find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Namaj me Muktadi ke Surah Fatiha Padhna jaruri hai?

Kya Namaj me Surah Fatiha Padhna Lajimi hai?
Namaj me Agar Surah Fatiha nahi padhenge to kya Namaj nahi hogi?
Sawal: Aslam u alekum sir Sawal ye hai ke imam ke pichhe Namaj parhte waqt Muktadi par lazim hai ke wah surah fatiha parhega ya agar surah fatiha na parhe to Namaj ho jati hai Please rahnumai farma de please?
جواب تحریری
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے بغیر سورہ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی اس سلسلہ میں دس حدیثیں مندرجہ ذیل ہیں ان کو غور سے پڑھو اور عمل کرو، پہلی حدیث حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلٰوة لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَة الْکِتَابِ۔‘‘ کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ہوتی نماز اس شخص کی جس نے سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی۔‘‘ اس حدیث کو بخاری، مسلم، ترمذی، ابودائود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو نماز میں سورئہ فاتحہ پڑھی ضروری ہے تنہا ہو یا امام یا مقتدی، بغیر سرئہ فاتحہ پڑھے کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی خواہ فرض ہو یا نفل ہر ایک میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے کیوں کہ حکم عام ہے۔
دوسری حدیث
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَة عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلٰوة لَمْ یَقْرَأ فِیْھَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَھِیَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَیْرُ تَمَامٍ فَقِیْلَ لِاَبِیْ ھُرَیْرَة اِنَّا نَکُوْنُ وَرَائَ الْاِمَامِ فَقَالَ اِقْرَأ بِھَا فِیْ نَفْسِکَ الحدیث رَوَاہُ مُسْلِمٌ ص ۱۶۹ یعنی ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کوئی نماز پڑھے کہ اس میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھے تو وہ نماز ناقص ہے ناقص ہے ناقص ہے پوری نہیں ہے پس ابو ہریرہؓ سے کہا گیا کہ ہم لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو ابو ہریرہؓ نے کہا پڑھ سورہ فاتحہ کو آہستہ، روایت کیا اس حدیث کو مسلم نے۔
تیسری حدیث
عن عبادة بن الصامت قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الصبح فثقلت علیه القرأة فلما انصرف قال انی اراکم تقرئون خلف امامکم قال قلنا یا رسول اللہ ای و اللہ قال لاتفعلوا الا بام القرأن فانہ لاصلٰوة لمن لم یقرأ بھا رواہ لاترمذی و قال حسن ئو ابودائود و النسائی وغیرہ۔‘‘ یعنی عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی پس بھاری ہوئی آپ کو قرأت پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو، ہم لوگوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ، قسم اللہ کی، آپ نے فرمایا نہ پڑھو مگر سورئہ فاتحہ اس واسطے کہ نہیں ہوتی نماز اس شخص کی جس نے سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی۔ روایت کیا اس کو ترمذی نے اور کہا کہ حسن ہے۔ اور ابودائود و نسائی وغیرہ نے۔
چوتھی حدیث
عن زید بن واقد عن حزام بن حکیم و مکحول عن نافع بن محمود بن الربیع کذا و قال انه سمع عبادة بن الصامت یقرأ بام القراٰن و ابو نعیم یجھر بالقرأة فقلت رأیتک صفة فی صلاتک شیئا قال و ما ذاک قال سمعتک تقرأ بام القراٰن و ابو نعیم یجھر بالقراة قال نعم صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بعض الصلٰوات ٓٓالتی یجھر فیھا بالقرأةفلما انصرف قال منکم من احد یقرأ شیئا من القرأة اذا جھرت بالقراة قلنا نعم یا رسول اللہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و انا اقول ما لی انازع القران فلا یقرأن احد منکم شثئا من القرأن اذا جھرت بالقرأة الا بام القراٰن رواہ الدار قطنی و قال ھذا اسناد حسن و رجاله ثقات کلھم۔‘‘ یعنی نافع بن محمود سے روایت ہے کہ انہوں نے عبادہ بن صامت سے سنا کہ وہ سورئہ فاتحہ پڑھتے ہیں حالاں کہ ابو نعیم جہر سے قرأت کر رہے تھے پس کہا کہ میں نے آپ کو نماز میں ایک شے کرتے دیکھا ہے۔ عبادہؓ نے کہا کہ وہ شے کیا ہے کہا آپ کو میں نے سورئہ فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا۔ حالاں کہ ابو نعیم جہر سے قرأت رہے تھے، عبادہؓ نے کہا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بعض وہ نماز پڑھائی جس میں جہر سے قرأت کی جاتی ہے پس جب آپ نماز سے فارغ ہوئے فرمایا کوئی تم میں سے کچھ پڑھتا ہے جبکہ میں جہر سے قرأت کی جاتی ہے جبکہ میں جہر سے قرأت کرتا ہوں، ہم لوگوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ پس فرمایا کیا ہے مجھ کو کہ میں منازعت اور کشاکشی کیا جاتا ہوں قرآن میں، پس ہرگز نہ پڑھے تم میں سے کوئی کچھ قرآن جبکہ میں جہر سے قرأت کروں مگر سورئہ فاتحہ، روایت کیا اس حدیث کو دارقطنی نے اور کہا کہ یہ اسناد حسن ہے اور اس کے کل راوی ثقہ ہیں۔
اس حدیث سے بھی صراحتاً معلوم ہوا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔
پانچویں حدیث
عن محمد بن عائشة عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لعلکم تقرؤن و الامام یقرأ قالوا انا نفعل قال لا الا ان یقرأ احدکم بفاتحة الکتاب رواہ احمد و البیہقی و البخاری فی جزہٖ و فی روایة البخاری الا ان یقرأ احدکم بفاتحة الکتاب فی نفسه و نحوہ فی روایة البخاری قال ھذا اسناد صحیح و اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم کلھم ثقة فترک ذکر اسمائھم فی الاسناد و لا یضر اذا لم یعارضه ما ھو اصح عنه و قال الحافظ فی التلخیص ص ۸۷ اسنادہ حسن۔
یعنی محمد بن عائشہؒ نے ایک صحابیؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید تم لوگ پڑھتے ہو جب کہ امام پڑھتا ہے لوگوں نے کہا بیشک پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا نہیں مگر سورئہ فاتحہ آہشتہ پڑھنا چاہیے، روایت کیا اس حدیث کو احمدؒ نے بخاریؒ نے جزء القرأۃ میں اور کہا بیہقیؒ نے یہ اسناد صحیح ہے اور کہا حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر میں کہ اسناد اس حدیث کی حسن ہے۔ اس حدیث سے بھی صراحتاً معلوم ہوا، کہ مقتدیں کو امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔
چھٹی حدیث
عن انس کان النبی صلی اللہ علیه وسلم صلی باصحابه فلما قضی صلٰوته اقبل علیھم بوجھه فقال اتقرؤن فی صلاتکم و الامام یقرأ فسکتوا فقالھا ثلاث مرات فقال قائل او قائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا و لیقرأ احدکم بفاتحة الکتاب فی نفسه رواہ البخاری
ترجمہ: اس حدیث کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو نماز پڑھائی، پس جب نماز سے فارغ ہوئے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیا تم لوگ اپنی نماز میں پڑھتے ہو جبکہ امام پڑھتا ہے پس صحابہ چپ رہے آپ نے اس بات کو تین بار فرمایا ایک شخص یا کئی شخصوں نے کہا بیشک ہم لوگ پڑھتے ہیں فرمایا آپ نے ایسا نہ کرو اور سورئہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو روایت کیا اس حدیث کو بخاری نے۔
ساتویں حدیث
قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم تقرؤن خلفی قالوا نعم انا لنفعل ھذا قال فلا تفعلوا الا بام القرأن رواہ البخاری فی جزء القرأة ص ۵ حاصل اس حدیث کا یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پیچھے پڑھتے ہو؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ ہم لوگ جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا نہ پڑھو مگر سورئہ فاتحہ،روایت کیا اس حدیث کو بخاری نے جزء القرآۃ میں۔
آٹھویں حدیث
قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا صلٰوة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب خلف الامام۔‘‘ یعنی عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ہوتی نماز اس شخص کی جس نے امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ نہ پڑھی۔ (بیہقی)
نویں حدیث
من صلی خلف الامام فلیقرأ بفاتحة الکتاب۔  عبادہ بن صامت سے سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو شخص نماز پڑھے امام کے پیچھے تو اس کو سورئہ فاتحہ پڑھنا چاہیے۔ روایت کیا اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں اور کہا بیہقی نے کل راوی اس حدیث کے سچے ہیں اس حدیث سے بھی قرأۃ فاتحٓٓہ خلف الامام کا وجوب بصراحت ثابت ہے۔
دسویں حدیث
من صلی صلٰوة لم یقرأ فیھا بام القراٰن فھی خداج یعنی عائشہؓ فرماتی ہیں۔ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے کہ جو شخص ایسی نماز پڑھے کہ اس میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھے تو وہ نماز ناقص ہے روایت کیا اس حدیث کو ابن ماجہ اور طحاوی نے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ چاہے مقتدی ہو یا غیر مقتدی نماز میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز فاسد ہو گی۔
امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنے کی وجہ سے منہ میں انگارے رکھنے کی کوئی حدیث نہیں ہے بعض لوگوں کا قول ہے اور وہ بھی ضعیف ہے قرآن و حدیث کے مقابلہ میں کسی کا قول قابل حجت نہیں ہے آپ کی تسلی کے لیے ذیل میں اس قول کو نقل کر کے اس کا جواب دیا جاتا ہے۔
مؤطا امام محمدؒ ص ۹۸ میں ہے: قال محمد اخبرنا داؤد بن قیس الفراء المدنی اخبرنی بعض ولد سعد بن ابی وقاص انہ ذکر له ان سعداً قال وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیه جمرة۔‘‘ یعنی سعد بن ابی وقاصؓ کی بعض اولاد نے دائود بن قیس سے ذکر کیا کہ سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قرأت کرے اس کے منہ میں انگارا ہو۔
الجواب:… سعد بن ابی وقاص کا یہ اثر صحیح نہیں ہے تعلیق الممجد حاشیہ موطا امام محمد ص ۹۹ میں ہے: قوله بعض ولد بضم الواو سکون اللم ای اوردہ و لم یعرف اسمه قال ابن عبد البر فی الاستذکار ھذا حدیث منقطع لا یصح انتھٰی۔ یعنی بعض اولاد سعد بن ابی وقاص کا نام معلوم نہیں ہوا ہے کہا حافظ ابن عبد البر نے استذکار میں یہ حدیث منقطع ہے صیح نہیں ہے اور حافظ ممدوح تمہید میں لکھتے ہیں۔ و اما ما روی عن سعد بن ابی وقاص انه قال وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیه جمرة فمنقطع لا یصح و لا نقله ثقة انتھٰی۔ یعنی لیکن وہ اثر جو سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں دوست رکھتا ہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قرأت کرے اس کے منہ میں انگارہ ہو سو وہ منقطع ہے صحیح نہیں ہے اور کسی ثقہ نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔ امام بخاریؒ جزء القرأۃ ص ۷ میں لکھتے ہیں:
وروی داؤد بن قیس عن ابن نجاد رجل من ولد سعد عن سعد وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیه جمرة و ھذا مرسل و ابن نجاد لم یعرف و لا سمی و لا یجوز لاحد ان یقول فی القاری خلف الامام جمرة لان الجمرة من عذاب اللہ و قال النبی صلی اللہ علیه وسلم لا تعذبوا بعذاب اللہ و لا ینبغی لاحد ان یتوھم ذالک علی سعد مع ارساله وضعفه انتہٰی۔
یعنی داؤود بن قیس نے ابن نجاد سے جو سعد بن ابی وقاصؓ کی اولاد سے ایک شخص ہیں روایت کیا سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قرأت کرے اس کے منہ میں انگارا ہو اور یہ مرسل ہے اور ابن نجاد پہچانا نہیں جاتا ہے اور نہ اس کا نام لیا گیا ہے اور کسی کو یہ جائز نہیں  کہ امام کے پیچھے قرأت کرنے والے کے منہ میں انگارا ہو کیونکہ اگرا اللہ کے عذاب سے ہے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے عذاب سے عذاب نہ کرو اور کسی کو لائق نہیں کہ سعد بن ابی وقاصؓ پر اس بات کا وہم کرے کہ انہوں نے ایسا کہا ہو گا اور ساتھ اس کے یہ اثر مرسل اور ضعیف ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
Share:

