find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kuchh Jahilana jumle aur uske jawabat: Mohabbat aur Jung me sab kuchh Jayez hai.

Kuchh Aeise jumle jo aam taur pe hamare bich Bole jate hai.

Chand Mashhoor jahilana jumle aur unke jawabat.
jaise Namaje Bakshwane gaye they roje gale lag gaye....
Mohabbat aur Jung me sab kuchh Jayez hai.
Nau Sau (Nine hundreds) chuhe khakar Billi chali hajj karne.
Aaj ke Daur men Deen me tabdeeli waqt ki jarurat hai.
Aaj ka Jamana Bahut hi kharab aur gaddar hai.


چند مشہور جاھلانہ جملے اور ان کے جوابات*

جملہ:
نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے،

جواب: حدیث مبارکہ میں ہے؛
جس نے رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا و سزا کا مذاق اڑایا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔

(اگر چہ اس نے ہنسی مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔)

جملہ:
"محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے"
.
جواب:
بالکل غلط، بحیثیت مسلمان ہمارے لئے محبت اور جنگ دونوں کی متعین حدود دین اسلام میں موجود ہیں،
جن سے تجاوز کرنا جائز نہیں.
جملہ:
"نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی-
یعنی ساری زندگی گناہوں میں گزری اب نیک ہونے کا کیا فائدہ؟"
.
جواب: 100% غلط... !
بحیثیت مسلمان لاکھوں، کروڑوں چوہے کھا کر بھی اگر بلی حج کو جائے گی تو ان شاء اللہ رب کی رحمت کو اپنے قریب پائے گی.
گویا کوئی شخص کتنا ہی گناہ سے آلودہ کیوں نہ رہا ہو؟
اگر سچی توبہ کرکے پلٹ آنا چاہے تو مغفرت کا دروازہ کھلا ہے.

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى

اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو اسے میں یقیناً بہت زیادہ معاف کرنے والا ہوں۔
[طه: 82]

(”بلی حج کو چلیں“ یہ کہنا شعائر اسلام کی توہین ہے اس لئے ایسا کوئی بھی جملہ جس سے اسلام و مسلمین کی تنقیص و تحقیر کا پہلو نکلتا ہو، اُس سے گریز کریں۔)

جملہ:
آج کے دور کے مطابق دین میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے

جواب۔ اللہ فرماتا ہے۔

```الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً```

“(1440 سال پہلے )

آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا“
(المائدہ 3)

جملہ:
آخر اللہ کو ہماری یاد آ ہی گئی

جواب: اللہ فرماتا ہے.

َمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيّاً

تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں
[مريم : 64]

جملہ: کہاں رہتے ہو؟
اوو خدا کے پچھواڑے؟

جواب :
خدا کے لئے کچھ بھی غائب نہیں ہے
تو خود سوچیں اس کا پچھواڑا کیسے ہو سکتا ہے
مگر جملہ بولنے والے نے رب العزت کی کتنی بڑی توہین کر دی ہے

`جملہ:
زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے، زمانہ بڑا غدار ہے
جواب:
حدیث القدسی
ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے ۔ وہ زمانے (وقت) کو گالی دیتا ہے جب کہ زمانہ “میں “ ہوں ہر حکم میرے ہاتھ میں ہے اور میں ہی دن رات کو پلٹاتا ہوں
(متفق علیہ )

جملہ:
فلاں بہت منحوس ہے وغیرہ وغیرہ ۔

جواب:
بالکل غلط
یہ وہمی لوگوں کی باتیں ہیں ۔
اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں ہے ،
یہ محض توہم پرستی ہے۔

حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدے کی تردید فرمائی گئی ہے۔

سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے۔

قرآن میں ارشاد ہے۔

”تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور
جو بُرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،“
سورة النساء (4) آیات (79).

لہذا اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کون کون سے ایسے جملے بولتے رہتے ہیں اور وہ جملے کتنے بھاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں
اور ہماری آخرت تباہ ہو رہی ہے اور ہمیں علم ہی نہیں ہے

بولنے سے پہلے سوچیں پھر تولیں پھر بولیں اور جب بھی بولیں بامقصد بولیں
فضول بولنے سے خاموشی لاکھ درجے بہتر ہے

خود بھی شعوری طور پر بچیں اور دوسروں کی بھی اصلاح فرمائیں

جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا

Share:

Surah Alaq Quran Majeed ke shuru me kyu nahi hai?

Quran Ki pehali aayat Surah al alaq Quran ke shuru me kyu nahi hai?
Quran Majeed ki tarteeb kaise ki gayi?
Sawal: Quran Pak ki tarteeb ke hawale se wazahat Kar de jab quran ki pehali ayat rasool Allah saw ko gare hira me Surah alaq 96 no nazil hui hai ( IQRA BISMI RABIK ) to phir wo Surah Qur'an ke shuru me kyu NAHI hai iski mukamal tarteeb kaise hui hai?

جواب تحریری
الحمد للہ.
الحمد للہ
قرآن مجید کی آيات و سورتوں کی ترتیب پر بہت سی نصوص اور اجماع ایک معلوم و مشہور معاملہ ہے ، اس پر اجماع نقل کرنے والوں میں کئ ایک علماء شامل ہیں جن میں زرکشی نے برھان میں اور ابوجعفر نے بھی نقل کیا ہے جس کی عبارت کچھ اس طرح ہے :
قرآن مجیدمیں سورتوں کی ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےتوقیفی اور ان کےحکم سےہیں جس میں مسلمانوں کےدرمیان کوئ اختلاف نہیں۔انتہی۔

اسکے متعلق نصوص میں سے کچھ یہ ہیں :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ آپ کو کس نے اس پر ابھارا کہ سورۃ انفال جو کہ سوسے کم آیات اور سورۃ البراءۃ جوسو سے زیادء آيات پرمشتمل ہےکےآپس میں ملادیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی نہیں لکھی اور انہیں سات لمبی سورتوں میں رکھا ہے ۔

توعثمان رضی اللہ تعالی تعالی کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ نازل ہوتی تھی ، جب بھی کوئ‏ آیت نازل ہوتی آپ کاتبوں کو طلب کرکے کہتے کہ یہ آيات فلاں سورۃ جس یہ کچھ مذکورہے میں لکھ دو ۔

سورۃ الانفال مدینۃ میں نازل ہونے والی ابتدائ سورتوں میں سے ہے اور سورۃ البراءۃ نزول کے اعتبار سے آخری سورتوں میں ہے اس کا مضممون سورۃ الانفال سےملتاجلتا ہے تو یہ گمان کرلیاگیا کہ یہ بھی اس کا ایک حصہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوۓ تواس کے متعلق بیان نہیں کیا کہ یہ بھی اس کا ایک حصہ ہے لھذا میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور اسے سبع الطوال ( سات لمبی سورتوں میں رکھا۔

اسے امام احمداور ابو داود اور امام ترمذی اور نسائ اور ابن حبان اور حاکم روایت کیا ہے ، امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہااورامام ذھبی رحمہ اللہ نےاس میں موافقت کی ہے دیکھیں المستدرک ( 2 / 320 )

اور امام احمدنے مسند( 4 / 218 ) میں حسن کی سندسے عثمان بن ابی العاص سے بیان کیا :

عثمان بن ابی العاص بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے نظریں اٹھا‏ئیں اور پھر سیدھی کرلیں کہ حتی کہ قریب تھا کہ زیمن کے ساتھ ملادیں ، پھر نظریں اٹھا کر فرمایا میرے پاس جبریل علیہ السلام آۓ اور حکم دیا کہ میں یہ آيت اس سورۃ میں فلاں جگہ پر رکھوں  ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون  بیشک اللہ تعالی عدل واحسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا اور فحاشی اوربرائ اور بغاوت سے روکتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔ مسند احمد ( 4 / 218 ) ۔

ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابن زبیر رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا سورۃ البقرۃ میں جو یہ آيت ہے  والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا  اس فرمان تک  غیراخراج  کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے آپ نے اسے کیوں نہیں لکھا تو وہ کہنے لگے بھتیجے اس رہنے دو میں نے کسی بھی چیز کو اس کی جگہ سے تبدیل نہیں کیا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4536 ) ۔

عمر رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زيادہ کلالہ کے بارہ میں سوال کیا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ میں انگلی مار کر کہا کیا تمہیں سورۃ النساء کی آخری آیت الصیف کافی نہیں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1617 )

اسی طرح سورۃ البقرۃ کی آخری ايات کے متعلق بھی نصوص وارد ہیں ۔

ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ مرفوعابیان کرتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے سورۃ الکھف کی پہلی دس آیات حفظ کیں وہ دجال سے محفوظ رہے گا ۔

اور ایک روایت کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں جس نے سورۃ الکھف کی آخری دس آیات پڑھیں ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 809 ) ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کی موجودگی میں مختلف سورتوں کا پڑھنا بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان سورتوں میں آیات کی ترتیب توقیفی ہے ، اورصحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو‏ئ ترتیب کے خلاف مرتب نہیں کرسکتے تو یہ تواتر تک جا پہنچتا ہے ۔

قاضی ابوبکر نے " الانتصار " میں کہا ہے کہ :

آیات کی ترتیب کا معاملہ واجب اور حکم لازم ہے اس لۓ کہ جبریل علیہ السلام فرماتے کہ یہ آيت فلاں جگہ پر رکھو ۔

اور قاضی ابوبکر کا یہ بھی قول ہے کہ : ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ :

اللہ تعالی کانازل کردہ مکمل قرآن مجیداس کے رسم کوثابت رکھنے کا حکم دیااور منسوخ نہیں کیا اور نہ ہی نزول کے بعد اس کی تلاوت کومنسوخ کیا ہے ، یہ وہی ہے جو مصحف عثمان کے دو گتوں کے درمیان پایا جاتاہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کمی رزیادتی نہيں ، اور اس کی ترتیب و نظم اسی طرح ثابت ہے جس طرح کہ اللہ تعالی نے مقرر فرمائ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ترتیب دیا اس میں کوئ بھی سورۃ ایک دوسری سے مقدم ومؤ‎خر نہیں کی گئ ، اور یہ کہ امت نے سورتوں کی ترتیب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ضبط کی ہے جس طر ح کہ اس کی تلاوت و قرآات ثابت ہیں ۔۔

امام بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنۃ میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو قرآن مجید اسی ترتیب پر پڑحاتے اور سکھاتے تھے جو کہ آج مصاحف میں موجود ہے اورجبریل علیہ السلام انہیں نزول کے وقت انہیں بتاتے کہ یہ آیت فلاں سورۃ میں فلاں جگہ پرلکھی جاۓ ، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کی سعی وکوشش قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کی تھی نہ کہ اس کی ترتیب میں اس لۓ کہ قرآن کریم اسی ترتیب کےساتھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا تھا تو اللہ تعالی نے بالجملہ اسے آسمان دنیا پر نازل فرمایا ، پھر اس کے بعد بوقت ضرورت قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا اورترتیب نزول تلاوت کی ترتیب کے علاوہ ہے ۔

تو کیا سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے یا کہ صحابہ کرام کا اجتھاد ؟ اس مسئلہ میں اختلاف پایاجاتا ہے ، جمھوردوسرے قول کے قا‏ئل ہیں جن میں امام مالک اور قاضی ابوبکر کا ایک قول ہے ۔

ابن فارس کا قول ہے کہ :

قرآن کریم کے جمع کی دوقسمیں ہیں ایک سورتوں کی تالیف مثلا سبع طوال سورتوں کی تقدیم کے بعد سوآيات والی سورتوں کا لانا ، تو صحابہ کرام نے یہ کام کیا ۔

اور دوسری قسم آیات کو سورتوں میں جمع کرنا ، یہ قسم توقیفی ہے جس میں کسی کا بھی دخل نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاللہ تعالی کے حکم سے جبریل علیہ السلام کے کہنے کے مطابق اس کی ترتیب دی ۔

تو اس سے ہی سورتوں کی ترتیب میں سلف کے اختلاف پر استدلال کر کے بعض نے سورتو ں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے کی جس طرح کہ مصف علی رضی اللہ تعالی عنہ ہے جس کی پہلی سورۃ اقراء پھر مدثر پھر نون پھر مزمل اور اسی طرح دوسری سورتیں ، اور ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کےمصحف میں پہلی سورۃ البقرۃ پھر النساء پھر آل عمران ، اور اسی طرح مصحف ابی بھی اختلاف شدید کے ساتھ ۔

اور کرمانی کا " البرھان " میں یہ قول ہے کہ :

اللہ تعالی کے ہاں لوح محفوظ میں سورتوں کی ترتیب اسی طرح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جبریل علیہ السلام کے ساتھ ہرسال جتنا بھی جمع ہوچکا ہوتااسے اسی ترتیب سے دور کیا کرتے تھے ، جس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوۓ اس میں انہوں نے جبریل علیہ السلام کےساتھ دو مرتبہ دور کیا ، نزول کے اعتبار سے آخری آیت  واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ  نازل ہو‏ئ تو جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ حکم دیا کہ یہ آیت آيت ربا (سود) اور دین ( قرض ) کے درمیان لکھيں ۔

اور " برھان " میں زرکشی کا قول اس طرح منقول ہے :

دونوں فریقوں میں لفظی اختلاف ہے اس لیے کہ دوسرے قول کے قائلین یہ کہتے ہیں کہ ان کی طرف اس کا اشارہ کیا گيا ہے تاکہ اس کے اسباب نزول اور کلمات کے مقامات ان کے علم میں لاۓ جاسکیں ۔

اور اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : انہوں نے قرآن مجیدجس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا اسی طرح جمع کیا اور سورتوں کی ترتیب میں انکااجتھاد تھا تو اس میں اختلاف یہ ہے کہ کیا یہ توقیف قولی ہے یا کہ صرف اسناد فعلی سے متعلق ہے جس میں انکے لیے تدبروتفکر کی گنجائش پائ جاتی ہے ۔

اورامام بیھقی " المدخل " میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن کریم میں انفال اور برآءۃ کے علاوہ باقی سورتوں اورآیات کی ترتیب اسی طرح ہی تھی جیسا کہ حدیث عثمان رضي اللہ تعالی عنہ گذر چکی ہے ۔

اور ابن عطیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ :

بہت ساری سورتوں کی ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی معروف تھی مثلا سبع الطوال ( سات لمبی سورتیں ) ، اور وہ سورتیں جن کے شروع میں حم آتا ہے ، اور سورالمفصل اورہو سکتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداس کے علاوہ باقی سورتوں کا معاملہ امت کے سپرد کردیا گيا ہو ۔ ابوجعفر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

آثارابن عطیہ کے بیان سے زیادہ شاھد ہیں اورباقی بہت ہی کم چیز بچتی ہے جس میں اختلاف ہو سکتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( زہراوین پڑھا کرو جو کہ آل عمران اور البقرۃ ہيں ) صحیح مسلم ( 804 ) ۔

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ سورۃ بنی اسرا‏ئیل ، اور الکہف ، مریم ، طہ ، الانبیاء ، یہ پہلی اور قدیم سورتوں میں سے ہيں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4739 ) ۔

اور ابوجعفر النحاس کہتے ہیں کہ مختاربات یہ ہے کہ سورتوں کی یہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی اسی طرح ہے جیسا کہ حدیث واثلہ رضی اللہ تعالی عنہ میں ہے کہ ( سبع الطوال تورات کی جگہ پر دی گئ ہیں ) وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلالت ہے کہ قرآن کریم کا جمع کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےماخوذ ہے ۔

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :

سورتوں کی ایک دوسروں یا اکثر پر ترتیب اس کے توقیفی ہونے میں مانع نہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اس کی ترتیب توقیفی ہونے پر مندرجہ ذیل حدیث دلالت کرتی ہے :

اوس بن حذیفۃ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیارکی تو ان سے سوال کیا کہ آپ قرآن مجید کی تقسیم کیسے کیا کرتے تھے ، انہوں نے جواب دیا ہم چھ اور پانچ اور سات اور نواور گيارہ اور تیرہ سورتوں میں تقسیم کرتے تھے اور سورۃ ق سے قرآن کریم کے آخر تک حزب مفصل میں تقسیم کرتے تھے ۔

حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسملم کے دور میں سورتوں کی ترتیب پر دلالت کرتا ہے ( وہی ترتیب آج مصاحف میں پا‏ئ جاتی ہے ) اور اس کا احتمال ہے کہ خاص کر اس وقت حزب المفصل باقی دوسری سورتوں کے خلاف مرتب تھا ۔

دیکھیں : الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ( 1 / 62 – 65 )

واللہ تعالی اعلم

Share:

Jihad pe Jane ke liye Maa Baap ki ijazat.

Musalman kyu jihad karte hai?
Kya Jihad me jane ke liye Waldain ki ijazat jaruri hai?
Sawal: jihad ke liye Waldain (Maa Baap) ki Ijazat.
جہاد کے لئے والدین کی اجازت

جہاد میں شرکت کے لئے والدین کی اجازت کے متعلق دو طرح کی احادیث موجود ہیں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہتا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں،آپ نے فرمایا: پھر انہیں میں جہاد کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد)
اسی طرح عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہی ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے پوچھا سب سے افضل عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نماز اس نے کہا پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جہاد کرنا تو اس نے کہا میرے والدین ہیں آپ نے فرمایا میں تجھے والدین کے ساتھ خیر کا حکم دیتا ہوں اس نے کہا " والذى بعثك بالحق لاجاهدن ولا تركنهما قال فأنت أعلم " اس ہستی کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں ضرور جہاد کروں گا اور انہیں ضرور چھوڑ کر جاؤں گا آپ نے فرمایا پھر تو بہتر جانتا ہے۔ (ابن حبان 4/11)
اہل علم نے ان دونوں احادیث کے متعلق دو قسم کی توجیہ بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں دونوں احادیث میں موافقت کرتے ہوئے یہ صورت نکلتی ہے کہ فرض عین جہاد پر محمول ہے۔ یعنی جب جہاد فرض عین ہو تو والدین کی اجازت ضروری نہیں۔ (فتح الباری 6/141)
دوسری توجیہ یہ ہے کہ والدین کی اجازت والے مسئلہ کو امام یا شرع کے مکلف آدمی کے سپرد کر دیا جائے اب دونوں صورتوں میں مصلحت جس کا تقاضا کرے اسے مقدم کرنا واجب ہے۔ انصار و مہاجرین جہاد کرتے تھے اور ہم نے ذخیرہ احادیث میں سے کسی بھی حدیث میں نہیں دیکھا کہ وہ ہر غزوے میں والدین کی اجازت کا التزام کرتے ہوں۔ (کتاب الروضۃ الندیہ 2/333ط جدید محقق 2/719)
ہمارے نزدیک یہ دوسری توجیہ زیادہ وزنی ہے اس لئے کہ دونوں احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام نے اپنے آپ کو جہاد کے لئے اپنے امام اور قائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش کیا آپ نے ان کا فیصلہ کیا اور ابن حبان کی صحیح حدیث کے مطابق بات یہ ہے کہ جب مجاہد صحابی نے والدین کو چھوڑ کر جہاد میں جانے کا عزم کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈانٹا یا منع نہیں کیا بلکہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا اور فرمایا تو اپنی حالت کو بہتر جانتا ہے۔ اسی لئے اگر کوئی شرع کا مکلف آدمی اپنے گھریلو حالات کو دیکھ کر خود فیصلہ کر لے کہ وہ جہاد پر جانا چاہتا ہے تو والدین کی اجازت کے بغیر بھی جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
تفہیمِ دین
کتاب الجہاد،صفحہ:281

Share:

Prize Bond Haram hai ya Halal?

