Rozedar Ke Liye Jayez Kaam, Ramzan Me Miswak Karna, Roze Ki Halat Me Biwi Se Bosa Lena , Ramzan Me Khusboo Lagana, Janabat Me Subah Karna, Roza Me Injection, Roza Me Blood Nikalwana, Roze Ki Haalat Me Daanton Ki Safayi, Aankhon Me Ark Gulab
Rozedar Ke Liye Jayez Kaam, Ramzan Me Miswak Karna, Roze Ki Halat Me
Biwi Se Bosa Lena , Ramzan Me Khusboo Lagana, Janabat Me Subah Karna,
Roza Me Injection, Roza Me Blood Nikalwana, Roze Ki Haalat Me Daanton Ki
Safayi, Aankhon Me Ark Gulab
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
|
Rozedar Ke Liye Jayez Kaam, Ramzan Me Miswak Karna, Roze Ki Halat Me Biwi Se Bosa Lena |
درج ذیل چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
١ـ بھول کرکھانا اور پینا ۔
٢ـ بغیر مبالغہ کے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ۔
٣ـ دمہ کیلئے اسپرے کا استعمال ۔
٤ـ کان اور آنکھ میں قطرہ ڈالنے یا سرمہ لگانے سے ‘ ناک میں قطرہ ٹپکانے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔
٥ـ گردے کی صفائی ۔
٦ـ مسواک کرنا خواہ زوال سے پہلے ہویا زوال کے بعد بلکہ ہر وقت مسواک مستحب ہے ۔
٧ـ ٹیسٹ کیلئے خون دینا ۔
٨ـ ایسا انجشکن جو غذا کا کام نہ دیتا ہو ۔
٩ـ کھانا چھکنا بشرطیکہ حلق میں داخل نہ ہو۔
١٠ـ ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا ‘ لیکن پرہیز بہتر ہے ۔
١١ـ کلی کرتے وقت بغیر قصد کے حلق میں پانی چلے جانا ۔
درجہ ذیل چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
١ـ جان بوجھ کرکھانا اور پینا ۔
٢ـ جماع ( ہمبستری )
٣ـ قئے کرنا ‘ اگر قئے اپنے آپ آجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
٤ـ گلوکوز چڑھوانا ‘ یا ایسا انجکشن لینا جو کھانے پینے کا بدل ہو ۔
٥ـ پچھنا لگوانا ‘ اس حکم میں خون دینا بھی داخل ہے ۔
٦ـ شہوت سے منی کا خارج کرنا ۔
٧ـ عورت کو حیض یا نفاس کاخون آجانا ۔
روزوں کے درمیان ہونے والی غلطیاں
ذیل میں ان چند غلطیوں کا ذکر کیا جارہا ہے جنہیں لوگ جانے انجانے میںکئے جاتے ہیں ‘ ان سے بچا جائے تاکہ ہمارے روزے مقبول روزے ہوں : ـ
١ـ کھانے پینے کی چیزیں خریدنے میں مبالغہ سے کام لینا ۔
٢ـ رات ہی سے روزہ کی نیت نہ کرنا ۔
٣ـ فجر کی اذان کے وقت قصدا پانی پینا ۔
٤ـ بعض لوگوں کا رمضان المبارک کی اہمیت کو نہ سمجھنا اور عام دیگر مہینوں کی طرح اسکا استقبال کرنا ۔
٥ـ تراویح کی نماز چھوڑدینا ۔
٦ـ بعض لوگوں کا اپنے نابالغ بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کرنا ۔
٧ـ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ سے کام لینا ۔
٨ـ نیند کے بہانے بعض لوگوں کا ظہر اور عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنا ۔
٩ـ بہت سے لوگوں کا کپڑے اور مٹھائیاں وغیرہ خریدنے میں مشغول رہنا اور عبادت سے لاپرواہی برتنا ۔
▓ وہ اعمال جو روزہ دار کے لیے مباح (جائز ) ہیں
روزہ دار کے لیے درج ذیل امور جائز ہیں
☚ روزہ میں مسواک کا استعمال
مسواک کی فضیلت میں کئی دلائل ہیں۔
(1) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لو لا ان اشق علی امتی لاَمرتھم بالسواک عند کل وضو
” اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا تومیں انہیں ہروضوکےساتھ مسواک کرنےکاحکم دیتا۔“
(صحیح البخاری ، متفق علیہ )
(2) حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
السواک مطھرة للفم مرضاة فلرب
” مسواک منہ کی صفائی اور رب کی خوشنودی کا باعث ہے “
(صحیح بخاری ۔ نسائی )
� مسئلہ ; روزہ دار کے لیے مسواک کا کیا حکم ہے ؟
