NIKAH ke liye Haque Maher kitni Jaruri Hai
حق مہر کی ادائیگی نکاح کی شرائط میں سے ایک ہے لیکن حق مہر معجل اور غیر معجل یعنی مؤجل دونوں طرح ہو سکتا ہے یعنی نکاح کے موقع پر بھی دیا جا سکتا ہے اور زوجین کی باہمی رضامندی سے بعد میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ پس حق مہر شوہر کے ذمہ قرض رہتا ہے جو وقت مقررہ یا عند الطلب یعنی بیوی کے مطالبہ کے وقت واجب الادا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 2 کتاب الصلوۃ
وہ حق مہر جو موقع پر ادا کردیاجائے اسے معجل یا غیر موجل کہتے ہیں اور جسے آئندہ کسی وقت ادا کرنا ہو اسے غیر معجل یا موجل کہا جاتا ہے حق مہر کے متعلق ہمارا معاشرہ بہت افراط وتفریط کاشکار ہے،حالانکہ اس کےمتعلق قرآن وحدیث کے واضح احکام موجود ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَءاتُوا النِّساءَ صَدُقـٰتِهِنَّ نِحلَةً فَإِن طِبنَ لَكُم عَن شَىءٍ مِنهُ نَفسًا فَكُلوهُ هَنيـًٔا مَريـًٔا ﴿٤﴾... سورةالنساء
"اور عوتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو"
اس آیت کریمہ میں حق مہر کی ادائیگی کے متعلق تاکید کی گئی ہے کہ ان کے حق مہر برضاء ورغبت پورے کے پورے ادا کر دیے جائیں،ہاں اگر وہ از خود بلاجبرواکراہ ا پنی خوشی سے پورا حق مہر یا اس کاکچھ حصہ چھوڑدیں تو وہ خاوند کے لیے حلال وطیب رزق ہے لیکن ان کا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرانے میں ہیرا پھیری سےہرگز کام نہ لیا جائے،ہمارے رجحان کے مطابق نکاح فارم پر معجل اور موجل کی اصطلاح حق مہر پر شب خون مارنے کا ایک چوردروازہ ہے کیونکہ شادی پر دیگر اخراجات کی مد میں لاکھوں روپیہ خرچ کردیاجاتاہے مگر جب حق مہر کی باری آتی ہے تو شرعی حق مہر کا سہارا لے کر سوا بتیس روپے یا اس سے کم وبیش باندھاجاتا ہے۔یا تھوڑی سی رقم موقع پر ادا کردی جاتی ہے اور جھوٹی عزت بحال رکھنے کے لیے لاکھوں حق مہر موجل کردیا جاتاہے،پھر مختلف حیلوں بہانوں سے اسے معاف کرالیاجاتاہے،حالانکہ شریعت میں اس قسم کی گنجائش نہیں ہے حق مہر کو لڑکی پر دباؤ ڈال کرمعاف کرانا غلط اور گناہ کی بات ہے۔اگر وہ از خود کسی قسم کے دباؤ کے بغیر معاف کردے تو اور بات ہے،یہ بات دیکھنے کے لیے کہ وہ خوشی سے معاف کررہی ہے،یہ طریقہ اختیار کیاجائے کہ طے شدہ حق مہر اس کے حوالے کردیاجائے پھر وہ اگر اپنی خوشی سے واپس کردےتو اسے استعمال میں لایا جاسکتاہے،بہرحال حق مہر بیوی کاخاوند کے ذمے ایک فرض ہے جسے بہر صورت ادا کرنا چاہیے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَا استَمتَعتُم بِهِ مِنهُنَّ فَـٔاتوهُنَّ أُجورَهُنَّ فَريضَةً ...﴿٢٤﴾... سورةالنساء
"جن عورتوں سے تم(شرعی نکاح کے بعد) فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا حق مہر ادا کرو۔"
شادی کے موقع پر جہاں دیگر اخراجات پورے کیے جاتے ہیں وہاں حیثیت کے مطابق حق مہر باندھ کر اسے فوراً ادا کردیا جائے،معجل اور غیر موجل کی اصطلاح سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی بیوی پر دباؤ ڈال کر اسے معاف کرایا جائے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد3۔صفحہ نمبر 343
فقط واللہ تعالیٰ علم
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 2 کتاب الصلوۃ
وہ حق مہر جو موقع پر ادا کردیاجائے اسے معجل یا غیر موجل کہتے ہیں اور جسے آئندہ کسی وقت ادا کرنا ہو اسے غیر معجل یا موجل کہا جاتا ہے حق مہر کے متعلق ہمارا معاشرہ بہت افراط وتفریط کاشکار ہے،حالانکہ اس کےمتعلق قرآن وحدیث کے واضح احکام موجود ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَءاتُوا النِّساءَ صَدُقـٰتِهِنَّ نِحلَةً فَإِن طِبنَ لَكُم عَن شَىءٍ مِنهُ نَفسًا فَكُلوهُ هَنيـًٔا مَريـًٔا ﴿٤﴾... سورةالنساء
"اور عوتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو"
اس آیت کریمہ میں حق مہر کی ادائیگی کے متعلق تاکید کی گئی ہے کہ ان کے حق مہر برضاء ورغبت پورے کے پورے ادا کر دیے جائیں،ہاں اگر وہ از خود بلاجبرواکراہ ا پنی خوشی سے پورا حق مہر یا اس کاکچھ حصہ چھوڑدیں تو وہ خاوند کے لیے حلال وطیب رزق ہے لیکن ان کا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرانے میں ہیرا پھیری سےہرگز کام نہ لیا جائے،ہمارے رجحان کے مطابق نکاح فارم پر معجل اور موجل کی اصطلاح حق مہر پر شب خون مارنے کا ایک چوردروازہ ہے کیونکہ شادی پر دیگر اخراجات کی مد میں لاکھوں روپیہ خرچ کردیاجاتاہے مگر جب حق مہر کی باری آتی ہے تو شرعی حق مہر کا سہارا لے کر سوا بتیس روپے یا اس سے کم وبیش باندھاجاتا ہے۔یا تھوڑی سی رقم موقع پر ادا کردی جاتی ہے اور جھوٹی عزت بحال رکھنے کے لیے لاکھوں حق مہر موجل کردیا جاتاہے،پھر مختلف حیلوں بہانوں سے اسے معاف کرالیاجاتاہے،حالانکہ شریعت میں اس قسم کی گنجائش نہیں ہے حق مہر کو لڑکی پر دباؤ ڈال کرمعاف کرانا غلط اور گناہ کی بات ہے۔اگر وہ از خود کسی قسم کے دباؤ کے بغیر معاف کردے تو اور بات ہے،یہ بات دیکھنے کے لیے کہ وہ خوشی سے معاف کررہی ہے،یہ طریقہ اختیار کیاجائے کہ طے شدہ حق مہر اس کے حوالے کردیاجائے پھر وہ اگر اپنی خوشی سے واپس کردےتو اسے استعمال میں لایا جاسکتاہے،بہرحال حق مہر بیوی کاخاوند کے ذمے ایک فرض ہے جسے بہر صورت ادا کرنا چاہیے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَا استَمتَعتُم بِهِ مِنهُنَّ فَـٔاتوهُنَّ أُجورَهُنَّ فَريضَةً ...﴿٢٤﴾... سورةالنساء
"جن عورتوں سے تم(شرعی نکاح کے بعد) فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا حق مہر ادا کرو۔"
شادی کے موقع پر جہاں دیگر اخراجات پورے کیے جاتے ہیں وہاں حیثیت کے مطابق حق مہر باندھ کر اسے فوراً ادا کردیا جائے،معجل اور غیر موجل کی اصطلاح سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی بیوی پر دباؤ ڈال کر اسے معاف کرایا جائے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد3۔صفحہ نمبر 343
فقط واللہ تعالیٰ علم
No comments:
Post a Comment