شیخ.. قنوت میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں وضاحت مطلوب ہے....؟
الجواب بعون رب العباد:
******
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
****
قنوت وتر میں دعاء کے لئے ہاتھ اٹھانا:
جمہور اہل علم اس چیز کے قائل ہیں کہ قنوت میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔
انکا کہنا کہ دعاء میں اصل میں ہاتھ اٹھانا ہی ثابت ہے جیساکہ نبی علیہ السلام نے قنوت نازلہ وغیرہ میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
امام عبد الرزاق نے امام ثوری سے انہوں نے منصور سے انہوں نے مغیرہ سے انہوں نے ابراھیم سے وہ فرماتے ہیں کہ قراءت کے بعد وتر میں تکبیر کہی جائے پھر ہاتھ اٹھائے جائیں اور بلند آواز سے دعاء پڑھی جائے۔[مصنف عبد الرزاق122/3]۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فعل ذکر کیا ہے کہ وہ قنوت میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ ۔ ۔[جزء رفع اليدين68]۔
ابورافع بیان کرتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی انہوں نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی اور ہاتھ اٹھاکر جھرا دعاء کی۔[السنن الكبرى للبيهقي ، امام بیھقی رحمہ اللہ نے اس اثر کو صحیح قرار دیا ہے]۔
ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ قنوت میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے ، اسود بیان کرتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ قنوت میں ہاتھ اٹھاکر دعا پڑھتے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ دونوں اثار کو صحیح اسانید کے ساتھ کتاب رفع الیدین میں ذکر کیا ہے۔
پہر آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ تمام احادیث نبی علیہ السلام اور انکے صحابہ کرام سے صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہیں۔[المجموع490/3]۔
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہ کرام رضوان عنھم کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ قنوت میں ہاتھ اٹھاتے تھے جیساکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔[السنن الكبرى للبيهقي211/2].
اکثر محدثین وفقہاء نے حدیث انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے استدلال کیا ہے کہ قنوت میں ہاتھ اٹھانا جائز اور مشروع ہے۔
یعنی قنوت نازلہ اور قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔
حدیث انس رضی اللہ عنہ۔[مسند أحمد بإسناد صحيح]۔
امام احمد بن حبنل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ قتوت رکوع کے بعد پڑھی جائے یا رکوع سے پہلے اور کیا قنوت وتر میں ہاتھ اٹھائے جائیں کہ نہیں؟
امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھی جائے اور اس میں ہاتھ بھی اٹھائے جائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔[مختصر قيام الليل318]۔
ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد سے سوال کیا گیا کہ قنوت میں ہاتھ اٹھائے جائیں کہ نہیں؟
انہوں نے فرمایا کہ ہاں مجھے ہاتھ اٹھانا پسند ہے۔
ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو قنوت میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔[مسائل الإمام أحمد لأبي داود ص 66]۔
اثرم فرماتے ہیں کہ امام احمد قنوت میں اپنے ہاتھ سینہ تک اٹھاتے تھے کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اپنے دونوں ہاتھ قنوت میں اٹھاتے تھے۔[المغني584 / 2 ، الانصاف172/2].
ابن مفلح فرماتے ہیں کہ امام احمد قنوت وتر میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔[الفروع540/1]۔
امام بیھقی رحمہ نے عبد اللہ بن مبارک کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ قنوت رکوع کے بعد پڑھتے تھے اور دعاء کے لئے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔[السنن الكبرى212/2]۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا مشروع ہے کیونکہ یہ بھی دعاء کے جنس میں سے ہے کیونکہ نبی علیہ السلام سے ثابت ہے کہ وہ قنوت نوازل میں دعاء کرتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے ، جیساک امام بیھقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی سنن میں لایا ہے۔[349/1]۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا مشروع ہے کیونکہ نبی علیہ السلام سے ثابت ہے کہ وہ قنوت نوازل میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ وہ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین میں سے ایک تھے ہمیں انکی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔[136/14]۔
امام احمد رحمہ اللہ نے قنوت میں ہاتھ اٹھانے کو مشروع قرار دیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔[المجموع للنووي رحمه الله ج3/ ص نمبر:499 ، 500].
شیخ البانی رحمہ اللہ بھی قنوت میں ہاتھ اٹھانے کے قائل ہیں۔[صفة صلاة النبي عليه الصلاة والسلام ص نمبر:957].
تنبيہ:اگرچہ کسی نص صریح سے ثابت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ السلام نے وتر میں قنوت میں ہاتھ اٹھایا ہے لیکن نبی علیہ السلام نماز خسوف قنوت نازلہ وغیرہ میں دعاء کرتے وقت ہاتھ اٹھایا ہے اور قنوت وتر بھی دعاء کے جنس میں سے ہے اسلئے قنوت میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہےاور بہت سے صحابہ مثلا عمر بن خطاب ، ابن مسعود ، ابوھریرہ ، ابن عباس رضی اللہ عنھم ، اسی طرح امام نخعی ، ثوری ، امام احمد ، امام اسحاق ، امام مالک ، امام اوزاعی اور ائمہ
شوافع ائمہ حنابل ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف ابن باز ، ابن عثیمن رحمهم الله جمیعا بھی اس چیز کے قائل ہیں کہ قنوت وتر میں دعاء کرتے وقت ہاتھ اٹھایا جائے۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[الإنصاف للمرداوي 123/2 ، الإقناع للحجاوي 147/1 ، مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني ، ص: 66)، مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله ، ص: 95، المغني لابن قدامہ 113/2 ، فتح القدير للكمال ابن الهمام 430/1 ، الإشراف273/2 ، مجموع فتاوى ابن باز51/30 ، جموع فتاوى ورسائل العثيمين ج 14/ ص نمبر:136، 137]۔
وجہ استدلال: دعاء میں ہاتھ اٹھانا مشروع ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا مشروع ہے۔[فتح الباري لابن رجب 424/6]۔
دلیل:4- عن سلمانَ الفارسيِّ رَضِيَ اللهُ عنه، عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، قال: إنَّ اللهَ حييٌّ كريم؛ يَستحيي إذا رفَعَ الرجُلُ إليه يَديهِ أن يَردَّهما صفرًا خائِبتَينِ۔[رواه أبو داود 1488 ، الترمذي في سننه 3556 ، وابن ماجه في سننه نمبر:3865، مسند أحمد 438/5 ، 23765. امام ذھبی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے دیکھئے:كتاب العرس59 ، علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے الأمالي الحلبية 126/1 ، العدة على الإحكام 36/3 ، امام صنعانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو جید کہا ہے ، علامی ابنُ باز رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہےفتاوى نور على الدرب156/9 ، صحيح سنن الترمذي نمبر:3556]۔
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ جب بندہ دعاء کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ کو حیاآتی ہے کہ بندہ ناامید لوٹے۔
اس حدیث سے علماء حدیث نے استدلال کیا ہے کہ قنوت وتر میں دعاء کرنا بھی دعاء ہے لہذا اس میں ہاتھ اٹھانا مشروع ہے۔[احكام الأحكام لابن دقيق العيد (ص: 122]۔
ایک اور دلیل یہ بھی کہ بہت سے صحابہ نے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھائے ہیں جیساکہ امام بیھقی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔[السنن الكبرى211/2]۔
خلاصہ کلام:قنوت وتر میں دعاء کرتے وقت ہاتھ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
Home »
Deeni Mashail
» Kanut Ya witir ( وتر ) Me Dua ke Liye Hath Uthana.
No comments:
Post a Comment