روزہ دار کے لیے مسواک کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔خواہ ظہر سے پہلے ہو یابعد میں۔اس کے دلائل یہ ہیں
(1) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لو لا ان اشق علی امتی لاَمرتھم بالسواک عند کل وضو
” اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا تومیں انہیں ہروضوکےساتھ مسواک کرنےکاحکم دیتا۔“
(صحیح البخاری ، متفق علیہ )
(2) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کےمتعلق مروی ہے کہ وہ روزہ دار کے لیے مسواک کو جائز سمجھتے تھے۔
( ابن ابی شیبہ ، بسند صحیح )
حضرت شیخ عبدالرحمٰن سعدیؒ سے پوچھا گیاکہ ”روزے کی حالت میں آدمی مسواک کرےتو مسواک کی حرارت اور ذائقہ محسوس کرے تو کیا یہ اسکے لیے نقصان دہ ہے۔یا اگر روزہ دار مسواک کرتا ہوامسواک کو باہر نکال لےاور اس پر تھوک ہو اور پھر دوبارہ منہ میں ڈالے تو کیا اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا ؟ انہوں نے فرمایا دونوں صورتوں میں اسکا روزہ صحیح ہوگا روزہ دار کے لیے مسواک کی اباحت ان تمام مسائل پر مشتمل ہے۔لہٰذا ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں۔
( الفتاوی السعدیہ ٢٢٩ )
جمہور(جن میں امام ابو حنیفہؒ ،امام شافعیؒ ،امام ثوریؒ اور امام اوزاعیؒ شامل ہیں) کے نزدیک روزہ دارکےلیے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور یہ اسی طرح مسنون و مستحب ہے جس طرح روزہ نہ ہونےکی صورت میں ،خواہ اسے دن کے شروع کے حصہ میں کیا جائے یا آخری حصہ میں، اور وہ خواہ تر ہو یا خشک۔
☚ روزے میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال
منجملہ ان افعال کے جو روشہ دار کے لیے مباح ہیں ٹوتھ پیسٹ کا کرنا بھی ہے۔روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہےکہ جب بالاتفاق روزے دار کے لیے مسواک کرنا جائز ہے تو پھر ٹوتھ پیسٹ کرنے میں کیا امرمانع ہے۔ذائقہ تو دونوں میں ہی ہوتا ہے۔فرق صفاتنا ہے کہ مسواک کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور ٹوتھ پیسٹ کا ذائقہ خوش کن ہوتا ہے۔لیکن جو شخص ٹوتھ پیسٹ کے ذائقے کواپنے حلق میں اترنے سے باز نہیں رکھ سکتا تو وہ اس کے کرنے سے پرہیز کرے۔کیونکہ بلا شک وشبہہ ذائقے کا حلق کے راستے پیٹ میں جانا ،روزےکے مفسدات میں سے ہے۔جبکہ اکثریت اس بات کی قدرت رکھتی ہے کہ اس کے ذائقے کو پیٹ میں جانے سےروکے۔اس لیے روزے کی حالت میں اسے کرنےسے روزے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہی مسلک سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازؒ کا بھی ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں
لا حرج فی ذالک مع التحفظ عن ابتلاع شیءٍ منہ
اس میں نگلنے کے بچاؤ کےساتھ کوئی گناہ نہیں
(مجموع الفتاوی للسماحة الشیخ عبداعزیز بن عبداللہ بن بازؒ ،فتاوی الصیام٢٤٧/٤ ، دارلوطن،الریاض )
☚ روزے میں غسل کرنا
روزے کی حالت میں غسل کرنا (کسی بھی حالت کا) یا گرمی اور پیاس کی وجہ سے سر وغیرہ پر پانی ڈالنا جائز ہے۔
(الفتح الربّانی ٤٩/١٠ )
ابوبکر بن عبدالرحمٰن کسی صحابی سے روایت کرتےہیں
لقد رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعرج یصب علی راسہ الماء وھو صائم من العطش او من الحر
”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرج(ایک مقام ) میں روزے
کی حالت میں گرمی یا پیاس کی وجہ سےسر پر پانی ڈالتے دیکھا “
(سنن ابی داؤد ،کتاب الصیام باب الصیام یصب علیہ الماء من العطش ویبالغ فی الاستشاق )
اسکے علاوہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے
قد کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدرکہ الفجر فی رمضان وھو جنب من غیر حلم فیغتسل وبصوم
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صبح کرتےتھے۔اور یہ جنابت احتلام کے بغیر
ہوتی تھی اور آپؐ روزے سےہوتےتھے۔اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتےتھے“
(صحیح البخاری ،کتاب الصوم ، باب اغتسال الصائم.....صحیح مسلم
کتاب الصیام باب صحة صوم من طلع علیہ الفجر )
اسی طرح ڈبکی لگا کرکھلے پانی میں نہانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پانی پیٹ میں داخل نہ ہو ۔
” اللجنة الدائمة للبحوث العلمیہ والافتاء “ سے سوال کیا گیاکی
” کیا رمضان میں روزہ دار ظہر کے بعدگھر میں بنے حوض یا بڑےٹب میں نہا سکتا ہے؟ “
افتاء کمیٹی نے جواب دیا
” جی ہاں ! روزہ دار کے لیے نہانا جائز ہے۔اور اس کا روزے پر کوئی اثرنہیں پڑتا ،
صرف اس بات کا خیال کیا جائےکہ پانی پیٹ میں داخل نہ ہو۔کیونکہ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم سے روزہ کی حالت میں نہانا ثابت ہے۔“
( فتای الجنة الدائمة فتوی نمبر ٣٧٣٨ )
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ فرماتے ہیں 👇
روزے دار کے لے نہانا مباح ہے اوراس کا روزے پر کوئي اثر نہیں ۔
ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی مغنی میں کہتے ہیں :
روزے دارکے لیے نہانے میں کوئي حرج نہیں اس کا استدلال مندرجہ ذيل حدیث سے لیا جاسکتا ہے :
عائشہ اورام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کی وجہ سے جنبی ہوتے اوربعض اوقات فجر ہوجاتی توآپ روزہ رکھتے اورغسل کرلیتے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1926 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1109 )
اور ابوداود رحمہ اللہ تعالی اپنی سند کے ساتھ بعض صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ :
میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ روزے کی حالت میں گرمی یا پیاس کی شدت سے اپنے سرمیں پانی ڈال رہے تھے ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2365 ) علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابوداود میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔
صاحب عون المعبود کہتے ہیں :
اس حدیث میں دلیل ہے کہ روزے دار کےلیے جائز ہے کہ گرمی کی شدت کو کم کرنے کےلیے اپنےمکمل بدن یا جسم کے بعض حصہ پر پانی بہا سکتا ہے ، جمہور علماء کرام کا مسلک یہی ہے اورانہوں نے غسل واجب اورغسل مسنون اورمباح میں کوئي فرق نہيں کیا ۔ ا ھـ
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
روزے دار کے غسل کے بارہ میں باب : اورابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے روزے کی حالت میں اپنا کپڑا بھگوکر اپنے اوپر ڈالا ، اورامام شعبی حمام میں روزے کی حالت میں داخل ہوئے ۔۔۔ اور حسن رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ روزہ دار کے لیے کلی اور ٹھنڈک حاصل کرنے میں کوئي حرج نہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
قولہ : ( روزے دار کے غسل کرنے کا باب ) یعنی اس کے جواز کا بیان ۔
زین بن المنیر کا کہنا ہے کہ : اغتسال کا لفظ مطلق طور پر اس لیے ذکر کیا ہے اس میں غسل مسنونہ ، غسل واجب ، اورمباح ہرقسم کا غسل شامل ہوسکے ، گویا کہ اس روایت کی ضعف کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو علی رضي اللہ تعالی سے مروی ہے اورمصنف عبدالرزاق نے روایت کی ہے اوراس کی سند میں ضعف ہے :
جس میں روزے دار کو حمام میں داخل ہونے سے منع کیا گيا ہے ۔ ا ھـ
☚ روزے میں بیوی کا بوسہ لینا
جمہور ائمہ (جن میں امام ابوحنیفہؒ ، امام شافعؒؓ اور امام احمدبن حنبلؒ شامل ہیں ) کے نزدیک روزہ دارکےلیےروزےکی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینا یا اس سے لپٹنا جائز ہے۔ لیکن اگر اسے یہ اندیشہ ہو کہ وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے گا ( یعنی جماع یا انزال کا احتمال ہو ) تو اس کے لیے بوسہ لینا مکروہ ہے ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے
” ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےروزہ کی حالت میں بیوی سے لپٹنے
کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے اسے جازت دے دی۔پھر ایک دوسرے شخص
نے آکر یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فرما دیا۔جس شخص
کو آپؐ نےاجازت دی تھی وہ بوڑھا تھااورجس کومنع فرمایا تھا جو جوان تھا ۔“
(سنن ابی داؤد ، کتاب الصیام ، باب کراہیة اللشاب )
تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ کی حالت میں اپنی ازواج کا بوسہ لینا ثابت ہے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیا کرتےتھے اور آپؐ لپٹا بھی کرتے تھے۔
لیکن آپؐ کو اپنی خواہش پرتم سب کی نسبت زیادہ قابو تھا “
( صحیح البخاری ، الصوم باب المباشرت للصائم )
☚ جنابت کی حالت میں صبح کرنا
جنابت کی حالت میں صبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔خواہ جنابت کی یہ حالت جمع کی وجہ سے ہو یا احتلام کی وجہ سے ۔ اور خواہ روزہ فرض ہو یا نفلی ( التمہید لابن البر ٤٥/٢٢ ) ۔اسکی تائید میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے
قد کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدرکہ الفجر فی رمضان وھو جنب من غیر حلم فیغتسل وبصوم
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صبح کرتےتھے۔اور یہ جنابت احتلام کے بغیر
ہوتی تھی اور آپؐ روزے سےہوتےتھے۔اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتےتھے“
(صحیح البخاری ،کتاب الصوم ، باب اغتسال الصائم.....صحیح مسلم
کتاب الصیام باب صحة صوم من طلع علیہ الفجر )
☚ روزہ میں انجکشن
علاج کےلیے عام طورپرتین قسم کے انجکشن لگائے جاتے ہیں
(①) جلد میں لگانے والے انجکشن (subcutaneous)
(②) گوشت میں لگنے والے انجکشن (intramuscular)
(③) نس میں لگنے والےانجکشن (intravanous )
ان تینوں اقسام میں اگرغذائی ادویہ استعمال نہ ہوں تویہ مباح ہیں۔ان کے دلائل یہ ہیں
1/ جب تک روزےکےبطلان پرواضح دلیل نہ مل جائے روزہ صحیح ہوگا۔
2/ ان کو کھانےپینے والی اشیاء میں شمار نہیں کیا جاتا۔
اللجنة الدائمة اللبحوث العلمیة والافتاء سے سوال کیاگیا
رمضان میں انجکشن لگوانے کا کیا حکم ہے ؟ خواہ وہ طاقت کےلیے ہو یا علاج کے لیے۔
انہوں نے جواب دیا ” روزہ دار کے لیے رمضان میں انجکشن کے ذریعے علاج کروانا
درست ہے۔لیکن طاقت کے انجکشن استعمال نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ طاقت کے انجکشن
کھانے پینے کے حکم میں ہیں۔اگریہ رات کواستعمال کرلیےجائیں تو بہتر بات ہے ۔
شاگر کےمریض کو دیا جانے والا انجکشن بھی ناقص روزہ نہیں ہے۔کیونکہ یہ جلد میں لگنےوالاانجکشن ہے۔
https://www.facebook.com/groups/490657937801649/permalink/1409736075893826/
☚ گردوں کی صفائی (dialysis)
گردوں کی صفائی دو طرح سے کی جاتی ہے
(①) آلہ کےذریعے جس میں خون داخل کیا جاتا ہے۔اور وہ آلہ خون کی صفائی کرتا ہے۔پھرخون رگ کےذریعے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے۔اوراس دوران مریض کو کچھ غذائی مواد کی بھی ضرورت پڑتی ہےجسےبذریعہ نس دیا جاتا ہے۔