Islam me Prize Bond Haram hai ya Halal?
Sawal: Prize Bond Haram hai ya Halal?
سوال:  پرائز بانڈ  حلال ہیں یا حرام ؟*

جواب: بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، اما بعد؛

پرائز بونڈ جدید دور میں سود اور جوے کا مرکب ہے اور اسلام میں نہ سود کے لیے کوئی جگہ ہے نہ جوا کی کوئی نوع جائز ہے، اس طریقے میں حکوم اپنی ضرورت کے پیش نظر متعین رقوم کے بدلے خاص متبادل  بیچتی ہے، جبکہ اصل رقوم حکومت کو وصول ہو جاتی ہے۔ اس طرح اپنی ضرورت کے مطابق حکوم اس رقم کو استعمال کرتی ہے۔ پرائز بونڈ کا خریدار جب چاہے اپنی اصل رقم واپس لے کر یہ پرائز بونڈ فروخت کر سکتے ہیں۔ پھر قرعہ اندازی کر کے بعض افراد کو مخصوص انعامات دیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں انعام کی یہ رقم وہ سود ہوتی ہے جو حکومت عوام کی رقم اپنے پاس رکھ کر حاصل کرتی ہے، پھر تمام حاملین پرائز بونڈ کو منافع (سود) کی یہ رقم دینے کی بجائے بعض لوگوں کو انعام کی شکل میں دے دی جاتی ہے۔ ایسی انعامی رقم عین سود ہے، فقط نام تبدیل کر کے عوام کو اس میں مشغول کیا جاتا ہے۔ پھر اکثر لوگوں کو چھوڑ کر صرف چند لوگوں کو منافع کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔جس کی شاخیں جوئے سے ملتی ہیں۔

عوام کو اس سے لالچ یہ ہوتی ہے  کہ جب چاہیں گے پرائز بونڈ فروخت کر کے اپنی اصل رقم حاصل کر لیں گے۔ اوراگر انعام نکل آیا تو مفت کا منافع بھی ہے۔ یاد رہے حرام کے لیے حیلہ کرنا بھی اسلام میں جائز نہیں،لہذا سود اور جوا خواہ اپنی اصل کیفیت میں ہوں یا شکل و صورت بدل کے میسر ہوں دونوں انداز سے حرام ہیں ان سے پچنا دین و ایمان کی حفاظت ہے۔ واللہ المستعان
منقول

Share:

Nikah-E-Mutah kya Hai islam me?

Nikah mutah kya hai Musalmano ke bich?
Islam me Nikah-E-Mutah kya hai?
निकाह मुताह क्या है इसलाम में?
Sawal: Muta kia hai or shariyat is bare Me kya kehti hai kia is ka tehreer Mai jawab mil sakta hai?
