شدید محبت اور شدید خواہش۔ یہ دو الفاظ دین کی اس دعوت کا خلاصہ ہیں جسے لے کر سوا لاکھ کے قریب انبیا تشریف لائے اور جس کی آخری شکل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی گئی ہیں۔
شدید محبت سے مراد اللہ کی محبت ہے۔ اس سے مراد اللہ کی یاد میں کھوئے رہنا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اللہ کی محبت پر کوئی دوسری محبت غالب نہ ہوسکے۔ مال، اولاد، بیوی اور سب سے بڑھ کر اپنا نفس اس کی رضا کے خلاف کچھ نہ کرا سکیں۔ اور غلطی ہوجائے تو فوراً تڑپ کر اس کی طرف رجوع کیا جائے۔
شدید خواہش سے مراد جنت کی شدید خواہش ہے۔ اوپر جن چیزوں کا ذکر ہے یعنی مال اولاد وغیرہ کی طلب بالکل فطری ہے۔ مگر قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ جنت سے پہلے یہ چیزیں آزمائش کے لیے دی گئی ہیں اور بہت جلد لے لی جائیں گی۔ جبکہ جنت کے بعد یہ بطور انعام دی جائیں گی اور ہمیشہ پاس رہیں گی۔ اس لیے ان چیزیوں کی خواہش غلط نہیں بلکہ غلطی دنیا کی خواہش میں مبتلا ہونا ہے۔ جبکہ کرنے کا کام خواہش کا رخ جنت کی طرف پھیرنا ہے۔
بدقسمتی سے ہمیشہ اکثر لوگ اللہ کے بجائے غیر اللہ کی محبت میں جیتے ہیں جنت کے بجائے دنیا کے طلبگار رہتے ہیں۔ اس لیے کہ خدا نظر آتا ہے نہ جنت۔ لیکن نظر نہ آنے والے اللہ کی شدید محبت اور نظر نہ آنے والی جنت کی شدید خواہش ہی آخر کار یہ معجزہ جنم دے گی کہ فانی انسان ابدیت کا قالب اوڑھ کر فردوس بریں کو آباد کرے گا۔
ہم سب لوگوں کو ابدی بادشاہی حاصل کرنے کا یہ عظیم موقع ملا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اس موقع کر پہچان کر اللہ کی شدید محبت اور جنت کی شدید خواہش کو اپنی زندگی بنالیں۔
ن کلمہ یاد آتا ہے ن دل لگتا ہے نمازوں میں اقبال
کافر بنا دیا ہے لوگو کو دو دن کی محبت نے
No comments:
Post a Comment