سوال:کیا عورت عورتوں کو امامت کرواسکتی ہے۔؟
الجواب بعون رب العباد:
عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔
اس میں کوئی حرج نہیں ہے
البتہ وہ عورتوں کے بیچ میں کھڑا ہوکر نماز پڑھائے گی۔
دلیل:امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے اور اسکے سنت ہے یہ ہے کہ وہ انکے بیچ ہی میں کھڑی ہوجائے کیونکہ حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھما نے عورتوں کی امامت کرائی اور انکے بیچ میں کھڑی ہوئیں۔[شرح المهذب192/4 ، المغني لابن قدامه347/1].
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں حرج نہیں کہ عورت عورتوں کی امامت کرے چاھیے گھر کی عورتوں کی امامت کرے یا کسی اور جگہ۔
نبی علیہ السلام کا فرمان کہ جو زیادہ قرآن جاننے والا ہو وہ لوگوں کی امامت کرائے اس میں عورت بھی شامل ہے۔
اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھما نے بعض عورتوں کی امامت کرائی ہے۔
حاصل کلام کہ ضرورت پڑنے پر عورت عورتوں کی امامت کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسا کرنے مستحب ہے۔[فتاوی نور على الدرب ، حكم إمامة المرأة]۔
ابو داود وغیرہ میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے ام ورقہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر میں عورتوں کی امامت کرے۔[صحیح ابو داود شیخ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے]۔
جمہور اہل علم ائمہ حنیفہ ، ائمہ شوافع اور حنابل اور بہت سے سلف کی یہی رائے ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔[
تبيين الحقائق للزيلعي، مع حاشية السلبي135/1 ، فتح القدير للكمال ابن الهمام533/1 ، المجموع للنووي 199/4 ، أسنى المطالب 209/1 ، الإنصاف للمرداوي 187/2 ، المغني لابن قدامة 148/2 ، شرح الزركشي على مختصر الخرقي 98/2 ، الشرح الممتع لابن عثيمين 275/4]۔
علامہ ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے جو اہل علم جواز کے قائل ہیں وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھما نے بعض عورتوں کی امام کرائی ہے یہی رائے امام عطا ، امام اوزاعی اور سفیان ثوری امام شافعی ، امام اسحاق اور امام احمد اور ابوثور کی ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔[الأوسط258/4]۔
یاد رہے احناف کی رائے ہے کہ اگر عورت عورتوں کی امامت کرے انکی نماز تو ہوگئی تو عورت کی امامت مکروہ عمل ہے۔[حوالہ سابق]۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام اوزاعی ، سفیان ثوری ، امام احمد بن حنبل ابوثور اور اسحاق فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے مستحب ہے کہ وہ عورتوں کی امامت کرے اور وہ عورتوں کے بیچ صف میں امامت کرائے اور یہ بہت سے صحابہ سے بھی مروی ہے صحابہ میں سے کوئی اسکا مخالف نہیں ہے۔[المحلى137/3]۔
دلیل:حدیث ام ورقہ بنت نوفل رضی اللہ عنھا۔[أخرجه أبو داود 592 ، وأحمد 27324 ، وابن خزيمة 1676 ، اعلام الموقعين 274/2 ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے ، صحيح سنن أبي داود ، 592]۔
ایک اور دلیل:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے بعض عورتوں کی نماز مغرب کی نماز پرھائی اور انکے بیچ صف میں کھڑی ہوئی اور انہوں نے جهري قراءت کی۔[أخرجه ابن حزم في المحلى 219/4 ، خلاصة البدر المنير198/1 ، ابن ملقن رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے]۔
حجیرہ بنت حصین رضی اللہ بیان کرتی ہے کہ ہمیں ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے نماز عصر پڑھائی اور وہ ہمارے درمیان کھڑی تھی۔[أخرجه عبد االرزاق في المصنف 5082 ، الطبقات الكبرى 10966، والدارقطني 405/1 ، المجموع 199/4 ، اتحاف الخيرة المهرة 96/2].
امام مووی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ان ادلہ اور اقوال ایل علم سے ثابت ہوا کہ عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں البتہ عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی کیونکہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
کتبہ/حافظ ابوزھیر محمد یوسف بٹ ریاضی۔
No comments:
Post a Comment