جواب تحریری
عہ بھی انہی چیزوں میں سے ہے، جنہیں اسلام نے اصلاحِ معاشرہ کی خاطر ابدی طور پر حرام قرار دے دیا ہے۔جیسے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عہد ِ رسالت میں شراب پی جاتی رہی، اسی طرح تدریجی حکمت ِعملی کے تحت عہد نبوی میں نکاحِ متعہ بھی ایک وقت تک جائز رہا،لیکن پھر اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا گیا اور اس کی جگہ شرعی نکاح ہی کو حتمی اور لازمی اصول بنا دیا گیا۔
اب جس طرح کسی مسلمان کا شراب کی حرمت سے پہلے تک کے عہد ِرسالت میں صحابہ کرام کے شراب پینے کے واقعات کو دلیل بنا کر شراب کو حلال قرار دینا جائز نہیں،اسی طرح کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ حرمت ِ متعہ سے پہلے پیش آنے والے عہد ِنبوی کے واقعات کو دلیل بناتے ہوئے اب بھی نکاحِ متعہ کے جواز پر اصرار کرے۔

نکاحِ متعہ کے فرد اور معاشرے پر نہایت مضر اثرات تھے، جن کی بنا پر اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔  اس کے مقابلے میں شرعی نکاح کو رائج کیا گیا، جو مفاسد سے بالکل خالی اور فرد و معاشرے کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔
شرعی نکاح کا اہم مقصد عفت و عصمت کا تحفظ ہے، جو کہ نکاحِ متعہ سے حاصل نہیں ہوتا، نیز نکاحِ شرعی میں اہم جزو دوام و استمرار ہے، جو کہ متعہ میں نہیں پایا جاتا۔ نکاحِ شرعی کا اہم فائدہ محبت و مودّت اور سکون ہے، جو کہ نکاحِ متعہ میں ناپید ہے۔نکاحِ شرعی میں بیک وقت ایک سے زائد بیویوں کا تصور تو ہے، لیکن ایک سے زائد خاوندوں کا تصور قطعاً نہیں، جبکہ نکاحِ متعہ میں ایک سے زائد خاوندوں کا تصور واضح طور پر پایا جاتا ہے۔  ایک عورت کے لیے نکاحِ متعہ کے ذریعے ایک ہی دن میں بیسیوں افراد سے منہ کالا کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔

نکاحِ متعہ کے ذریعے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور انسانوں میں بہیمانہ رویے پروان چڑھتے ہیں۔ ایک عورت جب نکاحِ متعہ کے ذریعے کئی مردوں سے تعلق رکھتی ہے، تو کیا معلوم اس کی کوکھ میں پلنے والا بچہ کس کا ہے؟  ایسے بچے عام طور پر خونخوار درندے ہی بنتے ہیں،  پر امن شہری نہیں بن پاتے۔ نکاحِ متعہ میں ولی (باپ ،بھائی) کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔ عصمت جو انسانیت کا جوہر ہے، ختم ہو جاتی ہے اور ماحول میں آوارگی پھیلتی ہے۔
شیخ الاسلام، ابو العباس،احمد بن عبد الحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَالنِّکَاحُ الْمَبِیْحُ ہُوَ النِّکَاحُ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ الْمُسْلِمِینَ، وَہُوَ النِّکَاحُ الَّذِي جَعَلَ اللّٰہُ فِیہِ بَیْنَ الزَّوْجَیْنِ مَوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً ۔
’’جائز نکاح وہی ہے، جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہے۔یہی وہ نکاح ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے زوجین میں مودّت و رحمت کا باعث بنایا ہے۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 92/32، 93)

نکاحِ متعہ کی بے شمار قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے شادی شدہ خواتین بھی بدکاری کی راہ اختیار کر لیتی ہیں، جیسا کہ :
شیعہ کے شیخ الطائفہ،ابو جعفر، محمد بن حسن، طوسی (م : 460ھ) نے لکھا ہے :
وَلَیْسَ عَلَی الرَّجُلِ أَنْ یَّسْأَلَہَا ؛ ہَلْ لَّہَا زَوْجٌ أَمْ لَا ۔
’’نکاحِ متعہ کرنے والے مرد کے لیے عورت سے یہ پوچھنا ضروری نہیں کہ اس کا کوئی خاوند ہے یا نہیں۔‘‘(النہایۃ، ص : 490)
ان قباحتوں کے باوجود نکاحِ متعہ شیعہ مذہب کا بنیادی جزو ہے، جیسا کہ :n شیعہ فقیہ، محمد بن حسن،  الحر العاملی (م : 1104ھ) نے لکھا ہے :
إِنَّ إِبَاحَۃَ الْمُتْعَۃِ مِنْ ضَرُورِیَّاتِ مَذْہَبِ الْإِمَامِیَّۃِ ۔
’’نکاحِ متعہ کا جائز قرار دینا امامی شیعوں کی مذہبی ضرورت ہے۔‘‘
(وسائل الشیعۃ : 245/7)

نکاحِ متعہ اور اجماعِ امت
امت ِمسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں نکاحِ متعہ تاقیامت حرام ہو چکا ہے، جیسا کہ :
امام ابو عُبَیْد، قاسم بن سلام رحمہ اللہ (224-150ھ) فرماتے ہیں :
فَالْمُسْلِمُونَ الْیَوْمَ مُجْمِعُونَ عَلٰی ہٰذَا الْقَوْلِ : إِنَّ مُتْعَۃَ النِّسَائِ قَدْ نُسِخَتْ بِالتَّحْرِیمِ، ثُمَّ نَسَخَہَا الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ ۔۔۔، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ یَتَرَخَّصُ فِیہَا، إِلَّا مَا کَانَ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَإِنَّہٗ کَانَ ذٰلِکَ مَعْرُوفًا مِّنْ رَّأْیِہٖ، ثُمَّ بَلَغَنَا أَنَّہٗ رَجَعَ عَنْہُ ۔
’’آج مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں سے نکاحِ متعہ کو منسوخ کر کے حرام کر دیا گیا ہے۔کتاب و سنت نے اسے منسوخ کیا ہے۔کوئی ایک بھی ایسے صحابی معلوم نہیں ہوئے، جو نکاحِ متعہ کی رخصت دیتے ہوں، سوائے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کہ اس کے جواز پر ان کا مشہور فتویٰ تھا۔  پھر ہم تک یہ بات بھی پہنچ گئی کہ (حق معلوم ہونے پر)  انہوں نے اپنے اس فتوے سے رجوع فرما لیا تھا۔ ‘‘(الناسخ والمنسوخ، ص : 80)
محمد وقاص شیرازی فیصل آباد

Share:

Faut Hue logo ke taraf se Qurbani karna.

Mare hue logo ke nam se Qurbani karna.
Kya Inteqal kar gaye logo ki taraf se Qurbani ki ja sakti hai?
kya Faut hue logo ke nam Se Qurbani ki ja sakti hai?
kya Wafat pa gaye Shakhs ki taraf se Qurbani ki ja sakti hai?
Sawal: Faut Sudgaan Ki janib se Qurbani karna.
فوت شدگان کی جانب سے قربانی کرنا
=================
کیا میں اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کرسکتاہوں ؟
الحمد للہ
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اصل تویہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اورجوکچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئي اصل نہيں ۔

فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں :

پہلی قسم :

کہ زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے مثلا : کوئي شخص اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اوراس میں وہ زندہ اورفوت شدگان کی نیت کرلے ( تویہ جائز ہے ) ۔

اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جوانہوں نے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے تھی اوران کے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہوچکے تھے ۔

دوسری قسم :

یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرے ( اوریہ واجب ہے لیکن اگراس سےعاجز ہوتوپھر نہيں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ توجو کوئي بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تو اس کا گناہ ان پر ہے جو اسے تبدیل کرتے ہيں یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے } ۔

تیسری قسم :

زندہ لوگوں سے علیحدہ اور مستقل طور پر فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے ( وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اور والدہ کی جانب سے علیحدہ اور مستقل قربانی کرے ) تو یہ جائز ہے ، فقھاء حنابلہ نے اس کو بیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچے گا اور اسے اس سے فائدہ و نفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پرقیاس کیا ہے ۔

لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سے بالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئي قربانی نہیں کی ، نہ تو انہوں نے اپنے چچا حمزہ رضي اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيز اقرباء میں سے تھے ۔

اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اور تین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی ، اورنہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پیاری تھیں ۔

اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔

اور ہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جو آج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اور اسے ( حفرہ قربانی ) کا نام دیتے اور یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کو شریک ہونا جائز نہيں ، یا پھر وہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے ، یا ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں ۔

اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئي شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اورفوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کونہ کریں ۔ .

دیکھیں : رسالۃ : احکام الاضحيۃ الذکاۃ
https://islamqa.info/ur/36596

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS