find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Maa Baap ya Kisi Bujurg Ya Peer Ke Aage Jhookna Kaisa Hai?

Kya Kisi Bujurg,wali,Peer,Darwesh,Kalander,Aalim,Dost, Rishtedar,Waldain,Ustaad,Ajeez Rishtedar ke Liye Jhookna (Sajda) karna Jayez Hai❓❔❓❔ 

سوال_ کیا سلام کہتے وقت کسی عالم/ بزرگ یا پیر کے لیے جھکنا؟ یا کسی قبر پر تعظیمی سجدہ کرنا جائے ہے؟

جواب۔۔!
آج صبح سے سوشل میڈیا پر جنگ چھڑی ہوئی کہ جب عمران خان نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکپتن دربار پر حاضری دی اور دروازے پر ہی سجدہ ریز ہو گئے، کچھ لوگ کہتے یہ جائز اور کچھ کہتے جائز نہیں*
*یہ بات یاد رہے کہ مسئلہ صرف عمران خاں کا نہیں، ہمارے پاکستانیوں کی اکثریت یہ کام کرتی ہے اور خاص کر قوم کے لیڈر، وہ نواز لیگ ہو یا شہباز  یا زرداری سب اسں میں شامل ہیں*
آئیے ہم شرعی نقطہ نظر سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اسلام ہمیں اس بارے کیا حکم دیتا ہے،
انس بن مالک رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ایک آدمی نے پوچھا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،
ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے؟
آپﷺ نے فرمایا: ”نہیں“
اس نے پھر پوچھا: کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے؟
آپﷺ نے فرمایا: ”نہیں“،
اس نے پھر پوچھا : تو کیا وہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے؟
آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں“
( بس اتنا ہی کافی ہے ) امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔
(سنن ترمذی, حدیث نمبر-2728)
ضروری وضاحت_
[اس حدیث میں جو معانقہ یعنی گلے ملنے سے منع کیا گیا ہے وہ ہر بار ملنے سے منع کیا گیا ہے، اگر کوئی دور سے آتا ہے یا کچھ عرصہ بعد ملتا ہے تو گلے لگانا بھی جائز ہے، اس بارے بہت ساری احادیث موجود ہیں،]
جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
اے معاذ! یہ کیا ہے؟
انہوں نے کہا: میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نہیں، ایسا نہ کرنا،
اس لیے کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کر لے، اور اگر شوہر عورت سے جماع کی خواہش کرے، اور وہ اونٹ کے کجاوے پر سوار ہو تو بھی وہ شوہر کو منع نہ کرے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1853)
قیس بن سعد رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ آیا،(حیرہ کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے) تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے،
میں جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں نے حیرہ شہر میں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا،
تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں،
آپ ﷺ  فرمایا: بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟
وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں،
آپ ﷺ نے فرمایا: تم ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔۔۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر،2140)
انصاری صحابہ کا ایک اونٹ بپھر گیا جس سے وہ پانی کھینچتے تھے کنویں سے،تو انہوں نے
نبی اکرمﷺ سے گزارش کی،
آپ ﷺاونٹ کی طرف جانے لگے تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول یہ تو کتے کی طرح کاٹتا ہے،یہ آپکو نقصان پہنچائے گا، آپ نے فرمایا مجھے کچھ نہیں کہتا،جب آپ ﷺ اسکے قریب گئے، اونٹ کی نظر آپ پر پڑی تو اس  نے اپنا سر آپکے قدموں میں رکھ دیا،
تو صحابہ کہنے لگے کہ یہ تو نا سمجھ جانور ہے اور آپکو سجدہ کر رہا ہے اور ہم سمجدار انسان ہیں تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ہم آپکو سجدہ کریں؟
آپﷺ نے فرمایا، نہیں،
کسی انسان کا انسان کو سجدہ کرنا جائز نہیں،اگر بشر کا بشر کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ اسکا بہت زیادہ حق ہے اپنی بیوی پر،
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر شوہر کے پاؤں سے لیکر سر کے بالوں تک زخم ہوں اور ان میں پیپ ریشہ بھرا ہو،
بیوی اس ریشے کو منہ سے چاٹ کر صاف کرے پھر بھی شوہر کا حق ادا نہیں ہوتا،
(مسند احمد، حدیث نمبر_12614)صحیح لغیرہ، علامہ البانی نے اسکی سند کو جید کہا ہے،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ،
رسول اللہ ﷺ انصاریوں کے کسی باغ میں داخل ہوئے تو وہاں دو اونٹ  لڑ رہے تھے اور کانپ رہے تھے،
آپ ان کے قریب ہوئے  تو ان دونوں نے اپنی گردنیں زمین پر ٹکا دی، آپ ﷺ کے ساتھ موجود لوگ کہنے لگے: "اونٹ آپ کو سجدہ کر رہے ہیں"
اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کسی کو کسی کیلیے سجدہ کرنا اچھی بات نہیں ہے، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔۔۔!
(صحیح ابن حبان،حدیث نمبر،4162)
اس حدیث کو البانی نے "ارواء الغلیل" (7/54) میں حسن قرار دیا ہے۔
ایک روایت میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا،
لو كنت آمرا بشرا يسجد لبشر، لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها،
اگر میں بشر (انسان) کا انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میںً عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔۔۔۔
(مسند احمد، حدیث نمبر-21986) صحیح لغیرہ،
*قبر یا دربار وغیرہ کو چومنا یا سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں،*
عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا ”میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔“