Social Media pe Hidayat aur Gumrahi Ki Dawat dene wale.

Social media Pe Kuchh bhi Share karne se bachna chahiye.
Neki ke Kam aur Gumrahi ke kamo me Bulane wale.
       ┄─═✧═✧═✧═✧═─┄
         *Bismillahirrahmanirrahim*
       ┄─═✧═✧═✧═✧═─┄
✦ Gumrahi Aur Hidayat ki Dawat ✦
❁〰〰〰〰〰〰〰〰〰❁
♥Al Quran : Jo Shaksh Neik baat ki sifarish kare to usko us (ke sawab) mein se Hissa milega, aur Jo buri baat ki sifarish karega usko us (ke Azab) mein se Hissa milega, Aur ALLAH har cheez par Qudrat rakhta hai.
-  {Surah-An-Nisa (4), Aayah 85}
* Hadees: Hazrat Anas bin Malik Radi-Allahu-Anhu se rivayat hai ki Rasoolullah ﷺ ne farmaya jis Dawat dene wale ne bhi Gumrahi ki Dawat di aur uski pairwi ki gayee to usko pairwi karne walon ke barabar gunaah milega aur pairwi karne walo ke gunah mein koi kami nahi hogi aur jis dawat dene walon ne hidayat ki taraf bulaya phir uski pairwi ki gayi to usko pairwi karne walo ke barabar Ajar milega aur pairwi karne walo ke Ajar mein kuch kami nahi ki jayegi.
-  (Ibn Majah, Vol 1, #205)
Note :* Internet par kuch bhi Share ya upload karney se pahle achchi tarah se soch liya kijiye ki ye sharing meri neki mein ejafa karegi ya mere gunahon mein ejafa karegi, agar aapne koi song ya behayee wala photo ya video upload kiya  aur aapne socha ki main kal isko hata dunga aur is se pahle hi aapko maut aa gayee to jab jab ye behayee wala video ya photo koi dekhega tumhare aamal name mein gunaaho ka ezafa hota rahega.
  〰〰〰〰〰〰〰〰〰
Share:

Jo Qaum Zakat Ada nahi karti usse Barish Rok liya jata hai.

Jis Qaum Me Badkari fail jati hai us par Maut Musallat kar diya jata hai.
*BISMILLAHIRRAHMANIRRAHIM*

*-----✨MISSION TAUHEED✨-----*

Hadith : jo Qaum zakat adaa nahi karti Allah Subhanahu unse barish rok leta hai.

Abdullah bin buraidah apne Walid Radi Allahu Anhu se Marfuan Bayan karte hain ki : jo qaum Ahad todti hai usme Qatl aam ho jata hai,*

*jis qaum mein badkari (fahashi) phail jaati hai Allah Subhanahu us par maut musallat kar deta hai*

*aur jo Qoum zakat adaa nahi karti Allah Subhanahu*
*unse barish rok leta hai*

Al-Silsila-As-Sahiha, 1783(Islam 360)*
_________________________

Share:

Buri Nazar Aur Zahreele Janwar se Bachne ki dua.

Buri Nazar aur Zahreele Janwar se Bachne ki dua.
BISMILLAHIRRAHMANIRRAHEEM
-------------------------------
️Buri Nazar aur Zahreele Jaanwar se bachne ki dua*
-------------------------------
Ibn Abbas Radiallahu anhu se rivayat hai ki Nabee Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam Allah Hussain wa Hasan radi allahu anhuma ke liye panaah talab kiya kartey they aur farmatey they ki tumharey buzurg Dada (Ibrahim Alaihi salam) bhi Ismaeel aur Isaac (Alaihi salam) ke liye inhi kalamat ke jariye Allah ki panaah maanga kartey they.

ﺃَﻋُﻮﺫُ ﺑِﻜَﻠِﻤَﺎﺕِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺍﻟﺘَّﺎﻣَّﺔِ ﻣِﻦْ ﻛُﻞِّ ﺷَﻴْﻄَﺎﻥٍ ﻭَﻫَﺎﻣَّﺔٍ ﻭَﻣِﻦْ ﻛُﻞِّ ﻋَﻴْﻦٍ ﻻﻣَّﺔٍ

(Main Panaah maangta hun Allah ki pure purey kalamat ke jariye, har shaitan se aur har zahreeley janwar se aur har nuksan pahunchaney wali nazar-e-bad se.)

Sahih Bukhari ,Vol4 ,3371
_____________________________

Share:

Alvida Juma Ke liye Khas Ehtamam Karna Biddat hai?

Kya Alvida Juma Ke liye Khas Taiyari karna Quran-o-Hadees Se Sabit hai?
BISMILLAHIR RAHMANIR RAHIM*
------------------------------------------
*"Alvida juma" ka khaas Ehtamam karna Sabit nahi*❌
------------------------------------------
Aam Juma ki trah hi *isme bhi hame Ebadat karni hai, isme kuch khaas karna Sabit nahi.*

*Deen me koi bhi nayi cheez Shamil karna bidat hai*❌
Nabi {ﷺ} Ne Farmaya:-
--------------------
❌ *"Jisne Hamare is Deen Me Kuch Aisi Baat Shaamil Ki Jo Usme Nahi Thi To Wo Rad (Qabile Qubool nahi.) Hai".
📚(Sahih Bukhari :2697)
📚(Sahih Muslim :4492)
_______________________

Share:

Fitra me hame kya Dena Chahiye aur Kab tak de dena chahiye?

Ramzan Me Fitra Kitna aur kaise nikale?
بسم الله الرحمن الرحيم*

*-----🌀MISSION TAUHEED🌀-----*

"Zakat-Ul-Fitr Ke Ahkaam Masail Aur Fawaid"

*1.Zakat-Ul-Fitr K Ahkaam:-*

Abdullah Ibn Umar (رضي الله عنه) Se Riwayat Hai K Unhone  Kaha Rasool {ﷺ} Ne Gulam Ya Azaad  Chote Ya Bade Har Kisi Per Ek Sa'a (2.5-2.75kg) Khajoor Ya Ek Sa'a Jow Sadqa Fitr (Fitrana) Farz Qaraar Diya.

*(Sahih Muslim Jild No.3 Kitab Uz Zakat Hadees No.2279)*

*2. Zakat-Ul-Fitr Ke Masail:-

*1.Zakat-Ul-Fitr Me Kya De??

*Koi Bhi Cheez Jo Insan Khane Ke Liye Istemal Karta Hai, Jaisa Ke Barley, Khajoor, Gyahu Wagera Zakat-Ul-Fitr De Sakte Hai.

(Ibn Khuzaimah Hadees 4/80)*

*2.Zakat-Ul-Fitr Kitna Dena Hai??*

Rasool Allah {ﷺ} Ne Iski Miqdaar Ek Shaks K Liye 1 Saa Yani (2.5-2.75kg) Batayi Hai.

*(Sahih Muslim Jild No.3 Kitab Uz Zakat Hadees No.2278)

*3. Zakat-Ul-Fitr Paise Dena Mana Hai:-*

Zakat-Ul-Fitr Khane Ki Cheez (Gyahu, Anaaj, Khajoor) Hi Dena Chahiye, Paisa Dena Sunnat Se Sabit Nahi, Aap {ﷺ} Ne Sirf Khane Ki Cheez Hi Di thi.*

*(Majmua Fatawa Bin Baz : 4/208)*

*4. Zakat-Ul-Fitr Miskeenou Ka Haq Hai:-

*Zakat-Ul-Fitr Sirf Gharibo, Mohtajou, Miskeenou, Bewao (widow) Ko Dena Chahiye, Taaki Wo Bhi Eid Ki Khushiya Mana Sake, Khaa Pee Sake, Zakat-Ul-Fitr Ko Mohtajou Ke Alawa Kisi Aur Ko Dena Jayez Nahi Hai.*

Rasool Allah {ﷺ} Ne Farmaya Zakat-Ul-Fitr Rozedaar Ko Fahash Aur Behuda Baatou Se Paak Karne Aur Miskeenou Ki Khuraak Ke Liye Farz Qaraar Diya Lehaza Jisne Issey Namaz-e-Eid Se Pahle Ada Kar diya To Ye Maqbool Zakat Hai Aur Jisne Namaz Ke Baad Ada Kiya To Wo Aam Sadqaat Me Se Ek Sadqa Hai.

*(Sunan Ibn Majah Jild No.3 Hadees No.1872, Sunan Abu Daud Jild No.2 Hadees No.1609)

*5. Zakat-Ul-Fitr Eid Ki Namaz Se Pahle Ada Karna Hai:-*

Zakat-Ul-Fitr Ko Eidgah Jane Se Pehle (Yani Eid-Ul-Fitr Ki Namaz Ada Karne Se Pehle) De Dena Chahiye, Isko Ada Karne Me Taqeer Nahi Karna Chahiye, Jaise Ke Eid Ki Namaz Ke Baad Dena Jayez Nahi Hai.

Rasool Allah {ﷺ} Ne Farmaya Zakat-Ul-Fitr Rozedaar Ko Fahash Aur Behuda Baatou Se Paak Karne Aur Miskeenou Ki Khuraak K Liye Farz  Qaraar Diya Lehaza Jisne Issey Namaz-e-Eid Se Pahle Ada Kardiya To Ye Maqbool Zakat Hai Aur Jisne Namaz K Baad Ada Kiya To Wo Aam  Sadqaat Me Se Ek Sadqa Hai.*

*(Sunan Ibn Majah, Jild No.3 Hadees No.1872, Sunan Abu Daud Jild No.2 Hadees No.1609)

*3.Zakat-Ul-Fitr Ada Karne Ke Fawaid:-

*1.Ye Ek Tarah Ka Kaffara Hai Jo Rozou​ Ki Halat Me Hum Se Hue Gunah Jaise Ke Galatiyan, Kotahiyan, Fuzul Baatein.

*2.Ye Behtareen Zariya Hai Garibou Ki Mohtajgi Door Karne Ke Liye.

3.Eid Ke Barkat Wale Din, Gharib Bheek Maang Ne Se Bach Jayenge.

Note:-* *Zakat-Ul-Fitr Eid Se Pahle Ek Ya Do (2) Din Pahle De Aur Ek (1) Sa'a (2.5-2.75kg) De Aur Gareebou Miskeenou Aur Mohtajou Ko De Aur Ghar Ke Har Ek Fard ki Taraf se De Aur Sirf Anaaj De Anaaj Me Aap Wheat Powder, Rice De Sakte Hai Jo Aajki Zaroorat Hai Khane Me Aur Paise Dene K Muta'lliq Ikhtelaf Hai To Ikhtelaf Se Bachne K Liye Bahtar Hai Anaaj De Wallahu Aalam.

post Maker
(Afzal Khan Salafi)
____________________________

Share:

Kya Aapki Dukan Me Allah Milenge?

Agar Yakin Pakka Ho to Allah Jarur Milega.
Kya Aapke Dukan me Allah Milenge?
क्या या आपकी दुकान में अल्लाह मिलेंगे?

8 साल का एक बच्चा 1 रूपये का सिक्का मुट्ठी में लेकर एक दुकान पर जाकर कहा,
–क्या आपकी दुकान में अल्लाह मिलेंगे?
दुकानदार ने यह बात सुनकर सिक्का नीचे फेंक दिया और बच्चे को निकाल दिया।

बच्चा पास की दुकान में जाकर 1 रूपये का सिक्का लेकर चुपचाप खड़ा रहा!
ए लड़के.. 1 रूपये में तुम क्या चाहते हो

मुझे अल्लाह चाहिए। आपकी दुकान में हैं

दूसरे दुकानदार ने भी भगा दिया।

लेकिन, उस मासूम बच्चे ने हार नहीं मानी। एक दुकान से दूसरी दुकान, दूसरी से तीसरी, ऐसा करते करते कुल चालीस दुकानों के चक्कर काटने के बाद एक बूढ़े दुकानदार के पास पहुंचा। उस बूढ़े दुकानदार ने पूछा,

तुम अल्लाह को क्यों खरीदना चाहते हो?
क्या करोगे अल्लाह लेकर?

पहली बार एक दुकानदार के मुंह से यह सवाल सुनकर बच्चे के चेहरे पर उम्मीद की रोशनी लहराईं৷ लगता है इसी दुकान पर ही अल्लाह मिलेंगे !
बच्चे ने बड़े जोश से जवाब दिया,

इस दुनिया में मां के अलावा मेरा और कोई नहीं है। मेरी मां दिनभर काम करके मेरे लिए खाना लाती है। मेरी मां अब अस्पताल में हैं। अगर मेरी मां मर गई तो मुझे कौन खिलाएगा ? डाक्टर ने कहा है कि अब सिर्फ अल्लाह ही तुम्हारी मां को बचा सकते हैं। क्या आपके दुकान में अल्लाह मिलेंगे

हां, मिलेंगे…! कितने पैसे हैं तुम्हारे पास?
सिर्फ एक रूपए।
कोई दिक्कत नहीं है। एक रूपए में ही अल्लाह मिल सकते हैं।

दुकानदार बच्चे के हाथ से एक रूपए लेकर उसने पाया कि एक रूपए में एक गिलास पानी के अलावा बेचने के लिए और कुछ भी नहीं है। इसलिए उस बच्चे को फिल्टर से एक गिलास पानी भरकर दिया और कहा, यह पानी पिलाने से ही तुम्हारी मां ठीक हो जाएगी।

अगले दिन कुछ मेडिकल स्पेशलिस्ट उस अस्पताल में गए। बच्चे की मां का अॉपरेशन हुआ। और बहुत जल्द ही वह तन्दुरुस्त हो उठीं।

डिस्चार्ज के कागज़ पर अस्पताल का बिल देखकर उस महिला के होश उड़ गए। डॉक्टर ने उन्हें भरोसा देकर कहा, “टेंशन की कोई बात नहीं है। एक बुज़ुर्ग ने आपके सारे बिल चुका दिए हैं। साथ में एक चिट्ठी भी दी है

वो औरत चिट्ठी खोलकर पढ़ने लगी, उसमें लिखा था-
मुझे शुक्रिया कहने की कोई ज़रूरत नहीं है। आपको तो खुद अल्लाह ने ही बचाया है मैं तो सिर्फ एक ज़रिया हूं।
अगर आप शुक्रिया कहना ही चाहती हैं तो अपने मासूम बच्चे को दिजिए जो सिर्फ एक रूपए लेकर नासमझों की तरह अल्लाह को ढूंढने निकल पड़ा। उसके मन में यह पक्का यकीन था कि सिर्फ और सिर्फ अल्लाह ही आपको बचा सकते है।
यकीन इसी को ही कहते हैं। अल्लाह को ढूंढने के लिए करोड़ों रुपए की ज़रूरत नहीं होती, यदि मन में पक्का यकीन हो तो वे एक रूपए में भी मिल सकता हैं।

Share:

Kya Taraweeh ki Namaj Ghar me Padhi Ja Sakti hai, Taraweeh ki Namaj 20 rakat ya 8 rakat?

Kya Traweeh Ki Namaj Ghar Pe Padh Sakte hai?


Traweeh Ki Namaj kitni Rakat hai 20 ya 8?
Is Lockdown jaise halat me Ham sab Taraweeh ki Namaj Ghar pe Padh Sakte hai?

क्या तरावीह की नमाज़ घर पे पढ़ सकते हैं?*
-----------------------------------------
*रसूलुल्लाह ﷺ के दौर में तरावीह*
-----------------------------------------
अबू हुरैरह (रज़ि०) फ़रमाते हैं कि “ रसूलुल्लाह ﷺ हमें क़ियामे रमज़ान (तरावीह) की तरग़ीब दिया करते थे लेकिन इसकी ताकीद नहीं करते थे और फ़रमाते थे कि जिसने ईमान की हालत में सवाब की नियत से रमज़ान की रात में क़ियाम किया तो उसके पिछले गुनाह माफ़ कर दिए जाएंगे.”
﴾ मुस्लिम ह० 1780 ﴿
 *इस हदीस से मालूम हुआ कि यह नमाज़ मुस्तहब है, वाजिब या सुन्नते मुअक्किदह नहीं.*

इससे पता चला कि तरावीह की नमाज़ ख़ुद नबी ﷺ ने जमात से पढ़ाई, लेकिन उम्मत पर मशक्क़त की वजह से इसकी पाबंदी नहीं की*.
इन सब बातों से ये पता चलता है कि तरावीह की नमाज़ मुस्तहब (optional) है, फ़र्ज़ नही,

*रसूलुल्लाह ﷺ ने 3 रातों तक तरावीह पढ़ाई*
-----------------------------------------
 रसूलुल्लाह ﷺ ने रमज़ान के आख़िरी अशरे में सहाबा को *3 रातों तक तरावीह पढ़ाई, लेकिन चौथी रात नहीं पढ़ाई.* चौथी रात आप ﷺ अपने हुजरे से बाहर निकले और फ़रमाया “ मुझे तुम्हारे यहाँ जमा होने का इल्म था लेकिन मुझे डर हुआ कि कहीं यह नमाज़ तुम पर फ़र्ज़ न कर दी जाए.”
﴾बुख़ारी ह०:- 1129, 2012 ﴿

 *रसूलुल्लाह ﷺ ने तरावीह की नमाज़ घर पे अकेले ही पढ़ी है, इसी लिए घर पे पढ़ना जाएज़ है।*

 *अगर पूरा क़ुरआन याद न होतो जितना याद हो उस हिसाब से पढ़ सकते हैं, सूरह जो भी याद हो वो पढ़ सकते हैं,*
(Fataawa Noor ‘ala ad-Darb (8/246) 
---------------------------------------
*तरावीह "20 और 8" तफसीली जाएज़ा*
-------------------------------------

 तरावीह, तहज्जुद, क़ियामे रमज़ान या क़ियामुल लैल एक ही नमाज़ के अलग-अलग नाम हैं. जो नमाज़ साल के 11 महीनों में तहज्जुद होती है वही रमज़ान में तरावीह बन जाती है. अहादीस में आम तौर से क़ियामे रमज़ान या क़ियामुल लैलअल्फ़ाज़ का इस्तेमाल हुआ है. तरावीह लफ्ज़ का इस्तेमाल बाद में शुरू हुआ.

