find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

قسط نمبر ۔۲ کیا صفات الہیہ میں آئمہ اربعہ ‘مفوضہ’ ہیں ؟

8۔فخرالاسلام امام بزدوی ’فقہ اکبر‘ کی اس عبارت کی شرح میں فرماتے ہیں :
(فهو له صفات بلا کیف) أي أصلها معلوم ووصفها مجهول لنا فلا یبطل الأصل المعلوم بسبب التشابه والعجز عن درك الوصف، رُوي عن أحمد بن حنبل رحمه اﷲ تعالىٰ أن الکیفية مجهول والبحث عنه بدعة
(پس یہ اللہ کی صفات ہیں بلا کیفیت کے) امام ابو حنیفہ کی اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ ان صفات کا حقیقی اور اصلی معنیٰ معلوم ہے جبکہ کیفیت مجہول ہے۔ پس ان صفات کے حقیقی اور اصلی معنی کا انکار اس وجہ سے نہ کیا جائے گا کہ اس سے مخلوق کے ساتھ (صفات میں) تشابہ لازم آتا ہے اور اس وجہ سے بھی اس حقیقی و اَصلی معنی کا انکار نہیں ہو گا کہ اس کی کیفیت کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ صفات کی کیفیت مجہول ہے اور اس کیفیت کے بارے بحث کرنا بدعت ہے:
9۔ملا علی القاری(متوفی ۱۰۱۴ھ) فرماتے ہیں کہ صفات کے مسئلے میں جو عقیدہ امام ابن تیمیہ کا تھا، وہی امام ابو حنیفہ کا عقیدہ ہے جو اُنہوں نے ’فقہ اکبر ‘ میں بیان کیا ہے۔ ملا علی القاری یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ کو تجسیم کا قائل قرار دینا صحیح نہیں ہے بلکہ صفات کے بارے ان کا موقف وہی تھا جو سلف صالحین کا ہے اور وہ یہ ہے کہ صفات کا معنی معلوم اور کیفیت مجہول ہے۔ ملا علی القاری لکھتے ہیں:
قال: الاستواء معلوم والکیف غیر معقول والإیمان به واجب والسؤال عنه بدعة ـــ فَرَّقَ بین المعنٰی المعلوم من هذه اللفظة وبین الکیف الذي لا یعقله البشر وهذا الجواب من مالك رحمه اﷲ شاف عام في جمیع مسائل الصفات من السمع والبصر والعلم والحیاة والقدرة والإرادة والنزول والغضب والرحمة والضحك ـــ فمعانیها کلها معلومة وأما کیفیتها فغیر معقولة إذ تعقل الکیف فرع العلم بکیفية الذات وکنهها۔ فإذا کان ذلك غیر معلوم فکیف یعقل لهم کیفية الصفات والعصمة النافعة من هٰذا الباب أن یصف اﷲ بما وصف به نفسه ووصف به رسوله من غیر تحریف ولا تعطیل ومن غیر تکییف ولا تمثیل بل یثبت له الأسماء والصفات وینفی عنه مشابهة المخلوقات فیکون إثباتك مُنزّها عن التشبیه ونفیك مُنزّها عن التعطیل فَمَنْ نفٰی حقیقة الاستواء فهو مُعطِّل ومن شبَّهه باستواء المخلوقات علی المخلوق فهو مشبه ومن قال استواء لیس کمثله شيء فهو الموحد المنزه.انتهٰی کلامه وتبین مرامه وظهر أن معتقده موافق لأهل الحق من السلف وجمهور الخلف فالطعن التشنیع والتقبیح الفظیع غیر موجه علیه ولا متوجه إلیه فإن کلامه بعینه مطابق لما قاله الإمام الأعظم والمجتهد الأقدم في فقهه الأکبر ما نصه وله تعالی ید ووجه ونفس
