Irrfan Khan Janant Me Jayega Ya Jahannum Me
Irfan Khan Janant Me Jayega Ya Jahannu Me
Actor Irrfan Khan |
عرفان کی موت اور ہمارا رویہ
ثناءاللہ صادق تیمی
میں کئی ساری بحثوں میں بالکل پڑنا نہیں چاہتا لیکن پھر صورت حال ایسی سامنے آتی ہے کہ بنا پڑے رہا بھی نہيں جاتا ۔ عرفان ( را پر تشدید ) مر گیا اور ہر انسان کو ایک دن مرنا ہے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ بالی ووڈ سے لےکر ہالی ووڈ تک میں اس نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا ۔ وہ اپنے طرز کاایک انوکھا اداکار تھا اور اس حقیقت کو فلم کے بڑے بڑے تنقید نگار مانتے ہیں ۔ جن لوگوں کو فلم ، تفریح اور سنیما سے لگاؤ ہے انہیں واقعی یہ ایک بڑا خسارہ نظر آئے گا ۔ مانا جاتا ہے کہ دلیپ کمار ، نصیرالدین شاہ اور بلراج ساہنی جیسے اونچے ادا کاروں کی خوبیوں سے عرفان آراستہ تھا یعنی کردار کو اس طرح ادا کرتا تھا کہ اس میں زندگی دوڑا دیتا تھا ۔ اس کی ادا کاری اس کی اپنی تھی ، وہ نقالی کرنے میں بھروسہ نہيں رکھتا تھا اور زندگی کو بھی اپنی شرطوں کے مطابق جینا چاہتا تھا ۔
بحیثيت اداکار وہ اتنا اونچا تھا کہ آج ملکی سطح پر ہی نہیں عالمی سطح پر اس کے مرنے پر ایک غم کی کیفیت محسوس کی جارہی ہے ۔ بڑے بڑے لوگ مانتے ہیں کہ فلمی جگت ایک بڑی صلاحیت سے محروم ہوگيا ۔ فلم ، اداکاری ، فلم سازی سے متعلق ہماری جو ناپختہ ،کم تر جانکاری ہے اس اعتبار سےبھی عرفان ایک فطری ادا کار تھا اور اپنے کرافٹ میں کمال رکھتا تھا ۔ایک ایسے انسان کے مرجانے پر عام لوگوں کا افسوس ظاہر کرنا بالکل فطری ہے جو پچھلے کئی سالوں سے انہيں اپنی اداکاری سے محظوظ کررہا تھا ۔ یہ عام لوگ کسے کے لیے بھی آر آئی پی ، اللہ جنت الفردوس میں اعلا مقام دے اور اللہ روح کو شانتی دے جیسے دعائيہ جملے بول دیتے ہیں ۔ ان میں زيادہ تر لوگوں کو اس بات کی تمیز ہی نہيں ہوتی کہ کہاں کیا بولنا ہے اور کہاں کیا نہیں بولنا ہے ۔
جنت اور جہنم کا تعلق اخروی زندگی سے ہے اور یہ بات ادنی سے ادنی مسلمان بھی جانتا ہے کہ مغفرت کے لیے ایمان شرط ہے ۔ اعمال کی بڑی سے بڑی خرابی ایمان کے ہوتے ہوئے مغفرت کا دروازہ بند نہيں کرتی اس لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ مرنے والا مسلمان ہو ۔ اب اگر عرفان کی بات کریں تو وہ خود ہی کہہ چکا تھا کہ وہ کسی مذہب میں وشواس نہيں کرتا ، بلکہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی مذہب سے نہ جوڑنے کےلیے ہی یہ چاہتا تھا کہ اس کے نام کے ساتھ " خان " نہ لگے اور عرفان خان سے وہ عرفان ( را پر تشدید) بن گیا ۔مجھے جے این یو کی وہ محفل یاد ہے ، غالبا 2012 کی بات ہے ، اس نے بہت سی باتیں کی تھیں جن میں مذہب سے متعلق اس کا وہ فلسفہ بھی تھا جس کاذکرابھی ہوا ۔یعنی وہ خود کو مسلمان نہيں سمجھتا تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ جو خود کو مسلمان نہیں سمجھتا ہو اس کے لیے زبردستی مغفرت کی دعائیں کرکے اسے مسلمان بنانا بھی کوئی دانشمندی کی بات نہیں ۔ یہاں مثال کے طور پر جاوید اختر کو دیکھ سکتے ہیں ۔ جاوید اختر فلم جگت کے بہت بڑے آدمی ہیں ، وہ زبان و ادب کے بھی اتنے ہی بڑے انسان ہیں ، شاعری اور تاریخ سب پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن وہ مانتے ہیں کہ وہ ناستک ہیں ، مسلمان نہيں ہیں تو انہيں زبردستی مسلمان بنانا ہماری کہاں کی دانشمندی ہوگی ۔
ان سطور کے نہ لکھنے کا ارادہ تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی لیکن جب مدارس کے فارغین کو باہم دیگر عجیب وغریب انداز میں بحث کرتے دیکھا تو لگا کہ اتنی باتیں لکھی جانی چاہیے ۔ عام آدمی کا کچھ بھی کہ گزرنا مسئلہ نہيں ہوتا لیکن صاحبان فضیلت علما کرام کا اس قسم کے معاملات میں جوش میں آنا سمجھ سے پرے ہے ۔ عرفان کو اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہوتا تو آپ ہم سب مغفرت کی دعا کرتے۔ اسے اس سے انکار تھا تو ہم کیوں بے مطلب زبردستی اسے مسلمان کریں ، جو آدمی زندہ رہتے ہوئے اپنے فکرونظر پر قائم تھا ، مرنے کے بعد کیوں اس سے اس کا فلسفہ حیات چھینا جائے ؟
کسی کے بھی مرنے پر تکلیف ہوتی ہے ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے ۔ تکلیف ہونے میں مسئلہ نہیں لیکن مغفرت کی دعا سے قبل یہ حقیقت بہرحال سامنے رکھیے کہ عرفان کو اپنے مسلمان ہونے سے انکار تھا۔
مجھے ایک بات اور سمجھ میں نہیں آتی کہ کچھ لوگ جنہیں عرفان کی موت پر تکلیف ہوئی اور تکلیف کے اظہار کے لیے انہوں نے پوسٹ لکھنا ضروری سمجھا انہيں یہ کیوں لگتا ہے کہ بہر صورت وہ مولویوں کو ضرور اپنے یہاں گھسیٹ کر لائیں اور بحث ومناقشہ کا سلسلہ شروع کریں ۔ بھائی ، اگر آپ اس کو اس کے انکار کے باوجود زبردستی مسلمان سمجھ رہے ہیں اور مغفرت کی دعائیں کررہے ہیں تو کرتے رہیے لیکن یہ ضرورہے کہ آپ خود اس کے فکر وفلسفہ کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں ۔وہ نہیں مانتا اور آپ زبردستی منوارہے ہيں ۔ آپ اس اللہ سے اس کی مغفرت طلب کررہے ہیں جسے وہ مانتا ہی نہیں تھا تو سوچیے آپ کون سی عقلمندی کررہے ہیں ؟ پھر اللہ پاک کے رحم و کرم کی وسعت کا حوالہ دینے سے پہلے یہ بھی ضرور دیکھ لیجیے کہ اسی اللہ پاک نے ایمان کی شرط بھی رکھی ہے یا نہیں ۔ اگر ایمان کی شرط اسی اللہ پاک کی رکھی ہوئی ہے تو عمومی احادیث سے استدلال یقینی طور پر سکے کے صرف ایک رخ کو پیش کرنے جیسا ہوگا اور اس اعتبار سے تو دنیا کا کوئی بھی شخص وہ چاہے جتنا بڑا اللہ کا منکر ہو ، اس رحمت کا مستحق ٹھہرے گا ۔ایک فاحشہ کے ذریعہ کتے کو پانی پلانے اور سو آدمی کو قتل کرنے کے بعد بھی رحمت ومغفرت کے استحاق کو پیش کرنے سے قبل اس بات کا احساس رکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ دونوں مثالیں صاحبان ایمان کی ہیں ۔ اعمال کی بڑی سے بڑی خرابی ایمان کے ہوتے ہوئے اتنی اثر انداز نہیں ہوتی کہ آدمی مغفرت و رحمت سے مکمل محروم ہوجائے لیکن اگر ایمان سے انکار ہو تو مغفرت اور رحمت کے لیے جگہ چھوڑی کہاں گئی ؟اس نکتے پر غور کرنا بہت ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ عرفان کا یہ معاملہ پوشیدہ بھی نہیں ، وہ علی الاعلان اس انکار کا اظہار کرتا تھا ۔ اس لیے غیر ضروری فلسفہ طرازی کی بھی ضرورت نہیں ۔ اللہ ہمیں درست سمجھ دے ۔
ثناءاللہ صادق تیمی
میں کئی ساری بحثوں میں بالکل پڑنا نہیں چاہتا لیکن پھر صورت حال ایسی سامنے آتی ہے کہ بنا پڑے رہا بھی نہيں جاتا ۔ عرفان ( را پر تشدید ) مر گیا اور ہر انسان کو ایک دن مرنا ہے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ بالی ووڈ سے لےکر ہالی ووڈ تک میں اس نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا ۔ وہ اپنے طرز کاایک انوکھا اداکار تھا اور اس حقیقت کو فلم کے بڑے بڑے تنقید نگار مانتے ہیں ۔ جن لوگوں کو فلم ، تفریح اور سنیما سے لگاؤ ہے انہیں واقعی یہ ایک بڑا خسارہ نظر آئے گا ۔ مانا جاتا ہے کہ دلیپ کمار ، نصیرالدین شاہ اور بلراج ساہنی جیسے اونچے ادا کاروں کی خوبیوں سے عرفان آراستہ تھا یعنی کردار کو اس طرح ادا کرتا تھا کہ اس میں زندگی دوڑا دیتا تھا ۔ اس کی ادا کاری اس کی اپنی تھی ، وہ نقالی کرنے میں بھروسہ نہيں رکھتا تھا اور زندگی کو بھی اپنی شرطوں کے مطابق جینا چاہتا تھا ۔
بحیثيت اداکار وہ اتنا اونچا تھا کہ آج ملکی سطح پر ہی نہیں عالمی سطح پر اس کے مرنے پر ایک غم کی کیفیت محسوس کی جارہی ہے ۔ بڑے بڑے لوگ مانتے ہیں کہ فلمی جگت ایک بڑی صلاحیت سے محروم ہوگيا ۔ فلم ، اداکاری ، فلم سازی سے متعلق ہماری جو ناپختہ ،کم تر جانکاری ہے اس اعتبار سےبھی عرفان ایک فطری ادا کار تھا اور اپنے کرافٹ میں کمال رکھتا تھا ۔ایک ایسے انسان کے مرجانے پر عام لوگوں کا افسوس ظاہر کرنا بالکل فطری ہے جو پچھلے کئی سالوں سے انہيں اپنی اداکاری سے محظوظ کررہا تھا ۔ یہ عام لوگ کسے کے لیے بھی آر آئی پی ، اللہ جنت الفردوس میں اعلا مقام دے اور اللہ روح کو شانتی دے جیسے دعائيہ جملے بول دیتے ہیں ۔ ان میں زيادہ تر لوگوں کو اس بات کی تمیز ہی نہيں ہوتی کہ کہاں کیا بولنا ہے اور کہاں کیا نہیں بولنا ہے ۔
جنت اور جہنم کا تعلق اخروی زندگی سے ہے اور یہ بات ادنی سے ادنی مسلمان بھی جانتا ہے کہ مغفرت کے لیے ایمان شرط ہے ۔ اعمال کی بڑی سے بڑی خرابی ایمان کے ہوتے ہوئے مغفرت کا دروازہ بند نہيں کرتی اس لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ مرنے والا مسلمان ہو ۔ اب اگر عرفان کی بات کریں تو وہ خود ہی کہہ چکا تھا کہ وہ کسی مذہب میں وشواس نہيں کرتا ، بلکہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی مذہب سے نہ جوڑنے کےلیے ہی یہ چاہتا تھا کہ اس کے نام کے ساتھ " خان " نہ لگے اور عرفان خان سے وہ عرفان ( را پر تشدید) بن گیا ۔مجھے جے این یو کی وہ محفل یاد ہے ، غالبا 2012 کی بات ہے ، اس نے بہت سی باتیں کی تھیں جن میں مذہب سے متعلق اس کا وہ فلسفہ بھی تھا جس کاذکرابھی ہوا ۔یعنی وہ خود کو مسلمان نہيں سمجھتا تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ جو خود کو مسلمان نہیں سمجھتا ہو اس کے لیے زبردستی مغفرت کی دعائیں کرکے اسے مسلمان بنانا بھی کوئی دانشمندی کی بات نہیں ۔ یہاں مثال کے طور پر جاوید اختر کو دیکھ سکتے ہیں ۔ جاوید اختر فلم جگت کے بہت بڑے آدمی ہیں ، وہ زبان و ادب کے بھی اتنے ہی بڑے انسان ہیں ، شاعری اور تاریخ سب پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن وہ مانتے ہیں کہ وہ ناستک ہیں ، مسلمان نہيں ہیں تو انہيں زبردستی مسلمان بنانا ہماری کہاں کی دانشمندی ہوگی ۔
ان سطور کے نہ لکھنے کا ارادہ تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی لیکن جب مدارس کے فارغین کو باہم دیگر عجیب وغریب انداز میں بحث کرتے دیکھا تو لگا کہ اتنی باتیں لکھی جانی چاہیے ۔ عام آدمی کا کچھ بھی کہ گزرنا مسئلہ نہيں ہوتا لیکن صاحبان فضیلت علما کرام کا اس قسم کے معاملات میں جوش میں آنا سمجھ سے پرے ہے ۔ عرفان کو اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہوتا تو آپ ہم سب مغفرت کی دعا کرتے۔ اسے اس سے انکار تھا تو ہم کیوں بے مطلب زبردستی اسے مسلمان کریں ، جو آدمی زندہ رہتے ہوئے اپنے فکرونظر پر قائم تھا ، مرنے کے بعد کیوں اس سے اس کا فلسفہ حیات چھینا جائے ؟
کسی کے بھی مرنے پر تکلیف ہوتی ہے ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے ۔ تکلیف ہونے میں مسئلہ نہیں لیکن مغفرت کی دعا سے قبل یہ حقیقت بہرحال سامنے رکھیے کہ عرفان کو اپنے مسلمان ہونے سے انکار تھا۔
مجھے ایک بات اور سمجھ میں نہیں آتی کہ کچھ لوگ جنہیں عرفان کی موت پر تکلیف ہوئی اور تکلیف کے اظہار کے لیے انہوں نے پوسٹ لکھنا ضروری سمجھا انہيں یہ کیوں لگتا ہے کہ بہر صورت وہ مولویوں کو ضرور اپنے یہاں گھسیٹ کر لائیں اور بحث ومناقشہ کا سلسلہ شروع کریں ۔ بھائی ، اگر آپ اس کو اس کے انکار کے باوجود زبردستی مسلمان سمجھ رہے ہیں اور مغفرت کی دعائیں کررہے ہیں تو کرتے رہیے لیکن یہ ضرورہے کہ آپ خود اس کے فکر وفلسفہ کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں ۔وہ نہیں مانتا اور آپ زبردستی منوارہے ہيں ۔ آپ اس اللہ سے اس کی مغفرت طلب کررہے ہیں جسے وہ مانتا ہی نہیں تھا تو سوچیے آپ کون سی عقلمندی کررہے ہیں ؟ پھر اللہ پاک کے رحم و کرم کی وسعت کا حوالہ دینے سے پہلے یہ بھی ضرور دیکھ لیجیے کہ اسی اللہ پاک نے ایمان کی شرط بھی رکھی ہے یا نہیں ۔ اگر ایمان کی شرط اسی اللہ پاک کی رکھی ہوئی ہے تو عمومی احادیث سے استدلال یقینی طور پر سکے کے صرف ایک رخ کو پیش کرنے جیسا ہوگا اور اس اعتبار سے تو دنیا کا کوئی بھی شخص وہ چاہے جتنا بڑا اللہ کا منکر ہو ، اس رحمت کا مستحق ٹھہرے گا ۔ایک فاحشہ کے ذریعہ کتے کو پانی پلانے اور سو آدمی کو قتل کرنے کے بعد بھی رحمت ومغفرت کے استحاق کو پیش کرنے سے قبل اس بات کا احساس رکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ دونوں مثالیں صاحبان ایمان کی ہیں ۔ اعمال کی بڑی سے بڑی خرابی ایمان کے ہوتے ہوئے اتنی اثر انداز نہیں ہوتی کہ آدمی مغفرت و رحمت سے مکمل محروم ہوجائے لیکن اگر ایمان سے انکار ہو تو مغفرت اور رحمت کے لیے جگہ چھوڑی کہاں گئی ؟اس نکتے پر غور کرنا بہت ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ عرفان کا یہ معاملہ پوشیدہ بھی نہیں ، وہ علی الاعلان اس انکار کا اظہار کرتا تھا ۔ اس لیے غیر ضروری فلسفہ طرازی کی بھی ضرورت نہیں ۔ اللہ ہمیں درست سمجھ دے ۔
No comments:
Post a Comment