(②) ایک چھوٹی بوتل ناف کےاوپرپیٹ میں داخل کردی جاتی ہے۔اورپیٹ میں تقریبًا دو لیٹرگلوکوز داخل کر دیاجاتا ہے جو کچھ عورصہ بعد نکال کر دوبارہ ڈالا جاتا ہے۔اور اس عمل کودن میں کئی مرتبہ دوہرایا جاتا ہے۔
ان طریقہ کارکےلیے شرعئی حکم یہ ہے کہ یہ ناقصِ روزہ ہیں ۔کیونکہ خون کی صفائی میں جدید اجزاء اور غذائی مواد کا ملنا کھانے پینے کے مشابہ ہے۔ہاں اگر بغیر غذائی اجزاء کےیہ عمل ہو تواس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔لیکن گردوں کے دھونے میں غذائی مواد اور نمکیات وغیرہ کا استعمال ضروری ہے۔
☚ روزہ میں خون کا عطیہ دینا (blood donation )
خون کاعطیہ دینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔کیونکہ اس کا کھانے پینے والی اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اور نہ اسے سینگی لگانے پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ سینگی میں جو بات پائی جاتی ہےوہ خون کے عطیہ میں نہیں ہے
شیخ ابن بازؒ سے سوال کیا گیا کہ
” رمضان میں روزہ دارکے لیے لیبارٹری ٹیسٹ(blood sample ) کے
لیےایک سرنج برابرخون نکالنے کاکیاحکم ہے ؟ “
شیخ ابن بازؒ نےفرمایا اس طرح خون لینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔
کیونکہ یہ ایک ضرورت کے تحت ہے۔اور شریعت مطہرہ میں معلوم
روزہ توڑنے والی اشیاء سےاس کا کوئی تعلق نہیں ہے
(مجموع الفتاوی ابن بازؒ ٢٧٤/١٥ )
☚ دل کی بیماریوں کےلیےزبان کےنیچےرکھنےوالی ٹکیاں
دل کی بعض بیماریوں کے لیے زبان کے نیچے ٹکیاں رکھی جاتی ہیں جوفورًا منہ میں تحلیل ہوجاتی ہیں اور دل کی بیماریاں کنٹرول کی جاتی ہیں ۔انکےلیےشرعئی حکم یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں ان کا استعمال جائز ہے۔یہ ناقص روزہ نہیں ہیں۔کیونکہ ان میں سے کوئی بھی چیز پیٹ میں داخل نہیں ہوتی۔بلکہ منہ میں ہی تحلیل ہوکراپنا کام پورا کردیتی ہیں۔
(مجمع فقہ الاسلامی قرار نمبر ٩٣ )
☚ روزہ میں دانتوں کی صفائی،بھرنا یا نکلوانا
دانتوں کی صفائی، بھروانا یا دانت نکلوانا روزہ کی حالت میں جائز ہے۔اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔مگر شرط یہ ہے کہ اس سے نکلنےوالاخون حلق سے نیچے نہ اترے ۔لیکن ان اعمال کو رات تک مئوخر کرلینا افضل ہے۔شیخ ابن بازؒ سےپوچھاگیا
” اگرانسان بحالت روزہ دانت میں تکلیف محسوس کرےاور چیک کروانے پرڈاکٹر اسکے
دانتوں کی صفائی کردے ،بھر دےیا دانت نکال دےتوکیا اسکے روزےپراثرانداز ہوگا؟
اوراگراسکےدانت کوسن کرنےکےلیےانجکشن لگائےتواسکاکیاحکم ہے ؟ “
انہوں نےجواب دیا
” سوال میں جوکچھ کہاگیا ہے اس کا روزہ کےصحیح ہونے پرکوئی اثرنہیں بلکہ وہ معاف ہے ۔
اور مریض کوچاہیے کہ وہ خون یا دوا کونگلنے سے پرہیز کرے۔اور دانت کو سن کرنے کے
لیے لگائے جانے والے انجکشن کا بھی روزہ کی صحت پرکوئی اثر نہیں۔کیونکہ وہ کھانے پینے
والی اشیاء کی قبیل سے نہیں ۔اصل یہ کہ روزہ درست و صحیح ہے “
سلیمان بن محمدبن سلیمان العصیان حفظ اللہ
احکام الصیام
محمد آصف احسان الباقی
احکام الصیام
☚ رزوہ میں خوشبو لگانا
رزوہ میں خوشبو لگانے کے بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ صالح المنجد لکھتے ہیں:
الحمد للہ
رمضان المبارک میں خوشبواستعمال کرنا جائز ہے ، اوراس کے استعمال سے روزہ فاسد نہيں ہوتا ۔ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے کہ :
( مطلقاخوشبو وہ عطر ہو یا دوسری روزے کو فاسد نہیں کرتیں رمضان ہویا غیر رمضان روزہ نفلی ہو یا فرضی اس پر کچھ اثرنہیں ہوتا ) ا ھـ
اورایک دوسرے فتوی میں لجنۃ کا کہنا ہے :