’’(امام ابن تیمیہ کہتے ہیں) امام مالک نے کہا کہ اللہ کا مستوی ہونا تو معلوم ہے لیکن کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کیفیت کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔ امام مالک نے ان الفاظ کے ذریعہ صفات کے معلوم معنیٰ اور غیر معقول کیفیت میں فرق کیا ہے۔امام مالک کا یہ جواب جمیع صفاتِ باری تعالیٰ مثلاً سماعت، بصارت، علم، حیات، قدرت، اِرادہ، نزول، غضب، رحمت اور ضحک وغیرہ کے بارے کافی وشافی ہے۔ پس جمیع صفاتِ باری تعالیٰ کے معانی معلوم ہیں جبکہ ان کی کیفیات غیر معقول ہیں کیونکہ صفات کی کیفیات کا معقول المعنیٰ ہونا، ذات کی کیفیت اور اس کی کنہ کے علم کی ایک شاخ ہے۔پس جب اللہ تعالیٰ کی ذات اور کنہ غیر معلوم ہے تو اس کے صفات کی کیفیات بھی معقول نہیں ہو سکتیں۔ اس مسئلے میں نافع اور محتاط قول یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر اس صفت سے موصوف کیا جائے جس کے ساتھ اللہ نے خود یا اللہ کے رسول نے اللہ تعالیٰ کو موصوف کیا ہو اور ان صفات کے معانی میں نہ تو تحریف کی جائے (یعنی تاویل) اور نہ ہی تعطیل کی جائے (یعنی ان صفات کے حقیقی معانی کا انکار کیا جائے یعنی تفویض مطلق وغیرہ) اور نہ ہی ان کی کیفیت بیان کی جائے اور نہ ہی ان کی مثال بیان کی جائے (یعنی مخلوق سے مشابہت دی جائے ) بلکہ اللہ کے لیے جمیع اَسما اور صفات کا اثبات کیا جائے اور ان اسما و صفات کی مخلوق کے اسما و صفات سے مشابہت سے انکار کیا جائے۔ پس تیرا صفات کا اِثبات اس طرح ہو کہ اس میں تشبیہ موجود نہ ہو اور صفات کی کیفیات کے بارے تیری نفی یوں ہو کہ اس سے صفات کا ظاہری اور حقیقی معنی کا انکار نہ ہو۔ پس جس نے اِستوا کے حقیقی معنیٰ کا ہی انکار کر دیا تو وہ معطلہ میں سے ہے اور جس نے استوا کی تشبیہ یوں بیان کی کہ یہ ایسا ہے جیسے ایک مخلوق دوسری مخلوق پر ہوتی ہے تو یہ مشبہ میں سے ہے اور جس نے یہ کہا کہ اِستوا تو ہے لیکن اس طرح کہ اس کی مانند کوئی شے نہیں ہے تو وہی درحقیقت موحد اور تنزیہ بیان کرنے والا ہے۔یہاں پر امام ابن تیمیہ کا کلام ختم ہوا۔
(اب میں یعنی ملا علی القاری یہ کہتا ہوں) کہ اس کلام سے امام ابن تیمیہ کا مقصد واضح ہو گیا ہے اور اُن کا عقیدہ بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے اور یہ وہی عقیدہ ہے جو سلف صالحین اور جمہور خلف کا ہے۔ پس طعن و تشنیع اور بدترین تقبیح کی نسبت امام ابن تیمیہ کے لیے درست نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ کا کلام بعینہٖ وہی کلام ہے جسے امام اعظم اور مجتہد اکبر امام ابو حنیفہؒ نے اپنی کتاب ’فقہ ِاکبر‘ میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ اور چہرہ اور نفس ہے ۔‘‘
10۔اپنی ایک اور کتاب فقه أبسط میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
لایوصف اﷲ تعالىٰ بصفات المخلوقین، وغضبه ورضاه صفتان من صفاته بلا کیف، وهو قول أهل السنة والجماعة، وهو یغضب ویرضٰى ولا یقال: غضبه عقوبته، ورضاه ثوابه
’’اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی صفات سے موصوف نہیں کیا جائے گا۔ غضب او ر رضا اللہ کی صفات میں سے دو صفات ہیں جن کی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔ یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غضب میں بھی آتے ہیں اور راضی بھی ہوتے ہیں ۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ کے غضب سے مراد اُس کی طرف سے سزا ہے اور اس کی رضا سے مراد اس کی طرف سے ثواب ہے۔‘‘
