السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.
.
محترم ایک سوال ھے.. کیا کسی عام عالم کے ساتھ علامہ لکھنا غلو میں آتا ہے؟ سائل: محمد امین سلفی۔
الجواب بعون رب العباد:
************************
کتبہ:ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
************************
حامدا ومصليا أما بعد!
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
اس طرح کے الفاظ والقاب استعمال کرنے اجتناب ہی کرنا چاھئے خاص کر اس شخص کے لئے جو شخص صاحب علم نہ یا اسے معمولی سا علم ہو ایسے شخص کے لئے علامہ فضيلة الشيخ علامة العصر والدهر جیسے القاب استعمال کرنا واقعی غلو اور زیادتی ہے۔
اور اسلام نے ہمیں غلو کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔
کسی خطیب یا کسی چھوٹے عالم کے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے میں واقعی میں غلو ہے بلکہ یہ کوئی امانت داری نہیں کہ ہم کسی معمولی عالم یا کسی خطیب یا امام مسجد کو علامہ جیسے الفاظ سے پکاریں اسلئے کہ اگر کسی شخص کو اس طرح کے القاب سے پکارنے سے لوگ اسے بہت ہی بڑا صاحب علم بن بیٹھتے ہیں اور لوگ اصل علماء کو چھوڑ کر اسے صاحب علم سمجھتے ہوئے اسے علامہ کا درجہ دیتے ہیں
اور یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ بعض اوقات لوگ اسے متقن علماء کو اسکے مقابلے میں کچھ نہیں سمجھتے۔
جیساکہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ظلم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وضع شيء في غير محله.
یعنی کسی چیز کو اس جگہ رکھنا جو اسکی اپنی جگہ نہیں اسے ظلم کہتے ہیں
تو کسی معمولی چھوٹے عالم یا کسی خطیب کے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے میں غلو اور ظلم ہے۔
بلکہ بہت سے کبار علماء بھی اپنے آپ کے لئے اس طرح کے الفاظ ، القاب استعمال کرنے سے سختی سے منع کرتے ہیں۔
ناچیز چند سال قبل ریاض سعودی عرب میں فضيلة الشيخ دكتور صالح فوزان کے درس میں بیٹھا ہوا تھا کہ درس کے آخر میں سوالات وجوابات کے سلسلہ چل رہا تھا کہ ایک جامعہ کے طالب علم نے شیخ سے سوال کرتے ہوئے لفظ علامہ کا استعمال کرتے ہوئے سوال کیا ، شیخ حفظہ اللہ نے جب یہ لفظ سنا تو بہت ہی غصہ ہوئے اور اس طرح کے الفاظ انکے لئے استعمال کرنے سے منع فرمایا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شرعی علوم کے علماء میں کتنا تواضع ہوتا ہے اور ہونا چاھئے۔
شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے بھی کسی نے لفظ شیخ استعمال کرنے کے بارے سوال کیا تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ
لفظ شیخ کسی بڑے عمر والے یا کسی صاحب علم کے لئے استعمال کرسکتے ہیں
لیکن اگر کسی ایسے شخص کے لئے اس لفظ کو استعمال کیا جائے جو جاھل ہو تو اسے لوگوں کو دھوکہ لگ سکتا ہے کہ لوگ اسے صاحب علم سمجھ بیٹھیں اور اسے دینی مسائل پوچھنے بیٹھ جائیں ، لھذا اس طرح کے الفاظ کسی عام شخص یا کسی جاھل کے لئے استعمال کرنے مناسب نہیں ہیں اسے کافی نقصانات ہیں۔[درس الشیخ الالبانی رحمہ اللہ]۔
شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ نے بھی یہی جواب دیا ہے۔[قاءات الباب المفتوح117]۔
عالم کس شخص کو کہا جاتا ہے؟
عالم دین اس شخص کو کہا جاتا ہے جس شخص کا مشغلہ علم دین ہو
وہ قرآن وسنت کے احکام ، قواعد اللغة العربية[عربی زبان کے قواعد] ، سلف صالحین کے منہج کو جانتا ہو۔
علماء نے عالم کے ہونے کے لئے کچھ شرائط بیان کئے ہیں:
امام شوکانی رحمہ اللہ نے عالم کے پانچ شرائط بیان کئے ہیں:
نمبرایک:کتاب وسنت کے نصوص کا علم ہو۔
نمبردو:مسائل اجماع کو جاننے والا ہو۔
نمبر تین:عربی زبان پر اسے مہارت حاصل ہو۔
نمبرچار:اصول فقہ کے قواعد وغیرہ کو جاننے والا ہو۔
نمبر پانچ:اسے ناسخ ومنسوخ کا علم ہو۔[إرشاد الفحول جلد2/ص نمبر:297 ، 303]۔
جس شخص کے اندر یہ صفات موجود ہوں اسکے لئے شیخ کا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سلف صالحین میں سے بہت سے علماء اپنے بڑے علماء کے لئے شیخ یا شیخ السلام کا لقب استعمال کیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوبکر وعمر کے بارے میں فرمایا( ا - : إماما الهدى وشيخا الإسلام)۔[ ذكره المحب الطبري في (الرياض النضرة بلا استاد].
کہ ابوبکر وعمر ائمہ ھدی اور شیخ الاسلام ہیں۔
امام ذھبی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کے لئے شیخ الاسلام استعمال کیا ہے۔[سير أعلام النبلاء204/3].
بہر حال علامہ کا لفظ اس شخص کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جو وقت کے علماء میں علم شرع میں سب سے زیادہ صاحب علم ،علم شرع میں ماہر اور زیادہ علم رکھنے والا ہو ، اور تقریبا اسکے مقابلے میں کوئی اور موجود نہ ہو۔
علامہ لفظ خاص ہے اور شیخ علامہ کے مقابلے میں عام لفظ ہے۔
لھذا علماء کو شیخ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے
لیکن یاد رہے وہ صاحب علم شریعت کے قواعد عربی زبان جاننے والا اصول وغیرہ جانتا ہو۔
لیکن علامہ عام کسی عالم کو کہنا صحیح اور مناسب نہیں ہے بلکہ علماء اجلاء وغیرہ ان جیسے القاب کے استعمال سے منع کرتے ہیں کیونکہ ہر کسی عالم کے لئے علامہ جیسے القاب کا استعمال کرنا غلو سے خالی نہیں ہے۔
شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ اہک درس میں فرماتے ہیں کہ آج کل لوگ بہت سے خطباء وواعظین کو اہل علم سمجھ بیٹھے ہیں یہ بات بہت ہی افسوس ناک ہے۔
یہ ضروری بات نہیں کہ عالم دین فصیح اللسان اور بہت ہی زبردست بولنے والا ہو۔
خلاصہ کلام: عہد نبوی میں شیخ ، علامہ جیسے القاب کا کوئی رواج نہ تھا البتہ بعض صحابہ کے بارے میں شیخ وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے لیکن اس وقت یہ الفاظ عام نہ تھے۔
یہ الفاظ محدثین کے زمانے سے مشہور اور استعمال ہوئے
لیکن سلف صالحین نے ان القاب کو صرف اہل علم کے لئے ہی استعمال کئے گئے ہیں
عام آدمی ، خطیب اور واعظ وداعی کے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کا کوئی ثبوت سلف سے نہیں ملتا لھذا ہر کسی شخص کے لئے علامہ یا شیخ کا استعمال کرنا جائز نہیں
اور شیخ دو لوگوں کے لئے استعمال کرنا جائز ہے
ایک اگر کوئی بوڑھا بزرگ ہو اسکے لئے اسکا استعمال کرنا جائز ہے۔
اسی طرح صاحب علم شخص کے لئے بھی لفظ شیخ استعمال کرنا جائز ہے انکے علاوہ باقی عام لوگوں کے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے جائز نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
No comments:
Post a Comment