امام مالک بن انس کا عقیدہ
امام مالک (متوفی ۱۷۹ھ) کا بھی صفاتِ باری تعالیٰ میں وہی عقیدہ ہے جو امام ابو حنیفہ کا ہے۔امام بیہقی (متوفی ۴۵۸ھ)اور امام ابن عبد البر مالکی (متوفی ۴۶۳ھ) امام مالک سے اپنی اپنی سند کے ساتھ ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
یحیٰی بن یحیٰی یقول: کنا عند مالك بن أنس فجاء رجل فقال: یا أبا عبد اﷲ(اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى) فکیف استوٰی؟ قال: فأطرق مالك برأسه حتی علاه الرحضاء ثم قال: الاستواء غیر مجهول، والکیف غیر معقول، والإیمان به واجب، والسؤال عنه بدعة، وما أراك إلا مبتدعًا، فأمر به أن یخرج
’’یحییٰ بن یحییٰ سے روایت ہے کہ ہم حضرت انس بن مالک کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے سوال کیا: اے عبد اللہ! اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور یہ استواء کس طرح کا ہے؟(راوی کہتے ہیں کہ) امام مالک نےاپنا سر جھکایا یہاں تک کہ اُنہیں غصے سے پسینہ آ گیا۔ پھر اُنہوں نے کہا:استوا مجہول نہیں ہے (یعنی معلوم ہے) اور اس کی کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔ اور میرا گمان یہ ہے کہ تو (یعنی سائل) بدعتی ہے ۔اور امام مالک نے اس سائل کو اپنی مجلس سے نکالنے کا حکم دیا۔‘‘
بنیادی مصادر کی کئی ایک کتب میں امام مالک کا یہ قول کئی اسناد کے ساتھ مروی ہے۔
امام شافعی کا عقیدہ
امام شافعی کا عقیدہ بھی صفات کے بارے وہی ہے جو امام مالک کا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں:
القول في السنة التي أنا علیها، ورأیت علیها الذین رأیتُهم، مثل سفیان ومالك وغیرهما: الإقرار بشهادة أن لا إلٰه إلا اﷲ وأن محمدًا رسول اﷲ وأن اﷲ تعالىٰ على عرشه في سمائه یقرب من خلقه کیف شاء، وأن اﷲ تعالىٰ وینزل إلى السماء الدنیا کیف شاء
’’جس طریقہ کار کو میں نے اختیار کیا اورجس منہج پر میں نے امام سفیان ثوری اور امام مالک رحمہما اللہ کو دیکھا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس کا ا قرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اوربلاشبہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ عرش پر آسمان میں ہے اور اپنی مخلوق سے بھی قریب ہوتاہے، جیسے وہ چاہتا ہے۔ اور آسمان دنیا پر وہ نزول فرماتا ہے جیسے چاہتا ہے۔‘‘
امام شافعی کا یہ قول کئی ایک اور بھی بنیادی مصادر کی کتب میں نقل ہو اہے۔
امام احمد بن حنبل کا عقیدہ
حنبل بن اسحق ، امام احمد بن حنبل (متوفی ۲۴۱ھ)سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
نحن نؤمن بأن اﷲ علىٰ العرش،کیف شاء وکما شاء، بلا حد، ولاصفة یبلغها واصف أو یحده أحد، فصفات اﷲ له ومنه، وهو کما وصف نفسه(لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ)
’’ہم اس بات پرایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، جیسے ا ور جس طر ح اس نے چاہا ، بغیر کسی حد کے جسے کوئی بیان کرے، اور بغیر کسی کیفیت کے ، جسے کوئی بتلائے۔ پس اللہ کی صفات اس سے ہیں اور اس کے لیے ہیں، اوراللہ تعالیٰ ایسے ہی ہیں جیسے اُنہوں نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے اور نگاہیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔‘‘
ائمہ اربعہؒ کے عقیدہ کے عقلی ومنطقی دلائل
ائمہ اربعہ کے بالمقابل اہل تاویل اور اہل تفویض کا عقیدہ قرآن وسنت کی نصوص کے تو خلاف ہے ہی لیکن عقل و منطق کے بھی خلاف ہے۔ائمہ اربعہ اور سلفیہ ایک با ت تویہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے لفظ ’ید‘کو اپنے لیے استعمال کیا ہے تو ایک تو اس لفظ میں تاویل مثلاً اس کا مجازی معنی مراد لیناجائز نہیں ہے یعنی یہ کہنا کہ اللہ کے ’ید‘ سے مراد اس کی قدرت ہے ،کیونکہ یہ کہنا کہ’ید‘ کا لفظ عربی میں قدرت کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے، درست نہیں ہے۔
17۔اس کی وجہ یہ ہے کہ الفاظِ قرآنی سے مراد حقیقت یعنی حقیقی معنی ہوگا اور مجازی معنی اس وقت لیا جائے گا جبکہ اس کا کوئی قرینہ ہو۔ یعنی گفتگو اور خطاب کا یہ ایک مسلم اُصول ہے کہ کلام میں اصل حقیقت ہوتی ہے ، چاہے وہ حقیقت ِلغوی ہو یا عرفی یا شرعی۔ مجازی معنی مراد لینے کے لیے کوئی دلیل چاہیے یعنی کلام میں مجاز مراد لینا دلیل کا متقاضی ہے۔ اگر تو کلام میں مجاز کو اصل مان لیا جائے تو کلام کا معنی کبھی متعین ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر کسی کا مجاز اپنا ہو گا جیسا کہ اہل تاویل کا اللہ کی صفات کے معانی بیان کرنے میں کبھی بھی اتفاق نہ ہو سکا۔ یعنی جہمیہ،معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ سب صفات کی تاویل کرتے ہیں لیکن ان کی تاویلات بھی باہم مختلف ہوتی ہے اور کسی ایک تاویل پران کا اتفاق نہیں ہے جبکہ دوسری طرف ائمہ اربعہ حقیقی معنی مراد لیتے ہیں لہٰذا ان میں اتفاق ہے۔
18۔دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک اس لفظ کا حقیقی معنی (یعنی ہاتھ)مراد نہ لینا بھی صحیح منہج نہیں ہے جسے تفویض کہتے ہیں۔ تفویض سے یہ لازم آتا ہے کہ کلام مخاطب کو سمجھانے کے لیے نہ کی جائے اور جو کلام مخاطب کو سمجھ نہ آئے اسے فصیح اور بلیغ کلام نہیں کہتے۔یعنی صفات میں تفویض کا عقیدہ مان لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی ہم سے یہ پوچھے کہ(ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ)یا (بَلْ يَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ) یا (لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ)وغیرہ جیسی قرآنی آیات کے کیا معنی ہیں؟ تو ہم یہ جواب دیں کہ ان آیات کا معنی اللہ ہی کو معلوم ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔اگر کلام کا معنی ہی واضح نہ ہو تو وہ کلام فصیح وبلیغ کیسے کہلائے گا؟ اللہ کی ذات اس سے بہت منزہ ہے کہ ایسا مبہم کلام کرے جو مخاطب کو سمجھ ہی نہ آئے ۔ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں:
( اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ) (یوسف : ۲)
’’بلاشبہ ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اسے سمجھو۔‘‘
19۔تفویض کے خلاف یہ دلیل بھی کافی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ’ید‘ کا لفظ استعمال کیاتو اگرچہ اس کی کنہ ہمیں معلوم نہ بھی ہو لیکن یہ تو معلوم ہے کہ ’ید‘ سے مراد پاؤں،آنکھیں،چہرہ،ذات وغیرہ نہیں ہوتی ۔ گویا آپ نے ’ید‘ کے معانی سے ایک لمبی چوڑی فہرست کو جب خارج کر دیا تو ’ید‘کا کچھ معنی تواز خود متعین ہو گیا۔ یعنی اگر مفوضہ سے یہ کہا جائے کہ کیا صفتِ ’ید‘ سے مراد صفت ِ’عین‘ ہو سکتی ہے تو ان کا جواب کیا ہو گا؟ پس ’ید‘ کی حقیقت معلوم ہے اور اس سے مراد مجاز نہیں ہے جبکہ اس حقیقت کی کیفیت معلوم نہیں ہے۔
اہل تاویل اور اہل تفویض نے سلفیہ پر یہ جو اعتراض کیا ہے کہ صفات کا حقیقی معنی مراد لینے سے تجسیم لازم آتی ہے تو یہ اعتراض نہایت ہی بودا ہے۔اہل تاویل کے لیے تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ جن اہل تاویل نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفتِ وجود کا اثبات کیا ہے اور اس کا حقیقی معنی مراد لیا ہے۔ پس جب وہ اہل تاویل صفت وجود حقیقی معنی پر باقی رکھتے ہیں اور اس کی تاویل نہیں کرتے جبکہ دیگرصفات کی وہ تاویل کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ جو موقف صفت وجود کے لیے اختیار کرتے ہیں وہی دیگر صفات کے لیے بھی کرنا پڑے گا۔
جہاں تک اہل تفویض کا معاملہ ہے تو ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اللہ کی صفت ِوجود [یعنی موجود ہونا]میں بھی تفویض کے قائل ہیں یا نہیں؟اگر تو وہ صفت ِوجود میں بھی تفویض کے قائل ہیں تو دہریت لازم آتی ہے یعنی صفت ِوجود میں تفویض کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وجود کا معنی کیا ہے اور اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ کے وجود (Existence of God)یعنی ہونے اور نہ ہونے کا معاملہ بھی اللہ کے سپرد کر دیں اور یہی دہریت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اللہ کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اقرار کرتے ہیں۔ اگر تو اہل تفویض صفت ِوجود کا حقیقی معنی مراد لیتے ہیں تو ان پر بھی تجسیم کا اعتراض لازم آتا ہے کیونکہ وجود تو کسی شے کا ہوتا ہے اور معدوم کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
خلاصۂکلام
ائمہ اربعہ کا عقیدہ توحید اسماء وصفات میں یہ ہے کہ وہ حقیقی معنی کا اثبات کرتے ہیں اور اس معنیٰ کی کیفیت کے پیچھے نہیں پڑتے۔ حنفی ماتریدی، حنفی اشعری اور حنفی اہل تفویض کا عقیدہ ائمہ اربعہ اور امام ابو حنیفہ کے عقیدے کے خلاف ہے اور اگر اہل سنت والجماعت سے مراد ائمہ اربعہ کا عقیدہ ہے تو توحید ِاسماء وصفات کے پہلو سے ماتریدی، اشعری اور مفوضہ حنفی علماء اہل السنہ والجماعہ سے خارج ہیں۔پس برصغیر کے بریلوی علما اور علماے دیو بند، جیساکہ ان کے عقیدے کی نشاندہی مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے کی، اس لحاظ سے اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں کہ وہ ائمہ اربعہ کے متفقہ عقیدہ پر نہیں ہیں۔
البتہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر حنفی اہل السنہ سے خارج نہیں بلکہ حنفیہ میں جوامام ابوحنیفہؒ کے عقیدہ پرہیں جیسا کہ امام ابو یوسف، امام محمد، امام طحاوی،اما م بزدوی، امام سرخسی، امام ابن ابی العز حنفی اور مولانا عبد الحیی لکھنویؒ وغیرہ تو وہ بلاشبہ اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔ برصغیر کے احناف کوبھی امام ابو حنیفہ کی طرح خالص سلفی عقیدہ کو اپنانا چاہئے۔ باقی رہا اہل تاویل اوراہل تفویض کا اُخروی معاملہ تو ہم اس کے بارے کوئی کلام نہیں کرتے،کیونکہ یہ معاملہ جنتی اور جہنمی ہونے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کسی فرشتہ مقرب اور نبی مرسل کو بھی اس کا اختیار نہیں دیا۔ہم ظاہر کے مطابق کسی عقیدہ یا فقہ کے مسلک کو صحیح یا غلط،راجح یا مرجوح تو کہہ سکتے ہیں۔اسکے آگے ہمیں حق نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب!
No comments:
Post a Comment