11۔عقیدہ کی مشہور کتاب العقیدہ الطحاویہ کے شارح علامہ ابن العز حنفی لکھتے ہیں:
روٰی شیخ الإسلام أبو إسمٰعیل الأنصاري في کتابه الفارق بسنده إلی مطیع البلخي أنه سأل أبا حنیفة عمن قال: لا أعرف ربي في السماء أم في الأرض فقال : قد کفر لأن اﷲ یقول: الرحمٰن على العرش استوٰی وعرشه فوق سبع سماواته. قلت: فإن قال: إنه علىٰ العرش ولکن یقول لا أدري العرش في السماء أم في الأرض؟ قال: هو کافر لأنه أنکر أنه في السماء فمن أنکر أنه في السماء فقد کفر
’’شیخ الاسلام ابو اسماعیل انصاری نے اپنی کتاب ’الفارق‘ میں اپنی سند سے مطیع بلخی سے نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے اس شخص کے بارے سوال کیا جو یہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا کہ میرا ربّ آسمان میں ہے یا زمین میں؟ تو امام صاحب نے فرمایا : اس نے کفر کیاکیونکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہیں اور اللہ کا عرش سات آسمانوں پر ہے۔ میں (یعنی مطیع بلخی) نے پھر یہ سوال کیا کہ اگر وہ شخص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو عرش پر ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ عرش آسمان میں ہے یا زمین میں ؟تو امام ابو حنیفہ نے کہا: یہ شخص بھی کافر ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا تو وہ کافر ہے۔‘‘
مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ کو متشدد قرار دیا ہے۔ اب وہ بتائیں کہ اس مسئلے میں متشدد کون ہے؟ تکفیر تو امام ابو حنیفہ کریں اور متشدد سلفیہ قرار پائیں۔ عقیدہ طحاویہ ، عقیدے کی کتاب ہے جس کے مصنف حنفی فقیہ امام طحاوی ہیں۔ پھر اس کتاب کی شرح ’شرح عقیدہ طحاویہ‘ جس کا ہم نے حوالہ دیا ہے، ایک حنفی عالم دین ابن ابی العز حنفی(متوفی ۷۹۲ھ) کی ہے۔پس حنفی عقیدے کی کتاب اور حنفی عالم دین (شارح) اس روایت کے ناقل ہیں اور نقل بھی حنفی فقہا کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ اب بھی اگراسکے جواب میں معاصر حنفی علما یہ کہیں کہ سلفیہ نے یہ عقیدہ امام ابو حنیفہ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے تو اُن کا اللہ ہی حافظ ہے۔’فقہ اَبسط‘ میں بھی امام صاحب کایہ قول موجود ہے جو خود امام صاحب کی طرف منسوب کتاب ہے۔ پھر جلیل القدر محدثین نے اس قول کی نسبت امام صاحب کی طرف ثابت کی ہے جیسا کہ امام ذہبی کی کتاب کا حوالہ ہم نے نقل کیا ہے:
12۔امام بیہقی (متوفی ۴۵۸ھ) اپنی سند کے ساتھ امام ابو حنیفہ سے یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ان سے جب ایک عورت نے یہ سوال کیا ہے کہ آپ جس ’الٰہ‘ کی عبادت کرتے ہیں، وہ کہاں ہے؟ تو امام صاحب نے اس عورت کو جواب نہ دیا اور سات دن تک اس کے سوال کا جواب دینے سے رُکے رہے، یہاں تک کہ سات دن بعد امام صاحب تشریف لائے اور اپنی دو کتابیں (غالباً مراد فقہ اکبر اور فقہ ابسط ہے) سامنے رکھیں اور کہا:
اﷲ تبارك وتعالىٰ في السماء دون الأرض. فقال له رجل : أرأیت قول اﷲ عز وجل:﴿وَ هُوَ مَعَكُمْ﴾ قال: هو کما تکتب إلىٰ الرجل إني معك وأنت غائب عنه
’’ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے اور زمین میں نہیں ۔ ایک شخص نے اس پر کہا کہ قرآن کی اس آیت کہ (وَ هُوَ مَعَكُمْ) سیعنی وہ اللہ تمہارے ساتھ ہے ، کے بارے آپ کی کیا رائے ہے تو امام صاحب نے کہا : یہ ایسے ہی ہے جیساکہ تو کسی آدمی کو کوئی خط لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، حالانکہ تو اس سے غائب ہوتا ہے۔‘‘
اب اس کو مولانا سلیم اللہ خان صاحب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تفویض مطلق ہے؟ اور استوا کا اس قدر معنیٰ بیان کرنا ہی تفویض کہلاتا ہے۔اگرتو مولانا کی تفویض سے یہی مراد ہے جو امام ابوحنیفہ کے حوالے سے مذکورہ بالا عبارت میں بیان ہوئی ہے تو پھر ان کے اور سلفیہ کے مابین اختلاف لفظی ہے۔ یعنی استوا سے مراد آسمان میں ہونا لینا کیا تفویض مطلق ہے یا لفظ کو حقیقی معنی پر برقرار رکھ کر اس کی کیفیت بیان کرنے سے اجتناب کرنا ہے؟
13۔امام ابو حنیفہ سے جب اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نازل ہونے کے بارے سوال ہوا تو اُنہوں نے جواباً کہا: ینزل بلا کیف ’’اللہ تعالیٰ نازل ہوتے ہیں لیکن اس کی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔‘‘
14۔مشہور حنفی فقیہ شمس الائمہ امام سرخسی (متوفی ۴۳۸ھ) محکم اور متشابہ کی بحث میں قرآن میں متشابہ کا معنی سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
وبیان ما ذکرنا من معنی المتشابه من مسائل الأصول أن رؤية اﷲ بالأبصار في الآخرة حق معلوم ثابت بالنص، وهو قوله تعالىٰ(وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ وَ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍۭ بَاسِرَةٌ)ثم هو موجود بصفة الکمال، وفي کونه مرئیا لنفسه ولغیره معنٰی الکمال إلا أن الجهة ممتنع، فإن اﷲ تعالىٰ لا جهة له فکان متشابها فیما یرجع إلی کیفية الرؤية والجهة، مع کون أصل الرؤية ثابتًا بالنص معلومًا کرامة للمؤمنین، فإنهم أهل لهذه الکرامة، والتشابه فیما یرجع إلىٰ الوصف لا یقدح في العلم بالأصل ولا یبطل، وکذلك الوجه والید على نص اﷲ تعالىٰ في القرآن معلوم وکیفیــية ذلك من المتشابه فلا یبطل به الأصل المعلوم. والمعتزلـة ــ خذلهم اﷲ ـــ لاشتباه الکیفية علیهم أنکروا الأصل فکانوا بإنکارهم صفات اﷲ تعالىٰ وأهل السنة والجماعة ــ نصرهم اﷲ ــ أثبتوا ما هو الأصل المعلوم بالنص وتوقفوا فیما هو المتشابه وهو الکیفية ولم یجوزوا الاشتغال بطلب ذلك
’’اعتقادی مسائل میں متشابہ کا جو معنی ہم نے بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آخرت میں آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دیدار نص سے معلوم ، حق اور ثابت ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اور اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔پھر وہ صفت ِکمال کے ساتھ موجود بھی ہے اور اللہ کے اپنی ذات اور دوسروں کے لیے دیکھنے جانے سے مراد کمال درجے میں دیکھا جانا ہے مگر اس دیکھنے میں کوئی خاص جہت نہیں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ جہات سے پاک ہے۔ پس اس صورت میں متشابہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو دیکھے جانے کی کیفیت اور جہت متشابہ ہے (نہ کہ دیکھنا یعنی رؤیت کا حقیقی معنی ہی متشابہ ہے)جبکہ دیکھنا تو نص سے معلوم اور ثابت ہے اور اس میں اہل ایمان کی فضیلت ہے۔ اور تشابہ (یعنی متشابہ ہونا) یہاں پررؤیت کی کیفیت میں ہے اور ایسے تشابہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ رؤیت کا حقیقی واصلی معنی ہی باطل یا قابل عیب ٹھہرے ۔ اس طرح کا معاملہ صفت ِ’ید‘ او ر صفت’ِوجہ‘ کا بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں قرآن میں بیان کیا ہے تو اُن کا معنی معلوم ہے لیکن ان کی کیفیات متشابہ ہیں۔ پس کیفیت کے متشابہ ہونے کی وجہ سے حقیقی و اصلی معنیٰ باطل قرار نہیں پائے گا۔ جہاں تک معتزلہ کا تعلق ہے، اللہ اُنہیں رسوا کرے، اُنہوں نے صفات کی کیفیت کے مشتبہ ہوجانے کی وجہ سے ان کے حقیقی معنی کا بھی انکار کر دیاپس وہ اللہ کی صفات کے منکر بن گئے۔جبکہ اہل سنت والجماعت، اللہ تعالیٰ ان کی مدد ونصرت فرمائے، صفات کی نصوص کے حقیقی و اصلی معنی کا اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جو چیز متشابہ ہے اس میں توقف کرتے ہیں اور وہ متشابہ چیز ان کی کیفیت ہے اور اس کیفیت کے پیچھے پڑنے کو اہل سنت جائز قرار نہیں دیتے ہیں۔‘‘
یہ واضح رہے کہ سلفی حنفی علما اللہ تعالیٰ کے لیے جہات کا انکار کرتے ہیں لیکن صفت ِعلو یا فوقیت کو ثابت کرتے ہیں جیسا کہ ’فقہ اکبر‘اور عقیدہ طحاویہ اور شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
15۔امام بزدوی بھی متشابہ کے بارے مشایخ حنفیہ کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
إثبات الید والوجه حق عندنا معلوم بأصله متشابه بوصفه ولا یجوز إبطال الأصل بالعجز عن إدراك الوصف بالکیف وإنما ضلت المعتزلة من هٰذا الوجه فإنهم ردّوا الأصول لجهلهم بالصفات فصاروا معطلة
’’(اللہ کی صفات میں سے)ہاتھ اور چہرہ کا اثبات ہمارے نزدیک حق ہے اور اس کا اصل معنی (یعنی حقیقی معنی)معلوم ہے جبکہ اس کی کیفیت متشابہ ہے۔ پس صفات کے اصل(یعنی حقیقی) معنی کو اس وجہ سے ردّ کرنا جائز نہیں ہے کہ صفات کے اس اصل معنی کی کیفیت کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔ معتزلہ اسی وجہ سے گمراہ ہوئے اور اُنہوں نے اپنی جہالت کے سبب صفات کے حقیقی معانی کا بھی انکار کر دیا اور معطلہ بن گئے۔‘‘
16۔اسی طرح امام طحاوی (متوفی ۳۲۱ھ) لکھتے ہیں:
وأن القرآن کلام اﷲ منه بدأ بلا کیفية قولا
’’یہ کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اسی سے اس کی ابتدا باعتبارِ قول کے ہوئی ہے اور اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔‘‘

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS