Riksha ya gari chalne wale par kitna zakat hai
رکشا یاں گاڑی یاں بس چلانے سے زکوات فرض نہیں ہوتی۔
شریعت نے جن اَموال پر زکوٰۃ کو واجب قرار دیا ہے وہ یہ ہیں :
(i)حیوانات (ii) سونا، چاندی (اور نقدی، کرنسی) (iii)زمینی پیداوار(ان کی زکوٰۃ کو فقہی اصطلاح میں 'عشر 'سے موسوم کیا جاتا ہے ) اور (iv) تجارتی اموال ان کی مزید تفصیل حسب ِذیل ہے :
1. حیوانات کی زکوٰۃ
حیوانات کی زکوٰۃ سے متعلقہ چند اہم شروط درج ذیل ہیں:
1.ایک سال کا دورانیہ: حیوانات پرزکاۃ کے لئے ضروری ہے کہ ان پرایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو، اس شرط کی تفصیل گذشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔
2. حیوانات سائمہ (چرنے والے) ہوں: حیوانات کے حوالے سے دوسری شرط یہ ہے کہ متعلقہ حیوانات پورا سال یا سال کا اکثر و بیشتر حصہ باہرجنگلوں میں چرتے ہوں یا دوسرے لفظوں میں انہیں چارہ ڈالنے کا کوئی خرچہ نہ آتا ہو(ایسے جانوروں کو احادیث میں 'سائمہ' سے تعبیر کیا گیا ہے)۔ لیکن اگر پورے سال یا سال کے اکثر حصے کا چارہ قیمتاً حاصل کیا جاتا ہو تو پھر ان جانوروں پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :
(i ''في کل خمس من الإبل السائمة شاة'' (حاکم:۱؍۳۹۶)
''ہر پانچ سائمہ (باہرجنگل میں چرنے والے) اونٹوں پر ایک بکری زکوٰۃ ہے۔''
(ii ''في کل سائمة إبل في أربعین بنت لبون'' (ابوداؤد:۱۵۷۵،احمد: ۵؍۲،۴،نسائی:۲۴۴۹)
''ہر چالیس سائمہ (باہر چرنے والے) اونٹوں پر ایک بنت ِلبون (وہ اونٹنی جس کا تیسرا سال شروع ہو) زکوٰۃ پڑتی ہے۔''
(iii ''في صدقة الغنم في سائمتھا إذا کانت أربعین إلی عشرین ومائة شاة'' (بخاری:۱۴۵۴،ابوداود:۱۵۶۷)
''چالیس سے ۱۲۰ تک سائمہ بکریوں میں ایک بکری زکوٰۃ ہے۔''
واضح رہے کہ 'سائمہ' کے الفاظ اونٹوں اور بکریوں کے بارے میں ہیں تاہم جمہور فقہا نے اس پر قیاس کرتے ہوئے گائیوں کے بارے میں بھی یہی شرط بیان کی ہے اور وہ احادیث جن میں سائمہ یا غیرسائمہ (معلوفہ) کاکوئی فرق مذکور نہیں، ایسی (مطلق) احادیث کو انہوں نے ان مقید احادیث پر محمول کیا ہے جن میں سائمہ کا ذکر ہے۔ البتہ امام مالک غیر سائمہ پربھی زکوٰۃ کو واجب قرار دیتے ہیں اور سائمہ کی شرط کو قید ِاتفاقی قرار دیتے ہیں۔(حاشیۃ الدسوقي علی الشرح الکبیر:ج۱؍ص۴۳۲، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ۱؍۵۹۶) لیکن ان کا یہ مسلک أقرب إلی السنة معلوم نہیں ہوتا۔
3. حیوانات 'غیر عاملہ' ہوں: غیر عاملہ کامعنی یہ ہے کہ وہ جانور افزائش نسل کے لئے ہوں، بار برداری، کھیتی باڑی اور ایسی ہی دیگر خدمات کیلئے نہ ہوں جیسا کہ حضرت علیؓ سے مروی ہے: ''لیس علی العوامل شيء'' (ابوداؤد:۱۵۷۲ ، دارقطنی ۲؍۱۰۳، نصب الرایۃ ۲؍۳۵۳)
''کام کرنے والے جانوروں پرکوئی زکوٰۃ نہیں۔''
اسی طرح حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ ''حراثۃ (یعنی ہل چلانے والے) جانوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔'' (کتاب الاموال: ص۳۸۰ بحوالہ فقہ الزکوٰۃ:۱؍۲۳۲)
مالکیوں اور ایک قول کے مطابق شافعی فقہا کے علاوہ دیگر تمام فقہا کا مذکورہ بالا شرط پر اتفاق ہے۔(الموسوعة الفقهیة الکویتیة بذیل مادّة 'زکوٰة' نیز دیکھئے الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ، ایضاً) اور راجح موقف بھی یہی ہے۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے فقہا نے ہر طرح کے آلاتِ پیداوار کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔اس کی مزید تفصیل 'آلاتِ تجارت پر زکوٰۃ' کے تحت آئے گی۔
4. حیوانات نصاب کو پہنچ چکے ہوں: جانوروں کی زکوٰۃ کے حوالے سے چوتھی اہم شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقرر کردہ نصاب پر پورے اُتر چکے ہوں اور وہ نصاب درج ذیل ہے:
اونٹوں کی زکوٰۃ
اونٹوں کی تعداد.... زکوٰۃ
۱تا ۴ کوئی زکوٰۃ نہیں
۵تا ۹ ایک بکری زکوٰۃ میں دی جائے گی
۱۰ تا۱۴ دو بکریاں
۱۵تا۱۹ تین بکریاں
۲۰ تا۲۴ چاربکریاں
۲۵ تا۳۵ بنت ِمخاض یعنی وہ اونٹنی جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگ چکی ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر ایک مذکر ابن لبون اونٹ (جو دو سال پورے کرچکا ہو)
۳۶ تا۴۵ ایک بنت ِلبون (دو سالہ اونٹنی)
۴۶تا۶۰ ایک حقہ (وہ اونٹنی جو تین سال پورے کرکے چوتھے میں داخل ہوچکی ہو)
۶۱ تا۷۵ ایک جذعہ (وہ اونٹنی جو چار سال پورے کرکے پانچویں میں لگ چکی ہو)
۷۶ تا ۹۰ دو بنت لبون اونٹنیاں
۹۱ تا۱۲۰ دو حقہ اونٹنیاں (دیکھئے :بخاری:۱۴۵۴)
واضح رہے کہ ۱۲۰ اونٹوں تک جو مقدار ِزکوٰۃ ہم نے ذکر کی ہے، اس پر فقہا کا اتفاق ہے البتہ اس سے آگے اختلاف ہے۔ تاہم ۱۲۰ کے بعد جو مسلک ہمیں راجح معلوم ہوتا ہے اور صحیح احادیث سے بھی جس کی تائید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ۱۲۰ کے بعد جس قدر بھی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے، اس کی زکوٰۃ کا فارمولا یہ ہوگا کہ ہر چالیس اونٹوں پر ایک بنت ِلبون اور ہر پچاس اونٹوں پر ایک حقہ دیا جائے گا یعنی اگر کسی کے پاس ۱۸۰؍ اونٹ ہوں تواسے دو حقے اور دو بنت ِلبون بطور زکوٰۃ دینا ہوں گی۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھئے: فتح الباری:ج۳ ؍ص۳۱۷ ،۳۱۸ اور فقہ الزکوٰۃ :ج۱؍ص۲۳۵ تا ۲۴۵
گائیوں کی زکوٰۃ
گائیوں کی تعداد ...زکوٰۃ
۱تا ۲۹ کوئی زکوٰۃ نہیں
۳۰تا ۳۹ ایک تبیع (گائے کا وہ بچہ جو دوسرا سال شروع کرچکا ہو)
۴۰تا۵۹ ایک مُسنہّ (وہ گائے جو تیسرے سال میں لگ چکی ہو)
۶۰ اور اس سے آگے تعداد کے بارے میں زکوٰۃ کا فارمولا یہ ہے کہ ہر ۳۰ پر ایک تبیع اور ہر ۴۰ پر ایک مسنہّ دیا جائے گا مثلاً اگر ۶۰ گائیاں ہو تو دو تبیع اور ۷۰ گائیاں ہوں تو ایک تبیع اور ایک مسنہّ بطور زکوٰۃ دیاجائے گا۔ دیکھئے ابوداؤ د، حاکم :۱؍۳۹۸، سنن بیہقی:۴؍۸۹ اورمجمع الزوائد :۳؍۷۲
بکریوں کی زکوٰۃ
بکریوں کی تعداد... زکوٰۃ
۱تا ۳۹ کوئی زکوٰۃ نہیں
۴۰تا ۱۲۰ ایک بکری
۱۲۱ تا ۲۰۰ دو بکریاں
۲۰۱ تا ۳۰۰ تین بکریاں
اسی طرح ہر سو پر ایک بکری بڑھتی جائے گی۔ (دیکھئے فتح الباری:۳؍۳۱۷)
دیگر 'سائمہ'جانوروں پر زکوٰۃ کامسئلہ
واضح رہے کہ احادیث میں جن جانوروں کی زکوٰۃ کا تذکرہ موجود ہے وہ صرف تین قسم کے ہیں یعنی اونٹ، گائے اور بکری اس کے علاوہ دیگر جانوروں کے بارے میں شریعت خاموش ہے تاہم سواری کے گھوڑے کو خود نبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ سے معاف قرار دیا ہے۔ چونکہ نزولِ وحی کے دور میں اہل عرب کے ہاں یہی تین قسم کے جانور پالے جاتے تھے، اس لئے بطورِ خاص ان کا تذکرہ ہمیں ملتا ہے جبکہ ان کے علاوہ دیگر جانور مثلاً گدھے، خچر، پولٹری فارم کی مرغیوں اور مچھلی فارم کی مچھلیوں وغیرہ کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہیں۔ متقدمین میں سے ظواہر اور متاخرین میں سے امام شوکانی ؒ اور نواب صدیق حسنؒ کے علاوہ جمہور فقہائے اُمت نے اوّل الذکر نوع سے تعلق رکھنے والے جانوروں پرقیاس کرتے ہوئے ثانی الذکر نوع کے حیوانات پر بھی دیگر شرائط کی موجودگی میں زکوٰۃ فرض قرار دی ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے اور عہد ِصحابہ ہی میں جو نیا مسئلہ سامنے آیا وہ گھوڑوں کی زکوٰۃ کا مسئلہ تھا۔نزولِ وحی کے دور میں چونکہ گھوڑا اہل عرب کے ہاں ایک کمیاب جنس تھی اور اس کااستعمال بھی یا تو ذاتی سواری کے لئے ہوتا تھا یاپھر جنگ و حرب کے لئے۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے گھوڑے کی زکوٰۃ معاف فرما دی تاکہ اگر وہ ذاتی استعما ل کے لئے ہے تو پھر مالک (صاحب ِگھوڑا) کو مشقت نہ ہو اور اگر وہ جہاد کے لئے ہے تو اس کی مزید حوصلہ افزائی ہو۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
''لیس علی المسلم صدقة في عبده ولا في فرسه''(بخاری:۱۴۶۴)
''مسلمان پراس کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے''
لہٰذا دور حاضر میں بھی جن صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں جہاد یا ذاتی سواری کے لئے گھوڑا رکھا جاتاہے، ان کے مالکان پر اس کی زکوٰۃ لاگو نہیں ہوگی۔ اِلا یہ کہ وہ اسے تجارت کے لئے استعمال کرنے لگیں (جیسا کہ آئندہ سطور میں آرہا ہے)
جب ایران کی فتوحات شروع ہوئیں اور کثیر تعداد میں گھوڑے حاصل ہونے لگے تو رفتہ رفتہ لوگوں نے اسے تجارت کا ذریعہ بنالیا حتیٰ کہ بعض ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ ایک ایک گھوڑا سو سو اونٹوں کے بدلے فروخت کیا جانے لگا چنانچہ جب حضرت عمرؓ نے یہ دیکھا تو انہوں نے ان تجارتی گھوڑوں پربھی زکوٰۃ مقرر فرما دی۔ جبکہ کسی صحابی نے اس پر اختلاف نہ کیا بلکہ آپ کے بعد حضرت عثمانؓ وغیرہ بھی تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ وصول کرتے رہے۔ (فقہ الزکوٰۃ: ج۱ ؍ص۳۰۵)
گھوڑوں کی زکوٰۃ کے حوالہ سے یہ بات یاد رہے کہ اگر گھوڑے آلاتِ تجارت کے طور پراستعمال ہوں مثلاً ٹانگوں وغیرہ میں جوتے جائیں یا اُجرت پر بار برداری کے لئے استعمال ہوں تو ان گھوڑوں کی اصل مالیت پر زکوٰۃ نہیںہوگی بلکہ ان کی آمدن پر زکوٰۃ ہوگی اور اگر گھوڑے بذاتِ خود خرید و فروخت کے لئے رکھے ہوں تو ان کی کل مالیت پر زکوٰۃ ہوگی۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل 'تجارتی اَموال پر زکوٰۃ' کے ضمن میں آئے گی۔ لیکن اگر یہ افزائش نسل کے لئے ہوں اور جہاد یا ذاتی سواری کے استعمال کی بھی نیت نہ ہو تو ایسی صورت میں بعض فقہا نے انہیں اونٹوں پر قیاس کرتے ہوئے اونٹوں ہی کی شرح زکوٰۃ ان میں واجب قراردی ہے اورایسی صورت میں ہمیں بھی اس رائے سے اتفاق ہے۔ (دیکھئے ردّ المحتار: ج۲؍ ص۲۵،۲۶)
اسی طرح دیگر جانوروں مثلاً پولٹری فارم کی مرغیوں، مچھلی فارم کی مچھلیوں اور ڈیری فارم کی بھینسوں کو بھی گھوڑوں پر قیاس کیا جائے گا یعنی اگر یہ جانور تجارت کے لئے ہیں تو ان کی کل مالیت پر سال گزرنے کے بعد چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ دیا جائے گا۔ جبکہ بھینسیں اگر افزائش نسل کے لئے ہوں اور ان میں دیگر شروطِ زکوٰۃ بھی پائی جائیں تو انہیں گائیوں پر قیاس کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اسی طرح اگر ہرن افزائش نسل کے لئے ہوں تو انہیں بکریوں پر قیاس کیاجائے گا اور اگر وہ تجارت کے لئے ہوں تو پھر انہیں مالِ تجارت پر قیاس کیا جائے گا۔
2. سونا ،چاندی اور نقدی پر زکوٰۃ
عرصہ دراز سے سونا چاندی جیسی قیمتی دھاتیں مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہوتی چلی آرہی ہیں مثلاً ان سے زیورات، آلات، برتن وغیرہ بھی بنائے جاتے رہے ہیں اور انہیں بطورِ نقدی (کرنسی) بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ عہد ِنبوی میں بھی ان کے یہ مختلف استعمالات موجود تھے۔ آپؐ نے سونے چاندی کے صرف دو مصرف جائز قرار دیتے ہوئے ان پر زکوٰۃ عائد فرمائی۔ ایک مصرف تو ان کا نقدی ہونا تھا اور دوسرا زیورات تھا۔ اگرچہ بعض شبہات کی بنا پر زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب اور عدمِ وجوب کے بارے میں فقہا نے اختلاف بھی کیا ہے، تاہم نقدی ہونے کی حیثیت سے ان پر وجوبِ زکوٰۃ کے بارے میں اتفاقِ رائے موجود ہے اور اب چونکہ سونے، چاندی کی جگہ پیپر کرنسی نے لے لی ہے، اس لئے سونے چاندی پر قیاس کرتے ہوئے ان پربھی زکوٰۃفرض قرار دی جائے گی۔ باقی رہا سونا چاندی کا کسی اور محل میں استعمال مثلاً برتن اورآرائشی سامان، دیگر آلاتِ ضرورت وغیرہ تو ان سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔اور اگر کوئی شخص ان ممنوعہ چیزوں کو اپنے پاس رکھتا یا ان کی تجارت وغیرہ کرتا ہے تو اس کے ایک حرام کام کے ارتکاب کے باوجود ان چیزوں کی زکوٰۃ اس پر فرض ہے۔ البتہ اس میں سے بھی چند چیزیں مستثنیٰ ہیں۔ ایک تو وہ جو ضرورت اور حاجت کی قبیل سے ہیں مثلاً ایک صحابی کی ناک کٹ گئی تو انہوں نے چاندی کی ناک لگوائی جس میں بدبو پیدا ہوگئی تو آنحضرتﷺ کے فرمان کے مطابق انہوں نے سونے کی ناک لگوالی۔ (ابوداؤد؛۴۲۳۲، ترمذی؛۱۷۷۰) اسی طرح بعض صحابہ سے سونے کے دانت لگوانا اور داڑھوں کی بھروائی (Filling)کروانا بھی منقول ہے۔ (المغنی :۴؍۲۲۷)
اور دوسری استثنائی صورت آلاتِ حرب کی ہے کیونکہ احادیث ِنبویہؐ اور آثارِ صحابہ ؓسے یہ بات ثابت ہے کہ تلوار کا خول، قبضہ، دستہ وغیرہ میں سونے اور چاندی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (المغنی: ایضاً)
زیورات پر زکوٰۃ
سونے چاندی کے زیورات پر زکوۃ کے حوالہ سے اہل علم میںشروع سے اختلاف چلا آرہا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فقہا کی ایک بڑی تعداد نے زیورات کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے دو طرح سے استشہاد کیاہے ایک تو بعض روایات سے استشہاد کیا ہے اور دوسرا اسے ذاتی استعمال کی اشیا پر قیاس کیا ہے۔ جب کہ ان کے برعکس بعض فقہا جن میں امام ابو حنیفہ بھی شامل ہیں، زیورات پر زکوٰۃ کو فرض قرار دیتے ہیں اور بعض صحیح احادیث بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا مسئلہ میں راقم کی تحقیق یہ ہے کہ زیورات پر عدم زکوٰۃ کے حوالہ سے جن روایات سے استشہاد کیا جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی بسند صحیح ثابت نہیں جب کہ اس کے مقابلہ میںبعض ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جن میں زیورات پر وجوب زکوٰۃ کی صاف تائید ہوتی ہے اور ان صحیح احادیث کی موجودگی میں زیورات کو ذاتی استعمال کی اشیا پر قیاس کر کے زکوٰۃ سے خارج قرار نہیں دیاجا سکتا۔ ٭اس سلسلہ میں جو صحیح احادیث ملتی ہیں، بغرضِ اختصار ان میں سے ایک درج کی جاتی ہے:
عمرو بن شعیب اپنے والد اور اپنے دادا کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ ''ایک عورت اپنی بیٹی کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اوراس کی بیٹی کے ہاتھوں میںسونے کے دو موٹے کنگن تھے۔ آنحضرتﷺ نے اس سے پوچھا کہ تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں ! تو آپ نے فرمایا : کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں روز قیامت ان کنگنوں کے بدلے آگ کے کنگن پہنا دیں؟ تو اس نے وہ کنگن اتار کر آپؐ کی خدمت میں ڈال دیئے اور کہا کہ میں انہیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے پیش کرتی ہوں۔''
(احمد؛ ۲؍۱۷۸،۲۰۴، ابوداود؛ ۱۵۶۳، نسائی؛ ۲۴۷۹،بیہقی؛۴؍۱۴۰)
واضح رہے کہ اس حدیث کی تائید کرنے والی کئی اوراحادیث بھی موجود ہیں جنہیں شارحِ ترمذی مولانا عبد الرحمن مبارکپوری ؒ نے تحفۃ الاحوذی میں نقل کرنے کے بعداسی رائے
٭ سونے چاندی کے زیورات پر زکوٰۃسے متعلقہ احادیث کی صحت میں کلام ہونے کی بنا پر اس کا مناسب حل یہ بھی ہوسکتا ہیکہ ان میں زکوٰۃ کی ادائیگی مال کے حق کے طور پراگر نہ کی جائے تو کم ازکم اشخاص کے حق کے طور پر ضرور کردی جائے کیونکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اشخاص کا حق کتاب وسنت سے ثابت ہے جس میں عام لوگ اکثر کوتاہی کرتے ہیں۔جس کی و جہ سے غریب رشتہ دار اور متعلقہ خدام ومساکین بھی معاشرے میں بے اعتنائی کا شکار رہتے ہیں۔ اگر زیورات کی زکوٰۃ نکال کر ایسے متعلقین پر اسے خرچ کر دیاجائے تو شرعی احتیاط پر عمل بھی ہو جائے گا اور کسمپرسی کے شکار مستحقین بھی مستفید ہو سکیں گے اور اس کا اجر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں عظیم صدقہ کی صورت میں موجود ہے۔ اِن شاء اللہ (محدث)
کو ترجیح دی ہے جو ہم نے اوپر بیان کر دی ہے جب کہ سعودی عرب کے جید علما کا بھی یہی فتوی ہے کہ زیورات پر زکوٰۃ دی جائے گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائیں ۔ (دیکھئے: فتاویٰ ابن باز؛ج۱۴ص ۹۷،فتاوی اللجنۃالدائمۃ؛ ج۹ص ۲۶۵)
سونے چاندی کا نصاب:اگرپانچ اوقیہ(تقریباًدو سو درہم)چاندی یا ۲۰ مثقال (تقریباً۲۰ دینار) سونا سال بھر موجود رہے ہوں تو ان پر چالیسواں حصہ (یعنی چاندی کے پانچ درہم اور سونے کا آدھا دینار) بطورِ زکوٰۃ دیا جائے گا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :
(i) حضرت جابرؓ سے روایت کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
لیس فیما دون خمس أواق من الورق صدقة (احمد:۳؍۲۹۶، مسلم:۹۸۰)
No comments:
Post a Comment