*रसूलुल्लाह ﷺ ने 11 (8+3) से ज़्यादा नही पढ़ी.*
-------------------------------------------
आइशा (रज़ि०) से पूछा गया कि नबी ﷺकी रमज़ान में (रात की) नमाज़ कैसी होती थी. तो उन्होंने फ़रमाया ‘ रमज़ान हो या ग़ैर रमज़ान, रसूलुल्लाह ﷺ 11 रकअ़त से ज़्यादा नहीं पढ़ते थे.
’ ﴾ बुख़ारी ह० 1147,2013 ﴿

 इस हदीस को इमाम बुख़ारी (रह०) ने ‘तहज्जुद’ (ह० 1147) और ‘तरावीह’ (ह० 2013) दोनों बाब में बयान किया है, जो इस बात की दलील है कि *तहज्जुद और तरावीह एक ही नमाज़ के 2 नाम हैं.*

इसके अलावा इस हदीस पर गुफ़्तगू करते हुए अनवर शाह कश्मीरी (रह०) लिखते हैं कि “ *तहज्जुद और तरावीह एक ही नमाज़ हैं और इनमें कोई फ़र्क़ नहीं है.*.
﴾ फ़ैज़ुल बारी (बुख़ारी की शरह)2/420 ﴿

जाबिर (रज़ि०) से रिवायत है कि ‘ हमें रसूलुल्लाह ﷺ ने रमज़ान में (रात की) नमाज़ पढ़ाई, आपने 8 रकअ़त और वित्र पढ़ी.’ 

﴾ सहीह इब्न ख़ुज़ैमा ह० 1070, सहीह इब्न हिब्बान ह० 2401,2402 ﴿

उबई बिन कअ़ब (रज़ि०) से रिवायत है ‘ मैंने रमज़ान में 8 रकअ़त और वित्र पढ़ी और नबीﷺ को बताया तो आप ﷺ ने कुछ भी नहीं फ़रमाया. बस यह रज़ामंदी वाली सुन्नत बन गयी.’ 
﴾ मुस्नद अबू यअ़ला ह० 1801 ﴿

*रसूलुल्लाह ﷺ के दौर के बाद तरावीह*
---------------------------------------------------
एक दिन *उमर (रज़ि०) रमज़ान की रात मस्जिद में गए तो वहां देखा कि कुछ लोग अकेले नमाज़ पढ़ रहे थे और कुछ लोग इकठ्ठा किसी इमाम के पीछे नमाज़ पढ़ रहे थे. तो उमर (रज़ि०) ने फ़रमाया कि “ मेरा ख़्याल है कि अगर इन सब को एक क़ारी के पीछे जमा करूं तो ज़्यादा अच्छा होगा.” फिर उमर (रज़ि०) ने उबई बिन कअ़ब (रज़ि०) को इमाम बनाया और लोगों को उनके पीछे जमा किया.*
 ﴾ बुख़ारी ह० 2010 ﴿

*अमीरुल मोमिनीन सय्यिदना उमर बिन ख़त्ताब (रज़ि०) ने उबई बिन कअ़ब (रज़ि०) और तमीम दारी (रज़ि०) को हुक्म दिया कि लोगों को (रमज़ान की रात में वित्र के साथ) 11 रकअ़त पढ़ाएं.*
 ﴾ मुवत्ता इमाम मालिक ह० 249, सुनन बैहक़ी 2/496, मिश्कात ह० 1302﴿

*नोट:* मुवत्ता इमाम मालिक (ह० 250) में हज़रत उमर (रज़ि०) का 20 रकअ़त तरावीह पढ़ाने का हुक्म देने वाली रिवायत ज़ईफ़ (ग़ैर मोतबर) है क्योंकि उस हदीस में ताबिई यज़ीद बिन रुमान (रह०) उमर (रज़ि०) की दौर-ए-ख़िलाफ़त के बारे में बयान करते हैं जबकि वह उमर (रज़ि०) के ज़माने में पैदा भी नहीं हुए थे.
इस रिवायत को कई उलमा नेज़ईफ़ कहा है,
जैसे अल्लामा ऐनी हनफ़ी 
﴾उम्दतुल क़ारी (बुख़ारी की शरह) 11/127 ﴿, अल्लामा ज़ैलई हनफ़ी ﴾ नस्बुर राया 2/154 ﴿,नैमवी ﴾ आसारुस सुनन पेज 253 ).

इसी तरह मुसन्नफ़ इब्न अबी शैबा में अब्दुल्लाह इब्न अब्बास (रज़ि०) से मर्वी है कि रसूलुल्लाह ﷺ रमज़ान में 20 रकअ़त और वित्र पढ़ाते थे. इस रिवायत को भी कई उलमा ने ज़ईफ़/ गढ़ी हुई हदीस कहा है.
जैसे, अल्लामा ऐनी हनफ़ी
﴾ उम्दतुल क़ारी 1/128 ﴿, अल्लामा ज़ैलई हनफ़ी ﴾ नस्बुर राया 1/153 ﴿, इब्न हमाम ﴾ फ़त्हुल क़दीर 1/333 ﴿

*उलमा के अक़वाल 8 रिकात तरावीह*
----------------------------------------------------
1) मुल्ला अली क़ारी (रह०) “ इन सब का नतीजा यह है कि क़ियामे रमज़ान (तरावीह) वित्र मिला कर 11 रकअ़त जमाअत के साथ सुन्नत है. यह आप ﷺ का अमल है.” 
﴾ मिर्क़ातुल मफ़ातीह (मिश्कात की शरह) 3/382 ﴿

2) ·इमाम तहतावी (रह०) “ क्योंकि नबी ﷺ ने 20 रकअ़त नहीं, बल्कि 8 रकअ़त पढ़ी हैं.”  
﴾ हाशिया तहतावी 1/295 ﴿

3) ·मौलाना अनवर शाह कश्मीरी (रह०) “ इसके क़ुबूल करने से कोई छुटकारा नहीं है कि आप ﷺ की तरावीह 8 रकअ़त थीऔर किसी एक भी रिवायत से यह साबित नहीं है कि आप ﷺ ने रमज़ान में तरावीह और तहज्जुद अलग अलग पढ़े हों.” ﴾उर्फ़ुश शज़ी (तिर्मिज़ी की शरह) 2/208 ﴿

4)  मौलाना अब्दुल हई फ़रंगी महली लखनवी (रह०) “ सहीह इब्न हिब्बान की रिवायत, जिसमें जाबिर (रज़ि०) फ़रमाते हैं कि नबी ﷺ ने रमज़ान में सहाबा को 8 रकअ़त और वित्र पढ़ाई, बिलकुल सहीहहै.” ﴾ तअलीक़ुल मुमज्जद (मुवत्ता इमाम मुहम्मद की शरह) पेज 91 ﴿

5) मौलाना अब्दुश शकूर लखनवी (रह०) “ अगरचे नबी ﷺ से 8 रकअ़त तरावीह मस्नून है और एक ज़ईफ़ रिवायत में इब्न अब्बास (रज़ि०) से 20 रकअ़त भी मनक़ूल है.” ﴾ हाशिया इल्मुल फ़िक़्ह पेज 195 ﴿ .

