*منہج سلف تا قیامت باقی رہے گا*
*تحریر:حافظ عبد الرشید عمری*
(الحمدللہ یہ تحریر کسی کتاب سے استفادہ کئے بغیر حافظہ میں جو حاصل مطالعہ محفوظ ہے اس کو بنیاد بنا کر اللہ تعالٰی کے عطا کردہ علم و فہم کے مطابق برجستہ یہ تحریر لکھی گئی ہے،
کہیں غلطی ہو تو اہل علم سے مثبت انداز میں اصلاح کی درخواست ہے ۔)
منہج سلف کو جغرافیائی اعتبار سے تقسیم کرنا کسی بھی حیثیت سے درست نہیں ہے،
آج کل منہج سلف سے بیر رکھنے والے کچھ زیادہ ہی شیطانی خوشی محسوس کررہے ہیں،
اللہ تعالٰی رب العالمین ہے
قرآن ذکر للعالمین ہے
اور ہمارے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم رحمة للعالمين ہیں،
اسلام کا پیغام تاقیامت ابدی ہے
جب روئے زمین پر ایک بھی اللہ کا نام لیوا موجود نہیں رہے گا تو اللہ قیامت قائم کرے گا،
پہلی وحی إقرأ ۔۔۔۔ سے اسلام کا پیغام شروع ہوتا ہے
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تیئیس سالہ نبوت و رسالت کی زندگی میں اسلام کا پیغام مکمل ہوتا ہے ۔
سورہء مائدہ میں اللہ نے فرمایا :
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الإسلام دينا
(المائدة:٣)
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا ۔
يہی آیت منہج سلف کے پیش نظر رہتی ہے
دین میں کمی بیشی کے وہ قائل نہیں ہیں،
اور ان کا یہ بھی عقیدہ اور منہج ہے کہ اطاعت صرف اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ہوگی،
اور فہم صحابہ قرآن و سنت کے صحیح فہم کے لئے ضروری ہے ،
اور درج ذیل دوآیات فہم صحابہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں
فإن آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدو (البقرة:١٣٧)
اگر وہ تم(صحابہ)جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں ۔
ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى و نصله جهنم و ساءت مصيرا
(النساء:١١٥)
جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول کا خلاف کرے اور تمام مومنوں(صحابہ) کی راہ چھوڑ کر چلے،ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے ۔
اور حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا:
خیر القرون قرنی ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
بہترین زمانوں میں میرا زمانہ ہے پھر ان لوگوں کا جو صحابہ کے بعد آئیں گے( یعنی تابعین کا ) اور پھر ان لوگوں کا جو ان(تابعین) کے بعد آئیں گے(یعنی تبع تابعین کا)
اس حدیث کے مطابق فہم صحابہ فہم تابعین اور فہم تبع تابعین بھی قابل ثقہ اور قابل اعتبار ہے
ہاں ان کے مابین بھی اختلاف ہونے کی صورت میں قرآن و سنت کے نصوص اور دلائل کی بنیاد پر ان کے اقوال کو ترجیح دی جائے گی ۔
اس طرح اسلامی شریعت کے حقیقی مصدر دو قرآن و سنت ہیں،
اور دو مصدر قرآن و سنت کے تابع ہیں اجماع امت اور قیاس صحیح،
یہ واضح طور پر اسلامی شریعت کے مصادر معلوم ہیں،
لیکن اس کے باوجود اختلاف کے چند اسباب ہیں
جن کو *اسباب اختلاف الفقہاء*
کہا جاتا ہے اور علماء اسلام نے اس پر ہر زمانے میں کتابیں بھی تالیف کی ہیں،
یہ سب اختلاف اہل سنت و جماعت کے مابین عملی مسائل و احکامات سے متعلق ہیں ،
لیکن عقیدہ اور منہج میں فضیلت کے حامل قرون اولی
میں اہل سنت و جماعت کے مابین پوری طرح اتفاق تھا اور تیسری صدی کے اواخر اورچوتھی صدی کے اوائل میں ائمہ کرام کے متبعین کے مابین اختلاف نے اندھی عقیدت اور جاہلی عصبیت کی شکل اختیار کر لیا
یہیں سے گمراہ فرقوں کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اہل سنت و جماعت کے حاملین میں بھی عقیدہ اور منہج میں اختلاف پیدا ہو گیا،
*ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی عقیدہ کے لحاظ سے اہل سنت و جماعت کا حامل ہو اور منہج کے لحاظ سے خوارج ،معتزلہ اور صوفیہ وغیرہ جیسے گمراہ فرقوں کی فکر کا حامل ہو،*
*عقیدہ کی تعریف میں ایمان*
*واسلام کے مسائل اور اللہ کی صفات کے مسائل اور* *اخروی ثواب و عقاب کے اہم مسائل آتے ہیں وغیرہ وغیرہ*
*لیکن منہج کی تعریف میں تمام ہی عبادات،*
*معاملات، معاشرت ، حکومت اور تجارت وغیرہ کے سارے اہم مسائل شامل ہیں،*
*اب جنہوں نے محدثین کے طرز پر قرآن و سنت کے فہم میں فہم صحابہ،تابعین اور* *تبع تابعین کو پیش نظر رکھا*
*اور اختلاف کی صورت میں قرآن و سنت کے دلائل کو قابل ترجیح ٹھہرایا،*
*یہی اہل علم اور عوام سلف کے سچے پیروکار بن کر اپنے آپ کو سلف کی طرف نسبت کرتے ہوئے سلفی،اہل الحدیث اور اہل الاثر کہلائے*
آخر ساری دنیا کے مسلمانوں کو سلف کے عقیدہ و منہج کے حاملین سے اتنی نفرت کیوں ہے،
یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے ،
الحمد للہ تاقیامت سلف کے عقیدہ و منہج پر کاربند رہنے والے موجود رہیں گے،
حدیث میں اسی جماعت کی حق گوئی و بیباکی کی تعریف کی گئی ہے
اور ان کے پیش نظر صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی ہے ،
دنیا کی ساری باطل طاقتیں مل کر بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر پائیں گے ۔
*مستند علماء کرام اور موحد عوام کے اعتبار سے مجموعی طور پر الحمدللہ سعودی*عرب کی ایک امتیازی حیثیت ہے*
وہاں پر خلاف شریعت کچھ صغائر وکبائر گناہوں کی موجودگی سے (چاہے وہ عوامی سطح پر ہو یا حکومتی سطح پر) منہج سلف کے صحیح یا غلط ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہے،
*کسی مسلمان کی بدعملی اسلام کے غلط ہونے کا ثبوت نہیں ہے*
*اسی طرح منہج سلف کے حاملین کی بدعملی منہج سلف کے غلط ہونے کا ثبوت نہیں ہے*
ساری دنیا میں الحمد للہ منہج سلف کے حاملین ہیں
حکمران طبقہ کی غلطیوں کی اصلاح کا طریقہءکار وہ نہیں ہے جو منہج سلف سے انحراف کرنے والے اختیار کئے ہوئے ہیں
اور درحقیقت وہاں کے علماء کرام اپنے حکمرانوں کی انفرادی طور پر یا کسی اور انداز سے پوری حکمت و بصیرت کے ساتھ وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنكر کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دینے کی کامل اہلیت رکھتے ہیں
اللہ تعالٰی وہاں کے علماء کرام سے ان کے حکمرانوں کے بارے میں باز پرس کرے گا
پوری دنیا کے علماء کرام اور عوام کیوں اتنے زیادہ فکر مند ہیں،
ساری دنیا کے علماء کرام اور عوام سعودی عوام کو اپنے حکمرانوں کے خلاف جتنا بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں
اور سعودی کے پر امن ماحول اور فضا کو زہر آلود کرنے کی کوشش کررہے ہیں
کیا اس قسم کی کوئی اسلامی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر عائد کئے ہیں ۔
یہ تو صحابہ کا طریقہءکار
ہے نہیں ہے کہ حکومت وقت کے خلاف عوام کے جذبات کو بھڑکایا جائے
یہ تو خوارج کی نشانی ہے ،
اور پوری دنیا میں کونسا ایسا اسلامی ملک ہے جو صغائر اور کبائر گناہوں سے پاک ہے
اور ہر اسلامی ملک میں کئی خلاف شریعت برائیاں حکومت کی سرپرستی ہی میں پنپ رہی ہیں ۔
ہر ملک کے علماء اور عوام پوری حکمت اور ایمانی بصیرت سے اپنے اپنے ملک میں رائج برائیوں کے خاتمے کیلئے مخلصانہ کوششیں جاری رکھیں ،
دوسرے ملک کے علماء کرام اور عوام کسی اور ملک میں دخل اندازی کریں تو اس کے مفید نتائج برآمد
ہونے کے بجائے برے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں ۔
اور وہاں کے عوام کو کسی کے بھڑکانے کے سبب کچھ مشکلات حکومت کی جانب سے درپیش ہوں تو اس کے ذمہ دار کون ہوں گے ۔
اسلام میں حکمت اور بصیرت کی اہمیت بہت زیادہ ہے
ہماری ذات سے کسی مسلمان کو زبان اور ہاتھ سے تکلیف نہیں پہنچنا چاہئے
اگر کسی بھی ملک کے عوام برائیوں کو چھوڑ دیں تو ان شاء اللہ برائیوں کے مراکز خود بخود بند ہو جائیں گے،
*علماء کرام عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے بجائے عوام کے دلوں میں برائیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کریں*
*اگر عوام برائیوں کو چھوڑ دیں گے تو برائیوں کے اہم مراکز ان شاء اللہ ختم ہو جائیں گے۔*
اللہ تعالٰی سارے علماء کرام کو اسلام کی دعوت
حکمت و بصیرت کے ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔
*قلمکار:*
*حافظ عبد الرشید عمرى*
*دوحہ-قطر ۔*
8/اپریل 2018ع
٢٢/رجب ١٤٣٩ھ
No comments:
Post a Comment