( جس نے کسی بھی قسم کی خوشبوروزے کی حالت میں استعمال کی اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا ، لیکن اسے دھونی خوشبوکا پاوڈر نہيں سونگنا چاہیے مثلا کستوری پاوڈر ) ا ھـ
دیکھیں اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 271 ) ۔
اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
روزے دار کے لیے دن کے شروع اورآخر میں خوشبو استعمال کرنی جائز ہے چاہے وہ دھونی ہو یا تیل کی شکل وغیرہ میں ، لیکن دھونی سونگنا جائز نہيں کیونکہ اس کے محسوس اورمشاھد اجزاء ہیں جن کے سونگنے سے وہ معدہ میں داخل ہوتےہیں ، اوراسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لقیط بن صبرہ رضي اللہ تعالی عنہ کو فرمایا تھا :
( ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کیا کرو لیکن روزے کی حالت میں مبالغہ نہ کرو ) ا ھـ
دیکھیں : فتاوی ارکان الاسلام صفحہ ( 469 ) ۔
☚ روزہ کی حالت میں مذی خارج ہو، یا احتلام ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’روزہ کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے ٹوٹتاہے، جسم سے خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا ۔‘‘
[بخاری، تعلیقا، قبل الحدیث: ۱۹۳۸]
☚ حالت روزہ میں سر پر تیل لگانا اور کنگھی کرنا جائز ہے۔
[بخاری، تعلیقا، قبل الحدیث: ۱۹۳۰]
☚ روزہ دار کے لیے سرمہ استعمال کرنا جائز ہے۔
[ابوداؤد: ۲۳۷۹]
☚ اگر ہنڈیا یا کسی اور چیز کاذائقہ چکھ لیا جائے، بشرطیکہ وہ چیز حلق سے نیچے نہ جائے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
اس میں کوئی حرج نہیں۔
[بخاری، تعلیقا، قبل الحدیث: ۱۹۳۰]
☚ منہ میں موجود اپنا تھوک نگل لینے سے، یا مکھی کے حلق میں داخل ہو جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کیوں کہ ان چیزوں سے روزہ ٹوٹنے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
↰ سینگی یا پچھنے لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام اور روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔
[بخاری: ۱۹۳۸، ۱۹۳۹]
☚ حالت جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھ لینا اور بعد میں غسل کرنا جائز ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ فجر ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے ساتھ صحبت کی وجہ سے جنبی ہوتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے ہیں اور آپ روزے سے ہوتے تھے۔
[بخاری: ۱۹۲۵، ۱۹۲۶۔ مسلم: ۱۱۰۹، ۱۱۱۰]
☚ اگر کسی شخص کو روزے کی حالت میں خود بخود قے آ جائے ، تو اس کا روزہ صحیح ہے قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس کی دلیل حدیث مبارکہ میں ہے کہ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص کو خود بخود قے آ جائے تو اس پر قضا نہیں ہے، لیکن جو عمداً قے کرے وہ قضا دے)
ترمذی: (720)
اس روایت کو البانی نے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔
خود بخود قے آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
[البیھقی: ۴/ ۲۱۹۔ ابن ابی شیبہ: ۳/ ۳۸]
☚ امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ناک میں دوا (وغیرہ) ڈالنے میں، اگر وہ حلق تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
[بخاری، بعد الحدیث: ۱۹۳۴]
☚ اس شخص کا حکم جسكو رمضان المبارك ميں اٹھائيس يوم تك نكسير آتى رہے :
اگر تو معاملہ وہى ہے جو آپ نے بيان كيا ہے تو آپ كا روزہ صحيح ہے؛ كيونكہ آپ كو نكسير ميں كوئى اختيار نہيں تھا اور وہ خود ہى آئى ہے اس ليے اس كے وجود پر آپ كا روزہ نہيں ٹوٹا اس كى دليل شريعت اسلاميہ كى آسانى ہے.
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
’’ اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا ‘‘البقرۃ : 286 )
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ بھى فرمان ہے:
’’ اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى نہيں كرنا چاہتا ‘‘ (المآئدۃ :6 )
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمت نازل فرمائے "( فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 264 - 265 )
اور مستقل كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:
" اگر كسى شخص كے اختيار كے بغير روزے كى حالت ميں نكسير پھوٹ جائے تو اس كا روزہ صحيح ہے "( فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 267 )
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد : 2 / کتاب الصلوۃ
☚ روزے میں دمہ کے مریض کا انہیلر استعمال کرنا
ان ہیلر استعمال کرنے سے کوئی چیز معدے تک نہیں پہنچتی، لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ روزے کی حالت میں ان ہیلر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کیونکہ اس کے استعمال سے دوائی کے اجزا معدہ تک نہیں پہنچتے اس بناء پر کہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جو اڑ جاتی، دھواں بنتی اور ختم ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی جز معدے تک نہیں پہنچتا، لہٰذا حالت روزہ میں اسے استعمال کرنا جائز ہے، اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ387
☚ آنکھوں میں عرق گلاب ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟؟؟
مشہور سعودی مفتی علامہ محمد بن صالح العثیمین کا فتوی
قال الشيخ ابن عثيمين :
وذهب شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله : إلى أن الكحل لا يفطر ولو وصل طعم الكحل إلى الحلق ، وقال إن هذا لا يسمى أكلاً وشرباً ، ولا بمعنى الأكل والشرب ، ولا يحصل به ما يحصل بالأكل والشرب ، وليس عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث صحيح صريح يدل على أن الكحل مفطر ، والأصل عدم التفطير ، وسلامة العبادة حتى يثبت لدينا ما يفسدها ، وما ذهب إليه رحمه الله هو الصحيح ولو وجد الإنسان طعمه في حلقه ، ويناءً على ما اختاره شيخ الإسلام لو أنه قطر في عينيه وهو صائم فوجد الطعم في حلقه فإنه لا يفطر بذلك )
الشرح الممتع ( 6 / 382 ) .
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ سرمہ روزہ کو ختم نہیں کرتا اگرچہ وہ حلق میں بھی چلا جائے اور ان کا کہنا ہے کہ اسے نہ تو کھانے اور پینے کا نام دیا جاتا ہے اور نہ ہی یہ ان دونوں کے معنی میں آتا ہے اور پھر اس سے نہ ہی وہ چیز حاصل ہوتی ہے جو کھانے پینے سے حاصل ہوتی ہو ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بھی صریح اور واضح حدیث نہیں ملتی جو کہ اس پر دلالت کرتی ہو کہ سرمہ روزہ توڑنے والی اشیاء میں داخل ہے ۔
تو اس مسئلہ میں صحیح بات یہی ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ عبادت اس وقت تک صحیح وسلامت ہے جب تک کہ ہمارے لۓ فاسد کرنے والی کوئی چیز ثابت نہ ہوجائے ۔
اور جس مسلک کی طرف شیخ الاسلام رحمہ اللہ گۓ ہیں وہ ہی صحیح ہے اگرچہ انسان اس کا ذائقہ اپنے حلق میں محسوس ہی کیوں نہ کرے ۔
تو اس بنا پر جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نے اختیار کیا ہے اگر روزہ دار اپنی آنکھ میں قطرے ڈالے اور اس کا ذائقہ اپنے حلق میں محسوس کرے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔
دیکھیں کتاب : الشرح الممتع جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 382
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه