Namaj-E-Istekhara Kya Hai?
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
اگر كوئى شخص كوئى كام كرنا چاہے اور وہ اس ميں متردد ہو تو اس كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز استخارہ مشروع كى ہے اور يہ سنت ہے، نماز استخارہ كے متعلق ان سطور ميں درج ذيل آٹھ نقاط ميں بحث كى جائے گى:
✔ 1 - نماز استخارہ كى تعريف.
( ب ) استخارہ كى لغوى تعريف:
( الف ) استخارہ كى اصطلاحى تعريف
✔ 2 - نماز استخارہ كا حكم
✔ 3 - اس كى مشروعيت كى حكمت كيا ہے.
✔ 4 - استخا رہ کے متعلق آثار اور علما ء و مفسرین کے اقوا ل
✔ 5 - نماز استخارہ كا سبب كيا ہے.
✔ 6 - استخارہ كب كيا جائے گا.
✔ 7 - استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا.
✔ 8 - نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا.
✔ 9 - استخارہ كى دعاء كب كى جائے گى.
✔ 10 - استخارہ کے فوائد
✔ 11 - نماز استخارہ کی دو رکعتوں کے بعد دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانا
✔ 12 - استخارہ کرنے کے بعد سونا
✔ 13 - استخارے کا وقت
📚 نماز استخارہ كى تعريف:
🔘 ( الف ) استخارہ كى لغوى تعريف:
كسى چيز ميں سے بہتر كو طلب كرنا، كہا جاتا ہے: استخر اللہ يخر لك، اللہ تعالى سے استخارہ كرو وہ تمہارے ليے بہتر اختيار كر دے گا.
استخارہ(باب استفعال) کا مصدر ہے ۔اس کا اصل مادہ (خ ی ر) ہے جو کہ نرمی ،مہربانی اور میلان پر دلالت کرتا ہے اور خیر شر کی ضد ہے۔ اور ”الخِیَرَة“ کا معنی خِیَار یعنی اختیار ہے۔ اور استخارہ کا معنی دو کاموں میں سے اپنے لئے بہتر طلب کرنا ہے۔ اور استخارہ کا معنی استعطاف یعنی نرمی اور مہربانی طلب کرنابھی ہے۔
اور اصل میں”إِسْتِخَارَةُ الضَّبْعِ“ تھا ۔جس کا معنی ہے درندے کو موڑنا ۔وہ اس طرح کہ اس کے گھر کے سوراخ کے اندر لکڑی ڈال دو تاکہ وہ دوسری جگہ سے نکل کر چلا جائے ۔پھر استخارہ کسی چیز کے بارے میں اختیارطلب کرنے کے لئے استعمال ہوا۔
اور ”خَارَاللہُ لَكَ“ کا معنی ہے اللہ تجھے خیر یعنی اچھی چیز دے۔ اور”خَیَّرتُه بَیْنَ الشَّیْئَیْنِ“ کا معنی ہے میں نے اس کو دو چیزوں میں اختیار دیا۔ اور کہا جا تاہے ”إِسْتَخِرِاللہَ یَخِرْلَكَ“اللہ سے اچھی چیز کا اختیار طلب کر وہ تجھے اچھی چیز دے گا(یا اللہ تعالیٰ سے اچھی چیز طلب کر وہ تجھے خیر یعنی اچھی چیز عطا فرمائے گا۔)اور”وَاللہُ یَخِیْرُ لِلْعَبْدِ إِذَا اسْتَخَارَہُ“یعنی اللہ تعالیٰ بندے کو اچھی چیز کا اختیار دیتا ہے جب بھی بندہ اس سے اچھی چیز طلب کرتا ہے۔اور ”اسْتَخَارَ الْمَنْزِلَ“ کا معنی ہے ”اسْتَنْظَفَهُ“ یعنی صفائی کی۔ اور حدیث میں ہے ”البَیِّعَانُ بِالْخِیَارِ مَالَمْ یَتَفَرَّقَا“ دو خریدو فروخت کرنے والے اختیار رکھتے ہیں جب تک وہ ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں اور”الخِیَار“ اسم مصدر ہے اختیار کا (ازباب افتعال)اس کا معنی اچھی چیز طلب کرنا دو چیزوں میں سے سودے کو برقراررکھنا یا ختم کرنا۔ اور حدیث میں ہے”تَخَیَّرُوا لِنُطَفِکُمْ“ یعنی نکاح کے لئے اچھی عورت اور متقی اور پاکباز کو تلاش کرو۔
🔘 ( ب ) استخارہ كى اصطلاحى تعريف :
اختيار طلب كرنا. يعنى نماز يا نماز استخارہ ميں وارد شدہ دعاء كے ساتھ اللہ تعالى كے ہاں جو بہتر اور اولى و افضل ہے اس كى طرف پھرنے اور وہ كام كرنا طلب كرنا.
استخارہ دو چیزوں میں سے اچھی چیز کو طلب کرنا ہے جو ان میں سے ایک کی ضرورت رکھتا ہو۔ اور صلاة الاستخارہ یہ ہے کہ بندہ دو رکعت دن و رات میں کسی بھی وقت پڑھے ان کے اندر سورۂ الفاتحہ کے بعد جو چاہے پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کرے او ر نبی کریم ﷺپر درودپڑھے ۔پھر وہ د عا پڑھے جو صحیح البخاری میں جا برؓسے مروی ہے (احادیث استخارہ کے اندر پہلی حدیث)۔
📚 نماز استخارہ كا حكم:
نماز استخارہ كے سنت ہونے ميں علماء كرام كا اجماع ہے، اور اس كى مشروعيت كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ہميں سارے معاملات ميں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے جس طرح ہميں قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم ديتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے:
" جب تم ميں سے كوئى ايك شخص كام كرنا چاہے تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت ادا كر كے يہ دعاء پڑھے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ [ واصرفه عني ] وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ "
اے اللہ ميں ميں تيرے علم كى مدد سے خير مانگتا ہوں اور تجھ سے ہى تيرى قدرت كے ذريعہ قدرت طلب كرتا ہوں، اور ميں تجھ سے تيرا فضل عظيم مانگتا ہوں، يقينا تو ہر چيز پر قادر ہے، اور ميں ( كسى چيز پر ) قادر نہيں، تو جانتا ہے، اور ميں نہيں جانتا، اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے، الہى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كر اور آسان كر دے، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما، اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو، پھر مجھے اس كے ساتھ راضى كردے.
اور وہ اپنى ضرورت اور حاجت يعنى كام كا نام لے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1166 ) يہ حديث كئى ايك جگہ ميں امام بخارى رحمہ اللہ نے ذكر كي ہے.
📚 نماز استخارہ كى مشروعيت كى حكمت:
استخارہ كى مشروعيت ميں حكمت يہ ہے كہ اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، اور طاقت و قدرت سے نكل كر اللہ تعالى كى طرف التجاء كى جائے، تا كہ وہ دنيا و آخرت كى خير و بھلائى جمع كر دے، اور اس كے ليے اس مالك الملك سبحانہ وتعالى كا دروازہ كھٹكھٹانے كى ضرورت ہے، اور اس كے ليے نماز اور دعاء سے بڑھ كر كوئى چيز بہتر اور كامياب نہيں كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كى تعظيم اور اس كى ثناء اور اس كى طرف قولى اور حالى طور پر محتاجگى ہے، اور پھر استخارہ كرنے كے بعد اس كے ذہن ميں جو آئے وہ اس كام كو سرانجام دے.
📚 استخا رہ کے متعلق آثار اور علما ء و مفسرین کے اقوا ل :
👈 (۱) انس بن ما لکؓ فرماتے ہیں : جب رسو ل اللہ ﷺفوت ہو ئے تو مد ینہ منو رہ کے اندر ایک آد می لحد بنا تا تھا اور دو سرا شخص (قبر کے لئے سیدھا)گڑ ھا بنا تا تھا ۔صحا بہ کر ام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے کہا ہم اپنے رب سے استخا رہ کر تے ہیں ( یعنی خیر و بھلا ئی طلب کر تے ہیں کہ جو کا م خیرو اچھا ئی وا لا ہو وہی ہو ) اور دو نوں کی طرف آدمی بھیجتے ہیں پھر جو بھی پہلے آئے گا (تو اس سے قبر بنوا ئیں گے اور ) دو سرے کو چھو ڑ دینگے ، پھر دو نو ں کی طرف آدمی بھیجا گیا تو لحد وا لا پہلے آیا پھر انہوں نے آپ ﷺکے لئے لحد بنا ئی ۔ اے اللہ! میں بھلائی مانگتا ہوں تیرے علم کے ساتھ اور قدرت طلب کرتا ہوں تیری قدرت کے ساتھ اور میں تجھ سے تیرے بڑے فضل کا سوال کرتا ہوں ،یا اللہ! تو ہی طاقت والا ہے اور میں طاقت والا نہیں اور تو علم والا ہے میں علم والا نہیں ،اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے ۔
[ ابن ماجه رقم (1557)، وقال في الزوائد: إسناده صحيح.]
👈 (۲)عطاء نے کہا: یزید بن معا ویہ کے زمانہ میں جب شام وا لوں نے (یعنی یزید کے لشکر نےعبداللہ بن زبیر کے خلاف مکہ پر ) حملہ کیا اور بیت اللہ شریف جل گیا اور نقصان ہوا تو عبداللہ بن زبیر نے اس کو اسی حال پر چھو ڑدیا یہا ں تک کہ لو گ حج کو آ ئے۔ وہ لوگوں کو اہل شام (یعنی یزید )کے خلاف لڑا ئی کے لئے جو ش د لا نا چا ھتے تھے ۔ پھر جب لوگ آئے تو کہا :اے لو گوں! مجھےبیت اللہ کے بارے میں مشورہ دو کیا میں اس کو گرا کر دوبارہ بناؤں؟ یا جو اس سے منہدم ہو گیاہے اس کی اصلاح کر ومرمت کردوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میری اس کے بارے میں رائے یہ تھی کہ جو اس کے حصے منہدم ہو گئے ہیں (منجنیق وغیرہ سے) ان کی مرمت و اصلاح کریں اور باقی بیت اللہ کو اس کے حال پر رہنے دیں جس حال میں لوگوں نے اسلام قبول کرتے وقت اس کو دیکھا۔ اور وہ پتھر رہنے دیں جن کو لوگوں نے ابتدائے اسلام میں پایا تھا۔ اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی۔ ابن زبیر نے کہا اگر ہم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ اس کی تجدید کے سوا راضی نہیں ہو گا تو کیا تمہارے رب کے گھر کی تجدید نہیں ہو سکتی؟میں اپنے رب سے تین دن تک استخارہ کرتا ہوں پھر اپنے کام کا عزم کروں گا ۔پھر جب تین دن گزر گئے تو ان کا ارادہ و عزم اس پر ہوا کہ اس کو توڑ کر دوبارہ تعمیر کرے۔ پس لوگوں کو خوف ہوا کہ سب سے پہلے (گرانے کی ابتداء کرنے والے) شخص پر آسمان سے عذاب الٰہی نہ نازل ہو۔ پھر ایک شخص چڑھا اور اس نے ایک پتھر گرایا پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس کو کچھ نہیں ہوا ہے تو سارے لوگ شروع ہو گئے یہاں تک کہ زمین تک گرادیا۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے پلر بنا کر ان پر پردہ ڈالے ۔یہاں تک کہ دیوار بلند ہو گئی۔ اور ابن زبیر نے کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اگر لوگوں نے تازہ تازہ کفر کو نہ چھوڑا ہوتا( اور میرے پاس وہ خرچہ نہیں ہے کہ بیت اللہ کی مضبوط تعمیر ہو سکے) تو حطیم سے پانچ ذراع بیت اللہ کے اند شامل کرتا اور اس کے دو دروازے بناتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے باہر نکلتے ۔ابن زبیر نے کہا میرے پاس آج خرچہ بھی ہے اور لوگوں کا خوف بھی نہیں ہے۔ پھر اس نے حطیم سے بیت اللہ کے اندر پانچ ذراع شامل کر دیئے (اور نیچے اتنا گہرا کھو دا کہ) لوگوں نے (ابراہیم کی) بنیادوں کو دیکھا پھر اس بنیاد پر تعمیر کیا اور کعبۃ اللہ شریف کی لمبائی اٹھارہ ذراع تھی۔ اس کے طول میں دس ذراع بڑھائے اور اس کے دو دروازے بنائے ایک دروازہ داخل ہونے کے لئے اور دوسرا نکلنے کے لئے۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر قتل ہو گئے تو حجاج بن یوسف نے خلیفہ عبدالملک کو اس معاملہ کی خبر پہنچائی اور بتایا کہ ابن زبیر نے ان بنیادوں پر بیت اللہ کی تعمیر کی ہے جن کو اہل مکہ کے ثقہ لوگوں نے دیکھا ہے۔ عبدالملک نے جواباً لکھا کہ ہم ابن زبیر کی غلطی میں اس کے شریک نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا جو اس نے طول میں اضافہ کیا ہے اس کو برقرا رکھ اور جو حصہ حطیم سے بڑھایا ہے اس کو واپس ختم کر دے اور وہ دروازہ بھی بند کر دے جو اس نے (نکلنے کے لئے) کھولا ہے۔ تو حجاج نے اس (اضافہ شدہ حصہ) توڑا اور پرانی بنیاد پر لوٹا دیا۔
[ صحيح مسلم رقم (۱۳۳۳) ]
👈 (۳)ابن ابی جمرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں استخارہ مباح اور مستحب کا موں میں کرنا چاہیئے ۔جب دو کام آپس میں بظاہر متضاد ہوں۔جبکہ واجب،اصل مستحب،حرام ومکرو ایسی ساری چیزوں میں استخارہ جائز نہیں ہے
فتح الباري رقم (11/۱۸۸) بتصرف
(۴)اور انہوں نے ہی کہا (دعا استخارہ سے پہلے نماز میں حکمت یہ ہے کہ استخارہ سے مراد دنیا و آخرت کے خیر کے حصول کو جمع کرنا ہے ۔ اس کے لئے باشاہ کا دروازہ کھٹکھٹا نا ضروری ہے اور اس کے لئے نمازسے بڑھ کر کوئی چیزکامیابی کا باعث نہیں ہو سکتی ہے۔کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم و ثناء اور اس کے سامنے بے بسی و محتاجی کا اظہار ہے۔
المرجع السابق رقم (11/189) بتصرف
(۵)طیبی نے کہا :جابر ؓکی حدیث کا سیاق استخارہ کے خاص اھتمام پر دلالت کرتا ہے۔
المرجع السابق رقم (11/188) بتصرف
(۶)بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جس شخص کو چار چیزیں ملیں گی وہ چار چیزوں سے محروم نہیں ہوگا۔ جس کو شکر ملے گا وہ مزید( برکت) سے محروم نہیں ہوگا اور جس کو توبہ کرنے( کی توفیق ملے گی) وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوگا۔ اور جس کو استخارہ حاصل ہوگا وہ (بہتر کے) اختیار سے محروم نہیں ہوگا اور جس کو مشورہ کرنا نصیب ہوگا وہ صواب( دوست) سے محروم نہیں ہوگا۔
[ أحياء علوم الدين رقم (1/206) ]
(۷)کسی ادیب نے کہا ہے جو استخارہ کرے گا وہ خوارونامراد نہیں ہوگا اور جو مشورہ کرے گا وہ نادم نہیں ہوگا۔
أدب الدنيا والدين رقم (309)
📚 استخارہ كا سبب:
( جن ميں استخارہ كيا جاتا ہے ) اس كا سبب يہ ہے كہ: مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ استخارہ ان امور ميں ہوگا جن ميں بندے كو درست چيز كا علم نہ ہو، ليكن جو چيزيں خير اور شر ميں معروف ہيں اور ان كے اچھے اور برے ہونے كا علم ہے مثلا عبادات، اور نيكى كے كام اور برائى اور منكرات والے كام تو ان كاموں كے ليے استخارہ كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.
ليكن اگر وہ خصوصا وقت كے متعلق مثلا دشمن يا فتنہ كے احتمال كى صورت ميں اس سال حج پر جائے يا نہ اور حج ميں كس كى رفاقت اختيار كرے تو اس كے ليے استخارہ ہو سكتا ہے.
تو اس بنا پر كسى واجب، يا حرام يا مكروہ كام ميں استخارہ نہيں كيا جائے گا، بلكہ استخارہ تو مندوب اور جائز اور مباح كاموں ميں كيا جائے گا اور پھر مندوب كام كے اصل كے ليے استخارہ نہيں كيونكہ وہ كام تو اصل ميں مندوب ہے بلكہ استخارہ اس وقت ہو گا جب تعارض ہو، يعنى جب اس كے پاس دو كاموں ميں تعارض پيدا ہو جائے كہ وہ كونسے كام سے ابتداء كرے يا دونوں ميں سے پہلے كام كونسا كرے؟ ليكن مباح كام كے اصل ميں بھى استخارہ كيا جاسكتا ہے.
📚 استخارہ كب كيا جائے؟
استخارہ اس وقت كيا جائے جب استخارہ كرنےوالا شخص خالى الذہن ہو اور كسى معين كام كو سرانجام دينے كا عزم نہ ركھے، كيونكہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" جب اسے كوئى كام درپيش ہو " اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ استخارہ اس وقت ہو گا جب ابھى اس كے دل ميں كوئى كام آيا ہو، تو پھر نماز اور دعاء استخارہ كى بركت سے اس كے ليے اس كام كى بہترى ظاہر ہو گى.
بخلاف اس كے كہ جب اس كے نزديك كوئى كام كرنا ممكن ہو اور وہ اسے سرانجام دينے پر پختہ عزم اور ارادہ كر چكا ہو، تو پھر وہ اپنے ميلان اور محبت كى طرف ہى جائے گا، تو اس سے خدشہ ہے كہ اس كے ميلان اور پرعزم كے غلبہ كى بنا پر اس سے بہترى كى راہنمائى مخفى رہے.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ حديث ميں ھم يعنى درپيش سے مراد عزم ہو كيونكہ ذہن ثابت اور ايك پر نہيں ٹھرتا، تو وہ ايسا ہى نہيں رہے گا الا يہ كہ جب اسے سرانجام دينے كا عزم ركھنے والا شخص بغير كسى ميلان كے سرانجام دے، وگرنہ اگر وہ ہر حالت اور ذہن ميں استخارہ كرے گا تو پھر وہ ايسے كاموں ميں بھى استخارہ كرتا پھرے گا جس كا كوئى فائدہ نہيں تو اس طرح وہ وقت كے ضياع كا باعث ہو گا.
📚 استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
استخارہ كرنے سے قبل كسى ناصح اور شقفت اور تجربہ كار اور دينى اور معلوماتى طور پر بااعتماد شخص سے اس كام ميں مشورہ كرنا مستحب ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
﴿اور معاملے ميں ان سے مشورہ كرو﴾.
اور مشورہ كرنے كے بعد جب اسے يہ ظاہر ہو كہ اس كام ميں مصلحت ہے تو پھر وہ اس كام ميں اللہ تعالى سے استخارہ كرے.
ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
حتى كہ تعارض كے وقت بھى ( يعنى پہلے مشورہ كرے ) كيونكہ مشورہ دينے والے كے قول پر اطمنان نفس سے زيادہ قوى ہے، كيونكہ نفس پر نصيب غالب ہوتے اور ذہن بكھرا ہوتا ہے، ليكن اگر اس كا نفس مطمئن اور سچا ارادہ ركھتا ہو اور خالى الذہن ہو تو پھر استخارہ كو مقدم كرے.
📚 نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا:
- نماز استخارہ ميں قرآت كے متعلق تين قسم كى آراء ہيں:
ا ـ احناف، مالكى اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ سورۃ فاتحہ كے بعد پہلى ركعت ميں " قل يا ايہا الكافرون" اور دوسرى ركعت ميں " قل ھو اللہ احد " پڑھى جائے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس پر تعليق ذكر كرتے ہوئے كہا ہے:
ان دونوں سورتوں كو پڑھنا اس ليے مناسب ہے كہ يہ نماز ايسى ہے جس سے رغبت ميں اخلاص اور صدق اور اللہ تعالى كے سپرد اور اپنى عاجزى كا اظہار ہے، اور انہوں اس كى بھى اجازت دى ہے كہ: ان سورتوں كے بعد قرآن مجيد كى وہ آيات بھى پڑھ لى جائيں جن ميں خيرو بھلائى اور بہترى كا ذكر ہے.
ب ـ بعض سلف حضرات نے مستحسن قرار ديتے ہوئے كہا ہے كہ نماز استخارہ كى پہلى ركعت ميں سورۃ الفاتحہ كے بعد مندرجہ ذيل آيات تلاوت كى جائيں:
﴿ وَرَبُّك يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ﴾ .
اور تيرا رب جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے.
﴿ مَا كَانَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ .
ان كے ليے كوئى اختار نہيں اللہ تعالى پاك اور بلند و بالا ہے اس چيز سے جو وہ شرك كرتے ہيں.
﴿وَرَبُّك يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ﴾ .
اور تيرا رب جانتا ہے جسے ان كے سينے چھپاتے ہيں اور جو ظاہر كرتے ہيں.
﴿ وَهُوَ اللَّهُ لا إلَهَ إلا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ "
اور وہ ہى اللہ ہے، اس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، پہلے اور آخر ميں اسى كى تعريفات ہيں، اور اسى كے ليے حكم ہے اور اسى كى طرف لوٹائے جائيں گے.
اور دوسرى ركعت ميں يہ آيات پڑھے:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُبِينًا﴾
جب اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كسى امر ميں فيصلہ كر ديں كو كسى مومن مرد اور مومن عورت كو اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمان كرے گا وہ واضح گمراہى ميں جا پڑا.
ج ـ ليكن حنابلہ اور بعض دوسرے فقھاء نے نماز استخارہ ميں معين قرآت كرنے كا نہيں كہا.
📚. دعاء استخارہ پڑھنے كى جگہ:
دعائے استخارہ کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد کی جائے، یہ موقف جمہور علمائے کرام کا ہے۔
چنانچہ "موسوعہ فقہیہ" (3/245) میں ہے کہ:👇
"حنفی، مالکی، شافعی، اور حنبلی فقہاء کا کہنا کہ دعائے استخارہ نماز کے بعد ہوگی، یہی رائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول حدیث مبارکہ کے مطابق ہے" انتہی
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: 👇
"ایک مسلمان کیلئے شرعی عمل یہ ہےکہ جب نمازِ استخارہ پڑھے تو سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو وہ فرائض سے ہٹ کر دو رکعت پڑھے اور پھر کہے: "اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ ... ") الحدیث
اس سےمعلوم ہوا کہ دعائے استخارہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد ہوگی" انتہی
"مجموع الفتاوى" (11/389)
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام (8/162)سے استفسار کیا گیا: 👇
"دعائے استخارہ نمازِ استخارہ کا سلام پھیرنے سے پہلے [دورانِ نماز] ہوگی یا نماز سے سلام پھیرنے کے بعد؟
تو انہوں نے جواب:
دعائے استخارہ نمازِ استخارہ سے سلام پھیرنے کے بعد ہوگی" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں:👇
"دعائے استخارہ سلام پھیرنے کے بعد ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ([استخارہ کرنے والا شخص] دو رکعت پڑھنے کے بعد کہے۔۔۔) پھر آپ نے دعائے استخارہ ذکر فرمائی" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" مجلس نمبر: (20)
استخارہ كى دعاء دو ركعت كے بعد پڑھى جائيگى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ حديث كى نص كے موافق بھى يہى ہے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 3 / 241 ).
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِی اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ النبی ﷺ یعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِی الْأُمُورِ كُلِّهَا كَالسُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ یقُولُ: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْیرْكَعْ رَكْعَتَینِ مِنْ غَیرِ الْفَرِیضَةِ ثُمَّ یقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَیرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَةِ أَمْرِی أَوْ قَالَ فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِی وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَةِ أَمْرِی أَوْ قَالَ فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عَنْهُ وَاقْدُرْ لِی الْخَیرَ حَیثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِی بِهِ قَالَ وَیسَمِّی حَاجَتَهُ.
جابر ؓنے بیان كیا كہ رسول اللہﷺہمیں تمام معاملات میں استخارہ كی تعلیم دیتے تھے۔ جیسا کہ قرآن کی سورت کی تعلیم دیتے قرآن كی سورت كی طرح۔ (نبی نے فرمایا:)جب تم میں سے كوئی شخص كسی (مباح) كام كا ارادہ كرے( ابھی عزم نہ ہوا ہو) تو دو ركعات( نفل ) پڑھے اس كے بعد یوں دعا كرے:اے اللہ اگر تو جانتا ہے كہ یہ كام میرے لئے بہتر ہے ،میرے دین كے اعتبار ،میری معاش اور میرے انجام كا ركے اعتبار سے یا دعا میں یہ الفاظ كہے (فی عاجل امری و آجلہ) تو اسے میرے لئے مقدر كر دے اور اگر تو جانتا ہے كہ یہ كام میرے لئے برا ہے میرے دین كے لئے میری زندگی كے لئے اور میرے انجام كار كے لئے یا یہ الفاظ فرمائے:”فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِهِ“تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیردے اور میرے لئے بھلائی مقدر كر دے جہاں كہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن كر دے (یہ دعا كرتے وقت) اپنی ضرورت كا بیان كر دینا چاہیئے۔
صحيح البخاري،كتاب الدعوات، باب الدعاء عند الاستخارة، رقم (6382)
📚 استخارہ کے فوائد :
(۱)استخارہ دلیل ہے مومن کے دل کے اللہ کے ساتھ ہر حال میں تعلق پر۔
(۲)استخارہ قضاءو تقدیر پر رضامند ی کی دلیل ہے۔
(۳)دنیا وآخرت میں سعادت کا سبب ہے۔
(۴)استخارہ کے بعد انسان میسر اسباب کے مطابق کوشش کرتا ہے تو خوشی اور سکون ملتا ہے اور (جو بھی حاصل ہو تا ہے اس پر)رضا اور قناعت سے خوشی محسوس کرتا ہے۔
(۵)استخارہ کی ہر چھوٹے بڑے معاملے میں سخت ضرورت ہے۔
(۶)استخارہ سے انسان کی روحانیت بڑھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت میں پختہ یقین ہو تا ہے۔
(۷)استخارہ سے انسان کان ثواب اور ہے اپنے رب سے قرب بڑھتا ہے کیوں کہ اس کے ساتھ نماز اور دعا بھی ہوتی ہے۔
(۸)استخارہ انسان کے اپنے رب پر بھروسہ کی دلیل اور اس کے قرب کا وسیلہ ہے۔
(۹)استخارہ کرنے والا اپنی کوشش میں ناکام نہیں ہوتا اور اسے بھلائی اور خیر کو اختیار کرنا نصیب ہوتا ہے اور ندامت سے بچاؤ ہوتا ہے۔
(۱۰)استخارہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی ثناء ہے۔
(۱۱)استخارہ کے اندرپریشانی اور شک سے نکلنے کا راستہ ہے اور یہ اطمینان اور خوش حالی کا ذریعہ ہے۔
(۱۲)استخارہ کے اندر سنت مطہرہ پر عمل ہوتا ہے اور اس کی برکت حاصل ہوتی ہے۔
نضرۃ النعیم
📚. نماز استخارہ کی دو رکعتوں کے بعد دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانا :
الحمد للہ:
نماز استخارہ میں دعااستخارہ کی نماز سےسلام پھیرنے کے بعد ہوگی؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
([استخارہ کرنے والا]فرائض سے ہٹ کر دو رکعت پڑھے، اور پھر کہے: "اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ ... ")
بخاری: (1166) ترمذی: (480)
شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: 👇
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان [میں سے عربی الفاظ]: ( فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ) کا مطلب ہے کہ دو رکعتیں پڑھے، اور آپ کے فرمان کے ان الفاظ ( مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ ) میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ : فرض رکعات کے بعد دعا ئے استخارہ کرنے سے نماز استخارہ کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا، جبکہ ( ثُمَّ لْيَقُلْ ) کا مطلب ہے کہ: نماز کے بعد [دعائے استخارہ پڑھے]" انتہی
" تحفۃ الأحوذی بشرح جامع الترمذی " (2/482)
چنانچہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ استخارہ کیلئے دعا نماز کے بعد ہی کی جائے گی تو اصل پر عمل کرتے ہوئے دعائے استخارہ کیلئے ہاتھ اٹھانا جائز ہوگا؛ اور اصل یہ ہے کہ : دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے جائیں، کیونکہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا قبولیت دعا کا باعث ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: 👇
"ایک مسلمان کیلئے مشروع طریقہ کار یہ ہے کہ جب نمازِ استخارہ پڑھے تو سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی شخص کوئی کام کرنا چاہیے تو وہ فرائض سے ہٹ کر دو رکعت پڑھے اور پھر کہے: "اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ ... ") الحدیث
اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا نماز استخارہ کا سلام پھیرنے کے بعد ہوگی، اور افضل یہی ہے کہ ہاتھ اٹھا لے، کیونکہ دعا میں ہاتھ اٹھانا قبولیتِ دعا کا باعث ہے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز " (11/ 389)
📚 استخارہ کرنے کے بعد سونا :
بعض لوگ شرعی استخارہ کرنے کے بعد سونا چاہتے ہیں حتی کہ وہ اس کام کا کرنا یا نہ کرنا بذریعہ خواب معلوم کر سکیں یا کوئی دوسرا شخص خواب میں دیکھے، اس کی جب کہ حقیقت نہیں ہے۔ کیوں کہ نبی کریم ﷺنے استخارہ اور مشورہ کا حکم دیا ہے اس کا نہیں جو کہ خواب میں نظر آتا ہے ۔سبحا ن اللہ صاحب شرع ﷺنے ہمارے لئے وہ الفاظ اختیار کئے ہیں جو کہ صاف ہیں اور دنیا و آخرت کی خیر(کے مفہوم کو) جمع کرنے والے ہیں۔ یہاں تک کہ اس روایت کے راوی بھی (استخارہ کے لئے) ”عَلَی سَبِیْلِ التَّخْصِیْصِ“اور انہی الفاظ کے تمسک کی ترغیب دیتے ہوئے اور دیگر الفاظ کو شامل نہ کرتے ہوئے یوں کہا”کَانَ رَسُولُ اللہِﷺیُعَلِّمُنَا الاسْتِخَارَة فِی الأُمُورِ کُلِّهَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآن“یعنی رسول اللہ ﷺہمیں سارے معاملات میں استخارہ (کے لئے دعا) اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔
اور یہ معلوم ہے کہ قرآن مجید کے اندر تغیر اور زیادتی اور کمی جائز نہیں ہے۔ پھر اس میں بھی حکمت دیکھیں جو رسول اللہ ﷺنے مکلف کو فرض کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور نہیں ہو سکتا کہ صاحب استخارہ اللہ سے یہ طلب کرنا چاہتا ہے کہ اس کی حاجت پوری کی جائے اور یہ ادب کی بات ہے کہ جس سے کام ہے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کا دروازہ نماز کے ذریعے سے کھٹکھٹایا جاتاہے ۔پھر جب نماز کے تمام فضائل کا حصول ہو گیا تو شارع نے مسنون دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
📚 استخارے کا وقت :
دعائے استخارہ، کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔ صرف نماز کے مکروہ اورقات میں یہ جائز نہیں کیونکہ اس کے لئے پہلے دو رکعت پڑھنی ضروری ہیں۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا وقت رات کو سونے سے قبل ہے، یہ بات صحیح نہیں۔ دعائے استخارہ کا پڑھنا دو رکعت نماز کے بعد بھی صحیح ہے اور نماز ہی میں تشہد ودرود کے بعد سلام پھیرنے سے قبل یا سجدے کی حالت میں بھی جائز ہے۔ دعا یاد نہ ہو تو نماز پڑھنے کے بعد کتاب دیکھ کر بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
ریاض الصالحین للنووی رحمہ اللہ ، ترجمہ فوائد،تحقیق وتخریج حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ، کمپوزنگ : عبد الرحمن عبد المجید سیڈمی (جمیل)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فضیلةالشیخ محمد صالح المنجد حفظ اللہ
محترم جناب محمد نعیم یونس صاحب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ
No comments:
Post a Comment