بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين
*علماء مظلوم کیوں؟*
*ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ*
ظلم کسی بھی شخص پر ہو یہ بہت خطرناک اور سخت مذموم صفت ہے، حتی کہ کافر اور مشرک اور جانور پر ظلم کرنا بہت بڑا گناہ ہے، اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ ظلم کی سزا مرنے سے پہلے دنیا ہی میں دے دیتا ہے تاکہ مظلوم کا سینہ ٹھنڈا ہوجائے، اور دنیا والوں کے عبرت ونصیحت کا سامان بن جائے-
قارئین کرام! سوال یہ ہے کہ کیا علماء مظلوم ہیں، جی ہاں! علماء مظلوم ہیں، علماء پر مظالم کی داستان بہت قدیم ہے، ان پر اپنوں اور غیروں دونوں کا حملہ رہتا ہے، مگر ایسے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، ان کو ستانا، ان پر ظلم ڈھانا نہایت سنگین جرم ہے، اس کا انجام ہمیشہ بہت برا ہوا ہے، علماء کی توہین کرنے والے، ان پر مظالم ڈھانے والے ہمیشہ بری موت کے شکار ہوتے ہیں، اور دوسرا سوال یہ ہے کہ جب علماء وارثین انبیاء ہیں تو ان پر کیوں کوئی ظلم ڈھاتا ہے، اور علماء مظلوم کیوں ہوتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مصیبت نازل ہونے کے کئی اسباب ہیں ان میں سے ایک سبب ابتلاء وآزمائش بھی ہے، اللہ تعالٰی آزمائش کے ذریعے درجات بلند کرنا چاہتا ہے، اپنے نیک بندوں کا امتحان لینا چاہتا ہے، ان کے گناہوں کو معاف کرنا چاہتا ہے، مگر افسوس کچھ نادان یہ سمجھتے ہیں کہ مصیبت وبال جان ہے، اور جب علماء یا عوام کو مصیبت میں دیکھتے ہیں تو ان کے متعلق برملا کہتے ہیں کہ ضرور ماضی میں کچھ غلط کام کیا ہوگا، اسی لیے اب اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے، لیکن یہ بہت گندی بات ہے، یہ ایک جھوٹ الزام ہے، دیکھیے جب انبیاء کرام مشکلات ومصائب سے محفوظ نہ رہ سکے تو علماء کس کھیت کی مولی ہیں، مصیبتیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک درجات کی بلندی کے واسطے، اس مصیبت کو ابتلاء وازمائش کہتے ہیں، دوم معصیت اور گناہ کا خمیازہ، اس کو عذاب کہتے ہیں- آزمائش سے بندہ نکھرتا ہے، چمکتا ہے، اسے قلبی سکون ملتا ہے، عزت ووقار میں اضافہ ہوتا ہے اور عذاب میں انسان بکھرتا اور پریشان ہوتا ہے، ذلیل ورسوا ہوتا ہے-
پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ "أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟قَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ"(سنن ترمذی:2397/حسن صحيح) ابتلاء وآزمائش کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ سخت کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا انبیاء، پھر اس کے بعد جو ان کے نقش قدم پر چلے، آدمی کو اس کے دین وایمان کے مطابق آزمایا جاتا ہے، اگر اس کا دین قوی اور مضبوط ہو تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے، اور اگر اس کا دین کمزور ہو تو اس کو اس کے دین کے مطابق آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے-
اس حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ جس کا ایمان مستحکم ہو تو آزمائش بھی اسی کے پاس برابر آتی ہے، آزمائش کا آنا یہ مضبوط ایمان کی شناخت ہے، اسی لیے علماء مظلوم اور پریشان حال رہتے ہیں، دراصل علماء انبیاء کے وارث ہیں، مضبوط ایمان کے مالک ہیں، علم نافع وعمل صالح کے حامل ہیں، اس لیے ان کو بھی اپنی زندگی میں انبیاء کرام کی طرح غیر معتدبہ فتنوں، آزمائشوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا، لہذا علماء کرام کو خصوصاً اور عوام کو عموماً اپنے ہر چھوٹے بڑے مصائب و مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے، اور انبیاء کے نقش قدم پر چل کر صبر وثبات کا پیکر بننا چاہیے، کبھی مظلومیت بھری زندگی سے بیزار نہیں ہونا چاہیے، فتنوں اور آزمائشوں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے، کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ دنیا وآخرت میں بھلا اسی کا ہوگا جو صابر وشاکر ہو، رب کا مطیع وفرمانبردار ہو، علم وعمل کا پیکر ہو، انبیائی مشن پر گامزن ہو، دعا ہے رب العالمين سے کہ مولائے کریم ہم سب کو علم نافع وعمل صالح کی توفیق عطا فرمائے آمین-
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*ابوعبداللہ اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ*
28/06/2018
No comments:
Post a Comment