احتشام مدنی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اس شخص کے جال میں آ گیا ہے جس نے بڑی محنت سے اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کیے ہیں، اور دو استادوں نے اس میں ابلیس کی قوت پیدا کرکے اسے مکمل ابلیس بنا دیا ہے۔
انسانی فطرت کے عالم کہتے ہیں کہ ایسے انسان میں جو اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیتا ہے ایک ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ ہر کوئی اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے، اس کے بولنے کے انداز میں چاشنی پیدا ہوجاتی ہے، اس کے ہونٹوں پر ہر وقت بڑا ہی دل فریب تبسم کھلا رہتا ہے، ضرورت پڑے تو وہ اپنے اوپر ایسی اداسی غم زدگی اور مظلومیت طاری کر لیتا ہے کہ دوسروں کو رولا دیتا ہے، اور وہ جب کسی کے ساتھ خیر سگالی یا محبت کے جذبات کا اظہار کرتا ہے تو دل موہ لیتا ہے، لیکن یہ محض اداکاری اور فریب کاری ہوتی ہے۔
احتشام مدنی نے نظام الملک کے خلاف حسن بن صباح کی باتیں اپنے دل میں اتار لی اور اس کے ساتھ اس طرح بے تکلف ہو گیا جیسے بچپن کے ہمجولی ہوں، حسن بن صباح نے تو اس پر طلسماتی اثر پیدا کر دیا تھا، بے تکلفی یہاں تک بڑھی کہ احتشام مدنی نے اپنے دل کی بات کہہ دی ۔
میری ایک درخواست پر غور کرو گے؟۔۔۔ حسن احتشام نے پوچھا۔
دوستوں میں یہ تکلف نہیں ہونا چاہیے احتشام!،،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔  درخواست نہ کہو ،بات کرو اور مجھ پر اپنا حق سمجھ کر بات کرو ۔
کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہاری بہن کے ساتھ شادی کر لوں؟۔۔۔ احتشام نے پوچھا ۔
میرے سامنے مسئلہ اور ہے۔۔۔۔ حسن بن صباح نے جواب دیا۔۔۔ سوال یہ نہیں کہ میں پسند کروں گا یا نہیں، سوال یہ ہے کہ فاطمہ پسند کرے گی یا نہیں، تمہیں شاید میری یہ بات عجیب لگے کہ میں نے یہ فیصلہ اپنی بہن پر چھوڑ دیا ہے، بات یہ ہے احتشام اس بہن سے مجھے بہت ہی پیار ہے، میں کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اسے اچھا نہ لگے، اس کی پہلی شادی میری پسند پر ہوئی لیکن وہ آدمی ٹھیک نہ نکلا ،فاطمہ کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا تھا، اسے شاید اسی کی بددعا لگی کہ وہ ایک ہی سال بعد مر گیا ،شادی سے یہ ایسی متنفر ہوئی کے شادی کا نام نہیں سننا چاہتی۔
میں اسے کیسے یقین دلاؤں کہ میں اسے سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھوں گا۔۔۔ احتشام مدنی نے کہا۔۔۔ میرے دل میں اس لڑکی کی محبت پیدا ہو گئی ہے۔
میں ایک کام کرسکتا ہوں.  حسن بن صباح نے کہا ۔  فاطمہ سے کہوں گا کہ تمہیں پسند کرلے، میں اسے تمہارے ساتھ ملنے سے روکوں گا نہیں ۔
تو کیا اب میں جا سکتا ہوں؟،،،،، احتشام نے پوچھا۔
ہاں احتشام !،،،،،حسن نے کہا۔۔۔ ہم دشمنوں کی طرح ملے تھے، اللہ کا شکر ہے کہ تم بھائیوں کی طرح جا رہے ہو۔
اللہ کرے ہم ہمیشہ کے لئے بھائی بن جائیں۔۔۔۔ احتشام نے کہا ۔
میں پوری کوشش کروں گا میرے بھائی!،،،،، حسن نے کہا۔۔۔ میں فاطمہ کو منوا لونگا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
احتشام مدنی حسن بن صباح کے گھر سے نکل گیا تو لڑکی ساتھ والے کمرے سے نکلی۔
شکار مار لیا یا نہیں؟۔۔۔ لڑکی نے ہنستے ہوئے پوچھا ۔
جال میں تم جیسا دانہ پھینکا جائے تو شکار کیوں نہیں پھنسے گا ۔۔۔حسن بن صباح نے بازو پھیلا کر فاتحانہ لہجے میں کہا۔
لڑکی لپک کر اس کے بازوؤں میں چلی گئی، اور حسن بن صباح نے اسے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔
وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ میں دروازے کے ساتھ کان لگا کر سن رہی تھی۔
یہ یاد رکھنا کے تم اب فاطمہ ہو ۔۔۔حسن نے کہا ۔۔۔اپنا اصل نام بھول جاؤ،،،،،،، ہاں، یہ شخص تمہارے ساتھ شادی کرنے کو بے تاب ہے ،تم اسے ملتی رہنا اور اس کے لیے بڑا ہی حسین سراب بنی رہنا ،تم نے یہ کہتے رہنا کہ مجھے آپ سے پیار ہے، لیکن میں شادی کا نام سنتی ہوں تو مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے، اس کے ساتھ اس پر پیار کا ایسا نشہ طاری کیے رکھنا کے یہ مدہوش رہے، تمہیں معلوم ہے کہ اس سے ملاقات کے وقت تم نے اپنے کپڑوں اور بالوں پر کون سی خوشبو لگانی ہے، اسے پیار دو اس کا پیار لو اور اپنے جسم کو اس سے بچائے رکھو۔
کیا مجھے یہ باتیں بتانا ضروری ہے؟،،،،،لڑکی نے کہا ۔۔۔بارہ سال کی عمر سے میں آپ لوگوں سے جو تربیت لے رہی ہوں یہ میری روح میں شامل ہو گئی ہے، یہ میرا عقیدہ بن گئی ہے۔
میں تمہیں اس روز خراج تحسین پیش کروں گا جس روز میں اس سلطنت کا وزیراعظم بن جاؤں گا ۔۔۔حسن نے کہا۔۔۔ تمہیں ایک خاص سبق دیا جاتا رہا ہے، یہ نہ بھولنا، میں تمہیں پھر بتا دیتا ہوں تمہارے جذبات بھی ہیں اور یہاں ایک سے بڑھ کر ایک خوبرو اور دلکش جسم والے شہزادے اور امیر زادے موجود ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ۔
ایسا نہ ہو گا آقا!،،،، لڑکی نے کہا۔
اگر ایسا ہو گیا تو اس کی سزا سے تم واقف ہو۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ سزائے موت، یہ موت اتنی سہل نہیں ہوگی کہ سر تن سے جدا کر دیا اور بات ختم ہو گئی، یہ بڑی اذیت ناک موت ہوگی۔
اس تک نوبت نہیں پہنچے گی آقا!،،،، لڑکی نے کہا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دوسرے ہی دن احتشام مدنی سلطان ملک شاہ کے پاس بیٹھا کاروبار سلطنت کی باتیں کر رہا تھا۔
سلطان معظم !،،،،،احتشام نے پوچھا ۔۔۔اس نئے معتمد خاص حسن بن صباح کے متعلق آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟
جو رائے تمہاری ہوگی وہی میری ہوگی۔۔۔سلطان نے کہا ۔۔۔۔میں اپنے اتنے سارے کارندوں اور امراء کے متعلق الگ الگ کوئی رائے نہیں دے سکتا، مجھے خواجہ حسن طوسی نے کہا کہ حسن بن صباح اس کا مدرسے کے زمانے کا دوست ہے، علم و فضل سے مالامال، باریک بین، دور اندیش، اور دیانت دار ہے ،تو میں نے حسن طوسی کی رائے کو مستند مانا، مجھے اس وزیراعظم پر اعتماد ہے اسی لیے میں نے اسے نظام الملک کا خطاب دیا ہے،،،،،،،،، تم میرے مشیر خاص ہو اور میں تمہیں قابل اعتماد سمجھتا ہوں، تم کسی کے متعلق جو رائے دو گے میں اسے صحیح معنوں گا ،،،،،،تم میری رائے کیوں معلوم کرنا چاہتے ہو؟
مجھے حسن بن صباح میں کوئی ایسا وصف نظر آیا ہے جو ہم میں سے کسی میں بھی نہیں۔۔۔ احتشام نے کہا ۔۔۔آپ نے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی کو نظام الملک کا خطاب تو دے دیا ہے ،لیکن میں جو وصف حسن بن صباح میں دیکھ رہا ہوں وہ نظام الملک میں بھی نہیں۔
کیا تم میرے ساتھ صاف بات نہیں کرنا چاہو گے؟،،،،، سلطان نے کہا ۔۔۔تم حسن بن صباح کے متعلق میری ذاتی رائے کیوں معلوم کرنا چاہتے ہو؟
آپ نے مجھے بہت بڑا اعزاز بخشا ہے۔۔۔ احتشام مدنی نے کہا ۔۔۔مجھے آپ نے اپنا مشیر خاص بنایا ہے یہ بہت بڑا اعزاز ہے، میں نے یہ ثابت کرنا ہے کہ میں اس اعزاز کے قابل ہوں ،میں آپ کا نمک کس طرح حلال کر سکتا ہوں کہ جو اچھی یا بری چیز میں دیکھوں وہ آپ کو بھی دکھاؤں، اور جو اچھی یا بری بات میں سنوں وہ آپ کو بھی سناؤں،،،، آپ کسی وقت حسن بن صباح کو شرف باریابی بخشیں اور اس کی عقل و دانش کا امتحان لیں۔
اسے ابھی میرے پاس بھیجو۔۔۔ سلطان ملک شاہ نے کہا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد حسن بن صباح سلطان کے پاس بیٹھا ہوا تھا ،سلطان اس کی فہم و فراست کا امتحان لینا چاہتا تھا۔
حسن !،،،،،سلطان نے پوچھا ۔۔۔کوئی بادشاہ اپنی تمام تر رعایا کو کس طرح خوش اور راضی رکھ سکتا ہے۔
اپنے دل کو ناراض کرکے۔۔۔ حسن نے جواب دیا۔
اس کی تشریح کرو۔
بادشاہ اپنے دل سے شاہانہ خواہشات نکال دے ۔۔۔حسن نے کہا ۔۔۔ہر بادشاہ عیش و عشرت کا دلدادہ ہوتا ہے، خزانہ اپنے اوپر لٹا دیتا ہے ،رعایا کے محصولات میں اضافہ کرکے اپنا خزانہ بھرتا ہے اور رعایا کے خون پسینے کی کمائی پر فرعون بن جاتا ہے، اگر وہ اپنے دل کو ایک عام انسان کا دل سمجھے تو عقل اسے اس راستے پر ڈال دے گی جس راستے کے دونوں طرف رعایا اس کے دیدار کو کھڑی ہوگی ۔
تم ہمارے معتمد خاص ہو۔۔۔ سلطان نے پوچھا۔۔۔ کیا تم بتا سکتے ہو ہمارا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟،،،جو ہماری سلطنت پر کسی بھی روز حملہ کر سکتا ہے ۔
آپ کے دربار کے خوشامدی۔۔۔ حسن بن صباح نے جواب دیا۔
سلطان چونک پڑا ۔
میں دوسرے دشمن کی بات کر رہا ہوں۔۔۔ سلطان نے کہا ۔۔۔کوئی دوسرا ملک، کوئی دوسری قوم؟
سلطان عالی مقام !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ جنگل میں یا کہیں اور آپ کے سامنے سانپ آجائے تو آپ اسے مار سکتے ہیں یا بھگا سکتے ہیں ،لیکن جو سانپ آپ کے آستین میں پل رہا ہو اس کے ڈنک سے آپ نہیں بچ سکتے، وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے ۔
کیا تم نے ہمارے کاروبار سلطنت میں کوئی خطرناک کمزوری یا خامی دیکھی ہے ۔۔۔سلطان نے پوچھا ۔
ہاں سلطان عالی مقام !،،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔یہاں میں نے جو سب سے بڑی خامی دیکھی ہے وہ ہے اپنے وزیر اور دیگر اہلکاروں پر اندھا اعتماد۔
کیا تم ہمارے وزیراعظم میں کوئی خامی دیکھ رہے ہو ۔۔۔سلطان نے پوچھا۔
سلطان عالی مقام!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اگر میں وزیراعظم یا کسی مشیر یا کسی اور حاکم کی خامیاں بیان کرنے لگوں تو یہ غیبت ہو گی، غیبت ایک ایسا گناہ ہے جو بادشاہوں کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے، میں اس وقت کوئی خامی بتاؤں گا جب کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہوگا، اور جو آپ کو صاف نظر آئے گا۔
سلطان ملک شاہ دراصل یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ شخص کتنا ذہین ہے اور اس کی عقل میں باریک بینی اور دوراندیشی ہے بھی یا نہیں۔ کاروبار سلطنت سے ہٹ کر ایک بات پوچھتا ہوں۔۔۔ سلطان نے پوچھا ۔۔۔کیا تم نے کبھی شیر یا چیتے وغیرہ کا شکار کھیلا ہے۔
نہیں سلطان عالی مقام!
تو اس کا مطلب یہ ہوا۔۔۔ سلطان نے کہا ۔۔۔کہ تم ان درندوں سے ڈرتے ہو، کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ان درندوں سے ڈرنا چاہیے؟
نہیں سلطان محترم !،،،،،حسن بن صباح نے جواب دیا ۔۔۔درندوں سے کسی کو بھی نہیں ڈرنا چاہیے، میں صرف ایک درندے سے ڈرتا ہوں ،اور آپ کے دل میں بھی اس کا ڈر پیدا کرنا چاہتا ہوں۔
ایسا کون سا درندہ ہے ؟
دیمک !،،،،حسن بن صباح نے جواب دیا۔
سلطان ملک شاہ ہنس پڑا۔
تم میں بذلہ سیخی بھی ہے۔۔۔ سلطان نے کہا۔۔۔ مجھے یہ وصف اچھا لگا ہے۔۔۔ میں نے پہلی بار کسی کو دیمک کو درندہ کہتے سنا ہے۔
نہیں سلطان معظم !،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں اس وقت ہر بات پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں، یہ موقع ہنسی مذاق کا نہیں، درندہ آپ کے سامنے آتا ہے تو آپ اس پر تیر چلاتے ہیں یا اس سے بچنے کے لیے راستہ بدل لیتے ہیں، یا درختوں پر چڑھ جاتے ہیں، لیکن دیمک وہ درندہ ہے جو سامنے نہیں آتا ،آپ اس پر تیر نہیں چلا سکتے، نہ آپ درخت پر چڑھ جانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، آپ کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب دیمک اندر ہی اندر کھاکر سب کچھ کھو کھلا اور بے جان کر چکی ہوتی ہے، دیمک بادشاہ کے تختوں کو لگ جائے تو بادشاہ کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب تخت بیٹھ جاتا ہے ،میں نے اب تک جو کچھ کہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ڈرو درباری خوشامدی سے، آستین کے سانپ سے، اور ان کارندوں اور درباریوں سے جو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سلطنت کو کھا رہے ہیں ۔
کیا تم بتا سکتے ہو کہ ہم نے تمہاری یہ باتیں سن کر کیا رائے قائم کی ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا ۔
رائے اچھی نہیں ہوسکتی۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔کیوں کہ میں نے خوشامد نہیں کی، بلکہ خوشامد کے خلاف بات کی ہے۔
نہیں حسن !،،،،،سلطان نے کہا ۔۔۔تمہاری یہ باتیں سن کر ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ تم صاف گو اور صداقت پسند ہو ،تم جاسکتے ہو ۔
سلطان ملک شاہ حسن بن صباح کے جانے کے بعد کچھ دیر سوچ میں گم رہا ،اس کے ذہن میں حسن بن صباح کی باتیں گونج رہی تھیں، یہ باتیں بے مقصد اور بے معنی نہیں تھی، اس نے احتشام مدنی کو بلایا۔
احتشام!،،،،، سلطان نے کہا۔۔۔ میرا یہ معتمد خاص مجھ پر بڑا اچھا تاثر چھوڑ گیا ہے، یہ عمر کے لحاظ سے زیادہ جہاندیدہ اور عالم لگتا ہے۔
احتشام مدنی جیسے اسی انتظار میں تھا کہ سلطان حسن بن صباح کے متعلق یہ رائے دے، سلطان کی اتنی اچھی رائے سن کر احتشام مدنی نے حسن بن صباح کی تعریفوں کے پل باندھ دیے، اور دبی زبان میں نظام الملک کے خلاف بھی ایک دو باتیں کہہ دیں۔
احتشام مدنی نے حسن بن صباح سے جو قیمت وصول کرنی تھی وہ تقریباً طے ہوچکی تھی۔ لیکن یہ قیمت اس نے اپنی کوشش سے حاصل کرنی تھی۔
اس شام کا دھندلکا جب تاریک ہوگیا تو احتشام فاطمہ کے ساتھ باغ کے ایک ایسے گوشے میں بیٹھا تھا جہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا ،وہ جسم تو دو تھے لیکن اس طرح باہم پیوست ہوگئے کہ ان کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گزر سکتی تھی۔
کل رات تو تم نے مجھے مروا ہی دیا تھا فاطمہ! ۔۔۔احتشام نے کہا ۔۔۔تم نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ تم مجھے جانتی پہچانتی ہی نہیں۔
تو میں اور کیا کرتی۔۔۔ فاطمہ نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ اگر میں یہ کہہ دیتی کہ آپ کو میں نے خود بلایا تھا تو میرا بھائی میری گردن کاٹ دیتا ،آپ مرد ہیں سب کچھ کہہ سکتے ہیں، میں جانتی تھی کہ آپ میرے بھائی کو ٹھنڈا کر لیں گے، وہ آپ نے کرلیا۔
میں تو اس سے بھی زیادہ اکھڑ اور جابر آدمیوں کو ٹھنڈا کر لیا کرتا ہوں۔۔۔ احتشام مدنی نے کہا۔۔۔ میرا تو خیال تھا کہ اب تم مجھے کبھی بھی نہیں ملو گی۔
یہ وہم دل سے نکال دیں۔۔۔ فاطمہ نے کہا۔۔۔ میں نے آپ سے محبت کی ہے اور یہ محبت وقتی اور جسمانی نہیں۔
محبت میری بھی وقتی نہیں۔۔۔ احتشام نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اپنی زندگی کی رفیقہ بناؤں گا ،کہو گی تو اپنی دونوں بیویوں کو طلاق دے دوں گا ۔
نہیں !،،،،،فاطمہ نے کہا ۔۔۔ایسی کوئی ضرورت نہیں، اگر آپ کے دل میں میری محبت ہے تو میں دو عورتوں کو کیوں اجاڑوں۔
اس زمانے کے مسلمان معاشرے میں ایک آدمی چار نہیں تو دو یا تین بیویاں ضرور رکھتا تھا ،ابھی سوکنوں کی رفاقت کا تصور پیدا نہیں ہوا تھا ،عرب کی چار دیواری کی دنیا میں تو یہ دستور بھی چلتا تھا کہ کوئی بیوی اپنی کسی خوبصورت سہیلی کو اپنے خاوند کو تحفے کے طور پر پیش کرتی تھی، اور خاوند اس کے ساتھ شادی کر لیتا تھا ،سلجوقیوں کے یہاں یہ رواج ذرا مختلف تھا، لیکن احتشام نسلاً عربی تھا ۔
معلوم نہیں میرے بھائی حسن نے آپ کو کیا بتایا ہوگا کہ میں شادی کے نام سے بھی بھاگتی ہوں۔۔۔ فاطمہ نے کہا۔
ہاں فاطمہ!،،،،، احتشام نے کہا ۔۔۔حسن نے مجھے تمہارے متعلق سب کچھ بتا دیا ہے، اس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میں خود تمہیں شادی کے لیے تیار کروں، دیکھو فاطمہ!،،، تمام آدمی ایک جیسے نہیں ہوتے، تمہارا پہلا خاوند ہوش و حواس میں نہیں تھا، اس کا تو دماغی توازن بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا جو تم جیسے پھول کی قدر نہیں کر سکا ۔
میں حیران ہوں کہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہوں۔۔۔ فاطمہ نے کہا۔۔۔ بیٹھی ہوئی بھی نہیں بلکہ آپ کے بازوؤں میں ہوں، حیران اس لئے ہوں کہ مجھے مرد کے تصور سے ہی نفرت ہوگئی ہے، آپ نے مجھے بڑے کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے، ایک طرف آپ کی شادی کی پیشکش ہے جو میں قبول کرنے سے ڈرتی ہوں، دوسری طرف آپ کی محبت ہے جس سے میں دستبردار نہیں ہو سکتی۔
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں کہ میں تمہارے پہلے خاوند جیسا آدمی نہیں۔۔۔ احتشام نے کہا۔۔۔ میں اپنی محبت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتا۔
مجھے سوچنے کا موقع دیں۔۔۔ فاطمہ نے کہا۔۔۔ میں عجیب سی حالت میں پڑی ہوئی ہوں، میرے بھائی کو میرا خیال پریشان رکھتا ہے اور میں اپنے اس بھائی کے متعلق سوچتی رہتی ہوں۔
مجھے بتاؤ فاطمہ!،،،،، احتشام نے کہا۔۔۔ بھائی کے متعلق تم کیا سوچتی ہو؟
میرا بھائی بہت ہی قابل اور عالم فاضل ہے۔۔۔ فاطمہ نے کہا۔۔۔ یہ جتنا قابل ہے اتنا ہی سادہ آدمی ہے، وزیراعظم نظام الملک میرے بھائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ میرے بھائی سے مشورہ لے کر سلطان کے ساتھ اس طرح بات کرتا ہے جیسے یہ مشورے اس کے اپنے دماغ سے نکلے ہیں، میں سلطان کو یہ بات بتا نہیں سکتی، سلطان کو اصل حقیقت کا علم ہونا چاہیے، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس سلطنت کا وزیراعظم میرا بھائی ہو تو آپ اس سلطنت میں ایسی تبدیلیاں دیکھیں جو آپ کو حیرت میں ڈال دیں۔
مجھے کچھ وقت چاہیے فاطمہ !،،،،،احتشام نے کہا ۔۔۔حسن نے مجھے نظام الملک کے متعلق کچھ باتیں بتائی ہیں، میں نے آج ہی سلطان کے ساتھ بات کی ہے، معلوم نہیں حسن نے تمہیں بتایا ہے یا نہیں ،سلطان نے حسن کو بلایا تھا اور ان کے درمیان خاصی دیر بات ہوئی تھی ،اس کے بعد سلطان نے مجھے بلایا اور اس نے صاف لفظوں میں بتایا کہ وہ حسن سے بہت متاثر ہوا ہے ،مجھے موقع مل گیا میں نے سلطان کے آگے حسن کو اتنا چڑھایا کہ انتظامی قابلیت اور عقل و دانش کے لحاظ سے اسے آسمان تک پہنچا دیا۔
کیا میں دل کی بات صاف صاف نہ کہہ دوں۔۔۔ فاطمہ نے کہا ۔
کیوں نہیں۔۔۔ احتشام نے اسے اپنے اور زیادہ قریب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔دل کی بات صاف لفظوں میں کہہ دو گی تو یہ مجھ پر احسان ہوگا۔
ایسی صورت پیدا کریں کہ سلطان نظام الملک کی جگہ میرے بھائی کو وزیراعظم مقرر کردے ۔۔۔فاطمہ نے کہا ۔۔۔اگر ایسا ہو جائے تو میں اسی روز آپ کو اپنا خاوند تسلیم کر لوں گی ۔
ایسا ہو کر رہے گا۔۔۔ احتشام نے کہا ۔۔۔لیکن کچھ وقت چاہیے، کسی کے دماغ کو ایک دو دنوں میں بدلا نہیں جا سکتا، پھر بھی میں سلطان کو نظام الملک کے خلاف کر دوں گا۔
کیا احتشام مدنی جس کی عمر پینتیس چالیس سال کے درمیان تھی، اور جو ایک اتنی بڑی سلطنت کے سلطان کا مشیر خاص تھا ،اتنا سیدھا اور کم فہم تھا کہ ایک جواں سال لڑکی کے ہاتھوں الّو بن گیا تھا؟
وہ سیدھا تھا نہ کم فہم ،وہ ذہنی طور پر بالغ آدمی تھا، سلطنت کے انتظامی امور کا خصوصی تجربہ رکھتا تھا، فن حرب و ضرب کی بھی سوجھ بوجھ تھی ،لیکن وہ انسان تھا، مرد تھا ،اور ہر مرد کی طرح عورت اس کی فطری کمزوری تھی، فاطمہ کوئی عام سی عورت نہیں بلکہ حسین و جمیل لڑکی تھی، اپنے حسن کے استعمال کی اسے تربیت دی گئی تھی، اسے بڑی ہی خرانٹ اور عمر رسیدہ عورتوں نے عملاً بتایا تھا کہ آدمی پر کس طرح حسن کا طلسم طاری کیا جاتا ہے۔
اس معاشرے میں جس میں مرد دو دو تین تین اور چار چار بیویوں سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تھے، احتشام کا ایک حسین لڑکی کے نشے میں مبتلا ہو جانا کوئی عجوبہ نہیں تھا۔
ایک تو اس لڑکی کا حسن اور اس کے خصوصی انداز تھے جنہوں نے احتشام کی عقل پر پردہ ڈال دیا، دوسرے وہ خوشبو تھی جو حسن بن صباح نے اس لڑکی کو اپنے کپڑوں اور بالوں پر لگانے کے لیے دی تھی، اس خوشبو نے احتشام کی سوچنے کی صلاحیت کو سلا دیا تھا ،احتشام کو محسوس ہی نہ ہوا کہ وہ اپنے گھر اپنی دو بیویوں کے پاس پہنچ چکا ہے، اس پر فاطمہ نشے کی طرح طاری تھی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ سلسلہ کچھ دن اسی طرح چلا کہ فاطمہ اور احتشام مدنی کی ملاقاتیں اسی باغ میں اسی جگہ ہوتی، ہر ملاقات میں فاطمہ احتشام کی آغوش اور بازوؤں میں ہوتے ہوئے بھی اس سے بہت ہی دور ہوتی ،فاطمہ کی خوشبو احتشام کو مسحور کر لیتی اور وہ ایسی باتیں کرتا جیسے وہ ہوش و حواس میں نہ ہو، یا نشے میں ہو۔
حسن بن صباح کی ہدایت کے مطابق فاطمہ احتشام کے لیے بڑا ہی حسین اور دلکش سراب بنی رہی۔
احتشام مدنی کو جب موقع ملتا سلطان کے پاس جا بیٹھتا اور نظام الملک کے خلاف ایک دو باتیں کرکے حسن بن صباح کی تعریف کر دیتا۔
اس دوران ایک روز حسن بن صباح کے پاس خلجان سے ایک آدمی آیا، وہ احمد بن عطاش کا قاصد تھا۔
قلعدار احمد بن عطاش نے پوچھا ہے کہ یہاں کے حالات کیا ہیں؟،،،، قاصد نے کہا ۔۔۔کیا ہم اس مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے جس کے لئے آپ کو یہاں بھیجا گیا ہے۔
میں تحریری جواب نہیں دے سکتا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میرے مرشد احمد بن عطاش جانتے ہیں کہ ایسی باتیں تحریر میں نہیں لائی جا سکتیں، انہیں میرا سلام کہنا پھر کہنا کہ آپ کا یہ ناچیز شاگرد کبھی ناکام نہیں ہوا، ہر مشکل سے بخیر و خوبی نکلا ہے، اور اسے پوری امید ہے کہ وہ یہ مہم بھی سر کر لے گا، انہیں بتانا کہ آپ نے جو چیز میرے ساتھ بھیجی ہے اس نے بڑی کامیابی سے اپنا راستہ بنالیا ہے ،میری بات سلطان تک پہنچ گئی ہے اور باقاعدگی سے پہنچائی جا رہی ہے، اب میں عملی طور پر کچھ کروں گا،،،،، اب تم بتاؤ کہ وہاں خلجان میں کیا ہو رہا ہے؟
وہاں اتنی زیادہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے کہ اتنی متوقع نہیں تھی۔۔۔ قاصد نے کہا۔۔۔ لوگ ابھی تک خدا کے ایلچی کو ڈھونڈ رہے ہیں، انہیں بتایا جا رہا ہے کہ خدا کا ایلچی لوگوں کو خدا کا پیغام اور اپنا دیدار دے کر واپس چلا گیا ہے، اور کسی روز اچانک واپس آئے گا، احمد بن عطاش نے کسانوں کے محصولات اور مالیہ وغیرہ بہت کم کر دیا ہے، جس سے لوگ بہت خوش ہیں ،وہ احمد بن عطاش کو خدا کے ایلچی کا خاص مرید اور نمائندہ سمجھتے ہیں، وہ جدھر جاتا ہے لوگ اسے رکوع کی حالت میں جا کر سلام کرتے ہیں۔
میرے پیر استاد احمد بن عطاش خود دانش مند ہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔پھر بھی انہیں میری طرف سے کہہ دینا کہ ابھی اسلام اور اہل سنت کے خلاف کوئی بات نہ کریں، اور یہ بھی کہنا کہ ایک لشکر تیار کرنا شروع کر دیں جو تنخواہ دار نہیں ہوگا ،بلکہ ضرورت کے وقت اسے استعمال کیا جائے گا۔
یہ کام شروع ہو چکا ہے۔۔۔ قاصد نے کہا۔۔۔ لوگوں میں گھوڑ سواری، تیغ زنی، اور تیر اندازی کا شوق پیدا کیا جا رہا ہے، عنقریب مقابلے منعقد کئے جائیں گے ،محترم قلعدار نے آخری بات یہ کہی ہے کہ آپ اگر یہاں کامیاب نہ ہوسکے اور کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آۓ تو ہمیں اطلاع دینا ہم نظام الملک کو قتل کروانے کا انتظام کر لیں گے، یا اسے اغوا کرکے غائب کردیں گے، اور یہ ظاہر کریں گے کہ وہ خود ہی کہیں روپوش ہوگیا ہے۔
ابھی ایسی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔مجھے امید ہے کہ میں مطلوبہ کامیابی حاصل کر لوں گا ۔
حسن بن صباح نے قاصد کو رخصت کر دیا۔
داستان گو سنا چکا ہے کہ حسن بن صباح نے جب ایسی سرگرمیاں شروع کی تھی تو یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ شخص اور اس کا استاد اسماعیلی فرقے کے پیروکار ہیں اور اس فرقے اور مکتبہ فکر کی تبلیغ کر کے اسلام کے دوسرے فرقوں خصوصاً سنی عقیدے کو ختم کر دیں گے، لیکن آگے چل کر تاریخ صاف گواہی دیتی ہے کہ یہ فرقہ باطنیہ کے لوگ تھے ،اور یہ اپنا ہی کوئی عقیدہ پھیلا رہے تھے، چونکہ ان کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کوئی کتاب تو تھی نہیں، نہ ان کی کوئی علمی، عقلی ،یا دینی بنیاد تھی، اس لیے وہ فریب کاری اور قتل کا سہارا لے رہے تھے، یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ لوگ انسانی فطرت کی کمزوریوں کو ماہرانہ طریقے سے استعمال کررہے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
تاریخوں میں دو اہم واقعات ملتے ہیں جن میں حسن بن صباح کو موقع ملتا ہے کہ وہ کھلم کھلا نظام الملک کو نالائق ثابت کرے، اور یہ ظاہر کرے کہ وہ خود بڑا ہی دانش مند ہے۔ ایک واقعہ تقریباً ہر مؤرخ نے لکھا ہے، جو یوں ہے کہ ایک بار سلطان ملک شاہ حلب گیا، وہاں ایک خاص قسم کا پتھر پایا جاتا تھا جو سنگ رخام کہلاتا تھا، اس پتھر سے برتن اور گلدان وغیرہ بنائے جاتے تھے، سلطان نے حکم دیا کہ پانچ سو من سنگ رخام  اصفہان پہنچایا جائے۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ اس زمانے میں اس علاقے کا من چالیس تولے اور آٹھ ماشے کا ہوتا تھا۔
دو عربی شتربان اصفہان جا رہے تھے، ایک کے چھ اور دوسرے کے چار اونٹ تھے، ان دونوں کے اونٹوں پر پہلے ہی پانچ سو من سامان لدا ہوا تھا ،انہوں نے پانچ سو من سنگ رخام بھی آپس میں تقسیم کر کے اونٹوں پر لاد لیا، اگر خالی اونٹ تلاش کیے جاتے تو کئی دن گزر جاتے، اتفاق سے یہ شتربان اصفہان کو ہی جا رہے تھے۔
سلطان واپس اپنے دارالحکومت میں پہنچ گیا، اسے اطلاع ملی کہ سنگ رخام پہنچ گیا ہے، تو وہ حیران ہوا اور خوش بھی، کہ اس کے حکم کی تعمیل اتنی جلدی ہو گئی ہے، اس نے حکم دیا کہ ان شتر بانوں کو ایک ہزار دینار انعام کے طور پر دے دیے جائیں۔
خواجہ طوسی!،،،،، سلطان ملک نے نظام الملک سے کہا ۔۔۔۔یہ رقم ان دونوں میں تقسیم کر دو ۔
نظام الملک نے چھ اونٹ والے شتربان کو چھے سو اور چار اونٹ والے کو چار سو دینار ادا کر دیے۔
یہ تقسیم غلط ہے ۔۔۔حسن بن سباح نے جو وہاں موجود تھا بول پڑا ۔۔۔وزیراعظم کو سوچ سمجھ کر یہ رقم تقسیم کرنی چاہیے۔
تم اس غلطی کو صحیح کردو حسن!،،،، سلطان نے کہا ۔۔۔لیکن یہ بتا دو کہ اس تقسیم میں وزیر اعظم نے کیا غلطی کی ہے؟
چھے اونٹ والے شتر بان کی حق تلفی ہوئی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ چھے اونٹوں والے کو آٹھ سو اور چار اونٹ والے کو دو سو دینار ملنے چاہیے ۔
وہ کیسے ؟،،،،سلطان نے پوچھا۔
سلطان محترم!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ غور فرمائیں، اونٹ دس ہیں ،اور وزن پندرہ سو من، اس لیے ہر اونٹ نے ڈیڑھ ڈیڑھ سو من وزن اٹھایا ،جس کے چھے اونٹ ہیں وہ نو سو من وزن لایا ہے، وہ اس طرح کہ پانچ سو من سامان اس کے اونٹوں نے پہلے ہی اٹھا رکھا تھا ،پھر چار سو من سنگ رخام اس کے اونٹوں پر لادا گیا ،دوسرے شتربان کے چار اونٹ تھے، اس کے اونٹوں پر چھ سو من وزن تھا، ،جس میں سے پانچ سو من پہلے ہی اونٹوں پر لدا ہوا تھا، اور ایک سو من سنگ رخام اس کے اونٹوں پر لادا گیا ،آپ نے ایک ہزار دینا پانچ سو من وزن کے لیے دیا ہے، حساب یہ بنا کہ دو سو دینار فی سو من کا انعام ھوا ،اس حساب سے چھ اونٹ والے کو آٹھ سو دینار ،اور چار اونٹ والے کو دو سو دینار ملنے چاہیے، یہ ہے ہمارے محترم وزیر اعظم کی غلطی۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ نظام الملک کا بہت احترام کرتا تھا اور اس کی قابلیت سے متاثر تھا، وہ حسن بن صباح کا حساب سمجھ گیا، لیکن وہ نظام الملک کو شرمسار کرنے سے گریز کر رہا تھا، اس نے حسن بن صباح کا حساب ہنسی مزاق میں ٹال دیا ،لیکن نظام الملک پر سنجیدگی طاری ہوگئی، اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ حسن بن صباح اسے اور اس کی حیثیت کو نقصان پہنچانے پر اتر آیا ہے۔
اس سے پہلے نظام الملک کو اس کے کارندوں نے کچھ اس قسم کی اطلاع دی تھی کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی اکثر راز و نیاز کی باتیں کرتے دیکھے جاتے ہیں، اسے ایک اطلاع یہ بھی ملی تھی کہ احتشام مدنی کو باغ میں حسن بن صباح کی بہن کے ساتھ دیکھا گیا ہے، تاریخوں کے مطابق نظام الملک شریف النفس اور بڑے اونچے کردار کا آدمی تھا، یہ خبریں سن کر بھی اس کے دل میں حسن بن صباح کے خلاف شک پیدا نہ ہوا وہ کہتا تھا کہ اس نے حسن بن صباح کو جو رتبہ دیا ہے یہ احسان ہے، جسے حسن بن صباح کبھی نہیں بھولے گا، اور اسے گزند نہیں پہنچا ئے گا۔
*<=======۔==========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔18۔میں پڑھیں*
*<=========۔========>*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS