صحیح مسلم)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سات گناہوں سے بچو بچو جو ایمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
1۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔
2۔ جادو کرنا۔
3۔ اس جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے ، لیکن حق پر مارنا درست ہے۔
4 ۔ سود کھانا۔
5۔ یتیم کا مال کھا جانا۔
6۔ اور لڑائی کے دن کافروں کے سامنے سے بھاگنا۔
7۔ اور شادی شدہ ایمان دار ، پاک دامن عورتوں کو جو بدکاری سے واقف نہیں، تہمت لگانا۔
(صحیح مسلم)
اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا ظلم اور بدترین جرم ہے۔یہ ایسا بھیانک و گھناؤنا کام اور ایسی خوفناک غلطی ہے کہ جو شخص شرک میں ملوث رہا اور توبہ کیے بغیر مر گیا اور اللہ کے ہاں اس حال میں حاضر ہو کہ ساتھ میں شرک لیے ہوئے ہے تو اس کا یہ گناہ اس دوزخ میں لے جائے گا کیونکہ یہ اللہ کی کتاب میں ناقابل معافی گناہ ہے اور اس کے مرتکب پر اللہ نے جنت حرام کر دی :
سورة النساء (4)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا {48}
اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا {48}
اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔
سورة النساء (4)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا {116}
اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتاہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا {116}
اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتاہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔
سورة المائدة ( 5 )
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ {72}
جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے او ر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ {72}
جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے او ر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
شرک کی معافی کیوں نہیں اور مشرک پر جنت کیوں حرام ہے ،علماء نے اس بات کو سمجھانے کےلیے بڑی خوبصورت مثالیں دی ہیں۔جن میں سے ایک مثال میاں بیوی کے رشتے کی دی گئی ہے۔وہ اس طرح کہ ایک سلیم الفطرت شخص کبھی اپنی بیوی میں دوسرے کی شراکت برداشت نہیں کر سکتا۔ایک طرف تو وہ اپنی بیوی کے لیے دن رات محنت کر کے کما رہا ہو، اسے کھلا پلا رہا ہو اوراسے ہر سہولت فراہم کر رہا ہو، دوسری طرف اگر اسے یہ معلوم ہو کہ اس کی بیوی کی دلچسپی ، محبت اور تعلق اس کےساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ ہے یا وہ ان حقوق میں جو خاص اس کے لیے ہی ہیں کسی دوسرے کو بھی شریک کرتی ہے تو اپنی بیوی کی یہ غلطی وہ کبھی معاف نہ کرے گا ہاں باقی جتنی بھی خامیاں ہوں وہ معاف کی جا سکتی ہیں اور ان کوتاہیوں کے ساتھ بھی یہ تعلق تمام عمر نبھ سکتا ہے اور نبھتا ہے لیکن ایک بیوی کی طرف سےشوہر کے خاص حقوق میں دوسروں کی شراکت ایک ایسی غلطی ہے جس کو ایک ایساشوہر جس کی فطرت مسخ نہ ہو چکی ہوکبھی معاف نہ کرےگا۔
اب یہ تو بات سمجھانے کے لیے محض ایک مثال ہے اور ایک ایسے انسانی رشتے کا حال ہے جو چند لفظوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور جس رشتے کی خالق و مخلوق کے رشتے سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ غور فرمائیے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق خالق اور مخلوق کا ہے جو کہ ہمارا سب سے پہلا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ہم اللہ کو اپنا خالق و مالک ورب مانیں یا نہ مانیں وہ بہرحال ہمارا خالق و مالک ورب ہے۔جس طرح کوئی اپنے والدین کے رشتے سے انکار نہیں کرسکتا اسی طرح اپنے خالق کے رشتے کابھی انکار بھی نہیں کر سکتا۔اسی مثال سے علماء نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں کسی دوسرے کی شرکت کے بغیرپیدا تو اللہ کرتا ہے، رزق دیتا ہے، ہم ساری زندگی اسی کے انتظام پر جیتے ہیں اور کہیں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی دوسرا حقیقتا ہماری زندگی برقرار رکھنے کے عمل میں شریک نہیں ہوتا توبھلا اللہ کی غیرت کیوں یہ گوارا کرے کہ ہم اس کی مخلوق ہو کر اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کریں ۔ ہمیں زندگی وہ عطا کرے اور ہماری نیاز مندیاں دوسروں کے لیے وقف ہوں، ہم رزق کھائیں اللہ کا، زندہ رہیں اللہ کی مہربانی سے اور ہمارا خوف اورہماری امیدیں دوسروں سے وابستہ ہوں، ہمیں سب کچھ عطا اللہ فرمائے اور ہم سر جھکائیں اوروں کے دروں پر جو خود ہمارے ہی جیسی بے بس کمزورمخلوق ہیں ۔
شرک کی بنیاد میں ہی یہ خیال اور یہ عنصر کارفرما ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی کمزوری ، محتاجی اور عیب کو منسوب کیا جائے حالانکہ وہ ہر کمزوری، محتاجی اور عیب سے پاک ہے اور یہ اللہ کی توہین ہے کہ اسی کا ساختہ پرداختہ کوئی شخص اٹھ کر اسی کی مخلوق میں سے کسی کو اس کے ساتھ شریک کرے۔ اور اللہ کی یہ توہین ایک ایسا گناہ ہے جسے وہ کبھی معاف نہ کرے گا۔ بس یہی وہ جرم عظیم ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں جس کی معافی کوئی نہیں.
اب یہ تو بات سمجھانے کے لیے محض ایک مثال ہے اور ایک ایسے انسانی رشتے کا حال ہے جو چند لفظوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور جس رشتے کی خالق و مخلوق کے رشتے سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ غور فرمائیے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق خالق اور مخلوق کا ہے جو کہ ہمارا سب سے پہلا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ہم اللہ کو اپنا خالق و مالک ورب مانیں یا نہ مانیں وہ بہرحال ہمارا خالق و مالک ورب ہے۔جس طرح کوئی اپنے والدین کے رشتے سے انکار نہیں کرسکتا اسی طرح اپنے خالق کے رشتے کابھی انکار بھی نہیں کر سکتا۔اسی مثال سے علماء نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں کسی دوسرے کی شرکت کے بغیرپیدا تو اللہ کرتا ہے، رزق دیتا ہے، ہم ساری زندگی اسی کے انتظام پر جیتے ہیں اور کہیں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی دوسرا حقیقتا ہماری زندگی برقرار رکھنے کے عمل میں شریک نہیں ہوتا توبھلا اللہ کی غیرت کیوں یہ گوارا کرے کہ ہم اس کی مخلوق ہو کر اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کریں ۔ ہمیں زندگی وہ عطا کرے اور ہماری نیاز مندیاں دوسروں کے لیے وقف ہوں، ہم رزق کھائیں اللہ کا، زندہ رہیں اللہ کی مہربانی سے اور ہمارا خوف اورہماری امیدیں دوسروں سے وابستہ ہوں، ہمیں سب کچھ عطا اللہ فرمائے اور ہم سر جھکائیں اوروں کے دروں پر جو خود ہمارے ہی جیسی بے بس کمزورمخلوق ہیں ۔
شرک کی بنیاد میں ہی یہ خیال اور یہ عنصر کارفرما ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی کمزوری ، محتاجی اور عیب کو منسوب کیا جائے حالانکہ وہ ہر کمزوری، محتاجی اور عیب سے پاک ہے اور یہ اللہ کی توہین ہے کہ اسی کا ساختہ پرداختہ کوئی شخص اٹھ کر اسی کی مخلوق میں سے کسی کو اس کے ساتھ شریک کرے۔ اور اللہ کی یہ توہین ایک ایسا گناہ ہے جسے وہ کبھی معاف نہ کرے گا۔ بس یہی وہ جرم عظیم ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں جس کی معافی کوئی نہیں.
No comments:
Post a Comment