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1597)
اس حدیث سے یہ صاف سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے جان  پتھر کو نہیں سنا رہے تھے بلکہ مقصد لوگوں کو سنانا تھا،
*شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں*
’’قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانا،اس کے پاس نماز پڑھنا،دُعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا،یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دُعا کرنا عام جگہوں پر دُعا کرنے سے افضل ہے اور قبر پر نذر و نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں،جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم واحکم۔
(مجموع الفتاوٰی : 321/24)
ایک اور جگہ شیخ موصوف فرماتے ہیں،
’قبر کسی کی بھی ہو،اس کو(تبرک کی نیت سے)چھونا،بوسہ دینا اور اس پر اپنے رخسار ملنا منع ہے اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔یہ کام انبیاء ِ کرام کی قبور ِمبارکہ کے ساتھ بھی کیا جائے،تو اس کا یہی حکم ہے۔اسلافِ امت اور ائمہ دین میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا،بلکہ یہ کام شرک ہے،
جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا}
(نوح 71 : 24-23)
(وہ [قوم نوح کے مشرکین]کہنے لگے:تم کسی بھی صورت وَد، سُوَاع، یَغُوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہ چھوڑو،[یوں]انہوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کر دیا)۔یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ یہ سب قومِ نوح کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ایک عرصہ تک یہ لوگ ان کی قبروں پر ماتھے ٹیکتے رہے،پھر جب لمبی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان نیک ہستیوں کی مورتیاں گھڑ لیں۔قبروں کی یہ تعظیم اس وقت خصوصاً شرک بن جاتی ہے جب اس کے ساتھ ساتھ میت کو پکارا جانے لگے اور اس سے مدد طلب کی جانے لگے۔‘
(مجموع الفتاوٰی : 91/27۔92)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں،
’’سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبریں انبیاء ِ کرام کی ہوں یا عام لوگوں کی، ان کو نہ بوسہ دینا جائز ہے ،نہ ان کو (تبرک کی نیت سے)چھونا۔قبروں کے پاس نماز کی ادائیگی اور دعا کی قبولیت کی غرض سے جانا یا ان قبروں کے وسیلے سے دُعا کرنامستحسن نہیں۔یہ سارے کام شرک اور بت پرستی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی : 31/27)
*عالم یا کسی اور سے ملتے ہوئے  رکوع کی حد تک یا اس سے کم جھکنا  جائز نہیں ہے*
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلام کرتے ہوئے جھکنا  ممنوع ہے جیسے کہ
صحابہ کرام نے نبیﷺ سے استفسار کیا کہ کوئی شخص اپنے بھائی سے ملتے ہوئے جھک سکتا ہے؟
تو نبیﷺ نے فرمایا: نہیں،
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رکوع یا سجدہ صرف اللہ تعالی کیلیے کرنا جائز ہے، اگرچہ ہم سے پہلے کی شریعتوں میں تعظیمی سجدہ کرنا جائز تھا،
جیسے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائی یوسف کیلیے سجدہ ریز ہو گئے۔۔۔( فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا۔۔۔)
لیکن ہماری شریعت میں سجدہ صرف اللہ تعالی کیلیے کرنا جائز ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کیلیے احترام میں کھڑے ہونا ہی منع ہےتو  رکوع یا سجود سے ممانعت تو پہلے آ جاتی ہے،
اسی طرح نامکمل رکوع کی حالت بھی اسی ممانعت میں شامل ہو گی
(مجموع الفتاوى _ص1 / 377ج )
اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
"بڑی عمر کے افراد یا مشائخ وغیرہ کے پاس سر جھکانا ، یا زمین کو بوسہ دینا ایسا عمل ہے جس کے ناجائز ہونے پر تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے
بلکہ کمر کو غیر اللہ کیلیے موڑنا ہی منع ہے،
خلاصہ یہ ہے کہ : کسی کے سامنے قیام کرنا، نماز کی طرح بیٹھنا، رکوع یا سجدہ وغیرہ سب کچھ آسمان و زمین کے خالق اور یکتا معبود  اللہ تعالی کا حق ہےاور جو چیز اللہ کا حق ہو اسے غیر اللہ کیلیے بجا لانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔!!
" مجموع الفتاوى( 27 ج/ص92-93)
*سجدے اور رکوع کی طرح جھکنے کی دو قسمیں ہیں*
پہلی قسم:
  عبادت کیلیے سجدہ:
اس قسم کا سجدہ عاجزی ، انکساری  اور عبادت کیلیے ہوتا ہے اور یہ صرف اللہ کیلیے ہو گا، چنانچہ عبادت کیلیے سجدہ غیر اللہ کو کرنے والا شرک اکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
دوسری قسم:
احترام اور سلام  پیش کرتے ہوئے سجدہ کرنا:
اس قسم کا سجدہ کسی کے احترام ، عزت افزائی اور سلام کہتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
سجدے کی یہ قسم  اسلام سے قبل کچھ شریعتوں میں جائز تھی، تاہم اسلام نے اسے حرام قرار دے دیا، لہذا اگر کسی نے کسی مخلوق کو تعظیمی سجدہ کیا تو اس نے حرام  کام کا ارتکاب کیا ہے، جو کہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے،
نبی اکرم  ﷺ سے بڑھ کر کسی کی شان نہیں،مگر  آپ ﷺ نے ہر موقع پر صحابہ کی اصلاح کرتے ہوئے انہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکنے اور سجدہ کرنے سے روکا، اور بار بار فرماتے سجدہ صرف اللہ کے لیے۔۔!
 لہٰذا۔۔کسی بھی بزرگ،ولی،پیر یا عالم کو جھک کر ملنا/سلام کہنا یا سجدہ تعظیمی کرنا ہرگز جائز نہیں،
اسی طرح نماز  جنازہ میں سجدہ و رکوع کا نا ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جب سامنے کوئی میت ہو تو اللہ کو بھی سجدہ جائز نہیں،
تو قبروں، درباروں پر جھکنا یا سجدہ کرنا کیسے جائز ہو سکتا،
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS