find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Ayima Arba Mafooja They. (Part 1)

کیا ائمہ اربعہ مفوضہ تھے؟
اس تمہید کے بعد ہم اصل نکتہ کی طرف آتے ہیں کہ کیا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا یہ دعویٰ درست ہے کہ سلف صالحین  یا ائمہ اربعہ مفوضہ ہیں؟اگر ہم اس مسئلے کی تحقیق میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کو شامل کر لیں تو شاید یہ مضمون بہت طویل ہو جائے لہٰذا سردست ہم ائمہ اربعہ کے بارے بالعموم اورامام ابوحنیفہ کے بارے بالخصوص اس موقف کا جائزہ لے رہیں ہے کہ وہ اہل تفویض میں سے تھے یا نہیں؟
امر واقعہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ یا فقہاے محدثین اور متقدمین صوفیا کا صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے عقیدہ وہی ہے جسے آج ہم ’سلفی عقیدہ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی ائمہ اربعہ اور فقہائے محدثین صفاتِ باری تعالیٰ کے لیے مروی الفاظ کو ان کے حقیقی معانی پر محمول کرتے ہیں لیکن ان صفات کی کیفیت بیان نہیں کرتے گویا ائمہ اربعہ یہ کہتے ہیں کہ جب قرآن نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفتِ’ید‘ کا اثبات کیا ہے تو ’ید‘ کے حقیقی معنیٰ ہاتھ کا اللہ تعالیٰ کے لیے اثبات کیا جائے گا،لیکن اللہ کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت بیان نہیں کریں گے اورنہ ہی اس کے بارے قیل وقال میں پڑیں گے۔
امام ابن تیمیہ ( متوفی ۷۲۸ھ) سے جب یہ سوال ہوا کہ دو اشخاص کا آپس میں جھگڑا ہوا ہے اور ان میں سے ایک یہ کہتا ہے کہ جو شخص اللہ کے آسمان میں ہونے کا اعتقاد نہ رکھے تو وہ گمراہ ہے اور دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ میں منحصر نہیں ہے تو اس بارے امام شافعی (متوفی ۲۴۰ھ) کا عقیدہ کیا ہے؟ توامام صاحب اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
الحمد ﷲ، اعتقاد الشافعي رضي اﷲ عنه واعتقاد سلف الإسلام کمَالك والثوري والأوزاعي وابن المبارك وأحمد بن حنبل وإسحٰق بن راهویه وهو اعتقاد المشایخ المقتدٰی بهم کالفُضیل بن عیاض وأبي سلیمان الداراني وسهل بن عبد اﷲ التستري وغیرهم، فإنه لیس بین هؤلاء الأئمة وأمثالهم نزاع في أصول الدین وکذٰلك أبو حنیفة رحمة اﷲ علیه فإن الاعتقاد الثابت عنه في التوحید والقدر ونحو ذلك موافق لاعتقاد هؤلاء واعتقاد هؤلاء هو ما کان عليه الصحابة والتابعون لهم بـإحسان وهو ما نطق به الکتاب والسنة
’’امام شافعی رضی اللہ عنہ اور سلف صالحین امام مالک، امام اوزاعی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، امام اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو ان مشائخ کا ہے جن کی لوگوں نے پیروی کی ہے جیسا کہ فضیل بن عیاض، ابو سلیمان دارنی اور سہیل بن عبد اللہ تستری رحمہم اللہ وغیرہ ۔ ان تمام ائمہ میں اُصولِ دین یعنی عقائد میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ امام ابو حنیفہ کا بھی ہے یعنی توحید اور تقدیر وغیرہ کے مسائل میں امام ابو حنیفہ سے جو عقیدہ ثابت ہے، وہ وہی عقیدہ ہے جو مذکورہ بالا ائمہ کا ہے۔ اور ان ائمہ کا عقیدہ وہی ہے جوصحابہ اور تابعین کا ہے۔ اور صحابہ و تابعین کا عقیدہ وہی ہے جو کتاب وسنت میں صراحتاً بیان ہوا ہے۔‘‘
علامہ نواب صدیق حسن خان (متوفی ۱۳۰۷ھ) ایک جگہ سلف صالحین کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فمذهبنا مذهب السلف إثبات بلا تشبیه وتنزیه بلا تعطیل وهو مذهب أئمة الإسلام کمالك والشافعي والثوري وابن المبارك والإمام أحمد وغیرهم فـإنه لیس بین هؤلاء الأئمة نزاع في أصول الدین وکذلك أبو حنیفة رضي اﷲ عنه فإن الاعتقاد الثابت عنه موافق لاعتقاد هؤلاء وھو الذي نطق به الکتاب والسنة
’’ہمارا مسلک اس بارے وہی ہے جو سلف صالحین کا تھا اور وہ یہ کہ اللہ کی صفات کا اثبات کیا جائے لیکن اُنہیں مخلوق سے تشبیہ نہ دی جائے اور اللہ کی صفات کو کیفیات وغیرہ سے تو پاک قرار دیا جائے لیکن یہ پاک قرار دینا اس طرح نہ ہو کہ اس سے صفات ہی باطل ہو جائیں (یعنی ان کا ظاہری اور حقیقی معنی ہی باطل قرار پائے)۔ یہی مسلک امام مالک، امام شافعی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ؒ وغیرہ کا ہے۔ ان ائمہ میں اُصولِ دین میں کوئی اختلاف مروی نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ امام ابو حنیفہ کا بھی ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ سے جو عقیدہ ثابت ہے وہ وہی عقیدہ ہے جس کے قائل یہ ائمہ تھے اور اسی عقیدہ کا اثبات قرآن وسنت سے ہوتا ہے۔‘‘
اب ہم نسبتاً تفصیل سے امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ کا عقیدہ بنیادی مصادر سے نقل کررہے ہیں:
امام ابو حنیفہ کا عقیدہ
فخر الاسلام امام بزدوی (متوفی ۴۸۲ھ) فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے اعتقادی مسائل میں ’فقہ اکبر‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جس میں اُنہوں نے صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات کیا تھا اور صفات کے اثبات کا یہی منہج متقدمین فقہاے حنفیہ کا ہے۔ بزدوی لکھتے ہیں:
العلم نوعان: علم التوحید والصفات وعلم الشرائع والأحکام والأصل في النوع الأول هو التمسک بالکتاب والسنة ومجانبة الهوٰی والبدعة ولزوم طریق السنة والجماعة الذي علیه الصحابة والتابعون ومضٰی علیه الصالحون وهو الذي کان علیه أدرکنا مشایخنا وکان علی ذلك سلفنا أعني أبا حنیفة وأبا یوسف ومحمد أو عامة أصحابهم رحمهم اﷲ وقد صنّف أبو حنیفة رضي اﷲ عنه في ذلك کتاب الفقه الأکبر وذکر فیه إثبات الصفات
’’علم دو قسم کا ہے: ایک توحید اور صفاتِ باری تعالیٰ کا علم اور دوسرا شرائع اور احکام کا علم ہے۔پہلی قسم کے علم میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لینا اور ہواے نفس اور بدعتی مناہج سے دور رہنا اور اہل سنت والجماعت کے منہج کو مضبوطی سے پکڑ لیناہی اصلاً مقصود ہے۔ اہل سنت والجماعت کا منہج وہی تھا جوصحابہؓ و تابعین کا ہے اور جو سلف صالحین کا ہے اور اسی منہج پر ہم نے اپنے مشائخ حنفیہ اور متقدمین حنفیہ یعنی امام ابو حنیفہ ،امام ابو یوسف، امام محمد اور ان کے اصحابؒ کو پایا ہے۔ اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ نے ایک کتاب ’فقہ اکبر‘ کے نام سے لکھی ہے اور اس کتا ب میں اُنہوں نے صفات کا اثبات کیا ہے۔‘‘
امام بزدوی کی اس عبارت میں چند بنیادی باتیں بیان ہوئی ہیں:
4۔امام ابو حنیفہ نے اعتقادی مسائل میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’فقہ اکبر‘ ہے۔
5۔اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے وہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور کبار حنفی علما و مشائخ کا ہے۔
6۔اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے، وہی صحابہ وتابعین کا عقیدہ ہے۔
7۔اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہو اہے، وہ اہل سنت والجماعت کا ہے۔
اب ہم امام ابو حنیفہ کی اس کتاب میں بیان شدہ عقیدہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے؟ کیاوہ تاویل کا عقیدہ ہے جیسا کہ ماتریدیہ حنفیہ کا عقیدہ ہے ؟ یا وہ تفویضِ مطلق کاعقیدہ ہے جیسا کہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا عقیدہ ہے؟ یا صفات کو ان کے حقیقی معنی پرباقی رکھنے اور کیفیت نہ بیان کرنے کا عقیدہ ہے جیسا کہ سلفی عقیدہ ہے؟
امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:

وله ید و وجه ونفس کما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن، فما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن من ذکر الوجه والید والنفس فهو له صفات بلا کیف، ولایقال إن یده: قدرته أو نعمته لأن فیه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والاعتزال ولکن یده صفته بلا کیف وغضبه ورضاه من صفات اﷲ تعالىٰ بلا کیف
’’اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ ، چہرہ او ر نفس ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کا قرآن میں اِثبات کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے لیے ہاتھ، چہرہ اور نفس کی جو صفات بیان کی ہیں تو وہ بلا کیفیت ہیں اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ کے ہاتھ سے مراد اس کی قدرت ہے یا اس کی نعمت ہے کیونکہ اس طرح کے قول سے اللہ کی صفت باطل قرار پاتی ہے اور ایسا کام (یعنی صفات میں تاویل کرنا) معتزلہ اور قدریہ کرتے ہیں۔لیکن ’ید‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے بلا کیفیت کے، اور اللہ کا غضب اور اس کی رضا اس کی صفات ہیں بلا کیفیت ۔‘‘
اس عبارت میں ایک طرف تو امام ابو حنیفہ نے صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے اور دوسری طرف ان صفات میں تاویل سے منع کیا ہے اور تاویل کو معتزلی منہج قرار دیا ہے۔ گویا صفاتِ باری تعالیٰ میں تاویل کا مذہب تو قطعی طور پر ردّ ہو گیا یعنی تاویل والا مسلک امام صاحب اوراہل سنت والجماعت کا نہیں ہے۔
اب امام صاحب نے اللہ کی صفات کا جو اثبات کیا ہے تو کیا اس اثبات سے ان کی مراد یہ ہے کہ وہ ان صفات کا حقیقی معنی بھی بیان نہیں کرتے اور اِثبات سے مراد صرف الفاظ کا اثبات لیتے ہیں جیسا کہ مفوضہ کا عقیدہ ہے یا اُن کی مراد یہ ہے کہ وہ صفات کا حقیقی معنی تو بیان کرتے ہیں لیکن کیفیت بیان نہیں کرتے اور اثباتِ صفات سے ان کی مراد حقیقی معنیٰ کا اثبات ہے جیسا کہ سلفی عقیدہ ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ امام ابو حنیفہ کی یہ عبارت مفوضہ کا ردّ کر رہی ہے او ر سلفی عقیدے کو بیان کر رہی ہے کیونکہ امام صاحب نے جب صفات کا اثبات کیا تو کیفیت کی نفی کی ہے جو اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ صفات کے حقیقی معنی کے قائل ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں بیان شدہ صفاتِ باری تعالیٰ کے اثبات سے مراد اگر لفظوں کا اثبات لیا جائے تو اس کا انکار قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کلام ماننے والا کوئی مسلمان نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن کے الفاظ کا انکار تو کوئی کافر کر سکتا ہے۔یا وہ شخص جو قرآن کے اللہ کی کلام لفظی ہونے کا منکر ہے کیا امام صاحب اپنی عبارت ولکن یده صفة بلا کیفسے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کا انکار نہ کرنا؟کیا امام صاحب یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ بھی ثابت ہیں؟ یعنی امام صاحب اہل علم کو وہ عقیدہ بتلانا چاہتے ہیں جس سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے۔ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ امام صاحب کا اس عبارت سے مقصود یہ ہے کہ صفات اپنی حقیقی معنیٰ کے ساتھ ثابت ہیں لیکن بغیر کیفیت کے ہیں۔اگر امام ابوحنیفہ  کے لیے مفوضہ یا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا عقیدہ لیں تو پھر صفات کے اِثبات سے مراد صرف الفاظ کا اثبات ہو گا کیونکہ تفویض کی صورت میں تو کوئی بھی معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا۔
اب ہم اس طرح آتے ہیں کہ کبارحنفی علما نے امام ابو حنیفہ کی ان عبارات سے تفویضِ مطلق کا عقیدہ سمجھا ہے یا صفات کے حقیقی معنی کے اثبات کا سلفی عقیدہ؟

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS