السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
مسجد میں ہمارے جماعتی کچھ بچے ساتھ لاتے ہیں جن کی عمر 5 سے یا اس سے بہی کم ہوگی وہ مسجد میں آتے ہیں اور ساتھ میں اپنے بچوں کو بہی لاتے ہیں اور بچے کافی شرارتیں بہی کرتے ہیں چور بہی ہوتا ہے .... پر ان کے والدین کی یہ سوچ ہے کے ان کی مسجد سے تعلق اور شوق پیدا ہو .. اور عیں ممکن ہے اور بہی کئی وجوہات ہیں جں کی وجھ سے وہ اتنے چھوٹے بچوں کو لاتے ہیں .... پر ون کی شرارتوں کی وجھ سے ہمارے ایک معزز جماعتی کو یہ بات ناگوار گذری کے وہ بہت شور کرتے ہیں
آپ رہنمائی فرمادیں اس معاملے میں شریعت کیا کہتی ہے جزاکم الله خیرا ...
─┅━━━━━━━━🔽━━━━━━━━┅
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
فضیلۃ الشیخ محمد بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ(رکن تعلیمی کمیٹی، کلیۃ حدیث شریف ودراسات اسلامیہ، مدینہ نبویہ) سے سوال پوچھا گیا کہ بعض نمازی حضرات اپنے کم سن بچوں کو جو سنِ تمیز تک بھی نہيں پہنچے ہوتے نہ سمجھ رکھتے ہیں اپنے ساتھ (مسجد میں) لے آتے ہیں اور اپنے ساتھ انہیں (صف میں) کھڑا کردیتے ہیں؟
تو فضیلةالشیخ نےجواب دیا کہ اس بارےمیں ہم نے متعدد بار مختلف نمازوں میں تنبیہ کی ہے ۔ بلاشبہ جو بچہ اگر سمجھ وتمیز رکھتا ہے تو اس کے سرپرست کو چاہیے کہ وہ صف کے کنارے پر کھڑا ہوا کرے اگر وہ چاہتا ہے کہ بچہ اس کے برابر میں یا پیچھے دوسری صف میں ہو۔ لیکن اس کے ذریعے لوگوں کی صفوں کو کاٹنا، اور اسے امام کے بالکل پیچھے یا دائیں یا بائیں کھڑے کردینا تو یہ خلاف سنت ہے۔ کیونکہ یہ جگہیں بالغ وعقل وشعور والوں کے لیے ہے۔ واجب ہے کہ ہم انہیں اس بات کی وضاحت کریں، سختی سے نہ جھڑکیں۔ کیونکہ بلاشبہ بچوں کے کھڑے ہونےکی یہ جگہ نہیں۔ بچوں کی جگہ مردوں کے پیچھے ہے، اگر وہ سن تمیز کو پہنچے ہوں تو یہ ان کی جگہ ہے۔ تو پھر اس کا کیا حال ہوگا جو سن تمیز کو بھی نہیں پہنچا ہو! یہاں سائل نے بتایا کہ بعض اتنے چھوٹوں کو لے کر آتے ہیں اور پھر مسجد میں آزاد چھوڑ دیتے ہيں کہ وہ شور مچا کر لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں، اسے لایا جائے جو جانتا ہو سمجھدار ہو۔
لیکن بسااوقات ایسا ہوجاتا ہے کہ ان چھوٹے بچوں کو مجبوراً ان کے سرپرستوں کو لانا پڑجاتا ہے۔ جیسے راستے میں جارہے ہوں تو نماز کا وقت ہوجائے اور انہيں مسجد میں جانا پڑے، اور وہ انہیں چھوڑ کر نہيں جاسکتا۔ تو ہم یہ کہیں گے اگر کبھی اس قسم کی حالت ہو تووہ (اگلی صفوں سے) پیچھے رہے اور وہ اس کے برابر میں ہو یا اگر وہ سن تمیز کو نہ پہنچا ہواورکھیلتا کودتا آتا جاتا ہے تو اسے اپنے سامنے چھوڑ دے۔ اور اس کے کان میں سرگوشی کرے اور اسے سمجھائے یہ نہیں کرو بیٹھ جاؤ خاموشی سے، کیونکہ چھوٹا بچہ یہ بات سمجھ جاتا ہے۔
لہذا یہ بات واجب ہے اگر انسان مجبور ہوجائے کبھی بچے کو لانے پر تو اسے ادب سکھلائے اور جو ہم نے ابھی طریقہ بتایا ویسا کرے۔ جبکہ ہمیشہ انہیں لے کر آنا حالانکہ ان پر واجب بھی نہيں ہے نہ ہی مستحب ہے،تو پھر یہ فعل خلاف سنت ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فرمایا کہ:
’’مُرُوا أَبْنَاءَكُمْ بِالصَّلَاةِ لِسَبْعِ‘‘
یہ الفاظ مسند احمد 6717 کے ہیں اس کے علاوہ یہ حدیث صحیح ابی داود 495 وغیرہ میں بھی ہے۔
(اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں)
یہ سن تمیز ہے اس کو مشق کروائی جائے۔ ایسا نہیں کہ کوئی پانچ سال کے بچےکو لے آئے او رآپ سے کہے میں اسے مسجد کا عادی بنا رہا ہوں، یہ غلط ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سات برس کی عمر میں مشق کروانے کا حکم دیا، پھر فرمایا:
’’وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا لِعَشْرِ سِنِينَ‘‘
(اور نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو جب وہ دس برس کے ہوں)۔
یہ اس بات کی مزید تاکید کرتا ہے۔اس پر یہ ذمہ داری ڈالنا اس عمر میں ہے (یعنی سات برس میں) اگرچہ یہ بھی واجب نہیں لیکن اسے لانے کی تاکید ہے تاکہ وہ اس عمر میں عادی ہوجائے۔ البتہ جو اس سے کم عمر ہیں چار، تین یا دو سال کے تو انہيں لانا صحیح نہيں ہے۔ یہ نمازیوں کی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ اگر کبھی مجبوراً لانا پڑ بھی جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ انہیں سنبھالے تاکہ وہ دیگر نمازی بھائیوں کو شور وغیرہ کے ذریعے تنگ نہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
No comments:
Post a Comment