*तरावीह की तादाद ताबाई वगैरा से कितनी रिकात*
--------------------------------------
इमाम तिर्मिज़ी (रह०) “…और उलमा का क़ियामे रमज़ान (यानी तरावीह की तादाद ) में  इख़्तिलाफ़ है.” ﴾ सुनन तिर्मिज़ी ह० 806 के तहत ﴿

अल्लामा ऐनी हनफ़ी (रह०) “ उलमा का इख़्तिलाफ़ है कि तरावीह की कितनी रकअ़त हैं. ” इसके बाद उन्होंने ताबिईन और तबा ताबिईन से तरावीह की अलग-अलग रकअ़त बयान की.
जैसे,
1) यज़ीद बिन अस्वद(रह०) से 47 रकअ़त
2) इमाम मालिक (रह०) से 38 रकअ़त,
3)  मदीना वालों का अमल 41रकअ़त, 
4) उमर बिन अब्दुल अज़ीज़ (रह०) के दौर में 39 रकअ़त, 
5) सईद बिन जुबैर (रह०) से 24 रकअ़त, 
6) अबू मिज्लस (रह०) से 16रकअ़त,
7)  मु० बिन इस्हाक़ (रह०) से 13रकअ़त, 
8) इमाम मालिक (रह०) से एक और क़ौल के मुताबिक़ 11 रकअ़त. 
﴾ उम्दतुल क़ारी 11/179  ह० 2010 ﴿

*निचोड़*
इन सबका निचोड़ यह है कि जो लोग यह दावा करते हैं कि 20 रकअ़त पर उम्मत का इज्मा है, उनका दावा बेबुनियाद है. रकअ़त की तादाद में इख़्तिलाफ़ की वजह यह हो सकती है कि क़ियामे रमज़ान एक नफ़्ल इबादत है, इसलिए इन हज़रात ने कोई तादाद मुक़र्रर नहीं की थी. हमारा भी यही कहना है कि अगर कोई 20, 39, 47 रकअ़त पढ़ता है तो जायज़ है लेकिन तरावीह की सुन्नत तादाद 11 रकअ़त (वित्र मिलाकर) ही है जैसा कि ख़ुद नबी ﷺ और उमर (रज़ि०) से साबित है.

( हर बात दलील के साथ)

Share:

Itikaf Ke Ahkaam, Itikaf Ki Fazilat Waali Hadees Ki Haqeeqat

Itikaf Ke Ahkaam, Itikaf Ki Fazilat Waali Hadees Ki Haqeeqat

Itikaf Ke Ahkaam,  Itikaf Ki Fazilat Waali Hadees Ki Haqeeqat
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Itikaf Ki Fazilat Ke Hawale Se Zaeef Hadees, Itikaf Ka Byan, Itikaf Ka Tariqa
Itikaf Ke Fazail Wa Masail
⇦⇦⇦⇦⇦⇦ اعتکاف کے بعض احکام ⇨⇨⇨⇨⇨⇨
⇦⇦⇦ ۔ ŘỮŁƗŇǤ Ř€ǤΔŘĐƗŇǤ Ɨ'ŦƗҜΔF ⇨⇨⇨
❶⇚ اعتکاف ایک عبادت ہے اس کے مشابہ کسی مزار وغیرہ پر فوت شدگان کے تقرب کے لیے مجاور بن کر بیٹھنا شرک ہے۔
(البقرۃ: 125)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❷⇚ کم سے کم اعتکاف کی حد نہیں جو کہ ایک ہفتہ، ایک دن، ایک گھنٹے کا بھی ہوسکتا ہے۔
(صحیح بخاری 2032، صحیح مسلم 1657)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❸⇚ رمضان کا مسنون اعتکاف رمضان کے آخری عشرے (10 دن) میں کرنا چاہیے۔
(صحیح بخاری 2026، صحیح مسلم 1175)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❹⇚ مرد ہوں خواہ عورتیں اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے ۔
(البقرۃ: 187)
امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن بھی مسجد میں ہی اعتکاف فرمایا کرتی تھیں
(صحیح بخاری 2033)
خواتین کا گھروں پر اعتکاف کرنا غیر ثابت ہے اور بدعت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❺⇚ اعتکاف کے لیے جامع مسجد ہو تاکہ جن پر جمعہ پڑھنا فرض ہے انہيں جمعہ کی ادائیگی کے لیے باہر نہ نکلنا نہ پڑے۔
(صحیح ابی داود 2473)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❻⇚ خواتین اپنے محرم کے ساتھ اعتکاف کرے
(صحیح بخاری 2033)
یا پھر محرم کی اجازت سے فتنے سے دور اور پرامن مسجد جہاں مردوزن کے اختلاط کا اندیشہ نہ ہو وہاں اعتکاف کرے
(مفہوم حدیث صحیح بخاری2026، صحیح مسلم 1175)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❼⇚ رمضان کے اعتکاف میں روزے سے ہونا شرط نہيں لیکن سنت ضرور ہے۔
( صحیح بخاری 2032، صحیح ابی داود 2473)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❽⇚ اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمہ لگانا مسنون ہے۔
(صحیح بخاری 2034)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❾⇚ اعتکاف میں بیوی سے مباشرت یا شہوت سے متعلق باتیں حرام ہیں
(صحیح ابی داود 2473)۔
البتہ تھوڑی دیر کی مباح باتیں جا‏ئز ہیں۔
(صحیح بخاری 2038)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❿⇚ جماع کرنے سے اعتکاف ختم ہوجاتا ہے البتہ اس کاکفارہ ثابت نہیں(البقرۃ: 187)۔
لیکن احتلام ہوجانے سے اعتکاف ختم نہيں ہوتا اسے غسل کرلینا چاہیے
(صحیح ابی داود 4403)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓫⇚ مسجد سے بدن کا کچھ حصہ نکل جائے تو اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ البتہ مکمل طورپر مسجد سے باہر نکلنا اگر طبعی شرعی ضرورت کے تحت ہو جیسے استنجاء وغیرہ تو جائز ہے
(صحیح بخاری 2029)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓬⇚ معتکف نہ کسی مریض کی عیادت کرے نہ جنازے کے ساتھ چلے
(صحیح ابی داود 2473)
الا یہ کہ اعتکاف سے پہلے شرط لگائی ہو فلاں کی عیادت کو جاؤں گا تو جاسکتا ہے، لیکن خریدوفروخت اور اس جیسے منافئ اعتکاف کام بالکل بھی جائز نہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓭⇚ اعتکاف کرنے والا اعتکاف ختم بھی کرسکتا ہےاسکی قضاء واجب نہیں البتہ کرلی جائے تو افضل ہے
(صحیح بخاری 2033)۔
لیکن نذر کا اعتکاف واجب ہے
(الانسان: 7، صحیح بخاری 6696)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓮⇚ اعتکاف تین مساجد (مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی) میں سب سے افضل ہے
(السلسلة الصحيحة 2786)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓯⇚ اعتکاف کے فضائل پر کوئی صحیح حدیث ثابت نہيں۔
التوحیدخالص ڈاٹ کام / مختلف علماءکرام
⇦⇦⇦⇦⇦⇦ اعتکاف کی فضیلت میں ضعیف اور موضوع روایات ⇨⇨⇨⇨⇨⇨
۔┄┅═════════════════════════════┅┄
اعتکاف بلا شک تقرب الہٰی کے حصول کا مسنون عمل ہے ۔ یہ مشروع عبادت ہے ۔
لیکن اعتکاف کی فضیلت اور اجر و ثواب کے بارے میں جو بھی احادیث وارد ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا پھر موضوع ( منگھڑت ) ہیں ۔ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوال کے جوامیں کہا
سوال : کیا آپ اعتکاف کی فضیلت کے بارے میں کوئی چیز جانتے ہیں؟
آپ نے فرمایا:
"نہیں،سوائے چند ضعیف روایات کے"
دیکھیے :【الغنی ج3 ص183】
ان ضعیف روایات کی تفصیل درج ذیل ہے ⇓⇓⇓
➖ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ: هُوَ يَعْكُفُ الذُّنُوبَ، وَيُجْرَى لَهُ مِنْ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَات كُلِّهَا»
سنن ابن ماجہ نمبر 1781۔
"اعتکاف کرنے والا ایک طرف تو گناہوں سے بچا رہتا ہے اور دوسری طرف اس عمل کی جزا کے طور پر اسے اتنی نیکیاں ملتی ہیں جتنی ساری کی ساری نیکیاں کرنے والوں کو مل سکتی ہیں"
- یہ حدیث ضعیف ہے۔
- اس کی اسناد میں ایک راوی فرقد السنجی ہے جوصدوق عابد مگر لین الحدیث اور کثیر الخطاء تھا۔
- امام نسائی اور دارقطنی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے
- ایوب فرماتے ہیں:
لیس بشئی امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:"
كانت فيه غفلة ورداءةحفظ فكان يرفع المرسل وهو لايعلم ويسند الوقوف من حديث لايفهم فبطل الاحتجاج به
- امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ"وہ صالح مرد تھا لیکن حدیث کے معاملہ میں قوی نہ تھا"
- امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں کوئی حرج نہیں بتایا ہے اور یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے ۔ لیکن حق یہ ہے کہ وہ ضعیف تھا۔
تاریخ ابن معین ۔ج3 ص513 ج4 ص44۔95۔علل لابن حنبل ج1 ص123۔التاریخ الکبیر للبخاری ج4،ص
- علامہ محمد ناصر الدین البانی حفظہ اللہ نے بھی سنن ابن ماجہ کی اس حدیث کو"ضعیف" قرار دیا ہے۔
مشکواۃ نمبر2108۔ضعیف ابن ماجہ ص137 التعلیق علی ابن ماجہ فی ضعیف الجامع نمبر 5940۔
➖ اس سلسلہ کی دوسری روایت قطعاً من گھڑت(موضوع) ہے اور ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:
من اعتكف عشرا في رمضان كان كحجتين وعمرتين
یعنی جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا تو گویا وہ دوحج اور دو عمروں کے(ثواب) جیسا ہے
- بیھقی رحمہ اللہ نے اسے روایت کرنے کے بعد اسے ضعیف کہا ہے
- علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسۃ الضعیفۃ ( 518 ) میں اسے ذکر کرنے کے بعد اسے موضوع کہا ہے ۔
- صد افسوس کہ تبلیغی جماعت کے سرخیل جناب محمد زکریا کاندھلوی صاحب نے اس حدیث کو بایں الفاظ نقل کیا ہے:
"علامہ شعرانی نے کشف الغمۃ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے جو شخص عشرہ رمضان کا اعتکاف کرے ،اس کو دو حج اور دو عمروں کا اجر ہے۔۔۔۔الخ"
تبلیغی نصاب ص 491۔ طبع ملتان(فضائل رمضان فصل ثالث)
- مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں راقم کا مضمون؛"کیا اعتکاف کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے مساوی ہے؟"طبع در جریدہ"ترجمان"دہلی مجریہ 13 اپریل 1991ء اور ضمیمہ کتاب"روزہ" وغیرہ(58)
➖ طبرانی اورامام حاکم اور بیھقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس نے بھی اللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا تواللہ تعالی اس کے اورجہنم کے مابین تین خندق بنا دی ہیں ان کی دوری مشرق ومغرب سے بھی زيادہ ہے
- علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الضعیفۃ ( 5345 ) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ خافقان کا معنی مشرق ومغرب ہے ۔
➖ دیلمی نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا ہے کہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیےجاتے ہیں ) ۔
- علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ضعیف الجامع ( 5442 ) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
➖ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
عن ابن عباس رضياللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ"وَمَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلاثَ خَنَادِقَ أَبَعْدَ مَا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ "
(طبرانی اوسط بیہقی الترغیب ۱۵۰/۲)
یعنی جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں تیار کرادے گا ہر خندق کی چوڑائی مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہو گی۔"
- سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب یہ روایت المعجم الاوسط للطبرانی (۱۶۰/۸ ح ۷۳۲۲) شعب الإیمان للبیہقی (۴۲۴/۳ ح ۳۹۶۵) اخبار اصبھان لأبی نعیم الاصبھانی (۹۰،۸۹/۱) وتاریخ بغداد للخطیب البغدادی (۱۲۶/۴ ، ۱۲۷ ترجمہ:۱۸۰۲)میں بشر بن سلم البجلی عن عبدالعزیز بن ابی رواد عن عطاء عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے ۔
- بشر البجلی کے بارے میں حافظ ابو حاتم الرازی نے کہا :”ھو المنکر الحدیث” (الجرح و التعدیل ۳۵۸/۲) اس شدید جرح کے مقابلے مین حافظ ابن حبان کا اس راوی کو کتاب الثقات (۱۴۴،۱۴۳/۸) میں ذکر کرنا مردود ہے۔
- خلاصہ التحقیق: یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ (۵۶۶/۱۱ ح ۵۳۴۵) وضعیف الترغیب و الترھیب (۱۷۷/۲)اس روایت کی باطل تائید مستدرک الحاکم (۲۷۰/۴ ح ۷۷۰۶) میں ہے۔ اس کا راوی محمد بن معاویہ کذاب اور ہشام بن زیاد متروک ہے ۔
- اس بارے میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا مفصل کلام السلسلۃ الضعیفۃ (ج11ص566۔569)میں ہے انھوں نے واضح کیا ہے کہ اس روایت کی بعض سندوں میں "وَحُرْمَةِ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ" کے الفاظ بھی ہیں جنھیں البانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حلب بغیر اللہ اور شرک کہا ہے۔
خطباء اورواعظ حضرات کو ایسی ضعیف و مردود روایت کو عوام کے سامنے بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے جس سے شرک کا "اثبات"ہو رہا ہے۔
☜ لٙآ اِعتِکٙاف ☞ والی روایت کی تحقیق 【از قلم : شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ】
۔┄┅═════════════════════════════┅┄
جن لوگوں کا یہ موقف ہے کہ صرف تین مساجد ہی میں اعتکاف جائز ہے ، ۱-مسجد حرام ، ۲- مسجد نبوی ، ۳- مسجد اقصی ، دیگر مساجد میں جائز نہیں ہے ، وہ اپنے دعوی پر ایک روایت پیش کرتے ہیں ” سفیان بن عیینہ عن جامع بن ابی راشد عن ابی وائل عن حذیفۃ عن رسول اللہ ﷺ قال : لا اعتکاف الا فی المساجد الثلاثۃ ”
{ المعجم للاسماعیلی /2، 3 /720 ، ح :336 ، سیر اعلام النبلاء للذہبی ،ج:15 ، ص: 81 ، وقال : صحیح غریب عال / السنن الکبری للبیہقی ، ج: ۴ ،ص: 316 / مشکل الآثار للطحاوی ،ج:۴،ص: 30 / المحلی لابن حزم ،ج:5 ،ص: 195 ، مسئلہ : 633 }
آپ ﷺ نے فرمایا ” اعتکاف نہیں ہے صرف تین مسجدوں میں ہے ”
یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے ، اس لئے کہ اس کی تمام اسانید میں سفیان بن عیینہ راوی موجود ہیں ، جو عن سے روایت کررہے ہیں ، کسی ایک سند میں بھی ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے ، جب کہ ان کی اسانید روایت میں سمع کی تصریح ہونا محدثیں کے ہاں ہونا ضروری ہے ، کیونکہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ اور حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور مدلس تھے ، حافظ ابن حبان لکھتے ہیں :
” وھذا لیس فی الدنیا الا سفیان بن عیینہ وحدہ فانہ کان یدلس ولا یدلس الا عن ثقہ متقن ”
{ الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ،ج: ۱،ص: 90 }
” دنیا میں اس کی مثال سفیان بن عیینہ اکیلے ہی ہیں ، کیونکہ آپ تدلیس تو کرتے تھے مگر ثقہ متقن کے علاوہ کسی دوسرے سے تدلیس نہیں کرتے تھے ۔
امام ابن حبان کے شاگرد امام دارقطنی وغیرہ کا بھی یہی خیال ہے { سوالات الحاکم للدارقطنی ،ص: 175 وغیرہ } امام سفیان بن عیینہ درج ذیل ثقات سے بھی تدلیس کرتے تھے :
Ûعلی بن المدینی Û ابو عاصم Û ابو جریج الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب ،ص: 362 ، نعمۃ الاثاثۃ لتخصیص الاعتکاف فی المساجد الثلاثۃ ،ص: 79 وغیرہ ۔
تدلیس کی دومثالیں :
Û ایک دفعہ سفیان رحمہ اللہ نے زہری رحمہ اللہ سے حدیث بیان کی بعد میں پوچھنے والوں کو بتایا کہ :
“لم اسمعہ من الزہری ولا ممن سمعہ من الزہری حدثنی عبد الرزاق عن معمر عن الزھری ”
” میں نے یہ زہری سے نہیں سنا اور نہ اس سے سنا ہے ، جس نے زہری رحمہ اللہ سے سنا ہے { بلکہ } مجھے عبد الزاق نے عن معمر عن الزھری یہ حدیث سنائی ” ۔
{ علوم الحدیث للحاکم ص: 105 ، الکفایۃ ،ص: 359، مقدمہ ابن الصلاح ،ص:95، 96 / اختصار علوم الحدیث ،ص: 51 / تدریب الراوی ،ج:1 ،ص: 224 / فتح المغیث ،ج:۱،ص: 183 ،وغیرہ }
Û ایک دفعہ آپ نے عمرو بن دینار {ثقہ } سے ایک حدیث بیان کی پوچھنے پر بتایا :
“حدثنی علی بن المدینی عن الضحاک بن مخلد عن ابن جریج عن عمرو بن دینار ”
{ فتح المغیث ،ج:۱ ،ص: 185 ، وغیرہ }
” مجھے علی بن مدینی نے عن الضحاک بن مخلد عن ابی جریج عن عمرو بن دینا ر کی سند سے یہ حدیث سنائی ” ۔
حدیث اور اصول حدیث کے عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ ابن جریج کے ” عنعنہ ” کی وجہ سے ضعیف ہے ، ابن جریج کا ضعفا سے تدلیس کرنا بہت زیادہ مشہور ہے ۔
{ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر رحمہ اللہ ،ص: 95 وغیرہ }
نتیجہ :
اس سے معلوم ہوا کہ ابن عیینہ جن ثقہ شیوخ سے تدلیس کرتے تھے ان میں سے بعض بذات خود مدلس تھے مثلا ابن جریج وغیرہ ، ابن عیینہ کے اساتذہ میں سے امام زہری رحمہ اللہ امام عجلان رحمہ اللہ الاعمش اور وغیرھم تدلیس کرتے تھے ، لہذا سفیان بن عیینہ کا عنعنہ بھی مشکوک ہے ، رہا یہ مسئلہ کہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ صرف ثقہ ہی سے تدلیس کرتے تھے ، محل نظر ہے ۔
سفیان رحمہ اللہ نے بن محمد اسحاق کے بارے میں امام زہری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا کہ : ” اما انہ لا یزال فی الناس علم مابقی ھذا ”
” لوگوں میں اس وقت تک علم باقی رہے گا جب تک یہ { محمد بن اسحاق } زندہ ہے “۔
{ تاریخ یحی بن معین ،ج:۲،ص: 504 ،ت : 979 ، من زوائد عباس الدوری الکامل للبخاری ،ج:۲،ص:2119 ، میزان الاعتدال ،ج:۳،ص:472 }
اس روایت میں سفیان کے سماع کی تصریح نہیں ہے ، اور حقیقت یہ ہے کہ سفیان نے یہ قول ابو بکر الھذلی سے سنا تھا { الجرح والتعدیل ،ج:۷،ص:191 } وغیرہ
اس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ سفیان نے الہذلی سے تدلیس کی ہے ، یہ الہذلی متروک الحدیث ہے ، { تقریب ،ص:397 ،وغیرہ } ۔
سفیان نے حسن بن عمارہ {متروک /تقریب التھذیب ،ص:71 } سے بھی تدلیس کی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ سفیان کا صرف ثقہ سے تدلیس کرنا محل نظر ہے ، یہ اکثریتی قاعدہ تو ہوسکتا ہے ، کلی قاعدہ نہیں ہوسکتا ۔
محدثین کرام نے ثقہ تابعی کی مرسل روایت اس خدشہ کی وجہ سے رد کردی ہے کہ ہوسکتا ہے اس نے صحابی سےسنا ہو یا غیر صحابی سے سنا ہو ، اگر غیرہ صحابی { یعنی تابعی وغیرہ } سے سنا ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ راوی ثقہ ہو یا ضعیف ، لہذا مرسل روایت ضعیف ہوسکتی ہے ، بعینہ ” لااعتکاف — الخ ” والی روایت دو وجہوں سے ضعیف ہے :
۱—ہوسکتا ہے کہ سفیان بن عیینہ نے یہ روایت ثقہ سے سنی ہو یا غیر ثقہ سے اگر غیر ثقہ سے سنی ہے تو مردود ہے ۔
۲—اگر ثقہ سے سنی ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ ثقہ بھی مدلس ہو ، جیساکہ اوپر واضح کردیا گیا ہے ، جب سفیان کا استاذ بذات خود مدلس ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے ضرور بضرور یہ روایت اپنے استاذ سے ہی سنی ہے ؟ جب اس کے سماع کی تصریح کرنا ناممکن ہے تو یہ خدشہ قوی ہے کہ اس کی بیان کردہ روایت اس کے ضعیف استاذ کی وجہ سے ضعیف ہو، لہذا اس روایت کو شیخ ابو عمر عبد العزیز نورستانی حفظہ اللہ کا امام ذہبی رحمہ اللہ کی پیروی کرتے ہوئے ” صحیح عندی ” کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اصول حدیث کے سراسر خلاف ہے ۔
مختصرا سفیان بن عیینہ بیان کردہ حدیث ” لا اعتکاف الا فی المساجد الثلاثۃ” بلحاظ سند ضعیف ہے
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS