Kya Social Media Pe Salam Ka JAwab Dena Jaruri HAi
سوال: محترم گر کوئی شخص سلام کا جواب نہیں دے کیا وہ گنہگار ہو گا ؟
اور کیا موجودہ دور میں سوشل میڈیا پر سلام وغیرہ کا جواب نہ دینے کی صورت میں گنہگار ہوگا؟
اس سوال کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی دیجئے مہربانی ہوگی۔
الجواب بعون رب العباد:
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
اور کیا موجودہ دور میں سوشل میڈیا پر سلام وغیرہ کا جواب نہ دینے کی صورت میں گنہگار ہوگا؟
اس سوال کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی دیجئے مہربانی ہوگی۔
الجواب بعون رب العباد:
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
ہر مسلمان کو چاھئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرے چاھئے وہ اسے جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔
دليل: نبی علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور سوال کیا کہ کونسا عمل بہتر ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تو کسی کو کھانا کھلائے اور کسی کو سلام کرے چاھئے تو اسکو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔[بخاری ومسلم]۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تو ہر اس شخص کو سلام کرے جس سے تو ملاقات کرے یہ ضروری نہیں کہ آپ اسے جانتے ہوں جیساکہ آج کل اکثر لوگ کرتے ہیں۔[شرح مسلم].
اسے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان کو چاھئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی چاھئے وہ اسے جانتا ہو یا اسے نہ جانتا ہو اسے ملتے وقت سلام کرے جیساکہ اوپر کی حدیث معلوم ہوا۔
اور سلام کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔
جمہور اہل علم کے نزدیک سلام کا جواب دینا واجب ہے اور سلام کرنا سنت نبوی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلام کا جواب دینا اجماعا فرض ہے۔[المجموع]۔
کیونکہ قرآن وحدیث میں سلام کے جواب دینے کا حکم موجود ہے جیساکہ قرآن کی سورہ نساء آیت نمبر86 میں سلام کے کے جواب دینے کا حکم موجود ہے اور اسے ثابت ہوا کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے اسلئے کہ یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے جو اسے وجوب سے سنت یا مستحب کی طرف پہیردے۔
ثابت ہوا کہ سلام کا جواب دینا واجب اور ضروری ہے اور جو شخص وجوب کو ترک کردے وہ گنہگار ہوگا۔
امام ابن مفلح رحمہ اللہ نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اس حال میں کہ وہ نماز ادا کررہے تھے تو آپ علیہ السلام نے انہیں سلام کی لیکن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ انہوں نے سلام پہیر لی پہر نبی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور سلام کی آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا پہر فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے سلام کے جواب سے روکا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ]. الحدیث۔[الآداب الشرعية لابن مفلھ421/1]۔
ابن عبد القوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کا جواز موجود ہے کہ حالت نماز میں سلام کا جواب دیاجا سکتا ہے۔[ مجمع البحرين]۔
اسے ثابت ہوا کہ جب کوئی مسلمان بھائی اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرے تو اسے چاھئے کہ وہ اس سے سلام کا جواب دے کیونکہ جمہور اہل علم نے سلام کے جواب کو واجب ، فرض قرار دیا ہے اسلئے ہر مسلمان کو چاھئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے سلام کا جواب دے بصورت دیگر وہ گنہگار ہوگا
اسی طرح موجودہ دور میں بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر سلام کرتے ہیں تو ان موجودہ وسائل پر بھی سلام کا جواب دینا چاھئے اب اگر کوئی مشغول ہے تو اگر اسوقت جواب نہ دے سکے لیکن وقت میسر ہوتے ہی سلام کا جواب دینا چاھئے
سلام کا جواب نہ دینا کبر اور ریا کی علامت ہے۔
اسلئے ہر مسلمان کو چاھئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی سلام کا جواب ضرور دے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
دليل: نبی علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور سوال کیا کہ کونسا عمل بہتر ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تو کسی کو کھانا کھلائے اور کسی کو سلام کرے چاھئے تو اسکو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔[بخاری ومسلم]۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تو ہر اس شخص کو سلام کرے جس سے تو ملاقات کرے یہ ضروری نہیں کہ آپ اسے جانتے ہوں جیساکہ آج کل اکثر لوگ کرتے ہیں۔[شرح مسلم].
اسے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان کو چاھئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی چاھئے وہ اسے جانتا ہو یا اسے نہ جانتا ہو اسے ملتے وقت سلام کرے جیساکہ اوپر کی حدیث معلوم ہوا۔
اور سلام کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔
جمہور اہل علم کے نزدیک سلام کا جواب دینا واجب ہے اور سلام کرنا سنت نبوی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلام کا جواب دینا اجماعا فرض ہے۔[المجموع]۔
کیونکہ قرآن وحدیث میں سلام کے جواب دینے کا حکم موجود ہے جیساکہ قرآن کی سورہ نساء آیت نمبر86 میں سلام کے کے جواب دینے کا حکم موجود ہے اور اسے ثابت ہوا کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے اسلئے کہ یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے جو اسے وجوب سے سنت یا مستحب کی طرف پہیردے۔
ثابت ہوا کہ سلام کا جواب دینا واجب اور ضروری ہے اور جو شخص وجوب کو ترک کردے وہ گنہگار ہوگا۔
امام ابن مفلح رحمہ اللہ نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اس حال میں کہ وہ نماز ادا کررہے تھے تو آپ علیہ السلام نے انہیں سلام کی لیکن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ انہوں نے سلام پہیر لی پہر نبی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور سلام کی آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا پہر فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے سلام کے جواب سے روکا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ]. الحدیث۔[الآداب الشرعية لابن مفلھ421/1]۔
ابن عبد القوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کا جواز موجود ہے کہ حالت نماز میں سلام کا جواب دیاجا سکتا ہے۔[ مجمع البحرين]۔
اسے ثابت ہوا کہ جب کوئی مسلمان بھائی اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرے تو اسے چاھئے کہ وہ اس سے سلام کا جواب دے کیونکہ جمہور اہل علم نے سلام کے جواب کو واجب ، فرض قرار دیا ہے اسلئے ہر مسلمان کو چاھئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے سلام کا جواب دے بصورت دیگر وہ گنہگار ہوگا
اسی طرح موجودہ دور میں بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر سلام کرتے ہیں تو ان موجودہ وسائل پر بھی سلام کا جواب دینا چاھئے اب اگر کوئی مشغول ہے تو اگر اسوقت جواب نہ دے سکے لیکن وقت میسر ہوتے ہی سلام کا جواب دینا چاھئے
سلام کا جواب نہ دینا کبر اور ریا کی علامت ہے۔
اسلئے ہر مسلمان کو چاھئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی سلام کا جواب ضرور دے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
No comments:
Post a Comment